Blog
Books
Search Hadith

{وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا} کی تفسیر

15 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا} … اور فجر کا قرآن (پڑھ)، بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے اس نماز میں حاضر ہوتے ہیں۔

Haidth Number: 8655
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کے دوران آپ کے منہ میں دوا ڈالنے کی کوشش کی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ کیا کہ مجھے اس طرح دوا نہ دو۔ میں نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عام مریض کی طرح دوا کونا پسند کر رہے ہیں، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوا نہ ڈالو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب ہر ایک کے منہ میں دوا ڈالی جائے، ما سوائے عباس کے، کیونکہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔

Haidth Number: 11006

۔ (۱۱۰۰۷)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَہُ: یَا ابْنَ أُخْتِی! لَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَمَّہُ أَمْرًا عَجِیبًا، وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَتْ تَأْخُذُہُ الْخَاصِرَۃُ فَیَشْتَدُّ بِہِ جِدًّا، فَکُنَّا نَقُولُ: أَخَذَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِرْقُ الْکُلْیَۃِ لَا نَہْتَدِی أَنْ نَقُولَ الْخَاصِرَۃَ، ثُمَّ أَخَذَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَاشْتَدَّتْ بِہِ جِدًّا حَتّٰی أُغْمِیَ عَلَیْہِ، وَخِفْنَا عَلَیْہِ، وَفَزِعَ النَّاسُ إِلَیْہِ، فَظَنَنَّا أَنَّ بِہِ ذَاتَ الْجَنْبِ فَلَدَدْنَاہُ، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَفَاقَ، فَعَرَفَ أَنَّہُ قَدْ لُدَّ وَوَجَدَ أَثَرَ اللَّدُودِ، فَقَالَ: ((ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَلَّطَہَا عَلَیَّ مَا کَانَ اللّٰہُ یُسَلِّطُہَا عَلَیَّ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَبْقٰی فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ إِلَّا عَمِّی۔)) فَرَأَیْتُہُمْیَلُدُّونَہُمْ رَجُلًا رَجُلًا قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَمَنْ فِی الْبَیْتِیَوْمَئِذٍ فَتَذْکُرُ فَضْلَہُمْ فَلُدَّ الرِّجَالُ أَجْمَعُونَ، وَبَلَغَ اللُّدُودُ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلُدِدْنَ امْرَأَۃٌ امْرَأَۃٌ حَتّٰی بَلَغَ اللُّدُودُ امْرَأَۃً مِنَّا، قَالَ ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ: لَا أَعْلَمُہَا إِلَّا مَیْمُونَۃَ، قَالَ: وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: أُمُّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: إِنِّی وَاللّٰہِ! صَائِمَۃٌ، فَقُلْنَا: بِئْسَمَا ظَنَنْتِ أَنْ نَتْرُکَکِ، وَقَدْ أَقْسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَدَدْنَاہَا، وَاللّٰہِ! یَا ابْنَ أُخْتِی! وَإِنَّہَا لَصَائِمَۃٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۸۲)

ہشام بن عروہ سے مروی ہے کہ میرے والد( عروہ) نے مجھے بتلایا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان ( عروہ) سے کہا: میرے بھانجے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے اپنے چچا (عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کی تعظیم کے حوالے سے ایک عجیب بات دیکھی، آپ کو کوکھ میں شدید درد ہوا کرتا تھا، ہم کہتے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گردے کی تکلیف ہے، ہم اسے کوکھ کا درد نہیں کہتے تھے، ایک دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پھر یہ درد اس قدر شدت سے اٹھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہو گئی اور ہمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا، سب لوگ گھبرا کر آپ کی طرف لپکے، ہم نے سمجھا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ذات الجنب کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، اس لیے ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ کے ایک گوشے میں دوا ڈال دی، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ کیفیت زائل ہو گئی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہونے پر احساس ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا ڈالی گئی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منہ میں دوا کا اثر بھی محسوس کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو مجھ پر مسلط کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہرگز اسے مجھ پر مسلط نہیں کرے گا، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، گھر میں جس قدر افراد ہیں، میرے چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا باقی ہر شخص کے منہ میں یہی دوا ڈالی جائے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ایک کے منہ میں وہ دوا ڈال رہے تھے، اس روز گھر میں جتنے لوگ موجود تھے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے تمام افراد کے نام اور ان کے فضائل بھی ذکر کئے، سب مردوں کے منہ میں دوا ڈالی جا چکی تو ازواج مطہرات کی باری آئی۔ ان میں سے ہر اک کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی۔ ابن ابی لزناد کی روایت کے مطابق سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور دوسرے حضرات کے بیان کے مطابق ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی باری آئی تو انہوں نے کہا: للہ کی قسم میں نے توروزہ رکھا ہوا ہے، لیکن ہم نے کہا: تم نے غلط سمجھا کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو اس بات کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ دختر زادے! اللہ کی قسم! وہ روزہ سے تھیں اور ہم نے ان کے منہ میں بھی دوا انڈیل دی۔

