Blog
Books
Search Hadith

شبہ عمد کے مقتول کی دیت کا بیان

95 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے روز لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کوڑے یا لاٹھی وغیرہ سے ہو جانے والے خطأ عمد کے قتل کی دیت مغلظہ ہے، کل سو اونٹ ہوں گے، ان میں چالیس اونٹنیاں گابھن ہوں گی، خبر دار!ہر خون، مال، جاہلیت کا فخر میرے قدموں کے نیچے کچل دیا گیا ہے، ہاں میں حاجیوں کو پانی پلانے اوربیت اللہ کی خدمت کرنے کا عہدہ ان ہی کے سپرد کرتا ہوں، جو پہلے سے یہ خدمت کر رہے ہیں۔

Haidth Number: 6583
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: کوڑے یا لاٹھی وغیرہ سے ہو جانے والا قتل خطأ شبہ عمد ہے، اس کی دیت سو اونٹ ہے، ان میں چالیس اونٹنیاں گابھن ہوں گی۔

Haidth Number: 6584
۔ سیدنا عقبہ بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک صحابی ٔ رسول سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:خبردار! خطا عمد کا مقتول جو کہ کوڑے، لاٹھییا پتھر سے مارا جائے، اس کی دیت مغلظہّ (سخت)ہے جو کہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں گی، ایک روایت میں ہے: چالیس اونٹنیاں ثنیہ سے بازل کے درمیان درمیان ہوں گی اور سب کی سب حاملہ ہوں گی۔

Haidth Number: 6585
Haidth Number: 6586
۔ یہ بھی مذکورہ بالا حدیث کے قریب قریب ہی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کل سو اونٹ ہوں گے، ان میں سے تیس حِقّے، تیس جذعے، تیس بنت ِ لبون اور چالیس اونٹنیاں ثَنِیّۃ سے بَازِل تک ہوں، لیکن ہوں گابھن۔

Haidth Number: 6587
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل عمد کی دیت کی طرح قتل شبہ عمد کی دیت بھی سخت ہے، البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جاسکتا، یہ اس طرح ہوتا ہے کہ شیطان لوگوں کے درمیان شر انگیزی کرنا ہے۔ ابو نضر کہتے ہیں: پھر اندھادھند لڑائی (لاٹھی، کوڑا اور پتھر جیسی چیزوں) کو پھینکا جاتا ہے، جبکہ بیچ میں نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے اور نہ اسلحہ۔

Haidth Number: 6588
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ انصار کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی اور وہ بیمار ہوئی اور بیماری میں اس کے بال گر گئے، انہوں نے چاہا کہ وہ مصنوعی بال لگوا لیں، لیکن جب انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بال ملانے کے متعلق سوال کیا توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بال ملانے والی اور بال ملانے کا مطالبہ کرنے والی پر لعنت کی۔

Haidth Number: 8129
۔ سیدہ اسماء بنت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔

Haidth Number: 8130
۔ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی، لیکن اس کے بال گرنے لگے، پھر جب اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بال ملانے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بال ملانے والی عورت اور اس عورت پر لعنت کی جس کے بال ملائے گئے۔

Haidth Number: 8131
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان خواتین پر لعنت کی ہے: زعفران کے ساتھ چہرہ رنگنے والی اور اس کے ساتھ رنگوانے والی، گودنے والی اور گدوانے والی، بال ملانے والی اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی اور چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی۔

Haidth Number: 8132
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے گودنے والی، گدوانے والی، بال اکھڑوانے والی اور حسن اختیار کرنے کے لئے دانتوں میں فاصلہ بنانے والیوں، جو کہ اللہ تعالی کی تخلیق کو بدل دیتی ہیں، اللہ تعالی نے ان سب پر لعنت کی ہے، جب یہ بات گھر میں موجودایک ام یعقوب نامی عورت تک پہنچی تو وہ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئی اور کہا: مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں، جس پر اللہ کی کتاب میں لعنت کی گئی ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لعنت کی ہے۔ اس عورت نے کہا: میں نے تو دو گتوں میں موجود اول تا آخر قرآن پاک پڑھا ہے، اس میں تو ان پرلعنت کا ذکر نہیں ہے، انہوں نے کہا: اگر تم نے قرآن پاک پڑھا ہوتا تو اس میں ضرور پاتی، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: {مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا} … رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جائو۔ ؟ اس عورت نے کہا: جی کیوں نہیں، پڑھی ہے،پس سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کام سے منع کیا ہے۔ اس عورت نے کہا: میرا خیال ہے کہ تمہارے گھر والے بھی یہ کام کرتے ہیں۔انھوںنے کہا: جاؤ اور دیکھ لو، اس نے دیکھا تو اس کاخیال پورا نہ ہوا، وہاں اس طرح کی کوئی چیز نہ تھی، وہ آئی اور اس نے کہا: تمہارے گھر میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم ہمارے گھر یہ چیزیں دیکھتیں تو ہمارے گھر والے اور میں اکٹھے نہ رہتے۔

