ام عبداللہ اخت شداد بن اوس سے مروی ہے كہ اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس افطار كے وقت دودھ كا ایك پیالہ بھیجا(۔ یہ روزہ ایک طویل اور شدید گرمی کے دن میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےخادم کوواپس لوٹادیا اور پوچھا کہ: یہ دودھ كہاں سے آیا ہے؟ انہوں نے كہا كہ یہ میری بكری كا دودھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا: یہ بكری كہاں سے آئی ہے؟ انہوں نے كہا: میں نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پی لیا۔ دوسرے دن ام عبداللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئیں اور كہا: اے اللہ كے رسول ! میں نے آپ كی طرف گرمی کی شدت اور دن کی طوالت کا خیال کرتے ہوئے دودھ بھیجا تھا،توآپ نے اس دودھ کے بارے میں خادم کوواپس بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے رسولوں كوحكم دیا گیا تھا كہ صرف حلال وپاكیزہ ہی كھائیں اور نیک عمل كریں۔
سعدِ بن خالد سے مروی ہے كہ میں ابوسلمہ كے پاس آیا۔ ہمارے پاس مکھن، اور کھجور کا حلوہ آیا، ایك مكھی كھانے میں گر گئی۔ ابوسلمہ اپنی انگلی سے اسے كھانے میں غوطے دینے لگے۔ میں نے كہا:ماموں جان!یہ آپ كیا كر رہے ہیں؟ انہوں نے كہا:ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث بیان كی كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مكھی كے ایك پر میں زہر ہوتا ہے اور دوسرے میں شفا، جب مكھی كھانے میں گر جائے تواسے غوطے دے لوكیونكہ وہ زہر كومقدم ركھتی ہے اور شفا كوموخر۔
ابراہیم بن سعد اپنے والد سے وہ ان كے دادا سے بیان كرتے ہیں، انہوں نے كہا كہ میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے(صفنا) كے مقام پر ان كے قتل والے دن سنا كہہ رہے تھے: جنت قریب آگئی ہے، اورحور عین كی شادی كر دی گئی ہے۔ آج كے دن ہم اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں گے۔ اور ایك روایت میں ہے۔ ہم اپنے پیاروں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران كی جماعت سے ملیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھ سے عہد لیا تھا كہ دنیا میں صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا آخری كھانا پانی اور دودھ ہو۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جوچاندی( اور سونے) كے برتن میں. مشروب پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے ، سوائے اس صورت میں کے وہ توبہ كرلے۔( )
) انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس بندے سے خوش ہوتا ہے جوایك لقمہ كھاتا ہے اور اللہ كا شكر ادا كرتا ہے یا ایك گھونٹ پانی پیتا ہے اور اللہ كا شكر ادا كرتا ہے۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ ام سنبلہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحفتاً دودھ لائیں۔ وہ دودھ لے كر میرے پاس آئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كونہ پایا، میں نے ان سے كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں بدوؤں كاكھاناكھانےسےمنع فرمایا ہے۔اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبكر صدیقرضی اللہ عنہ آگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سنبلہ! یہ تمہارے پاس كیا ہے؟ كنہے لگے: اے اللہ كے رسول! یہ دودھ آپ كے لئے تحفے میں لائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سنبلہ دودھ ڈالواور ابوبكر كودو، پھر فرمایا: ام سنبلہ دودھ ڈالواور عائشہ كودو۔پھر فرمایا: ام سنبلہ دودھ ڈالو، اب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كودودھ دیا توآپ نے پی لاد۔ اے میرے دل کے قرار، اے اللہ كے رسول ! كاش آپ نے بدؤوں كا كھانا كھانے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ لوگ بدو نہیں بلكہ گاؤں والے ہیں، اور ہم شہر والے جب انہیں دعوت دی گئی تو انہوں نے قبول کرلی كیو نكہ (یہ)لوگ بدو نہیں۔( )
علیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں كی زیارت،(کچھ)برتنوں اور تین دن كے بعد قربانی كا گوشت روكنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر فرمایا: میں نے تمہیں قبروں كی زیارت سے منع كیا تھا، اب ان كی زیارت كرو، كیونكہ یہ آخرت كی یاد دلاتی ہیں۔ اور میں نے تمہیں:(کچھ)برتنوں سے منع كیا تھا اب ان میں پیو، اور ہر نشہ آور چیزوں سے بچو۔ اور میں نے تمہیں تین دن كے بعد قربانی كا گوشت روكنے سے منع كیا تھا اب جب تك تما را دل چاہے اسے روك لو۔
عمر بن خطابرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ ایك شخص كا كھانا دوكے لئے كافی ہوجاتا ہے اور دوآدمیوں كا كھانا تین اور چار كے لئے كافی ہوجاتا ہے، اور چار لوگوں كا كھانا پانچ اور چھ لوگوں كے لئے كافی ہوجاتا ہے۔
نعمان بن بشرِرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انگور میں نشہ ہے، كھجور میں نشہ ہے، شہد میں نشہ ہے،گندم میں نشہ ہے اور جَومیں نشہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی نے بیان كیا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت كے كچھ لوگ شراب پیئں گے اور اسے كوئی دوسرا نام دیں گے۔( )
عبداللہ بن عكیم سے مروی ہےكہ قبہہ جہینہ كے ہمارے ایك سردار نے بیان كیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كی طرف خط لكھا كہ مردار كی كسی چیز سے نفع نہ اٹھاؤ۔
نبیشہ ہذلی سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمںیِ تنك (دن)كے بعد (قربانی) كا گوشت كھانے سے منع كیا تھا تاكہ تم سب اس میں شریك ہوسكو۔ اب اللہ تعالیٰ نے گنجائش دے دی ہے، كھاؤ بھی ذخیرہ بھی كرواور تجارت بھی كرو۔ خبردار یہ ایام كھانے پینے اور اللہ كے ذكر كے ہیں۔
فیروز سے مروی ہے كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے، ہم نے كہا: اے اللہ كے رسول آپ كومعلوم ہے كہ ہم كون ہیں اور كہاں سے تعلق ركھتے ہیں ہم كس كی طرف آئے ہیں؟آپ نے فرمایا: اللہ اور اس كے رسول كی طرف۔ ہم نے كہا: اے اللہ كے رسول ہمارے انگور ہیں، ہم ان كا كیا كریں؟ آپ نے فرمایا: ان كا منقیٰ بنا لو۔ ہم نے كہا ہم منقیٰ كا كیا كریں گے؟ آپ نے فرمایا: اسے دوپھر كے كھانے میں اس کی نبیذ بناؤ، اور رات كے كھانے میں شربت بنا كر پیو، اور رات كے كھانے میں نبیذ بناؤ، دوپھر كے كھانے میں شربت بنا كر استعمال كرو۔ اسے مشكیز ے میں ڈالو۔ مٹكوں میں نہ ڈالو، كیونكہ جب اس كا وقت گزر جاتا ہے تویہ سركہ بن جاتا ہے۔
اسماء بنت ابی بكر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ جب وہ ثرید بنایا كرتے تواسے كسی چیز سے ڈھانپ دیا كرتے حتیٰ كہ اس کی شدت اور بھاپ ختم ہوجاتی پھر كہتیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے كہ یہ بركت كے لحاظ سے اچھا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (آب زمزم) بابركت ہے یہ کھانے کا كھانا ہے۔ ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے كتےا ہںل كہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے وہ حرمت والے منو ں كوحلال سمجھتے تھے۔ مںم، مرزا بھائی انسئ اور مر ی والدہ آئےاوراپنے ماموں كے گھر ٹھرطے ہمارے ماموں نے ہماری بتِ عزت كی اور ہمارے ساتھ اچھا سلوك كاے، ان كی قوم نے ہم سے حسد كام۔ كنےن لگے: جب تم گھر سے نکلتے ہو تو انیس تمہارے گھر والوں کے پاس آجاتا ہے۔