Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ جاسوس کے ساتھ کیا کیا جائے، وہ مسلمان ہو یا حربی یا ذمی

24 Hadiths Found

۔ (۵۱۱۷)۔ عن عَلِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ، یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنْ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْ یَدًا یَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۰۰)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کی بنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کر گزرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔

Haidth Number: 5117
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، اتنے میں مشرکوں کا ایک جاسوس پہنچ گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، صحابۂ کرام نے اس کو کھانے کی طرف بلایا، جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہوا اور جلدی سے واپس ہونا شروع کر دیا، دراصل وہ اپنے ساتھیوں کو متنبہ کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اس کے پیچھے دوڑا اور اس کو پا لیا اور اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی گردن قلم کر دی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا سلب مجھے بطورِ غنیمت دے دیا۔

Haidth Number: 5118
۔ سیدنا فرات بن حیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، وہ ابو سفیان کا جاسوس اور حلیف تھا، بعد میں جب وہ انصاریوںکی ایک مجلس کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: بیشک میں تو مسلمان ہوں، جب انصار نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ وہ تو کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تم میں بعض افراد ایسے ہیں کہ ہم ان کو ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان میں سے ایک فرات بن حیان بھی ہے۔

Haidth Number: 5119
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان {اَنْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖاِلَّااِنَاثًا} (وہمشرکنہیں پکارتے مگر اناث کو) میں اِنَاثًا سے مراد یہ ہے کہ ہر بُت کے ساتھ ایک جننی ہوتی ہے۔

