Blog
Books
Search Hadith

{وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ} کی تفسیر

337 Hadiths Found
۔ سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}… اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے (سورۂ بقرہ: ۱۸۷) تو میں عدی نے دو دھاگے لئے، ان میں سے ایک سیاہ تھا اور دوسرا سفید، میں نے انہیں اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دیا، پھر میں نے انہیں دیکھنا شروع کردیا، لیکن میرے لئے نہ تو سیا ہ دھاگہ ظاہر ہوتاتھا اور نہ ہی سفید دھاگہ، جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور میں نے جو کچھ کیا تھا، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے، اس سے یہ مراد تو دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی۔

Haidth Number: 8499
۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے نماز اور روزہ کی تعلیم دی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فلاں وقت میں فلاں نماز پڑھو اور روزہ رکھو، جب سورج غروب ہوجائے تو پھرکھائو اور پیو،یہاں تک کہ سیاہ دھاگے سے سفید دھاگہ ظاہرہو جائے اور تیس دن روزے رکھو، الا یہ کہ چاند پہلے نظر آ جائے۔ میں نے سیاہ اور سفید بالوں سے دو دھاگے لیے اور ان کو دیکھنا شروع کردیا، لیکن وہ میرے لیے ظاہر نہیں ہوئے، جب میں نے اس بات کا ذکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا تو آپ مسکرائے اور فرمایا: اے ابن حاتم! اس سے دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی مراد ہے۔

Haidth Number: 8500

۔ (۹۱۰۱)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَال: بَیْنَا اَنَاجَاِلسٌ مَعَ اَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ، ابْنٌ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طِھْفَۃَ، فَقَالَ اَبُوْ سَلَمَۃَ: اَلا تُخْبِرُنَا عَنْ خَبْرِ اَبِیْکَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ طِھْفَۃَ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا کَثُرَ الضَّیْفُ عِنْدُہُ، قَالَ: ((لِیَنْقَلِبْ کُلُّ رَجُلٍ بِضَیْفِہِ۔)) حَتّٰی اِذَا کَانَ ذَاتُ لَیْلَۃٍ اجْتَمَعَ عِنْدَہُ ضِیْفَانٌ کَثِیْرٌ،وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لِیَنْقَلِبْ کُلُّ رَجُلٍ مَعَ جَلِیْسِہِ۔)) قَالَ: فَکُنْتُ مِمَّنِ انْقَلَبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّادَخَلَ، قَالَ: ((یَاعَائِشَۃُ! ھَلْ مِنْ شَیْئٍ؟)) قَالَتْ: نَعَمْ، حُوَیْسَۃٌ کُنْتُ اَعْدَدْتُّھَا لِاِفْطَارِکَ، قَالَ: فَجَائَ تْ بِھَا فِیْ قُعَیْبَۃٍ لَّھَا، فَتَنَاوَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْھَا قََِیْـلًا فَاَکَلَہُ، ثُمَّ قَالَ: ((خُذُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ۔)) فَاَکَلْنَا مِنْھَا حَتّٰی مَانَنْظُرُ اِلَیْھَا، ثُمَّ قَالَ: ((ھَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَرَابٍ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، لُبَیْنَۃٌ کُنْتُ اَعْدَدْتُّھَا لَکَ، قَالَ: ((ھَلُمِّیْھَا۔)) فَجَائَ تْ بِھَا فَتَنَاوَلَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَفَعَھَا اِلٰی فِیْہِ فَشَرِبَ قَلِیْلاً، ثُمَّ قَالَ: ((اشْرَبُوْا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَشَرِبْنَا حَتّٰی وَاللّٰہِ مَانَنْظُرُ اِلَیْھَا، ثُمَّ خَرَجْنَا، فَاَتََیْنَا الْمَسْجِدَ فَاضْطَجَعْتُ عَلٰی وَجْہِیْ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ یُوْقِظُ النَّاسَ ((الصَّلاۃَ الصَّلاۃَ)) وَکَانَ اِذَا خَرَجَ یُوْقِظُ النَّاسَ لِلصَّلاۃِ، فَمَرَّ بِیْ وَاَنَا عَلیٰ وَجْھِیْ، فَقَالَ: ((مَنْ ھٰذَا؟)) فَقُلْتُ: اَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنْ طِھْفَۃَ ، فَقَالَ: ((اِنَّ ھٰذِہِ ضِجْعَۃٌیَکْرَھُھَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۱۵)

