Blog
Books
Search Hadith

باب چہارم: دورِ اول، دورِ دوم، دورِ سوم، دورِ چہارم اور ایک روایت کے مطابق دورِ پنجم کی فضیلت کابیان

448 Hadiths Found
سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس امت کا بہترین زمانہ اور بہترین لوگ وہ ہیں، جن کے اندر مجھے مبعوث کیا گیا، ان کے بعد وہ لوگ جو اِس زمانے کے بعد آئیں گے، ان کے بعد وہ لوگ جو اِن کے بعد آئیں گے، اِن کے بعد وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر ایسے لوگ آئیں گے، جن کی قسمیں ان کی گواہی پر اوران کی گواہی ان کی قسموں سے سبقت لے جائے گی۔

Haidth Number: 12529
عبداللہ بن مولہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: اس امت کا بہترین دور وہ ہے، جس کے اندر مجھے مبعوث کیا گیا ہے، اس کے بعد صحابہ کا، اس کے بعد تابعین اور اسکے بعد تبع تابعین کادور ہے، ان کے بعد ایسے لوگ آجائیں گے کہ جن کی گواہی ان کی قسموں پر اور ان کی قسمیں ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔ عفان نے ایک مرتبہ روایت کو یوں بیان کیا: سب سے بہتر زمانہ وہ ہے، جس میں مجھے مبعوث کیا گیا، اس کے بعد صحابہ کا، اس کے بعد تابعین کا اس کے بعد تبع تابعین کا اور اس کے بعد بعدوالوں کا زمانہ ہے۔

Haidth Number: 12530
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے میرا زمانہ سب سے بہتر ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا زمانہ جو اس کے بعد آئیں گے، پھر ان کے بعد والے لوگوں کا اور پھر اس کے بعد والوں کا زمانہ بہتر ہو گا، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جن سے گواہی طلب نہ کی جائے گی، مگر وہ پھر بھی گواہی دیں گے، وہ خیانتیں کریں گے، امانتوں کا پاس نہیں کریں گے، وہ نذر مانیں گے، مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا عام ہوگا۔ سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔

Haidth Number: 12531
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: تم پر جو بھی زمانہ آئے گا، وہ گزرے ہوئے زمانہ سے بدتر ہوگا، ہم نے یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دومرتبہ سنی تھی۔

Haidth Number: 12532

۔ (۱۲۸۵۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ اَیُّوْبَ عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ اَبِیْ اَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیَ الْاَئِمَّۃَ الْمُضِلِّیْنِ۔)) وَبِہٖقَالَ: قَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ اَوْ قَالَ اِنَّ رَبِّیْ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَاِنَّ مُلْکَ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مَازَوٰی لِیْ مِنْہَا، وَاِنِّیْ اُعْطِیْتُ الْکَنْزَیْنِ الْاَحْمَرَ وَالْاَبْیَضَ، وَاِنِّیْ سَاَلْتُ رَبِّیْ لِاُمَّتِیْ اَنْ لَّا یُہْلَکُوْا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ، وَلَا یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوٰی اَنْفُسِہِمْ یَسْتَبِیْحُ بَیْضَتَہُمْ، وَاِنَّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اِنِّیْ اِذَا قَضَیْتُ قَضَائً فَاِنَّہُ لَا یُرَدُّ وَقَالَ یُوْنُسُ لَایُرَدُّ وَاِنِّیْ اَعْطَیْتُ لِاُمَّتِکَ اَنِّیْ لَااُھْلِکُہُمْ بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ، وَلاَ اَسَلِّطُ عَلَیْہِمْ عَدَوًّا مِنْ سِوٰی اَنْفُسِہِمْ یَسْتَبِیْحُ بَیْضَتَہُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَیْہِمْ مِنْ بَیْنِ اَقْطَارِھَا اَوْ قَالَ مَنْ بِاَقْطَارِھَاحَتّٰییَکُوْنَ بَعْضُہُمْ یُسْبِیْ بَعْضًا، وَاِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیَ الْاَئِمَۃَ الْمُضِلِّیْنَ وَاِذَا وُضِعَ فِیْ اُمَّتِی السَّیْفُ لَمْ یُرْفَعْ عَنْہُمْ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰییَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیَ الْاَوْثَانَ، وَاِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّہُمْ یَزْعَمُ اَنَّہُ نَبِیٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ عَلٰی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَایَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰییَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۸۱۶)

مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا ڈر ہے۔ پھر اسی سند سے سیدناثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سکیڑ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک اس نے زمین کو میرے لیے سکیڑا اور مجھے سرخ و سفید (یعنی سونے اورچاندی) کے دو خزانے عطا کیے گئے، میں نے اپنی امت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کو عام قحط کے ذریعے ہلاک نہ کیا جائے اور ان پر ان کے غیر کو مسلّط نہ کیا جائے کہ وہ ان کا ستیاناس کر دے۔ میرے ربّ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! میں جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور میں آپ کی یہ دعا آپ کی امت کے حق میں قبول کر تا ہوں کہ میں انہیں عام قحط کے ذریعے ہلاک نہیں کروں گا اور نہ ہی ان کے غیر کو ان پر مسلط کروں گا، جو انہیں قتل کر کے ان کو جڑ سے اکھاڑ دے، خواہ روئے زمین کے تمام دشمن جمع ہو کر آ جائیں، البتہ یہ ہو گا کہ یہ خود ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگیں گے، اور مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا اندیشہ ضرور ہے اور جب میری امت میں ایک دفعہ تلوار چل جائے گی،تو وہ قیامت تک بند نہیں ہو گی، نیز قیامت اس وقت تک بپا نہ ہوگی جب تک کہ میری امت کے کئی قبائل مشرکوں کے ساتھ نہیں مل جائیں گے اور میری امت کے بہت سے قبائل بتوں کی پوجا شروع کر دیں گے،عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں آخر ی نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میری امت میں ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم اور غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر یعنی قیامت آجائے گی۔

Haidth Number: 12855
مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ ساری ملّتوں والے ہر طرف سے تم پر اس طرح جھپٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان دنوں میں قلیل ہوں گے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں، بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی، لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے ساتھ بہنے والے پتوں، تنکوں اور جھاگ کی سی ہو گی اور تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکل جائے گا اور تمہارے دلوں میں وَھْن آجائے گا۔ ہم نے پوچھا: وھن سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا سے محبت کرنا اور موت کو ناپسند کرنا۔

Haidth Number: 12856
ایک صحابی رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک ہرگز ہلاک نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ وہ بہت گناہوں اور عیبوں والے نہ ہو جائیں۔

Haidth Number: 12857
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے کہ ایک آدمی محض اپنی واقفیت اور تعارف کی وجہ سے دوسرے پر سلام کرے گا۔

Haidth Number: 12858
سیدہ سلامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ چیز بھی علاماتِ قیامت سے ہے یا لوگوں کی برائیوں میں سے ہے کہ مسجد والے (سارے لوگ امامت کرانے کے لیے) ایک دوسرے کو آگے دھکیلیں گے، چنانچہ وہ کوئی امام نہیں پائیں گے، جو ان کو نماز پڑھائے۔

Haidth Number: 12859
سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد کچھ عرصہ تک ظلم بندرہے گا، پھر وہ پھیلنا شروع ہوجائے گا اور جس قدر ظلم پھیلے گا، اسی مقدار میں عدل اٹھتا جائے گا، یہاں تک کہ ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے، جوظلم کے علاوہ کسی اور چیز کو پہنچانتے نہیں ہوں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ عدل کو لے آئے گا اور جس قدر عدل پھیلتا جائے گا، اسی مقدار میں ظلم اٹھتا جائے گا، یہاں تک ایسے لوگ لوگ پیدا ہو جائیں گے، جو عدل کے علاوہ کسی اور چیز کو جانتے نہیں ہوں گے۔

Haidth Number: 12860
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دجال کر ذکر رہے تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوئے ہوئے تھے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوگئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ ایک اور چیز کا زیادہ ڈر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بات ذکر کی۔

Haidth Number: 12861

۔ (۱۲۸۶۲)۔ وَعَنْ جُنَادَۃَ بْنِ اَبِیْ اُمَیَّۃَ اَنَّہُ سَمِعَ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَذْکُرُ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا مُدَّۃُ اُمَّتِکَ مِنَ الرَّخَائِ؟ فَلَمْ یَرُدُّ عَلَیْہِ شَیْئًا حَتّٰی سَاَلَہُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، کُلَّ ذٰلِکَ لَا یُجِیْبُہُ، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، ثُمَّ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أَیْنَ السَّائِلُ؟)) فَرَدُّوْہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((لَقَدْ سَاَلْتَنِیْ عَنْ شَیْ ئٍ مَا سَاَلَنِیْ عَنْہُ اَحَدٌ مِنْ اُمَّتِیْ، مُدَّۃُ اُمَّتِیْ مِنَ الرَّخَائِ مِائَۃُ سَنَۃٍ۔)) قَالَھَا مَرَّتَیْنِ اَوْ ثَلَاثًا، فَقََالَ الرَّجُلُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہ! فَہَلْ لِذٰلِکَ مِنْ اَمَارَۃٍ اَوْ عَلَامَۃٍ اَوْ آیَۃٍ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ، اَلْخَسْفُ وَالرَّجْفُ وَاِرْسَالُ الشَّیَاطِیْنِ الْمُجْلَبَۃِ عَلٰی النَّاسِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۵۱)

سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی امت کی خوشحالی کتنی مدت تک رہے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا، اُدھر اس نے تین مرتبہ اس سوال کو دہرا دیا، پھر بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، وہ آدمی چلا گیا، بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ: وہ سائل کہاں ہے؟ صحابہ نے اسے واپس بلایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ میری امت میں سے کسی نے بھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا، بات یہ ہے کہ میری امت کی خوشحالی کی مدت ایک سو سال ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات دو یا تین مرتبہ دہرائی، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کی کوئی علامت بھی ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، زمین میں لوگوں کا دھنسنا، زلزلے آنا اورشیطانوں کو چھوڑا جانا، جو لوگوں کے خلاف چہار طرف سے اکٹھے ہو کر آئیں گے۔

Haidth Number: 12862
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! مجھے ایسا دور نہ پائے یا تم لوگ ایسا زمانہ نہ دیکھو کہ جس میں صاحب ِ علم کی پیروی نہیں کی جائے گی، بردبار اور متحمل مزاج شخص سے شرمایا نہیں جائے گا، اس وقت کے لوگوں کے دل عجمیوں کے دلوں جیسے ہوں گے اور ان کی زبانیں عربوں کی زبانوں جیسی ہوں گی۔

Haidth Number: 12863
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک رات کو بیدار ہوئے اور فرمانے لگے: اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، آج رات کس قدر خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے، اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، آج رات کس قدر فتنے نازل کر دئیے گئے، کوئی ہے جو جاکر ان حجروں والیوں کو جگائے، کتنی ہی عورتیں ہیں جو دنیا میں لباس پوش ہیں، لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔

Haidth Number: 12864
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ عذاب سب لوگوں پر نازل ہوتا ہے، پھر حشر میں لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

Haidth Number: 12865
سیدناعبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ایسا فتنہ آئے گا جو تمام عربوں کا ستیاناس کر دے گا، اس فتنہ میں قتل ہونے والے لوگ جہنمی ہوں گے، اس فتنہ کے دوران زبان کو استعمال کرنا تلوار کو استعمال کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہوگا۔

Haidth Number: 12866
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات کے اندھیروں کی طرح پے در پے آنے والے فتنوں سے پہلے پہلے نیک عمل کرلو، ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ ایک آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا، لیکن شام کو کافر ہوچکا ہوگا یا وہ شام کے وقت تو مومن ہوگا، لیکن صبح کو کافر ہوچکا ہوگا، وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی مال کے عوض بیچ ڈالے گا۔

Haidth Number: 12867
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایسے زمانے آئیں گے کہ جن میں حالات اس طرح تبدیل ہو جائیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا اور گھٹیا قسم کے لوگ (عوام الناس کے امور پر) بولیں گے۔ کسی نے پوچھا کہ الرُّوَیْبِضَۃُ سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد وہ بے وقوف ہیں جو عام لوگوں کے امور کے بارے میں باتیں کر کے فیصلے کریں گے۔

Haidth Number: 12868
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا دجال سے پہلے بھی ایسے سال آئیں گے کہ جن میں حقائق کو تبدیل کردیا جائے گا ۔ آگے اوپر والی حدیث کی طرح ہے، البتہ اس میں ہے: کسی نے پوچھا کہ الرُّوَیْبِضَۃُ کیا چیز ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ فاسق اور گھٹیا شخص جو عام لوگوں کے امور پر بحث کرے گا۔

Haidth Number: 12869
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان مال کے بارے میں یہ پروا نہیں کرے گا کہ یہ حلال ہے یا حرام۔

Haidth Number: 12870
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: میری امت کے آخری زمانے میں لوگ کجاووں کی طرح کی زینوں پر سوار ہوں گے‘ وہ مساجد کے دروازوں پر اتریں گے‘ ان کی عورتیں لباس پہننے کے باجود ننگی ہوں گی‘ ان کے سر کمزور بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں ملعون ہیں‘ ان پر لعنت کرنا، اگر تمھارے بعد کوئی اور امت ہوتی تو تمھاری عورتیں اس کی خدمت کرتیں جیسا کہ تم سے پہلے والی امتوں کی عورتوں نے تمھاری خدمت کی ہے۔

