حسین بن علی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے اپنے دل میں(دھواں)کا تصور کیا اور اس سے سوال کیا کہ دل میں کس چیں کا ارادہ کیا ہے؟ اس نے کہا : دخ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چل دور ہو، تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو پوچھا کہ اس نے کیا کہا: کسی نے کہا کہ اس نے دخ کہا تھا، اور کسی نے کہا کہ اس نے رخ کہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ہوتے ہوئے تم اختلاف میں پڑگئے ہو، اور میرے بعد تو تم شدید ترین اختلاف میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
سمرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں تمہیں کوئی حدیث بیان کروں تو اس میں اضافہ مت کیا کرو اور فرمایا: چار عمدہ کلمات ہیں،اور یہ قرآن سے ہیں،جس سے بھی شروع کرو تمہیں نقصان نہیں دیں گے۔ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِهِع وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، پھر فرمایا:اپنے بچے کا نام افلح (کامیاب ترین)نجیح( کامیاب)،رباح(نفع مند)اور یسار(آسان )نہ رکھو۔ (کیوں کہ تم کہو گے کیا (افلح یا نجیح) وہاں موجود ہے؟ اگر وہاں موجود نہیں ہوگا تو (جواب دینے والا) کہے گا: نہیں)۔
ابو حمیداورابو اسید سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میرے بارے میں کوئی بات سنو جس سے تمہارے دل مانوس ہو ں اور تمہارے رونگٹے اور جسم ڈھیلے پڑ جائیں (یعنی تمہیں اطمینان ہو جائے)اور تم سمجھو کہ یہ بات تم سے قریب ہے تو میں تم سے زیادہ اس کے قریب ہوں، اور جب تم میرے بارے میں کوئی بات سنو، جس سے تمہارے دل ناما نوس ہوں،تمہارے رونگٹے اور جسم تن جائیں اور تم سمجھو کہ یہ تم سے بعید ہے تو میں تم سے زیادہ اس سے دور ہوں۔
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن شام سے مدینے کی طرف نکلا، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا: تم نے اپنے موزےپاؤں میں کب داخل کئے تھے؟ میں نے کہا: جمعہ کے دن، انہوں نے کہا: کیا تم نے انہیں اتارا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: تم نے سنت پر عمل کیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بادل ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہاتھوں میں اسے بھر رہے ہیں کچھ زیادہ لینے والے تھے اور کچھ کم، اچانک آسمان سے زمین تک ایک سیڑھی نظر آئی، میں نے آپ کو دیکھا آپ نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے۔ پھر ایک دوسرے شخص نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گیا۔ پھر ایک اور شخص نے اسےپکڑا اور اوپر چڑھ گیا، پھر ایک اور شخص نے پکڑا لیکن وہ سیڑھی ٹوٹ گئی، پھر وہ جوڑی گئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! واللہ آپ مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے تعبیر بیان کرو) ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بادل کا ٹکڑا اسلام ہے، اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا ہے وہ قرآن اور اس کی مٹھاس ہے، کوئی قرآن سے زیادہ حاصل کر رہا ہے اور کوئی کم، آسمان سے زمین کی طرف معلق سیڑھی حق ہے جس پر آپ ہیں آپ اسے پکڑے رہیں گے،اور اللہ تعالیٰ آپ کو اٹھالے گا، پرک ایک اور شخص پکڑے گا اور اوپر چڑھ جائے گا، پھر ایک اور شخص اس حق کو تھامے گا اور اوپر چڑھ جائے گا، پھر ایک اور شخص پکڑے گا تو سیڑھی ٹوٹ جائے گی، پھر سیڑھی جو ڑ دی جائے گی اور وہ اوپر چڑھ جائے گا۔ اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! مجھے بتائیے کیا میں نے درست تعبیر بیان کی ہے یا غلط؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ صحیح کچھ غلط۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کونسی غلطی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم مت کھاؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے اکثر منافق قراء(قاری) ہوں گے۔ یہ حدیث عبداللہ بن عمرو، عقبۃ بن عامر، عبداللہ بن عباس اور عصمۃ بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو حکم دیتے تو ان اعمال کا حکم دیتے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادیئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجاتے حتی کہ غصے کی علامات آپ کے چہرے پر نظر آنے لگتیں، پھر فرماتے: میں تم سے زیادہ متقی اور اللہ کے بارے میں جاننے والا ہوں
ابو عثمان نہدی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس موجودتھا وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے انہوں نے اپنے خطبے میں مرفوعاً ذکر کیا: مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف ،ہر چرب زبان منافق کا ہے۔
طلحہ بن مصرف سے مرفوعاً مروی ہے کہ :میں آخری زمانے میں اپنی امت کے بارے تین چیزوں سے ڈرتا ہوں، ستاروں پر ایمان لانے سے، تقدیر جھٹلانے سے اور بادشاہ کے ظلم و ستم سے
عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(مسلمانوں میں) سب سے عظیم مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو حرام نہیں تھی(اس نے اس میں چھان بین شروع کردی)اورپھر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ سے جھوٹ منسوب کرتا ہے اس کے لئے جہنم میں ایک گھر بنایا جائے گا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: اس امت کا معاملہ اس وقت تک درست رہے گا جب تک یہ اولاد اور تقدیر کے بارے میں شک کرنے سے بچے رہیں گے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ:اسلام کے لئے ایک حرص ہوتی ہے اور ہر حرص کے لئے ایک وقفہ ہوتا ہےاگر اس دور کا حکمران سیدھا رہے اور درست رہے تو اس سے(خیر کی)امید رکھو،اور اگر اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں تو اس سے(خیر کی)امید مت رکھو۔
حرام بن حکیم اپنے چچا عبداللہ بن سعد سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تم )ایسے زمانے میں ہو جس میں فقہاء زیادہ ہیں، خطباء کم ہیں، سوال کرنے والےکم دینے والے زیادہ ہیں، اس وقت عمل علم سے بہتر ہے اور عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جس میں فقہاء کم ہوں گے، خطباء زیادہ ہوں گے،سوال کرنے والے زیادہ ہوں گے دینے والے کم ہوں گے،اس وقت علم عمل سے بہتر ہوگا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: علم سیکھنے سے ہے اور حلم بردباری کوشش کرنے سے ہے، اور جو شخص خیر کی کوشش کرتا ہے اسے خیر دے دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے شر سے بچالیا جاتا ہے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: صاحب قرآن کی مثال بندے ہوئے اونٹ کے مالک کی طرح ہے اگر اس کا خیال رکھے گا تو اسے قابو میں رکھے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا، آپ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک آیت کے بارے میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ،آپ کے چہرے سےغصہ جھلک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے والے لوگ اپنی کتاب میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا، کیا دیکھتا ہوں کہ عبداللہ بن عمر و بن عاص کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہیں اور لوگ آپ کے گرد جمع ہیں۔ میں ان کے پاس آیا اور عبداللہ بن عمرو کے قریب بیٹھ گیا انہوں نے کہا: ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نےایک جگہ پڑاؤ ڈالاتو کوئی اپنا خیمہ درست کرنے لگا کوئی تیر اندازی کرنے لگااور کوئی جانوروں میں مشغول ہوگیا اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا: الصلاۃ جامعۃ(نماز کے لئے جمع ہو جاؤ)ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے جو نبی بھی گذرا اس کی ذمہ داری تھی کہ اپنی امت کے لئے جو بات بہتر ہوتی اس کی طرف راہنمائی کرے اور جو ان کے لئے نقصان دہ شر ہوتا اس سے ان کو ڈرائے، تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی لوگوں میں ہے۔ اور بعد میں آنے والے آزمائش اور ایسے معاملات میں پھنس جائیں گے جنہیں تم عجیب سمجھو گے ایک فتنہ آئے گا اس کے مراحل ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوں گے پھر ایک اور فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا: یہ مجھے ہلاک کرنے والا ہے۔پھر وہ ختم ہو جائے گا اس کے بعد ایک اور فتنہ آئے گا،مومن کہے گا: یہی ہے یہی ہے۔ جو شخص پسند کرتا ہو کہ آگ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے تو اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھنے والا ہواور لوگوں سے وہی طرز عمل اپنائے جو وہ خود اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور جس شخص نے کسی امیر کی بیعت کی اسے اپنا ہاتھ اور دل کی فرمانبرداری دے دی تو جتنی اس میں استطاعت ہو اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امیر آکر اس سے امارت چھیننے کی کوشش کرے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔ اور اس حدیث کے آخر میں ابن عبدرب الکعبہ نے اضافہ کیا: کہ میں ان کے قریب ہوا اور ان سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور اپنےدل پر دونوں ہاتھ رکھے اور کہنے لگے: میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے محفوظ کیا، میں نے ان سے کہا: یہ آپ کے چچا کا بیٹا معاویہرضی اللہ عنہ ہے ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے کھائیں، اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(النساء:۲۹) ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، سوائے آپس میں رضامندی سے تجارت کے ذریعے اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔وہ ایک لمحہ خاموش رہے، پھر کہنے لگے: اللہ کی فرمانبرداری والے کام میں اس کی(یعنی معاویہرضی اللہ عنہ کی )اطاعت کرو اور اللہ کے نافرمانی والے کام میں اس کی(یعنی معاویہرضی اللہ عنہ کی )نافرمانی کرو ۔