۔ حارث بن عبد الرحمن کہتے ہیں: میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ بنو غفار کا ایک آدمی ہمارے پاس آ گیا،یہ سیدنا عبد اللہ بن طہفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیٹا تھا، ابو سلمہ نے اس آدمی سے کہا: کیا تو ہمیں اپنے باپ کا واقعہ نہیں بتلائے گا؟ اس نے کہا: میرے باپ سیدنا عبد اللہ بن طہفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مہمان زیادہ ہو جاتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: ہر آدمی ایک مہمان کو اپنے گھر لے جائے۔ ایک رات بہت زیادہ مہمان جمع ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر آدمی اپنے ہم نشیں کے ساتھ چلا جائے۔ میں عبد اللہ بن طہفہ ان لوگوں میں تھا، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گئے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں داخل ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، حویسہ (کھجور، پنیر اور گھی سے تیار شدہ کھانا) ہے، میں نے آپ کی افطاری کے لیے تیار کیاتھا، پھر وہ ایک چھوٹے پیالے میں لے کر آگئیں، پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود اس کو پکڑا، اس سے کچھ تناول کیا اور پھر فرمایا: اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ۔ پس ہم نے اس سے کھایا،یہاں تک کہ ہم (زیادہ سیر ہو جانے کی وجہ سے) اس کو دیکھ نہیں رہے تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ سے فرمایا: کیا کوئی مشروب ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، تھوڑا سا دودھ ہے، میں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو لے آؤ۔ پس وہ لے کر آئیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو پکڑا، اپنی منہ کی طرف اٹھایا اور اس سے تھوڑا سا پیا اور پھر فرمایا: اللہ کے نام کے ساتھ پیو۔ پس ہم نے پیا،یہاں تک کہ اللہ کی قسم! ہم (کثرت ِ سیرابی کی وجہ سے) اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے، پھر ہم وہاں سے نکل کر مسجد میںآگئے اور میں چہرے کے بل لیٹ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز کے لیے جگانے کے لیے فرمانے لگے: نماز، نماز، اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر نکلتے تھے تو لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں اپنے چہرے کے بل لیٹا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: جی میں عبد اللہ بن طہفہ ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ لیٹنے کے اس انداز کو نا پسند کرتا ہے۔

