Blog
Books
Search Hadith

{فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗلِلْجَبَلِ…الخ} کی تفسیر

26 Hadiths Found
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗدَکًّا}… تو جب اس کا رب پہاڑ کے سامنے ظاہر ہوا تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ کے بارے میں فرمایا: بس اس طرح ہوا تھا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھنگلیانگلی کا ایک کنارہ نکالا، جب معاذ نے ہمیں یہ کیفیت دکھائی تو حمید طویل نے کہا: اے ابو محمد! اس مثال سے تیری مراد کیا ہے؟ لیکن ابو محمد نے حمید کے سینے پر سخت ضرب لگائی اور کہا: حمید! تو کون ہے؟ تو کیا چیز ہے، حمید! مجھے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا تھا اور تو کہتا ہے کہ اس مثال سے تیری مراد کیا ہے۔

Haidth Number: 8603
۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان{فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ} کی وضاحت کرتے ہوئے چھنگلی انگلی سے اشارہ کیا، لیکن (اتنی سی تجلّی سے پہاڑ زمین میں دھنسگیا۔

Haidth Number: 8603
سیدنا حارث بن مالک بن برصاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فتح مکہ والے دن فرمایا: (آج کے بعد قیامت تک) اس مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائے گی۔

Haidth Number: 10884

۔ (۱۰۸۸۵)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَکَّۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُفُّوا السِّلَاحَ إِلَّا خُزَاعَۃَ عَنْ بَنِی بَکْرٍ۔)) فَأَذِنَ لَہُمْ حَتّٰی صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ قَالَ: ((کُفُّوا السِّلَاحَ۔)) فَلَقِیَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ رَجُلًا مِنْ بَنِی بَکْرٍ مِنْ غَدٍ بِالْمُزْدَلِفَۃِ فَقَتَلَہُ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ خَطِیبًا، فَقَالَ: وَرَأَیْتُہُ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہُ إِلَی الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ((إِنَّ أَعْدَی النَّاسِ عَلَی اللّٰہِ مَنْ قَتَلَ فِی الْحَرَمِ، أَوْ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ، أَوْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا ابْنِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا دَعْوَۃَ فِی الْإِسْلَامِ، ذَہَبَ أَمْرُ الْجَاہِلِیَّۃِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْأَثْلَبُ۔)) قَالُوا: وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ: ((الْحَجَرُ۔)) قَالَ: ((وَفِی الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِی الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ۔))، قَالَ: وَقَالَ: ((لَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْغَدَاۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔)) قَالَ: ((وَلَا تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلٰی عَمَّتِہَا، وَلَا عَلٰی خَالَتِہَا، وَلَا یَجُوزُ لِامْرَأَۃٍ عَطِیَّۃٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔))۔ (مسند احمد: ۶۶۸۱)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھوں مکہ مکرمہ فتح ہو گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے ہتھیاروں کو روک لو( یعنی کسی کو قتل نہ کرو)۔ البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف خزاعہ قبیلہ کو قبیلہ بنو بکر پر حملہ سے نہ روکا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عصر کی نماز ادا کر لی۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم بھی ہتھیاروں کو روک لو۔ لیکن ہوا یوں کہ اس کے بعد دوسرے دن بنو خراعہ کے ایک آدمی کا بنو بکر کے ایک آدمی سے مزدلفہ میں سامنا ہو گیا تو اس نے قتل کر دیا، جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت اپنی پشت مبارک کعبہ مشرفہ کے ساتھ لگائے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں لوگوں میں اللہ کا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو حرم میں کسی کو قتل کرے یا اپنے قاتل کے سوا کسی دوسرے کو قتل کرے یا قبل از اسلام کی کسی دشمنی کے سبب کسی کو قتل کرے۔ ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اُٹھ کر گیا اور اس نے کہا: فلاں لڑکا میرا بیٹا ہے، (کیونکہ میں نے قبل از اسلام اس کی ماں کے ساتھ زنا کیا تھا)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں کسی دوسرے باپ یا قبیلہ کی طرف انتساب کی کوئی گنجائش نہیں۔ جاہلیتیعنی قبل از اسلام کی ساری باتیں ختم ہو چکیں، بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو گا اور زانی کے لیے پتھر یعنی رجم کی سزا ہو گی۔ میں نے کہا: اثلب کے معانی کیا ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پتھر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انگلیوں کی دیت میں ہر انگلی کے عوض دس دس اونٹ ہیں اور ایسا زخم جس سے ہڈی ننگی ہو جائے، اس کے عوض پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور نمازِعصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور کسی ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی درست نہیں، جس کی پھوپھییا خالہ پہلے سے نکاح میں موجود ہو۔ (یعنی خالہ اور اس کی بھانجی اور پھوپھی اور اس کی بھتیجی ایک نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں)اور کسی عورت کے لیےیہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو بطور عطیہ دے۔

