Blog
Books
Search Hadith

جمعہ کے لیے جلدی جانے، پیدل چل کر جانے، نہ کہ سواری پر، امام کے قریب ہو کر بیٹھنے اور خطبہ کے لیے خاموش ہونے وغیرہ کی فضیلت کا بیان

445 Hadiths Found
یزید بن ابی مریم کہتے ہیں:میں جمعہ کے لیے مسجد کی طرف پیدل جا رہا تھا،مجھے عبایۃ بن رافع ملے، جبکہ وہ سواری پر تھے، وہ کہنے لگے: خوش ہوجا، میں نے سیّدنا ابوعبس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہوئے، اللہ ان کو جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔

Haidth Number: 2767
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کے دن تم میں سے کسی کو مسجد میں نیند آنے لگے تو وہ اس جگہ سے منتقل ہو کر کسی اور مقام پر بیٹھ جائے ۔

Haidth Number: 2768
سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی جمعہ کے دن اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے، کہ وہ خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے، اسے چاہیے کہ وہ یوں کہہ دے کہ کھلے ہو جاؤ۔

Haidth Number: 2769
سیّدنا ارقم بن ابی ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابی تھا، بیان کرتا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک وہ شخص جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہے اور امام کے نکلنے کے بعد دو آدمیوں کے درمیان (گھس کر) تفریق ڈالتا ہے تو وہ شخص ایسے شخص کی طرح ہے جو آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا ہو۔

Haidth Number: 2770
سیّدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن مسلمانوں کی گردنیں پھلانگی، اس کو جہنم کی طرف ایک پل بنا دیا جائے گا۔

Haidth Number: 2771
سیّدنا عبد اللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جمعہ کے روز لوگوں کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: بیٹھ جا، تو نے لوگوں کو تکلیف دی ہے اور تاخیر سے آیا ہے۔

Haidth Number: 2772
Haidth Number: 2773
سیّدنا ابو حازم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ آیا اور دھوپ میں بیٹھ گیا، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ کیا یا حکم دیا کہ وہ سائے کی طرف منتقل ہو جائے۔

Haidth Number: 2774
سیّدنا عبد الرحمن بن عثمان تیمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ عید کے روز بازار میں کھڑے تھے اور لوگوں کو گزرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

Haidth Number: 2870
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جس دن سورج کو گرہن لگا، اس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھبرا گئے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (جلدی میں کسی بیوی کی) قمیص پکڑ لی (اور مسجد کی طرف نکل پڑے، پیچھے سے)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ کی چادر پہنچا دی گئی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو لمبا قیام کروایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیام کرتے، پھر رکوع کرتے، اگر کوئی انسان آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رکوع کرنے کے بعد آجاتا تو وہ یہ نہ جان سکتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کرلیا ہے، لمبے قیام کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اس بات کا قائل نہ کر سکتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کر لیا ہے۔ سیدہ اسماء کہتی ہیں: پس میں اس عورت کی طرف دیکھتی جو مجھ سے بڑی تھی ، پھر اس عورت کی طرف دیکھتی جو مجھ سے کمزور تھی، پھر میں اپنے آپ سے کہتی کہ میں زیادہ حقدار ہوں کہ لمبے قیام پر صبر کروں۔

Haidth Number: 2918
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں ہم پر بارش کا نزول ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نکلے، (اپنے جسم کے بعض حصے سے) کپڑا ہٹایا، یہاں تک اسے بارش کا پانی پہنچا، آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسے کیوں کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی نئی آئی ہے۔

Haidth Number: 2944
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمارے اوپر اولے برسائے گئے اور سیّدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ روزے دار تھے، نے یہ اولے کھانا شروع کر دیئے۔ کسی نے ان سے کہا: کیا تم یہ کھا رہے ہو، حالانکہ تم روزے دار ہو؟ انہوں نے کہا: بے شک یہ برکت ہیں۔

Haidth Number: 2945
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: بے شک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بارش کو دیکھتے تو فرماتے: اَللّٰہُمَّ صَیِّبًا نَافِعًا۔ (اے اللہ! اس کو نفع مند بارش بنا دے)۔