Haidth Number: 12871
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب آخری زمانہ میں میری امت میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء و اجداد نے، پس ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا۔

Haidth Number: 12872
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے لوگ ہوںگے، جو بظاہر بھائی بھائی(اورخیر خواہ) دکھائی دیں گے، لیکن باطنی طور پر ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ کسی نے کہا:اے اللہ کے رسول! ایسے کیوں ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے بعض کی بعض کی طرف رغبت اور بعض کے بعض سے ڈرنے کی وجہ سے ایسا ہوگا۔

Haidth Number: 12873

۔ (۱۳۱۰۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ اِلَّا لَہُ دَعْوَۃٌ قَدْ تَنَجَّزَھَا فِی الدُّنْیَا وَاِنِّیْ قَدِ اخْتَبَاْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِاُمَّتِیْ وَاَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، وَبِیَدِیْ لِوَائُ الْحَمْدِ وَلَافَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُوْنَہُ تَحْتَ لِوَائِیْ وَلَافَخْرَ وَیَطُوْلُیَوْمُ الْقِیَامَۃِ عَلٰی النَّاسِ فَیَقُوْلُ بَعْضُہْمُ لِبَعْضٍ: اِنْطَلِقُوْا بِنَا اِلٰی آدَمَ اَبِیْ الْبَشَرِ فَلْیَشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَاْتُوْنَ آدَمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا آدَمُ! اَنْتَ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِیَدِہٖ وَاَسْکَنَکَ جَنَّتَہُ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَہُ اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّی قَدْ اُخْرِجْتُ مِنَ الْجَنَّۃِ بِخَطِیْئَتِیْ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا رَاْسَ النَّبِیِّیْنَ، فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا فَیَقُوْلُوْنَ: یَانُوْحُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی دَعَوْتُ بِدَعْوَۃٍ اَغْرَقَتْ اَھْلَ الْاَرْضِ وَاِنَّہ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلَ اللّٰہِ فَیَاْتُوْنَ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا اِبْرَاہِیْمُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّیْ کَذَبْتُ فِی الْاِسْلَامِ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، وَاللّٰہِ اِنْ حَاوَلَ بِہِنَّ اِلَّا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ، قَوْلُہُ {اِنِّیْ سَقِیْمٌ}،وَقَوْلُہُ {بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ ہٰذَا فَاسْاَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ}، وَقَوْلُہُ لِاِمْرَأَتِہِ حِیْنَ اَتٰی عَلٰی الْمَلِکِ اُخْتِیْ، وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی علیہ السلام الَّذِیْ اِصْطَفَاہُ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖوَبِکَلَامِہٖ، فَیَاْتُوْنَہُ فَیَقُوْلُوْنَ: یَامُوْسٰی اَنْتَ الَّذِیْ اِصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہِ وَکَلَّمَکَ فَاشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّیْ قَتَلْتُ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا عِیْسٰی رُوْحَ اللّٰہِ وَکَلِمَتَہُ، فَیَاْتُوْنَ عِیْسٰی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِیْسٰی! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی اتُّخِذْتُ اِلٰہًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِی الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنْ اَرَاَیْتُمْ لَوْکَانَ مَتَاعٌ فِیْ وِعَائٍ مَخْتُوْمٍ عَلَیْہِ اَکَانَ یَقْدِرُ عَلٰی مَا فِیْ جَوْفِہِ حَتّٰییَعُضَّ الْخَاتَمَ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَقَدْ حَضَرَ الْیَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَاَخَّرَ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَیَاْتُوْنِّیْ فَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُحَمَّدُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَاَقُوْلُ: اَنَا لَھَا حَتّٰییَاْذَنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ وَیَرْضٰی فَاِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنْ یَصْدَعَ بَیْنَ خَلْقِہِ نَادٰی مُنَادٍ: أَیْنَ اَحْمَدُ وَاُمَّتُہُ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ، نَحْنُ آخِرُ الْاُمَمِ اَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ فَتُفَرَّجُ لَنَا الْاُمَمُ عَنْ طَرِیْقِنَا فَنَمْضِیْ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ اَثَرِ الطُّہُوْرِ فَتَقُوْلُ الْاُمَمُ: کَادَتْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ اَنْ تَکُوْنَ اَنْبِیَائَ کُلَّہَا، فَنَاْتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ فَاٰخُذُ بِحَلْقَۃِ الْبَابِ فَاَقْرَعُ الْبَابَ فَیُقَالُ: مَنْ اَنْتَ فَاَقُوْلُ: اَنَا مُحَمَّدٌ، فَیُفْتَحُ لِیْ فَآتِیْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی کُرْسِیِّہٖ اَوْ سَرِیْرِہِ شَکَّ حَمَّادٌ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) فَاَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا فَاَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَمْ یَحْمَدْہُ بِہَا اَحَدٌ کَانَ قَبْلِیْ وَلَیْسَ یَحْمَدُہُ بِہَا اَحَدٌ بَعْدِیْ فَیَقُوْلُ: یَامُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَسَلْ تُعْطَہُ وَقُلْ تُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیِْ فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ:اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا (لَمْ یَحْفَظْ حَمَّادٌ) ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ: مَاقُلْتُ،فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ الْاَوَّلِ، ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَیُقَالُ لِیْ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۴۶)

