Blog
Books
Search Hadith

{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} کی تفسیر

13 Hadiths Found
۔ مطرف کہتے ہیں: ہم نے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! کون سی چیز تم کو یہاں لائی ہے، تم نے خلیفہ راشد کو ضائع کر دیا ہے، حتیٰ کہ انہیں مظلوم شہید کردیا گیا ہے۔ اور پھر تم ان کے خون کا مطالبہ کرنے بیٹھ گئے ہو؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم نے عہد ِ نبوی، سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی خلافتوں میں یہ آیت پڑھی تھی: {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً}… اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف انہی لوگوں کو ہی نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں۔ یہ خیال تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم اس کی زد میں آ جائیں گے، بہرحال یہ واقع ہوا اور ہم پر واقع ہوا۔

Haidth Number: 8609
۔ (دوسری سند) حسن بصری کہتے ہیں:سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خاصی تعدادمیں موجود تھے: {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} … اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا۔ اس وقت ہم نے کہا: یہ فتنہ کیا ہوتا ہے،پھر ہمیںپتہ بھی نہ چلا، لیکنیہ فتنہ واقع ہو گیا۔

Haidth Number: 8609

۔ (۱۰۹۰۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَمَّا اِسْتَقْبَلْنَا وَادِیَ حُنَیْنٍ قَالَ: اِنْحَدَرْنَا فِیْ وَادٍ مِنْ اَوْدِیَۃِ تِہَامَۃَ اَجْوَفَ حَطُوْطٍ، إِنَّمَا نَنْحَدِرُ فِیْہِ اِنْحِدَارًا، قَالَ: وَفِیْ عِمَایَۃِ الْصُبْحِ، وَقَدْ کَانَ الْقَوْمُ کَمَنُوْا لَنَا فِیْ شِعَابِہِ وَفِی أَجْنَابِہِ وَمَضَایِقِہِ قَدْ أَجْمَعُوا وَتَہَیَّئُوا وَأَعَدُّوا، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَاعَنَا وَنَحْنُ مُنْحَطُّونَ إِلَّا الْکَتَائِبُ، قَدْ شَدَّتْ عَلَیْنَا شَدَّۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، وَانْہَزَمَ النَّاسُ رَاجِعِینَ، فَاسْتَمَرُّوا لَا یَلْوِی أَحَدٌ مِنْہُمْ عَلٰی أَحَدٍ، وَانْحَازَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ الْیَمِینِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِلَیَّ أَیُّہَا النَّاسُ، ہَلُمَّ إِلَیَّ، أَنَا رَسُولُ اللّٰہِ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَلَا شَیْئَ احْتَمَلَتِ الْإِبِلُ بَعْضُہَا بَعْضًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ إِلَّا أَنَّ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَہْطًا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ،وَأَہْلِ بَیْتِہِ غَیْرَ کَثِیرٍ، وَفِیمَنْ ثَبَتَ مَعَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَمِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنُہُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ، وَرَبِیعَۃُ بْنُ الْحَارِثِ، وأَیْمَنُ بْنُ عُبَیْدٍ وَہُوَ ابْنُ أُمِّ أَیْمَنَ، وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ: وَرَجُلٌ مِنْ ہَوَازِنَ عَلَی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ، فِییَدِہِ رَایَۃٌ لَہُ سَوْدَائُ فِی رَأْسِ رُمْحٍ طَوِیلٍ لَہُ أَمَامَ النَّاسِ، وَہَوَازِنُ خَلْفَہُ، فَإِذَا أَدْرَکَ طَعَنَ بِرُمْحِہِ وَإِذَا فَاتَہُ النَّاسُ رَفَعَہُ لِمَنْ وَرَائَ ہُ فَاتَّبَعُوہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۹۱)