Haidth Number: 11007

۔ (۱۱۰۰۸)۔ عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: أَوَّلُ مَا اشْتَکٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ مَیْمُونَۃَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُہُ حَتّٰی أُغْمِیَ عَلَیْہِ فَتَشَاوَرَ نِسَاؤُہُ فِی لَدِّہِ فَلَدُّوہُ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) فَقُلْنَا: ہٰذَا فِعْلُ نِسَائٍ جِئْنَ مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ إِلٰی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ، وَکَانَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ فِیہِنَّ، قَالُوا: کُنَّا نَتَّہِمُ فِیکَ ذَاتَ الْجَنْبِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((إِنَّ ذٰلِکَ لَدَائٌ، مَا کَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْرَفُنِی بِہِ، لَا یَبْقَیَنَّ فِی ہٰذَا الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا الْتَدَّ إِلَّا عَمُّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔)) یَعْنِی الْعَبَّاسَ، قَالَ: فَلَقَدِ الْتَدَّتْ مَیْمُونَۃُیَوْمَئِذٍ وَإِنَّہَا لَصَائِمَۃٌ لِعَزْمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۱۷)

سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کا آغاز ام المؤمنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا ڈالنے کا مشورہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا انڈیل دی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا:یہ ارضِ حبشہ سے آئی ہوئی عورتوں کا کام ہے، سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی ان خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے سمجھا کہ آپ کو نمونیا کی شکایت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نمونیا ایسی بیماری ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس میں مبتلا نہیں کرے گا، اب گھر میں جتنے بھی لوگ ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا ان سب کے منہ میں یہ دوا انڈیلی جائے۔ راوی کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قسم کے پیش نظر سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی حالانکہ وہ روزے سے تھیں۔

Haidth Number: 11008
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونک مارتے، سیدہ کہتی ہیں:جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کی برکت کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم پرپھیرتی تھی۔

Haidth Number: 11009
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار پڑے تو میںآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کو پکڑکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ مبارک پر پھیرتی اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرتی، اَذْھِبِ الْبَاْسِ رَبِّ النَّاسِ (اے لوگوں کے رب! بیماری کو دور کر دے) ، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر فرمایا: اَسْاَلُ اللّٰہَ الرَّفِیْقَ الْاَعْلَی الْاسْعَدَ (میں اللہ تعالیٰ سے بلند مرتبہ با سعادت حضرات کی رفاقت کی دعا کرتا ہوں۔)

Haidth Number: 11010
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بیمار ہوتے تو میں آپ کو وہ دعا پڑھ کر دم کرتی تھی کہ جس دعا کے ساتھ جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے اور دعا کیا کرتے تھے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ دعا پڑھنے لگی: أَذْہِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِیَدِکَ الشِّفَائُ لَا شَافِیَ إِلَّا أَنْتَ اشْفِ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا (لوگوں کے رب! بیماری کو زائل فرما، شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تیرے سوا کوئی شفا نہیں دے سکتا، ایسی شفا عطا فرما جو کسی بھی بیماری کو باقی نہیں چھوڑے۔) جب میں مرض الموت میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیےیہ دعا کرنے لگی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس سے اُٹھ جاؤ، یہ دعا مجھے آج سے پہلی بیماریوں میں فائدہ دیتی تھی ( اب اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اب موت کا وقت آ چکا ہے اور وہ ٹلنے والا نہیں ہے) ۔