Haidth Number: 10885

۔ (۱۰۸۸۶)۔ قَالَ الْاِمَامُ اَحْمَدُ: سَمِعْتُ یُونُسَیُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَزِیدَ أَحَدِ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیَّ ثُمَّ الْکَعْبِیَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُولُ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ یَوْمَ الْفَتْحِ فِی قِتَالِ بَنِی بَکْرٍ حَتَّی أَصَبْنَا مِنْہُمْ ثَأْرَنَا وَہُوَ بِمَکَّۃَ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَفْعِ السَّیْفِ، فَلَقِیَ رَہْطٌ مِنَّا الْغَدَ رَجُلًا مِنْ ہُذَیْلٍ فِی الْحَرَمِ یَؤُمُّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُسْلِمَ، وَکَانَ قَدْ وَتَرَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَکَانُوا یَطْلُبُونَہُ، فَقَتَلُوہُ وَبَادَرُوْا أَنْ یَخْلُصَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَأْمَنَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا، وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُہُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْہُ، فَسَعَیْنَا إِلٰی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ نَسْتَشْفِعُہُمْ، وَخَشِینَا أَنْ نَکُونَ قَدْ ہَلَکْنَا، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ حَرَّمَ مَکَّۃَ، وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّہَا لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ أَمْسِ، وَہِیَ الْیَوْمَ حَرَامٌ کَمَا حَرَّمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَإِنَّ أَعْتَی النَّاسِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَۃٌ، رَجُلٌ قَتَلَ فِیہَا، وَرَجُلٌ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ، وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! لَأَدِیَنَّ ہٰذَا الرَّجُلَ الَّذِی قَتَلْتُمْ۔)) فَوَدَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۸۹)

سیدنا ابو شریح خزاعی کعبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ والے دن ہمیں بنو بکر سے قتال کی(خصوصی) اجازت مرحمت فرمائی تھی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی تک مکہ مکرمہ ہی میں تھے، چنانچہ ہم نے ان کے لوگوں کو قتل کر کے اپنا انتقام خوب لیا، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تلواروں کو اُٹھا لینے سے منع فرما دیایعنی قتال کو مکمل طور پر روک دینے کا حکم دے دیا، لیکن اگلے دن ہمارے قبیلے کے کچھ لوگوں کو بنو ہذیل کا ایک آدمی حدودِ حرم ہی میں مل گیا، وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آرہا تھا، وہ اس سے قبل جاہلیت کے دورِ میں ان لوگوں کے ساتھ کسی جرم کا مرتکب ہو چکا تھا، یہ اس کی تلاش میں تھے، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور انہوں نے اس کام میں عجلت کا مظاہرہ کیا مبادا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچ جائے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو اسے قتل کرنے سے منع فرما دیں، جب اس بات کی اطلاع رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غضب ناک ہوئے، اللہ کی قسم! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے زیادہ غصہ کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا، ہم سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ان کی سفارش چاہی، ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم اپنی اس کو تاہی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ناراضگی کے نتیجہ میں تباہ نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز ادا کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی کما حقہ حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرم والا قرار دیا، اسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کل کچھ دیر کے لیے اس حرم میں مجھے قتال کی اجازت دی تھی، اب یہ آج سے اسی طرح حرم ہے اور یہاں قتال کرنا حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے حرام ٹھہرایا تھا اور تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے سخت سرکش اور باغی ہیں، ایک وہ جو حدودِ حرم میں کسی کو قتل کرے، دوسرا وہ جو اپنے قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کرے اور تیسرا وہ جو قبل از اسلام کے کسی جرم کا بدلہ لے، تم نے جس آدمی کو قتل کیا ہے، اللہ کی قسم! میں اس کی دیتیعنی خون بہا ضرور ادا کروں گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دیت ادا کی تھی۔

Haidth Number: 10886
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے سال جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! قبل از اسلام کے ایسے معاہدے جن کی رو سے معاہدہ کرنے والے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیںتو اسلام ایسے معاہدوں کو مزید مضبوط کرتا ہے، البتہ اب اسلام میں کسی ایسے نئے معاہدہ کی ضرورت نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔ ایک روایت میںیوں ہے کہ تم اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔ ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ مکہ فتح ہو جانے کے بعد اب یہاں سے ہجرت نہیں کی جا سکتی، اور تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی مانند ہیںاور ان سب کے خون( یعنی ان کی حرمت) برابر ہے، مسلمانوں کا ادنیٰ آدمی بھی کسی دشمن کو پناہ دے تو یہ تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی اور جہاد میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم ہو گا خواہ وہ بہت دور ہی کیوں نہ ہو اور جہاد کے قیدی ان لوگوں میں بھی تقسیم کئے جائیں گے، جو گھروں میں بیٹھے رہے اور میدانِ جہاد میںعملی طور پر شریک نہ ہو سکے اور کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا، کافر کی دیت مسلم کے مقابلے میں نصف ہے، کوئی مسلمان سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کے لیے جائے تو اسے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک جگہ قیام کر کے لوگوں سے کہے کہ تم اپنے اپنے تمام جانوروں کو میرے پاس لے کر آؤ تاکہ میں ان کا حساب کر کے زکوۃ وصول کر وں، اس طرح ان لوگوں کو مشقت ہو گی اور یہ بھی جائز نہیں کہ سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کی قیام گاہوں پر جائے تو وہ زکوۃ سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر ہو جائیںاور لوگوں سے ان کی زکوتیں ان کے گھروں یا قیام گاہوں پر ہی وصول کی جائیں۔

