Blog
Books
Search Hadith

منعِم کا شکر ادا کرنے اور نیکی کا بدلہ دینے کا بیان

448 Hadiths Found
Haidth Number: 9242
۔ سیدنا اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 9243
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لکڑیوں پر یا اس منبر پر فرمایا تھا کہ جس نے تھوڑی چیز کا شکر ادا نہ کیا، وہ کثیر مقدار والی چیز کا بھی شکریہ ادا نہیں کرے گا اور جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بیان کرنا بھی شکر ہے اور بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ اور جماعت رحمت ہے اور افتراق و انتشار عذاب ہے۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم بڑے لشکر کو لازم پکڑو، ایک آدمی نے کہا: بڑا لشکر کون سا ہے؟ سیدنا ابو امامہ نے کہا: سورۂ نور کییہ آیت ہے: پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے۔ (سورۂ نور: ۵۴)

Haidth Number: 9244
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے، اگر بدلے کی قدرت نہ ہو تو اس کا ذکر کر دے، پس جس نے اس کا ذکر کر دیا، اس نے اس کا شکر ادا کر دیا اور جس نے ایسی نعمت کا اظہار کیا، جو اس کے پاس نہیں ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن رکھے ہوں۔

Haidth Number: 9245
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سخت گرمی میں چل رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا، پس ایک آدمی تسمہ لے کر آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتے میں ڈال دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو اس چیز کو جانتا ہوتا، جس پر تو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھایا ہے تو تواس چیز کو کم نہ سمجھتا، جس پر تو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سوار کیا ہے۔