عبدالرحمن بن جابر سے مروی ہے، وہ اپنے والد سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب ہم وادیٔ حنین کے سامنے پہنچے تو ہمارا گزر تہامہ کی ایک ایسی وادی سے ہوا، جو کافی وسیع اور چوڑی تھی اور بلندی سے پستی کی طرف مائل تھی،ہم اس میں اوپر سے نیچے کی طرف اترے جا رہے تھے، صبح کے جھٹ پٹے کا وقت تھا، دشمن ہمارے مقابلہ کے لیے وادی کے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں مختلف مقامات اور تنگ جگہوں میں چھپے ہوئے تھے، وہ ہمارے مقابلہ کے لیے جمع تھے اور پوری طرح تیار تھے۔ اللہ کی قسم! ہم وادی میں نیچے کو اترتے جا رہے تھے کہ ان کے دستوں نے ہم پر یک بار گی حملہ کر دیا، ہمارے لوگ اس اچانک حملے سے بدحواس ہو کر شکست خوردہ ہو کر دوڑ گئے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی راستے سے داہنی طرف ہو گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میری طرف آجاؤ، میرے پاس آجاؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ وقتی طور پر کسی نے جواب نہ دیا، اونٹ ایک دوسرے پر غضبانک ہوکر بھاگ رہے تھے لوگ چل رہے تھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کچھ مہاجرین وانصار اور اہل بیت کے کچھ افراد رہ گئے۔ آپ کے پاس رہ جانے والوں میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اور اہل بیت میں سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کے فرزند سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن حارث، سیدنا ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ، سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بیٹے سیدنا ایمن بن عبید اور سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نام ہیں۔ بنو ہوازن کا ایک فرد جو سرخ اونٹ پر سوار تھا، اور اس کے ہاتھ میں طویل نیزے کے سرے پر سیاہ علم لہرا رہا تھا، وہ اپنے قبیلہ کے آگے آگے تھا اور باقی سارا بنو ہوازن اس کی اقتداء میں چلا جا رہا تھا، جب راستے میں کوئی مسلمان ملتا وہ اس پر نیزے کا وار کر دیتا اور جب لوگ گزر جاتے تو اپنے جھنڈے کو اپنے پیچھے والوں کی راہنمائی کے لیے بلند کر دیتا اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔

Haidth Number: 10902
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: وہ ہوازن کا علم بردار آدمی اپنے اونٹ پر سوار ایسی ہی کاروائیاں کرتا جا رہا تھا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری شخص اس کی طرف گئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے پیچھے جا کر اونٹ کی کونچوں پر وار کیا، اونٹ اپنے پیچھے کے بل گر پڑا، انصاری نے پھرتی سے دوڑ کر اس پر وار کر کے نصف پنڈلی سے اس کا پاؤں کاٹ ڈالا، جس سے ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز بھی آئی، پس وہ اپنے اونٹ سے نیچے جا گرا اور مسلمانوں نے جرأت وبہادری کا مظاہرہ کیا،اللہ کی قسم! یہ شکست خوردہ مسلمان جب پلٹ کر آئے تو انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دشمن قیدیوں کو اس حال میں پایا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہو ئے تھے۔

Haidth Number: 10903
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، جبکہ بنو قیس کے ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو فرار نہیں ہو ئے تھے، دراصل بنو ہوازن ماہر تیر انداز تھے، جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ تتر بترہو گئے۔ ہم اموالِ غنیمت جمع کرنے لگے، انہوں نے تیروں کے ذریعے ہمارا سامنا کیا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، اور ابو سفیان بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی باگ کو تھامے ہوئے تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ رجز کہتے جاتے تھے۔ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ( میں اللہ کا نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)۔