Haidth Number: 9101

۔ (۹۱۰۲)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ اَصْحَابَ الصُّفْۃِ کَانُوْا اُنَاسًا فُقَرَائَ، وَاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ مَرَّۃً: ((مَنْ کَانَ عِنْدَہُ طَعَامُ اثْنَیْنِ، فَلْیَذْھَبْ بِثَالِثٍ، مَنْ کَانَ عَنْدَہُ طَعَامُ اَرْبَعَۃٍ فَلْیَذْھَبْ بِخَامِسٍ، بِسَادِسٍ۔)) اَوْ کَمَا قَالَ: وَاَنَّ اَبَا بَکْرٍ جَائَ فَانْطَلَقَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَشَرَۃٍ وَاَبُوْبَکْرٍ بِثَـلَاثَۃٍ، قَالَ: فَھُوَ اَنَا وَاَبِیْ وَاُمِیِّ وَلا اَدْرِیْ ھَلْ قَالَ: وَاِمْرَاَتِیْ، وَخَادِمٌ بَیْنَ بَیْتِنَا وَبَیْتِ اَبِیْ بَکْرٍ، وَاِنَّ اَبَابَکْرٍ تَعَشّٰی عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ لَبِثَ حَتّٰی صَلَّیْتُ الْعِشَائَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَلَبِثَ حَتّٰی نَعَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ بَعْدَ مَامَضٰی مِنَ اللَّیْلِ مَاشَائَ اللّٰہُ، قَالَتْ لَہُ امْرَاَتُہُ: مَاحَبَسَکَ عَنْ اَضْیَافِکَ، اَوْ قَالَتْ: ضَیْفِکَ؟ قَالَ: اَوْ مَاعَشَّیْتِھِمْ؟ قَالَتْ: اَبَوْا حَتّٰی تَجِیْئَ، قَدْ عَرَضُوْا عَلَیْھِمْ فَغَلَبُوْھُمْ، قَالَ: فَذَھَبْتُ اَنَا فَاخْتَبَاْتُ، قَالَ: یَا غُنْثَرُ اَوْ یَا عَنْتَرُ، فَجَدَّعَ، وَسَبَّ، وَقَالَ: کُلُوْا لا ھَنِیًّا، وَقَالَ: وَاللّٰہِ لااَطْعَمُہُ اَبَدًا، قَالَ: وَحَلَفَ الضَّیْفُ اَنْ لا یَطْعَمَہُ حَتّٰییَطْعَمَہُ اَبُوْبَکْرٍ، قَالَ: فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ: ھٰذِہِ مِنَ الشَّیْطَانِ، قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَاَکَلَ، قَالَ: فَاَیْمُ اللّٰہِ مَاکُنَّا نَاْخُذُ مِنْ لُقْمَۃٍ اِلَّا رَبَا مِنْ اَسْفَلِھَا اَکْثَرَ مِنْھَا قَالَ: حَتّٰی شَبِعُوْا، وَصَارَتْ اَکْثَرَ، مِمَّا کَانَتْ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَنَظَرَ اِلَیْھَا اَبُوْبَکْرٍ، فَاِذَا ھِیَ کَمَا ھِیَ، اَوْ اَکْثَرُ، فَقَالَ لِاِمْرَاَتِہِ: یَااُخْتَ بَنِیْ فِرَاسٍ! مَاھٰذَا؟ قَالَتْ: لَا وَقُرَّۃِ عَیْنِیْ لَھِیَ الْآنَ اََکْثَرُ مِنْھَا قَبْلَ ذٰلِکَ بِثَـلَاثِ مِرَارٍ، فَاَکَلَ مِنْھَا اَبُوْبَکْرٍ، وَقَالَ: اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ،یَعْنِیْیَمِیْنَہُ، ثُمَّ اَکَلَ لُقْمَۃً، ثُمَّ حَمَلَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَصْبَحَتْ عِنْدَہُ، قَالَ: وَکَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ، فَمَضَی الْاَجَلُ، فَعَرَّفْنَا ا ثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ اُنَاسٌ،وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ، کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ، غَیْرَاَنَّہُ بَعَثَ مَعَھُمْ، فَاَکَلُوْا مِنْھَا اَجْمَعُوْنَ اَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۲)

۔ سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ اصحاب ِ صفہ فقیر لوگ تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بار فرمایا: جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو، وہ تیسرا بندہ لے جائے، جس کے پاس چار افراد کا کھانا ہو، وہ پانچواں اور چھٹا بندہ لے جائے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دس افراد کو اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تین افراد کو لے گئے۔ عبد الرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: گھر میں میں، میرے باپ، میری ماں اور ہمارے اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کاایک خادم تھا، راوی کو یہیاد نہیں رہا کہ انھوں نے بیوی کا ذکر کیا تھا یا نہیں۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شام کا کھانا کھا لیا، پھر وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ میں نے نماز کی عشاء پڑھی، پھر وہ واپس لوٹ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ہی ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اونگھ آنے لگی، پھر وہ رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد گھر واپس آئے، ان کی اہلیہ نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو اپنے مہمانوں سے روکے رکھا؟ انھوں نے کہا: کیا تم نے ان کو شام کا کھانا نہیں کھلایا؟ انھوں نے کہا: انھوں نے آپ کی آمد تک انکار کر دیا، ہم نے ان کو کھانا پیش کیا تھا، لیکن ان کا انکار ہم پر غالب آیا۔ عبد الرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں وہاں سے نکلاور چھپ گیا، انھوں نے کہا: اے غُنْثَر! یا اے عَنْتَر! پس انھوں نے مجھے بد دعا دی اور برا بھلا کہا، اور مہمانوں سے کہا: کھاؤ، خوشگوارنہ ہو، اللہ کی قسم! میں بالکل نہیں کھاؤں گا، اُدھر مہمان نے بھی قسم اٹھا لی کہ وہ ابھی اس وقت نہیں کھائے گا، جب تک ابو بکر نہیں کھائیں گے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ تو شیطان کی طرف سے ہے، پھر انھوں نے کھانا منگوایا اور کھا لیا اور کہا: اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ پکڑتے تھے، اس کے نیچے سے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے اور کھانا پہلے سے زیادہ پڑا تھا، جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کھانا تو اسی مقدار میں پڑا ہوا، بلکہ اس سے زیادہ ہے، پس انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے زیادہ لگ رہا ہے، انھوں نے یہ بات تین بار دوہرائی، پس ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کھایا اور کہا: یہ قسم تو شیطان کی طرف سے تھی، پھر انھوں نے لقمہ کھایا اور پھر وہ کھانا اٹھا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طر ف لے گئے اور وہ کھانا صبح کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھا، عبد الرحمن کہتے ہیں: ہمارے اور لوگوں کے ما بین معاہدہ تھا اور وہ مدت گزر گئی تھی، پس ہم نے بارہ نقیب بنائے، ہر نقیب کے ساتھ کچھ لوگ تھے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی کتنی تھی، بہرحال ان کو ان کے ساتھ بھیجا تھا، پس ان سب نے اس کھانے سے کھا لیا تھا۔