Haidth Number: 9246

۔ (۹۴۱۸)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لاَبِی طَلْحَۃَ مِنْ اُمِّ سُلَیْمٍ فَقَالَتْ: لِاَھْلِھَا لَا تُحِدِّثُوْا اَبَاطَلْحَۃَ بِاِبْنِہِ حَتّٰی اَکُوْنَ اَنَا اُحَدِّثُہُ، قَالَ: فَجَائَ فَقَرَّبَتْ اِلَیْہِ عَشَائً فَاَکَلَ وَشَرِبَ، قَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَہُ اَحْسَنَ مَاکَانَتْ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَوَقَعَ بِھَا، فَلَمَّا رَاَتْ اَنَّہُ قَدْ شَبِعَ وَاَصَابَ مِنْھَا، قَالَتْ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ اَرَاَیْتَ اَنَّ قَوْمًا اَعَارُوْا عَارِیَتَھُمْ اَھْلَ بَیْتٍ وَطَلَبُوْا عَارِیَتَھُمْ اَلَھُمْ اَنْ یَمْنَعُوْھُمْ؟ قَالَ:لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبِ ابْنَکَ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخْبَرَہُ بِمَا کَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَمَا فِیْ غَابِرِ لَیْلَتِکُمَا۔)) قَالَ: فَحَمَلَتْ قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ وَھِیَ مَعَہُ ،وکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا اَتَی الْمِدِیْنَۃَ مِنْ سَفَرٍ لَا یَطْرُقُھَا طُرُوْقًا، فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ، وَاحْتَبَسَ عَلَیْھَا اَبُوْطَلْحَۃَ وَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَۃَ: یَارَبِّ! اِنَّکَ لَتَعْلَمُ اَنَّہُ یُعْجِبُنِیْ اَنْ اَخْرُجَ مَعَ رَسُوْلِکَ اِذَا خَرَجَ، وَاَدْخُلَ مَعَہُ اِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرٰی، قَالَ: تَقُوْلُ اُمُّ سُلَیْمٍ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ مَا اَجِدُ الَّذِیْ کُنْتُ اَجِدُ فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ حِیْنَ قَدِمُوْا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِیْ اُمِّیْ: یَا اَنَسُ! لَا یُرْضِعَنَّہُ اَحَدٌ حَتّٰی تَغْدُوَ بِہٖعَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَصَادَفْتُہُ وَمَعَہُ مِیْسَمٌ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ: ((لَعَلَّ اُمَّ سُلَیْمٍ وَلَدَتْ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَضَعَ الْمِیْسَمَ قَالَ: فَجِئْتُ بِہٖفَوَضَعْتُہُفِیْحِجْرِہِ قَالَ: وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَجْوَۃٍ مِنْ عَجْوَۃِ الْمَدِیْنَۃِ فَـلَا کَھَا فِیْ فِیْہِ حَتّٰی ذَابَتْ ثُمَّ قَذَفَھَافِیْ فِی الصَّبِیِّ فَجَعَلَ الصَّبِیُّیَتَلَمَّظُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُنْظُرُوْا اِلٰی حُبِّ الْاَنْصَارِ التَّمْرَ۔))، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْھَہَ وَسَمَّاہُ عُبْدَ اللّٰہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۷)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ اور سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیٹا فوت ہو گیا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے اہل والوں سے کہا: تم نے ابو طلحہ کو اس کے بیٹے کے بارے میں نہیں بتلانا، میں خود اس کو بتاؤں گی، پس جب وہ آئے تو اس نے ان کو شام کا کھانا پیش کیا، انھوں نے کھانا کھایا اور مشروب پیا، پھر سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند کے لیے اچھی طرح تیاری کی، جیسا کہ وہ پہلے کرتی تھیں، پس انھوں نے ان سے جماع کیا، جب ام سلیم نے دیکھا کہ اس کاخاوند خوب سیر ہو گیا گیا اور حق زوجیت بھی ادا کر لیا تو اس نے کہا: اے ابو طلحہ! اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ لوگ ایک گھر والوں کو کوئی چیز عاریۃً دیتے ہیں، پھر جب وہ ان سے واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا وہ روک سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، نہیں روک سکتے، ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر اپنے بیٹے کی وفات پر ثواب کی نیت سے صبر کر، سیدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چل پڑے، یہاں تک کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے ماجرے کی خبر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری گزشتہ رات میں برکت فرمائے۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو حمل ہو گیا، ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپسی پر مدینہ آتے تھے تو رات کو شہر میں داخل نہیں ہو تے تھے، پس جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دردِ زہ شروع ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو آگے چل دیئے، لیکن سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بیوی کے پاس رک گئے اور انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند لگتی ہے کہ تیرے رسول کے ساتھ سفر میں نکلوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہی مدینہ میں داخل ہوں، لیکن اب تو دیکھ رہا ہے کہ میں رک گیا ہوں، اتنے میں ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جو چیز میں پہلے پاتی تھی، ابھی وہ نہیں پا رہی، پس ہم چل پڑے اور جب مدینہ پہنچے تو دوبارہ دردِ زہ شروع ہوا اور انھوں بچہ جنم دیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری ماں نے مجھے کہا: اے انس! کوئی بھی اس کو دودھ نہ پلائے،یہاں تک کہ تو صبح کو اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جائے، وہ کہتے ہیں: میں بچہ لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جانوروں کو داغنے والا ایک آلہ تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: شاید ام سلیم نے بچہ جنم دیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ آلہ رکھ دیا، میں بچے کو لے کر آگے بڑھا اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گودی میں رکھ دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ کی عجوہ کھجورمنگوائی، اس کو اپنے منہ مبارک میں ڈال کر چبایا،یہاں تک کہ وہ نرم ہو گئی، پھر اس کو بچے کے منہ میں ڈالا اور بچہ زبان پھیر کر اس کو نگلنے لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دیکھو کہ انصاریوں کو کھجور سے کتنی محبت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔

