Blog
Books
Search Hadith

{وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ} کی تفسیر

13 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کی بنا دیں اور پہاڑوں کو ان سے دور کر دیں، تا کہ (جگہ ہموار ہو جائے اور) وہ کھیتی باڑ ی کر سکیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا: اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کو مہلت دے دیں اورچاہتے ہیں تو ان کے لیے ان کا مطالبہ پورا کر دیں، لیکن اگر مطالبہ پورا ہو جانے کے بعد بھی انہوں نے کفر کیا تو میں انہیں اس طرح ہلاک کر دوں گا، جس طرح ان سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں انہیں مہلت دیتا ہوں۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۔} … اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلادیا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی واضح نشانی کے طور پر دی تو انھوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔

Haidth Number: 8653

۔ (۱۰۹۹۴)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ اَبِیْ مُسْلِمٍ خَالِ ابْنِ اَبِیْ نَجِیْحٍ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍیَقُوْلُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ: وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، ثُمَّ بَکٰی حَتَّی بَلَّ دَمْعُہُ، وَقَالَ مَرَّۃً: دُمُوعُہُ الْحَصَی، قُلْنَا: یَا أَبَا الْعَبَّاسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَعُہُ، فَقَالَ: ((ائْتُونِی أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا۔)) فَتَنَازَعُوا وَلَا یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا: مَا شَأْنُہُ أَہَجَرَ، قَالَ سُفْیَانُ: یَعْنِی ہَذَی اسْتَفْہِمُوہُ، فَذَہَبُوا یُعِیدُونَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((دَعُونِی فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِّی إِلَیْہِ۔)) وَأَمَرَ بِثَلَاثٍ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: أَوْصٰی بِثَلَاثٍ، قَالَ: ((أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُہُمْ۔)) وَسَکَتَ سَعِیدٌ عَنِ الثَّالِثَۃِ فَلَا أَدْرِی أَسَکَتَ عَنْہَا عَمْدًا، وَقَالَ مَرَّۃً: أَوْ نَسِیَہَا، و قَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: وَإِمَّا أَنْ یَکُونَ تَرَکَہَا أَوْ نَسِیَہَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۵)

سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، کیسا جمعرات کا دن؟ یہ کہہ کر وہ رونے لگے اور اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں بھیگ گئیں، ہم نے عرض کیا: اے ابو العباس ! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: اس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم( کاغذ، قلم) میرے پاس لے آؤ۔ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، حاضرین کا آپس میں تنازعہ ہو گیا، حالانکہ نبی کے پاس آپس میں تنازعہ کرنا مناسب نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا ہوا؟ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیماری کی شدت یا غشی میں کچھ کہہ رہے ہیں؟ امام سفیان نے ایک مرتبہ یوں کہاکہ آیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہذیان ہوا ہے؟ ذرا آپ سے دوبارہ پوچھو، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بار باردریافت کرنے لگے۔ ( کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے میرے حال پر رہنے دو، تم مجھے جس طرف بلانا چاہتے ہو، اس کی نسبت میں جس حال میں میں ہوں، وہ بہتر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین باتوں کا حکم دیا، سفیان راوی نے کہا کہ تین باتوں کی وصیت فرمائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا اور باہر سے آنے والے وفود کا اسی طرح خیال رکھنا جس طرح میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ اور تیسری بات کے ذکر کرنے سے سعید بن جبیر نے سکوت اختیار کیا، ان کے شاگرد کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ آیا وہ عمداً خاموش رہے تھے یا تیسری بات کو بھول گئے تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ یا تو انہوں نے عمداً تیسری بات کو چھوڑ دیا تھا یا بھول گئے تھے۔

Haidth Number: 10994
سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے پاس ایک چوڑی ہڈی لے آؤں، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک اہم بات لکھوا دیں تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت گمراہ نہ ہو۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہڈی لینے جاؤں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر جائے۔ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے بتلا دیں، میںیاد کر کے محفوظ کر لوں گا۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نماز، زکوۃ اور اس چیز کے بارے وصیت کرتا ہوں کہ تمہارے دائیں ہاتھ جس کے مالک ہیں۔

Haidth Number: 10995
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا:تم شانے کی کوئی چوڑی ہڈییا کوئی تختی میرے پاس لاؤ تاکہ میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں وصیت لکھ دوں تاکہ انپر اختلاف نہ ہو۔ جب عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! اللہ اور مومنوں نے تجھ پر اختلاف کرنے کا انکار کر دیا ہے۔