Haidth Number: 8133
۔ (دوسری سند) مسروق بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت، سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئی اور اس نے کہا: مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ بال ملانے والی کو روکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، روکتا ہوں! اس نے کہا: کیا تم اس چیز کو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پاتے ہو یا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا:میں اللہ کی کتاب میں بھی پاتا ہوں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھی سنا ہے، اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم!میں نے اول تا آخر قرآن پاک کو بغور پڑھا ہے، لیکن اس میں تو یہ موجود نہیں۔ انھوں نے کہا: کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی: {مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا} … رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جائو۔ ؟ اس نے کہا: جی ہاں، پڑھی ہے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے: اگر میں جس چیز سے منع کرتا ہوں، خود اس کو کروں تو پھر میں نے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے (سیدنا شعیب علیہ السلام ) کی نصیحت کو یاد نہیں رکھا، انھوں نے کہا تھا، (جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلٰی مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ}… میرا یہ ارادہ نہیں ہے کہ میں جس چیز سے تمہیں منع کرتا ہوں، خود اس کی مخالفت کروں۔

Haidth Number: 8134
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بال لگانے والی، بال لگوانے والی،عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوںپر لعنت فرمائی۔

Haidth Number: 8135
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنے بالوں کے ساتھ کوئی چیز ملائے۔

Haidth Number: 8136
۔ لمیس سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ ایک عورت خاوند کے ہاں محبت حاصل کرنے کے لئے تیل لگاتی ہے کہ چہرہ زیادہ صاف ہوجائے تو کیا یہ لگا سکتی ہے۔ انہوںنے کہا: اسے خود سے دور رکھو، اللہ تعالیٰ اس خاتون کی طرف نہیں دیکھتے، جو یہ لگاتی ہے۔ ایک اور عورت نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اے اماں! سیدہ نے کہا: میں تمہاری ماں نہیں ہوں، تمہاری بہن ہوں، پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (رمضان کے پہلے) بیس دنوں نماز بھی ادا کرتے اور سوتے بھی تھے، لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو تہبند مضبوط کرلیتے اور عبادت میں کمر بستہ ہوجاتے۔

Haidth Number: 8137
۔ سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک دن کہا: تم نے بری عادت ایجاد کرلی ہے، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جھوٹ سے منع فرمایا ہے، ایک آدمی ایک لاٹھی لایا، اس کے سرے پر کپڑے کا ایک ٹکڑا لٹک رہا تھا، اس نے کہا: خبردار! یہی جھوٹ ہے۔ قتادہ نے کہا: اس سے مراد کپڑے کے وہ ٹکڑے ہیں، جن کے ساتھ عورتیں اپنے بال زیادہ ظاہر کرتی ہیں۔

Haidth Number: 8138
۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منبر یا مدینہ منورہ کے منبر پر خطبہ دیا اور بالوں کا ایک گچھا نکالا اور اس کے بارے میں کہا: مجھے اتنا پتہ نہیں تھا کہ یہودیوں کے علاوہ بھی کوئی یہ کام کرتا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔

Haidth Number: 8139
۔ حمید بن عبدالرحمن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، جبکہ ان کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، انھوں نے کہا: اے مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے منع فرماتے تھے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کو اس وقت عذاب دیا گیا، جس وقت ان کی عورتوں نے اس قسم کے بالوں کے گچھے استعمال کرنا شروع کیے۔

Haidth Number: 8140
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مرتد ہوا اور مشرکوں کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {کَیْفَیَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاء َھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔}… اللہ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور (اس کے بعد کہ) انھوں نے شہادت دی کہ یقینایہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلیلیں آچکیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۂ آل عمران: ۸۶)۔ جب اس کی قوم نے اس تک یہ آیت پہنچائی تو وہ تائب ہو کر واپس آ گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے یہ چیز قبول کر لی اور اس کو آزاد چھوڑ دیا۔

Haidth Number: 8538
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے: سود کھانے والا، سود کھلانے والا، اس کے دو گواہ، اس کو لکھنے والا، خوبصورتی کے لیے گودنے والی اور گدوانے والی، زکوۃ نہ دینے والا، حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نوحہ سے بھی منع کرتے تھے۔

