Blog
Books
Search Hadith

ابتدائی ایام ،انبیاء اور عجیب مخلوقات کا بیان

128 Hadiths Found

) عَنْ رَبِيْعَة بْن عمَيْلَة قَالَ : ثَناَ عَبْدُاللهِ مَا سَمِعْنَا حَدِيْثاً هُوَ أَحْسَن مِنْه إِلاَّ كِتَابَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ وَرِوَايَة عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْل لمَا طَالَ الأَمَد وَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ اخْتَرَعُوا كِتَاباً مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ، اسْتَهْوَتْه قُلُوْبُهُمْ وَاسْتَحَلَّته أَلْسِنَتَهُمْ وَكَانَ الحَقُّ يَحُوْلُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَثِيْر مِّنْ شَهَوَاتِهِمْ حَتَّى نَبذُوا كِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُوْرِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن فَقَالُوا : (الأَصْل: فَقَالَ) اعرِضُوا هَذاَ الْكِتَاب عَلى بَنِي إِسْرائِيْل فَإِنْ تَابعُوْكُمْ عَلَيْهِ فَاتْرُكُوْهُمْ وَإِنْ خَالَفُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ . قَالَ : لَا بَلِ ابْعَثُوا إِلَى فُلَانٍ - رَجُل مِنْ عُلَمَائِهِمْ - فَإِنْ تَابَعَكُمْ فَلَنْ يَّخْتَلِفَ عَلَيْكُمْ بَعْدَه أَحَدٌ . فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ فَدَعَوْهُ فَأَخَذَ وَرَقَة فَكَتَبَ فِيْهَا كِتَابَ اللهِ ثُمَّ أَدْخَلهَا فِي قَرْنٍ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِه ثُمَّ لَبِسَ عَلَيْهَا الثِّيَاب ثُمَّ أَتَاهُمْ فَعَرَضُوْا عَلَيْهِ الكِتَاب فَقَالُوا : تُؤْمِن بِهَذَا ؟ فَأَشاَرَ إِلَى صَدْرِهِ - يَعْنِي الكِتَابَ الَّذِي فِي القَرْن - فَقَالَ : آمَنْتُ بِهَذَا وَمَا لِي لَا أُوْمِنُ بِهَذَا ؟ فَخَلُّوا سَبِيْلَهُ . قَالَ : وَكَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَّغْشَوْنَهُ فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاة أَتَوْه فَلَمَّا نَزَعُوا ثِيَابَهُ وَجَدُوا القَرْنَ فِي جَوْفِهِ الكِتَاب فَقَالُوا : أَلَا تَرَوْنَ إِلَى قَوْلِهِ : آمَنْتُ بِهَذَا وَمَا لِي لَا أُوْمِنُ بِهَذاَ؟ فَإِنَّماَ عَنَّى بِـ ( هَذاَ) هَذَا الْكِتَاب الَّذِي فِي الْقَرنِ قَالَ : فَاخْتَلَفَ بَنُو إِسْرائِيْل عَلَى بِضْعٍ وَسَبْعِيْن فِرْقَة خَيْر مِلَلهم أَصْحَابُ أَبِي القَرْن

ربیعہ بن عميلة رحمۃ اللہ علیہ سےمروی ہے کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ نے ایک روایت بیان کی، ہم نے اللہ کی کتاب اور نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کی روایت کے علاوہ اس سے اچھی حد یث کوئی نہیں سنی۔ آپ نے فرمایا: بنو اسرائیل پر جب لمبا عرصہ بیت گیا اور ان کے دل سخت ہو گئے تو انہوں نے اپنی طرف سے ایک کتاب لکھی، ان کے دلوں نے اس کام کو ہلکا سمجھا اور ان کی زبانوں کو میٹھی لگی ۔ حق ان کے اور ان کی اکثر خواہشات کے درمیان حائل رہتا تھا۔ حتی کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اس طرح بھلا دیا گویا وہ جانتے ہی نہ ہوں۔ پھر وہ کہنے لگے: یہ کتاب بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرو، اگر وہ اس کتاب پر تمہاری پیروی کریں تو انہیں چھوڑ دو، اور اگر تمہاری مخالفت کریں تو انہیں قتل کر دو، وہ کہنے لگا نہیں بلکہ اسے فلاں ۔ان کا کوئی عالم۔ کی طرف بھیجو اگر وہ تمہاری پیروی کر لے تو اس کے بعد کوئی شخص تمہاری مخالفت نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس عالم کی طرف پیغام بھیج کر اسے بلایا ،اس نے ایک ورق لیا اور اس میں کتاب اللہ (اللہ کی کتاب) لکھی پھر اسے سینگ میں ڈال کر اپنی گردن میں لٹکا لیا۔ پھر اس پر کپڑے پہن لئے ،اور ان کے پاس آگیا۔ ان لوگوں نے وہ کتاب اس کے سامنے پیش کی اور کہنے لگے: کیا تم اس پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ یعنی اس کتاب کی طرف جو سینگ میں رکھی تھی، اور کہا: میں اس پر ایمان لاتا ہو اور مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس پر ایمان نہ لاؤں؟ انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس کے کچھ ساتھی تھے جو اس سے ملنے آیا کرتے تھے ۔جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس کے پاس آئے ۔ جب اس کے کپڑے اتارے تو وہ سینگ دیکھا جس میں کتاب تھی، کہنے لگے: تمہیں اس کی اس بات کا خیال نہیں کہ اس نے کہا تھا: میں اس پر ایمان لایا، اور مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس پر ایمان نہ لاؤں؟ اس کا مقصد یہ کتاب تھی جو اس سینگ میں ہے ،اس وقت سے بنو اسرائیل کی قوم ستر سے زائد فرقوں میں تقسیم ہوگئی، ان کا بہترین فرقہ وہ ہے جو سینگ والے کے ساتھی ہیں۔

Haidth Number: 3114

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌يَقُولُ: إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَّبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ. قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: الْإِبِلُ: أَوْ قَالَ الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَاقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا: الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ: الْبَقَرُ قَالَ: فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا فَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا قَالَ: فَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا قَالَ: فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِّنَ الْإِبِلِ وَلِهَذَا وَادٍ مِّنَ الْبَقَرِ وَلِهَذَا وَادٍ مِّنَ الْغَنَمِ قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ، بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ فَقَالَ: لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا؟ فَأَعْطَاكَ اللهُ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ: وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ: لِهَذَا وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلهِ فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رضِيَ (اللهُ) عَنْكَ وَسخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ.

