Blog
Books
Search Hadith

شہداء کی فضیلت

448 Hadiths Found
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں ہے، جو وفات پائے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں خیر ہو اور وہ پھر بھی دنیا کی طرف لوٹنے کو پسند کرے، ما سوائے شہید فی سبیل اللہ کے، پس بیشک وہ یہ پسند کرتا ہے کہ وہ واپس لوٹے اور اس کو دوبارہ شہید کر دیا جائے۔

Haidth Number: 4886
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شہید کا ذکر کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک زمین شہید کے خون سے خشک نہیں ہو پاتی کہ اس کی دو بیویاں اس کی طرف لپکتے ہوئے آتی ہیں، گویا کہ وہ دو دایاں ہیں، جوبے آب و گیاہ زمین میں اپنے بچے پر سایہ کر رہی ہوں یا غائب ہونے والے بچے کو پا لینے پر اس پر سایہ کر رہی ہوں، ان میں ہر ایک کے ہاتھ میں ایک پوشاک ہوتی ہے، اس کی قیمت دنیا وما فیہا سے زیادہ ہوتی ہے۔

Haidth Number: 4887
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے قسم اٹھائی، لیکن پھر دیکھا کہ بہتری کسی دوسری چیز میں ہے تو وہ بہتر چیز کو اختیار کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔

Haidth Number: 5338
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی چیز پر قسم اٹھائی، لیکن پھر کسی دوسری چیز میں بہتری محسوس کی تو اس قسم کا کفارہ یہ ہو گا کہ وہ آدمی اس کو ترک کر دے۔

Haidth Number: 5339
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی چیز پر قسم اٹھائی، لیکن پھر اس نے دیکھا کہ دوسری چیز اس سے بہتر ہے تو اس پہلی چیز کو نہ کرنا ہی اس قسم کا کفارہ ہو گا۔

Haidth Number: 5340
۔ سیدنا مالک بن نضلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور صلہ رحمی کی طرف۔ میں نے کہا: میرا ایک چچا زاد میرے پاس آتا ہے اور میں قسم اٹھا لیتا ہوں کہ میں اس کو کچھ نہیں دوں گا، پھر میں اس کو کچھ دے دیتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اپنی قسم کا کفارہ دے اور بہتر چیز کو اختیار کر، توخود غور کر کہ اگر تیرے دو غلام ہوں، ان میں اے ایک غلام تیری اطاعت کرتا ہو، تجھ سے خیانت نہ کرتا ہو اور نہ تجھ سے جھوٹ بولتا ہو، جبکہ دوسرا غلام خیانت کرتا ہو اور جھوٹ بولتا ہو۔ میںنے کہا: نہیں، بلکہ وہی جو خیانت نہیں کرتا اور جھوٹ نہیں بولتا اور سچی بات کرتا ہے، وہ مجھے زیادہ پسند ہو گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی اپنے ربّ کے ہاں ایسے ہی ہو۔

Haidth Number: 5341
۔ سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اے عبد الرحمن بن سمرہ! جب تو کسی چیز پر قسم اٹھا لے اور پھر کسی دوسری چیز کو بہتر خیال کرے تو تو بہتر چیز کو اختیار کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔

Haidth Number: 5342
۔ سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی کسی چیز پر قسم اٹھا لے، لیکن پھر کسی دوسرے چیز کو بہتر سمجھے تو وہ بہتر چیز کو اختیار کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔

Haidth Number: 5343
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے قسم اٹھا لی، لیکن پھر اس نے بہتری کسی اور چیز میں دیکھی تو وہ بہتر چیز کو اختیار کر لے اور اپنی قسم کو چھوڑ دے۔

Haidth Number: 5344
۔ تمیم بن طرفہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے سو درہموں کا سوال کیا، انھوں نے کہا: تو مجھ سے سو درہم کا سوال کرتا ہے، جبکہ میں حاتم کا بیٹا ہوں، اللہ کی قسم! میں تجھ کو نہیں دوں گا، لیکن پھر انھوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ جو قسم اٹھا لے، لیکن پھر کسی اور چیز میں بہتری محسوس کرنے لگے تو وہ بہتر چیز کو اختیار کر لے۔ (تو میں تجھے کچھ نہ دیتا، پھر اس کو چار سو درہم دے دیئے)