Haidth Number: 9418

۔ (۹۴۱۹)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: تَزَوَّجَ اَبُوْطَلْحَۃَ اُمَّ سُلَیْمٍ وَھِیَ اُمُّ اَنَسٍ (بْنِ مالک) وَالْبَرَائِ، قَالَ: فَوَلَدَتْ لَہُ بُنَیًّا، قَالَ: فَکَانَ یُحِبُّہُ حُبًّا شَدِیْدًا، قَالَ: فَمَرِضَ الْغُلَامُ مَرْضًا شَدِیْدًا، فَکَانَ اَبُوْ طَلْحَۃَیَقُوْمُ صَلَاۃَ الْغَدَاۃِیَتَوَضَّاُ وَیَاْتِیْ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیُصَلِّیْ مَعَہُ، وَیَکُوْنُ مَعَہُ اِلٰی قَرِیْبٍ مِّنْ نِصْفِ النَّھَارِ، وَیَجِيْئُیَقِیْلُ وَیَاْکُلُ، فَاِذَا صَلَّی الظُّھْرَ تَھَیَّاَ وَذَھَبَ فَلَمْ یَجِیئْ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَتَمَۃِ قَالَ: فَرَاحَ عَشِیَّۃً وَمَاتَ الصَّبِیُّ، قَالَ: وَجَائَ اَبُوْ طَلْحَۃَ قَالَ: نَسَجَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا وَتَرَکَتْہُ، قَالَ: فقَالَ لَھْا اَبُوْ طلحۃ: یَا اُمَّ سُلَیْمٍ! کَیْفَ بَاتَ بُنَیَّ اللَّیْلَۃَ؟ قَالَتْ: یَا اَبَا طَلْحَۃَ! مَا کَانَ ابْنُکَ مُنْذُ اشْتَکٰی اَسْکَنَ مِنْہُ اللَّیْلَۃَ، قَالَ: ثُمَّ جَائَ تْہُ بِالطَّعَامِ فَاَکَلَ وَطَابَتْ نَفْسُہُ، قَالَ: فَقَامَ اِلٰی فِرَاشِہِ فَوَضَعَ رَاْسَہُ قَالَتْ: وَقُمْتُ اَنَا فَمَسِسْتُ شَیْئًا مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی دَخَلْتُ مَعَہُ الْفِرَاشَ، فَمَا ھُوَ اِلَّا اَنْ وَجَدَ رِیْحَ الْطِیْبِ کَانَ مِنْہُ مَایَکُوْنُ مِنَ الرَّجُلِ اِلَیٰ اَھْلِہِ، قَالَ: ثُمَّ اَصْبَحَ اَبُوْطَلْحَۃَیَتَھَیَّاُ کَمَا کاَنَ یَتَھَیَّاُ کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: فَقَالَتْ لَہُ: یَا اَبَا طَلْحَۃَ! اَرَاَیْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلًا اِسْتَوْدَعَکَ وَدِیْعَۃً فَاسْتَمْتَعْتَ بِھَا ثُمَّ طَلَبَھَا فَاَخَذَھَا مِنْکَ تَجْزَعُ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: لَا ، قَالَتْ: فَاِنَّ ابْنَکَ قَدْ مَاتَ، قَالَ اَنَسٌ فَجَزِعَ عَلَیْہِ جَزْعًا شَدِیْدًا، وَحَدَّثَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا کَانَ مِنْ اَمْرِھَا فِی الطَّعَامِ وَالطِّیْبِ، وَمَا کَانَ مِنْہُ اِلَیْھَا، قَالَ: فَقَالَ َرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَبِتُّمَا عَرُوْسَیْنِ وَھُوَ اِلٰی جَنْبِکُمَا؟)) قَالَ: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَمَا فِیْ لَیْلَتِکُمَا۔)) قَالَ: فَحَمَلَتْ اُمُّ سلیم تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، قَالَ: فَتَلِدُ غُلَامًا، قَالَ: فَحِیْنَ اَصْبَحْنَا قَالَ لِیْ اَبُوْ طَلْحَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ احْمِلْہُ فِیْ خِرْقَۃٍ حَتّٰی تَاْتِیَ بِہٖرَسُوْلَاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاحْمَلْ مَعَکَ تَمْرَ عَجْوَۃٍ، قَالَ: فَحَمَلْتُہُ فِیْ خِرْقَۃٍ قَالَ: وَلَمْ یُحَنِّکْ وَلَمْ یَذُقْ طَعَامًا وَلَا شَیْئًا، قَالَ: فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَدَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ، قَالَ: ((اَللّٰہُ اَکْبَرُ، مَا وَلَدَتْ؟)) قُلْتُ: غُلَامًا، قَالَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔))، فَقَالَ: ((ھَاتِہِ اِلَیَّ۔)) فَدَفَعْتُہُ اِلَیْہِ فَحَنَّکَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ ثُمَّ قَالَ لِیْ: ((مَعَکَ تَمْرُ عَجْوَۃٍ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَاَخْرَجْتُ تَمَرَاتٍ فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَمْرَۃً وَاَلْقَاھَا فِیْ فِیْہِ، فَمَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَلُوْکُھَا حَتَّی اخْتَلَطَتْ بِرِیْقِہِ ثُمَّ دَفَعَ الصَّبِیَّ فَمَا ھُوَ اِلَّا اَنْ وَجَدَ الصَّبِیُّ حَلَاوَۃَ التَّمْرِ، جَعَلَ یَمُصُّ بَعْضَ حَلَاوَۃِ التَّمْرِ وَرَیِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ اَنَسٌ: فَکَانَ اَوَّلُ مَنْ فَتَحَ اَمْعَائَ ذٰلِکَ الصَّبِیِّ عَلٰی رِیْقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حِبُّ الْاَنْصَارِ التَّمْرُ۔)) فَسَمَّی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ اَبِی طَلْحَۃَ، قَالَ: فَخَرَجَ مِنْہُ رَجُلٌ کَثِیْرٌ قَالَ: وَاسْتُشْھِدَ عَبْدُ اللّٰہِ بِفَارِسَ۔(مسند احمد: ۱۲۸۹۶)