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے۔ کوڑھی، گنجا اور نابینا، اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانے کا ارادہ کیا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا ،فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کون سی چیز سب سے پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری ختم ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھواتو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے اچھی جلد مل گئی ۔فرشتہ کہنے لگا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟وہ کہنے لگا: اونٹ ۔یا اس نے گائے کہی۔ اسحاق کو شک ہے۔ لیکن کوڑھی یا گنجے میں سے کسی ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کہا تھا۔ اس فرشتے نے اسے حاملہ اونٹنی دے دی اور دعا کی کہ: اللہ تمہارے لئے اس میں برکت کردے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھے بال اور مجھ سے یہ تکلیف دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے حقیر سمجھتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھوا تو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے خوب صورت بال مل گئے، پھر فرشتے نے کہا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟اس نے کہا: گائے ، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور اس کے لئے دعا کی: اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز سب سے پیاری ہے؟وہ کہنے لگا: اللہ مجھے میری بصارت واپس لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں، فرشتے نے اسے چھوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی، پھر فرشتے نے کہا: کونسا مال تمہیں زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: بکری، اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی، اونٹنی اور گائے نے بھی بچے دئے اور اس بکری نے بھی ۔ایک کی اونٹوں کی وادی ہوگئی، دوسرے کی گائے بیل کی وادی ہوگئی اور تیسرے کی بکریوں کی وادی ہوگئی۔ پھر وہ کوڑھی کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا اور کہنے لگا: میں ایک مسکین آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے،آج میں اپنی منزل پر سوائے اللہ، پھر تمہاری مدد کے نہیں پہنچ سکتا۔ میں تمہیں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اچھی جلد اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر بیٹھ کر میں اپنا سفر مکمل کر سکوں۔ وہ کہنے لگا: حقوق بہت زیادہ ہیں۔ فرشتہ اس سے کہنے لگا: شاید میں تمہیں جانتا ہوں، کیا تم کوڑھی نہیں تھے جس سے لوگ گھن کیا کرتے تھے ؟محتاج ،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا؟ وہ کہنے لگا: نہیں مجھے تو یہ مال باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے ۔فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی صورت میں لوٹا دے جس میں تم تھے ۔پھر وہ گنجے کے پاس اسی کی صورت میں آیا اور اسے بھی وہی بات کہی۔ گنجے نے بھی وہی بات کہی جو کوڑھی نے کہی تھی۔ فرشتہ کہنے لگا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف لوٹا دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا،کہنے لگا: ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے، اللہ، پھر تمہاری مدد کے بغیر میں اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ میں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں بینائی لوٹائی ، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں جس کے ذریعے میں اپنا سفر مکمل کر سکوں ،وہ کہنے لگا: میں نابینا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بینائی لوٹائی ،جو چاہو لے لو، جسے چاہو چھوڑ دو، واللہ! آج تم جو بھی اللہ کے لئے لو گے میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔ فرشتہ کہنے لگا: اپنا مال سنبھال کر رکھو، کیوں کہ تمہاری آزمائش کی گئی تھی( اللہ تعالی) تم سے خوش ہوگیا جب کہ تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا

Haidth Number: 3115
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے جب ایڑی پر زور دیا چنانچہ ایڑی کے نیچے سے آب زمزم جاری ہوگیا تو ام اسماعیل اس کے گرد مٹی ڈالنے لگیں۔ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ام اسماعیل ہاجرہ علیہما السلام پر رحم فرمائے اگر وہ اسے چھوڑ دیتیں تو وہ ایک جاری چشمہ بن جاتا

Haidth Number: 3116

) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ رَجُلًا مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ رَجُلاً أَنْ يُّسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ فَقَالَ لَهُ: ائْتِنِي بِشُهَدَاءَ أُشْهِدُهُمْ عَلَيْكَ فَقَالَ: كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا قَالَ: فَائْتِنِي بِكَفِيلٍ قَالَ: كَفَى بِاللهِ كَفِيلًا قَالَ: صَدَقْتَ قَالَ: فَدَفَعَ إِلَيْهِ أَلفَ دِيْنَار إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ وَقَضَى حَاجَتَهُ فَجَاءَ الْأَجَلُ الَّذِي أَجَّلَ لَهُ فَطَلَبَ مَرْكَبًا فَلَمْ يَجِده فَأَخَذَ خَشَبَةً فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَكَتَب صَحِيفَةً إِلَى صَاحِبِهَا ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا ثُمَّ أَتَى بِهَا الْبَحْرَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ أَنِّي اسْتَلَفْتُ مِنْ فُلَانٍ أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي شُهُودًا وَسَأَلَنِي كَفِيلًا فَقُلْتُ كَفَى بِالهِم كَفِيلًا فَرَضِيَ بِكَ وَجَهِدْتُّ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ بِحَقِّه فَلَمْ أَجِدْ وَإِنِّي اسْتَوْدَعْتُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا يُقَدِمُ بِمَالِهِ فَإِذَا هُوَ بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا حَطَبًا فَلَمَّا كَسَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ فَأَخذَهَا فَلمَّا قَدمَ الرَّجُلُ قَالَ لَهُ: إِنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا يَّخرُج، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ بِهِ فِي الْخَشَبَةِ فَانْصَرَفَ بِالأَلْفِ رَاشِدًا.