Haidth Number: 9102
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ اس طرح بھروسہ کرو، جیسے بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا، جیسے وہ پرندے کو رزق دیتا ہے، جو صبح کو خالی پیٹ ہوتا ہے اور شام کو پیٹ بھرا ہوا۔

Haidth Number: 9252
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکّل کرو، جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تم اس طرح روزی دے گا، جیسے وہ پرندے کو روزی دیتا ہے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ پرندہ صبح کو خالی پیٹ ہوتا ہے اور شام کو سیرو سیراب۔

Haidth Number: 9253
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کو کوئی ضرورت پڑی اور اس نے اس کو لوگوں پر پیش کر دیا تو وہ اس چیز کا زیادہ لائق ہو گا کہ اس کی ضرورت آسانی سے پوری نہ ہو اور جس نے اس حاجت کو اللہ تعالیٰ پر پیش کیا تو اللہ تعالیٰیا تو اس کو جلدیرزق دے گا اور پھر تاخیر سے آنے والی موت دے دے گا۔

Haidth Number: 9254
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو فاقہ میں مبتلا ہو گیا اور پھر اس نے اس فاقے کو لوگوں پر پیش کر دیا تو اس کا فاقہ پورا نہیں ہو گا اور جس نے اس کو اللہ تعالیٰ پر پیش کیا تو وہ جلد ہی اس کو غنی کر دے گا، جلدی موت کی صورت میںیا جلدی غنی کی صورت میں۔

Haidth Number: 9255
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حج کے زمانے میں امتیں دکھائی گئیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنی امت تاخیر سے دکھائی گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب میری امت مجھے دکھائی گئی تو اس کی کثرت نے مجھے تعجب میں ڈال دیا، ہموار جگہ کیا پہاڑ کیا، ہر جگہ کو بھرا ہوا تھا، پھر مجھے کہا گیا کہ ان کے ساتھ ستر ہزار افراد ایسے بھی ہیں، جو حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے، دم نہیں کرواتے، برا شگون نہیں لیتے اور اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ سیدنا عکاشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے ان میں بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے دعا کی، اتنے میں ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔

Haidth Number: 9256
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحفے میں تین پرندے پیش کیے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک پرندہ اپنے خادم کو کھلا دیا، اگلے دن خادمہ نے ایک پرندہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تجھے اس چیز سے منع نہیں کیا تھا کہ کوئی چیز اگلے دن کے لیے نہ رکھا کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر دن کا رزق عطا کرتا ہے۔

Haidth Number: 9257
۔ سیدنا حَبّہ اور سیدنا سواء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک کام کر رہے تھے یا کوئی عمارت بنا رہے تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے کام سے فارغ ہوئے تو ہمارئے لیے دعا کی اور فرمایا: جب تک تمہارے سر حرکت کرتے رہیں گے، اس وقت تک تم نے خیر اور رزق سے ناامید نہیں ہونا، بیشک جب انسان کو اس کی ماں جنم دیتی ہے تو اس پر باریک لباس تک نہیں ہوتا، لیکن پھر اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتا ہے اور رزق دیتا ہے۔