ابو نضرہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بصرہ کے منبر پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو ایک ایک قبول شدہ دعا کرنے کا اختیار دیا گیا، اور ہر ایک نے دنیا ہی میں وہ دعا کرلی، البتہ میں نے اپنی دعا کو امت کے حق میں سفارش کر نے کے لیے چھپا رکھا ہے،میں قیامت کے دن ساری اولاد ِ آدم کا سردار ہوں گا، لیکن اس پر فخر نہیں ہے، سب سے پہلے میری قبر کی زمین پھٹے گی اور میں اس پر فخر نہیں کرتا،حمد کاجھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا، لیکن مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے، آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کی تمام انسانیت میرے اس جھنڈے کے نیچے ہوگی اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے۔ قیامت کا دن لوگوں کے لیے انتہائی طویل ہو چکا ہوگا، بالآخر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ابو البشر آدم علیہ السلام کی خدمت میں چلیں، وہ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلے کرے، پس لوگ جمع ہو کر حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں جا کر کہیں گے:اے آدم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا اور فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ ریز کرایا، آپ رب کے ہاں جا کر سفارش تو کریں کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرنا شروع کرے۔ وہ کہیں گے: میں یہ کام نہیں کر سکتا، میری خطا کی وجہ سے مجھے جنت میں نکالا گیا تھا، مجھے تو میری اپنی جان نے بے چین کر رکھا ہے، تم نوح علیہ السلام کی خدمت میں چلے جاؤ، وہ نبیوں کی اصل ہیں،چنانچہ وہ سب نوح علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے اور کہیں گے: اے نوح! آپ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، لکن وہ کہیں گے: میں اس کی جرأت نہیں کر سکتا، میں نے تو اپنی دعا کر لی ہے، جس سے تمام اہل زمین غرق ہو گئے تھے، آج تو مجھے اپنی جان کی فکر لگی ہوئی ہے، البتہ تم اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جا کر کہیں گے: اے ابراہیم! آپ ہمارے لیے ہمارے رب سے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، وہ کہیں گے: میں اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا، میں نے اسلام میں تین جھوٹ بولے تھے۔ حالانکہ اللہ کی قسم ہے کہ انہوں نے ان باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کا دفاع ہی کیا تھا، ایک تو انہوں نے کہا تھا {اِنِّیْ سَقِیْمٌ} (بیشک میں بیمار ہوں۔) (سورۂ صافات: ۸۹) ،دوسرا انہوں نے کہا تھا: {بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ} (بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے نے کیا ہے، اگر یہ بول سکتے ہیں تو تم خود ان سے پوچھ لو۔) (سورۂ ا نبیائ: ۶۳) اور تیسرا یہ کہ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بادشاہ کے پا س پہنچے تو کہا کہ یہ تو میری بہن ہے۔ بہرحال ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: آج تو مجھے اپنی پریشانی لگی ہوئی ہے، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا اور ان کے ساتھ کلام بھی کیا تھا، وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے نوازا اور آپ کے ساتھ کلام بھی کیا، آپ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ سفارش تو کر دیں کہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، میں نے تو ایک آدمی کو بغیر کسی جرم کے قتل کر دیا تھا، مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے، تم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، چنانچہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کران سے کہیں گے: اے عیسیٰ! آپ اپنے رب سے ہمارے حق میں سفارش کر یں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے۔ وہ کہیں گے: میں تو یہ کام نہیں کر سکتا، مجھے تو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر معبود بنا لیا تھا، اس لیے مجھے تو اپنی پریشانی نے بے چین کر رکھا ہے، لیکن دیکھو اگر کوئی سامان کسی برتن (یاتھیلے) میں بند کر کے اس پر مہر لگا دی گئی ہو، تو کیا مہر کو توڑے بغیر برتن کے اندر کی چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ لوگ کہیں گے کہ نہیں۔ تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاتم النّبیین ہیں، وہ آج موجود ہیں، ان کا مقام یہ ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:اس کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے۔ تو میں کہوں گا: جی ہاں، جی ہاں، میں ہی اس شفاعت کے قابل ہوں ، یعنی آج میںہی سفارش کرسکتا ہوں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے جسے چاہے گا اور پسند کرے گا، اسے شفاعت کی اجازت دے گا، جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو الگ الگ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: احمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی امت کہاں ہیں؟ ہم اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں،لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، ہم اگرچہ آخری امت ہیں لیکن سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا۔ ہمارے راستے سے دوسری امتوں کو ہٹادیا جائے گا اور وضوء کے اثر سے میری امت کے چہرے ، ہاتھ اورپاؤں خوب چمک رہے ہوں گے، انہیں دیکھ کر دوسری امتیں رشک کرتے ہوئے کہیں گی: قریب تھا کہ اس امت کے تو سارے افراد انبیاء ہوتے، یہ امت جنت کے دروازے پر پہنچے گی۔ میں جنت کے دروازے کے کڑے کو پکڑ کر دستک دوں گا۔ پوچھا جائے گا: کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوں۔پھر میرے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کرسی یا تخت پر تشریف فرما ہوں گے،(کرسی یا تخت کا شک راوی ٔ حدیث حماد کو ہوا) میںاللہ تعالیٰ کے سامنے جاکر سجدہ ریز ہو جاؤں گا اور میں اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی حمد کروں گا، جو نہ تو مجھ سے پہلے کسی نے بیان کی اور نہ بعد میں کوئی کر سکے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا: اے محمد! سجدہ سے سر اٹھاؤ ، مانگو تمہیں دیا جائے گا، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! اللہ تعالیٰ فرمائے گا :جن لوگوں کے دلوںمیں فلاں چیز کے برابر ایمان ہواسے جہنم سے نکال لاؤ، میں اس کے بعد دوبارہ سجدہ میں گرجاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کو جیسے منظور ہوگا، میں سجدہ میں کہوں گا، بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر ایمان ہو، ان کو جہنم سے نکال لاؤ، اس کے بعد پھر میں سجدہ کروں گا اور پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کروں گا، بالآخر مجھے کہا جائے گا:سجدہ سے سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ سے کہا جائے گا کہ جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر بھی ایما ن ہو، اس کو جہنم سے نکال لاؤ۔

