انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ہم غار میں تھے ، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ مشرکین کے پاؤں نظر آ رہے تھے گویا وہ ہمارے سروں پر ہوں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر کر لے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوبکر ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ، جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء بن عازب ؓ اپنے والد (عازب ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر ؓ سے کہا : ابوبکر ! جب آپ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ہجرت کے لیے) روانہ ہوئے تو آپ کا یہ سفر کیسے گزرا ؟ انہوں نے فرمایا : ہم رات بھر اور اگلے روز دوپہر تک چلتے رہے ، راستہ خالی تھا وہاں سے کوئی بھی نہیں گزر رہا تھا ، ہمیں ایک طویل چٹان نظر آئی جس کا سایہ تھا ، ابھی وہاں دھوپ نہیں آئی تھی ، ہم نے وہاں قیام کیا ، میں نے نبی ﷺ کے آرام کے لیے اپنے ہاتھوں سے جگہ برابر کی اس پر ایک پوستین بچھائی ، اور پھر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ سو جائیں ، اور میں اردگرد کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں ، آپ سو گئے اور میں جائزہ لینے کے لیے باہر نکل آیا ، میں نے ایک چرواہا آتے ہوئے دیکھا اور اسے کہا : کیا تیری بکریاں دودھ دیتی ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ، میں نے کہا : کیا تم (میرے لیے) دودھ نکالو گے ؟ اس نے کہا : ہاں ، اس نے ایک بکری پکڑی اور لکڑی کے پیالے میں دودھ دوہا ، اور میرے پاس ایک برتن تھا جسے میں نے نبی ﷺ کے لیے ساتھ رکھا تھا ، آپ اس سے سیراب ہوتے اور اسی سے پانی پیتے اور وضو کیا کرتے تھے ، میں دودھ لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا ، میں نے انتظار کیا حتیٰ کہ آپ بیدار ہوئے ، میں نے دودھ پر پانی ڈالا حتیٰ کہ اس کا نچلا حصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! نوش فرمائیں ، آپ نے دودھ نوش فرمایا تو مجھے فرصت میسر آئی پھر آپ نے فرمایا :’’ کیا کوچ کرنے کا وقت نہیں ہوا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، ہو گیا ہے ، فرمایا ہم نے زوال آفتاب کے بعد کوچ کیا ، اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ غم نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ نبی ﷺ نے اس کے لیے بددعا فرمائی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک سخت زمین میں دھنس گیا ، اس نے کہا : میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نے میرے لیے بددعا کی ہے ، تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہیں اللہ کی ضمانت دیتا ہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلنے والوں کو تمہارے پیچھے نہیں آنے دوں گا ، چنانچہ نبی ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ نجات پا گیا ، پھر وہ جسے بھی ملتا اس سے یہی کہتا : اس طرف تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ، میں ادھر سے ہو آیا ہوں ، اس طرح وہ ہر ملنے والے کو واپس کر دیتا ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن سلام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے ، وہ فوراً نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا ، میں آپ سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے ، (بتائیں) علامات قیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا ؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل نے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے ، جہاں تک علامات قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی ، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا ، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی (منی) پر غالب آ جاتا ہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے ۔‘‘ (یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ، (پھر فرمایا) اللہ کے رسول ! یہودی بڑے بہتان باز ہیں ، اگر انہیں ، اس سے پہلے کہ آپ ان سے میرے متعلق پوچھیں ، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے ، چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبداللہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر ، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے ، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کر لیں (تو پھر) ؟ انہوں نے کہا ، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے ، عبداللہ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں ، پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے : وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے ، اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے ، عبداللہ بن سلام ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا ۔ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان کی آمد کا ہمیں پتہ چلا تو رسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا تو سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود جائیں گے ، اور اگر آپ برک غماد تک جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں تک بھی پہنچیں گے ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بلایا ، پھر کوچ کیا حتیٰ کہ بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہاں فلاں قتل ہو گا ۔‘‘ اور آپ اپنے دست مبارک سے زمین پر نشان لگا رہے تھے ، یہاں اور یہاں ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے نشان کی جگہ سے کوئی بھی آگے پیچھے قتل نہیں ہوا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوۂ بدر کے موقع پر اپنے خیمے میں یوں دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے عہد و امان اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ ! کیا تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے ؟‘‘ اتنے میں ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! بس کیجیے ! آپ نے رب سے کس قدر اصرار سے دعا کی ہے ، پھر آپ باہر تشریف لائے اس وقت آپ خوب تیز چل رہے تھے اور آپ نے زرہ پہن رکھی تھی ، اور آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ عنقریب یہ گروہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، اس روز ایک مسلمان ، ایک مشرک کا پیچھا کر رہا تھا ، اس کے آگے اس (مسلمان) نے اس (مشرک) کے اوپر ایک کوڑے کی آواز سنی ، اور گھڑ سوار کو یہ کہتے ہوئے سنا : حیزوم (گھوڑے کا نام ہے) آگے بڑھ ، اچانک اس (مسلمان) نے مشرک کو اپنے سامنے چت گرا ہوا پایا اور اس نے اسے دیکھا کہ کوڑا پڑنے سے اس کی ناک اور اس کا چہرہ پھٹ چکا تھا اور جہاں کوڑا پڑا تھا وہ جگہ کالی ہو گئی تھی ، وہ انصاری آیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا :’’ تم نے سچ کہا ، یہ تیسرے آسمان سے مدد آئی تھی ۔‘‘ اس دن انہوں نے ستر (کافروں) کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا ۔ رواہ مسلم ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے احد کے روز رسول اللہ ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمی دیکھے ان پر سفید کپڑے تھے اور وہ بڑی شدت کے ساتھ لڑ رہے تھے ، میں نے ان دونوں کو اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں ، یعنی وہ جبریل اور میکائیل ؑ تھے ۔ متفق علیہ ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کی طرف بھیجا ، عبداللہ بن عتیک ؓ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو گئے اور اسے قتل کر دیا ، عبداللہ بن عتیک ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے تلوار اس کے پیٹ میں اتار دی حتیٰ کہ وہ اس کی پشت تک پہنچ گئی ، جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے ، تو میں دروازے کھولنے لگا حتیٰ کہ میں آخری زینے تک پہنچ گیا ، میں نے اپنا پاؤں رکھا اور میں گر گیا ، چاندنی رات تھی ، میری پنڈلی ٹوٹ گئی ، میں نے عمامے کے ساتھ اس پر پٹی باندھی ، اور میں اپنے ساتھیوں کے پاس چلا آیا پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنا پاؤں پھیلاؤ ۔‘‘ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کبھی اس میں تکلیف ہوئی ہی نہ تھی ۔ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت سخت چٹان نکل آئی ، صحابہ کرام ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : خندق میں یہ ایک چٹان نکل آئی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اچھا) میں اترتا ہوں ۔‘‘ پھر آپ کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا ، تین دن گزر چکے تھے اور ہم نے کوئی چیز چکھ کر بھی نہیں دیکھی تھی ، نبی ﷺ نے کدال پکڑ کر ماری تو وہ (چٹان) ایسی ریت کی مانند ہو گئی جو آسانی سے گرتی ہے ، میں اپنی اہلیہ کے پاس آیا تو پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو سخت بھوک کے عالم میں دیکھا ہے ، اس نے ایک تھیلی نکالی اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا ، میں نے اسے ذبح کیا ، جو پیسے حتیٰ کہ ہم نے گوشت کو ہنڈیا میں رکھا ، پھر میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور سرغوشی کے انداز میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے اپنا بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا گوندھا ہے ، لہذا آپ تشریف لائیں اور کچھ ساتھیوں کو بھی ساتھ لے چلیں ، لیکن نبی ﷺ نے زور سے آواز دی :’’ خندق والو ! جابر نے ضیافت کا اہتمام کیا ہے ، آؤ جلدی کرو ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میرے آنے تک اپنی ہنڈیا چولہے سے اتارنا نہ روٹی پکانا شروع کرنا ۔