Haidth Number: 10996
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مرض الموت طاری تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر اور ان کے صاحبزادے کو میرے پاس بلا لاؤ، اور لکھنے والا لکھے تاکہ کوئی لالچییا خواہش مند ابوبکر کی خلافت کے بارے میں لالچ یا تمنا نہ کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود دو مرتبہ فرمایا کہ اللہ اور اہل اسلام ( ابوبکر کے سوا کسی دسرے کو) قبول نہیں کریں گے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: (اسی طرح ہوا اور) اللہ اور مسلمانوں اور مومنوں نے انکار کر دیا، الا یہ کہ میرے ابو (خلیفہ بنیں)، پس پھر میرے ابو ہی بنے۔ ! یہ سند کے درمیان میں ایک راوی ہیں جن کے باپ کا نام بھی ابوبکر ہے اس جگہ ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹے عبدالرحمن مراد نہیں ہیں۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 10997
سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات سے قبل ایک صحیفہ منگوایا تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ا س پر ایک ایسی بات لکھوا دیں تاکہ لوگ آپ کے بعد گمراہ نہ ہوں، لیکن سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے اختلاف کیا، تاآنکہ خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی اس ارادہ کو موقوف کر دیا۔

Haidth Number: 10998

۔ (۱۱۹۰۵)۔ عَنْ أَبِی عُمَرَ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: نَزَلَ بِأَبِی الدَّرْدَائِ رَجُلٌ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مُقِیمٌ فَنَسْرَحَ أَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفَ، قَالَ: بَلْ ظَاعِنٌ، قَالَ: فَإِنِّی سَأُزَوِّدُکَ زَادًا لَوْ أَجِدُ مَا ہُوَ أَفْضَلُ مِنْہُ لَزَوَّدْتُکَ، أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ذَہَبَ الْأَغْنِیَائُ بِالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ نُصَلِّی وَیُصَلُّونَ، وَنَصُومُ وَیَصُومُونَ، وَیَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، قَالَ: ((أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی شَیْئٍ إِنْ أَنْتَ فَعَلْتَہُ لَمْ یَسْبِقْکَ أَحَدٌ کَانَ قَبْلَکَ وَلَمْ یُدْرِکْکَ أَحَدٌ بَعْدَکَ إِلَّا مَنْ فَعَلَ الَّذِی تَفْعَلُ، دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ تَسْبِیحَۃً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ تَحْمِیدَۃً، وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِینَ تَکْبِیرَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۵۲)

سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے ہاں مہمان ٹھہرا، انھوں نے اس سے دریافت کیا کہ اگر آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں تو ہم آپ کی سواری کو چراگاہ میں بھجوا دیں اور اگر جلد روانگی کا پروگرام ہو تو ہم اسے یہیں چارہ ڈال دیں۔ اس آدمی نے کہا:نہیں، میں تو بس جانے والا ہوں، انہوں نے فرمایا: میں آپ کو ایک زادِ راہ دینا چاہتا ہوں، اگر میرے پاس اس سے بہتر کوئی تحفہ ہوتا تو میں وہ آپ کی نذر کرتا۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا تھا اور آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مالدار لوگ دنیا کے لحاظ سے بھی آگے نکل گئے اور آخرت کے لحاظ سے بھی ۔ہم (غریب لوگ) نماز پڑھتے ہیں اور وہ امیر لوگ بھی نماز ادا کرتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں اور وہ بھی روزے رکھتے ہیں، لیکن وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کر سکتے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتلائوں، اگر تم اس پر عمل کرو تو نہ اگلوں میں سے کوئی تم سے آگے بڑھ سکے گا اور نہ پچھلوں میں سے کو تجھ کو پا سکے گا، ماسوائے اس کے جو اسی پر عمل کرے، تم ہر نماز کے بعد تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا کرو۔

Haidth Number: 11905

۔ (۱۱۹۰۶)۔ عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ أَتَعَلَّمُ مِنْہُ فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ، قَالَ: آذِنْ النَّاسَ بِمَوْتِی، فَآذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِہِ، فَجِئْتُ وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ آذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِکَ وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاہُ، قَالَ: أَخْرِجُونِیْ فَأَخْرَجْنَاہُ، قَالَ: أَجْلِسُونِی، قَالَ: فَأَجْلَسْنَاہُ، قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوئَ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ یُتِمُّہُمَا، أَعْطَاہُ اللّٰہُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا أَوْ مُؤَخِّرًا۔)) قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِیَّاکُمْ وَالِالْتِفَاتَ فَإِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِلْمُلْتَفِتِ، فَإِنْ غُلِبْتُمْ فِی التَّطَوُّعِ فَلَا تُغْلَبُنَّ فِی الْفَرِیضَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۴۵)