ابو واقد لیثیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس طرح کا معاملہ اختیار کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ چٹائی کی طرف لائے اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور فرمایا: تم اس طرح کرنا۔ اور ایک دن ان سے ذکر کیا، عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا۔ اکثر لوگوں نے آپ کی بات نہیں سنی ۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم سن نہیں رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟صحابہ نے کہا:آپ نے کیا فرمایا؟ معاذرضی اللہ عنہ نے کہا: عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا،صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول!اس وقت ہمارے لئے کیا حکم ہے یا ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اپنے پہلے معاملے(دین،یا امیر)کی طرف لوٹ آنا۔
ابو واقد لیثیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس طرح کا معاملہ اختیار کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ چٹائی کی طرف لائے اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور فرمایا: تم اس طرح کرنا۔ اور ایک دن ان سے ذکر کیا، عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا۔ اکثر لوگوں نے آپ کی بات نہیں سنی ۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم سن نہیں رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟صحابہ نے کہا:آپ نے کیا فرمایا؟ معاذرضی اللہ عنہ نے کہا: عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا،صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول!اس وقت ہمارے لئے کیا حکم ہے یا ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اپنے پہلے معاملے(دین،یا امیر)کی طرف لوٹ آنا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہوں اور اپنے بستر پر ایک کھجور دیکھتا ہوں، اسے کھانے کے لئے اٹھانےلگتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کہ کہیں یہ صدقے کی نہ ہو، تو اسے چھوڑ دیتا ہوں یا رکھ دیتا ہوں۔
مقدام بن معدی کرب کندی سے مرفوعاً مروی ہے کہ: مجھے کتاب اور اس کے برابر (یعنی حدیث)دی گئی ہے۔ عنقریب کوئی پیٹ بھرا ہوا شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اورکہے :ہمارے مابین یہ کتاب ہے، اس میں جو حلال ہوگا اسے حلال سمجھیں گے اور(اس میں)جو حرام ہوگا اسے حرام سمجھیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ خبردار درندوں میں ہر کچلی والا حرام ہے،گھریلو گدھا،ذمی کا گرا ہوا مال، سوائے اس صورت میں کہ وہ اس سے بے پرواہ ہو، حرام ہے،اور جو آدمی کسی قوم کا مہمان بنا اور انہوں نے اس کی ضیافت نہیں کی تو اس کا حق ہے کہ اپنی ضیافت کے برابر ان سے بدلہ لے۔
ابو قتادہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، جو شخص میرے بارے میں بات کرے تو وہ صرف حق یا سچ کہے۔ جس شخص نے میرے بارے میں ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنالے۔
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو ایک چٹان پر کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک کونے کی طرف آئے، کچھ دیر ٹھہرے رہے، پھر واپس آئے تو اسی شخص کو دیکھا تو وہ اسی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ کھڑے ہوگئے اور اپنے دونوں ہاتھ جمع کئے پھر فرمایا: لوگو! میانہ روی اختیار کرو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اکتائے گا تم (عمل سے) اکتا جاؤ گے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ میری امت میرے پاس حوضِ کوثر پر آئے گی میں لوگوں کو اس طرح ہٹاؤں گا جس طرح کوئی شخص اپنے اونٹوں سےکسی دوسرے شخص کے اونٹوں کو ہٹاتا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:ہاں تمہاری ایک خاص نشانی ہوگی جو کسی دوسرے میں نہیں ہوگی۔ تم وضو کے نشانات کی وجہ سے چمکتے ہوئےاعضاء کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سے ایک گروہ میرے پاس آنے سے روک لیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی(پیروکار) ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیسے کیسے نئے کام ایجاد کئے؟
خارجہ بن زید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے آئے تو مجھے آپ کے پاس لایا گیا۔ میں نے آپ کے سامنے کچھ پڑھا۔ آپ نے مجھے فرمایا: یہودیوں کی کتاب(خط و کتابت) سیکھو، کیوں کہ مجھے ان کی طرف سے اپنی کتاب کے بارے میں اطمینان نہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ابھی پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ میں نے ان کی کتاب (خط و کتابت) سیکھ لی۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لکھا کرتا،اور آپ کی طرف آنے والے ان کے خطوط پڑھا کرتا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اپنے نسب میں سے ایسی باتیں سیکھو جن کے ذریعے تم صلہ رحمی کر سکو، کیوں کہ صلہ رحمی گھر والوں میں محبت کا باعث ہے مال میں اضافے اور عمر میں برکت کا سبب ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن سیکھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے جنت کا سوال کرو، اس سے قبل کہ اس قرآن کو ایسے لوگ سیکھیں جو اس کے ذریعے دنیا طلب کریں۔ کیوں کہ قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں۔ وہ شخص جو اس کے ذریعے فخر کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جو اس کے ذریعے (لوگوں کے اموال ناحق) کھاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو اسے اللہ کے لئے پڑھتا ہے (اورپڑھاتا ہے)۔