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض کا مطالبہ کیا وہ کہنے لگا: گواہ لاؤ جنہیں میں گواہ بنا سکوں، وہ کہنے لگا: اللہ ہی گواہی کے لئے کافی ہے ،وہ کہنے لگا: پھر کوئی ضامن ہی لے آؤ، اس نے کہا: اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے۔ اس آدمی نے کہا: تم سچ بولتے ہو، اور اسے ایک مقررہ مدت تک ایک ہزار دینار دے دیئے۔ وہ سمندر میں نکلا، اپنی ضرورت پوری کی، جب مقررہ مدت آگئی تو اس نے سواری تلاش کی لیکن سواری نہیں ملی، اس نے ایک لکڑی لی، اسے کھرچ کر اس میں سوراخ کیا، اور ہزار دینار اس میں رکھ دیئے۔ اور اس کے مالک کی طرف ایک خط رکھ دیا پھر اس خالی جگہ کو بھر دیا اور اسے سمندر پر لے آیا کہنے لگا: اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا، اس نے مجھ سے گواہوں اور ضامن کا مطالبہ کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے وہ تیری ضمانت پر راضی ہوگیا، میں نے سواری تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، تاکہ اس کا حق اسے ادا کر دوں، لیکن مجھے سواری نہیں ملی، میں اسے تیری امان میں دیتا ہوں ،پھر اس لکڑی کو سمندر میں پھینک دیا۔ وہ آدمی بھی دیکھنے نکلا جس نے قرض دیا تھا کہ شاید کوئی سواری اس کا مال لے آئے۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ لکڑی ہے جس میں اس کا مال تھا، وہ اسے جلانے کے لئے پکڑلیتا ہے ،جب اسے پھاڑ تا ہے تو اس میں مال اورخط دیکھتا ہے وہ اسے لے لیتا ہے جب وہ آدمی آتا ہے تو اس سے کہتا ہے مجھے کوئی سواری نہیں ملی تھی۔ اس قرض دار نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے وہ مال ادا کر دیا ہے جو تم نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ تب وہ شخص ہزار دینار لے کر واپس پلٹ گیا

Haidth Number: 3117

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرفُوعاً: إِنَّ الشَّمْسَ لَمْ تُحْبَسْ عَلَى بَشَرٍ إِلَّا لِيُوشَعَ لَيَالِيَ سَارَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ (وَفِي رِوَايَة: غَزَا نَبِيٌّ مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لَا يَتْبَعْنِي رَجُلٌ قَدْ مَلَّكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ (بِهَا) وَلَا آخَرُ قَدْ بَنَى بُنْيَانًا وَلَمَّا يَرْفَعْ سُقُفَهَا وَلَا آخَرُ قَدِ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ مُنْتَظِرٌ وِلَادَهَا) قَالَ فَغَزَا فَأَدْنَى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلَاةِ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِّنْ ذَلِكَ (وَفِي رِوَايَةٍ: فَلَقِي العَدُّو عِنْدَ غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ) فَقَالَ لِلشَّمْسِ: أَنْتِ مَأْمُورَةٌ وَّأَنَا مَأْمُورٌ اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيَّ شَيْئًا فَحُبِسَتْ عَلَيْهِ حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ (فَغَنمُوا الغَنَائم) قَالَ فَجَمَعُوا مَا غَنِمُوا فَأَقْبَلَتِ النَّارُ لِتَأْكُلَهُ فَأَبَتْ أَنْ تَطْعَمَهُ (وَكَانُوا إِذَا غَنَمُوا الغَنِيْمَة بَعَثَ اللهُ تَعَالَى عَلَيْهَا النَّار فَأَكَلَتْهَا) فَقَالَ: فِيكُمْ غُلُولٌ فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ فَبَايَعُوهُ فَلَصِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيَدِهِ فَقَالَ: فِيكُمْ الْغُلُولُ فَلْتُبَايِعْنِي قَبِيلَتُكَ فَبَايَعَتْهُ قَالَ فَلَصِقَتْ بِيَدِ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ (يَدَه) فَقَالَ: فِيكُمْ الْغُلُولُ أَنْتُمْ غَلَلْتُمْ (قَالَ : أَجَلٌ قَدْ غَلَلْنَا صُوْرَة وَجْه بَقَرَةٍ مِّنْ ذَهَبٍ) قَالَ: فَأَخْرَجُوا لَهُ مِثْلَ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِّنْ ذَهَبٍ قَالَ: فَوَضَعُوهُ فِي الْمَالِ وَهُوَ بِالصَّعِيدِ فَأَقْبَلَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهُ فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِّنْ قَبْلِنَا ذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى رَأَى ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَطَيَّبَهَا لَنَا (وَفِي رِوَايَةٍ : فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَ ذَلِكَ: إِنَّ اللهَ أَطْعَمْنَا الغَنَائِمَ رَحْمَةً بِنَا وَتَخْفِيْفاً لِّمَا عَلِمَ مِنْ ضُعْفِنَا) .

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: یوشع علیہ السلام کے علاوہ سورج کسی بھی بشر کے لئے نہیں ٹھہرایا گیا ان دنوں جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے(اور ایک روایت میں ہے کہ: انبیاء میں سے کسی نبی نے جہاد کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا: میرے پیچھے وہ شخص نہ آئے جس نے شادی کی ہے اور وہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے ،جو اس نے ابھی تک قائم نہیں کئے ، دوسرا وہ شخص جس نے مکان بنایا ہے لیکن ابھی تک اس کی چھت نہیں ڈالی ، نہ وہ شخص جس نے بکری یا بھیڑیں خریدی ہیں اور ان کی ولادت کا منتظر ہے )۔ پھر وہ جہاد کے لئے نکلے۔ نماز عصر یا اس کے قریب کا وقت تھا کہ وہ اس بستی میں پہنےل (اور ایک روایت میں ہے :سورج غروب ہونے کے وقت وہ دشمن سے ملے اس نے سورج سے کہا: تم بھی مامور ہو اور میں بھی مامور ہوں، اے اللہ ! اسے کچھ دیر میرے لئے روک دے، سورج اس کے لئے روک دیا گیا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فتح دے دی(انہوں نے غنیمتیں حاصل کیں )پھر سب غنیمتیں جمع کیں ،آگ انہیں کھانے آئی تو آگ نے کھانے سے انکار کر دیا۔ (وہ لوگ جب کوئی غنیمت حاصل کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ایک آگ بھیجتا جو غنیمت کھا لیا کرتی ) نبی علیہ السلام نے کہا: تم میں خیانت ہے، ہر قبیلے کا ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے ،لوگ بیعت کرنے لگے تو ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا، نبی علیہ السلام نے کہا: تم میں خائن موجوہے ،تمہارا قبیلہ مجھ سے بیعت کرے، اس قبیلے نے نبی علیہ السلام کی بیعت کی دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ (ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا، انہوں نے کہا: تم نے خیانت کی ہے ،انہوں نے کہا: (ہاں ،گائے کے سر کے مشابہہ سونے کی موتی چھپائی ہے۔) انہوں نے ان کے سامنے گائے کے سونے کے سر کی طرح کوئی چیز پیش کی اور اسے اس مال میں ڈال دیا ،جو کھلے میدان میں پڑا تھا۔ آگ آئی اور وہ سامان کھا لیا، ہم سے پہلے کسی کے لئے غنیمتیں حلال نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری عاجزی اور کمزوری دیکھی تو ہمارے لئے انہیں حلال کر دیا، (اور ایک روایت میں ہے کہ: رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحمت کرتے ہوئے اور ہماری کمزوری کی وجہ سے ہم پر تخفیف کرتے ہوئے ہمیں یہ غنیمتیں کھلائیں