۔ (دوسری سند) سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کی،یہ سیدنا انس بن مالک اور سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ماں تھیں، سیدہ ام سلیم نے ان کے لیے ایک پیارا سا بیٹا جنم دیا، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن ہوا یوں کہ بچہ بہت سخت بیمار ہو گیا، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روٹینیہ تھی کہ وہ نماز فجر کے لیے اٹھتے، وضو کرتے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور نصف النہار کے قریب تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہی ٹھہرتے، پھر واپس آ کر قیلولہ کرتے اور کھانا کھاتے، پھر نمازِ ظہر کی تیاری کر کے چلے جاتے اور نمازِ عشا تک واپس نہیں آتے تھے، ایک دن جب وہ رات کو واپس آئے تو بچہ فوت ہو چکا تھا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے (شروع میں اس کی موت کو چھپانے کے لیے) اس کپڑے سے ڈھانپ دیا اور اس کو چھوڑ دیا، جب سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس آئے تو کہا: اے ام سلیم! میرے پیارے بیٹے نے رات کیسے گزاری ہے؟ انھوں نے کہا: اے ابو طلحہ! تیرا بیٹا جس دن سے بیمار ہوا، آج رات کو سب سے زیادہ سکون میں تھا، پھر وہ کھانا لے کر آئیں، انھوں نے کھانا کھایا اور ان کا نفس خوشگوار ہو گیا، پھر وہ اپنے بستر کی طرف گئے اور سونے کے لیے اپنا سر رکھا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے خوشبو لگائی اور ان کے پاس آ کر بستر میں ان کے ساتھ داخل ہو گئی، جب انھوں نے خوشبو محسوس کی تو وہی معاملہ چلا جو میاں بیوی کا ہوتا ہے ، پھر جب صبح ہوئی تو انھوں نے روٹین کے مطابق تیاری کرنا شروع کر دی، جیسا کہ ہر روز کرتے تھے، اب سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے ابو طلحہ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی نے آپ کو امانت دی، آپ نے اس سے استفادہ کیا، پھر اس نے تجھ سے طلب کی اور پھر لے لی، کیا تو اس معاملے میں بے صبری کرے گا؟ انھوں نے کہا: نہیں، سیدہ نے کہا: تو پھر آپ کا بیٹا فوت ہو چکا ہے، وہ بہت زیادہ گھبرائے اور پریشان ہوئے اور جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے معاملے کی خبردی کہ اس کی بیوی نے اس طرح کھانا کھلایا، خوشبو لگائی اور پھر جو کچھ ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے حق زوجیت ادا کیا ہے اور وہ بچہ تمہارے پہلوؤں میں تھا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری اس رات میں برکت فرمائے۔ پس سیدہ ام سلیم کو اسی رات حمل ہو گیا، بعد میں جب انھوں نے بچہ جنم دیا تو صبح کو سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میں (انس) سے کہا: اس کو کسی کپڑے میں اٹھا لے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جا اور عجوہ کھجور بھی لیتا جا، پس میں نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر اٹھایا، نہ اس کو گڑتی دی گئی تھی، نہ اس نے کھانا کھایا، بلکہ کوئی چیز نہیں چکھی، جب میں پہنچا تو کہا: اے اللہ کے رسول! سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بچہ پیدا ہوا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (خوشی سے) فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، کیا جنم دیا ہے اس نے؟ میں نے کہا: جی لڑکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لے آ اس کو میرے پاس۔ پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑا دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو گڑتی دینا چاہی، اس لیے مجھ سے پوچھا: کیا تیرے پاس عجوہ کھجور ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ہے، پھر میں نے کھجوریں نکالیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کھجور لے کر اس کو اپنے منہ مبارک میں ڈالا اور اتنی دیر تک چبایا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لعاب کے ساتھ مکس ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بچے کو دی اور فوراً یوں لگا کہ بچہ کھجور کی مٹھاس محسوس کر رہا ہے، وہ کھجور کی حلاوت اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تھوک کو چوسنے لگا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پہلی چیز جس نے اس بچے کی انتڑیاں کھولیں، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تھوک تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصاریوں کی محبوب چیز کھجور ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بچے کا نام عبد اللہ رکھا، اس عبد اللہ کی کافی ساری اولاد پیدا ہوئی تھی،یہ عبد اللہ فارس میں شہید ہو گئے تھے۔

