Blog
Books
Search Hadith

ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی فضیلت اور اس چیز کا بیان کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لائیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق کی

90 Hadiths Found
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام اپنے زمانے کی اور سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے عہد کی خواتین میں سب سے بہتر تھیں۔

Haidth Number: 10559
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ذکر کرتے تو ان کی تعریف کرتے اور بہت اچھی تعریف کرتے، ایک دن مجھے بڑی غیرت آئی اور میں نے کہا: آپ اس سرخ باچھ والی بڑھیا کا اس قدر زیادہ تذکرہ کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا بہترین متبادل عطا کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر متبادل نہیں دیا، خدیجہ تو وہ تھی جو اس وقت ایمان لائی، جو لوگ میرے ساتھ کفر کر رہے تھے، اس نے اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے، اس نے اپنے مال کے ساتھ اس وقت میری ہمدردی کی، جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے اس وقت اولاد عطا کی، جب وہ مجھے عورتوں کی اولاد سے محروم کر رہا تھا۔

Haidth Number: 10560
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تذکرہ کیا اور کافی دیر تک ان کی تعریف کی، مجھ پر وہی غیرت غالب آ گئی، جو عورتوں پر غالب آ جاتی ہے اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو قریش کی اس سرخ باچھوں والی بڑھیا کا متبادل تو دے دیا ہے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ اس قدر بدلا کہ میں نے کبھی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس انداز میں نہیں دیکھا تھا، ما سوائے نزولِ وحی کے وقت یا بادل کے نمودار ہوتے وقت، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چل جاتا کہ وہ رحمت ہے یا عذاب۔

Haidth Number: 10561
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے والے دو دانتوں اور کچلیوں کے درمیان والا دانت شہید ہوگیا اور آپ کا رُخ انور اس قدر زخمی ہو گیا کہ خون آپ کے چہرے پر بہہ پڑا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی اثناء میں فرما رہے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو گی، جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا، حالانکہ وہ نبی تو انہیں ان کے رب کی طرف بلا رہا تھا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… آپ کو اس بارے میںکچھ بھی اختیار نہیں،یہ اللہ کی مرضی ہے کہ ان پر توجہ کرےیا انہیں عذاب سے دو چار کرے، بے شک وہ ظالم ہیں۔

Haidth Number: 10732
۔( دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: احد کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ زخمی ہو گیا، سامنے والے دانتوں اور کچلیوں کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر بھی ایک تیر آکر لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر بھی خون بہنے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس عالم میں اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ وہ وہ امت کیسے فلاح یاب ہو سکتی ہے، جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… تیرے اختیارمیں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں،یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔

Haidth Number: 10733
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ٹوٹے رباعی دانت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ان لوگوں پر اللہ کا شدید غضب ہوا،جنہوں نے اللہ کے رسول کے ساتھ ایسا سلوک کیاا ور اس آدمی پر بھی اللہ کا شدید غضب ہے، جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل کرے۔

Haidth Number: 10734
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:احد کے دن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا، وہ سفید لباس میں ملبوس تھے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بھر پور دفاع کر رہے تھے، ان دونوں کو میں نے اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔

Haidth Number: 10735

۔ (۱۱۶۶۶)۔ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ الْعَدَوِیِّ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، أَنَّ جُلَیْبِیبًا کَانَ امْرَأً یَدْخُلُ عَلَی النِّسَائِ یَمُرُّ بِہِنَّ وَیُلَاعِبُہُنَّ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: لَا یَدْخُلَنَّ عَلَیْکُمْ جُلَیْبِیبٌ، فَإِنَّہُ إِنْ دَخَلَ عَلَیْکُمْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: وَکَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا کَانَ لِأَحَدِہِمْ أَیِّمٌ لَمْ یُزَوِّجْہَا حَتّٰی یَعْلَمَ ہَلْ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہَا حَاجَۃٌ أَمْ لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: ((زَوِّجْنِی ابْنَتَکَ۔)) فَقَالَ: نِعِمَّ وَکَرَامَۃٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَنُعْمَ عَیْنِی، فَقَالَ: ((إِنِّی لَسْتُ أُرِیدُہَا لِنَفْسِی۔)) قَالَ: فَلِمَنْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ لِجُلَیْبِیبٍ: قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُشَاوِرُ أُمَّہَا فَأَتٰی أُمَّہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ ابْنَتَکِ، فَقَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَۃُ عَیْنِی، فَقَالَ: إِنَّہُ لَیْسَ یَخْطُبُہَا لِنَفْسِہِ إِنَّمَا یَخْطُبُہَا لِجُلَیْبِیبٍ، فَقَالَتْ: أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ لَا لَعَمْرُ اللّٰہِ لَا تُزَوَّجُہُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ لِیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُخْبِرَہُ بِمَا قَالَتْ أُمُّہَا، قَالَتْ الْجَارِیَۃُ: مَنْ خَطَبَنِی إِلَیْکُمْ؟ فَأَخْبَرَتْہَا أُمُّہَا، فَقَالَتْ: أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْرَہُ؟ ادْفَعُونِی فَإِنَّہُ لَمْ یُضَیِّعْنِی، فَانْطَلَقَ أَبُوہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ، قَالَ: شَأْنَکَ بِہَا فَزَوَّجَہَا جُلَیْبِیبًا، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ لَہُ، قَالَ: فَلَمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، قَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((ہَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا نَفْقِدُ فُلَانًا وَنَفْقِدُ فُلَانًا، قَالَ: ((انْظُرُوْا ہَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا: لَا، قَالَ: ((لٰکِنِّی أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا۔)) قَالَ: ((فَاطْلُبُوْہُ فِی الْقَتْلٰی؟)) قَالَ: فَطَلَبُوہُ فَوَجَدُوہُ إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَا ہُوَ ذَا إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((قَتَلَ سَبْعَۃً وَقَتَلُوہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَضَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سَاعِدَیْہِ، وَحُفِرَ لَہُ مَا لَہُ سَرِیرٌ إِلَّا سَاعِدَا رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَضَعَہُ فِی قَبْرِہِ وَلَمْ یُذْکَرْ أَنَّہُ غَسَّلَہُ، قَالَ ثَابِتٌ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا وَحَدَّثَ إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ثَابِتًا، قَالَ: ہَلْ تَعْلَمْ مَا دَعَا لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اللَّہُمَّ صُبَّ عَلَیْہَا الْخَیْرَ صَبًّا، وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَہَا کَدًّا کَدًّا۔)) قَالَ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: مَا حَدَّثَ بِہِ فِی الدُّنْیَا أَحَدٌ إِلَّا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ مَا أَحْسَنَہُ مِنْ حَدِیثٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۲۲)

سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوش مزاج قسم کے آدمی تھے، وہ عورتوں کے پاس چلے جاتے اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کوئی مزاحیہ بات کر جاتے، ان کے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے پاس نہ آئے، اگر وہ آیا تو تمہاری خیر نہیں۔ انصار کا یہ معمول تھا کہ ان کے ہاں کوئی بن شوہر عورت ہوتی تو وہ اس وقت تک اس کی شادی نہ کرتے جب تک انہیںیہ علم نہ ہو جاتا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی حاجت ہے یا نہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک انصاری سے فرمایا: تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھے دے دو۔ اس نے کہا: جی ٹھیک ہے، اے اللہ کے رسول! اور یہ بات میرے لیے باعث افتخار و اعتزاز ہوگی اور اس سے مجھے از حدخوشی ہوگی، ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت کر دی کہ میں اسے اپنے لیے طلب نہیں کر رہا۔ اس نے کہا، اللہ کے رسول! پھر کس کے لیے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جلیبیب کے لیے۔ یہ سن کر اس نے کہا:اے اللہ کے رسول!میں بچی کی ماں یعنی اپنی بیوی سے مشورہ کر لوں، وہ بچی کی ماں کے پاس گیا اور بتلایا کہ اللہ کے رسول تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کرتے ہیں۔ وہ بولی کہ بالکل ٹھیک ہے اور اس سے ہمیں از حد خوشی ہوگی۔ شوہر نے بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے لیے نہیں، بلکہ جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے رشتہ طلب کرتے ہیں۔ اس نے کہا: کیا جلیبیب کے لیے، نہیں، جلیبیب کو ہم بیٹی نہیں دے سکتے، جلیبیب نہیں۔اللہ کی قسم! ہم جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس کا نکاح نہیں کریں گے، جب وہ مرد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جانے لگا تاکہ اپنی بیوی کے جواب سے آپ کو مطلع کرے تو وہ بچی بول اٹھی کہ آپ لوگوں کے پاس میرے نکاح کا پیغام کس نے بھیجا ہے؟ تو اس کی ماں نے اسے بتلا دیا۔ و ہ لڑکی بولی: کیا تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کا انکار کر دو گے؟ آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کر دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے ضائع نہیں کریں گے، چنانچہ بچی کا باپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا اور اس نے ساری بات آپ کے گوش گزارکی اور کہا: اب آپ اس کے متعلق با اختیار ہیں۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا نکاح جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، جب اللہ نے آپ کو فتح سے ہم کنار کر دیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم کسی آدمی کو غیر موجود پاتے ہو؟ صحابہ نے بتلایا کہ فلاں فلاں آدمی نظر نہیںآرہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر دیکھو کون کون نظر نہیں آرہا، صحابہ نے کہا: اور تو کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن مجھے جلیبیب دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ اسے مقتولینیعنی شہداء میں جا کر تلاش کرو، صحابہ نے جا کر ان کو تلاش کیا تو انہیں اس حال میں پایا کہ ان کے قریب سات کافر مرے پڑے تھے۔ معلوم ہوتاتھا کہ وہ ان ساتوں کو مارنے کے بعد شہید ہوئے ہیں، صحابہ نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ تو سات کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود شہید ہوا پڑا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی لاش کے پاس آئے، اس کے قریب کھڑے ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا، اس کے بعد کافروں نے اسے شہید کر ڈالا، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو تین بار ارشاد فرمائی، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی لاش کو اپنے بازوئوں پر اٹھا لیا ، اس کی قبر تیار کی گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بازواس کے چارپائی بنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے قبر میں اتارا، ان کو غسل دیئے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ ثابت کہتے ہیں کہ انصار یوں میں یہ واحد بیوہ تھی، جس سے بہت زیادہ لوگوںنے نکاح کرنے کی رغبت کا اظہار کیا۔اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ثابت سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں کیا دعا کی تھی؟ آپ نے یہ دعا کی تھی: یا اللہ! اس پر خیر و برکت کی برکھا برسا دے اور اس کی معیشت تنگ نہ ہو۔ اس دعا کی برکت تھی کہ یہ انصار میں واحد بیوہ تھی کہ جس سے بہت زیادہ لوگوں کو نکاح کرنے کی رغبت تھی۔ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں کہ دنیا میں اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے اور یہ کیسی عمدہ حدیث ہے۔

Haidth Number: 11666

۔ (۱۲۱۷۸)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَہْرٍ، فَذَکَرَ قِصَّۃً فَنُودِیَ فِی النَّاسِ أَنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، وَہِیَ أَوَّلُ صَلَاۃٍ فِی الْمُسْلِمِینَ نُودِیَ بِہَا إِنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ شَیْئًا صُنِعَ لَہُ کَانَ یَخْطُبُ عَلَیْہِ، وَہِیَ أَوَّلُ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا فِی الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! وَلَوَدِدْتُ أَنَّ ہٰذَا کَفَانِیہِ غَیْرِی، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِی بِسُنَّۃِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أُطِیقُہَا، إِنْ کَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّیْطَانِ، وَإِنْ کَانَ لَیَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ مِنَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۸۰)

قیس بن ابی حازم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک مہینہ بعد خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں انہیں کوئی بات یا د آئی اور انھوں نے لوگوں میں یہ اعلان کرایا کہ اَلصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ ،مسلمانوں میں یہ پہلی نماز تھی، جس کے لیے اس الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا، لوگ اکٹھے ہوئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منبر پر تشریف لے آئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور کہا: لوگو! میں چاہتا ہو ں کہ اس بارِ خلافت کو کوئی اور آدمی سنبھال لے اور میں نے ا س سے سبکدوش ہو جاؤں، اگر تم اپنے نبی کی سنت کے مطابق میرا مؤاخذہ کرنے لگو تو میں اس کی تاب نہ لاسکوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر تو آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شیطانی اثر سے معصوم و محفوظ تھے۔

Haidth Number: 12178
قیس بن ابی حازم سے یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے تو ہو مگر تم اس آیت کو اس کے غیر محل پر چسپاں کر رہے ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے۔ میں نے خود اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لو گ جب کسی برائی کو اپنے درمیا ن دیکھ کر اس پر انکار نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب نازل کر دے گا۔