Haidth Number: 5345

۔ (۵۳۴۶)۔ عَنْ زَہْدَمٍ الْجَرْمِیِّ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ أَبِی مُوسٰی فَقَدَّمَ فِی طَعَامِہِ لَحْمَ دَجَاجٍ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَیْمِ اللّٰہِ أَحْمَرُ کَأَنَّہُ مَوْلًی فَلَمْ یَدْنُ قَالَ لَہُ أَبُومُوسَی: ادْنُ فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْکُلُ مِنْہُ، قَالَ: إِنِّی رَأَیْتُہُ یَأْکُلُ شَیْئًا فَقَذِرْتُہُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَہُ أَبَدًا، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْکَ عَنْ ذٰلِکَ، إِنِّی أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رَہْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِیِّینَ نَسْتَحْمِلُہُ وَہُوَ یَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ أَیُّوبُ: أَحْسِبُہُ وَہُوَ غَضْبَانُ، فَقَالَ: ((لَا وَاللّٰہِ مَا أَحْمِلُکُمْ، وَمَا عِنْدِی مَا أَحْمِلُکُمْ۔)) فَانْطَلَقْنَا فَأُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَہْبِ إِبِلٍ، فَقَالَ: ((أَیْنَ ہٰؤُلَائِ الْأَشْعَرِیُّونَ؟)) فَأَتَیْنَا فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرٰی فَانْدَفَعْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَسْتَحْمِلُہُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا یَحْمِلَنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیْنَا فَحَمَلَنَا، فَقُلْتُ: نَسِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمِینَہُ، وَاللّٰہِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمِینَہُ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ارْجِعُوا بِنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلْنُذَکِّرْہُ یَمِینَہُ، فَرَجَعْنَا إِلَیْہِ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَیْنَاکَ نَسْتَحْمِلُکَ فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَعَرَفْنَا أَوْ ظَنَنَّا أَنَّکَ نَسِیتَ یَمِینَکَ، فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((انْطَلِقُوا فَإِنَّمَا حَمَلَکُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ إِنْ شَاء َ اللّٰہُ لَا أَحْلِفُ عَلٰی یَمِینٍ، فَأَرٰی غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا أَتَیْتُ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ وَتَحَلَّلْتُہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۹۸۲۰)

۔ زہدم جرمی کہتے ہیں: ہم سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے مرغی کا گوشت پیش کیا، بنو تیم اللہ قبیلے کا ایک آدمی بھی وہاں موجود تھا، اس کا رنگ سرخ تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ وہ غلام ہے، وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا، سیدنا ابوموسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: قریب آ جا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے، اس نے کہا: میں نے اس کو ایک ایسی چیز کھاتے ہوئے دیکھا کہ اس وجہ سے میں ا س سے گھن محسوس کی اور قسم اٹھا لی کہ میں اس کو کبھی بھی نہیں کھاؤں گا، انھوں نے کہا: قریب ہو جا، میں تجھے اس کے بارے میں بھی خبر دیتا ہوں، میں اشعریوں کے ایک گروہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواریوں کا سوال کرنے آئے تھے اور اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زکوۃ کے اونٹ تقسیم کر رہے تھے، ایوب راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تم کو سواریاں نہیں دوں گا، اور نہ میرے پاس اب سواریاں ہیں۔ سو ہم واپس چلے گئے، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مالِ غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ اشعری لوگ کہاں ہیں؟ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے لیے سفید کوہانوں والے پانچ اونٹوں کا حکم دیا، ہم وہ لے کر واپس چلے گئے، میں (ابو موسی) نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سواریاں مانگنے کے لیے آئے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قسم اٹھائی تھی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم کو پیغام بھیج کر بلا لیا اور ہمیں سواریاں دے دیں، میں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی قسم کے بارے میں بھول گئے ہیں، اللہ کی قسم! اگر ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قسم سے غافل کر دیا تو ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو ں گے، لے جاؤ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف، تاکہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قسم یاد کروائیں، پس ہم لوٹ آئے اور ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سواریوں کا مطالبہ کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے تھے، لیکن آپ نے قسم اٹھا لی تھی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں سواریاں دے دیں، اب ہمیں یہ گمان ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی قسم کے بارے میں بھول گئے ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تم کو سواریاں دی ہیں، رہا مسئلہ میرا تو اللہ کی قسم ہے کہ ان شاء اللہ میں جب بھی قسم اٹھاتا ہوں اور پھر کسی اور چیز کو بہتر محسوس کرتا ہوں تو میں وہی اختیار کرتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔

Haidth Number: 5346
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مگر میں اسی چیز کو اختیار کرتا ہوں، جو بہتر ہوتی ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ یا فرمایا: بیشک میں اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور بہتر چیز کو اختیار کر لیتا ہوں۔

Haidth Number: 5347
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری کا سوال کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مصروف پایا، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواریاں نہیں دوں گا۔ جب وہ جانے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور سواری دے دی، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ مجھے سواری نہیں دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس میں قسم اٹھاتا ہوں کہ تم کو ضرور ضرور سواری دوں گا۔

Haidth Number: 5348
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ایک چیز پر قسم اٹھائی، لیکن بعد میں کسی اور چیز میں خیر دیکھی تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔

Haidth Number: 5349
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنے اہل کے معاملے میں کوئی قسم اٹھائے اور (بزعم خود) سچا بنتا پھرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت گنہگار ہو گا، اس کفارہ سے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا۔

Haidth Number: 5350
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب کوئی آدمی اپنے اہل کے معاملہ میں کوئی قسم اٹھاتا ہے اور (اس قسم کے بہانے اڑا رہتا ہے) تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے زیادہ گنہگار ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرض کیا ہوا کفارہ ادا کر دے۔

Haidth Number: 5351

۔ (۵۶۵۳۔) حَدَّثَنِی شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُکْثِرُ فِی دُعَائِہِ أَنْ یَقُولَ: ((اَللّٰھُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَوَإِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ، قَالَ: ((نَعَمْ، مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ بَشَرٍ إِلَّا أَنَّ قَلْبَہُ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ، فَإِنْ شَائَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَہُ وَإِنْ شَائَ اللّٰہُ أَزَاغَہُ، فَنَسْأَلُ اللّٰہَ رَبَّنَا أَنْ لَا یُزِیغَ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا، وَنَسْأَلُہُ أَنْ یَہَبَ لَنَا مِنْ لَدُنْہُ رَحْمَۃً، إِنَّہُ ہُوَ الْوَہَّابُ۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا تُعَلِّمُنِی دَعْوَۃً أَدْعُو بِہَا لِنَفْسِی؟ قَالَ: ((بَلٰی، قُولِی اَللّٰھُمَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ! اِغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ مَا أَحْیَیْتَنَا۔))(مسند أحمد: ۲۷۱۱۱)

۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کثرت سے یہ دعا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ (اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا)۔ ایک دن میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا دل بھی الٹ پلٹ ہو جاتے ہیں (کہ آپ کثرت سے یہ دعا کرتے ہیں)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل، بنو آدم میں سے ہر بشر کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں میں ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو قائم رکھے گا اور چاہے تو ٹیڑھاکر دے گا، پس ہم اپنے رب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوٹیڑھا نہ کرے اور ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر دے، بیشک وہ عطا کرنے والا ہے۔ میں (ام سلمہ) نے کہا: کیا آپ مجھے بھی کوئی دعا سکھلا دیں گے، تاکہ میں اس کے ساتھ اپنے نفس کے لیے دعا کیا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی کیوں نہیں، یہ دعا پڑھا کرو: اَللّٰھُمَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ! اِغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ مَا أَحْیَیْتَنَا (اے اللہ! اے میرے ربّ! نبی محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے ربّ! میرے لیے میرے گناہ بخش دے، میرے دل کے غصے کو دور کر دے اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا دے، جب تک تو ہمیں زندہ رکھے)۔

Haidth Number: 5653
۔ سیدنا نواس بن سمعان کلابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر دل ربّ العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اس کو راہ راست پر رکھے اور اگر چاہے تو ٹیڑھا کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود یہ دعا کیا کرتے تھے: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلٰی دِینِکَ (اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ)۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رحمن کے ہاتھ میں ترازو ہے، وہ اس کو پست کرتا ہے اور بلند کرتا ہے۔

Haidth Number: 5654
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول۱ آپ بھی یہ دعا کثرت سے کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اس کو ٹیڑھا کر دے اور چاہے تو سیدھا رکھے۔

Haidth Number: 5655
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ اور گھر والوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں، جبکہ ہم آپ کے ساتھ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، وہ ان کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔

Haidth Number: 5656
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک بنو آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی مانند ہیں، وہ جیسے چاہے ان کو پھیر دیتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ اصْرِفْ قُلُوبَنَا إِلٰی طَاعَتِکَ (اے اللہ! دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے)۔