Haidth Number: 10904

۔ (۱۰۹۰۵)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوَازِنَ وَغَطَفَانَ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ عَلٰی جَمَلٍ أَحْمَرَ فَانْتَزَعَ شَیْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِیرِ فَقَیَّدَ بِہِ الْبَعِیرَ، ثُمَّ جَاء َ یَمْشِی حَتّٰی قَعَدَ مَعَنَایَتَغَدّٰی، قَالَ: فَنَظَرَ فِی الْقَوْمِ فَإِذَا ظَہْرُہُمْ فِیہِ قِلَّۃٌ، وَأَکْثَرُہُمْ مُشَاۃٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَی الْقَوْمِ خَرَجَ یَعْدُو، قَالَ: فَأَتٰی بَعِیرَہُ فَقَعَدَ عَلَیْہِ، قَالَ: فَخَرَجَ یَرْکُضُہُ وَہُوَ طَلِیعَۃٌ لِلْکُفَّارِ، فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلٰی نَاقَۃٍ لَہُ وَرْقَائَ، قَالَ إِیَاسٌ: قَالَ أَبِی: فَاتَّبَعْتُہُ أَعْدُو عَلَی رِجْلَیَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَۃِ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُہُ فَکُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ النَّاقَۃِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتّٰی کُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتّٰی أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَہُ: إِخْ، فَلَمَّا وَضَعَ الْجَمَلُ رُکْبَتَہُ إِلَی الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَضَرَبْتُ رَأْسَہُ فَنَدَرَ، ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِہِ أَقُودُہَا فَاسْتَقْبَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ النَّاسِ، قَالَ: ((مَنْ قَتَلَ ہٰذَا الرَّجُلَ؟)) قَالُوا: ابْنُ الْأَکْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَہُ سَلَبُہُ أَجْمَعُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۵۱)

سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر بنو ہوازن اور غطفان پر حملہ کیا، ہم لڑائی میں مصروف تھے کہ ایک آدمی اپنے سرخ اونٹ پر سوار آیا، اس نے اونٹ کے اوپر بندھی تھیلی سے کوئی چیز نکال کر اس کے ساتھ اونٹ کو باندھا، پھر وہ چلتا چلتا آکر ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا، اس سے لوگوں پر نظر ڈالی اس نے دیکھا کہ تعداد بہت کم ہے، اور اکثر لوگ پیدل ہیں، اس نے جب یہ حالت دیکھی تو بھاگ کھڑا ہوا، اونٹ کے پاس پہنچ کر اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگا دی، درحقیقت وہ کفار کا جاسوس تھا، ہم میں سے بنو اسلم کا ایک آدمی اپنی سفید اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے ہو لیا۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں: میں بھی پیدل اس کے پیچھے دوڑا، مسلمان کی اونٹنی کا سر کافر کے اونٹ کے پچھلے حصے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ( یعنی دونوں قریب قریب تھے) میں آگے بڑھ کر اونٹ کے پیچھے پہنچ گیا۔ پھر میں نے اونٹ سے آگے نکل کر اس کی لگام پکڑ لی، اورمیں نے مخصوص آواز دے کر اونٹ کو بٹھایا، جب اونٹ نے اپنے گھٹنے زمین پر رکھ دئیے تو میں نے اپنی تلوار لہرا کر اس کے سر پر ماری، اس کا سر اڑ گیا، پھر میں اس کا اونٹ لیے آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے لوگوں کے ہمراہ ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: اس آدمیکو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے بتلایا کہ سیدنا ابن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے چھینا ہوا سارا مال اسی کا ہے۔

Haidth Number: 10905

۔ (۱۱۸۰۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ: أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ قَالَ: تُجْزِئُکَ قِرَائَۃُ الْإِمَامِ، قُلْتُ: رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ أُطِیلُ فِیہِمَا الْقِرَائَۃَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی صَلَاۃَ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا سَأَلْتُکَ عَنْ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، قَالَ: إِنَّکَ لَضَخْمٌ أَلَسْتَ تَرَانِی أَبْتَدِئُ الْحَدِیثَ، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی صَلَاۃَ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی فَإِذَ خَشِیَ الصُّبْحَ أَوْتَرَ بِرَکْعَۃٍ، ثُمَّ یَضَعُ رَأْسَہُ فَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ نَامَ، وَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ لَمْ یَنَمْ، ثُمَّ یَقُومُ إِلَیْہِمَا وَالْأَذَانُ فِی أُذُنَیْہِ فَأَیُّ طُولٍ یَکُونُ، ثُمَّ قُلْتُ: رَجُلٌ أَوْصٰی بِمَالٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَیُنْفَقُ مِنْہُ فِی الْحَجِّ؟ قَالَ: أَمَا إِنَّکُمْ لَوْ فَعَلْتُمْ کَانَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰہِ، قَالَ: قُلْتُ: رَجُلٌ تَفُوتُہُ رَکْعَۃٌ مَعَ الْإِمَامِ فَسَلَّمَ الْإِمَامُ أَیَقُومُ إِلٰی قَضَائِہَا قَبْلَ أَنْ یَقُومَ الْإِمَامُ؟ قَالَ: کَانَ الْإِمَامُ إِذَا سَلَّمَ قَامَ، قُلْتُ: الرَّجُلُ یَأْخُذُ بِالدَّیْنِ أَکْثَرَ مِنْ مَالِہِ، قَالَ: لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اسْتِہِ عَلٰی قَدْرِ غَدْرَتِہ۔ (مسند احمد: ۵۰۹۶)

انس بن سیرین سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: میں امام کے پیچھے قرأت کر لیا کروں؟ انہوںنے کہا: امام کی قرأت تمہارے لیے کافی ہے۔ میں نے کہا: میں فجر کی دو سنتوں میں قرأت طویل کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو دو دو رکعت ادا کیا کرتے تھے۔ میں نے کہا: میں نے تو آپ سے فجر کی دو رکعتوں کے متعلق دریافت کیا ہے؟ انہوںنے کہا: تم تو موٹی عقل کے آدمی ہو، تم دیکھتے نہیں کہ میں نے بات شروع ہی کی ہے، یعنی پوری بات تو سنو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو دو دو رکعت ادا کیا کرتے تھے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہوتا تو ایک و تر ادا کر لیتے، اس کے بعد لیٹ جاتے۔ تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ سو جاتے اور اگر چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ سوتے نہیں تھے۔ پھر اذان ہوتے ہی اٹھ کر یہ دو رکعت ادا کرتے، تو ان میں طوالت کہاں سے آگئی؟ اس کے بعد میں نے پوچھا: کوئی شخص اللہ کی راہ میں اپنے مال کی وصیت کرے تو کیا وہ اس مال میں سے حج کے اخراجات بھی ادا کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: اگر تم ایسا کرو تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہی شمار ہوگا۔ میں نے پوچھا: ایک شخص کی امام کے ساتھ ایک رکعت رہ جائے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد آیا وہ امام کے اٹھنے سے پہلے فوت شدہ رکعت کو قضا کرنے کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا: جب امام سلام پھیر لے تو تب مقتدی کھڑا ہو گا۔ میں نے پوچھا: کوئی شخص قرض کے عوض میں اپنے اصل مال سے زائد وصول کرے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ انھوں نے کہا: قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے لیے اس کی سرین کے قریب اس کے دھوکے کے بقدر جھنڈا نصب کیا جائے گا۔

Haidth Number: 11808

۔ (۱۱۸۰۹)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ أَنَّہُ قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! رَأَیْتُکَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا، لَمْ أَرَ مِنْ أَصْحَابِکَ مَنْ یَصْنَعُہَا، قَالَ: مَا ہُنَّ یَا ابْنَ جُرَیْجٍ، قَالَ: رَأَیْتُکَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْکَانِ إِلَّا الْیَمَانِیَّیْنِ، وَرَأَیْتُکَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِیَّۃَ، وَرَأَیْتُکَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَۃِ، وَرَأَیْتُکَ إِذَا کُنْتَ بِمَکَّۃَ أَہَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْہِلَالَ وَلَمْ تُہْلِلْ أَنْتَ حَتّٰی یَکُونَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: أَمَّا الْأَرْکَانُ فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمَسُّ إِلَّا الْیَمَانِیَّیْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِیَّۃُ فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِی لَیْسَ فِیہَا شَعَرٌ وَیَتَوَضَّأُ فِیہَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَہَا، وَأَمَّا الصُّفْرَۃُ فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْبُغُ بِہَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِہَا، وَأَمَّا الْإِہْلَالُ فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُہِلُّ حَتّٰی تَنْبَعِثَ بِہِ نَاقَتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۳۳۸)