Haidth Number: 10887
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے روز کعبہ کی سیڑھی پر موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کے تمام لشکروں کو شکست سے دو چار کیا، خبر دار قتل خطا یعنی جو کوڑے یا لاٹھی سے ہو،ا اس کی دیت ایک سو اونٹ ہیں،ایک دفعہ یوں فرمایا کہ اس کا خوں بہا سخت ہے، اس میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں، جاہلیت کے تمام غرور، خون کے مطالبے اور دعوے اور اموال یہ سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں، البتہ حجاج کرام کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی نگرانی کی ذمہ داری حسب ِ سابق بحال رہیں گی۔

Haidth Number: 10888

۔ (۱۰۸۸۹)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَالَ: ((لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّۃً أُخْرٰی: ((الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، أَلَا إِنَّ کُلَّ مَأْثَرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تُعَدُّ وَتُدَّعٰی، وَکُلَّ دَمٍ أَوْ دَعْوٰی مَوْضُوعَۃٌ تَحْتَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ إِلَّا سِدَانَۃَ الْبَیْتِ وَسِقَایَۃَ الْحَاجِّ، أَلَا وَإِنَّ قَتِیلَ خَطَإِ الْعَمْدِ، قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّۃً: بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ، دِیَۃٌ مُغَلَّظَۃٌ مِائَۃٌ مِنَ الْإِبِلِ، مِنْہَا أَرْبَعُونَ فِی بُطُونِہَا أَوْلَادُہَا، وَقَالَ مَرَّۃً: أَرْبَعُونَ مِنْ ثَنِیَّۃٍ إِلٰی بَازِلِ عَامِہَا کُلُّہُنَّ خَلِفَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۵۴۶۳)

عقبہ بن اوس ،ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا و یگانہ ہے، اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کی جماعتوں کو شکست سے دو چار کیا، حدیث کے راوی ہیثم نے ایک دفعہ یوں بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیااور اپنے بندے کی مدد کی۔ خبردار دورِ جاہلیت کی غرور اور فخر والی تمام باتیں، جو ظلم وتعدی پر مشتمل تھیں اور اُس دور کا ہر خون اور ہر قسم کا دعوی میرے قدموں کے نیچے ہے، یعنی اب ان کی کچھ حیثیت نہیں وہ کا لعدم ہیں۔ البتہ بیت اللہ کی نگرانی اور حجاج کرام کو پانی پلانے کی خدمات وہ حسب سابق بحال ہیں۔ خبردار! قتلِ خطا یعنی کوڑے، عصا اور پتھر وغیرہ لگنے سے جو مر جائے اس میں شدید قسم کا خون بہا ہے، یعنی کل سو اونٹ ہیں، ان میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہو ں گی۔ اور ہیثم نے ایک دفعہ یوں روایت کیا: چالیس اونٹنیاں ثنیہ سے بازل کے درمیان درمیان ہوں گی اور سب کی سب حاملہ ہوں گی۔

Haidth Number: 10889

۔ (۱۰۸۹۰)۔ عَنْ اَبِيْ شُرَیْحٍ رَضِيَاللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ، یَقُوْلُ قَوْلًا، سَمِعَتْہُ اُذُنَايَ وَ وَعَاہُ قَلْبِيْ، وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَايَحِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ: حَمِدَاللّٰہَوَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَھَا اللّٰہُ، فَلَا یَحِلُّ لِأِمْرِیئٍیُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا، وَلَمْ یَعْضُدْ بِھَا شَجَرَۃً، فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہ فیْھَا، فَقُوْلُوْا: اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَاْذَنْ لَکُمْ، وَاِنَّمَا اَذِنَ لِيْ فِیْھَاسَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بِالْاَمْسِ، وَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ۔)) فَقِیلَ لِأَبِی شُرَیْحٍ: مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذٰلِکَ مِنْکَ یَا أَبَا شُرَیْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیذُ عَاصِیًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِجِزْیَۃٍ1، وَکَذٰلِکَ قَالَ حَجَّاجٌ: بِجِزْیَۃٍ، وَقَالَ یَعْقُوبُ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ: وَلَا مَانِعَ جِزْیَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۰۶)

