اَلْکَظْمُ:اصل میں ’’مخرج النفسٗٗیعنی سانس کی نالی کو کہتے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے:اَخَذَ بِکَظْمِہ:اس کی سانس کی نالی کو پکڑلیا۔یعنی غم میں مبتلا کردیا۔اَلْکَظُوْمُ کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔جیسا کہ انتہائی خاموشی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے فْلَانٌ لَا یَتَنَفَّسُ کہا جاتا ہے فلاں سانس نہیں لیتا یعنی خاموش ہے۔کُظِمَ فُلَانٌ اس کا سانس بند کردیا گیا۔ (مراد نہایت غمگین ہونا) چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ) (۶۸۔۴۸) کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ (غم) غصہ میں بھرے تھے اور کَظَمُ الْغَیْظِ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں۔جیسے فرمایا: (وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ ) (۳۔۱۳۴) اور غصے کو روکتے۔اور اسی سے کَظَمَ الْبَعِیْرُ کا محاورہ ہے جس کے معنی اونٹ کا جگالی نہ کرنا کے ہیں۔کظم السِّقَائَ مشک کو پانی سے بھر کر اس کا منہ باندھ دینا تاکہ اس سے پانی نہ نکل سکے۔اَلْکِظَامَۃُ:ترازو کے اس حلقہ کو کہتے ہیں جس میں پلڑے کی رسیاں اکٹھی کرکے ترازو کی ڈنڈی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہیں۔ (۲) اس تسمہ کو بھی کظامۃ کہا جاتا ہے جس کو کمان کی تاتنت کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔اَلْکَظَائِمُ: (واحد کِظَامَۃٌ) وہ زمین دوز نالیاں جن کے ذریعہ ایک کنویں کو (دوسرے کے ساتھ ملادیا جاتا ہے) تاکہ ایک کا پانی دوسرے میں منتقل ہوتا رہے گویا وہ سانس آنے جانے کی نالیاں ہیں۔ (1)
Words | Surah_No | Verse_No |
كَظِيْمٌ | سورة يوسف(12) | 84 |
كَظِيْمٌ | سورة النحل(16) | 58 |
كَظِيْمٌ | سورة الزخرف(43) | 17 |
كٰظِمِيْنَ | سورة مومن(40) | 18 |
مَكْظُوْمٌ | سورة القلم(68) | 48 |
وَالْكٰظِمِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 134 |