‘‘ آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے آٹا نکالا ، آپ نے اس میں اپنا لعاب ملایا اور برکت کی دعا کی ، پھر فرمایا :’’ روٹی پکانے والی کو بلاؤ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتے رہو ، لیکن اسے چولہے سے نیچے نہ اتارو ۔‘‘ وہ ایک ہزار کی تعداد میں تھے ، میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ ان سب نے کھا لیا حتیٰ کہ وہ بچ گیا ، اور وہ واپس چلے گئے جبکہ ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح بھری ہوئی تھی اور آٹے کی روٹیاں پہلے کی طرح پکائی جا رہی تھیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ خندق کھودتے وقت رسول اللہ ﷺ نے عمار ؓ سے فرمایا ، آپ اس وقت ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ سمیہ کے بیٹے ! تجھے تکالیف کا سامنا ہو گا اور تجھے باغی گروہ شہید کرے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں ، جب گروہ متفرق ہو گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے ، وہ ہم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے ، اب ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ خندق سے واپس آئے ، ہتھیار رکھ دیے اور غسل فرما لیا تو جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے ، وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے ، انہوں نے فرمایا :’’ آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں نے ابھی تک زیب تن کر رکھے ہیں ، ان کی طرف چلیں ۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ کہاں ؟‘‘ انہوں نے قریظہ کی طرف اشارہ فرمایا چنانچہ نبی ﷺ ان کی طرف روانہ ہوئے ۔ متفق علیہ ۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے ، انس ؓ نے بیان کیا ، گویا میں بنو غنم کی گلیوں میں اٹھتی ہوئی غبار دیکھ رہا ہوں جو جبریل ؑ کے ساتھیوں کی وجہ سے اڑ رہی تھی ، یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ کی طرف چلے تھے ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کو پیاس لگی ، جبکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا ، آپ نے اس سے وضو کیا ، پھر لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے ، اور عرض کیا ، ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کر سکیں اور پی سکیں ، فقط وہی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے ، نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک چھاگل میں رکھا ، اور آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی بہنے لگا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم نے پانی پیا اور وضو کیا ، جابر سے دریافت کیا گیا ، اس وقت تمہاری تعداد کتنی تھی ؟ انہوں نے فرمایا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمیں کافی ہوتا ، البتہ ہم اس وقت پندرہ سو تھے ۔ متفق علیہ ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، حدیبیہ کے روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ سو کی تعداد میں تھے ، حدیبیہ ایک کنواں تھا ، ہم نے اس سے سارا پانی نکال لیا تھا اور اس میں ایک قطرہ تک نہیں چھوڑا تھا ، نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ وہاں تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے ، پھر آپ نے پانی کا ایک برتن منگایا ، وضو فرمایا ، پھر کلی کی ، دعا کی ، پھر اس کو اس (کنویں) میں انڈیل دیا ، پھر فرمایا :’’ کچھ دیر اسے رہنے دو ۔‘‘ چنانچہ (اس کے بعد) انہوں نے خود پیا ، اپنے جانوروں کو پلایا اور کوچ کرنے تک یہ (پینے ، پلانے کا) سلسلہ جاری رہا ۔ رواہ البخاری ۔
عوف ؒ ابورجاء سے اور وہ عمران بن حصین ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے ، لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی ، آپ سواری سے نیچے اترے ، اور آپ نے فلاں شخص کو آواز دی ، ابورجاء نے اس شخص کا نام لیا تھا لیکن عوف اس کا نام بھول گئے ، اور آپ نے علی ؓ کو بھی بلایا اور فرمایا :’’ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو ، وہ دونوں گئے اور پانی کی تلاش شروع کی ، وہ چلتے گئے حتیٰ کہ وہ ایک عورت سے ملے جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے اور خود ان کے درمیان بیٹھی جا رہی تھی ، وہ دونوں اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے ، انہوں نے اس کو اس کے اونٹ سے نیچے اتار لیا اور نبی ﷺ نے ایک برتن منگایا اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے ، اور تمام لوگوں میں اعلان کرا دیا گیا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلاؤ ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ہم نے اپنے تمام مشکیزے اور برتن بھی بھر لیے ، اللہ کی قسم ! جب ان سے پانی لینا بند کر دیا تو ہمیں ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب ان میں پانی پہلے سے بھی زیادہ ہے ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے حتیٰ کہ ہم نے ایک وسیع وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ، آپ نے اوٹ کے لیے کوئی چیز نہ دیکھی البتہ وادی کے کنارے پر دو درخت دیکھے ، رسول اللہ ﷺ ان میں سے ایک کی طرف چل دیے ، اور اس کی ایک شاخ پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ چنانچہ اس نے نکیل دیئے ہوئے اونٹ کی طرح جھک کر آپ کے اوپر پردہ کیا ، جس طرح وہ اپنے قائد کی اطاعت کرتا ہے ، پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر ۔‘‘ وہ بھی اسی طرح آپ پر جھک گیا ، حتیٰ کہ جب وہ دونوں نصف فاصلے پر پہنچ گئے تو فرمایا :’’ اللہ کے حکم سے مجھ پر سایہ کر دو ۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں قریب ہو گئے (حتیٰ کہ آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے) میں بیٹھا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ، اور میں نے دونوں درختوں کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ہو گئے ، اور ہر ایک اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا ۔ رواہ مسلم ۔
یزید بن ابی عبید ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے سلمہ بن اکوع ؓ کی پنڈلی پر چوٹ کا نشان دیکھا تو میں نے کہا : ابومسلم ! یہ چوٹ کیسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ چوٹ مجھے غزوۂ خیبر کے موقع پر لگی تھی ، لوگوں نے تو کہہ دیا تھا : سلمہ ؓ شہید ہو گئے ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہاں تین بار دم کیا اور پھر آج تک مجھے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوئی ۔ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے زید ، جعفر اور ابن رواحہ ؓ کی خبر شہادت آنے سے پہلے ہی ان کی شہادت کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زید نے پرچم تھام لیا اور وہ شہید کر دیے گئے ، پھر جعفر نے تھام لیا وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابن رواحہ نے تھام لیا تو وہ بھی شہید کر دیے گئے ۔‘‘ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔’’ حتیٰ کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے پرچم تھام لیا اور اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ حنین کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ، جب مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جبکہ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر کو کفار کی طرف بھگا رہے تھے اور میں رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا ، میں اس (خچر) کو روک رہا تھا کہ وہ تیز نہ دوڑے جبکہ ابوسفیان بن حارث رسول اللہ ﷺ کی رکاب تھامے ہوئے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عباس ! درخت (کے نیچے بیعت رضوان کرنے) والوں کو آواز دو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، عباس ؓ کی آواز بلند تھی ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے اپنی بلند آواز سے کہا : درخت (کے نیچے بیت کرنے) والے کہاں ہیں ؟ وہ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! جب انہوں نے میری آواز سنی تو وہ اس طرح واپس آئے جس طرح گائے اپنی اولاد کے پاس آتی ہے ، انہوں نے عرض کیا ، ہم حاضر ہیں ! ہم حاضر ہیں ! راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کفار سے قتال کیا اس روز انصار کا نعرہ یا انصار تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، پھر یہ نعرہ بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو کر رہ گیا ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے خچر پر سے میدانِ جنگ کی طرف دیکھا تو فرمایا :’’ اب میدانِ جنگ گرم ہو گیا ہے ۔‘‘ پھر آپ نے کنکریاں پکڑیں اور انہیں کافروں کے چہروں پر پھینکا ، پھر فرمایا :’’ محمد کے رب کی قسم ! وہ شکست خوردہ ہیں ۔‘‘ اللہ کی قسم ! ان کی طرف کنکریاں پھینکنا ہی ان کی شکست کا باعث تھا ، میں ان کی حدت ، ان کی لڑائی اور ان کی تلواروں کو کمزور ہی دیکھتا رہا ، اور ان کے معاملے کو ذلیل ہی دیکھتا رہا ۔ رواہ مسلم ۔
