ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، دو آدمی مشرق کی (جانب) سے آئے اور انہوں نے خطاب کیا ، لوگوں نے ان کے بیان پر تعجب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک بعض بیان جادو کی سی تاثیر رکھتے ہیں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سب سے زیادہ درست بات جو کسی شاعر نے کہی وہ لبید شاعر کی یہ بات ہے : سن لو ! اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہیں امیہ بن ابی صلت کا کوئی شعر یاد ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سناؤ !‘‘ میں نے آپ کو ایک شعر سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور سناؤ !‘‘ پھر میں نے آپ کو ایک اور شعر سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور سناؤ !‘‘ حتی کہ میں نے آپ کو سو شعر سنائے ۔ رواہ مسلم ۔
جندب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کسی غزوہ میں شریک تھے کہ آپ کی انگلی سے خون نکلنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک انگلی ہی تو ہو جو خون آلودہ ہوئی ہے اور تجھے جو تکلیف پہنچی ہے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے بنو قریظہ (کے محاصرے) کے دن حسان بن ثابت ؓ سے فرمایا :’’ مشرکوں کی ہجو بیان کرو ، اللہ (کی نصرت) تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ حسان ؓ سے فرما رہے تھے :’’ میری طرف سے جواب دو ، اے اللہ ! جبریل ؑ کے ذریعے اس کی مدد فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ قریش کی ہجو بیان کرو کیونکہ یہ ان پر تیر اندازی سے بھی زیادہ شدید ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسان ؓ سے فرماتے ہوئے سنا :’’ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دفاع میں مشرکین کی ہجو کرتے رہتے ہو اس وقت تک جبریل ؑ تمہاری مدد کرتے رہتے ہیں ۔‘‘ عائشہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ حسان نے ان کی ہجو بیان کی اور مسلمانوں کو سکون پہنچایا اور خود بھی سکون پایا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ خندق کے روز مٹی اٹھا رہے تھے حتی کہ ان کا پیٹ غبار آلود ہو گیا ، آپ ﷺ (اشعار) کہہ رہے تھے :’’ اللہ کی قسم ! اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے ، صدقہ دیتے اور نہ ہی نماز پڑھتے ، ہم پر سکینت نازل فرمانا جب ہم ان (دشمنان دین) سے ملیں تو ہمیں ثابت قوم رکھ کیونکہ انہوں نے ہم پر زیادتی کی ہے ، جب بھی انہوں نے فتنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کیا ۔‘‘ آپ لفظ ’’ ہم نے انکار کیا ، ہم نے انکار کیا ‘‘ پر آواز بلند فرماتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، مہاجر و انصار (صحابہ کرام ؓ) خندق کھود رہے تھے ، مٹی اٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے : ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاحیات جہاد کرنے پر محمد (ﷺ) کی بیعت کی ہے ۔ نبی ﷺ ان کے جواب میں فرما رہے تھے :’’ اے اللہ ! زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ، انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر کر خراب ہو جانا ، اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ (مذموم) اشعار سے بھر جائے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شعر کی مذمت کے بارے میں حکم اتارا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان سے جہاد کرتا ہے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! (یہ ہجو اس طرح ہے) گویا تم ان پر تیر اندازی کر رہے ہو ۔‘‘
استیعاب لابن عبدالبر میں ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ شعر کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوامامہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ حیا اور کم گوئی ایمان کی شاخیں ہیں ، جبکہ فحش گوئی اور بیان (مبالغہ آرائی) نفاق کی دو شاخیں ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابوثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک (دنیا میں) تم میں سے مجھے زیادہ پسند و محبوب اور روزِ قیامت میرے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو تم میں سے زیادہ بااخلاق ہو گا ، اور تم میں سے (دنیا میں) مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور روزِ قیامت مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہو گا جو تم میں سے بد اخلاق ، بہت باتیں کرنے والے ، زبان دراز اور گلا پھاڑ کر باتیں کرنے والے ہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
امام ترمذی نے جابر ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے ، ان کی روایت میں ہے ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم باتونی اور منہ پھٹ شخص کے متعلق تو جانتے ہیں ، لیکن ’’المتفیھقون‘‘ سے مراد کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تکبر کرنے والے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ ایک قوم کا ظہور ہو گا وہ اپنی زبانوں کے ذریعے (مدحہ سرائی کر کے مال کما کر) ایسے کھائیں گے جیسے گائے اپنی زبان کے ساتھ کھاتی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ چرب زبان اور مبالغے سے کام لینے والے اس شخص سے دشمنی رکھتا ہے جو زبان کی کمائی کھاتا ہے جیسا کہ گائے زبان سے چارہ کھاتی ہے ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ معراج کی رات میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے ، میں نے کہا : جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ آپ کی امت کے خطیب حضرات ہیں ، جن کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کلام صرف اس لئے سیکھتا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے مردوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو پا سکے تو روزِ قیامت اللہ اس کی طرف سے کوئی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں کرے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک روز فرمایا ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے (اظہارِ فصاحت کے لیے) بات کو طول دیا تو عمرو ؓ نے فرمایا : اگر یہ بات کرتے وقت میانہ روی اختیار کرتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میں نے جانا یا مجھے حکم دیا گیا کہ میں بات میں اختصار کروں ، کیونکہ اختصار بہتر ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
صخر بن عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بے شک بعض بیان جادو جیسا اثر رکھتے ہیں ، بعض علم جہالت ہوتے ہیں ، بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض قول بوجھ ہوتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ ، حسان ؓ کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے ، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر کرتے یا آپ ﷺ کا دفاع کرتے ، اور رسول اللہ ﷺ فرماتے :’’ بے شک اللہ جبریل ؑ کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرتا ہے یا فخر کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ البخاری تعلیقا ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک شخص آپ کا حدی خوان تھا اسے انجشہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ، اس کی آواز بہت اچھی تھی ، نبی ﷺ نے اسے فرمایا :’’ انجشہ ! ٹھہرو ٹھہرو ، شیشوں کو مت چور کرو ۔‘‘ قتادہ ؒ نے فرمایا : آپ نے یہ خواتین کی نزاکت کے پیش نظر فرمایا تھا ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے پاس شعر ذکر کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ ایک کلام ہے ، اس میں سے جو اچھا ہے وہ اچھا ہے اور جو بُرا ہے وہ بُرا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارقطنی ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (یمن کے علاقے) عرج میں سفر کر رہے تھے کہ ایک شاعر سامنے آیا اور وہ اشعار کہنے لگا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (اس) شیطان کو پکڑو ۔‘‘ یا فرمایا :’’ (اس) شیطان کو (شعر کہنے سے) روکو ، یہ کہ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھرنا اس کے لیے شعر کے ساتھ بھرنے سے بہتر ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ گانا دل میں نفاق پیدا کر دیتا ہے جس طرح پانی کھیتی اگا دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
نافع بیان کرتے ہیں ، میں ابن عمر ؓ کے ساتھ ایک راستے میں تھا تو انہوں نے بانسری کی آواز سنی ، تو انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈال لیں ، اور وہ راستے میں دوسری جانب ہٹ گئے ، پھر دور جا کر مجھے فرمایا : نافع ! کیا تم کچھ سن رہے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، انہوں نے کانوں سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا آپ نے بانسری کی آواز سنی ، تو آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسے میں نے کیا ، نافع نے کہا : میں تب چھوٹا تھا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