میرے ماموں آئے ان سے جوبات کہی گئی تھی وہ ہم سے بیان کرنے لگے،میں نے کہا:آپ نے جواچھا سلوک کیا تھا،یہ بات کرکے سارے پر پا نی پھیر دیا،آج کے بعد ہم کبھی نہیں ملیں گے۔ہم نے اپنے اونٹ لئے اور ان پر سوار ہوگئے،میرے ماموں اپنے چہرے کوکپڑےسے ڈھانپ کر رونے لگے،ہم چلتے رہےیہاں تک کہ مکہ کے سامنے آگئے ۔انیس نے ہماری جیسی ایک سواری کے مقابلے میں فخر کا اظہارکیا۔ وہ دونوں کاہن کے پاس لایاتواس نے انیس یعنی اس کی سواری کو اچھا قرار دیا۔ انیس ہمارے پاس ہماری سواری اور اس جیسی دوسری سواری لایااور کہا:بھتیجے میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات سے تین سال پہلے نماز پڑھنی شروع کردی تھی۔میں نے کہا:کس کے لئے؟اس نے (ابو ذرغفاری) کہا اللہ کے لئے میں نے کہا کس طرف رخ کیا ؟اس نے کہا: جہاں میرا رب مجھے پھیر دیتا میں اسی طرف پھر جا تا،میں عشاء کی نماز پڑھتا، پھر جب رات کا آخری پہر ہوتا تومجھے اس طرح خیال آتا کہ گویا میں چھپ گیا ہوں حتی کہ سورج بلند ہوجاتا ۔انیس نے کہا:مجھے مکہ میں کچھ کام ہے میرے بعد خیال رکھنا ۔انیس مکہ گیا اور واپس آنے میں دیر کردی،پھر جب وہ آیا تومیں نے کہا:تم نے کیا کیا ؟کہنے لگا:میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جوتمہا رے دین پر ہے اور اس کا گمان ہے کہ اسے اللہ تعالی نے بھیجا ہے۔میں نے کہا:لوگ کیا کہتے ہیں ؟انیس نے کہا:لوگ اسے شاعر، کاہن اور جادوگرکہتے ہیں ۔انیس خود بھی ایک شاعر تھا کہنے لگا:میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن وہ کاہنوں والی بات نہیں کرتا،میں نے اس کا لام اصناف شعر پر پرکھا لیکن وہ کسی بھی لحاظ سے شعر نہیں ہے،واللہ وہ سچاہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔میں نے کہا:میرے بعد خیال رکھنا تاکہ میں مکہ جاسکوں اور دیکھوں کہ کیا صورتحال ہے ۔میں مکہ آیا اور ان میں سے کمزور سے آدمی سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا:یہ صابی(بے دین) ہے۔اہل مکہ مجھ پر پتھروں اور ہڈیوں سے سے ٹوٹ پڑے حتی کہ میں چکراکر گرگیا ۔جب مجھے ہوش آیا توخون میں لت پت تھا، میں زمزم کے پاس آیا خون دھویا اوراس کا پانی پیا ۔بھتیجے! میں تیس دن وہاں رکارہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں تھا،لیکن میں اتنا موٹا ہوگیا کہ میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا۔ اور میں نے کبی بھوک موس س تک نہ کی۔پھر ایک چاندنی رات اہل مکہ میں جبکہ لوگ سو چکے تھے کوئی شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر رہا تھا کہ ان میں سے دوعورتیں اساف اور نائلہ کوپکا رنے لگیں،وہ اپنے طواف کے دوران میرے پاس آئیں تومیں نے کہا:ایک کا دوسرے سے نکاح کردو۔وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر وہ میرے پاس آئیں تومیں نے بغیر کنایۃ کئے کہااساف اور نائلہ دونوں کے لئے) لکڑی جیسا....... وہ چیختی چلا تی اور واویلا کرتی ہوئی چلی گںی اور کہتی کہ کاش ہماری جماعت ہوتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نیچے اتر رہے تھے وہ ان دونوں سے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم دونوں کوکیا ہوا؟ کہنے لگیں:کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیا ن ایک صابی ہے ۔آپ نے فرمایا:اس نے تم سے کیا کہا ؟ کہنے لگیں: ایسی بات کہی ہے جومنہ سے نہیں نکالی جاسکتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور حجر اسود کا استلام کیا،آپ نے اورآپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف کیا،پھر نماز پڑھی،جب فارغ ہوئے توابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواسلامی سلام کیا ۔