عبید بن جریج سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: اے ابو عبدالرحمن! آپ چار ایسے کام کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کو ئی بھی وہ کام نہیں کرتا،انہوں نے کہا: ابن جریج! وہ کون سے ؟ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے صرف اس کے دو یمنی کونوں کو مس کرتے ہیں،میں نے آپ نے کو دیکھا ہے کہ آپ رنگے ہوئے بغیر بالوں والے چمڑے کے جوتے استعمال کرتے ہیں،میں نے دیکھا ہے کہ آپ اپنے بالوں یا کپڑوں کو زرد رنگ سے رنگتے ہیںاور جب لوگ مکہ میں ہوں تو ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی تلبیہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن آپ یوم الترویہیعنی آٹھ ذوالحجہ تک تلبیہ نہیں پڑھتے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے جواب میں فرمایا: جہاں تک آپ کے پہلے سوال کا تعلق ہے کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں اس کے صرف دو یمنی کونوں کو چھوتا ہوں اور باقی دو عراقی کونوں کو نہیں چھوتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت اللہ کے ان دو یمنی کونوں کو ہی چھوتے دیکھا ہے۔آپ کا دوسرا سوال رنگے ہوئے چمڑے کے بالوں کے بغیر جوتے کے متعلق ہے، تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ رنگے ہوئے چمڑے کے ایسے جوتے پہنتے تھے، جن پر بال نہیں ہوتے تھے، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہی میں وضو کر لیاکرتے تھے، اس لیے میں بھی اسی قسم کے جوتے پہنا کرتا ہوں۔ باقی رہا بالوں یا کپڑوں کو زرد رنگ سے رنگنا، تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس رنگ سے رنگتے دیکھا ہے، اس لیے میں بھی اسی رنگ سے رنگنے کو پسند کرتا ہوں اور آپ کا تلبیہ کے متعلق سوال تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اس وقت تک تلبیہ نہیں پڑھتے تھے۔ جب تک کہ آپ کی اونٹنی سفر حج پر روانہ ہونے کے لیے اٹھ کھڑی نہ ہوتی تھی۔

Haidth Number: 11809

۔ (۱۱۸۱۰)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ نَجْرَانَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، قُلْتُ: إِنَّمَا أَسْأَلُکَ عَنْ شَیْئَیْنِ عَنِ السَّلَمِ فِی النَّخْلِ وَعَنِ الزَّبِیبِ وَالتَّمْرِ، فَقَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَجُلٍ نَشْوَانَ (وَفِیْ لَفْظٍ: سَکْرَانَ) قَدْ شَرِبَ زَبِیبًا وَتَمْرًا، قَالَ: فَجَلَدَہُ الْحَدَّ وَنَہٰی أَنْ یُخْلَطَا، قَالَ: وَأَسْلَمَ رَجُلٌ فِی نَخْلِ رَجُلٍ فَلَمْ یَحْمِلْ نَخْلُہُ، قَالَ: فَأَتَاہُ یَطْلُبُہُ (فِیْ لَفْظٍ: فَاَرَادَ اَنْ یَاْخُذَ دَرَاھِمَہٗ) قَالَ: فَأَبٰی أَنْ یُعْطِیَہُ، قَالَ: فَأَتَیَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَحَمَلَتْ نَخْلُکَ۔))قَالَ: لَا، قَالَ: ((فَبِمَ تَأْکُلُ مَالَہُ؟)) قَالَ: فَأَمَرَہُ فَرَدَّ عَلَیْہِ وَنَہٰی عَنِ السَّلَمِ فِی النَّخْلِ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہُ۔ (مسند احمد: ۵۱۲۹)