سیدنایوسف بن عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں حصول علم کے لیے سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا۔ تو انہوںنے مجھ سے کہا: تم لوگوں کو میری وفات کی اطلاع کردو۔ میں نے لوگوںکو ان کی وفات کی اطلاع دی، میں واپس آیا تو ان کا گھر اور ارد گرد کے مقامات لوگوں سے بھرے تھے، میں نے جا کر ان سے عرض کیا: میں نے لوگوں کو آپ کی وفات کی اطلاع دی اورگھر اور اردگرد کے مقامات لوگوں سے بھر گئے ہیں۔ انھوں نے مجھے کہا: تم مجھے باہر لے چلو، ہم ان کو باہر لے گئے۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھا دو، ہم نے ان کو بٹھا دیا۔ انہوںنے کہا: لوگو! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو آدمی اچھی طرح مکمل وضو کرکے مکمل دو رکعت نماز ادا کرے تو وہ اللہ سے جو بھی دعا کرے، اللہ اسے جلد یا بدیر اس کی مطلوبہ چیز ضرور عطا فرمائے گا۔ پھر انھوں نے کہا: لوگو! نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھا کرو، جو کوئی ادھر ادھر دیکھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی، اگر نفل نماز میں اس کی ضرورت پیش آ جائے تو خیر، مگر فرض نماز میں اس کی گنجائش نہ نکالا کرو۔

Haidth Number: 11906

۔ (۱۲۴۵۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہُ: عَمَّارٌ، قَالَ: أَدْرَبْنَا عَامًا ثُمَّ قَفَلْنَا، وَفِینَا شَیْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَذُکِرَ الْحَجَّاجُ فَوَقَعَ فِیہِ وَشَتَمَہُ، فَقُلْتُ لَہُ: لِمَ تَسُبُّہُ وَہُوَ یُقَاتِلُ أَہْلَ الْعِرَاقِ فِی طَاعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَقَالَ: إِنَّہُ ہُوَ الَّذِی أَکْفَرَہُمْ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ خَمْسُ فِتَنٍ۔)) فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الصَّیْلَمُ، وَہِیَ فِیکُمْیَا أَہْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَکْتَہَا فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ حَجَرًا فَکُنْہُ، وَلَا تَکُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ أَلَا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: وَلَا تَکُنْ، وَقَدْ حَدَّثَنَا بِہِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ أَفَلَا کُنْتَ أَعْلَمْتَنِی أَنَّکَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أُسَائِلَکَ؟ (مسند احمد: ۲۰۹۷۲)

ابو صدیق ناجی سے مروی ہے کہ حجاج بن یوسف جب سیدنا عبداللہ زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر چکا تو اس کے بعد ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گیا اور کہنے لگا: تمہارے بیٹے نے بیت اللہ کے اندر الحاد کیا تھا،سو اللہ تعالیٰ نے اسے درد ناک عذاب سے دو چار کیا اور اس کے ساتھ بہت کچھ کیا، سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، وہ تو اپنے والدین کا انتہائی خدمت گزارتھا، وہ دن کو بہت زیادہ روز ے رکھنے والا اور رات کو بہت زیادہ قیام کرنے والا تھا، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اطلاع دے چکے ہیں کہ عنقریب قبیلہ ثقیف میں سے دو جھوٹے آدمی ظاہر ہوں گے، ان میںسے بعد والا پہلے سے بھی برا ہوگا اوروہ بہت ہی خون ریزہوگا۔

Haidth Number: 12455
عنترہ سے مروی ہے کہ جب حجاج نے سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا اور انہیں الٹا کر کے لٹکا دیا، تو وہ اس دوران منبر پر تھاکہ اچانک سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آ گئیں، ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، ایک لونڈی ان کاہاتھ پکڑے ان کو لائی، سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! تمہارا امیر کہاں ہے؟ اس کے بعدعنترہ نے مفصل واقعہ بیان ہے، اس کے آخر میں ہے:سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج سے کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، میں تمہیں ایک حدیث سناتی ہوں، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبیلہ ثقیف میں دو جھوٹے آدمی نکلیں گے، ان میں سے بعد والا پہلے سے بھی زیادہ شر والا ہوگا اور وہ بہت ہی خون ریز ہوگا۔

Haidth Number: 12456
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبیلہ ثقیف میں ایک ہلاک کرنے والا یعنی خون ریز آدمی ہوگا اور ایک جھوٹا۔

Haidth Number: 12457
زبیر بن عدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نے حجاج کے مظالم کا سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شکوہ کیا،انہوں نے کہا: صبر کرو، میں نے تمہارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ تم پر جو بھی دن اور سال آتا ہے، اس سے بعد والا دن اور سال پہلے سے بدتر ہوتا ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب عزوجل سے جا ملو گے۔

Haidth Number: 12458
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہ کر جو کچھ دیکھ چکا ہوں،آج مجھے ان میں سے کچھ بھی نظرنہیں آتا، ابورافع نے کہا: اے ابو حمزہ! کیا نماز بھی ویسی نہیں رہی؟ انہوں نے کہا: کیا تم نہیںجانتے کہ حجاج1 نے نماز کا بھی کیا حشر کر دیا ہے؟

Haidth Number: 12459