Haidth Number: 3118
ابو سعید‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: شیطان نے کہا: تیری عزت کی قسم! جب تک ان کے جسموں میں روح ہوگی میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: مجھے میری عزت و جلال کی قسم! جب تک یہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا

Haidth Number: 3119
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: شیطان اس بات سے نا امید ہوگیا ہے کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی عبادت کی جائے لیکن اس بات پر راضی ہوگیا ہے کہ تم (لوگوں کو )حقیر سمجھتے ہو

Haidth Number: 3120
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: بائیں بازو والا فرشتہ چھ گھڑیاں مسلمان خطاکار یا گناہ گار بندے سے قلم اٹھائے رکھتا ہے، اگر وہ شر مسار ہو جائے، اور توبہ کرلے تو قلم رکھ دیتا ہے، وگرنہ ایک برائی لکھ دیتا ہے

Haidth Number: 3121
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: بائیں بازو والا فرشتہ چھ گھڑیاں مسلمان خطاکار یا گناہ گار بندے سے قلم اٹھائے رکھتا ہے، اگر وہ شر مسار ہو جائے، اور توبہ کرلے تو قلم رکھ دیتا ہے، وگرنہ ایک برائی لکھ دیتا ہے

Haidth Number: 3122
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نےفرمایا:صاحب صور(اسرافیل)کو جب سے ذمہ داری دی گئی ہے وہ تیار حالت میں عرش کی طرف دیکھ رہا ہے اس ڈر سے کہ کہیں اسے آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی حکم نہ دے دیا جائے گویا کہ اس کی آنکھیں چمکدار ستارے ہوں۔

Haidth Number: 3123

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَا أُحَدِّثُكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْ رَّسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي إِنَّ عَبْدًا قَتَلَ تِسْعَةً وَّتِسْعِينَ نَفْسًا ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ (وَفِي رِوَايَةٍ: رَاهِبٍ) فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ تِسْعَةً وَّتِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لِّي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: بَعْدَ قَتْلِ تِسْعَةٍ وَّتِسْعِينَ نَفْسًا؟ قَالَ: فَانْتَضَى سَيْفَهُ فَقَتَلَهُ بِهِ فَأَكْمَلَ بِهِ مِائَةً. ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ؟ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ (عالم) فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لِّي مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: وَمَنْ يَّحُوْلُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ اخْرُجْ مِنَ الْقَرْيَةِ الْخَبِيثَةِ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ قَرْيَةِ كَذَا وَكَذَا (فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَّعْبُدُونَ اللهَ) فَاعْبُدْ رَبَّكَ (مَعَهُمْ) فِيهَا (وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ) قَالَ: فَخَرَجَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ فَعَرَضَ لَهُ أَجَلُهُ فِي (بَعْضَ الطَّرِيقِ) (فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا) قَالَ: فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ قَالَ: فَقَالَ إِبْلِيسُ: أَنَا أَوْلَى بِهِ إِنَّهُ لَمْ يَعْصِنِي سَاعَةً قَطٌّ قَالَ: فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: إِنَّهُ خَرَجَ تَائِبًا (مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللهِ وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ) فَبَعَثَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ مَلَكًا (فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ) فَاخْتَصَمُوا إِلَيْهِ قَالَ: فَقَالَ: انْظُرُوا أَيُّ الْقَرْيَتَيْنِ كَانَ أَقْرَبَ إِلَيْهِ فَأَلْحِقُوهُ بِأَهْلِهَا (فَأَوْحَى الهُ( إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي وَأَوْحَى اللهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي) (فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ (بِشِبْرٍ) فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ) (فَغفِرَلَه) قَالَ الْحَسَنُ: لَمَّا عَرَفَ الْمَوْتَ احْتَفَزَ بِنَفْسِهِ (وَفِي رواية: نَاءَ بِصَدْرِهِ) فَقَرَّبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ الْقَرْيَةَ الصَّالِحَةَ وَبَاعَدَ مِنْهُ الْقَرْيَةَ الْخَبِيثَةَ فَأَلْحَقُوهُ بِأَهْلِ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں تمہیں وہی حدیث سناؤں گا جو میں نے رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے سنی ہے۔ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے محفوظ کر لیا۔ ایک بندے نے ننانوے قتل کئے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک آدمی کا پتہ دیا گیا( اور ایک روایت میں ہے: ایک راہب کا) وہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے ننانوے قتل کئے ہیں، کیا میرے لئے توبہ کی کوئی گنجائش ہے ؟وہ کہنے لگا: کیا ننانوے قتل کرنے کے بعد بھی توبہ کی گنجائش ہے؟ اس نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور اسے بھی قتل کر دیا، اور سو کی تعداد مکمل کر لی۔ پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے زمین میں موجود سے سب بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا؟ تو اسے ایک( عالم) آدمی کا پتہ بتایا گیا، وہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے سو آدمی قتل کئے ہیں کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ اس عالم نے کہا: تمہارے اور توبہ کے درمیان کونسی رکاوٹ ہے؟ جس خبیث بستی میں تم ہو اس سے نکل کر فلاں نیک بستی کی طرف چلے جاؤ(اس بستی میں ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں) ان کے ساتھ مل کر اپنے رب کی عبادت کرو (اور اپنے علاقے میں واپس نہ آنا کیوں کہ یہ برا علاقہ ہے) وہ شخص نیک بستی کی طرف چل پڑا۔ (راستے میں) اسےموت نے آلیا، (وہ سینے کے بل گھسٹا ہوا نیک بستی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنے لگا) اس کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ ابلیس نے کہا: میں اس کا وارث ہوں کیوں کہ اس نے ایک لمحہ بھی میری نا فرمانی نہیں کی ،جب کہ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ اپنے دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر توبہ کی غرض سے نکلا تھا۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی، تب اللہ عزوجل نے ایک فرشتہ(آدمی کی صورت میں) بھیجا وہ اس کے پاس جھگڑالے کر گئے، وہ کہنے لگا: دیکھو یہ کس بستی کے زیادہ قریب ہے ؟ اسے اس بستی والوں سے ملا دو( اللہ تعالیٰ نے اس بستی کی طرف وحی کی کہ قریب ہو جاؤ، اور اس بستی کی طرف وحی کی کہ دور ہو جاؤ، )(انہوں نے پیمائش کی تو جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے(ایک بالشت)نزدیک تھا، اس لئے اسے رحمت کے فرشتوں نے لے لیا(اور اللہ نے اس کی بخشش کردی۔ حسن کہتے ہیں کہ جب اسے معلوم ہوگیا کہ وہ مرنے والا ہے تو اس نے اپنے آپ کو گھسیٹنے کی کوشش کی(اور ایک روایت میں ہے کہ: سینے کے بل کوشش کی) تو اللہ تعالیٰ نے اسے نیک بستی کے قریب کر دیا، اور بری بستی کو اس سے دور کر دیا، اس لئے فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں سے ملادیا