Haidth Number: 10022
۔ امام شعبی بیان کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان افراد پر لعنت کی ہے: سود کھانے والا، کھلانے والا، اس کے معاملے کو لکھنے والا اور اس کا گواہ، گودنے والی، گدوانے والی، حلالہ کرنے والا، وہ شخص کہ جس کے لیے حلالہ کیا جائے، زکوۃ کو روکنے والا، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نوحہ سے منع کرتے تھے۔ راوی نے نوحہ کے لیے لعنت کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ابن عون نے کہا: کیا بیماری کی وجہ سے گدوانا جائز ہے؟ امام شعبی نے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 10023
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورج کو کسی بشر کے لیے نہیں روکا گیا، ما سوائے یوشع بن نون علیہ السلام کے، یہ ان دنوں کی بات ہے، جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے۔

Haidth Number: 10390

۔ (۱۰۳۹۱)۔ عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ مَرْفُوْعًا: (( اِنَّ الشَّمْسَ لَمْ تُحْبَسْ عَلٰی بَشَرٍ اِلَّا لِیُوْشَعَ لَیَالِيَ سَارَ اِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ (وَفِيْ رِوَایَۃٍ: غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْاَنْبِیَائِ، فَقَالَ لِقَوْمِہِ : لَا یَتَّبِعُنِيْ رَجُلٌ قَدْ مَلَکَ بُضْعَ امْرَاَۃٍ، وَھُوَیُرِیْدُ اَنْ یَبْنِيَ بِھَا، وَلَمَّا یَبْنِ بِھَا، وَلَا آخَرُ قَدْ بَنٰی بُنْیَانًا، وَلَمَّا یَرْفَعْ سَقْفَھَا ، وَلَا آخَرُ قَدِ اشْتَرٰی غَنَمًا اَوْ خَلِفَاتٍ وَھُوَ مُنْتَظِرٌ وِلَا دَھَا۔) قَالَ فَغَزَا ، فَاَدْنٰي لِلْقَرْیَۃِ حِیْنَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ اَوْ قَرِیْبًا مِنْ ذٰلِکَ (وَفِيْ رِوَایَۃٍ: فَلَقِيَ الْعَدُوَّ عِنْدَ غَیْبُوْبَۃِ الشَّمْسِ)، فَقَالَ لِلشَّمْسِ: اَنْتِ مَاْمُوْرَۃٌ، وَاَنَا مَاْمُوْرٌ، اَللّٰھُمَّ احْبِسْھَا عَلَيَّ شَیْئًا، فَحُبِسَتْ عَلَیْہِ، حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَغَنِمُوْا الْغَنَائِمَ، قَالَ: فَجَمَعُوْا مَا غَنِمُوْا، فَاَقْبَلَتِ النَّارُ لِتَاْکُلَہٗ،فَاَبَتْاَنْتَطْعَمَہٗ،وَکَانُوْاِذَاغَنِمُوْاالْغَنِیْمَۃَ بَعَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْھَا النَّارَ فَاَکَلَتْھَا، فَقَالَ: فِیْکُمْ غُلُوْلٌ، فَلْیُبَایِعْنِيْ مِنْ کُلِّ قَبِیْلَۃٍ رَجُلٌ فَبَایَعُوْہُ، فَلَصَقَتْ یَدُرَجُلٍ بِیَدِہِ، فَقَالَ: فِیْکُمُ الْغُلُوْلُ فَلْتُبَایِعْنِيْ قَبِیْلَتُکَ، فَبَایَعَتْہُ۔ قَالَ: فَلَصِقَتْ بِیَدِ رَجُلَیْنِ اَوْثَلَاثَۃٍیَدُہٗ، فَقَالَ: فِیْکُمُ الْغُلُوْلُ اَنْتُمْ غَلَلْتُمْ۔قَالَ: اَجَلْ! قَدْ غَلَلْنَا صُوْرَۃَ وَجْہِ بَقَرَۃٍ مِنْ ذَھَبٍ قَالَ: فَاَخْرَجُوْا لَہٗمِثْلَرَاْسِبَقَرَۃٍ مِنْ ذَھَبٍ، قَالَ: فَوَضَعُوْہُ فِيْ الْمَالِ وَھُوَ بِالصَّعِیْدِ، فَاَقْبَلَتِ النَّارُ فَاَکَلَتْہُ، فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِاَحَدٍ مِنْ قَبْلَنَا، ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی رَاٰی ضُعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَطَیَّبَھَا لَنَا۔