Haidth Number: 11011
سید ہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مرض الموت کے دوران فرمایا: مجھ پر سات ایسی مشکوں کاپانی ڈالو، جن کے منہ کے بندھن کو نہ کھولا گیا ہو، شاید اس طرح مجھے کچھ راحت ہو، اور میں لوگوں سے ہم کلام ہو سکوں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ایک ٹب میں بٹھا دیا، جو تانبے کا بنا ہوا تھا، اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی ڈالنا شروع کیا، تاآنکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف اشارہ کرنے لگے کہ تم نے کام پورا کر دیا ہے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر( مسجد کی طرف) تشریف لے گئے۔

Haidth Number: 11012
سیدنا ابوزید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سر اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی: ٍٔیا اللہ! اسے خوبصورت بنا دے اور اس کا جمال دائمی ہو۔ علبا کہتے ہیں: سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر ایک سو چھ سات برس ہو گئی تھے، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال بہت کم سفید ہوئے تھے، ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا اور ان کی وفات تک اس پر جھریاں نہیں پڑی تھیں۔

Haidth Number: 11919
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں جمال سے نوازے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ خوبصورت اور بہترین نقش و نگار رکھتے تھے۔

Haidth Number: 11920
۔ ( تیسری سند)سیدنا ابو زید عمرو بن اخطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی طلب فرمایا، میں آپ کی خدمت میں پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا، اس میں پانی اور ایک بال تھا، میں نے بال نکال دیا اور پانی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یوں دعا دی: یا اللہ! اسے خوبصورت بنا دے۔ راوی کہتا ہے: میں نے ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو (۹۳) سال کی عمر میں اور دوسری روایت کے مطابق (۹۴)سال کی عمر میںدیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی میں ایک بھی سفید بال نہ تھا۔

Haidth Number: 11921
سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابو زید! تم میرے قریب ہو جاؤ اور میری پشت پر ہاتھ پھیرو۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی پشت سے کپڑا ہٹایا، تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرا اور مہر نبوت کو میں نے اپنی انگلیوں میں لے لیا اور اسے دبا کر دیکھا۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ مہر کیسی تھی؟ انھوں نے کہا: وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر تھی اور اس پر بال اُگے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 11922
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو زید عمرو بن اخطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کاندھوں کے درمیان جو مہر تھی، وہ دیکھی۔ ابو زیدنے تین انگلیوں کو جمع کر کے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ اس طرح تھی، میں نے اسے ہاتھ لگا کر چھوا تھا۔

Haidth Number: 11923
سیدنا ابوزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں تیرہ غزوات لڑے ہیں۔ شعبہ راوی نے کہا: سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس عزرہ کے دادا تھے۔