Haidth Number: 12179
اوسط بن عمرو سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ آیا، میںنے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انہوںنے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزشتہ سال ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر ان کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بند ہو گئی، تین بار ایسے ہی ہوا، بالآخر کہا:لوگو! اللہ سے عافیت کا سوال کرو، عافیت کے بعد ایمان و ایقان جیسی کوئی نعمت نہیں، جو بندے کو دی گئی ہو، اور نہ کفر کے بعد شک و شبہ سے بڑھ کر کوئی سخت گناہ ہے، تم صدق اور سچائی کو لازم پکڑو، یہ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے، اور صدق اور نیکی کا انجام جنت ہے اور تم جھوٹ سے بچ کر رہو، یہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ کا انجام جہنم ہے۔ُُ

Haidth Number: 12180
۔ (دوسری سند) اوسط بن عمر و کہتے ہیں: سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم سے خطاب کیا اور کہا: گزشتہ سال اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری اسی جگہ پر کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے، پھر انھوں نے کہا: تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو، پھر سابق حدیث کی طرح ذکر کیا اور مزید کہا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، آپس میں قطع رحمی نہ کرو، باہمی قطع تعلقی اور دشمنی اختیار نہ کرو اور تم بھائی بھائی بن کر رہو، جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔

Haidth Number: 12181
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب جبریل علیہ السلام نے زمزم کا پانی نکالنے کے لیے اپنی ایڑی پر زور دیا تو اسماعیل علیہ السلام کی ماں کشادہ وادی (پر بنیری بنا کر) اس کو جمع کرنے لگ گئی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ امِّ اسماعیل ہاجرہ پر رحم فرمائے، اگر وہ اس پانی کو چھوڑ دیتی تو یہ جاری چشمہ ہوتا۔

Haidth Number: 12603
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے، وہی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 12604
سیدناابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آب زمزم بابرکت ہے اور کھانے والے کا کھاناہے۔

Haidth Number: 12605

۔ (۱۲۹۶۲)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَقْبَلْنَا فِیْ جَیْشٍ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ قِبَلَ ہٰذَا الْمَشْرِقِ قَالَ: فَکَانَ فِی الْجَیْشِ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَیَّادٍ وَکَانَ لَایُسَایِرُہُ اَحَدٌ وَلَایُرَافِقُہُ وَلَایُوَاکِلُہُ وَلَایُشَارِبُہُ وَیُسَمُّوْنَہُ الدَّجَّالَ، فَبَیْنَا اَنَا ذَاتَ یَوْمٍ نَازِلٌ فِیْ مَنْزِلٍ لِیْ اِذْ رَآنِیْ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ صَیَّادٍ جَالِسًا، فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ اِلَیَّ، فَقَالَ: یَا اَبَاسَعِیْدٍ! اَ لَا تَرٰی اِلٰی مَا یَصْنَعُ النَّاسُ، لَایُسَایِرُنِیْ اَحَدٌ وََلَایُرَافِقُنِیْ اَحَدٌ وَلَایُشَارِبُنِیْ اَحَدٌ وَلَایُوَاکِلُنِیْ اَحَدٌ وَیَدَّعُوْنِی الدَّجَّالَ وَقَدْ عَلِمْتَ اَنْتَ یَا اَبَاسَعِیْدٍ! اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الدَّجَّالَ لَا یَدْخُلُ الْمَدِیْنَۃَ۔)) وَاِنِّیْ وُلِدْتُّ بِالْمَدِیْنَۃِ وَقَدْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ الدَّجَّالَ لَایُوْلَدُ لَہُ۔)) وَقَدْ وُلِدَ لِیْ، فَوَاللّٰہِ لَقَدْ ھَمَمْتُ مِمَّا یَصْنَعُ بِیْ ھٰؤُلَائِ النَّاسِ اَنْ آخُذَ حَبْلاً فَاَخْلُوَ فَاَجْعَلَہُ فِیْعُنُقِیْ فَاَخْتَنِقَ فَاسْتَرِیْحَ مِنْ ھٰؤُلَائِ النَّاسُ، وَاللّٰہِ! مَا اَنَا بِالدَّجَّالِ وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ! لَوْ شِئْتَ لَاَخْبَرْتُکَ بِاِسْمِہِ وَاِسْمِ اَبِیْہِ وَاِسْمِ اُمِّہِ وَاِسْمِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْیَخْرُجُ مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۱۱۷۷۱)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم ایک لشکرمیں مشرق کی جانب واقع ایک شہر سے آئے، اس لشکر میں عبداللہ بن صیاد بھی تھا، کوئی آدمی نہ اس کے ساتھ چلتا تھا، نہ بیٹھتا تھا اور نہ اس کے ساتھ کھانا پینا پسند کرتا تھا اور لوگ اسے دجال کہتے تھے۔ میں ایک دن اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ عبداللہ بن صیاد نے مجھے دیکھ لیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا اورکہنے لگا: ابو سعید ! لوگ میرے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، تم دیکھتے ہی ہو، کوئی میرے ساتھ چلنا، بیٹھنا اور کھانا پینا پسند نہیں کرتا اور کہتے بھی مجھے دجال ہیں، ابو سعید! آپ تو جانتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ: دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ جبکہ میری تو ولادت ہی مدینہ میںہوئی اور آپ یہ بھی اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکے ہیں کہ: دجال کی اولاد نہیں ہوگی۔ جبکہ میری تو اولاد بھی ہے، اللہ کی قسم! لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر میںنے ارادہ کیا ہے کہ کسی خلوت والی جگہ جا کر ایک رسی اپنے گلے میں ڈالوں اور اسے گھونٹ دوں اور لوگوں کی باتوں سے راحت پالوں۔ اللہ کی قسم ! میں دجال نہیںہوں۔ اللہ کی قسمْ اگر تم چاہتے ہو تومیں تم لوگوں کو اس کا ، اس کے والد اور والدہ کے ناموں سے اور جس بستی سے اس کا ظہور ہوگا، اس بستی کے نام سے آپ کو آگاہ کر دیتا ہوں۔