Haidth Number: 9258
۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے ، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں کوئی چیز گن رہی تھی اور اس کا ماپ کررہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسمائ! گنا نہ کر، وگرنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر گننا شروع کر دے گا۔ سیدہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کے بعد میرے پاس جو رزق آیا اور جو خرچ ہوا، میں نے کبھی کسی چیز کو شمار نہیں کیا اور جس دن اللہ تعالیٰ کا جو رزق خرچ ہوا، اس نے اس کا متبادل عطا کر دیا۔

Haidth Number: 9259
۔ سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی کو کوئی مصیبت لاحق ہو تو وہ کہے: {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} اَللّٰھُمَّ عِنْدَکَ اَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِیْ فَأْجُرْنِیْ فِیْھَا، وَاَبْدِلْنِیْ بِھَا خَیْرًا مِنْھَا۔ (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! میں اپنی مصیبت پر تجھ سے ثواب کی امید رکھتا ہوں، پس مجھے اس میں اجر عطا فرما اور اس کا بہترین متبادل عطا فرما) سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: پس جب سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض میں مجھے بہترین خاوند عطا کیا۔

Haidth Number: 9421
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد یہ دعا پڑھتا ہے: {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} اَللّٰھُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا۔ (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر اور بہترین متبادل عطا فرما)تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی مصیبت میں اجر دیتا ہے اور اس کو بہترین متبادل عطا کرتا ہے۔ پس جب میرے خاوند سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے اور میں نے کہا: صحابی ٔ رسول ابو سلمہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے طاقت اور برداشت عطا کی اور میں نے یہ دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس کا بہترین متبادل عطا فرما، پس میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادی کر لی۔

Haidth Number: 9422
۔ سیدنا حسین بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس مسلمان مرد اور عورت کو کوئی تکلیف پہنچی ہو، اگرچہ اس کو کافی زمانہ گزر چکا ہو، پھر وہ نئے سرے سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر پہلی حالت کو واپس کرتا ہے اور اس کو اُتنا اجر عطا کر دیتا ہے، جتنا مصیبت والے دن عطا کیا تھا۔

Haidth Number: 9423
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس دن سات قسم کے افراد کو اپنے سائے میں جگہ دے گا، جس دن صرف اسی کا سایہ ہو گا، (۱)منصف حکمران، (۲) وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پروان چڑھا، (۳) وہ آدمی جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہو، (۴) وہ دو آدمی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کی، اسی پر جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے، (۵) وہ آدمی نے جس نے صدقہ کیا اور اس کو اس طرح چھپایا کہ جو کچھ اس کے دائیں ہاتھ نے خرچ کیا، اس کے بائیں ہاتھ کو اس کا علم نہ ہوا، (۶) وہ آدمی جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑھیں اور (۷) وہ آدمی جس کو منصب اور حسن والی عورت نے اپنے وجود یعنی برائی کی دعوت دی، لیکن اس نے کہا: میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔

Haidth Number: 9632
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن چیزوں کا حکم دیا، وہ یہ تھیں: بیمار کی تیمارداری کرنا، جنازوں میں شرکت کرنا، چھینکنے والے کو یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہنا، سلام کا جواب دینا، قسم اٹھانے والے کی قسم پوری کرنا، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن چیزوں سے منع فرمایا، وہ یہ تھیں: چاندی کے برتن، سونے کا کڑا، استبرق، ریشم، دیباج، ریشم و دیباج سے آراستہ سوارییا کشتی، قسِّیّ۔