Haidth Number: 13100
سیدنا عدی بن حاتم طائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچو اس کے ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چہرے سے ناگواری کا اظہار کیا، ہمیں یوں محسوس ہوا کہ گویا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے دیکھ رہے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچنے کے اسباب پیدا کرو۔ ساتھ ہی آپ نے اپنے چہرے سے ناگواری کا اظہار فرمایا، دو تین مرتبہ ایسے ہوا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی ہو اور اگر کسی کو وہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کے ذریعے ہی سہی۔

Haidth Number: 13217
سماک بن حرب کہتے ہیں: میںنے سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا کہ وہ خطبہ دے رہے تھے اور انھوں نے اپنے اوپر ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا: میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خطبہ کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا: میں تمہیں جہنم سے خبردار کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات اس قدر بلند آواز سے فرمائی کہ اگر کوئی آدمی فلاں جگہ پر بھی ہوتا تو وہ بھی سن لیتا۔

Haidth Number: 13218
۔ (دوسری سند) اس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان میں تمہیں جہنم سے خبردار کر چکا ہوں کے بعد انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ بات اس قدر بلند آواز سے تھی کہ اگر کوئی آدمی بازار میں ہوتا تو وہ میری اس جگہ سے وہ آواز سن لیتا۔ سماک کہتے ہیں: سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی یہ بات اس قدر بلند آواز سے کہی کہ ان کی چادر کندھوں سے گر کر ان کے پاؤں میں جاگری۔

Haidth Number: 13219
۔ (تیسری سند) اس میں یوں ہے: اگر کوئی آدمی بازار کے پرلے کنارے میں بھی ہوتا تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز کو سن لیتا،بلکہ بازار والے سارے لوگ وہ آواز سن لیتے، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تھے۔

Haidth Number: 13220