Haidth Number: 12962
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم حج کے لیے گئے اورراستے میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے، ابن صائد بھی آکر اس درخت کے نیچے ایک طرف بیٹھ گیا، میںنے کہا: یہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا مصیبت ڈال دی ہے۔ اس نے کہا: ابو سعید! مجھے لوگوں کی طرف سے کس قدر تکلیف دہ باتیں سننا پڑتی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں دجال ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: دجال کی اولاد نہیں ہوگی اور وہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں نہیں جا سکے گا۔ میں نے کہا: جی کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا: میری تو اولاد بھی ہے اور اب میں مدینہ سے نکلا اور مکہ مکرمہ کی طرف جا رہوں گا۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پس اس کی باتین سن کر میرا دل اس کے لیے نرم ہوگیا۔ پھر اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کی جائے ظہور کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔ تو یہ سن کر میں نے کہا: سارا دن تیرے لیے بربادی ہو۔

Haidth Number: 12963
Haidth Number: 13161
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے دن ہر چیز (یعنی ہر مظلوم ، ہر ظالم سے جھگڑا کرے گا اور اس سے بدلہ لے گا) حتیٰ کہ دو بکریاں جنھوں نے ایک دوسرے کو سینگ مارے ہوں گے۔ (ان میں سے ظالم سیقصاص دلایا جائے گا)۔

Haidth Number: 13162
سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن بغیر سنگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔

Haidth Number: 13163
سیدناابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے دو بکریاں آپس میں لڑنے لگیں اور ایک نے دوسری کو سینگ مارا اور اسے دور بھگا دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ منظر یہ دیکھ کر مسکرا پڑے، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بکری پر تعجب ہو رہا ہے، اس ذا ت کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس مظلوم بکری کو اس ظالم بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔

Haidth Number: 13164
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو بکریوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسری کو ٹکریں مار رہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوذر ! تم جانتے ہو یہ کیوں ایک دوسری کو ٹکر مار رہی ہیں؟ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن اللہ جانتا ہے اور وہ عنقریب ان کے درمیان فیصلہ بھی کرے گا۔