(وَفِيْ رِوَایَۃٍ:فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ذٰلِکَ: اِنَّ اللّٰہَ اَطْعَمَنَا الْغَنَائِمَ رَحْمَۃً بِنَا وَتَخْفِیْفًا لِمَا عَلِمَ مِنْ ضُعْفِنَا۔)) (مسند احمد: ۸۲۲۱)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک سورج کسی بشر کے لیے کبھی بھی نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے، ایک روایت میں ہے: انبیاء میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ آدمی میرے ساتھ نہ آئے جو کسی عورت کی شرمگاہ کا مالک بن چکا ہے (یعنی اس نے نکاح کر لیا ہے) اور رخصتی کرنا چاہتا ہے، لیکن ابھی تک نہیں کی، وہ آدمی بھی (میرے لشکر میں شریک) نہ ہو، جس نے کوئی گھر بنانا شروع کیا ہے، لیکن ابھی تک چھت نہیں ڈالی اور جو آدمی بکریاںیا ایسے حاملہ جانور خرید چکا ہے، کہ جن کے بچوں کی ولادت کا اسے انتظار ہے، وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے۔(یہ اعلان کرنے کے بعد) وہ غزوہ کے لیے روانہ ہو گیا، جب وہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، یا قریب تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ کہ غروبِ آفتاب سے پہلے دشمنوں سے مقابلہ ہوا)۔ اس وقت اس نبی نے سورج سے کہا: تو بھی (اللہ تعالیٰ کا) مامور ہے اور میں بھی (اسی کا) مامور ہوں۔ اے اللہ! تو اس سورج کو میرے لیے کچھ دیر تک روک لے۔ پس اسے روک دیا گیا، ( وہ جہاد میں مگن رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا کی اور کافی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ اس لشکر والوں نے (اس وقت کے شرعی قانون کے مطابق) غنیمتوں کا مال جمع کیا، اسے کھانے کے لیے آگ آئی، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصول یہ تھا کہ جب وہ غنیمت کا مال حاصل کرتے تو اللہ تعالیٰ آگ بھیجتا جو اسے کھا جاتی۔ اس نبی نے (آگ کے نہ کھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا: تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہٰذا ہر قبیلے سے ایک ایک آدمی میری بیعت کرے۔ انھوں نے بیعت کی۔ بیعت کے دوران ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چپک گیا۔ اس وقت انھوں نے کہا: تم میں خیانت ہے۔ اب تیرے قبیلے کا ہر آدمی میری بیعت کرے گا (تاکہ مجرم کا پتہ چل سکے)، انھوں نے بیعت شروع کی، بالآخر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے۔ نبی نے کہا: تم میں خیانت ہے، تم نے خیانت کی ہے۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، ہم نے گائے کے چہرے کی مانند بنی ہوئی سونے کی ایک مورتی کی خیانت کی ہے۔ پھر وہ گائے کے چہرے کی طرح کی بنی ہوئی چیز لے کر آئے اور اسے زمین پر مالِ غنیمت میں رکھ دیا، پھر آگ متوجہ ہوئی اور مالِ غنیمت کھا گئی۔ ہم (امتِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سے پہلے کسی کے لیے بھی مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ہم ضعیف اور بے بس ہیں تو غنیمتوں کو ہمارے لیے حلال قرار دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس وقت فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ رحم کرتے ہوئے اورہماری کمزوری کی بنا پر ہمارے ساتھ تخفیف کرتے ہوئے ہمیں غنیمت کا مال کھانے کی اجازت دے دی۔