Haidth Number: 8566

۔ (۱۰۸۱۸)۔ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًایُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی بِمَکَّۃَ مَالًا، وَإِنَّ لِی بِہَا أَہْلًا، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ آتِیَہُمْ، فَأَنَا فِی حِلٍّ إِنْ أَنَا نِلْتُ مِنْکَ، أَوْ قُلْتُ شَیْئًا، فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقُولَ مَا شَائَ، فَأَتٰی امْرَأَتَہُ حِینَ قَدِمَ، فَقَالَ: اجْمَعِی لِی مَا کَانَ عِنْدَکِ، فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَشْتَرِیَ مِنْ غَنَائِمِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، فَإِنَّہُمْ قَدْ اسْتُبِیحُوا وَأُصِیبَتْ أَمْوَالُہُمْ، قَالَ: فَفَشَا ذٰلِکَ فِی مَکَّۃَ، وَانْقَمَعَ الْمُسْلِمُونَ وَأَظْہَرَ الْمُشْرِکُونَ فَرَحًا وَسُرُورًا، قَالَ: وَبَلَغَ الْخَبَرُ الْعَبَّاسَ فَعَقِرَ وَجَعَلَ لَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَقُومَ، قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِی عُثْمَانُ الْجَزَرِیُّ عَنْ مِقْسَمٍ، قَالَ: فَأَخَذَ ابْنًا لَہُ یُقَالُ لَہُ قُثَمُ فَاسْتَلْقٰی فَوَضَعَہُ عَلٰی صَدْرِہِ وَہُوَ یَقُولُ: حَیَّ قُثَمْ حَیَّ قُثَمْ، شَبِیہَ ذِی الْأَنْفِ الْأَشَمَّ، بَنِی ذِیالنَّعَمْ، یَرْغَمْ مَنْ رَغَمْ، قَالَ ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ: ثُمَّ أَرْسَلَ غُلَامًا إِلَی الْحَجَّاجِ بْنِ عِلَاطٍ، وَیْلَکَ مَا جِئْتَ بِہِ وَمَاذَا تَقُولُ فَمَا وَعَدَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِمَّا جِئْتَ بِہِ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ لِغُلَامِہِ: اقْرَأْ عَلٰی أَبِی الْفَضْلِ السَّلَامَ، وَقُلْ لَہُ: فَلْیَخْلُ لِی فِی بَعْضِ بُیُوتِہِ لِآتِیَہُ، فَإِنَّ الْخَبَرَ عَلٰی مَا یَسُرُّہُ، فَجَائَ غُلَامُہُ فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ الدَّارِ، قَالَ: أَبْشِرْ، یَا أَبَا الْفَضْلِ! قَالَ: فَوَثَبَ الْعَبَّاسُ فَرَحًا حَتّٰی قَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، فَأَخْبَرَہُ مَا قَالَ الْحَجَّاجُ فَأَعْتَقَہُ، ثُمَّ جَائَ ہُ الْحَجَّاجُ فَأَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِ افْتَتَحَ خَیْبَرَ، وَغَنِمَ أَمْوَالَہُمْ، وَجَرَتْ سِہَامُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی أَمْوَالِہِمْ، وَاصْطَفٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ فَاتَّخَذَہَا لِنَفْسِہِ، وَخَیَّرَہَا أَنْ یُعْتِقَہَا، وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ أَوْ تَلْحَقَ بِأَہْلِہَا، فَاخْتَارَتْ أَنْ یُعْتِقَہَا وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ، وَلٰکِنِّی جِئْتُ لِمَالٍ کَانَ لِی ہَاہُنَا، أَرَدْتُ أَنْ أَجْمَعَہُ، فَأَذْہَبَ بِہِ، فَاسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَذِنَ لِی، أَنْ أَقُولَ مَا شِئْتُ، فَأَخْفِ عَنِّی ثَلَاثًا، ثُمَّ اذْکُرْ مَا بَدَا لَکَ، قَالَ: فَجَمَعَتْ امْرَأَتُہُ مَا کَانَ عِنْدَہَا مِنْ حُلِیٍّ وَمَتَاعٍ فَجَمَعَتْہُ فَدَفَعَتْہُ إِلَیْہِ، ثُمَّ اسْتَمَرَّ بِہِ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ثَلَاثٍ أَتَی الْعَبَّاسُ امْرَأَۃَ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ زَوْجُکِ؟ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ قَدْ ذَہَبَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا، وَقَالَتْ: لَا یُخْزِیکَ اللَّہُ، یَا أَبَا الْفَضْلِ! لَقَدْ شَقَّ عَلَیْنَا الَّذِی بَلَغَکَ، قَالَ: أَجَلْ لَا یُخْزِیْنِی اللَّہُ، وَلَمْ یَکُنْ بِحَمْدِ اللّٰہِ إِلَّا مَا أَحْبَبْنَا فَتَحَ اللّٰہُ خَیْبَرَ عَلٰی رَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللّٰہِ، وَاصْطَفٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ لِنَفْسِہِ، فَإِنْ کَانَتْ لَکِ حَاجَۃٌ فِی زَوْجِکِ، فَالْحَقِی بِہِ، قَالَتْ: أَظُنُّکَ وَاللّٰہِ صَادِقًا، قَالَ: فَإِنِّی صَادِقٌ الْأَمْرُ عَلَی مَا أَخْبَرْتُکِ، فَذَہَبَ حَتّٰی أَتٰی مَجَالِسَ قُرَیْشٍ، وَہُمْ یَقُولُونَ إِذَا مَرَّ بِہِمْ لَا یُصِیبُکَ إِلَّا خَیْرٌ،یَا أَبَا الْفَضْلِ! قَالَ لَہُمْ: لَمْ یُصِبْنِی إِلَّا خَیْرٌ بِحَمْدِ اللّٰہِ، قَدْ أَخْبَرَنِی الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ أَنَّ خَیْبَرَ قَدْ فَتَحَہَا اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ، وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللّٰہِ، وَاصْطَفٰی صَفِیَّۃَ لِنَفْسِہِ، وَقَدْ سَأَلَنِی أَنْ أُخْفِیَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا، وَإِنَّمَا جَائَ لِیَأْخُذَ مَالَہُ، وَمَا کَانَ لَہُ مِنْ شَیْئٍ ہَاہُنَا، ثُمَّ یَذْہَبَ، قَالَ: فَرَدَّ اللّٰہُ الْکَآبَۃَ الَّتِی کَانَتْ بِالْمُسْلِمِینَعَلَی الْمُشْرِکِینَ، وَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ وَمَنْ کَانَ دَخَلَ بَیْتَہُ مُکْتَئِبًا، حَتّٰی أَتَوُا الْعَبَّاسَ، فَأَخْبَرَہُمُ الْخَبَرَ فَسُرَّ الْمُسْلِمُونَ وَرَدَّ اللّٰہُ یَعْنِی مَا کَانَ مِنْ کَآبَۃٍ أَوْ غَیْظٍ أَوْ حُزْنٍ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۳۶)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ خیبر میں فتح سے ہم کنار ہوئے تو سیدنا حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں ہیں اور وہاں میرا کافی سارا مال بھی ہے، میں اسے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں، تو کیا مجھے اجازت ہے کہ وہاں جا کر محض کفار کو خوش کرنے کے لیے کچھ باتیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلاف کر لوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ جو کہنا چاہیں کہہ لیں، وہ مکہ مکرمہ جا کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے کہا: تمہارے پاس جس قدر بھی دولت ہے، سب ایک جگہ جمع کرو، میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے اصحاب سے لوٹے ہوئے اموالِ غنیمت خریدنا چاہتا ہوں، وہ لوگ شکست کھا گئے اور ان کے اموال لوٹ لئے گئے ہیں، اس کییہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیل گئی، اس خبر سے وہاں کے مسلمان شرمندہ ہو گئے اور مشرکین خوشی اور شادمانی کا اظہار کرنے لگے، جب یہ خبر عباس تک بھی پہنچ گئی تو وہ یہ سن کر گر ہی گئے اور ان میں اُٹھنے کی سکت ہی نہ رہی، مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے قثم کو پکڑا، خود لیٹ گئے اور اسے اپنے سینے پر بیٹھا لیا اور یوں کہتے جاتے: اے قثم، تو میری طرف آ، اے قثم تو میری طرف آ، تو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے مشابہ ہے، ان کی طرح تیری ناک بھی ذرا بلند ہے، وہ اس اللہ کے نبی ہیں جس نے مخلوقات پر بے حدو حساب انعامات کئے ہیں، جسے اللہ خاک آلود اور رسوا کرے وہی ذلیل ورسوا ہو کر رہے گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے ایک غلام، حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ تم کیا خبر لائے ہو اور کیا باتیں کر رہے ہو؟ تم جو کچھ بیان کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ نے تو ان کے ساتھ اس سے بہت بہتر بات کا وعدہ کیا تھا، سیدنا حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے قاصد غلام سے کہا: تم ابو الفضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو میرا سلام پہنچا دو اور ان سے کہو کہ وہ اپنے کسی گھر میں مجھ سے علیحدگی میں مل لیں،میرے پاس ان کے لیے خوشخبری ہے، ان کا غلام واپس آیا، وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے کہا: اے ابو الفضل! تمہیں خوشخبری مبارک ہو، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ سنتے ہی خوشی سے اچھل کر اُٹھے اور اس کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، اس غلام نے ان کو حجاج بن علاط کی بات سے مطلع کیا، عباس نے اسے آزاد کر دیا۔ پھر سیدنا حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر کو فتح کر چکے ہیں اور یہود کے اموال کو بطور غنیمت حاصل کر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت ہر حصہ دار میں تقسیم کیاجا چکا ہے اور اللہ کے رسول نے حیی کی دختر صفیہ کو اپنے لئے منتخب کر لیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اختیار دیا تھا کہ اگر وہ چاہتی ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو آزاد کر دیتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں،یا اگر وہ چاہتی ہے تو اپنے اہلِ خانہ کے ہاں چلی جائے۔ اس نے اس بات کو اختیار کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے آزاد کر کے اپنی زوجیت میں لے لیں، میں تو یہاں پر چھوڑا ہوا اپنا مال لینے آیا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اسے جمع کر کے لے جاؤںاور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی اجازت لے لی تھی اور آپ نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ میں محض کفار کو خوش کرنے کے لیے اس سلسلہ میں جو چاہوں کہہ سکتا ہوں۔ تم میری ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھنا، اس کے بعد جیسے مناسب ہو ان کا ذکر لوگوں سے کر دینا۔ چنانچہ سیدنا حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی کے پاس جس قدر زیورات اور سامان تھا، اس نے وہ سب جمع کر دیا اور اسے اس کے سپرد کر دیا، پھر وہ یہ سامان لے کر وہاں سے چل پڑے، تین دن بعد عباس، حجاج کی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا تمہارا شوہر کیا کر گیا؟ اس نے بتلایا کہ وہ تو فلاں دن چلا گیا تھا اور بولی کہ ابو الفضل! اللہ آپ کو رسوا نہ کرے، آپ تک جو باتیں پہنچی ہیں وہ ہم پر انتہائی شاق گزری ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں، اللہ مجھے کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا اور اللہ کا شکر ہے کہ وہی ہوا ہے جو ہمیں پسند ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرادیا ہے، وہاں سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کو اللہ کے حکم کے مطابق حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب کیا ہے اور پھر اس سے فرمایا: تم اگر اپنے شوہر کے پاس جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمہاری ساری باتیں درست ہیں۔ عباس نے مزید کہا: میں سچ کہہ رہا ہوں، بات وہی ہے جو میں تمہیں بتلا رہا ہوں۔ اس کے بعد عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریش کی مجالس میں گئے، یہ جب بھی ان کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتے: اے ابو الفضل! آپ کو بھلائی ملے، وہ کہتے اللہ کا شکر ہے مجھے بھلائی ہی بھلائی ملتی ہے۔ مجھے حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرا دیا ہے اور وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت کو اللہ کے مقرر کردہ حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے رکھ لیا ہے۔ حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھوں، وہ تو یہاں اپنا مال اور سامان لینے آئے تھے، وہ لے کر چلے گئے ہیں، حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی باتوں سے مسلمانوں میں جو افسردگی پھیلی ہوئی تھی، وہ مشرکین کی طرف لوٹ گئی اور وہ افسردہ خاطر ہوئے، مسلمان اور دوسرے لوگ جو ان کے گھر میں غمگین اور افسردہ گئے تھے، وہ وہاں سے نکل کر عباس کے پاس گئے، پھر انہوں نے ان کو اصل احوال سے آگاہ کیا،یہ تفصیل سن کر تمام مسلمان دلی طور پر مسرور ہو ئے اور سارا رنج وغم اور افسردگی مشرکین کی طرف لوٹ گئی۔