Haidth Number: 13165

۔ (۱۳۱۶۶)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَلَغَنِیْ حَدِیْثٌ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاشْتَرَیْتُ بَعِیْرًا ثُمَّ شَدَدْتُّ عَلَیْہِ رَحْلِیْ فَسِرْتُ اِلَیْہِ شَہْرًا حَتّٰی قَدِمْتُ عَلَیْہِ الشَّامَ، فَاِذَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ اُنَیْسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقُلْتُ لِلْبَوَّابِ: قُلْ لَہُ جَابِرٌ عَلٰی الْبَابِ، فَقَالَ: ابْنُ عَبْدِاللّٰہِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَخَرَجَ یَطَاُ ثَوْبَہُ فَاعْتَنَقَنِیْ وَاعْتَنَقْتُہُ، فَقُلْتُ: حَدِیْثًا بَلَغَنِیْ عَنْکَ اَنَّکَ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْقِصَاصِ، فَخَشِیْتُ اَنْ تَمُوْتَ اَوْ اَمُوْتَ قَبْلَ اَنْ اَسْمَعَہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَوْ قَالَ الْعِبَادُ عُرَاۃً غُرْلًا بُہْمًا۔)) قَالَ: قُلْنَا: وَمَا بُہْمًا؟ قَالَ: ((لَیْسَ مَعَہُمْ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنَادِیْہِمْ بِصَوْتٍ یَسْمَعُہُ مِنْ قُرْبٍ: اَنَا الْمَلِکُ اَنَا الدَّیَّانُ وَلَایَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِنْ اَھْلِ النَّارِ اَنْ یَّدْخُلَ النَّارَ وَلَہُ عِنْدَ اَحَدٍ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَقٌّ حَتّٰی اَقُصَّہُ مِنْہُ، وَلَایَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ وَلِاَحَدٍ مِنْ اَھْلِ النَّارِ عِنْدَہُ حَقٌّ حَتّٰی اَقُصَّہُ مِنْہُ حَتّٰی الَّلطْمَۃَ۔)) قَالَ: قُلْنَا: کَیْفَ وَاِنَّا اِنَّمَا نَاْتِی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ عُرَاۃً غُرْلًا بُہْمًا، قَالَ: ((بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۱۳۸)

سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:مجھے ایک حدیث کے متعلق پتہ چلا کہ (شام میں سکونت پذیر) ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وہ حدیث سنی ہوئی ہے،میں نے ایک اونٹ خریدا، اس پر پالان کسا اور ایک ماہ کا سفر طے کر کے شام کے علاقے میں اس کے پاس پہنچا، وہ سیدنا عبد اللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، میںنے دربان سے کہا: ان سے جا کر کہو کہ دروازے پر جابر آیا ہے، انھوں نے پوچھا: عبد اللہ کا بیٹا جابر؟ میں نے کہا: جی ہاں، وہ اتنی تیزی سے باہر آئے کہ کپڑان کے پاؤں کے نیچے آرہا تھا،پھر انھوں نے مجھ سے اور میںنے ان سے معانقہ کیا، میں نے ان سے کہا، مجھے معلوم ہوا کہ آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قصاص سے متعلقہ ایک حدیث بیان کرتے ہیں، پھر خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ فوت ہو جائیں اور میں مر جاؤں، (اس لیے آپ سے وہ حدیث سننے کے لیے آیا ہوں)۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: قیامت کے دن لوگوں کو برہنہ جسم، غیر مختون اور خالی ہاتھ اٹھایا جائے گا۔ ہم نے کہا: حدیث میں وارد لفظ بُھْمًا کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: وہ لوگ جن کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی (اور وہ خالی ہاتھ ہوں گے)۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پکارے گا، ہر کوئی اسے قریب سے آنے والی آواز کی طرح سنے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں،میں بدلے دینے والاہوں ، کوئی آدمی جو جہنم میںجانے والا ہو، اگر اس کا کسی جنتی کے ذمے کوئی حق یا بدلہ ہو تو بتائے تاکہ اسے بدلہ دلواؤں، اسی طرح جو آدمی جنت میں جانے والا ہے، اگر اس کا کسی جہنمی کے ذمہ کوئی حق یا بدلہ ہو، خواہ وہ ایک تھپڑ کی صورت میں ہو، تو وہ بھی بتائے تاکہ میں اسے بدلہ دلواؤں۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! بدلے کیسے پورے ہوں گے جب کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے ہاں برہنہ جسم ، غیر مختون اور خالی ہاتھ جائیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس دن نیکیوں اور گناہوں کے ذریعے دلوائے جائیں گے۔

