Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلضَّیْفُ: (ض) دراصل اس کے معنی کسی جانب مائل ہونا کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ضِفْتُ اِلٰی کَذَا میں اس کی طرف مائل ہوا اَضَفْتُ کَذَا اِلٰی کَذَا: اسے ایک طرف مائل کردیا۔ ضَافَتِ الشَّمْسُ لِلْغُرُوْبِ وَتَضَیَّفَتْ: سورج مائل بغروب ہوگیا۔ وَضَافَ السَّھْمُ وَتَضِیْفُ عَنِ الْھَدَفِ: تیر نشانہ سے ایک طرف مائل ہوگیا۔ اَلضَّیْفُ: اصل میں اسے کہتے ہیں جو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لیے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف میں ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لیے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگرکبھی اس کی جمع اَضْیَافٌ وَضُیُوْفٌ وَضِیْفَانٌ بھی آجاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ) (۵۱:۲۴) بھلا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر پہنچی ہے۔ (وَ لَا تُخۡزُوۡنِ فِیۡ ضَیۡفِیۡ) (۱۱:۷۸) اور میرے مہمانوں کے بارے میں میری آبرو نہ کھوؤ۔ (اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ ) (۱۵:۶۸) یہ میرے مہمان ہیں۔ اِسْتَضَفْتُ فُلَانًا فَاَضَافِنِیْ: میں نے فلاں سے مہمان نوازی طلب کی تو میری مہمانی کی ضِفْتُہٗ ضَیْفًا کے معنی کسی کی مہمانی کرنا کے ہیں اور میزبان کو ضَائِفٌ اور ضَیْفٌ بھی کہا جاتا ہے۔ علمائے نحو کے نزدیک اَلْاِضَافَۃٌ کا لفظ اس اسم مجرور کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اسم (مضاف) ہو۔ اور بعض کے نزدیک ایک اسم اضافی ہر اس اسم کو کہتے ہیں جس کا ثبوت یا فہم دوسرے پر موقوف ہو۔ جیسے اَبٌ، اِیْنٌ، اَخٌ، صَدِیْقٌ کہ ان سب کا وجود دوسرے اسماء کے حصول پر موقوف ہے۔ اس لیے اس قسم کے اسماء کو اسماء متضایفہ کہا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
ضَيْفِ سورة الحجر(15) 51
ضَيْفِ سورة الذاريات(51) 24
ضَيْفِهٖ سورة القمر(54) 37
ضَيْفِيْ سورة هود(11) 78
ضَيْفِيْ سورة الحجر(15) 68
يُّضَيِّفُوْهُمَا سورة الكهف(18) 77