Haidth Number: 10391
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنی اسرئیل سے کہا گیا: تم دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جائو اور زبان سے حِطَّۃ کہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔ لیکن انھوں نے اس بات کو بدل ڈالا اور دروازے سے سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے اور زبان سے حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ (گندم بالی میں)کہتے ہوئے داخل ہوئے۔

Haidth Number: 10392
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا کہ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔ لیکن وہ سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور ان کو حکم دیا کہ حِطَّۃ کہو، لیکن انھوں نے اس حکم کو بد ڈالا اور کہا: حِنْطَۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ (گندم بالی میں)۔

Haidth Number: 10393

۔ (۱۰۵۶۷)۔ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: کَانَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فُرِجَ سَقْفُ بَیْتِیْ وَأَنَا بِمَکَّۃَ فَنَزَلَ جِبْرِیْلُ فَفَرَجَ صَدْرِیْ ثُمَّّ غَسَلَہُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّّ جَائَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مُمْتَلِیئٍ حِکْمَۃً وَاِیْمَانًا، فَأَفْرَغَھَا فِیْ صَدْرِیْ ثُمَّّ أَطْبَقَہُ ثُمّّ أَخَذَ بِیَدِیْ فَعَرَجَ بِیْ اِلَی السَّمَائِ، فَلَمَّا جَائَ السَّمَائَ الدُّنْیَا فَافْتَتَحَ، فَقَالَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قَالَ: ھَلْ مَعَکَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِیْ مُحَمَّدٌ، قَالَ: أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَفُتِحَ فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَائَ الدُّنْیَا، اِذَا رَجُلٌ عَنْ یَمِیْنِہِ أَسْوِدَۃٌ وَعَنْ یَسَارِہِ أَسْوِدَۃٌ، وَاِذَا نَظَرَ قِبْلَ یَمِیْنِہِ تَبَسَّمَ، وَاِذَا نَظَرَ قِبْلَ یَسَارِہِ بَکٰی، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْاِبْنِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ لِجِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا آدَمُ وَھٰذِہِ الْأَسْوِدَۃُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَشِمَالِہِ نَسَمُ بَنِیْہِ، فَأَھْلُ الْیَمِیْنِ ھُمْ أَھْلُ الْجَنَّۃِ، وَالْأَسْوِدَۃُ الَّتِیْ عَنْ شِمَالِہِ أَھْلُ النَّارِ، فَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ یَمِیْنِہِ ضَحِکَ، وَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِہِ بَکٰی، قَالَ: ثُمَّّ عَرَجَ بِیْ جِبْرِیْلُ حَتّٰی جَاوَزَ السَّمَائَ الثَّانِیَّۃَ فَقَالَ لِخَازِنِھَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَہُ خَازِنُھَا مِثْلَ مَا قَالَ خَازِنُ السَّمَائِ الدُّنْیَا فَفَتَحَ لَہُ، (قَالَ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: فَذَکَرَ اَنَّہُ وَجَدَ فِیْ السَّمٰوَاتِ آدَمَ وَاِدْرِیْسَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی وَاِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسِّلَامُ، وَلَمْ یَثْبُتْ لِیْ کَیْفُ مَنَازِلُھُمْ غَیْرَ أَنَّہُ ذَکَرَ أَنَّہُ وَجَدَ آدَمَ فِیْ السَّمَائِ الدُّنْیَا وَاِبْرَاھِیْمَ فِیْ السَّمَائِ السَّادِسَۃِ، قَالَ أَنَسٌ:) فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السِّلَامُ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِدْرِیْسَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِدْرِیْسُ، قَالَ: ثُمّّ مررت بموسی، فقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا مُوْسٰی، ثُمّّ مَرَرْتُ بِعِیْسٰی، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، قَالَ: ثُمَّّ مَرَرْتُ بِاِبْرَاھِیْمَ، فقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْاِبْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، (قَالَ ابْنُ شِھَابٍ: وَأَخْبَرَنِیْ اِبْنُ حَزْمٍ: أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّۃَ الْأَنْصَارِیَّیَقُوْلَانِ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّّ عَرَجَ بِیْ حَتَّی ظَھَرْتُ بِمُسْتَوی أَسْمَعُ صَرِیْفَ الْاَقْلَامِ، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَرَضَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلٰی اُمَّتِیْ خَمْسِیْنَ صَلاۃً، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذٰلِکَ حَتّٰی أَمُرَّ عَلَی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فقَالَ: مَاذَا فَرَضَ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، فَقَالَ لِیْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ: رَاجِعْ رَبَّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ فَوَضَعَ شَطْرَھَا، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَاَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ: ھِیَ خَمْسٌ وَھِیَ خَمْسُوْنَ لَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ، قَالَ: فَرَجَعْتُ اِلَی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، قَالَ: ثُمَّّ انْطَلَقَ بِیْ حَتّٰی أَتٰی بِیْ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھٰی، قَالَ: فَغَشّٰھَا اَلْوَانٌ مَا أَدْرِیْ مَاھِیَ، قَالَ: ثُمَّّ اُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ فَاِذَا فِیْھَا جَنَابِذُ الْلُؤْلُؤِ وَاِذَا تُرَابُھَا الْمِسْکُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۱۲)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کو کھولا گیا، جبکہ میں مکہ میں تھا، جبریل اترے، انھوں نے میرا سینہ چاک کیا، اس کو زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک تھال لے کر آئے، وہ حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا، اس کو میرے سینے میں بہا دیا اور پھر اس کو بند کر دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھ گئے، جب آسمانِ دنیا کے پاس پہنچے تو دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پہرے دار نے کہا: یہ کون آیا ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، اس نے کہا: کیا تیرے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،میرے ساتھ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، اس نے کہا: کیا ان کو پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، جب ہم آسمان دنیا سے اوپر کو چڑھے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس کے دائیں طرف بھی کچھ وجود ہیں اور بائیں طرف بھی، وہ دائیں طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے، اس نے مجھے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے کو مرحبا، میں نے جبریل سے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کے دائیں بائیں جو وجود نظر آ رہے ہیں،یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں، دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے جہنمی ہیں، اسی وجہ سے یہ دائیں طرف والوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور بائیں طرف والوں کو دیکھ کر روتے ہیں، پھر جبریل مجھے لے کر آگے کو بڑھے اور دوسرے آسمان تک جا پہنچے اور پہرے دار سے کہا: دروازہ کھولو، اس نے آگے سے وہی باتیں کیں، جو آسمان دنیا والے پہرے دار نے کہی تھیں۔ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر انھوں نے بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمانوں میں آدم، ادریس، موسی، عیسی اور ابراہیمh کو پایا، لیکنیہ بات مجھے یاد نہ رہ سکی کہ ان کی منزلیں کیسی تھیں، (یعنی کون کس آسمان میں تھا) البتہ اتنا یاد ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمانِ دنیا میں اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان میں پایا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب جبریل علیہ السلام اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، حضرت ادریس کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے ہیں: میں نے کہا: یہ کون ہے؟ جبریل نے کہا:یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے مجھے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا:یہ موسی علیہ السلام ہیں پھر میں عیسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا:یہ عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں، پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں ے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے کو خوش آمدید، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن حزم نے کہا: سیدنا عبدا للہ بن عباس اور سیدنا ابو حبہ انصاریfنے روایت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر وہ مجھے لے کر آگے کو بڑھے، یہاں تک کہ میں ایسی سطح پر چڑھ گیا کہ مجھے قلمیں چلنے کی آواز سنائی دی۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، پس میں ان کے ساتھ واپس آیا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے مجھ سے پوچھا: آپ کے ربّ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، موسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا: آپ اپنے ربّ سے رجوع کریں، کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھی، پس میں نے اپنے ربّ سے مراجعہ کیا اور اس نے نصف نمازیں کم کر دیں، میں دوبارہ موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور ان کو صورتحال سے آگاہ کیا، انھوں نے کہا: آپ اپنے ربّ کے پاس واپس جائیں، آپ کی امت یہ عمل نہیں کر سکتی، پس میں پھر اپنے ربّ کے پاس گیا، اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ پانچ ہیں اور یہ پچاس ہیں، میرے ہاں قول تبدیل نہیں ہوتا، پس میں موسی علیہ السلام کے طرف لوٹا، انھوں نے پھر کہا کہ آپ ابھی تک اپنے ربّ سے مراجعہ کریں، لیکن میں نے کہا: اب تو میں اپنے ربّ تعالیٰ سے شرماتا ہوں، پھر جبریل مجھے لے کر سدرۃ المنتہی کی طرف گیا، اس پر کئی رنگ تھے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کون کون سے تھے، پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا، اس میں دیکھا کہ لؤلؤ موتیوں کے قبے تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی۔