حضرت ابو شریح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ (انھوں نے یزید کی طرف مقرر کردہ والی ٔ مدینہ عمرو بن سعید بن عاص سے کہا، جبکہ عمرو بن سعید، سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے لڑنے کے لیے مکہ کہ طرف لشکر بھیج رہا تھا،) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک بات ارشاد فرمائی، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: بیشک مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا، اب کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، کہ وہ یہاں خون بہائے یا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قتال (کو دلیل بنا کر اپنے لیے) رخصت نکالنا چاہے تو اسے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ میں (قتال کی) اجازت دی اور تمھیں نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے (لڑائی کرنے کی) اجازت ملی ہے ، اس کے بعد اس کی حرمت اسی طرح ہو گئی جس طرح کل تھی۔ موجودہ لوگ (یہ احکام) غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔ ابو شریح سے دریافت کیا گیا کہ پھر عمرو بن سعید نے آپ کو کیا جواب دیا؟ انہوں نے بتلایا کہ اس نے کہا ابو شریح! میں ان باتوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں، بے شک حرم کسی نافرمان کو اور قتل کر کے فرار ہونے والے کو اور جزیہ کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر فرار ہونے والوں کو اور جزیہ ادا نہ کرنے والوں کو پناہ نہیں دیتا۔

Haidth Number: 10890

۔ (۱۱۷۸۴)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقْدَمَہُ الْمَدِینَۃَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی سَائِلُکَ عَنْ ثَلَاثِ خِصَالٍ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، قَالَ: ((سَلْ۔)) قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ؟ وَمَا أَوَّلُ مَا یَأْکُلُ مِنْہُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ؟ وَمِنْ أَیْنَ یُشْبِہُ الْوَلَدُ أَبَاہُ وَأُمَّہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَخْبَرَنِی بِہِنَّ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام آنِفًا، قَالَ ذَلِکَ عَدُوُّ الْیَہُودِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ، قَالَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ فَنَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ فَتَحْشُرُ النَّاسَ إِلَی الْمَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ مَا یَأْکُلُ مِنْہُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ زِیَادَۃُ کَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا شَبَہُ الْوَلَدِ أَبَاہُ وَأُمَّہُ فَإِذَا سَبَقَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَۃِ نَزَعَ إِلَیْہِ الْوَلَدُ، وَإِذَا سَبَقَ مَائُ الْمَرْأَۃِ مَائَ الرَّجُلِ نَزَعَ إِلَیْہَا۔)) قَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْیَہُودَ قَوْمٌ بُہْتٌ وَإِنَّہُمْ إِنْ یَعْلَمُوْا بِإِسْلَامِی یَبْہَتُونِیْ عِنْدَکَ، فَأَرْسِلْ إِلَیْہِمْ فَاسْأَلْہُمْ عَنِّی أَیُّ رَجُلٍ ابْنُ سَلَامٍ فِیکُمْ؟ قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَقَالَ: ((أَیُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ فِیکُمْ؟)) قَالُوْا: خَیْرُنَا وَابْنُ خَیْرِنَا وَعَالِمُنَا وَابْنُ عَالِمِنَا وَأَفْقَہُنَا وَابْنُ أَفْقَہِنَا، قَالَ: ((أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ تُسْلِمُونَ؟)) قَالُوْا: أَعَاذَہُ اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ،: قَالَ: فَخَرَجَ ابْنُ سَلَامٍ، فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، قَالُوْا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَجَاہِلُنَا وَابْنُ جَاہِلِنَا، فَقَالَ: ابْنُ سَلَامٍ ہٰذَا الَّذِی کُنْتُ أَتَخَوَّفُ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۸۰)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں آپ سے تین باتوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ان باتوں کو صرف نبی جانتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پوچھو۔ انہوںنے کہا: علامات قیامت میں سب سے پہلی علامت کیا ہے، اہل جنت سب سے پہلے کون سی چیز کھائیں گے اور بچے کی اپنے ماں باپ سے مشابہت کیوں کر ہوتی ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : ان باتوں کے متعلق جبریل علیہ السلام ابھی ابھی مجھے بتلا کر گئے ہیں، عبداللہ بن سلام نے کہا: یہ فرشتہ تو یہود کا دشمن ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کی اولین نشانی وہ آگ ہے، جو مشرق کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو جمع کرتی ہوئی مغرب کی طرف لائے گی،اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہوگا اور بچے کی اس کے باپ یا ماں کے ساتھ مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ جب مرد کا مادۂ منویہ عورت کے مادہ پر غالب آجائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہو جاتا ہے اور جب عورت کا مادۂ منویہ مرد کے مادہ پر غالب آجائے تو بچہ ماں کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ یہ جوابات سن کر سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پکار اٹھے: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔)پھر سیدنا عبد اللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہودی لوگ بہتان طراز قسم کے لوگ ہیں، اگر انہیں میرے قبول اسلام کا پتہ چل گیا تو آپ کے پاس آکر وہ مجھ پر بہتان باندھیں گے، آپ ان کے ہاں پیغام بھیج کر ان سے میرے متعلق دریافت کرلیں کہ ان کے ہاں ابن سلام کی کیا حیثیت ہے؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودیوں کی طرف پیغام بھیج کر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں ابن سلام کا کیا مقام ہے؟ انہوںنے جواب دیا: وہ ہم سے بہت اچھا ہے اور بہت اچھے آدمی کا بیٹا ہے، وہ ہمارا عالم ہے اور ہمارے ایک بڑے عالم کا بیٹا ہے، وہ ہم میں سے دین کی سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والا اور سب سے زیادہ دین کو سمجھنے والے کا بیٹا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اسلام قبول کرلے تو کیا تم مسلمان ہو جائو گے؟ وہ کہنے لگے: اللہ اسے اس کام سے محفوظ رکھے۔ یہ سن کر سیدنا ابن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سامنے آگئے اور پکار کر کہا: اَشْہَدَ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رسولُ اللّٰہِ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے رسول ہیں۔)یہ سن کر یہودی اسی وقت کہنے لگے: یہ تو ہم میں سب سے برا ہے اور سب سے برے شخص کا بیٹا ہے، یہ تو ہم میں سے جاہل اور جاہل آدمی کا بیٹا ہے، یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اسی بات سے ڈرتا تھا۔

