انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: بیت المعمور ساتویں آسمان پر ہے، ہر دن اس میں ایک ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو قیامت تک اس میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکیں گے
طاؤس رحمۃ اللہ علیہ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ : عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی حجت اللہ تعالیٰ سے سیکھی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اس قول میں حجت سکھا دی:جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے علاوہ معبود بنالو؟ پھر باقی حدیث مرفوعا بیان کی، ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو سکھائے گا : تو پاک ہے، میرے لئے جائز ہی نہیں کہ جس بات کا مجھے حق نہیں میں وہ بات کہوں اگر میں نے کہا ہے تو تو اسے جانتا ہے۔ تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور تیرے نفس میں جو کچھ ہے میں اسے نہیں جانتا۔ بے شک تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہم آپ سے کچھ سوالات پوچھیں گے ،اگر آپ نے ہمیں جواب دے دیا تو ہم آپ کی پیروی کریں گے آپ کی تصدیق کریں گے ،اور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔آپ نے ان سے وہی وعدہ کیا جو اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) نے خود سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا:(جو ہم کہہ رہے ہیں اللہ اس کا نگران ہے) یہودیوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتایئے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں سوتا۔ انہوں نے کہا: ہمیں بتایئے کہ بچہ کس طرح مؤنث بنتا ہے اور کس طرح مذکر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں پانی ملتے ہیں اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو بچہ مونث ہوتا ہے اور اگر مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچہ مذکر بنتا ہے۔ یہودیوں نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ ہمیں رعد کے بارے میں بتایئے کہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رعد ایک فرشتہ ہے جو بادلوں کا نگران ہے( اس کے ہاتھوں میں یا اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑاہے، جس سے وہ بادلوں کو جھڑکتا ہے) اور وہ آواز جو سنی جاتی ہے وہ اس کا بادلوں کو ڈانٹنا ہے حتی کہ وہ بادل کو ڈانٹتا ہوا مقررہ جگہ پر لے جاتا ہے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل سے (روایات) بیان کرو اور کوئی حرج نہیں ،کیوں کہ ان میں عجیب واقعات ہوا کرتے تھے۔ پھر واقعہ بیان کرنے لگے: بنی اسرائیل کا ایک گروہ باہر نکلا اور اپنے کسی قبرستان میں آگئے۔ کہنے لگے: اگر ہم دو رکعت نماز پڑھیں اور اللہ عزوجل سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے کوئی مردہ باہر نکالے جس سے ہم موت کے بارے میں سوال کر سکیں ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا وہ اسی کیفیت میں تھے، اچانک ایک قبر سے آدمی نے اپنا سر نکالا، سر مئی سے رنگ کا تھا۔ پیشانی پر سجدوں کا نشان تھا، کہنے لگا: اے لوگو! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ مجھے مرے ہوئے سو سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک موت کی حرارت ختم نہیں ہوئی حتی کہ یہ وقت آگیا ہے۔ اللہ سے دعا کرو کہ میں جس حال میں تھا، مجھے اسی میں واپس لوٹا دے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپ جنوں کی مسخ شدہ صورتیں ہیں، جس طرح بنی اسرائیل کو بندروں اور خنزیروں کی صورت میں تبدیل کیا گیا
