ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی ؓ کا بوسہ لیا ، اس وقت اقرع بن حابس ؓ بھی آپ کے پاس تھے ، اقرع ؓ نے عرض کیا : میرے دس بچے ہیں ، میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا ، رسول اللہ ﷺ نے (تعجب سے) اس کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا :’’ جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور ہم ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث : ((أَثَمَّ لُکَعُ)) باب مناقب اھل بیت النبی ﷺ وعلیھم اجمعین میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔ جبکہ ام ہانی ؓ سے مروی حدیث باب الامان میں ذکر کی گئی ہے ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے ہیں ، تو ان کے الگ ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔
اور ابوداؤد کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے ہیں ، اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں ، اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، تو انہیں بخش دیا جاتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ و ابودداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم میں سے آدمی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرتا ہے ، تو کیا وہ اس کے سامنے سر جھکائے ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ اس نے کہا : کیا وہ اسے گلے لگائے اور اس کا بوسہ لے ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ اس نے عرض ، کیا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے مصافحہ کرے ؟ فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مریض کی عیادت اس طرح پوری ہوتی ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر یا اس کے ہاتھ پر رکھ کر اس سے دریافت کرے :’’ کیا حال ہے ؟‘‘ اور تمہارا آپس میں پورا سلام دعا ، مصافحہ کرنا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور امام ترمذی ؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، زید بن حارثہ ؓ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے ۔ وہ آپ کے پاس آئے تو انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا ، رسول اللہ ﷺ (فرطِ محبت سے) اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے ، قمیص پہنے بغیر ، اس کی طرف چلے ، اللہ کی قسم ! میں نے اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آپ کو قمیص کے بغیر دیکھا ، آپ ﷺ نے اسے گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ایوب بن بشیر ، عنزہ قبیلے کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے ابوذر ؓ سے کہا : کیا جب تم رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے تو وہ تم سے مصافحہ کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : میں جب بھی آپ سے ملا ہوں ، آپ ﷺ نے مجھ سے مصافحہ کیا ہے ، آپ نے ایک روز مجھے طلب فرمایا لیکن میں گھر پر نہیں تھا ، جب میں آیا تو مجھے بتایا گیا ، میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے ، آپ ﷺ نے مجھے گلے لگایا ، یہ (گلے لگانا) بہت ہی بہتر تھا ، بہت ہی بہتر ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عکرمہ بن ابی جہل ؓ بیان کرتے ہیں ، جس روز میں (بیعت اسلام کے لیے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مہاجر سوار کے لیے خوش آمدید ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
اسید بن حضیر ؓ لا تعلق انصار کے ایک قبیلے سے تھا ، وہ بیان کرتے ہیں : ایک دن وہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ مزاح طبیعت تھے اور وہ انہیں (اپنی باتوں کے ذریعے) ہنسا رہے تھے ، تو نبی ﷺ نے ایک لکڑی سے اس کے پہلو پر چوب لگائی ، انہوں نے کہا : مجھے بدلہ دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں بدلہ دیتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : آپ پر تو قمیص ہے جبکہ مجھ پر قمیص نہیں ، نبی ﷺ نے قمیص اٹھائی تو میں آپ ﷺ سے چمٹ گیا اور آپ کے پہلو کو بوسہ دینے لگا ، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بس یہی چاہتا تھا ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
شعبی ؒ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جعفر بن ابی طالب ؓ کا استقبال کیا تو انہیں گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) بوسہ دیا ۔ ابوداؤد ، بیہقی فی شعب الایمان مرسلا ۔ جبکہ مصابیح کے بعض نسخوں میں اور شرح السنہ میں البیاضی کی سند سے متصل ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
جعفر بن ابی طالب ؓ سے سرزمین حبشہ سے واپسی کے واقعہ کے بارے میں مروی ہے ، انہوں نے فرمایا : جب ہم مدینہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے میرا استقبال کیا اور مجھے گلے لگا لیا ، پھر فرمایا :’’ میں نہیں جانتا کہ مجھے فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کی آمد کی ۔‘‘ اتفاق سے ان کی آمد فتح خیبر کے روز تھی ۔ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
زارع ؓ فرماتے ہیں اور وہ وفد عبدالقیس میں شامل تھے : جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہیٔت ، سیرت و صورت ، ایک روایت میں ہے : بات چیت میں فاطمہ ؓ سے زیادہ کسی کو مشابہ نہیں پایا ، جب وہ آتیں تو آپ ﷺ ان کا استقبال کرتے ، آپ ان کا ہاتھ پکڑتے اور ان کا (پیشانی پر) بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ، اور جب آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ کا استقبال کرتیں ، آپ کا ہاتھ پکڑتیں اور آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، (کسی غزوہ سے واپسی پر) میں سب سے پہلے ابوبکر ؓ کے ساتھ مدینہ آیا تو ان کی بیٹی عائشہ ؓ لیٹی ہوئی تھیں اور وہ بخار میں مبتلا تھیں ، ابوبکر ؓ ان کے پاس آئے تو فرمایا : پیاری بیٹی ! تمہارا کیا حال ہے ؟ اور انہوں نے ان کے رخسار پر بوسہ دیا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کا بوسہ لیا اور فرمایا :’’ سن لو ! یہ (بچے) بخل اور بزدلی کا باعث ہوتے ہیں ، اور بے شک یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہیں ۔‘‘ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
یعلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ حسن اور حسین ؓ رسول اللہ ﷺ کی طرف تیزی سے دوڑتے آئے تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو گلے لگا لیا ، اور فرمایا :’’ بے شک اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہوتی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
عطاء خراسانی ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مصافحہ کیا کرو (اس سے) کینہ جاتا رہتا ہے ، ہدیے (تحائف) دیا کرو ، باہم محبت پیدا ہو گی اور دشمنی و رنجش جاتی رہے گی ۔‘‘ امام مالک نے اسے مرسل روایت کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ مالک ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے نصف النہار سے پہلے چار رکعت (نماز چاشت) پڑھی گویا اس نے وہ رکعات شب قدر میں ادا کیں ، اور جب دو مسلمان مصافحہ کرتے ہیں ، تو ان کے سارے گناہ گر جاتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