Haidth Number: 11784
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کسی بھی زندہ شخص کے متعلق نہیں سنا1 کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے متعلق فرمایا ہو کہ وہ جنتی ہے۔

Haidth Number: 11785
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کھانے کا ایک پیالہ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں سے کھانا تناول فرمایا اور اس میں کھانا بچ بھی گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پہاڑی راستے سے ایک جنتی آدمی آئے گا اور یہ بچا ہوا کھانا تناول کرے گا۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتے چھوڑ کر آیا تھا، میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عمیر ہی آجائے، لیکن اتنے میں سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور انہوں نے وہ بچا ہوا کھانا کھایا۔

Haidth Number: 11786

۔ (۱۱۷۸۷)۔ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَجَائَ رَجُلٌ فِی وَجْہِہِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ فَدَخَلَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَأَوْجَزَ فِیہَا، فَقَالَ الْقَوْمُ: ہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَلَمَّا خَرَجَ اتَّبَعْتُہُ حَتّٰی دَخَلَ مَنْزِلَہُ، فَدَخَلْتُ مَعَہُ فَحَدَّثْتُہُ، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ، قُلْتُ لَہُ: إِنَّ الْقَوْمَ لَمَّا دَخَلْتَ قَبْلُ الْمَسْجِدَ، قَالُوْا: کَذَا وَکَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَقُولَ مَا لَا یَعْلَمُ، وَسَأُحَدِّثُکَ لِمَ إِنِّی رَأَیْتُ رُؤْیَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَصَصْتُہَا عَلَیْہِ، رَأَیْتُ کَأَنِّی فِی رَوْضَۃٍ خَضْرَائَ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَکَرَ مِنْ خُضْرَتِہَا وَسَعَتِہَا وَسْطُہَا عَمُودُ حَدِیدٍ أَسْفَلُہُ فِی الْأَرْضِ وَأَعْلَاہُ فِی السَّمَائِ فِی أَعْلَاہُ عُرْوَۃٌ، فَقِیلَ لِیَ: اصْعَدْ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: لَا أَسْتَطِیعُ، فَجَائَنِی مِنْصَفٌ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: ہُوَ الْوَصِیفُ، فَرَفَعَ ثِیَابِی مِنْ خَلْفِی، فَقَالَ: اصْعَدْ عَلَیْہِ، فَصَعِدْتُ حَتّٰی أَخَذْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِکْ بِالْعُرْوَۃِ فَاسْتَیْقَظْتُ وَإِنَّہَا لَفِی یَدِی، قَالَ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَصَصْتُہَا عَلَیْہِ فَقَالَ: ((أَمَّا الرَّوْضَۃُ فَرَوْضَۃُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعَمُودُ فَعَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعُرْوَۃُ فَہِیَ الْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی، أَنْتَ عَلَی الْإِسْلَامِ حَتّٰی تَمُوتَ۔)) قَالَ: وَہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۴۱۹۶)

سیدنا قیس بن عباد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں موجود تھا کہ ایک شخص آیا، اس کے چہرے پر خشوع و خضوع کے آثار نمایاں تھے، اس نے اندر آکر دو مختصر رکعتیں ادا کیں، لوگ کہنے لگے کہ یہ جنتی آدمی ہے، جب وہ باہر گیا تو میں بھی ! اس بات کو سعد بن ابی وقاص کے عدم علم محمول کرنا مشکل اور عجیب لگتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کی بات اس وقت کی ہے جب عشرہ مبشرہ میں سے اکثر افراد فوت ہو چکے ہیں۔ تفصیل دیکھیں فتح الباری: ج۷، ص ۱۳۰۔ (عبداللہ رفیق) ان کے پیچھے پیچھے چلا گیا۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو میں بھی ان کے پیچھے اندر چلا گیا اور اس سے باتیں کیں۔ جب میں اس سے اور وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا: تم جب مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے تمہارے متعلق اس قسم کی باتیں کی تھیں۔ انھوں نے کہا: سبحان اللہ! کسی بھی آدمی کو کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جسے وہ اچھی طرح جانتا نہ ہو، میں تمہیں ان کی اس بات کی وجہ بتلاتا ہوں، میں نے ایک خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کیا تھا، میں نے دیکھا گویا کہ میں ایک پررونق سرسبز باغ میں ہوں۔ حدیث کے ایک راوی ابن عون نے کہا کہ عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس باغ کی سرسبزی، رونق اور اس کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ وہ باغ انتہائی خوبصورت با رونق اور بہت زیادہ وسیع و عریض تھا۔ اس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون تھا۔ جس کا نیچے والا حصہ زمین میں اور اوپر والا حصہ آسمان تک تھا، اس کے سرے پر ایک کڑا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھ جائو۔ میں نے کہا کہ میں تو اس پر نہیں چڑھ سکتا، اتنے میں ایک خادم نے آکر میرے پیچھے سے میرے کپڑے کو اٹھا کر کہا: اوپر چڑھ جائو، چنانچہ میں اس پر چڑھ گیا،یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو پکڑ لیا، اس نے مجھ سے کہا اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لو، اتنے میں میں بیدار ہوگیا، جب میں بیدار ہوا تو اس وقت وہ میرے ہاتھ میں تھا، میں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس خواب کا تذکرہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: باغ سے اسلام کا باغ مراد ہے، ستون سے اسلام کا ستون مراد ہے اور کڑا سے مراد مضبوط کڑا (یعنی ایمان) ہے، اس خواب کا مفہوم یہ ہے کہ تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔ سیدنا قیس بن عباد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہتے ہیں کہ وہ شخص سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔

Haidth Number: 11787

۔ (۱۱۷۸۸)۔ عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ، فَجَلَسْتُ إِلٰی شِیَخَۃٍ فِی مَسْجِدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ شَیْخٌ یَتَوَکَّأُ عَلٰی عَصًا لَہُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا، فَقَامَ خَلْفَ سَارِیَۃٍ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ، فَقُمْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ لَہُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ: الْجَنَّۃُ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ یُدْخِلُہَا مَنْ یَشَائُ، وَإِنِّی رَأَیْتُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رُؤْیَا، رَأَیْتُ کَأَنَّ رَجُلًا أَتَانِی فَقَالَ: انْطَلِقْ، فَذَہَبْتُ مَعَہُ فَسَلَکَ بِی مَنْہَجًا عَظِیمًا، فَعَرَضَتْ لِی طَرِیقٌ عَنْ یَسَارِی، فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُکَہَا، فَقَالَ: إِنَّکَ لَسْتَ مِنْ أَہْلِہَا، ثُمَّ عَرَضَتْ لِی طَرِیقٌ عَنْ یَمِینِی فَسَلَکْتُہَا حَتَّی انْتَہَیْتُ إِلَی جَبَلٍ زَلِقٍ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَزَجَلَ بِی، فَإِذَا أَنَا عَلَی ذُرْوَتِہِ، فَلَمْ أَتَقَارَّ وَلَا أَتَمَاسَکْ فَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِیدٍ فِی ذُرْوَتِہِ حَلْقَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَزَجَلَ بِی حَتَّی أَخَذْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِکْ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِہِ فَاسْتَمْسَکْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَصَصْتُہَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((رَأَیْتَ خَیْرًا، أَمَّا الْمَنْہَجُ الْعَظِیمُ فَالْمَحْشَرُ، وَأَمَّا الطَّرِیْقُ الَّتِیْ عَرَضَتْ عَنْ یَسَارِکَ فَطَرِیقُ أَہْلِ النَّارِ وَلَسْتَ مِنْ أَہْلِہَا، وَأَمَّا الطَّرِیقُ الَّتِی عَرَضَتْ عَنْ یَمِینِکَ فَطَرِیقُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلِقُ فَمَنْزِلُ الشُّہَدَائِ، وَأَمَّا الْعُرْوَۃُ الَّتِی اسْتَمْسَکْتَ بِہَا فَعُرْوَۃُ الْإِسْلَامِ، فَاسْتَمْسِکْ بِہَا حَتَّی تَمُوتَ۔)) قَالَ: فَأَنَا أَرْجُوْ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، قَالَ: وَإِذَا ہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۰)