Haidth Number: 9419
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ ایسے مریض کی تیمارداری کرتا ہے، جس کی موت کا وقت نہیں آ چکا ہوتا، اور سات دفعہ یہ دعا پڑھتا ہے: اَسْاَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَشْفِیْکَ، تو اس کو شفا مل جاتی ہے۔

Haidth Number: 9478
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدمی کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے تو وہ یہ کلمات کہے: اَللّٰھُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ، یَنْکَاُ لَکَ عَدُوًّا، وَیَمْشِیْ لَکَ اِلَی الصَّلَاۃِ (اے اللہ! اپنے بندے کو شفا عطا فرما، یہتیرے لیے دشمن کو زخمی کر کے مارے گا اور تیرے لیے نماز کی طرف چلے گا۔

Haidth Number: 9479
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مریض کی عیادت کا مکمل طریقہیہ ہے کہ بندہ اپنا ہاتھ اُس کی پیشانییا ہاتھ پر رکھے اور پھر پوچھے کہ اس کا کیاحال ہے اور مکمل سلام یہ ہے کہ مصافحہ بھی کیا جائے۔

Haidth Number: 9480
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی مریض کی عیادت کرتے تو یہ دعا کرتے تھے: اَذْھَبِ الْبَاْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ اِنَّکَ اَنْتَ الشَّافِیْ، وَلَا شِفَائَ اِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَائً لَّا یُغَادِرُ سَقَمًا (اے لوگوں کے ربّ! بیماری کو دور کر دے اور شفا دے دے، بیشک تو ہی شفا دینے والا ہے، اور نہیں ہے کوئی شفا، ما سوائے تیری شفا کے، ایسی شفا عطا فرما، جو کوئی بیماری باقی نہ چھوڑے)۔

Haidth Number: 9481
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم میتیا مریض کے پاس حاضر ہو تو خیر والی باتیں کیا کرو، کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو، اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔

Haidth Number: 9482
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدّو کو بخارتھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی عیادت کرنے کے لیے اس کے پاس گئے اور فرمایا: کفارہ بننے والا ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ لیکن اس بدّو نے کہا: نہیں، بلکہ یہ بخار ہے، جو بوڑھے آدمی پر ابل رہا ہے اور اس کو قبریں دکھا رہا ہے، اس کییہ بات سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے اور اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔

Haidth Number: 9483

۔ (۹۶۲۸)۔ عَنْ عَیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلٰی اَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُوْدُہُ مِنْ شَکْوًی اَصَابَہُ، وَامْرَاَتُہُ تُحَیْفَۃُ قَاعِدَۃٌ عَنْدَ رَاْسِہِ، قُلْتُ: کَیْفَ بَاتَ اَبُوْ عُبَیْدَۃَ ؟ قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَقَدْ بَاتَ بِاَجْرٍ، فَقَالَ اَبُوْعُبَیْدَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَا بِتُّ بِاَجْرٍِ، وَکَانَ مُقْبِلًا بِوَجْھِہِ عَلَی الْحَائِطِ، فَاَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ بِوَجْھِہِ، فَقَالَ: اَلا تَسْاَلُوْنَنِیْ عَمَّا قُلْتُ؟ قَالُوْا: مَا اَعْجَبَنَا مَا قُلْتَ، فَنَسْاَلُکَ عَنْہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مَنْ اَنْفَقَ نَفَقَۃً فَاضِلَۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَبْعُمَائِۃٍ، وَمَنْ اَنْفَقَ عَلَی نَفْسِہِ، وَاَھْلِہِ، اَوْ عَادَ مَرِیْضًا اَوْ مَازَ اَذًی، فَالْحَسَنَۃُ بِعَشَرِ اَمْثَالِھَا، وَالصَّوْمُ جُنَّۃٌ، مَالَمْ یَخْرِقْھَا، وَمَنِ ابْتَلَاہُ اللّٰہُ بِبَلائٍ فِیْ جَسَدِہِ فَھُوَ لَہُ حِطَّۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۰)

۔ عیاض بن غطیف سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ان کی عیادت کے لیے گئے، وہ بیمار تھے اور ان کی بیوی تُحیفہ ان کے سر کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، میں نے پوچھا: سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رات کیسے گزری ہے؟ اس خاتون نے کہا: اللہ کی قسم! انھوں نے اجر و ثواب کے ساتھ رات گزاری ہے، لیکن اُدھر سے سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خود کہا: میںنے اجر کے ساتھ نہیں گزاری، جبکہ وہ دیوار کی طرف رخ کیے ہوئے تھے، پھر وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جو بات میں نے کہی ہے، تم لوگ اس کے بارے میں سوال کیوں نہیںکرتے؟ انھوں نے کہا: تم نے کوئی قابل تعجب بات ہی نہیں کی کہ ہم اس کے بارے میں سوال کریں، پھر انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے زائد چیز اللہ کی پناہ میں خرچ کی، اس کو سات سو گنا ثواب ملے گا، اور جس نے اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا،یا کسی مریض کی تیمار داری کی، کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا اور روزہ ڈھال ہے، لیکن جب تک وہ روزے دار اسے پھاڑ نہ لے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم کی آزمائش کے ذریعے آزمایا تو اس تکلیف سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘

Haidth Number: 9628
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت ہر دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا۔ ابن جعفر کی روایت میں ہے: اور یہ کہا جائے گا کہ یہ فلاں کا دھوکہ ہے۔

Haidth Number: 9754
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن دھوکے باز کا جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کا دھوکہ ہے۔

Haidth Number: 9755
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حجرے کے پاس تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لیے جھنڈا گاڑھا جائے گا، بڑے امام کے ساتھ کیے گئے دھوکے سے بڑھ کر کوئی دھوکہ نہیں ہے۔

Haidth Number: 9756
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی ضمانت (کا حکم) ایک ہے، ادنی مسلمان بھییہ ضمانت دے سکتا ہے، جس نے کسی مسلمان کا عہد توڑ دیا، اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی فرضی عبادت قبول کرے گا نہ نفلی۔

Haidth Number: 9757
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں: نبی کریم جب بھی ہم سے خطاب کرتے تھے تو اس میں یہ فرماتے تھے: اس آدمی کا ایمان نہیں، جس کی امانت نہیں اور اس آدمی کا دین نہیں، جس کا عہد وپیمان کوئی نہیں۔

