ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کسی مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو ، کیونکہ تم جو بات کرتے ہو تو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو مسلمان کسی مصیبت کے آنے پر اللہ کے حکم کے مطابق یہ دعا پڑھتا ہے : بے شک ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، اے اللہ ! میری اس مصیبت پر مجھے اجر و ثواب عطا فرما اور مجھے اس سے بہتر بدل عطا فرما ۔ تو اللہ اسے اس سے بہتر بدل عطا فرما دیتا ہے ۔‘‘ پس جب ابو سلمہ ؓ فوت ہوئے تو میں نے کہا : ابو سلمہ سے بہتر کون مسلمان شخص ہو گا ، یہ وہ پہلا گھرانا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی تھی ، پھر میں وہ دعا پڑھتی رہی تو اللہ نے مجھے بدلے میں رسول اللہ ﷺ عطا فرما دیے ۔ رواہ مسلم ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ ؓ کے پاس تشریف لائے تو ان کی نظر پھٹ چکی تھی ، آپ نے ان کی آنکھیں بند کیں پھر فرمایا :’’ جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کے پیچھے چلی جاتی ہے ۔‘‘ (یہ سن کر) ان کے اہل خانہ رونے لگے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے لیے دعا خیر ہی کرو ، کیونکہ تم جو کہتے ہو ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما ، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما ، اس کے پیچھے باقی رہ جانے والوں میں تو اس کا خلیفہ بن جا ، تمام جہانوں کے پروردگار ! ہمیں اور اسے بخش دے ، اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے منور فرما ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ عثمان بن مظعون ؓ وفات پا گئے تو رسول اللہ ﷺ نے روتے ہوئے ان کا بوسہ لیا حتیٰ کہ نبی ﷺ کے آنسو عثمان ؓ کے چہرے پر گر پڑے ۔ ضعیف ۔
حصین بن وحوح ؓ بیان کرتے ہیں کہ طلحہ بن براء ؓ بیمار ہو گئے ، نبی ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا خیال ہے کہ طلحہ فوت ہونے والا ہے ، پس اس کی مجھے اطلاع کرنا اور (دفن کرنے میں) جلدی کرنا ، کیونکہ مسلمان میت کو اس کے اہل خانہ کے پاس روک رکھنا مناسب نہیں ۔‘‘ ضعیف ۔
عبداللہ بن جعفر ؓ بیان کرتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے قریب المرگ افراد کو ان کلمات کی تلقین کرو : اللہ حلیم و کریم کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اللہ عرش عظیم کا رب پاک ہے ، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! (یہ کلمات) زندوں کے متعلق کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بہت خوب ! بہت خوب ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قریب المرگ کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر تو وہ صالح شخص ہو تو وہ کہتے ہیں : پاکیزہ جسم میں پاکیزہ روح نکل ، نکل تو قابل تعریف ہے ، راحت و رزق کے ساتھ خوش ہو جا ، رب تجھ پر ناراض نہیں ، اسے اسی طرح مسلسل کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نکل آتی ہے ، پھر اسے آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، پھر یہ پوچھا جاتا ہے ، یہ کون ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں ، فلاں ہے ، تو اسے کہا جاتا ہے ، پاکیزہ جسم میں پاکیزہ جان خوش آمدید ، قابل تعریف (روح) داخل ہو جا ، راحت و رزق کے ساتھ خوش ہو جا ، رب تجھ پر ناراض نہیں ، اسے مسلسل ایسے کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جہاں اللہ ہے ، لیکن اگر برا شخص ہو تو وہ (ملک الموت) کہتا ہے : جسد خبیث میں بسنے والی خبیث روح نکل ، مذموم صورت میں نکل ، کھولتے پانی اور پیپ کے ساتھ خوش ہو جا ، اور اسی طرح کے ملتے جلتے دوسرے عذاب بھی ، اسے ایسے ہی کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نکل آتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو اس کے لیے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے ، اور پوچھا جاتا ہے : یہ کون ہے ؟ تو بتایا جاتا ہے : فلاں ہے ، اسے کہا جاتا ہے : جسد خبیث میں بسنے والی خبیث روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں ، مذموم صورت میں واپس چلی جا ، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ، اسے آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے ، پھر وہ قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں ۔‘‘ حماد (راوی) نے بیان کیا ہے ، آپ نے اس کی اچھی خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کا ذکر کیا ، فرمایا :’’ آسمان والے کہتے ہیں ، زمین کی طرف سے ایک پاکیزہ روح آئی ہے ، اللہ تجھ پر اور اس جسد پر ، رحمتیں نازل فرمائے ، جس میں تو آباد تھی ، اسے اس کے رب کی طرف لے جایا جاتا ہے ، پھر وہ فرماتا ہے : اسے آخری اجل (قیامت) تک (اس کے مقام پر) لے چلو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کافر شخص کی روح نکلتی ہے ۔‘‘ حماد (راوی) بیان کرتے ہیں آپ نے اس کی بدبو اور لعنت کا ذکر کیا ’’ تو آسمان والے کہتے ہیں زمین کی طرف سے ایک خبیث روح آئی ہے ، تو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اس کی آخری اجل تک لے چلو ۔‘‘ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے جسم والے کپڑے کو اس طرح اپنی ناک پر رکھ لیا ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب مومن شخص کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم لے کر آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں : راضی ہونے والی پسندیدہ روح نکل ، اللہ کی راحت و رزق کی طرف چل ، رب تجھ پر ناراض نہیں ، تو وہ بہترین کستوری کی خوشبو کی طرح نکلتی ہے حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے سے اسے لیتے ہیں اور اسی طرح کرتے ہوئے وہ اسے آسمان کے دروازوں کے پاس لے آتے ہیں ، تو وہ کہتے ہیں ، زمین سے یہ کیسی پاکیزہ خوشبو تمہارے پاس آئی ہے ، وہ اسے مومنوں کی روحوں کے پاس لے آتے ہیں ، تو انہیں اس کے آنے پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جیسے تم میں سے کسی کو اپنے بچھڑ جانے والے کے ملنے پر خوشی ہوتی ہے ، وہ اس سے پوچھتے ہیں : فلاں کا کیا حال ہے ؟ فلاں کا کیا حال ہے ؟ پھر وہ کہتے ہیں : اسے چھوڑ دو ، کیونکہ وہ دنیا کے غم میں مبتلا تھا ، تو وہ (مرنے والا) کہتا ہے : وہ تو (جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو) فوت ہو چکا ہے ، کیا تمہارے پاس نہیں آیا ؟ وہ کہتے ہیں : اسے تو اس کے ٹھکانے ’’ ہاویہ ‘‘ (جہنم کا نام) میں پہنچا دیا گیا ، اور جب کافر شخص کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے بالوں کا لباس لے کر اس کے پاس آتے ہیں ، اور اسے کہتے ہیں : ناراض ہونے والی ناپسندیدہ روح نکل اور اللہ عزوجل کے عذاب کی طرف چل ، وہ مردار کی انتہائی بدبو کی صورت میں نکلتی ہے ، حتیٰ کہ وہ اسے زمین کے دروازے کے پاس لے کر آتے ہیں ، تو وہ کہتے ہیں : یہ کتنی بدبودار ہے حتیٰ کہ وہ اسے کافروں کی روحوں کے پاس لے آتے ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و النسائی ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ایک انصاری شخص کے جنازے میں شریک ہوئے ، ہم قبر تک پہنچ گئے ، ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ، رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے پاس بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے ہوں ، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے ، آپ ﷺ نے سر اوپر اٹھایا تو فرمایا :’’ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ آپ نے دو یا تین بار ایسے فرمایا ، پھر فرمایا :’’ بندہ مومن جب دنیا سے رابطہ توڑ کر آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو سورج کی طرح چمکتے دمکتے سفید چہروں والے فرشتے جنتی خوشبو اور جنتی کفن لے کر اس کے پاس آتے ہیں ، حتیٰ کہ وہ حد نظر تک اس کے پاس سے بیٹھ جاتے ہیں ، پھر ملک الموت ؑ تشریف لاتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں ، پاکیزہ روح ! اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا مندی کی طرف چل ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے ، وہ اسے اخذ کر لیتا ہے ، جب وہ اسے اخذ کر لیتا ہے تو وہ (فرشتے) اسے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اس کے پاس نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ وہ اسے لے کر اس کفن اور اس خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں ، اور پھر روئے زمین پر پائی جانے والی بہترین کستوری کی خوشبو اس سے نکلتی ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ فرشتے اسے لے کر اوپر کی طرف بلند ہوتے ہیں ، اور یہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں یہ خوشبو کیسی ہے ؟ تو وہ اس کے دنیا کے ناموں میں بہترین نام لے کے بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں کی روح ہے حتیٰ کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں ، اور اس کے لیے دروازہ کھولنے کی اجازت طلب کرتے ہیں ، تو وہ ان کے لیے کھول دیا جاتا ہے ، پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں حتیٰ کہ اسے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے کا نامۂ اعمال علّیین میں لکھ دو اور اسے واپس دنیا کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے ، اسی میں انہیں لوٹاؤں گا اور دوبارہ پھر اسی سے انہیں نکالوں گا ۔‘‘ فرمایا :’’ اس کی روح اسی کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے تو دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ، پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ، پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیا گیا ، کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ، وہ پوچھتے ہیں : تمہیں کیسے پتہ چلا ؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی تو میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ، پس آسمان سے آواز آتی ہے : میرے بندے نے سچ کہا : اس کے لیے جنتی بچھونا بچھا دو ، اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ۔‘‘ فرمایا :’’ وہاں سے ہوا کے جھونکے اور خوشبو اس کے پاس آتی ہے ، اور حد نظر تک اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ خوبصورت چہرے ، خوبصورت لباس اور بہترین خوشبو والا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے تو وہ کہتا ہے : اس چیز سے خوش ہو جا جو چیز تجھے خوش کر دے ، یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ، تو وہ اس سے پوچھتا ہے : تو کون ہے ؟ تیرا چہرہ بھلائی لانے والا چہرہ ہے ، وہ جواب دیتا ہے : میں تیرا عمل صالح ہوں ، وہ کہتا ہے : میرے رب ! قیامت قائم فرما ، میرے رب قیامت قائم فرما حتیٰ کہ میں اپنے اہل و مال کی طرف چلا جاؤں ۔‘‘ فرمایا :’’ جب کافر دنیا سے رابطہ منقطع کر کے آخرت کی طرف توجہ کرتا ہے تو سیاہ چہروں والے فرشتے بالوں سے بنا ہوا ایک کمبل لے کر آسمان سے نازل ہوتے ہیں ، وہ اس سے حد نظر کے فاصلے تک بیٹھ جاتے ہیں ، پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں : خبیث روح ! اللہ کی ناراضی کی طرف چل ، فرمایا : وہ (روح) اس کے جسد میں پھیل جاتی ہے ، تو وہ اسے ایسے کھنچتا ہے جیسے لوہے کی سلاخ کو گیلے اون سے کھینچا جاتا ہے ، وہ (ملک الموت) اسے اخذ کر لیتا ہے ، جب وہ اسے اخذ کرتا ہے تو وہ (فرشتے) پلک جھپکنے کے برابر بھی اسے اس کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے حتیٰ کہ وہ اسے اس بالوں سے بنے ہوئے کمبل میں لپیٹ لیتے ہیں ، اور اس سے زمین کے مردار سے نکلنے والی انتہائی بری بدبو نکلتی ہے ، وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں ، کیسی خبیث روح ہے ؟ وہ کہتے ہیں : فلاں بن فلاں کی ، اور وہ اس کا دنیا کا انتہائی قبیح نام لے کر بتاتے ہیں ، حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا تک لے جایا جاتا ہے ، اس کے لیے دروازے کھولنے کے لیے درخواست کی جاتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا ۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ ان کے لیے آسمان کے روازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں بھی داخل نہیں ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے گزر جائے ۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے :’’ اس کی کتاب کو سب سے نچلی زمین میں سجین میں لکھ دو ، پھر اس کی روح کو شدت کے ساتھ پھینک دیا جاتا ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا ، تو اب پرندے اسے اچک لیں یا ہوا اسے کسی دور جگہ پر پھینک دے ۔‘‘ اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ وہ حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے : ہائے ! ہائے ! میں نہیں جانتا ، پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے : ہائے ! افسوس ! میں نہیں جانتا ، پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ شخص جو تم میں مبعوث کیا گیا کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہائے ! افسوس ! میں نہیں جانتا ، آسمان سے آواز آتی ہے ، اس نے جھوٹ بولا ، اس کے لیے جہنم سے بچھونا بچھا دو ، اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو ، وہاں سے گرمی اور گرم ہوا اسے آتی رہے گی اور اس کی قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جائے گا کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری کے اندر داخل ہو جائیں گی ، اور ایک قبیح چہرے والا شخص ، قبیح لباس اور انتہائی بدبودار حالت میں اس کے پاس آئے گا اور اسے کہے گا : تمہیں ایسی چیزوں کی خوشخبری ہو جو تجھے غم زدہ کر دیں ، یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ، وہ پوچھے گا تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے کسی خیر کی توقع نہیں ، وہ جواب دے گا : میں تیرا خبیث عمل ہوں ، تو وہ کہے گا : میرے رب ! قیامت قائم نہ کرنا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے :’’ جب اس (مومن) کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے مابین اور آسمان کے تمام فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا طلب کرتے ہیں ، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، ہر دروازے والے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح ان کی طرف سے بلند کی جائے ، اور اس یعنی کافر کی روح رگوں سمیت کھینچی جاتی ہے اور زمین و آسمان کے مابین والے تمام فرشتے اور آسمان والے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں ، آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور تمام دربان فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح کو ہماری طرف سے بلند نہ کیا جائے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد ۔
عبدالرحمن بن کعب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب کعب ؓ کی وفات کا وقت ہوا تو ام بشر بنت براء بن معرور ؓ ان کے پاس آئیں ، تو انہوں نے کہا : ابوعبدالرحمن ! اگر تم فلاں (ان کے باپ براء کی روح) سے ملاقات کرو تو اسے میرا سلام کہنا ، انہوں نے کہا : ام بشیر ! اللہ آپ کو معاف فرمائے ، ہمیں اس کی فرصت کہاں ملے گی ، ام بشیر نے فرمایا : ابوعبدالرحمن ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے نہیں سنا :’’ مومنوں کی روحیں سبز پرندوں (کے جسم میں) جنت کے درختوں سے کھاتی ہوں گی ۔‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ! سنا ہے ۔ تو ام بشیر نے فرمایا : پس یہی وہ ہے ۔ ضعیف ۔
عبدالرحمن بن کعب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کی روح پرندے کی شکل میں جنت کے درخت سے کھاتی ہے حتیٰ کہ اللہ جس روز اسے اٹھائے گا تو اسے اس کے جسم میں لوٹا دے گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک و النسائی و البیھقی ۔
محمد بن منکدر ؒ بیان کرتے ہیں ، جب جابر بن عبداللہ ؓ پر نزع کا عالم طاری تھا تو میں ان کے پاس گیا تو میں نے انہیں کہا : رسول اللہ ﷺ کو سلام کہنا ۔ صحیح ، رواہ ابن ماجہ ۔