حرشہ بن حرسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ گیا، مسجد نبوی میں متعدد بزرگ موجود تھے، میں بھی ان کی خدمت میں بیٹھا، اتنے میں ایک بزرگ لاٹھی کی ٹیک لگاتے ہوئے آئے،لوگ کہنے لگے کہ جو کوئی کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہو، وہ اسے دیکھ لے۔ وہ آکر ایک ستون کے پیچھے کھڑے ہوئے اور انہوںنے دو رکعت نماز ادا کی، میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور ان سے عرض کیا کہ کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں کی ہیں، انہوںنے کہا: جنت اللہ کی ہے،وہ جسے چاہے گا جنت میں داخل کرے گا۔ اس بات کی تفصیلیہ ہے کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا کہ گویا ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ چلو،میں اس کے ساتھ چل دیا، وہ مجھے ساتھ لیے ایک بڑے اور واضح راستے پر چلتا گیا، میری جانب ایک راستہ آیا، میں نے اس پر جانے کا ارادہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تمہارا راستہ نہیں ہے، آگے جا کر میری داہنی جانب ایک راستہ آیا، میں اس پر چل دیا،یہاں تک کہ میں ایک چٹیل پہاڑ تک جا پہنچا جس پر کوئی درخت وغیرہ نہ تھا، اس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اوپر کو اچھال دیا اور میں اس کی چوٹی پر جا پہنچا، وہاں میں نے لوہے کا ایک ستون دیکھا ، اس کی چوٹی پر ایک سنہری کرڑا تھا۔ اس آدمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اچھال دیا اور میں نے جا کر اس کڑے کو پکڑ لیا۔ پھر اس نے کہا: اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔ میں نے کہا:میں نے اسے پکڑ لیا ہے، اس نے لوہے کے اس ستون کو پائوں سے ٹھوکر لگائی اور میں کڑے سے چمٹا رہا۔ جب میں نے یہ خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، بڑے اور واضح راستے سے مراد میدان حشرہے اور راستے میں تمہارے بائیں طرف آنے والا راستہ اہل جہنم کا تھا، تم اس راستے والے نہیں ہو اور تمہاری داہنی جانب والا راستہ اہل جنت کا راستہ تھا۔ چٹیل پہاڑ شہداء کی منز ل ہے اور تم نے جو کڑا مضبوطی سے پکڑا وہ اسلام کا کڑا ہے۔ تم مرتے دم تک اسے مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ اس نے اس کے بعد کہا:مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ یہ بزرگ سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔

Haidth Number: 11788
Haidth Number: 12360
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خوارج کا ذکرکیا گیا تو انھوں نے کہا:ان میں سے ایک آدمی ناقص ہاتھ والا ہوگا، اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہو کہ تم فخرو غرور میں مبتلا ہوجاؤ گے، تو میں تمہیں بتلاتاکہ اللہ تعالیٰ نے ان خوارج کو قتل کرنے والوں کے لیے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان پر کیا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: کیا واقعی آپ نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! جی ہاں، رب کعبہ کی قسم!

Haidth Number: 12361
Haidth Number: 12362

۔ (۱۲۳۶۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا حَلَفَ وَاجْتَہَدَ فِی الْیَمِینِ، قَالَ: ((لَا، وَالَّذِی نَفْسُ أَبِی الْقَاسِمِ بِیَدِہِ، لَیَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِی، تُحَقِّرُونَ أَعْمَالَکُمْ مَعَ أَعْمَالِہِمْ، یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ، کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔)) قَالُوْا: فَہَلْ مِنْ عَلَامَۃٍیُعْرَفُونَ بِہَا؟ قَالَ: ((فِیہِمْ رَجُلٌ ذُو یُدَیَّۃٍ أَوْ ثُدَیَّۃٍ مُحَلِّقِی رُئُ وْسِہِمْ۔)) قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَحَدَّثَنِی عِشْرُونَ أَوْ بِضْعٌ وَعِشْرُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَلِیَ قَتْلَہُمْ، قَالَ: فَرَأَیْتُ أَبَا سَعِیدٍ بَعْدَمَا کَبِرَ وَیَدَاہُ تَرْتَعِشُ یَقُولُ: قِتَالُہُمْ أَحَلُّ عِنْدِی مِنْ قِتَالِ عِدَّتِہِمْ مِنَ التُّرْکِ۔ (مسند احمد: ۱۱۳۰۵)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت زیادہ پختہ قسم اٹھاتے تو اس طرح فرماتے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے! میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کے اعمال کے مقابلہ میں اپنے اعمال کو معمولی سمجھو گے، وہ قرآن تو پڑھیں گ، لیکن قرآن ان کے سینوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے شکار میں سے تیر صاف نکل جاتا ہے۔ صحابۂ کرام نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی کچھ علامات بیان فرما دیں، جن سے وہ پہنچانے جاسکیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ یوں ہوگا، جیسے عورت کا پستان ہوتا ہے اور ان کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: مجھ سے بیس یا اس سے بھی زائد صحابہ نے بیان کیا کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو قتل کیا تھا۔ عاصم سے مروی ہے کہ میں نے ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا وہ عمر رسیدہ ہوچکے تھے اور ان کے ہاتھوں میں رعشہ تھا، وہ کہتے تھے: ان خوارج کو قتل کرنا میرے نزدیک انہی کے بقدر ترکوں سے لڑنے سے افضل اور اہم ہے۔

Haidth Number: 12363
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے، نماز ادا کرتے تھے، سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرتے اور روزے رکھتے تھے اوروہی تلواریں نکال کر ہمارے خلاف نکل آئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: کچھ لوگ ظاہر ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ا ن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے یوں نکل جائیں گے، جیسے تیر تیزی کے ساتھ شکار میں سے صاف نکل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12364
ابو سلمہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حروریوں یعنی خوارج کی بابت کچھ بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوںنے کہا: میںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ دین میں بہت زیادہ باریکیوں اور گہرائی میںجائیں گے اور وہ اس قدر نیک ہوں گے کہ تم ان کے مقابلہ میں اپنی نمازوں کو اور اپنے روزوں کو معمولی سمجھو گے، لیکن وہ دین سے یوں صاف نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میں سے اس طرح تیزی کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ شکاری اپنے تیر کو اٹھا کر اس کو دیکھتا ہے، لیکن اس میں کوئی اثر نظر نہیں آتی، پھر وہ اس کے پھل کا جائزہ لیتا ہے، لیکن وہ کوئی علامت دیکھ نہیں پاتا،پھر وہ اس کے بعد والے حصے کو دیکھتا ہے اس میں بھی کوئی اثر نظر نہیں آتا پھر پروں کو بھی اچھی طرح دیکھتا ہے، اور وہ اس بارے متردد ہو جاتا ہے کہ کیا کوئی اثر ہے یا نہیں۔