Haidth Number: 3124
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے موقوفا مروی ہے کہ: فرعون نے اپنی بیوی کے ہاتھوں اور پاؤں میں چار کیلیں ٹھونک دیں ، جب وہ لوگ اس کے پاس سے چلے جاتے تو فرشتے اس پر سایہ کردیتے۔ وہ کہنے لگی: رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ اے میرے رب! اپنے پاس جنت میں میرے لئے ایک گھر بنا ،مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے۔ اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے ،تب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں اس کا گھر دکھادیا

Haidth Number: 3125
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: کریم(معزز) بن کریم بن کریم بن کریم ،یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل الرحمن تبارک وتعالیٰ ہیں۔جتنا عرصہ وہ جیل میں رہے، اگر میں رہتا اور میرے پاس کوئی آتا تو میں اس کی بات قبول کرلیتا۔جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے؟ اور اللہ کی رحمت ہو لوط علیہ السلام پر کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کاش میرے پاس قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط ستون کی پناہ لیتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا وہ اس قوم کے انبوہ کثیر میں بھیجا

Haidth Number: 3126

عَنْ سَالِمِ بن عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، وَعُمَرَ بن الْخَطَّابِ، وَنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، جَلَسُوا بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ الهِأ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَذَكَرُوا أَعْظَمَ الْكَبَائِرِ، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ فِيهَا عِلْمٌ، (يَنْتَهُون إِلَيْه) فَأَرْسَلُونِي إِلَى عَبْدِ اللهِ بن عَمْرِو بن الْعَاصِ أَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَعْظَمَ الْكَبَائِرِ شُرْبَ الْخَمْرِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ، فَأَنْكَرُوا ذَلِكَ وَوَثَبُوا إِلَيْهِ جَمِيعًا، (حَتَّى أَتَوْهُ فِي دَارِهِ) فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: إِنَّ مَلِكًا مِّنْ بني إِسْرَائِيلَ أَخَذَ رَجُلا فَخَيَّرَهُ بَيْنَ أَنْ يَّشْرَبَ الْخَمْرَ، أَوْ يَقْتُلَ صَبِيًّا، أَوْ يَزْنِيَ، أَوْ يَأْكُلَ لَحْمَ الْخِنْزِيرِ، أَوْ يَقْتُلُوهُ إِنْ أَبَى، فَاخْتَارَ أَنَّهُ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَأَنَّهُ لَمَّا شَرِبَهَا لَمْ يَمْتَنِعْ مِنْ شَيْءٍ أرادوهُ مِنْهُ ، وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ لَنَا حِينَئِذٍ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَّشْرَبُهَا فَتُقْبَلُ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَلا يَمُوتُ وَفِي مَثَانَتِهِ مِنْهَا شَيْءٌ إِلا حُرِّمَتْ عَلَيْهِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ مَّاتَ فِي الأَرْبَعِينَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً .

سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کے کچھ صحابہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کی وفات کے بعد بیٹھے سب سے بڑے کبیرہ گناہ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ان کے پاس اس بارے میں کوئی حتمی علم نہیں تھا۔ (جس پر وہ سب متفق ہوسکیں) انہوں نے مجھے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں، انہوں نے مجھے بتایا کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ شراب پینا ہے۔ میں ان کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس بات کا انکار کر دیا اور سب کے سب ان کی طرف چل پڑے۔ (اور ان کے گھر آگئے) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو پکڑااور اسے اختیار دیا کہ وہ شراب پئے یا بچے کو قتل کر دے۔ یا زنا کرے یا خنزیر کا گوشت کھائے۔ اگر اس نے انکار کیا تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔اس نے شراب کو اختیار کیا، جب اس نے شراب پی لی ،تو جن کاموں کا اس سے مطالبہ ہوا تھا کسی سے بھی باز نہیں رہا، اس وقت رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے ہم سے فرمایا: جو شخص شراب پیتا ہے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور جو شخص مرجائے اور اس کے مثانے میں کچھ(تھوڑی سی ہی ) شراب ہو تو اس پر جنت حرام ہے ،اور اگر وہ چالیس دن کے اندر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا

Haidth Number: 3127

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنِي آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَرَاهُ اللهُ آدَمَ فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ فَقَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللهُ مِنْ وَّرَاءِ الْحِجَابِ لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَّ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْءٍ سَبَقَ مِنْ اللهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌عِنْدَ ذَلِكَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى.