Haidth Number: 10818

۔ (۱۱۷۲۵)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِی وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَکَانَ وَاقِدٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَأَعْظَمِہِمْ وَأَطْوَلِہِمْ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَقَالَ لِی: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: إِنَّکَ بِسَعْدٍ أَشْبَہُ ثُمَّ بَکٰی وَأَکْثَرَ الْبُکَائَ، فَقَالَ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی سَعْدٍ، کَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا إِلٰی أُکَیْدِرَ دُومَۃَ، فَأَرْسَلَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِجُبَّۃٍ مِنْ دِیبَاجٍ مَنْسُوجٍ فِیہِ الذَّہَبُ، فَلَبِسَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ أَوْ جَلَسَ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْمِسُونَ الْجُبَّۃَ وَیَنْظُرُونَ إِلَیْہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَعْجَبُونَ مِنْہَا۔)) قَالُوْا: مَا رَأَیْنَا ثَوْبًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَمَنَادِیلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِمَّا تَرَوْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۴۸)

محمد بن عمرو سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ نے مجھے بیان کیا، جبکہ وہ انتہائی حسین و جمیل ، عظیم الجثہ اور دراز قامت آدمی تھے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، انہوںنے مجھ سے دریافت کیا کہ میں کون ہوں۔ میں نے عرض کیا:میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں۔ انھوں نے کہا: تم تو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مشابہ ہو، اس کے بعد وہ رونے لگے اور بہت زیادہ روئے اور کہا: سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اللہ کی رحمت ہو، وہ سب سے بڑھ کر جسیم اور طویل قامت تھے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دومہ کے والی اکیدر کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ ارسال کیا، جس پر سونے کی کڑھائی کی گئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے زیب تن فرمایا اور منبر پر کھڑے ہوئے یا بیٹھے، آپ نے کچھ گفتگو نہ کی اور ویسے ہی نیچے اتر آئے۔ لوگ اس جبہ کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھنے لگے (اور اس کی عمدگی پرتعجب کرنے لگے)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس جبہ پر تعجب کرتے ہو؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا: جی کیوں نہیں، ہم نے اس سے اچھا کپڑا کبھی نہیں دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جو کپڑا دیکھ رہے ہو، جنت میںسعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رومال اس سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔

Haidth Number: 11725
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا عرش جھوم گیا۔

Haidth Number: 11726
عاصم بن عمر بن قتاد ہ اپنی جدہ سیدہ رمیثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، جبکہ میں اس وقت آپ کے اس قدر قریب تھی کہ اگر میں اس وقت چاہتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مہر نبوت کو بوسہ دے سکتی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے تو اللہ کا عرش جھوم اٹھا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔

Haidth Number: 11727
سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی ماں رونے چیخنے لگی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے آنسو رکتے نہیں،کیا تمہارے غم کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا، تمہارے بیٹے کی شان تو یہ ہے کہ یہ وہ پہلا آدمی ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰہنسے ہیں اور جس کے لیے اس کا عرش جھوم اٹھا ہے۔

Haidth Number: 11728
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اس کی خاطر رحمن عزوجل کا عرش جھوم اٹھا ہے۔

Haidth Number: 11729
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خندق کے دن زخمی ہو گئے، حبان بن عرقہ قریشی نے ا ن کے بازو کی اکحل نامی رگ پر تیر مارا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریب سے ان کی تیمار داری کر نے کے لیے ان کے لیے مسجد میں خیمہ نصب کرایا۔

Haidth Number: 11730
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کے لوگ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلے پر راضی ہوگئے، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر بلوایا، وہ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے، جب وہ مسجد نبوی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے سردار کی طرف اٹھ کر جائو یایوں فرمایا تم اپنے رئیس کی طرف اٹھ کر جائو (اور ان کو گدھے سے اتارو)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: یہیہودی لوگ آپ سے فیصلہ کرانے پر راضی ہوئے ہیں۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ نے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کیا ہے، (یعنی جو فیصلہ کیا ہے اللہ کو بھی وہی منظور ہے۔) اور کسی وقت سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یوں بیان کیا: آپ نے تو بادشاہ1 والا فیصلہ کیا ہے۔

Haidth Number: 11731

۔ (۱۱۷۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ فِیْ حَدِیْثِھَا الطَّوِیْلِ ذَکَرَ بِطُوْلِہِ فِیْ الْخَنْدَقِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لِسَعْدٍ: ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ: قَالَ: اللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلٰی نَبِیِّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ، قَالَتْ: فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ وَکَانَ قَدْ بَرِئَ حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْہُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلٰی قُبَّتِہِ الَّتِی ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنِّی لَأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوْا کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ: قُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَتْ: کَانَتْ عَیْنُہُ لَا تَدْمَعُ عَلٰی أَحَدٍ وَلٰکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس ! حقیقی بادشاہ خالق و مالک ہی ہے۔ اس لیے اللہ کا فیصلہ اور بادشاہ کا فیصلہ کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ میں ہے: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا:تم نے بنو قریظہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو بھییہی فیصلہ منظور تھا۔ اس کے بعد سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دعا کی اور کہا: یا اللہ! اگر تو نے اپنے نبی کے لیے قریش کے ساتھ کوئی لڑائی باقی رکھی ہے تو مجھے اس میں شرکت کے لیے زندہ رکھنا اور اگر تو نے اپنے نبی اور قریش کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ مکمل کر دیا ہے تو مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔اس دعا کے بعد ان کا زخم پھٹ گیا، ویسے وہ سارا ٹھیک ہو چکا تھا، البتہ اس میں سے صرف ایک انگوٹھی کے حلقہ کے برابر معمولی سا زخم باقی رہ گیا تھا۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس خیمے کی طرف واپس آئے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے نصب کرایا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے! میں اپنے حجرے ہی میں تھی اور میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رونے کی آواز وں کو الگ الگ پہچان رہی تھی۔ ان کا آپس میں میل جول ویسا ہی تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ} … وہ ایک دوسرے پر ازحد مہربان ہیں۔ (سورۂ فتح: ۲۹)سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بیان کرنے والے علقمہ نے عرض کیا: امی جان! ایسے مواقع پر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طرز عمل کیا ہوتا تھا؟ انھوں نے کہا: کسی کی وفات پر آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آتے تھے، البتہ جب آپ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے۔

Haidth Number: 11732
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ نیک بندہ ہے، جس کے لیے اللہ کا عرش جھوم اٹھا اور اس کے استقبال کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے، لیکن قبر میں اس پر ایک بار سختی کی گئی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کو زائل کر دیا۔ اور راوی نے ایک باریوں کہا: پھر اللہ تعالیٰ نے کشادگی پید اکر دی۔ ایک دفعہ راوی نے یہ تفصیل بیان کی: جس دن سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے اوران کو دفن کیا جا رہا تھا، اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں یہ باتیں کی تھیں۔

Haidth Number: 11733
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وفات کے موقع پران کی طرف گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور ان کو قبر میں رکھا گیا اور ان پر مٹی برابر کر دی گئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی تسبیح کی اور ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کافی دیر تک اللہ کی تسبیح بیان کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اللہ اکبر کہتے رہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنے کی کیا وجہ تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس صالح بندے پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھییہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے قبر فراخ کر دی۔

Haidth Number: 11734
محمد بن علی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کچھ لوگ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عاملوں کی شکایت کی، میرے والد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: تم یہ تحریر لے کر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جاؤ اور ان سے کہو کہ لوگ آپ کے عاملوں کی شکایتیں کر رہے ہیں، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صدقات کے بارے میں حکم ہے، انہیں حکم دیجئے کہ وہ اس کے مطابق صدقات وصول کریں، پس میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا اور ان سے اس بات کا ذکر کیا، اگر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کچھ برا اظہار خیال کرنا ہوتا تو اسی دن کر دیتے۔