Haidth Number: 12365
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت د وگروں میں تقسیم ہو جائے گی، پھر ان کے درمیان ایک تیسرا گروہ نکلے گا، دونوں میں سے جو گروہ حق کے زیادہ قریب ہوگا، وہ اس گروہ کو قتل کر ے گا۔

Haidth Number: 12366
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک کہ دو بڑے گروہ آپس میں نہیںلڑیں گے، جبکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا، پھر ان دونوں کے درمیان سے ایک تیسرا گروہ جنم لے گا، ان دونوں بڑے گروہوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگا، وہ اس گروہ کو قتل کرے گا۔

Haidth Number: 12367
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کا ذکر کیا، جو امت میں افترق و اختلاف کے وقت ظاہر ہوں گے،ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ سرمنڈاتے ہوں گے یہ مخلوق سے بدترین ہے۔ ان کو دو گروہوں میں حق کے زیادہ قریب گروہ قتل کرے گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس موقع پر ایک مثال پیش کی کہ آدمی شکار پر تیر چلاتا ہے (وہ تیر شکار کے خون اور گوبر میں سے گزر کر گیا ہے) لیکن وہ تیر کے پھل پر کوئی چیز نہیں دیکھتا۔ اس کی لکڑی پر کوئی اثر نہیں دیکھتا۔ اس کی چٹکی پر کوئی نشان نہیں۔ (اس طرح قرآن مجید پڑھنے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا)

Haidth Number: 12368
Haidth Number: 12369
عثمان شحام سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: ہمیں مسلم بن ابی بکرہ نے بیان کیا کہ انہوں نے اس سے پوچھا کہ آیا انھوںنے خوارج کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کیا: میں نے اپنے والد سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! عنقریب میری امت سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی امور میں سختی کرنے والے اور تیز ہوں گے، ان کی زبانیں قرآن کے ساتھ بڑی ماہر ہوں گی، مگر وہ ان کی ہنسلی کی ہڈیوں سے نیچے نہیں اترے گا، جب تم انہیں دیکھو تو قتل کر ڈالنا، پھر کہتاہوں کہ تم جب انہیں دیکھو تو ان کو قتل کر دینا، ان کو قتل کرنے والا اجر کا مستحق ہوگا۔

Haidth Number: 12370

۔ (۱۲۳۷۱)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَہُ غُلَامٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِبَشَرَۃِ وَجْہِہِ وَدَعَا لَہُ بِالْبَرَکَۃِ، قَالَ: فَنَبَتَتْ شَعَرَۃٌ فِی جَبْہَتِہِ کَہَیْئَۃِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ، فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ الْخَوَارِجِ أَحَبَّہُمْ، فَسَقَطَتِ الشَّعَرَۃُ عَنْ جَبْہَتِہِ، فَأَخَذَہُ أَبُوہُ فَقَیَّدَہُ وَحَبَسَہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَلْحَقَ بِہِمْ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَیْہِ فَوَعَظْنَاہُ وَقُلْنَا لَہُ فِیمَا نَقُولُ: أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَۃَ دَعْوَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْہَتِکَ، فَمَا زِلْنَا بِہِ حَتّٰی رَجَعَ عَنْ رَأْیِہِمْ، فَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ الشَّعَرَۃَ بَعْدُ فِی جَبْہَتِہِ وَتَابَ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۱۵)

سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے کر آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے کا چمڑہ پکڑ کر اس کے حق میں برکت کی دعا کی، پس اس بچے کی پیشانی پر کمان کی مانند بال اگ آیا اور وہ بچہ جوان ہوگیا، جب خوارج کادور آیا تو وہ بچہ ان کی طرف مائل ہوا اور ان سے محبت کرنے لگا، تو اس کے چہرے کا وہ بال جھڑ گیا، یہ دیکھ کر اس کے والد نے اسے پکڑ کر قید کر کے محبو س کر دیا، اسے اندیشہ تھا کہ کہیں یہ ان کے ساتھ مکمل طور پر نہ مل جائے، سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:ہم اس کے پاس گئے اور جا کر وعظ نصیحت کی اور اپنی باتوں میں ہم نے اس سے یہ بھی کہاکہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاکی برکت تمہاری پیشانی سے جھڑ گئی ہے، ہم اسے مسلسل وعظ کرتے رہے تاآنکہ اس نے خوارج کی رائے سے رجوع کرلیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی اور اس کے بعد اس کی پیشانی پر بال دوبارہ اگ آیا۔

Haidth Number: 12371