Haidth Number: 11924

۔ (۱۲۴۶۳)۔ حَدَّثَنَا یُونُسُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْیَشْکُرِیُّ، حَدَّثَنَا شَیْخٌ کَبِیرٌ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍیُقَالُ لَہُ: عَبْدُ الْمَجِیدِ الْعُقَیْلِیُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا لَیَالِیَ خَرَجَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ، وَقَدْ ذُکِرَ لَنَا أَنَّ مَائً بِالْعَالِیَۃِ،یُقَالُ لَہُ: الزُّجَیْجُ، فَلَمَّا قَضَیْنَا مَنَاسِکَنَا جِئْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الزُّجَیْجَ، فَأَنَخْنَا رَوَاحِلَنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا عَلٰی بِئْرٍ،ٔعَلَیْہِ أَشْیَاخٌ مُخَضَّبُونَ یَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: قُلْنَا: ہٰذَا الَّذِی صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْنَ بَیْتُہُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، صَحِبَہُ وَہٰذَاکَ بَیْتُہُ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الْبَیْتَ فَسَلَّمْنَا، قَالَ: فَأَذِنَ لَنَا فَإِذَا ہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ مُضْطَجِعٌ، یُقَالُ لَہُ: الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدٍ الْکِلَابِیُّ، قُلْتُ: أَنْتَ الَّذِی صَحِبْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا أَنَّہُ اللَّیْلُ لَأَقْرَأْتُکُمْ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیَّ، قَالَ: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِکُمْ، مَا فَعَلَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ؟ قُلْنَا: ہُوَ ہُنَاکَ یَدْعُو إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَإِلٰی سُنَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ، فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ، قَالَ: قُلْتُ: أَیًّا نَتَّبِعُ ہٰؤُلَائِ أَوْ ہٰؤُلَائِ یَعْنِی أَہْلَ الشَّامِ أَوْ یَزِیدَ، قَالَ: إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوا، إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوْا، لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَیَوْمَ عَرَفَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ فِی الرِّکَابَیْنِیُنَادِی بِأَعْلٰی صَوْتِہِ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَیُّیَوْمِکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ شَہْرٍ شَہْرُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ بَلَدٍ بَلَدُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((یَوْمُکُمْیَوْمٌ حَرَامٌ، وَشَہْرُکُمْ شَہْرٌ حَرَامٌ، وَبَلَدُکُمْ بَلَدٌ حَرَامٌ۔)) قَالَ: فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، إِلٰییَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ۔)) قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ۔)) ذَکَرَ مِرَارًا فَلَا أَدْرِی کَمْ ذَکَرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۰۲)

قبیلہ بنو عقیل کے ایک بڑے شیخ عبدالمجید عقیلی نے بیان کیاکہ جن دنوں یزید بن مہلب نے یزید بن عبدالملک کے خلاف خروج کیا، ان دنوں ہم حج کرنے کے لیے گئے، ہمارے سامنے العالیہ کے نواح میں الزجیج نامی ایک مقام کا ذکر کیا گیا، ہم جب مناسک حج سے فارغ ہوئے تو الزجیج پہنچے، ہم نے وہاں اپنی سواریوں کو بٹھایا اور ہم چلتے چلتے ایک کنوئیں پر جا پہنچے، وہاں کچھ بزرگ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ان کے بال رنگے ہوئے تھے، ہم نے پوچھا، یہاں جو آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صحابی ہے، اس کا گھر کہاں ہے؟لوگوں نے بتلایا کہ ہاں وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صحابی ہے اور وہ اس کا گھر ہے، ہم اس کے گھر چلے، ہم نے جا کر انہیں سلام کہا، تو انہوں نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ ایک عمر رسیدہ بزرگ آدمی تھے، وہ لیٹے ہوئے تھے ان کا نام عداء بن خالد کلابی تھا،میں نے کہا: کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جنہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اگر اب رات نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ خط پڑھاتا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے لکھا تھا،انہوں نے کہا تم کون ہو؟ ہم نے کہا: ہم بصرہ کے باشندے ہیں،انہوںنے کہا: آپ کی آمد مبارک ہو، بزید بن مہلب کیا کر رہا ہے؟ ہم نے بتلایا کہ وہ وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہے، انہوںنے کہا: اس کی وہاں کیا پوزیشن ہے؟ میں نے پوچھا، ہم وہاں کس کا ساتھ دیں؟ اہل شام یا یزید کا؟ انہوں نے فرمایا: اگر تم غیر جانب دار ہو کر ایک طرف ہو کر بیٹھ رہو تو فلاح پاؤ گے اور کامیاب رہوگے، انہوں نے یہ بات تین دفعہ دہرائی اور کہامیں نے عرفہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کودیکھا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر کھڑے بلند آواز سے فرما رہے تھے،: لوگو! آج کونسا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جاتنے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوںنے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے، یہ مہینہ بھی حرمت والا ہے، یہ شہر بھی حرمت والا ہے، خبردار! تمہارے خون اور اموال قیامت تک ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح آج کے دن کی اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے، پس وہ تم سے ملاقات کے دن تمہارے اعمال کی بابت پوچھ گچھ کرے گا۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا: یااللہ گواہ رہنا یا اللہ ان پر گواہ رہنا۔ انہوں نے اس بات کا کئی دفعہ ذکر کیا مجھے یاد نہیں کہ کتنی دفعہ کیا۔

Haidth Number: 12463