Haidth Number: 9633

۔ (۹۶۳۴)۔ عَنْ اَبِیْ کَبْشَۃَ الْاَنْمَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((ثَلَاثٌ اُقْسِمُ عَلَیْھِنِّ، وَاُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوْہُ۔)) قَالَ: ((فَاَمَّا الثَّلَاثُ الَّذِیْ اُقْسِمُ عَلَیْھِنِّ: فَاِنَّہُ مَانَقَّصَ مَالَ عَبْدٍ صَدَقَۃٌ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ بِمَظْلِمَۃٍ فَیَصْبِرُ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِھَا عِزًّا، وَلَا یَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْاَلَۃٍ اِلَّا فَتَحَ اللّٰہُ لَہُ بَابَ فَقْرٍ۔)) (وَاَمَّا الَّذِیْ اُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوْہُ) فَاِنَّہُ قَالَ: ((اِنّمَا الدُّنْیَا لِاَرْبَعَۃِ نَفَرٍ، عَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَالًا وَعِلْمًا فَھُوَ یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ وَیَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَیَعْلَمُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِ حَقَّہُ، قَالَ: فَھٰذَا بِاَفْضَلِ الْمَنَازِلِ۔)) قَالَ: ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عِلْمًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ مَالًا، قَالَ: فھُوَ یَقُوْلُ : لَوْکَانَ لِیْ مَالٌ عَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ، قَالَ: فَاَجْرُھُمَا سِوَائٌ۔)) قَالَ: ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ عِلْمًا فَھُوَ یَخْبِطُ فِیْ مَالِہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَا یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ وَلَا یَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ، وَلَا یَعْلَمُ لِلّٰہِ فِیْہِ حَقَّہُ، فَھٰذَا بِاَخْبَثِ الْمَنَازِلِ۔)) قَالَ: ((وَعَبْدٌ لَمْ یَرْزُقْہُ اللّٰہُ مَالًا وَ لَاعِلْمًا فَھُوَ یَقُوْلُ: لَوْ کَانَ لِیْ مَالٌ لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ قَالَ: ھِیَ نِیَّتُہُ فَوِزْرُھُمَا فِیْہِ سَوَائٌ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۹۴)

۔ سیدنا ابو کبشہ انماری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین چیزوں پر میں قسم اٹھاتا ہوں اور تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، پس اس کو یاد کرو۔ وہ تین چیزیں، جن پر میں قسم اٹھاتا ہوں، یہ ہیں: (۱)صدقہ بندے کے مال میں کمی نہیں کرتا، (۲) جس آدمی پر ظلم کیا جاتا ہے اور پھر وہ صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کر دیتاہے اور (۳) جب بندہ سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقیری کا دروازہ کھول دیتاہے۔ اب میں تم کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اس کو یاد کر لو: دنیا صرف چار افراد کے لیے ہے، (۱) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی عطا کیا اور علم بھی اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے اور اس سے متعلقہ اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے، یہ آدمی سب سے افضل مرتبے والا ہے، (۲) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا، مال نہیں دیا، پس وہ نیک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی کی طرح نیک کام کرتا، ان دونوں کا اجر برابر ہے، (۳) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، علم نہیں دیا، پس وہ اپنے مال کو بے تکا اور بغیر سوچے سمجھے خرچ کرتا ہے اور اس کے بارے میں نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس سے متعلقہ اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے، یہ آدمی سب سے گھٹیا مرتبے والا ہے، اور (۴) وہ آدمی جس کو نہ اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور نہ علم، لیکن اس گھٹیا آدمی کے کردار کو سامنے رکھ کر کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کی طرح کے کام کرتا، یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے۔

Haidth Number: 9634
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے خلیل نے مجھے سات چیزوں کا حکم دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں مسکینوں سے محبت کروں اور ان کے قریب ہوا کرو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے حکم دیا کہ میں اپنے سے کم تر افراد کی طرف دیکھوں اور اپنے سے اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں صلہ رحمی کروں، اگرچہ وہ پیٹھ پھیر رہی ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ کسی سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ حق کہوں، اگرچہ وہ کڑوا ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں کثرت سے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کا ذکر کروں،کیونکہیہ عرش کے نیچے موجود ایک خزانے میں سے ہیں۔

Haidth Number: 9635
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پہلے والی امتوں کی بیماری تمہارے اندر بھی سرایت کر گئی ہے، یعنی حسد اور بغض، یہ بیماری مونڈ دینے والی ہے، دین کو، سر کو نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہو گے، جب تک آپس میں محبت نہیں کرو گے، کیا میں تمہیں ایسی چیز بتا دوں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگ جائو گے، آپس میں سلام کو عام کرو۔