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے براء ؓ سے کہا : ابو عمارہ ! غزوۂ حنین کے موقع پر تم لوگ بھاگ گئے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نہیں پھرے تھے ، لیکن آپ کے صحابہ میں سے کچھ نوجوان ، جن کے پاس زیادہ اسلحہ نہیں تھا ، ان کا سامنا ایسے ماہر تیر اندازوں سے ہوا ، جن کا کوئی تیر خطا نہیں جاتا تھا ، انہوں نے ان پر تیر برسائے ، وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے ، اور ابوسفیان بن حارث آپ کے آگے تھے ، آپ خچر سے نیچے اترے اور اللہ سے مدد طلب کی ، اور آپ ﷺ اس وقت فرما رہے تھے :’’ میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘ پھر آپ نے ان کی صف بندی فرمائی ۔ رواہ مسلم ۔
اور صحیح بخاری میں اسی کے ہم معنی ہے ۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے ، براء ؓ بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم ! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کے ذریعے بچاؤ کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ شجاع وہ تھا جو (میدانِ جنگ میں) نبی ﷺ کے برابر رہتا ۔ متفق علیہ ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے ، رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ ؓ پیٹھ پھیر گئے ، جب وہ (کافر) رسول اللہ ﷺ پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے اور زمین سے مٹی کی مٹھی بھری ، پھر اسے ان کے چہروں کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا :’’ (ان کے) چہرے جھلس جائیں ۔‘‘ اس مٹھی سے ان تمام انسانوں (کافروں) کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ، اللہ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم فرمایا ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ حنین میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں ، جو آپ کے ساتھ تھا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا تھا ، فرمایا :’’ یہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بہت جرأت کے ساتھ لڑا اور بہت زیادہ زخمی ہو گیا ، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں کہ آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے اس نے تو اللہ کی راہ میں بہت جرأت کے ساتھ لڑائی لڑی ہے اور اس نے بہت زیادہ زخم کھائے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! وہ جہنمیوں میں سے ہے ۔‘‘ قریب تھا کہ بعض لوگ شک و شبہ کا شکار ہو جاتے ، وہ آدمی ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ اس آدمی نے زخموں کی تکلیف محسوس کی اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک تیر نکالا اور اسے اپنے سینے میں پیوست کر لیا ، مسلمان یہ منظر دیکھ کر دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھائی ، فلاں شخص نے اپنے سینے میں تیر پیوست کر کے خودکشی کر لی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، بلال ! کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے ، بے شک اللہ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا گیا حتیٰ کہ آپ کو خیال گزرتا کہ آپ نے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے اسے نہیں کیا ہوتا تھا ، حتیٰ کہ ایک روز آپ میرے ہاں تشریف فرما تھے ، آپ اللہ سے بار بار دعا کر رہے تھے ، پھر فرمایا :’’ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے جس چیز کے بارے میں اللہ سے سوال کیا تھا اس نے وہ چیز مجھے دے دی ہے : دو آدمی میرے پاس آئے ، ان میں سے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پھر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : انہیں کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا : ان پر جادو کیا گیا ہے ، اس نے پوچھا : ان پر کس نے جادو کیا ہے ؟ اس نے کہا : لبید بن الاعصم یہودی نے ، اس نے کہا : کس چیز میں ؟ اس نے کہا : کنگھے اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے میں ہے ، اس نے پوچھا : وہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : ذروان کے کنویں میں ۔‘‘ چنانچہ نبی ﷺ اپنے چند صحابہ ؓ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا :’’ یہ وہ کنواں ہے جو مجھے دکھایا گیا ہے ، اور اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں ۔‘‘ پس آپ ﷺ نے اسے نکلوا دیا ۔ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اور رسول اللہ ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ، اتنے میں بنو تمیم قبیلے سے ذوالخویصرہ نامی شخص آیا اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! انصاف کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تجھ پر افسوس ! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر اور کون عدل کرے گا ، اگر میں عدل نہ کروں تو میں بھی خائب و خاسر ہو جاؤں ۔‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس کی گردن مار دوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو کہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم میں سے کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں ، اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں معمولی سمجھے گا ، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے ، اس (تیر) کے پیکان ، اس کے پٹھے پر جو کہ پیکان پر لپیٹا جاتا ہے اور تیر کے اس حصے کو جو کہ پر اور پیکان کے درمیان ہوتا ہے کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نظر نہیں آئے گا ، حالانکہ وہ (تیر) گوبر اور خون میں سے گزرتا ہے ، ان کی نشانی یہ ہے کہ ایک سیاہ فام شخص ہے اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا ہلتے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہو گا ، اور وہ لوگوں کے بہترین گروہ کے خلاف بغاوت کریں گے ۔‘‘ ابوسعید ؓ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے لڑائی لڑی ہے اور میں علی ؓ کے ساتھ تھا ، اس شخص کے متعلق حکم دیا گیا تو اسے تلاش کیا گیا اور اسے لایا گیا حتیٰ کہ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح نبی ﷺ نے اس کا حلیہ بیان کیا تھا ۔
ایک دوسری روایت میں ہے ، ایک آدمی آیا ، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، پیشانی ابھری ہوئی تھی ، داڑھی گھنی تھی ، گالیں پھولی ہوئی تھیں ، سر منڈا ہوا تھا ، اس نے کہا ، محمد ! اللہ سے ڈر جائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اور کون اس سے ڈرے گا ، اللہ نے زمین والوں پر مجھے امین بنا کر بھیجا ہے جبکہ تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو ۔‘‘ ایک آدمی نے اسے قتل کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے اسے روک دیا ، جب وہ واپس گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس شخص کے نسب سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے ، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اپنی مشرکہ والدہ کو اسلام کی دعوت پیش کرتا تھا ، ایک روز میں نے اسے دعوت پیش کی تو اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں کچھ ایسے الفاظ کہے جو مجھے ناگوار گزرے ، میں روتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت نصیب فرما دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرما ۔‘‘ میں نبی ﷺ کی دعا پر خوش ہوتا ہوا وہاں سے چلا ، جب میں دروازے پر پہنچا تو وہ بند تھا ، میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر فرمایا : ابوہریرہ ! اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ ، میں نے پانی گرنے کی آواز سن لی تھی ، انہوں نے غسل کیا ، اپنی قمیص پہنی ، اور عجلت میں چادر بھی نہ لی اور دروازہ کھول کر فرمایا : ابوہریرہ ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، میں خوشی کے آنسو بہاتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس آیا ، آپ ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دعائے خیر فرمائی ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ ، نبی ﷺ سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتا ہے ۔ اللہ کی قسم ! ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے ، میرے مہاجر بھائی بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میرے انصار بھائی اپنے اموال (کھیتوں اور باغات) میں مشغول رہا کرتے تھے ، میں ایک مسکین آدمی تھا ، میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتا ، ایک روز نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص میری اس گفتگو کے پورا ہونے تک کپڑا بچھائے رکھے گا ، پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لے گا تو وہ میرے فرامین میں سے کچھ بھی نہیں بھولے گا ۔‘‘ میں نے دھاری دار چادر بچھا دی اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور کپڑا نہیں رہتا تھا ، نبی ﷺ نے جب اپنی گفتگو مکمل فرمائی ، تو میں نے چادر کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! میں اس روز سے آج تک آپ ﷺ کے فرامین سے کچھ نہیں بھولا ۔ متفق علیہ ۔
جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ کیا تم مجھے ذوالخلصہ (بت) سے آرام نہیں پہنچاتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، ضرور ، لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا ، میں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا حتیٰ کہ میں نے آپ کے ہاتھ کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کئے ، اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اس کو (گھوڑے کی پشت پر) ثبات عطا فرما ، اسے ہدایت کی راہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے نہیں گرا ، وہ احمس قبیلے کے ڈیڑھ سو گھڑ سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے اور اسے آگ کے ساتھ جلا دیا اور اسے توڑ دیا ۔ متفق علیہ ۔