Haidth Number: 9758
۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مسلم قوم اور کسی دوسری قوم کے درمیان کوئی معاہدہ ہو تو نہ وہ اس کو مزید لمبا کر کے مضبوط کرے اور نہ اس کو توڑے، یہاں تک کہ اس کی مدت ختم ہو جائے یا دونوں برابر برابر کا توڑ دیں۔

Haidth Number: 9759
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی سے کوئی شرط لگائی، جبکہ اس کا اس کو پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو تو وہ اس آدمی کی طرح ہے، جو اپنے بھائی کو ایسی ہمسایہ (قوم) کے سپرد کر رہا ہے، جن کے پاس (دشمن سے بچنے کی) کوئی قوت نہیں ہے۔

Haidth Number: 9760
۔ حسن سے مروی ہے کہ ایک آدمی سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا: کیا میں تیرے لیے علی ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کو قتل کر دوں؟ انھوں نے کہا: تو اس کو کیسے قتل کرے گا، جبکہ اس کے ساتھ تو لشکر ہیں؟ اس نے کہا: میں بظاہر اس کے ساتھ مل جاؤں گا اور پھر اس کو غافل پا کر قتل کر دوں گا، انھوں نے کہا: نہیں، ایسے نہیں کرنا، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایمان امان دینے کے بعد قتل کرنے سے روکتا ہے، مؤمن امان دینے کے بعد قتل نہیں کرتا۔

Haidth Number: 9761
۔ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایمان امان دینے کے بعد قتل کرنے سے روکتا ہے۔

Haidth Number: 9762
۔ ابورفاعہ بجلی کہتے ہیں: میں مختار بن ابی عبید کے پاس اس کے محل میں گیا، میں نے اس کو کہتے ہوئے سنا: اس سے پہلے جبریل کھڑا نہیں ہوا، مگر میرے پاس سے، یہ بات سن کر میں نے اس کی گردن اڑا دینے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے ایک حدیثیاد آ گئی، سیدنا سلیمان بن صرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی تجھے اپنے خون پر امین بنائے تو تو نے اس کو قتل نہیں کرنا۔ مختار نے مجھے بھی اپنے خون پر امین بنایا تھا، اس میں نے اس کے قتل مکروہ سمجھا۔

Haidth Number: 9763
۔ رفاعہ قتبانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مختار کے پاس گیا،اس نے میرے لیے تکیہ رکھا اور کہا: اگر میرا بھائی جبریل اس سے کھڑا نہ ہوا ہوتا تو میں نے اس کو تیرے لیے رکھنا تھا، یہ بات سن کر میں نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن پھر مجھے ایک حدیثیاد آ گئی، میرے بھائی سیدنا عمرو بن حمق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مؤمن کسی مؤمن کو اپنے خون پر امین بنائے اور پھر وہ اس کو قتل کر دے تو میں قاتل سے بری ہوں۔

Haidth Number: 9764
۔ (دوسری سند) میں مختارکا پہرہ دیتا تھا، جب میں نے پہچان لیا کہ یہ جھوٹا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ اپنی تلوار سونتوں اور اس کی گردن اڑا دوں، لیکن پھر مجھے ایک حدیثیاد آ گئی، سیدنا عمرو بن حمق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی آدمی کو اپنی جان پر امن والا بنایا، لیکن اس نے اس کو قتل کر دیا تو قیامت والے دن اس کو دھوکے کا جھنڈا دیا جائے گا۔

Haidth Number: 9765
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔

Haidth Number: 9923
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتی، مگر اس طرح کہ وہ جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیںیا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔ (سورۂ زخرف: ۵۸)

Haidth Number: 9924
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اس وقت تک کامل ایمان تک نہیںپہنچ سکتا، جب تک مذاق میں جھوٹ بولنے کو اور جھگڑنے کو ترک نہ کر دے، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اس وقت تک کامل ایمان تک نہیںپہنچ سکتا، جب تک مذاق میں جھوٹ بولنے کو اور جھگڑنے کو ترک نہ کر دے،

Haidth Number: 9925
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالوہو۔

Haidth Number: 9926