Haidth Number: 9777
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بھائو چڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور باہمی قطع تعلقی اور دشمنی سے بچو۔

Haidth Number: 9778

۔ (۹۷۷۹)۔ عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ تَنْطِفُ لِحْیَتُہُ مِنْ وُضُوْئِہِ، قَدْ تَعَلَّقَ نعَلَیْہِ فِیْیَدِہِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ الْمَرَّۃِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَ مَقَالَتِہِ اَیْضًا، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ حَالِہِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبِعَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: اِنِّیْ لَاحَیْتُ اَبِیْ فَاَقْسَمْتُ اَنْ لَا اَدْخُلَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا، فَاِنْ رَاَیْتَ اَنْ تُؤْوِیَنِیْ اِلَیْکَ حَتّٰی تَمْضِیَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ اَنَسٌ: وکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُحَدِّثُ اَنَّہُ بَاتَ مَعَہُ تِلْکَ اللَّیَالِیَ الثَّلَاثَ، فَلَمْ یَرَہُیَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ شَیْئًا غَیْرَ اَنَّہُ اِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَی فِرَاشِہِ ذَکَرَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَکَبَّرَ حَتّٰییَقُوْمَ لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: غَیْرَ اَنِّیْ لَمْ اَسْمَعْہُ یَقُوْلُ اِلَّا خَیْرًا، فَلَمَّا مَضَتِ الثَّلَاثُ لَیَالٍ، وَکِدْتُ اَنْ اَحْتَقِرَ عَمَلَہُ، قُلْتُ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اَبِیْ غَضَبٌ وَلَا ھَجْرٌ ثَمَّ،وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ لَکَ ثَلَاثَ مِرَارٍ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعْتَ اَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ، فَاَرَدْتُ اَنْ آوِیَ اِلَیْکَ لِاَنْظُرَ مَاعَمَلُکَ فَاَقْتَدِیَ بِہٖ،فَلَمْاَرَکَتَعْمَلُکَثِیْرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ، مَاقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ، فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ غَیْرَ اَنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللّٰہُ اِیَّاہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: ھٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ وَھِیَ الَّتِیْ لَانُطِیْقُ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۲۷)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تمہارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے۔ پس ایک انصاری آدمی آیا، وضو کی وجہ سے اس کی داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے لٹکائے ہوئے تھے، اگلے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی آدمی اسی پہلے والی کیفیت کے ساتھ آیا، جب تیسرا دن تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرما دی کہ تمہارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے ۔ اور (اللہ کا کرنا کہ) وہی بندہ اپنی سابقہ حالت کے ساتھ آ گیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس آدمی کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میرا ابو جان سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں نے ان کے پاس تین دن نہ جانے کی قسم اٹھا لی ہے، اگر تم مجھے اپنے پاس جگہ دے دو، یہاں کہ یہ مدت پوری ہو جائے، اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہو گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، تشریف لائیے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اس نے اس آدمی کے ساتھ تین راتیں گزاریں، وہ رات کو بالکل قیام نہیںکرتا تھا، البتہ جب بھی وہ جاگتا اور اپنے بستر پر پہلو بدلتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا اور تکبیرات پڑھتا، یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے اٹھتا، علاوہ ازیں اس کا یہ وصف بھی تھا کہ وہ صرف خیر و بھلائی والی بات کرتا تھا، جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میں اس کے عمل کو حقیر سمجھوں، تو میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! میرے اور میرے ابو جان کے مابین نہ کوئی غصے والی بات ہوئی اور نہ قطع تعلقی، تیرے پاس میرے ٹھہرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین بار یہ فرماتے ہوئے سنا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے پاس آنے والا ہے۔ اور تین بار تو ہی آیا، پس میں نے ارادہ کیا کہ تیرا عمل دیکھنے کے لیے تیرے گھر میں رہوں اور پھر میں بھی تیرے عمل کی اقتدا کروں، لیکن میں نے تجھے دیکھا کہ تو تو زیادہ عمل ہی نہیں کرتا، اب یہ بتلا کہ تیرے اندر وہ کون سی صفت ہے کہ جس کی بنا پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیث بیان کی (اور اس کا مصداق بنا)؟ اس نے کہا: میرا عمل تو وہی ہے جو تو نے دیکھ لیا ہے، پھر جب میں جانے لگا تو اس نے مجھے دوبارہ بلایا اور کہا: میرا عمل تو وہی ہے، جو تو نے دیکھ لیا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ میرے نفس میں کسی مسلمان کے خلاف کوئی دھوکہ نہیں ہے اور جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے جو خیر عطا کی ہے، میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا، سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بس یہی چیز ہے، جس نے تجھے اس مقام پر پہنچا دیا ہے اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔

Haidth Number: 9779
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر کسی کا پیٹ پیپ سے اس قدر بھر جائے کہ وہ اس کو نظر آنے لگے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرا ہوا ہو۔

Haidth Number: 9936
Haidth Number: 9937
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے تو یہ اس کے لیے شعروں سے بھر جانے سے بہتر ہے۔

Haidth Number: 9938
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم عرج مقام پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے آ گیا، جو شعر گاہ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پکڑ لو اس شیطان کو، یا فرمایا: روک دو اس شیطان کو، اگر کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے تو وہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھر جائے۔

Haidth Number: 9939
۔ ابو نوفل سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کہ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شعر سنے جاتے تھے، سیدہ نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ کلام شعر تھے۔

Haidth Number: 9940
Haidth Number: 9941

۔ (۱۰۱۰۱)۔ عَنْ اَبِیْ حَسَّانَ، اَنَّ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، کَانَ یَاْمُرُ بِالْاَمْرِ فَیْؤُتٰی، فَیُقَالُ: قَدْ فَعَلْنَا کَذَا وَکَذَا، فَیَقُوْلُ : صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْاَشْتَرُ: اِنَّ ھٰذَا الَّذِیْ تَقُوْلُ، قَدْ تَفَشَّغَ فِیْ النَّاسِ اَ فَشَیْئٌ عَھِدَہُ اِلَیْکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَا عَھِدَ اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا خَاصَّۃً دُوْنَ النَّاسِ، اِلَّا شَیْئٌ سَمِعْتُہُ مِنْہُ فَھُوَ فِیْ صَحِیْفَۃٍ فِیْ قِرَابِ سَیْفِیْ، قَالَ: فَلَمْ یَزَالُوْا بِہٖحَتّٰی اَخْرَجَ الصَّحِیْفَۃَ، قَالَ: فَاِذَا فِیْھَا: ((مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ والْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ۔)) قَالَ وَاِذَا فِیْھَا: ((اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ)) اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۹۵۹)

۔ ابو حسان سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب کوئی حکم دیتے اور اس کو پورا کر کے کہا جاتا کہ ہم لوگوں نے فلاں فلاں کام کر دیا ہے، تو وہ کہتے: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے، اشتر نے ان سے کہا: آپ کییہ بات لوگوں میں مشہور ہو گئی ہے، کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو اس کے بارے میں کوئی وصیت کی تھی؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے کسی ایسی خاص چیز کی وصیت نہیں کی، جو دوسرے لوگوں کو نہ کی ہو، ما سوائے اس چیز کے، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے اور وہ میری تلوار کے میان میں موجود صحیفے میں ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے اصرار کرنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ انھوں نے صحیفہ نکالا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا: جس نے بدعت ایجاد کی،یا کسی بدعتی کو جگہ دی، اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی اور اس کی فرضی عبادت قبول ہو گی نہ نفلی۔ اس میں مزیدیہ حدیث بھی تھی: بیشک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا …۔

Haidth Number: 10101
۔ ابو طفیل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ہمیں اس چیز کے بارے میں بتلاؤ جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف آپ کوعطا کی ہو، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے کوئی ایسی راز کی بات نہیں بتلائی، جس کو لوگوں سے چھپایا ہو، البتہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، جس نے بدعتی کو جگہ دی، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، جس نے اپنے والدین پر لعنت کی اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی لعنت کرے، جس نے زمین کے نشانات کو بدل دیا۔

Haidth Number: 10102