Haidth Number: 13166
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر مفلس وہ ہوتا ہے، جس کے پاس درہم اور دنیوی سازو سامان نہ ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن روزے، نمازیں اور زکوتیں لے کر آئے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کی عزت پر ڈاکہ زنی کی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھا یا ہو گا، ایسا آدمی بیٹھا ہوگا، ایک مظلوم آکر اس سے نیکیاں لے کر قصاص لے گا، پھر دوسرا آکر اس کی نیکیاں لے کر بدلہ لے گا، پس اگر اس کے مظالم کے بدلے پورے ہونے سے قبل اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیںگے اوربالآخر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

Haidth Number: 13167

۔ (۱۳۳۰۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ بَکْرِ نِ السَّہْمِیُّ ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ رَبِّیْ اَعْطَانِیْ سَبْعِیْنَ اَلْفًا مِّنْ اُمَّتِیْیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ عُمَرُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَہَلَّا اِسْتَزَدْتَّہُ، قَالَ: ((قَدِ اسْتَزَدْتُّہُ فَاَعْطَانِیْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ سَبْعِیْنَ اَلْفًا۔)) قَالَ عُمَرُ: فَہَلَّا اِسْتَزَدْتَّہُ، قَالَ: ((قَدِ اسْتَزَدْتُّہُ فَاَعْطَانِیْ ہٰکَذَا۔)) وَفَرَّجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ بَیْنَیَدَیْہِ وَقَالَ عَبْدُاللّٰہِ: وَبَسَطَ بَاعَیْہِ وَحَثَا عَبْدُ اللّٰہِ، وَقَالَ ہِشَامٌ: وَہٰذَا مِنَ اللّٰہِ لَایُدْرٰی مَا عَدَدُہُ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۶)

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میری امت کے سترہزر افراد بغیر حساب و کتاب کے جنت میںجائیں گے۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس تعداد میں مزید اضافے کی درخواست کیوں نہیں کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تھی اوراللہ تعالیٰ نے ان ستر ہزار میں سے ہر فرد کے ساتھ ستر ستر ہزار آدمی بھیجنے کا وعدہ کیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مزید اضافے کی درخواست کیوں نہیں کی تھی؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںنے درخواست کی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دو بازوؤں کو پھیلا کر اشارہ کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مزید اتنے افراد کو بھی بغیر حساب کتاب جنت میں بھیجنے کا وعدہ کیا۔ امام احمد کے شیخ عبد اللہ بن بکر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سامنے کی طرف پھیلاکر اور عبد اللہ بن امام احمد نے اپنے پہلوؤں کی طرف دونوں بازوؤں کو پھیلا کر ان کو بھرنے کا اشارہ کیا۔ ہشام نے کہا: یہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تعداد کتنی ہو گی۔

Haidth Number: 13305
ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: : میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے‘ ان کے چہرے بدر والی رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ایک انسان کے دل کی مانند ہوں گے۔ جب میں نے اپنے ربّ سے مزید مطالبہ کیا تو اس نے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار افراد کا اضافہ کر دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ چیز تو بستیوں والوں پر آئے گی اور دیہاتوں کے کناروں تک پہنچ جائے گی۔

Haidth Number: 13306
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے ربّ سے درخواست کی اور اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا، ان افراد کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح منور ہوں گے، جب میںنے اس تعداد میں اضافے کی درخواست کی تو اس نے اس تعداد کے ہر فرد کے ساتھ ستر ستر ہزار کا مزید اضافہ کر دیا، میں نے کہا: اے میرے رب! اگر میری امت کے مہاجرین کی تعداد اس قدر نہ ہوئی تو؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں پھر عام دیہاتیوں سے اس عدد کو پورا کر د وں گا۔

Haidth Number: 13307
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے۔ ایک آدمی نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں یہ دعا کی: یا اللہ! اس کو ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس کے بعد ایک اور آدمی نے کھڑا ہوا اور کہا: آپ میرے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیں کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر لے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔

Haidth Number: 13308
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار افراد کی ایک جماعت جنت میںاس حال میں جائے گی کہ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی چادر کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لے یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس کے بعد ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا ہے۔

Haidth Number: 13309
سیدناابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو بلا حساب جنت میں داخل فرمائے گا۔ یہ سن کر سیدنا یزید بن اخنس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تعداد تو آپ کی امت میں ایسے ہی ہے، جیسے عام مکھیوں میں زرد رنگ کی مکھیوںکی قلیل سی تعداد ہوتی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے میرے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ کیا اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار کا بھی وعدہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تین چلو اس تعداد کے علاوہ ہیں۔

Haidth Number: 13310