Haidth Number: 5657
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی آسمان کی طرف سر اٹھایا تو یہ دعا کی: یَامُصَرِّفَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی طَاعَتِکَ (اے دلوں کو پھیر دینے والے! میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے)۔

Haidth Number: 5658
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (عربی میں دل کو) قَلْب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے، دل کی مثال درخت کے تنے کے ساتھ لٹکے ہوئے پر کی مانند ہے، جس کو ہوا سیدھا اور الٹا کرتی رہتی ہے۔

Haidth Number: 5659
۔ قریشیو ں کے غلام عطاء بن فروخ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک آدمی سے زمین خریدی، لیکن اس آدمی نے ملنے میں تاخیر کی، پھر جب وہ ملا تو اس (عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے کہا: کس چیز نے آپ کو اپنا مال قبضے میں لینے سے روک رکھا ہے؟ کہا: تم نے مجھ سے دھوکہ کیا ہے، میں جس بندے کو ملتا ہوں، وہ مجھے ملامت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: کیایہ رکاوٹ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، انھوں نے کہا: ٹھیک ہے، آپ اپنی زمین اور مال میں سے ایک چیز کو پسند کریں، پھرانھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی اس آدمی کو جنت میں داخل کرے گا،جو خریدتے وقت، بیچتے وقت، تقاضا چکاتے وقت یا تقاضا کرتے وقت نرم خوئی اختیار کرتا ہے۔

Haidth Number: 5788
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا اور مدینہ منورہ تک مجھے اس پر سواری کر لینے کا حق دیا، جب میں مدینہ پہنچا تو میں اونٹ لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اونٹ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کر دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے قیمت دینے کا حکم دیا، جب میں واپس ہوا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پیچھے ہولئے، میں نے خیال کیا کہ شاید آپ کوئی بات کرنا چاہتے ہوں، جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضرہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ مجھے تھما دیا اور فرمایا: یہ بھی تیرے لیے ہے۔ پھر میرا گزر ایکیہودی کے پاس سے ہوا، جب میں نے یہ ساری بات بتلائی تو وہ بڑا تعجب کرنے لگا، اس نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھ سے اونٹ خریدا ہے اور پھر قیمت ادا کر کے اونٹ بھی ہبہ کر دیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، بالکل ایسے ہی ہوا۔

Haidth Number: 5789
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بنا پر بخش دیا تھا کہ بیچتے وقت، خریدتے وقت، تقاضا دیتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی کرتا تھا۔

Haidth Number: 5790

۔ (۵۷۹۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: دَخَلَتْ اِمْرَأَۃٌ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: أَیْ بِاَبِیْ وَأُمِّیْ اِنِّیْ اِبْتَعْتُ أَنَا وَابْنِیْ مِنْ فُلَانٍ ثَمْرَ مَالِہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: مِنْ ثَمَرَۃِ أَرْضِہِ) فأَحْصَیْنَاہُ وَحَشَدْنَاہُ، لَا وَالَّذِیْ أَکْرَمَکَ بِمَا أَکْرَمَکَ بِہٖمَاأَصَبْنَامِنْہُشَیْئًا اِلَّا شَیْئًا نَأْکُلُہُ فِیْ بُطُوْنِنَا أَوْ نُطْعِمُہُ مِسْکِیْنًا رَجَائَ الْبَرَکَۃِ فَنَقَصْنَا عَلَیْہِ فَجِئْنَا نَسْتَوْضِعُہُ مَانَقَصْنَاہُ فَحَلَفَ بِاللّٰہِ لَایَضَعُ شَیْئًا، قَالَتْ: فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَأَلّٰی لَا أَصْنَعُ خَیْرًا (وَفِیْ لَفْظٍ: تَاَلّٰی أَنْ لَا یَفْعَلَ خَیْرًا)۔)) ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَتْ: فَبَلَغَ ذٰلِکَ صَاحِبَ التَّمْرِ فَجَائَ ہُ، فَقَالَ: أَیْ بِاَبِیْ وَأُمِّیْ إِنْ شِئْتَ وَضَعْتُ مَانَقَصُوْا وَإِنْ شِئْتَ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ مَاشِئْتَ، فَوَضَعَ مَانَقَصُوْا، قَالَ اَبُوْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ (عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْاِمَامِ اَحْمَدَ): وَسَمِعْتُہُ اَنَا مِنَ الْحَکَمِ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۰۹)