میں نے کہا:السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ نے فرمایا:وعلیک ورحمۃ اللہ،پھر فرمایا:تم کون ہو؟میں نے کہا:غفار سے تعلق رکھتا ہوں ؟آپ نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ لیا ۔میں نے دل میں کہا شاید آپ کوغفار کی طرف میری نسبت پسند نہیں آئی۔میں نے آپ کا ہاتھ پکڑنا چاہا،آپ کے ساتھی نے مجھے روک لیا،وہ مجھ سے زیادہ جانتا تھا ۔پھر آپ نے سر اٹھا یا اور فرمایا:تم کب سے یہاں ہو؟میں نے کہا:ایک ماہ سے،تمہیں کون کھانا کھلاتا ہے؟میں نے کہا کہ زمزم کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، میں زمزم کا پانی پی کر موٹا ہوگیا حتی کہ میرے پیٹ کی سلویں پر ہوگئیں۔ اورمجھے کبھی بھی بھوک کا احساس نہیں ہوا۔آپ نے فرمایا:یہ بابرکت ہے اور کھانے کا کھانا ہے ۔ابوبکرنے کہا: اے اللہ کے رسول !آج رات مجھے اس کی مہمان نوازی کی اجازت دیجئے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکررضی اللہ عنہ چل پڑے تومیں بھی ان کے ساتھ چل پڑا ابوبکررضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقہ مٹھیاں بھر کر لانے لگے،یہ وہ پہلا کھانا تھا جومیں نے مکے میں کھا یا،پھر میں کچھ وقت ٹھہرا رہا،اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے سامنے کھجوروں والی سرزمین کی گئی ہے،میرے خیال میں وہ یثرب ہے ۔کیا تم میری طرف سے اپنی قوم کوپیغام دے دوگے؟ ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں نفع دے اور تمہیں اجردے ۔میں انیس کے پاس آیا تواس نے کہا:تم کیا کررہے تھے ؟میں نے کہا میں نے یہ کام کیا ہے کہ مسلمان ہوگیا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کردی ہے ۔انیس نے کہا:مجھے تمہارے دین سے کوئی بے رغبتی نہیں کیونکہ میں بھی مسلمان ہوچکا ہوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کردی ہے ۔پھر ہم اپنی ماں کے پاس آئے تووہ کہنے لگی:مجھے تم دونوں کے دین سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ میں مسلمان ہوچکی ہوں اور آپ کی تصدیق کردی ہے ۔پھر ہم سوار ہوکر اپنی قوم کے پاس آئے توان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کی امامت ایماءبن رحضہ غفاری کروایا کرتےتھے،وہ ان کے سردار تھے،باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینےآئیں گے توہم مسلمان ہوں گے ۔پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لے آئے توباقی نصف لوگ بھی مسما ن ہوگئے ۔پھر قبیلہ اسلم کے لوگ آئے اور کہنے لگے:اے اللہ کے رسول! ہم بھی اسلام قبول کرتے ہیں ۔جس طرح ہمارے بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:غفار کی اللہ مغفرت کرے اور اسلم کوسلامت رکھے ۔ ( )
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس دودھ لایا گیا، جس میں پانی ملایا گیا تھا۔ آپ كے دائیں طرف ایك بدوتھا، اور بائیں طرف ابوبكررضی اللہ عنہ ۔ آپ نے دودھ پیا اور پھر بدوكودے دیا، اور فرمایا: دائیں طرف،پھر دائیں طرف۔ اور ایك روایت میں ہے: دائیں والے، دائیں والے، خبردار دائیں طرف سے شروع كرو۔
ایك آدمی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی آٹھ سال خدمت كی سے مروی ہے كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا كرتا تھا جب كھانا آپ كے قریب كا صلی اللہ علیہ وسلم جاتا ہے توآپ كتےس:بسم اللہ، اور جب فارغ ہوتے توكہتے: اَللّٰهُمَّ أَطْعَمْتَ وَأَسْقَيْتَ وَأَقْنَيْتَ وَهَدَيْتَ وَأَحْيَيْتَ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا أَعْطَيْتَ.” اے اللہ تونے كھلایا،تونے پلایا، اورتونےاس پر راضی اور خوش کیا،تونے ہدایت دی، اورتونے زندگی دی، جوتونے دیا اس پر تیرا شكر ہے“۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ انہو ں نے ایك بكری ذبح كی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں سے كچھ باقی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: اس میں سے صرف شانے كا گوشت بچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شانے كی ہڈی كے علاوہ باقی سب كچھ بچ گیا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ہیں جن كی طرف قیامت كے دن اللہ تعالیٰ دیکھے گا بھی نہیں۔ اپنے والدین كا نافرمان، مردوں كی مشابہت كرنے والی عورت، اور دیوث، اورتین شخص ہیں جوجنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ اپنے والدین كا نافرمان، دائمی شرابی، اور دے كر احسان جتلانے والا۔
سالم بن عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیا ن كرتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب حرام كر دی ہے، اور ہر نشہ آور چیزحرام ہے۔
ضرار بن ازور سے مروی ہے كہ مجھے مرسے گھر والوں نے كچھ دودھیل اونٹنیاں دیں ، اور ایك روایت میں ہے كہ ایك دودھیل اونٹنی دے كر نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی طرف بھیجا، میں اسے آپ كے پاس لایا توآپ نے مجھے اس كا دودھ دوہنے كا حكم دیا پھر فرمایا:تھوڑا سادودھ تھنوں میں رہنے دو۔
علقمہ قرشی سے مروی ہے انہوں نے كہاكہ ہم میمونہ رضی اللہ عنہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے گھر میں داخل ہوئے توہمیں گھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ملے۔ہم نےآگ پرپكی ہوئی چیزیں كھانےكےبعدوضوكرنےكاذكر كیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ آگ پر پکی ہوئی چیز کھاتے تھے، پھر نماز پڑھتے اور وضوء نہیں کرتے تھے۔ ایك شخص نے ان سے كہا:ابن عباس كیا آپ نے انہیں دیكھا ہے؟ اپنے ہاتھ سے آنكھوں كی طرف اشارہ كیا كہ میری آنكھوں نے دیكھا ہے۔
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا كے پاس آئے۔ ہم آپ كے پاس كھجور اور گھی لائے۔ آپ نے فرمایا: اسے اس كے برتن میں اور اسے مشکیزے میں ڈال دو، میں روزے سے ہوں۔ پھر آپ كھڑے ہوئے اور ہمیںِ دوركعت نفل نماز پڑھائی۔ ام حرام اور ام سلیم كوہمارے پیچھے كھڑا كیا۔ مجھے اپنے دائیں طرف كھڑا كیا۔ ہمیں چٹائی پر نفل نماز پڑھائی، جب آپ نے نماز مكمل كر لی توام سلیم رضی اللہ عنہا نے كہا: میرا ایك پیارا سا بچہ، آپ كا چھوٹا سا خدمت گزار انس اس كے لئے اللہ سے دعا كیجیے۔ آپ نے اس دن دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی نہ چھوڑی مگر میرے لیے اس کی دعا کی۔ جب اس كے لئے دنیا وآخرت كی بھلائی كے لئے دعا نہ كی ہو۔ پھر فرمایا: اے اللہ اس كا مال اور اولاد زیادہ كر اور اس میں بركت دے۔انس نے كہا: مجھے میرا بیٹی نے بتایا كہ میری صلب سے نوے سے زیادہ بچے ہوئے ہیں ، اور انصار میں سے كوئی شخص دولت میں مجھ سے زیادہ نہ ہوا۔ اے ثابت میں اس انگوٹھی کے علاوہ کسی سونے چاندی کا مالک نہیں ہوں۔
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس ریان كھجوریں آئیں۔ آپ نے پوچھا: یہ تمہیں كہاں سے ملیں ؟ انہوں نے كہا: ہمارے پاس بعل كی كھجوریں تھیں ، ہم نے ایك صا ع كے بدلے دوصاع دیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس كے مالك كویہ كھجوریں واپس كردو، یعنی ریان كھجوریں، اپنی ردی قسم کی (بعل کھجوریں) بیچو اور پھر یہ کھجوریں خرید لو۔
ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: بدترین كھانا ولیمے كا وہ كھانا ہے، جس میں جس كا حق ہے اسے روكا جاتا ہے اور جس كا حق نہیں اسے بلایا جاتا ہے، اور جس شخص نے دعوت قبول نہ كی اس نے اللہ اور اس كے رسول كی نافرمانی كی۔