عمر بن خطاب‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! مجھے آدم علیہ السلام تو دکھاجس نے ہمیں اور خود اپنے آپ کو جنت سے نکلوا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آدم دکھلا دئیے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ ہمارے والد آدم ہیں؟ آدم علیہ السلام نے ان سےکہا: ہاں،موسیٰ علیہ السلام نے کہا:آپ ہی وہ شخص ہیں جس میں اللہ تعالی نے اپنی روح پھونکی ، تمام نام سکھائے اور فرشتوں کوآپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا ؟آدم علیہ السلام نے کہا: ہاں۔ موسیٰ نے کہا: آپ کو کس بات نے اس کام پر مائل کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا ؟آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں۔ آدم علیہ السلام نے کہا: تم ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی ؟ اپنی مخلوق میں سے اپنے اورتمہارے درمیان کسی کو قاصد نہیں بنایا؟موسیٰ علیہ السلام نے کہا:جی ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ اللہ کی کتاب میں میرے پیدا ہونے سے پہلے لکھا جا چکا تھا؟انہوں نے کہا: ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا: تب تم مجھے اس کام پر کیوں ملامت کر رہے ہو جس کے بارے میں مجھ سے پہلے اللہ کی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا تھا؟ اس وقت رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔

Haidth Number: 3128

عَنْ أَنَسٍ مَرْفُوْعاً : « إِنَّ أَيُّوبَ نَبِيَّ اللهِ لَبِثَ بِهِ بَلَاؤُه ثَمَان عَشَرَة سَنَة فَرَفَضَهُ القَرِيْبُ وَالبَعِيْد إِلاَّ رَجُلَيْنِ مِنْ إِخْوَانِهِ كَانَا يَغْدُوَانِ إِلَيْهِ وَيَرُوْحَان، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِه ذَاتَ يَوْمٍ : تَعْلَم وَاللهِ لَقَدْ أَذْنَبَ أَيُّوْبَ ذَنْباً مَا أَذْنَبه أَحَدٌ مِّنَ العَالَمِيْنَ؟ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُه : وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ : مُنْذُ ثَمَانِي عَشَرَة سَنَة لَمْ يَرْحَمُه الله فَيكْشِف مَا بِه فَلَمَّا رَاحَا إِلَى أَيُّوبٍ لَمْ يَصْبِرالرَّجُل حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ لَه ، فَقَالَ أَيُّوب : لاَ أَدْرِي مَا تَقُولَانِ، غَيْرَ أَنَّ الله يَعْلَم أَنِّي كُنْتُ أَمُر بِالرَّجُلَيْنِ يَتَنَازَعَانِ فَيذكَرَانِ اللهَ فَأَرْجِع إِلَى بَيْتِي ، فَأُكَفِّرُ عَنْهُماَ كَرَاهِيَّة أَنْ يَّذْكُرَ الله إِلَّا فِي حَقٍّ ، قَالَ: وَكَانَ يَخْرُجُ إِلَى حَاجَتِهِ ، فَإِذَا قَضَى حَاجَتَهُ أَمْسكَتهُ امْرَأَتَه بِيَدِهِ حَتَّى يَبْلُغَ ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَبْطَأَ عَلَيْهَا وَأَوْحَى إِلَى أَيُّوْبٍ أَنْ اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ﴿۴۲﴾ (ص: ٤٢) ، فَاسْتَبْطَأَتْهُ فَتَلقته تَنْظُر وَقَدْ أَقْبَل عَلَيْهَا قَدْ أَذْهَبَ اللهُ مَا بِهِ مِنَ البَلَاءِ وَهُوَ أَحْسَنُ مَا كَانَ ، فَلَمَّا رَأَتْه قَالَتْ : أَيْ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ! هَلْ رَأَيْتَ نَبِيَّ اللهِ هَذَا المبتلى؟ وَاللهِ عَلَى ذَلِكَ مَا رَأَيْتُ (أَحَدا) رَجُلا أَشْبَه (بِهِ) مِنْكَ إِذْ كَانَ صَحِيْحاً فَقَالَ: فَإِنِّي أَنَا هُوَ ، وَكَانَ لَه أَنْدران (أَىْ: بيدران) أَنَدُرٌ لِّلْقَمْح وَأَنْدَرٌ لِّلشَّعِيْر ، فَبَعَثَ اللهُ سَحَابَتَيْنِ ، فَلَمًّا كَانَتْ أَحَدُهَمَا عَلَى أَنْدَر القَمْحِ أَفْرَغَتْ فِيْهِ الذَّهَبُ حَتَّى فَاضَ وَأَفْرَغَتِ الأُخْرَى فيِ أَنْدَرِ الشَّعِيْر الوَرَق حَتَّى فَاضَ ».

انس‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ کے نبی ایوب علیہ السلام کی آزمائش اٹھارہ سال تک رہی ،قریب و دور کے سب عزیزوں نے انہیں چھوڑ دیا ،سوائے ان کے دو بھائیوں کے۔ وہ صبح و شام ان کے پاس آتے ،ایک دن ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: واللہ! تمہیں معلوم ہے کہ ایوب نے ایسا گناہ کیا ہے جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ اس کے ساتھی نے اس سے کہا: وہ کیا؟ کہنے لگا: اٹھارہ سال ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم نہیں کیا اور ان کی تکلیف دور نہیں کی، جب شام کو وہ دونوں ایوبکے پاس آئے تو جس شخص سے یہ بات کہی گئی تھی اس سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس نے ان سے اس بات کا ذکر کردیا، ایوب علیہ السلام نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہے ہو سوائے اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں جب بھی دو جھگڑا کرنے والوں کے پاس سے گزرتا تھا جو (اپنے جھگڑے میں) اللہ کا ذکر کرنے (یعنی قسم اٹھاتے) تو میں گھر جا کر ان کی طرف سے کفارہ ادا کردیتا اس بات کو نا پسند کرتے ہوئے کہ اللہ کا ذکر نا حق کام میں کیا گیا۔ ایوب علیہ السلام قضائے حاجت کے لئے باہر نکلا کرتے تھے ،جب وہ قضائے حاجت کر لیتے تو ان کی بیوی گھر آنے تک ان کا ہاتھ پکڑے رکھتی ،ایک دن انہوں نے دیر کر دی اور ان کی طرف وحی کی گئی کہ (سورۃ ص: ٤٢) اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے اور پینے کا ٹھنڈا پانی ہے ،ان کی بیوی کو ان کی تاخیر کا احساس ہوا تو وہ انہیں دیکھنے نکل پڑیں، ایوب علیہ السلام ان کی طرف آرہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی تکلیف دور کر دی تھی، اور پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے تھے ۔جب ان کی بیوی نے انہیں دیکھا تو کہنے لگیں:اللہ تمہیں برکت دے! کیا تم نے مصیبت زدہ اللہ کا نبی دیکھا ہے ؟واللہ وہ اسی راستے پر گیا تھا۔ جب وہ صحیح تھا تو میں نے تم سے زیادہ اس کے مشابہہ(کسی کو) نہیں دیکھا، ایوب علیہ السلام نے کہا: میں ہی وہ ہوں۔ان کےلئے دو ڈھیرتھے۔ ایک گندم کا ،دوسرا جو کا۔ اللہ تعالیٰ نے دو بادل بھیجے ،جب ایک گندم کےڈھیرپر پہنچا تو اس نے سونا برسانا شروع کر دیا حتی کہ سونا بہنے لگا اور دوسرے نے جو کے ڈھیر پر چاندی برسانا شروع کر دی حتی کہ چاندی بہنے لگی۔