Haidth Number: 12263
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل ایمان یمنیوں کاہے، فقاہت بھی یمن کی اور حکمت و دانائی بھی یمن کی بہتر ہے، تمہارے پا س اہل یمن آئے ہیں، یہ بہت زیادہ نرم دل ہیں اور کفر مشرق کی طرف زیادہ ہے اور فخراورتکبر اونٹ اورگھوڑے پالنے والوں اور دیہاتی لوگوں میں ہے اور بکریاں پالنے والوں میں سکینت اور نرم خوئی ہے۔

Haidth Number: 12738
سیدناجبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھا کر فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں، بادلوں کے ٹکڑوں کی مانند خوش منظر اور مفید ہیں، یہ روئے زمین کے تمام لوگوں سے زیادہ بھلائی والے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اور ہم؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آہستہ سے فرمایا: تمہارے سوا۔

Haidth Number: 12739
۔ (دوسری سند)سیدناجبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مکہ کے راستے پر تھے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں، گویا کہ وہ بادل کے ٹکڑوں کی مانند ہیں، یہ روئے زمین کے تمام لوگوں سے زیادہ بھلائی والے ہیں۔ ایک انصاری نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم بھی بہتر نہیں؟ اس کی بات پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، اس نے دوبارہ کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم بھی بہتر نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر خاموش رہے، اس نے تیسری بار کہا: اے اللہ کے رسول! اور کیا ہم بھی بہتر نہیں؟ تو آپ نے تیسری مرتبہ آہستہ سے فرمایا: ما سوائے تمہارے۔

Haidth Number: 12740
سیدناعتبہ بن عبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ اہل یمن پر لعنت کریں، کیونکہ وہ بڑے جنگجو ہیں، تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور ان کے قلعے بھی مضبوط ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں ان پر لعنت نہیں کروں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عجمیوں پر لعنت فرمائی۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ یمنی اپنی عورتوں کو اپنے ساتھ لے کر اور اپنے بچوں کو کاندھوں پر اٹھائے تمہارے قریب سے گزریں گے، یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔

Haidth Number: 12741
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یمن کی طرف دیکھ کر فرمایا: اے اللہ! ان کے دلوںکو ہماری طرف پھیرے دے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اللہ! ان کے دلوں کو ہماری طرف پھیرے دے اور ہمارے صاع اور مد میں برکت فرما۔

Haidth Number: 12742
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: میں تمہیں ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہا ہوں جن کے دل خوب نرم ہیں اور یہ حق کے لیے لڑتے ہیں۔ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبار بیان فرمائی ان میں سے جو لوگ تمہاری اطاعت کریں انہیں ساتھ لے کر ان لوگوں سے قتال کرنا، جو تمہاری حکم عدولی کریں، پھر وہ اسلام کی طرف لوٹیں گے، یہاں تک کہ بیوی اپنے خاوند سے، بیٹا اپنے والد سے اور بھائی اپنے بھائی سے سبقت کرنے لگیں گے اور تم وہاں کے دو قبیلوں سکون اور سکاسک میں قیام کرنا۔

Haidth Number: 12743
سیدناابو عامر اشعری سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: بہترین قبیلہ بنو اسداور اشعریوں کا ہے اوریہ لوگ میدان قتال سے پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگتے اور خیانت نہیں کرتے، وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ عامر نے کہا: میں نے یہ حدیث سیدنا معاویہ کو بیان کی،انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح نہیں بلکہ یوں فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور ان کا میرے ساتھ تعلق ہے۔ عامر نے کہا: میرے والد نے مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس طرح بیان نہیں کیا بلکہ یوں کہا کہ وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ نے کہا: تم اپنے والد کے بیان کردہ الفاظ کو بہتر جانتے ہو، عبداللہ بن اما م احمد نے کہا یہ عمدہ احادیث میں سے ہے اس کو صرف جریر نے روایت کیا ہے۔

Haidth Number: 12744
رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خادم سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اپنے حوض کے کنارے پر موجود ہوں گا لوگوں کو پیچھے ہٹاؤں گا تاکہ اہل یمن قریب آکر آسانی سے پانی پی سکیں، میں اپنا عصا لوگوں کے اوپر سے لہراؤں گا۔ آپ سے حوض کو ثر کے عرض کے بارے میں پوچھا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا عرض میری اس جگہ سے عمان تک کے برابر ہوگا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کے مشروب کی ہیئت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا، جنت سے دو پر نالے بہہ کر اس میں گررہے ہیں گے، ایک سونے کا ہوگا اور دوسرا چاندی کا۔

Haidth Number: 12745