ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اذان کی آواز نہیں سنتا ، پس جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے ، اور پھر جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے ، اور پھر جب اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے ، اور وہ آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے ، اور کہتا ہے : فلاں چیز یاد کر ، فلاں چیز یاد کر ، ایسی باتیں یاد کراتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں حتیٰ کہ آدمی کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ اسے پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مؤذن کی آواز کو جن و انس اور جو دوسری چیزیں سنتی ہیں وہ (سب) قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دیں گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود پڑھو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، پھر تم اللہ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو ، کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے ، جو اللہ کے صرف ایک بندے کے شایان شان ہے ، میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہوں گا ، چنانچہ جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب مؤذن کہتا ہے ، اللہ اکبر ’’اللہ سب سے بڑا ہے‘‘، اور تم میں سے بھی کوئی خلوص قلب سے اللہ اکبر کہتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور وہ شخص بھی یہی کلمات کہتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اور وہ شخص بھی یہی کلمات کہتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : نماز کی طرف آؤ ، تو وہ شخص کہتا ہے: ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ))’’ گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا محض اللہ کی تو فیق سے ہے ‘‘۔ پھر وہ کہتا ہے : کامیابی کی طرف آؤ ، تو وہ شخص کہتا ہے : ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ))، پھر وہ کہتا ہے ، اللہ اکبر ، تو وہ شخص بھی اللہ اکبر کہتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : لا الہ الا اللہ ، تو وہ شخص بھی کہتا ہے : ((لا الہ الا اللہ)) اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ‘‘۔ تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اذان سن کر یہ دعا پڑھے : اے اللہ ! اس دعوت کامل اور قائم ہونے والی نماز کے رب ! محمد ﷺ کو وسیلہ و فضیلت عطا فرما ، اور انہیں مقام محمود پر فائز فرمایا ، جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے ، تو اس کے لیے روز قیامت میری شفاعت واجب ہو جائے گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب فجر طلوع ہو جاتی تو نبی ﷺ حملہ کیا کرتے تھے ، اور آپ بڑے غور سے اذان سننے کی کوشش کرتے ، اگر آپ اذان سن لیتے تو حملہ نہ کرتے ورنہ حملہ کر دیتے ، ایک مرتبہ آپ نے کسی شخص کو ’’ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، کہتے ہوئے سنا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ شخص فطرت (دین) پر ہے ۔‘‘ پھر اس شخص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم جہنم سے آزاد ہو گئے ۔‘‘ پس صحابہ نے اسے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اذان سن کر یہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، میں اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے رسول اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں ، تو اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان (نفل) نماز ہے ، ہر دو اذانوں کے مابین نماز ہے ، پھر تیسری مرتبہ فرمایا :’’ اس شخص کے لیے جو پڑھنا چاہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ امام (نماز کا) نگہبان ہے جبکہ مؤذن (اوقات نماز کا) امانت دار ہے ، اے اللہ ! اماموں کی راہنمائی فرما اور اذان دینے والوں کی مغفرت فرما ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، شافعی ، اور امام شافعی کی دوسری روایت مصابیح کے الفاظ سے مروی ہے ۔ حسن ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تیرا رب پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے اس شخص سے خوش ہوتا ہے جو نماز کے لیے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ، چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے اس بندے کو دیکھو ، وہ اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ، وہ مجھ سے ڈرتا ہے ، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل فرما دیا ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین اشخاص روز قیامت کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ، وہ غلام جس نے اللہ اور اپنے مالک کا حق ادا کیا ، وہ امام جس سے اس کے مقتدی خوش ہوں اور وہ شخص جو روزانہ پانچوں نمازوں کے لیے اذان دیتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مؤذن کو اس کی آواز کے مطابق مغفرت سے نوازا جاتا ہے ، ہر خشک و تر اس کے حق میں گواہی دیتی ہے ، اور نماز کے لیے آنے والے شخص کے لیے پچیس نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے ، اور اس سے دو نمازوں کے مابین ہونے والے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ۔ اسنادہ حسن ۔
امام نسائی نے ’’ہر خشک و تر‘‘ کے الفاظ تک روایت کیا ہے ، اور فرمایا :’’ نماز پڑھنے والے کی مثل اسے بھی اجر ملتا ہے ۔‘‘
عثمان بن ابی العاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ان کے امام ہو ، ان کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے امامت کرنا ، اور کسی ایسے شخص کو مؤذن بنانا جو اذان دینے پر اجرت وصول نہ کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے تعلیم دی کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھوں :’’ اے اللہ ! یہ (یعنی اذان مغرب) تیری رات آنے ، تیرے دن کے جانے اور مؤذن کی آواز کا وقت ہے ، مجھے بخش دے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوامامہ ؓ یا ، رسول اللہ ﷺ کے کوئی دوسرے صحابی بیان کرتے ہیں کہ بلال ؓ نے اقامت شروع کی ، پس جب انہوں نے کہا :’’ نماز کھڑی ہو چکی ‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ اسے قائم و دائم رکھے ۔‘‘ اور باقی اقامت میں اذان کے متعلق عمر ؓ سے مروی حدیث کی طرح کلمات کہے ۔ ضعیف ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں یا فرمایا : کم ہی رد کی جاتی ہیں ، اذان کے وقت کی جانے والی دعا اور گھمسان کی لڑائی کے وقت کی جانے والی دعا ، اور ایک روایت میں ہے ، بارش کے وقت (کی جانے والی دعا)۔‘‘ ابوداؤد ، دارمی ، لیکن دارمی نے ’’بارش کے وقت‘‘ کا ذکر نہیں کیا ۔ حسن ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مؤذن تو ہم پر فضیلت لے گئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جیسے وہ کہیں ویسے ہی تم کہو ، پس جب تم (جواب دینے سے) فارغ ہو جاؤ تو (اللہ سے) مانگو ، تمہیں عطا کیا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
جابر بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب شیطان نماز کے لیے اذان سنتا ہے تو وہ مقام روحاء تک بھاگ جاتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، روحاء مدینہ سے چھتیس میل کی مسافت پر ہے ۔ رواہ مسلم ۔
علقمہ بن وقاص ؒ بیان کرتے ہیں ، میں معاویہ ؓ کے پاس تھا ، جب ان کے مؤذن نے اذان کہی تو معاویہ ؓ نے بھی اپنے مؤذن کے کلمات کہے حتیٰ کہ جب اس نے کہا : اؤ نماز کی طرف ، تو انہوں نے کہا : ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ))’’ گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا محض اللہ کی توفیق سے ممکن ہے ۔‘‘ پس جب اس نے کہا : ((حی علی الفلاح)) تو انہوں نے کہا : ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)) اور اس کے بعد جیسے مؤذن نے کہا ، ویسے ہی انہوں نے کہا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ، آپ ﷺ نے ایسے ہی فرمایا ۔ صحیح ، رواہ احمد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ بلال ؓ کھڑے ہو کر اذان دینے لگے ، چنانچہ جب وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص خلوص دل سے یہ کلمات کہے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب نبی ﷺ مؤذن کو اللہ کے معبود ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دیتے ہوئے سنتے تو فرماتے :’’ اور میں بھی ، اور میں بھی (گواہی دیتا ہوں)۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عمر ؓ سے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص بارہ سال اذان دے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ، اور اس کی اذان کی وجہ سے اس کے حق میں یومیہ ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت کے بدلے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔‘‘ ضعیف ۔