Haidth Number: 10567

۔ (۱۰۷۴۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ رَہْطٍ عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَانْطَلَقُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّۃَ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ،یُقَالُ لَہُمْ: بَنُو لِحْیَانَ، فَنَفَرُوا لَہُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَۃِ رَجُلٍ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَہُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَہُمْ التَّمْرَ فِی مَنْزِلٍ نَزَلُوہُ، قَالُوا: نَوَی تَمْرِ یَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَہُمْ، فَلَمَّا أُخْبِرَ بِہِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ لَجَئُوا إِلٰی فَدْفَدٍ فَأَحَاطَ بِہِمُ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: لَہُمْ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَیْدِیکُمْ وَلَکُمُ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِیرُ الْقَوْمِ: أَمَّا أَنَا وَاللّٰہِ! لَا أَنْزِلُ فِی ذِمَّۃِ کَافِرٍ، اللَّہُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَمَوْہُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِی سَبْعَۃٍ، وَنَزَلَ إِلَیْہِمْ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ عَلَی الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ، مِنْہُمْ خُبَیْبٌ الْأَنْصَارِیُّ وَزَیْدُ بْنُ الدَّثِنَۃِ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا تَمَکَّنُوا مِنْہُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِیِّہِمْ فَرَبَطُوہُمْ بِہَا، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: ہٰذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ، وَاللّٰہِ! لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِی بِہٰؤُلَائِ لَأُسْوَۃًیُرِیدُ الْقَتْلَ، فَجَرَّرُوہُ وَعَالَجُوہُ فَأَبٰی أَنْ یَصْحَبَہُمْ فَقَتَلُوہُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَیْبٍ وَزَیْدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ حَتّٰی بَاعُوہُمَا بِمَکَّۃَ بَعْدَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ خُبَیْبًا، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ یَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَیْبٌ عِنْدَہُمْ أَسِیرًا حَتّٰی أَجْمَعُوا قَتْلَہُ، فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسٰییَسْتَحِدُّ بِہَا لِلْقَتْلِ فَأَعَارَتْہُ إِیَّاہَا، فَدَرَجَ بُنَیٌّ لَہَا، قَالَتْ: وَأَنَا غَافِلَۃٌ حَتّٰی أَتَاہُ فَوَجَدْتُہُ یُجْلِسُہُ عَلٰی فَخِذِہِ وَالْمُوسٰی بِیَدِہِ، قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً عَرَفَہَا خُبَیْبٌ، قَالَ: أَتَخْشَیْنَ أَنِّی أَقْتُلُہُ؟ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ، قَالَتْ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ وَجَدْتُہُ یَوْمًایَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِییَدِہِ، وَإِنَّہُ لَمُوثَقٌ فِی الْحَدِیدِ وَمَا بِمَکَّۃَ مِنْ ثَمَرَۃٍ، وَکَانَتْ تَقُولُ: إِنَّہُ لَرِزْقٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ خُبَیْبًا،فَلَمَّا خَرَجُوا بِہِ مِنَ الْحَرَمِ لِیَقْتُلُوہُ فِی الْحِلِّ، قَالَ لَہُمْ خُبَیْبٌ: دَعُونِی أَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَتَرَکُوہُ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِی جَزَعًا مِنَ الْقَتْلِ لَزِدْتُ، اللَّہُمَّ أَحْصِہِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْہُمْ أَحَدًا، فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلٰی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلَّہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ، ثُمَّ قَامَ إِلَیْہِ أَبُو سِرْوَعَۃَ عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَہُ، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاۃَ، وَاسْتَجَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ یَوْمَ أُصِیبَ، فَأَخْبَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ یَوْمَ أُصِیبُواخَبَرَہُمْ، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ إِلٰی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِینَ حُدِّثُوا أَنَّہُ قُتِلَ لِیُؤْتٰی بِشَیْئٍ مِنْہُ یُعْرَفُ، وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی عَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْہُ مِنْ رُسُلِہِمْ فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلٰی أَنْ یَقْطَعُوا مِنْہُ شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۸۰۸۲)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت کو روانہ فرمایا تاکہ وہ قریش کے حالات کو معلوم کریں کہ وہ آج کل کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عاصم بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نانا عاصم بن ثابت بن ابی اقلح کو ان پر امیر مقرر فرمایا،یہلوگ اپنے مشن پر روانہ ہوئے جب عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام الھدۃ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے بنولحیان کے لیے ان کا ذکر کیا گیا۔ اس قبیلے کے ایک سو کے لگ بھگ تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا،یہ مسلمان ایک مقام پر ٹھہرے تھے، بنو لحیان کے لوگوں نے وہاں ان کے طعام میں دیکھا کہ انہوں نے وہاں کھجوریں کھائی ہیں، کہنے لگے یہ تو یثرب کی کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں، وہ ان کے قدموں کے آثار پر ان کا پیچھا کرتے کرتے، ان تک جا پہنچے۔ جب عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اوران کے ساتھیوں کو ان کے بارے میں خبر دی گئی تو یہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے۔ دشمن نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا تم نیچے اتر آؤ تمہارے پاس جو کچھ ہے، ہمیں دے دو، ہم تمہارے ساتھ پختہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے، تو عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر قافلہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر کی امان میں نہیں جاتا، یا اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی کو مطلع کر دے، پھر کافروں نے ان مسلمانوں پر تیر برسانا شروع کر دیئے اور سات مسلمانوں کو شہید کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ باقی تین آدمی سیدنا خبیب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا زید بن دثنہ اور ایک تیسرا آدمییہ ان کے عہدو پیمان کے نتیجے میں نیچے آگئے۔ کافروں نے جب ان تینوں کو قابو کر لیا تو ان کی کمانوں کی رسیاں کھول کر انہیں انہی سے باندھ دیا۔ ان تین میں سے تیسرے صحابی نے کافروں سے کہا: یہ تمہارا دھوکا ہے، اللہ کی قسم! میں تو تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے ان شہیدوں میں بہترین نمونہ ہے۔ کافروں نے اسے گھسیٹا اور ساتھ لے جانے کی پوری کوشش کی، مگر اس نے ساتھ جانے سے صاف صاف انکار کر دیا، بالآخر انھوں نے اسے بھی قتل کر ڈالا اور سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زید بن دثنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے گئے او رجا کر مکہ میں فروخت کر دیا،یہ بدر کے بعد کا واقعہ ہے، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا تھا، اس کی اولاد نے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خرید لیا، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں قیدی کی حیثیت سے رہے حتی کہ انہوں نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اپنے قتل سے قبل سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حارث کی کسی بیٹی سے استرا طلب کیا، اس نے انہیں استرا لا دیا، اس دوران اس عورت کا چھوٹا سا بیٹا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا گیا، وہ کہتی ہے کہ میں بچے کی طرف سے غافل تھی، مجھے اس کا پتہ نہ چل سکا اور وہ خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا پہنچا، جب میں نے خبیب کو دیکھا کہ انہوں نے بچے کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا تھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کہتی ہے: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی، خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری گھبراہٹ کو جان گئے۔ کہنے لگے: کیا تمہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ میں اسے قتل کردوں گا؟ میں یہ کام نہیں کر سکتا، وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے ان کو ایک دن انگور کھاتے دیکھا، جو ان کے ہاتھ میں تھے۔ حالانکہ وہ تو زنجیروں میںبندھے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں پھل تھے ہی نہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خصوصی رزق عطا فرمایا تھا، وہ لوگ قتل کرنے کے لیے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے کر حرم کی حدود سے باہر گئے تاکہ ان کو وہاں جا کر قتل کریں، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: مجھے اجازت دو، تاکہ میں دو رکعت نماز ادا کروں۔ چنانچہ انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا اللہ کی قسم! اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ تم سمجھو گے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید نماز پڑھتا، یا اللہ ان میں سے ایک ایک کو شمار کر اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہلاک کر، اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑ، پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھے: فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلَی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ۔ (میں جب اسلام کی حالت میں قتل ہوںکر مر رہا ہوں تو مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی خاطر میں کس پہلو پر گرتا ہوں، میرے ساتھ یہ سلوک اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے ہو رہا ہے کہ میں اس پر اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں، اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء کو برکتوں سے نواز دے گا۔) اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر ان کو شہید کر دیا۔ سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باندھ کر قتل کئے جانے والے ہر مسلمان کے لیے قتل سے قبل نماز کا طریقہ جاری کیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے دن کی دعا کو قبول کیا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی دن صحابہ کرام کو ان کے واقعہ کی خبر دی۔ قریش کو پتہ چلا کر عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قتل ہو گئے ہیں تو انہوں نے کچھ قریشی لوگوںکو بھیجا تاکہ وہ جا کر عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جسم کے کچھ اعضاء کاٹ لائیں تاکہ انہیں مزیدیقین ہو جائے کہ وہ واقعی قتل ہو چکے ہیں۔ دراصل عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن قریش کے ایک سردار کو قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے بھڑ جیسے زہریلے جانوروں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے، جنہوں نے عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر چھتری کی مانند سایہ کر دیا اور قریش کے بھیجے ہوئے لوگوں کے برے ارادے سے ان کو بچا لیا، وہ ان کے جسم کے کسی بھی حصہ کو کاٹنے کی جرأت نہ کر سکے۔

Haidth Number: 10743

۔ (۱۱۶۷۰)۔ عن عَلِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ، یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنَ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْ یَدًا یَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۰۰)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کی بنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں نسب کے لحاظ سے ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، تو میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کر گزرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔

Haidth Number: 11670
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھ کر ان کو اطلاع دی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام کو اس عورت کے متعلق بتلا دیا، جس کے پاس وہ خط تھا… اس سے آگے حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے۔

Haidth Number: 11671
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک غلام، جو بنی اسد کے قبیلہ سے تھا، آیا اور اپنے مالک کی شکایت کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! حاطب ضرور جہنم میں جائے گا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تم غلط کہتے ہو، وہ تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی سعادت حاصل کر چکا ہے، (جبکہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرنے والے جہنم میں نہیں جائیں گے)۔

Haidth Number: 11672