ابو اسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل نجرا ن کے ایک آدمی سے سنا اس نے کہا کہ میں نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ میں آپ سے دو مسائل کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ایک تو کھجوروں کی بیع سلم کے بارے میں (کہ کوئی شخص فصل تیار ہونے سے پہلے کھجور کے مالک سے بھائو وغیرہ طے کرکے کھجوروں کی بیع کر لے، کیایہ جائز ہے؟) اور دوسرا سوال منقّی اور کھجور کے متعلق ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک آدمی کو پیش کیا گیا جو نشہ کی حالت میںتھا، اس نے منقّی اور کھجور کا تیار شدہ نبیذپیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر حد جاری کر دی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرما دیا، ( کیونکہ ان دونوں کے اختلاط سے تیار کر دہ نبیذ بہت جلد نشہ آور ہو جاتا ہے) اور ایک آدمی نے دوسرے سے کھجوروں کی بیع سلم کی تھی، اتفاق سے کھجوروں کے درخت ثمر آور نہ ہوئے، ان کا مالک اس شخص سے اپنی طے شدہ رقم لینے آیا تو دوسرے نے ادائیگی سے انکار کیا۔ وہ دونوں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مالک سے دریافت فرمایا: کیا تمہارے کھجوروں کے درخت ثمر آور ہوئے؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم کس بنیاد پر اس کامال کھاتے ہو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیع سلم سے اس وقت تک1 منع فرما دیا، جب تک پھل کی صلاحیت نمایاں نہ ہو جائے۔

Haidth Number: 11810

۔ (۱۲۳۸۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِی اَبِیْ، ثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثَنَا مُحَمَّدٌ یَعْنِی ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ، عَنْ فَضَالَۃِ بْنِ اَبِیْ فَضَالَۃَ الْاَنْصَارِیِّ وَکَانَ اَبُوْ فَضَالَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ اَھْلِ بَدْرٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ اَبِیْ عَائِدٍ اِلٰی عَلِی بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ مَرْضٍ اَصَابَہُ ثَقَلٌ مِنْہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ اَبِیْ: مَا یُقِیْمُکَ فِیْ مَنْزِلِکَ ہٰذَا؟ لَوْ اَصَابَکَ اَجَلُکَ لَمْ یَلِکَ عِنْدَکَ اِلَّا اَعْرَابُ جُہَیْنۃَ، تُحْمَلُ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَاِنْ اَصَابَکَ اَجَلُکَ وَلِیَکَ اَصْحَابُکَ وَصَلَّوْا عَلَیْکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہِدَ اِلَیَّ اَنْ لَا اَمُوْتَ حَتّٰی اُؤَمَّرَ ثُمَّ تُخْضَبَ ہٰذِہِ یَعْنِیْ لِحْیَتَہُ مِنْ دَمٍ ہٰذَا یَعْنِیْ ہَامَّتَہُ، فَقْقِلَ وَقُتِلَ اَبُوْ فَضٰلَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مَعَ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَوْمَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۰۲)

فضالہ بن ابی فضالہ انصاری سے روایت ہے، ان کے والد سیدنا ابو فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بدری صحابی تھے، فضالہ کہتے ہیں: میں اپنے باپ کی معیت میں سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے گیا، وہ کافی بیمار تھے، میرے والد نے ان سے کہا: آپ اپنی جگہ پر کس لیے ٹھہرے ہوئے ہیں؟ اگر آپ کا آخری وقت آگیا تو بنو جہینہ کے چند بدو آپ کے پاس ہوں گے،آپ کو مدینہ منورہ لے چلیں، وہاں اگر آپ کو موت آئی تو آپ کے دوست احباب پاس ہوں گے اور آپ کی نماز جنازہ ادا کریں گے، یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے فرما چکے ہیں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے گی، جب تک کہ مجھے امارت نہ ملے، پھر میرے سر کے خون سے میری داڑھی رنگین نہ ہوجائے، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قتل ہو گئے۔ سیدنا ابو فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔

Haidth Number: 12385

۔ (۱۲۳۸۶)۔ وعَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الْعُشَیْرَۃِ، فَلَمَّا نَزَلَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَقَامَ بِہَا رَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ، یَعْمَلُونَفِی عَیْنٍ لَہُمْ فِی نَخْلٍ، فَقَالَ لِی عَلِیٌّ: یَا أَبَا الْیَقْظَانِ! ہَلْ لَکَ أَنْ تَأْتِیَ ہٰؤُلَائِ فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلُونَ؟ فَجِئْنَاہُمْ فَنَظَرْنَا إِلٰی عَمَلِہِمْ سَاعَۃً، ثُمَّ غَشِیَنَا النَّوْمُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ، فَاضْطَجَعْنَا فِی صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِی دَقْعَائَ مِنَ التُّرَابِ فَنِمْنَا، فَوَاللّٰہِ! مَا أَہَبَّنَا إِلَّا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَرِّکُنَا بِرِجْلِہِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْکَ الدَّقْعَائِ، فَیَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ: ((یَا أَبَا تُرَابٍ۔)) لِمَا یُرَی عَلَیْہِ مِنَ التُّرَابِ، قَالَ: ((أَلَا أُحَدِّثُکُمَا بِأَشْقَی النَّاسِ رَجُلَیْنِ؟)) قُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((أُحَیْمِرُ ثَمُودَ الَّذِی عَقَرَ النَّاقَۃَ، وَالَّذِییَضْرِبُکَیَا عَلِیُّ! عَلَی ہَذِہِ یَعْنِی قَرْنَہُ حَتّٰی تُبَلَّ مِنْہُ ہٰذِہِ یَعْنِی لِحْیَتَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۱۱)

سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ ذی العشیرہ میں رفیق تھے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں اترے اور قیام کیا تو ہم نے بنو مدلج قبیلے کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ کھجوروں میں اپنے ایک چشمے میں کام کر رہے تھے۔ سیدنا علی نے مجھے کہا: ابو الیقظان! کیا خیال ہے کہ اگر ہم ان کے پاس چلے جائیں اور دیکھیں کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ سو ہم ان کے پاس چلے گئے اور کچھ دیر تک ان کا کام دیکھتے رہے، پھر ہم پر نیند غالب آ گئی۔ میں اور سیدنا علی کھجوروں کے ایک جھنڈ میں چلے گئے اور مٹی میں لیٹ کر سو گئے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہی ہمیں اپنے پاؤں کے ساتھ حرکت دے کر جگایا اور ہم مٹی آلود ہو چکے تھے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی پر مٹی دیکھی تو فرمایا: اے ابو تراب! (یعنی مٹی والے) پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمھارے لیے دو بدبخت ترین مردوں کی نشاندہی نہ کروں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: احیمر ثمودی، جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ آدمی جو (اے علی!) تیرے سر پر مارے گا، حتی کہ تیری (داڑھی) خون سے بھیگ جائے گی۔

Haidth Number: 12386
زید بن وہب سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اہل بصرہ کے خوارج میں سے ایک قو م کے پاس تشریف لے گئے، ان میں سے ایک آدمی کا نام جعد بن بعجہ تھا، اس نے کہا: علی! اللہ سے ڈرو، تم نے بالآخر مرنا ہی ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا: میں نے مرنا نہیں، بلکہ قتل ہونا ہے، میرے سر پر وار لگے گا، جس سے یہ میری داڑھی رنگین ہوجائے گی، یہ پختہ خبر ہے اور اللہ کی طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے اور جس نے جھوٹ باندھا اس نے نقصان اٹھایا، پھر جب اس آدمی نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لباس پر اعتراض کیا تو انھوں نے کہا: تمہیں میرے اس لباس سے کیا؟ یہ تکبر سے بالکل بر ی ہے اور اس لائق ہے کہ اہل اسلام اس سلسلہ میں میری اقتداء کریں گے۔

Haidth Number: 12387
ابو تحیی سے مروی ہے کہ جب ابن ملجم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پروار کیا تو انہوں نے کہا: تم اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کے ساتھ کیا تھا،جس نے آپ کوقتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اسے قتل کر د و اور پھر اسے جلا ڈالو۔ 1

Haidth Number: 12388