۔ سیدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فداہوں، گزارش یہ ہے کہ ایک آدمی سے میں اور میرے بیٹے نے پھل خریدا ہے، اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو وہ عزت دی ہے، جو دی ہے، جب ہم نے اسے جمع کیا اور ماپا تو اس سے صرف اتنی مقدار ہی حاصل ہوئی کہ جس سے صرف ہمارا پیٹ بھرتا ہے یا پھر حصول برکت کے لئے ہم کسی مسکین کو کھلا دیتے ہیں، اس کے علاوہ تو کوئی چیز باقی نہیں بچتی، اس پھل میں ہمارا نقصان ہوا ہے، بہرحال ہم نے جس سے خریدا ہے، اس سے اس نقصان کے بقدر معافی کامطالبہ کیا ہے، لیکن اس نے تو قسم اٹھا لی ہے کہ وہ قیمت میں کمی نہیں کرے گا، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا اس نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ خیر والا کام نہیں کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔ادھرکسی طرح پھل فروخت کرنے والے اس شخص کو اطلاع ہوگئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے، چنانچہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان کے نقصان کے بقدر معاف کر دیتا ہوں،نیز آپ راس المال میں سے جو چاہتے ہیں، وہ بھی کم کر دیتا ہوں۔ پھر اس نے ان کے نقصان کے بقدر معاف کر دیا تھا۔ ابو عبد الرحمن نے کہا: میں نے یہ حدیث حکم سے سنی ہے۔

Haidth Number: 5791

۔ (۵۷۹۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: اِبْتَاعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْاَعْرَابِ جَزُوْرًا أَوْ جَزَائِرَ بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ، وَتَمْرُ الذَّخِیْرَۃِ الْعَجْوَۃُ، فَرَجَعَ بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَیْتِہِ وَالْتَمَسَ لَہُ التَّمْرَ فَلَمْ یَجِدْہُ فَرجَعَ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا عَبْدِ اللّٰہِ! اِنَّا قَدِ ابْتَعْنَا مِنْکَ جَزُوْرًا أَوْ جَزَائِرَ بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ فَالْتَمَسْنَاہُ فَلَمْ نَجِدْہُ، قَالَتْ: فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ: وَاغَدْرَاہُ! قَالَتْ: فَنَہَمَہُ النَّاسُ وَقَالُوْا: قَاتَلَکَ اللّٰہُ، أَیَغْدِرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَتْ: فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((دَعَوْہُ فَاِنََّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا۔)) ثُمَّ عَادَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ! اِنَّا قَدِ ابْتَعْنَا مِنْکَ جَزَائِرَکَ وَ نَحْنُ نَظُنُّ أَنَّ عِنْدَنَا مَاسَمَّیْنَا لَکَ فَالْتَمَسْنَاہُ فَلَمْ نَجِدْہُ)) فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ: وَاغَدْرَاہُ! فَنَہَمَہُ النَّاسُ وَقَالُوْا: قَاتَلَکَ اللّٰہُ، أَیَغْدِرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((دَعَوْہُ فَاِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا۔)) فَرَدَّدَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّتَیْنِ اَوْثَلَاثًا، فَلَمَّا رَاٰہُ لَا یَفْقَہُ عَنْہُ، قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہِ: ((اِذْھَبْ اِلَی خُوَیَلَۃَ بِنْتِ حَکَیْمِ بْنِ أُمَیَّۃَ فَقُلْ لَھَا: رَسُوْلُ اللّٰہِ یَقُوْلُ لَکَ اِنْ کَانَ عِنْدَکَ وَسْقٌ مِنْ تَمْرِ الذَّخِیْرَۃِ فَاَسْلِفِیْنَاہُ حَتّٰی نُؤَدِّیَہُ إِلَیْکِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَذَھَبَ اِلَیْہَا الرَّجُلُ ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: قَالَتْ: نَعَمْ ھُوَ عِنْدِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَابْعَثْ مَنْ یَقْبِضُہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلرَّجُلِ: ((اِذْھَبْ فَأَوْفِہِ الَّذِیْ لَہُ۔)) قَالَ: فَذَھَبَ بِہٖفَأَوْفَاہُالَّذِیْ لَہُ، قَالَتْ: فَمَرَّ الْأَعْرَابِیُّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ جَالِسٌ فِیْ أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ أَوْفَیْتَ وَأَطْیَبْتَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُوْلٰئِکَ خِیَارُ عِبَادِ اللّٰہِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُوْفُوْنَ الْمُطِیَّبُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۴۳)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی سے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک وسق یعنی ساٹھ صاع ذَخِیرہ کییعنی عجوہ کھجور کے عوض چند اونٹ خریدے، جب رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیمت کی ادائیگی کے لئے گھر تشریف لائے تو گھر میں کھجور یں ختم ہوچکی تھیں، پس باہر آکر اس یہاتی سے فرمایا: اللہ کے بندے!میںنے بسیار تلاش تو کیا ہے، مگر تیرے اونٹوںکی قیمت اداکرنے کے لئے مجھے کھجور یں نہ مل سکیں۔)) اس دیہاتی نے تو یہ کہنا شروع کردیا: ہائے یہ کیاعہد شکنی ہے ؟ لوگوں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: اللہ تجھے ہلاک کرے، کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی عہد شکنی کرتے ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، حق لینے والا باتیں سناتا رہتاہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات دوہرائی اور فرمایا: او اللہ کے بندے! ہم نے تجھ سے اونٹ خریدے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہمارے پاس وہ چیزیں ہیں، جو ہم نے تجھ سے ان کا بھاؤ طے کیا اور تلاش بھی کیا ہے، لیکن وہ مل نہیں سکیں۔ یہ سن کر وہ پھر کہنے لگا: ہائے یہ کیا عہد شکنی ہے، لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہا: اللہ تجھے ہلاک کرے، کیا اللہ کے رسول بھی دھوکہ کرتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو کچھ نہ کہو، جس نے حق لینا ہوتا ہے، وہ باتیں کرتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو تین مرتبہ یہی بات دہرائی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب دیکھاکہ وہ دیہاتی بات سمجھ نہیں پارہاتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: خویلہ بنت حکیم کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ اگر تمہارے پاس ایک وسق عجوہ کھجوریں ہیں تو ہمیں ادھار دے دو، ہم ان شاء اللہ تجھے اداکردیں گے۔ وہ آدمی گیا اور اس نے آکر بتایاکہ وہ کہتی ہے کہ اس کے پاس کھجوریں ہیں، کوئی لے جانے والا آدمی بھیج دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: جاؤ اور پوری طرح اس دیہاتی کو اس کا حق دلواؤ۔ پس وہ اِس کو لے گیا اور اس کا پورا پورا حق اس کو دلوا دیا، پھر وہ بدّو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا اور اس نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے پورا حق ادا کیا اور بڑے اچھے طریقے سے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک وہ لوگ سب سے بہتر ہیں، جو خوشدلی سے پوری طرح ادائیگی کرتے ہیں۔