Haidth Number: 3129

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ عَلَيْهِ جُبَّةُ سِيجَانٍ مَزْرُورَةٌ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَ: أَلَا إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ وَضَعَ كُلَّ فَارِسِ ابْنِ فَارِسٍ قَالَ: يُرِيدُ أَنْ يَّضَعَ كُلَّ فَارِسِ ابْنِ فَارِسٍ وَيَرْفَعَ كُلَّ رَاعِ ابْنِ رَاعٍ قَالَ: فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌بِمَجَامِعِ جُبَّتِهِ وَقَالَ: أَلَا أَرَى عَلَيْكَ لِبَاسَ مَنْ لَّا يَعْقِلُ؟ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَبِيَّ اللهِ نُوحًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ لِابْنِهِ: إِنِّي قَاصٌّ عَلَيْكَ الْوَصِيَّةَ آمُرُكَ بِاثْنَتَيْنِ وَأَنْهَاكَ عَنِ اثْنَتَيْنِ آمُرُكَ بِـ(لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ) فَإِنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةٍ وَّوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فِي كِفَّةٍ رَجَحَتْ بِهِنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ كُنَّ حَلْقَةً مُّبْهَمَةً قَصَمَتْهُنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَسُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ وَبِهَا يُرْزَقُ الْخَلْقُ وَأَنْهَاكَ عَنِ الشِّرْكِ وَالْكِبْرِ قَالَ: قُلْتُ: أَوْ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! هَذَا الشِّرْكُ قَدْ عَرَفْنَاهُ فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ: أَنْ يَّكُونَ لِأَحَدِنَا نَعْلَانِ حَسَنَتَانِ لَهُمَا شِرَاكَانِ حَسَنَانِ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: هُوَ أَنْ يَّكُونَ لِأَحَدِنَا أَصْحَابٌ يَجْلِسُونَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: لَا. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ: سَفَهُ الْحَقِّ وَغَمْصُ النَّاسِ.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ گاؤں کا ایک دیہاتی شخص آیا ،اس نے ریشمی بٹنوں والا ایک سیجانی جبہ پہنا ہوا تھا ۔آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: خبردار !تمہارے اس ساتھی نے ہر شہ سوار ابن شہ سوار کو مات دے دی ہے۔ اور یہ چاہتا ہے کہ ہر شہ سوار کو مات دے دے۔اور ہر چرواہےابن چرواہے کو بلند کر دے، رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اس کواس کے جبے سے پکڑا اور فرمایا: میں تم پر کسی بے وقوف کا لباس دیکھ رہا ہوں۔ پھر فرمایا:اللہ کے نبی نوح علیہ السلام!جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمہیں وصیت بتاتا ہوں، میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں۔ میں تمہیں(لا الہ الا اللہ) کا حکم دیتا ہوں کیوں کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھے جائیں ،اور لا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں تو لا الہ الا اللہ کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور اگر ساتوں زمین اور ساتوں آسمان ایک مضبوط دائرہ بن جائیں تو لا الہ الا اللہ انہیں توڑ دے گا، اور میں تمہیں سبحان اللہ وبحمدہ کا حکم دیتا ہوں کیوں کہ یہ ہر مخلوق کی دعا ہے اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔ میں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں، میں نے کہا: یا کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شرک تو ہمیں معلوم ہے، یہ تکبر کیا ہے؟ کیا ہم میں کسی شخص کے خوب صورت جوتے اور خوب صورت تسمے ہوں ؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: نہیں ۔ کیا ہم میں سے کسی شخص کے دوست ہوں جو اس کے پاس بیٹھیں؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: نہیں۔ اے اللہ کے رسول! پھر تکبر کیا چیز ہے؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔

Haidth Number: 3130
جابر‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ،ایک انصاری عورت نے جس کا غلام بڑھئی تھا: نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا غلام بڑھئی ہے، کیا میں اسے کہوں کہ وہ آپ کے لئے منبر بنادے؟ جس پر کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیں؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: ہاں تو اس نے آپ کے لئے منبر بنا دیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ وہ تناجس سے ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے بچے کی طرح رونے لگا۔ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: یہ اس وجہ سے رو رہا ہے کہ یہ ذکر سے محروم ہو گیا ہے

Haidth Number: 3131
ابو درداء‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: میں انبیاء میں سے تمہارا بہترین منتخب (حصہ) نبی ہوں اور تم امتوں میں سے میرے لئے بہترین منتخب(حصہ) امت ہو

Haidth Number: 3132
عطاء سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: ہم انبیاء کی جماعت ہیں، ہماری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہیں سوتے۔( )

Haidth Number: 3133
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کے زمانے میں دو آدمی نسب پر فخر کرنے لگے۔ ایک نے کہا: میں فلاں بن فلاں ہوں، تم کون ہو، تمہاری ماں مرے؟ تورسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں دو آدمی نسب پر فخر کرنے لگے۔ ایک نے کہا: میں فلاں بن فلاں ہوں حتی کہ نو نام گنوادیئے ۔تم کون ہو تمہاری ماں مرے؟ اس نے کہا: میں فلان بن فلاں ابن الاسلام ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ ان دونوں فخر کرنے والوں سے کہو: تم جو نو(۹) کی طرف نسبت کرنے والے نو(۹) آگ میں ہیں تم دسویں ہو اور تم دو کی طرف نسبت کرنے والے ہو،دونوں جنت میں ہیں اور تم تیسرے بھی جنت میں ہو

Haidth Number: 3134

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَائِشَةَ! ثَلَاثٌ مَّنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ (قُلْتُ مَا هُنَّ؟ قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ) قَالَ: وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! أَنْظِرِينِي وَلَا تَعْجَلِينِي أَلَمْ يَقُلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَ لَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ (۲۳) التكوير . وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی (۱۳) النجم فَقَالَتْ: أَنَا أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ لَمْ أَرَهُ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ عَلَيْهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِّنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَقَالَتْ: أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللهَ يَقُولُ: لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ (۱۰۳) الأنعام أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللهَ يَقُولُ: وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ (۵۱) الشورى قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌كَتَمَ شَيْئًا مِّنْ كِتَابِ اللهِ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ وَاللهُ يَقُولُ: یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ المائدة: ٦٧ قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُخْبِرُ بِمَا يَكُونُ فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ وَاللهُ يَقُولُ: قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ النمل: ٦٥.