ابو درداءرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، تو ان کے دائیں کاندھے پر ضرب لگائی اور سفید اولاد نکالی جو کہ چھوٹی چیونٹیوں کی مانند تھے۔ اور بائیں کاندھے پر ضرب لگائی تو اس سے سیاہ اولاد نکالی گویا کہ کوئلے ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے دائیں طرف والوں کے لئےکہا: جنت کی طرف اور مجھے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں، اور بائیں طرف والوں کے لئے کہا: جہنم کی طرف اور مجھے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو سلام کہو جو بیٹھے ہوئے ہیں اور غور سے سننا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔کیوں کہ یہ تمہارا سلام اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم ، فرشتوں نے کہا: السلام علیک ورحمۃ اللہ ۔انہوں نے ورحمۃ اللہ زیادہ کیا۔ جو شخص جنت میں داخل ہوگا آدم کی صورت پر ہوگا اس وقت سے اب تک مخلوق (قد میں) کم ہوتی آرہی ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میر ا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن مٹی پیدا کی، اتوار کے دن اس میں پہاڑ گاڑے، پیر کے دن درخت اگائے ،کام کاج کی چیزیں (لوہا وغیرہ) منگل کے دن پیدا کی، روشنی بدھ کے دن پیدا کی، اور جمعرات کے دن اس میں جانور پھیلا دیئے اور آدم علیہ السلام کو عصر کے بعد جمعے کے دن مخلوقات کے آخر میں پیدا کیا، عصر سے لے کر رات کے درمیان والی جمعے کی آخری گھڑی میں
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور ابلیس سموم(گرم ہوا ) کی آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم علیہ السلام اس چیز سے جو تمہیں بتا دی گئی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک حبشی مدینے میں دفن کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس مٹی میں دفن کیا گیا ہے جس سے پیدا کیا گیا تھا
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے مخلوق میں سب سے بہتر انسان !تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا: وہ ابراہیم علیہ السلام تھے
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: میں نے معراج کی رات کچھ آدمی دیکھے جن کی باچھیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں، میں نے کہا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ کی امت کے خطیب، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے لیکن خود کو بھول جاتے حالانکہ یہ کتاب اللہ پڑھتے تھے کیا یہ عقل نہیں رکھتے تھے؟
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: میرے لئے ساتویں آسمان میں سدرة المنتہی کو بلند کیا گیا اس کا بیر ہجر کے مٹکوں کی طرح تھا اور اس کا پتہ ہاتھی کے کان کی طرح۔ اس کے تنے سے دو ظاہر اور دو باطن نہریں نکلتی ہیں میں نے جبریل سے پوچھا: اے جبریل !یہ دونوں کس طرح کی ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: باطن تو جنت میں ہیں جب کہ ظاہر نیل اور فرات ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نےجبریل علیہ السلام سے سوال کیا: موسیٰ علیہ السلام نے دونوں میں سے کونسی مدت پوری کی؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: اکمل اور اتم مدت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ: میں اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کے صبر اور کرم کو دیکھ کر بہت متعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ جب ان کی طرف خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے دو آدمی بھیجے گئے اگر میں ہوتا تو اس وقت تک نہ بتاتا جب تک مجھے باہر نہ نکال دیا جاتا۔ اور مجھے ان کے صبر اور کرم کی وجہ سے پھر تعجب ہوا اللہ انہیں معاف فرمائے۔ انہیں باہر نکالا جانے لگا تو اس وقت تک نہ نکلے جب تک انہیں اپنا عذر نہ بتادیا ۔اگر میں ہوتا تو میں دروازے کی طرف جلدی کرتا ۔اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی مدد سے جیل سے باہر آنا چاہ رہے تھے جبکہ انہوں نے کہا کہ: ‘‘اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا۔’’ تو وہ جیل میں (اتنی دیر) نہ رہتے
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے فرمایا: میں نے کبھی بھی میکائیل کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، جبریل نے کہا: جب سے جہنم پیدا کی گئی ہے میکائیل ہنسے نہیں ہیں
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: سب سے پہلا شخص جس نے مہمانوں کی ضیافت کی ابراہیم علیہ السلام تھے، وہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اسی (۸۰) سال کی عمر میں (بڑھئی کے) تیشے سے یا قدوم مقام پر سے ختنہ کیا ۔
عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی بیوی کو دوسری بیوی پر ہمارے پاس ٹھہرنے میں فضیلت (ترجیح) نہیں دیتے تھے۔ کم ہی کوئی دن ہوتا کہ وہ ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں۔ وہ ہر بیوی کے قریب ہوتے حتی کہ اس تک پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب بوڑھی ہوگئیں اور اس بات سے ڈرنے لگیں کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ نہ دیں تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا دن عائشہ کے لئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول کر لی، اسی بارے میں اور ان جیسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،میرے خیال میں فرمایا: (النساء:۱۲۸) ترجمہ:اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بے پرواہی یا بے رغبتی کا خوف ہو۔
ابو سعیدخدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک چھوٹے قد کی عورت تھی، اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں بنائیں ،پھر وہ دو چھوٹے قد کی عورتوں کے درمیان چلتی تھی اس نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اور اس کے نگینے کے نیچے بہترین خوشبو کستوری رکھی۔ پھر جب وہ کسی مجلس کے پاس سے گزرتی تو انگوٹھی کو حرکت دیتی جس سے خوشبو پھوٹتی اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے نگینے کا ڈھکن تھا، پھر جب وہ کسی مجلس کے پاس سے گزرتی تو اسے کھول دیتی جس سے خوشبو پھوٹ پڑتی
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی زخمی ہوگیا اور زخم کی تکلیف سے پریشان ہو کر اس نے چھری لی اور اپنا بازو کاٹ دیا اس کا خون بند نہیں ہوا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بندے نے اپنے متعلق مجھ سے پہلے فیصلہ کر لیا اس لئے میں نے اس پر جنت حرام کر دی
عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کا ابتدائی معاملہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری رضاعی والدہ بنی سعد بن بکر سے تھی، میں اور اس کا بیٹا ریوڑ چراتے ہوئے نکلے، ہم نے اپنے ساتھ کھانا نہیں لیا تھا۔ میں نے کہا: بھائی جان! جاؤ،امی جان سے کھانا لے آؤ۔ میرا بھائی چلا گیا اور میں ریوڑ کے پاس ٹھہر گیا دو سفید پرندے اڑتے ہوئے آئے گویا کہ وہ ستارے ہوں، ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہی وہ بچہ ہے؟ دوسرے نے کہا: ہاں، وہ دونوں جلدی جلدی میری طرف آئےاور مجھے پکڑ لیا، اور گدی کے بل زمین پر لٹا دیا۔ دونوں نے میرا پیٹ چیر کر میرا دل نکال لیا ،پھر دل کو چیرا اور اس سے دو سیاہ ٹکڑے نکالے ایک نے دوسرے سے کہا: برف کا پانی دو۔ پھر اس نے میرا پیٹ دھویا، پھر کہا: مجھے اولوں کا پانی دو۔ پھر اس سے میرا دل دھویا، پھر کہا: میرے پاس سکینت لاؤ۔پھر اسے میرے دل میں اتارا اور ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا۔ اسے سی دو (ٹانکے لگادو)اس نے سی دیا اور نبوت کی مہر لگا دی۔پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اسے ایک پڑیے میں رکھو ، اور اس کی امت کے ایک ہزار لوگ دوسرے پلڑے میں رکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے اوپر ایک ہزار آدمی دیکھنے لگا اور ڈر رہا تھا کہ ان میں سے کوئی میرے اوپر نہ گر جائے ۔اس نے کہا؛ اگر اس کی تمام امت کا وزن اس سے کیا جائے تب بھی یہ ان پر بھاری رہے گا۔ پھر وہ دونوں چلے گئے اور مجھے چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بری طرح ڈر گیا، پھر اپنی ماں کے پاس آیا۔ اور جو میرے ساتھ ہوا تھا انہیں بتایا۔ انہیں ڈر ہوا کہ کہیں میری عقل میں کچھ خلل نہ آگیا ہو۔ کہنے لگیں: میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ پھر اپنے اونٹ پر کجاوہ کسا اور مجھے کجاوے پر بٹھا کر میرے پیچھے سوار ہو گئیں حتی کہ ہم امی جان کے پاس آگئے ۔کہنے لگیں:کیا میں نے اپنی امانت اور اپنا ذمہ ادا کردیا ہے ، اور انہیں میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بیان کیا۔ وہ اس بات سے خوفزدہ نہیں ہوئیں اور کہنے لگیں: (حمل کے دوران) میں نے ایک نور (روشنی) دیکھا جو میرے اندر سے نکل رہا تھا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