Haidth Number: 5792
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو اللہ تعالی کے حضور پیش کیاگیا، اللہ تعالی نے اس سے کہا: دنیا میں کون سا عمل کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے ذرہ برابر کوئی ایسی نیکی نہیں کی کہ جس کی امیدرکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے تین بار یہ سوال دہرایا، تیسری مرتبہ اس نے کہا: اے میرے رب ! تونے مجھے دنیا میں وافر مال دیا تھا، اس لیے میں لوگوں سے تجارتی لین دین کرتاتھا، اس میںمیرا طریقہیہ تھا کہ مالداروں پرآسانی کرتاتھااور تنگدستوں کو مہلت دیتا تھا، اللہ تعالی نے کہا: ہم تیرے ساتھ ایسا حسن سلوک کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، فرشتو!میرے اس بندے سے درگزر کردو، پس اس کو معاف کر دیا گیا۔ سیدنا ابومسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اسی طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سناہے۔

Haidth Number: 5793
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے (یہ بھی) روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے کی بات ہے کہ ایک آ دمی کے پاس ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے آ یا، اُس نے اس شخص سے پوچھا: تونے بھلائی کا کوئی کام کیا ہے؟ اس نے آدمی نے کہا:مجھے تو معلوم نہیں ہے، اس نے کہا: مزید دیکھ لے، اس نے کہا: کوئی نیک عمل ذہن میں نہیں آ رہا، البتہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا اور اندازے سے لین دین کرتا تھا اور مالدار کو مہلت دیتا تھا اور تنگدست سے تجاوز کر جاتا تھا، پس اللہ تعالی نے اس کو اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کر دیا۔

Haidth Number: 5794