مسروق سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، وہ کہنے لگیں: اے ابو عائشہ! تین باتیں ہیں، جس نے بھی ان میں سے کوئی بات کہی ،اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا(میں نے کہا: وہ کون سی باتیں ہیں؟ کہنے لگیں: جس شخص کا خیال ہے کہ محمد ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔)مسروق کہتے ہیں: میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا، سیدھا ہو کر بیٹھ گیا،میں نے کہا: ام المومنین! مجھے مہلت دیں، جلدی نہ کریں، کیا اللہ عزوجل نے نہیں فرمایا: (النجم:۱۳) کہنے لگیں: میں اس امت میں سے پہلی عورت ہوں جس نے اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے سوال کیا: آپ نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے ،وہ پیدا کئے گئے ہیں ان دو موقعوں کے علاوہ انہیں اصل صورت جس پر نہیں دیکھا ،میں نے انہیں آسمان سے اترتا ہوا ایک بہت بڑی صورت میں دیکھا جس کی جسامت نے آسمان سے زمین تک فضا کو بھر دیا تھا۔ پھر کہنے لگیں: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا اللہ فرماتا ہے:(الانعام:۱۰۳)کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا اللہ فرماتا ہے: (الشوری:۵۱)پھر کہنے لگیں: جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اللہ کی کتاب سے کوئی چیز چھپائی ہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتا ن باندھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( المائدہ:۶۷) پھر کہنے لگیں: جس شخص کا دعویٰ ہے کہ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کل کی خبریں بتایا کرتے ہیں تو اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( النمل:۶۵)۔

Haidth Number: 3135
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہتی ہیں کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک جنت میں اس کا ٹھکانہ اسے نہ دکھا دیا جائے، پھر اسے اختیار دے دیا جاتا ہے ۔جب آپ کی موت کا وقت آیا ،آپ کا سر میری ران پر تھا، آپ پر غشی طاری ہو گئی ،پھر کچھ افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے گھر کی چھت کی طرف نظریں اٹھالیں پھر فرمایا: اے اللہ !مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے ، میں نے کہا: تب تو آپ ہمیں نہیں چنیں گے ،(یعنی ہم میں نہیں رہیں گے) اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی بات ہے جو آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ہمیں تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے۔کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ جو آپ نے کہا: ’’اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى‘‘تھا

Haidth Number: 3136
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام کو تختیاں دی گئیں اور مجھے مثانی (بار بار پڑھی جانے والی آیات )دی گئیں

Haidth Number: 3137
انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: پہلاشخص جسے نبی بنا کر بھیجا گیا وہ نوح علیہ السلام تھے

Haidth Number: 3138
انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: کونسی مخلوق ایمان کے لحاظ سے سب سے پسندیدہ ہے ؟ صحابہ نے کہا: فرشتے ۔ آپ نے فرمایا: فرشتے کس طرح ایمان نہ لائیں ؟ صحابہ نے کہا: انبیاء۔ آپ نے فرمایا: انبیاء کی طرف وحی کی جاتی ہے وہ کس طرح ایمان نہ لائیں ؟ صحابہ نے کہا: صحابہ ۔ آپ نے فرمایا: صحابہ انبیاء کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ کس طرح ایمان نہ لائیں ؟ لیکن ایمان کے لحاظ سے سب سے پسندیدہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے ،تو وحی کو کتاب کی صورت میں دیکھیں گے ،اس پر ایمان لائیں گے ،اور اس کی پیروی کریں گے ، یہ(اللہ کے ہاں) ایمان کے لحاظ سے لوگوں میں یا مخلوق میں سب سے پسندیدہ ہیں

Haidth Number: 3139

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرفُوعاً:(الْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لِأَنَّهُ) لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَّرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَّمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ الله الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ (وَتَقَعُ الْأَمَنَةُ فِي الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ وَيَلْعَبَ الصِّبْيَانُ بِالْحَيَّاتِ لَا تَضُرُّهُمْ) فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ.

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے:(انبیاء علاتی (باپ کی طرف سے) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں الگ الگ ہیں لیکن ان کا دین ایک ہے اور میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے زیادہ قریب ہوں )کیوں کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ آسمان سے اتریں گے جب تم انہیں دیکھو گے تو انہیں پہچان لینا۔ وہ درمیانے قد کے ہوں گے ان کا رنگ سرخ سفیدی مائل ہے، زردی مائل دو چادروں میں ملبوس ہوں گے، گویا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا ،اگرچہ ان کے سر میں پانی نہیں ہوگا۔ وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے ،صلیب کو توڑ دیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے ،اور جزیہ ختم کر دیں گے ۔اللہ تعالیٰ اس زمانے میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کر دے گا(زمین میں امن قائم ہو جائے گا، حتی کہ شیر اونٹوں کے ساتھ ،چیتے گایوں کے ساتھ، اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چرا کریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے،لیکن وہ انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے )وہ زمین میں چالیس سال رہیں گے ،پھر فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔

Haidth Number: 3140
انس‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

Haidth Number: 3141
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ میں بنی آدم کی درجہ بدرجہ بہترین صدی میں مبعوث کیا گیا ،حتی کہ جس صدی میں میں ہوں اس میں مجھے مبعوث کر دیا گیا

Haidth Number: 3142
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: ایوب علیہ السلام کپڑے اتار کر نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ایک ٹڈی گری، ایوب علیہ السلام اسے اپنے کپڑے میں لپیٹنے لگے، تو ان کے رب نے آواز دی: اے ایوب! کیا میں نے تجھے اس سے بے پرواہ نہیں کر دیا ہے؟ ایوب علیہ السلام نے کہا: کیوں نہیں تیری عزت کی قسم! لیکن میرے لئے تیری برکت سے بے پرواہی نہیں

Haidth Number: 3143