Haidth Number: 2946

۔ (۲۹۶۸) عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ عَنْ أَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: دَعَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْیَانَ بْنِ نُبَیْحٍ یَجَْمُع لِیَ النَّاسَ لِیَغْزُوْنِی وَہُوَ بِعُرَنَۃَ، فَأْتِہِ فَاقْتُلْہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنْعَتْہُ لِی حَتّٰی أَعْرِفَہُ، قَالَ: ((إِذَا رَأَیْتَہُ وَجَدْتَّ لَہُ قُشَعْرِیْرَۃً۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَیْفِی حَتّٰی وَقَعْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ بِعُرَنَۃَ مَعَ ظُعُنٍ یَرْتَادُ لَہُنَّ مَنْزِلاً، وَحِیْنَ کَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَجَدْتُّ مَا وَصَفَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْقُشْعْرِیْرَۃِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَہُ وَخَشِیْتُ أَنْ یَکُوْنَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ مُحَاوَلَۃٌ تَشْغَلُنِیِ عَنِ الصَّلَاۃِ ، فَصَلَّیْتُ وَأَنا أَمْشِی نَحْوَہُ أُوْمِیُٔ بِرَأْسِی الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ، فَلَمَّا انْتَہَیْتُ إِلَیْہِ قَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ سَمِعَ بِکَ وَبِجَمْعِکَ لِہَذَا الرَّجُلِ، فَجَائَ کَ لِہَذَا، قَالَ: أَجَلَ أَناَ فِی ذَالِکَ، قَالَ: فَمَشَیِتُ مَعَہُ شَیْئًا، حَتّٰی إِذَا أَمْکَنَنِیِ، حَمَلْتُ عَلَیْہِ السَّیْفَ، حَتّٰی قَتَلْتُہُ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَتَرَکْتُ ظَعَائِنَہُ مُکِبَّاتٍ عَلَیْہِ فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآنِی فَقَالَ: ((أَفْلَحَ الْوَجْہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) الْحَدِیْثِ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۴۳)

سیّدنا عبد اللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح میرے مقابلہ کے لیے لوگوں کو جمع کر رہا ہے اور وہ اس وقت عُرَنَہ مقام میں ہے، تم جا ؤ اور اسے قتل کر دو ۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی کوئی علامت بیان فرمائیں ،تاکہ میں پہچان لوں کہ یہ وہی شخص ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو اس کی وجہ سے ایک دفعہ تم پر جھرجھری طاری ہو گی۔ پس میں نے تلوار لی اور اس کے پاس جا پہنچا۔ وہ واقعی عرنہ مقام میں اپنی عورتوں کے ساتھ تھا اور وہ ان کے لیے جگہ بنا رہا تھا۔ اُدھر نمازِ عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارشاد کے مطابق مجھ پر جھرجھری طاری ہو گئی، میں اس کی طرف بڑھا۔ مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی ایسا جھگڑا ہو جائے جو نماز سے غافل کر دے۔ اس لیے میں نے اس کی طرف چلتے چلتے ہی نماز پڑھنا شروع کر دی، اشارے سے رکوع و سجود کرتا گیا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا: کون ہو؟ میں کہا : ایک عربی ہوں، آپ کے بارے سنا ہے کہ آپ اس آدمی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )کے مقابلے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہے ہو، اسی لیے میں بھی حاضر ہوا ہوں، اس نے کہا: جی ہاں، میں اسی کوشش میں ہوں۔ پس میں اس کے ساتھ چلتا رہا، جب اس نے مجھے موقع دیا تو میں نے تلوار کے ساتھ اس پر حملہ کر دیا اور اسے قتل کر ڈالا اور اس حال میں وہاں سے نکل آیا کہ اس کی عورتیں اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: کامیاب رہے ہو۔ میں عرض کیا: اے رسول اللہ! میں اسے قتل کر آیا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک کہتے ہو۔ الحدیث۔

Haidth Number: 2968
سیّدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیّدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا تھا: آپ اپنے ساتھیوں سے کہہ دیں اگر (دوران نماز) دشمن حملہ آور ہوجائے تو ان کے لیے قتال اور کلام دونوں جائز ہیں۔

Haidth Number: 2969

۔ (۳۰۲۷) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الْمَیِّتَ تَحْضُرُہُ الْمَلَائِکَۃُ، فَإِذَا کَانَ الَّرُجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوْا: اُخْرُجِی أَیَّتُہَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ، کَانَتْ فِی الْجَسْدِ الطَّیِّبِ، أُخْرُجِی حَمِیْدَۃً وأَبْشِرِی بِرَوْحٍ وَرَیْحَانٍ، وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ، قَالَ فَـلَا یَزَالُ یُقَالُ ذَالِکَ حَتّٰی تَخْرُجَ ثُمَّ یُعْرَجُ بِھَا إِلَی السَّمَائِ، فَیُسْتَفْتَحُ لَہَا فَیُقَالُ مَنْ ہٰذَا؟ فَیُقَالُ: فُلَانٌ،فَیَقُوْلُوْنَ مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّیِّبَۃِ کَانَتْ فِی الْجَسَدِ الطَّیِّبِ، اُدْخُلِی حَمِیدَۃً بِرَوْحٍ وَرَیْحَانٍ وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ، قَالَ فَـلَا یَزَالُ یُقَالُ لَہَا، حَتّٰی یُنْتَہٰی بِہَا إِلَی السَّمَائِ الَّتِی فِیْہَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ وَإِذَا کَانَ الرَّجَلُ السُّوْئُ قَالُوْا: اُخْرُجِیْ أَیَّتُہا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ، کَانَتْ فِی الْجَسَدِ الْخَبِیْثِ، اُخْرُجِی ذَمِیْمَۃً وَأَبْشِرِی بِحَمِیْمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرُ مِنْ شَکْلِہِ أَزْوَاجٌ، فَـلَا یَزَالُ حَتّٰی تَخْرُجَ ثُمَّ یُعْرَجُ بِہَا إِلَی السَّمَائِ فَیُسْتَفْتَحُ لَہَا، فَیُقَالُ مَنْ ہٰذَا؟ فَیُقَالُ: فُلَانٌ، فَیُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِیْثَۃِ کَانَتْ فِی الْجَسْدِ الْخَبِیْثِ، اِرْجِعِی ذَمِیْمَۃً فَإِنَّہُ لَا یُفْتَحُ لَکِ أَبْوَابُ السَّمَائِ فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَائِ ثُمَّ تَصِیْرُ إِلَی الْقَبْرِ۔ فَیُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَیُقَالُ لَہُ مِثْلُ مَا قِیْلَ فِی الْحَدِیْثِ الأَوَّلِ وَیُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوئُ، فَیُقَالُ لَہُ مِثْلُ مَا فِی الْحَدِیْثِ الأَوَّلِ۔(مسند احمد: ۸۷۵۴)

سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدمی کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو فرشتے اس کے پاس آ جاتے ہیں، اگر وہ نیک آدمی ہو تو وہ کہتے ہیں: اے پاکیزہ روح! جو پاکیزہ جسم میں تھی، باہرآ جا، آ جا، تو قابل تعریف ہے، تجھے راحت اور خوشبووں کی بشارت ہو، تیرا ربّ تجھ پر ناراض نہیں ہے۔وہ یہ باتیں بار بار کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روح باہر آ جاتی ہے۔ پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھلوایا جاتا ہے، آگے سے پوچھا جاتا ہے: یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں:یہ فلاں ہے، آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: پاکیزہ روح کو مرحبا، جو ایک پاکیزہ جسم میں تھی، (اے روح!) تو قابل تعریف ہے، آ جا اور تجھے راحتوں اور خوشبوئوں اور ایسے ربّ کی بشارت ہو جو ناراض نہیں ہے۔ اسے ہر آسمان پر اسی طرح کہا جاتا ہے، حتی کہ اسے اس آسمان تک لے جاتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ ہے اور اگر مرنے والا آدمی برا (گنہگار) ہو تا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: باہر نکل اے خبیث روح! جو ایک خبیث جسم میں تھی، نکل،تو قابل مذمت ہے، تجھے کھولتے ہوئے پانی، پیپ اور اس جیسی دوسری چیزوں کی بشارت ہو، بار بار یہ باتیں کہی جاتی ہیںیہاں تک کہ وہ باہر آ جاتی ہے۔ فرشتے اسے آسمان کی طرف لے کر جاتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھلوایا جاتا ہے ،پوچھا جاتا ہے: یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں:یہ فلاں ہے۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: خبیث روح، جو خبیث جسم میں تھی، اسے کوئی مرحبا نہیں ہے، (اے روح!) تو قابل مذمت ہے، واپس لوٹ جا، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ اسے آسمان سے نیچے گرا دیا جاتا ہے اور وہ قبر میں جا پہنچتی ہے۔ نیک آدمی کو بٹھا کر اس سے وہ باتیں کی جاتی ہیں جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکی ہیں اور گنہگار کو بٹھا کر اس سے بھی وہ باتیں کی جاتی ہیں جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکی ہیں۔

Haidth Number: 3027

۔ (۳۰۲۸) عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إِلی الْقَبْرِ، وَلَمَّا یُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ وَکَاَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِنَا الطَّیْرَ، وَفِی یَدِہِ عُوْدٌ یَنْکُتُ فِی الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((اِسْتَعْیْذُوا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔)) مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ، نَزَلَ إِلَیْہِ مَلَائِکَۃٌ مِنَ السَّمَائِ بِیْضُ الْوُجُوْہِ کَأَنَّ وَجُوْہَہُمْ الشَّمْسُ مَعَہُمْ کَفَنٌ مِنْ أَکْفَانِ الْجَنَّۃِ وَحَنُوْطٌ مِنْ حَنُوْطِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَجْلِسُوْا مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ یَجِیْئُ مَلَکُ الْمَوْتِ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ، فَیَقُوْلُ: أَیَّتُہَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ اُخْرُجِی إِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ، قَالَ: فَتَخَرُجُ تَسِیْلُ کَمَا تَسِیْلُ الْقَطْرَۃُ مِنْ فِی السِّقَائِ، فَیَأْخُذُہَا، فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوْہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَأْخُذُوْہَا فَیَجْعَلُوْہَا فِی ذَالِکَ الْکَفَنِ وَفِی ذَالِکَ الْحَنُوْطِ، وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَطْیَبِ نَفْحَۃِ مِسْکٍ، وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ الأَرْضِ، قَالَ: فَیَصْعَدُوْنَ بِہَا فَـلَا یَمُرُّوْنَ یَعْنِی بِہَا عَلٰی مَلَاٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ إِلَّا قَالُوْا: مَا ہٰذَا الرُّوْحُ الطَّیِّبُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَحْسَنِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانُوْا یُسَمُّوْنَہُ بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتّٰی یَنْتَہُوا بِہَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَسْتَفِتُحْوَن لَہُ فَیُفْتَحُ لَہُمْ، فَیُشَیِّعُہُ مِنْ کُلِّ سَمَائٍ مُقَرَّبُوْہَا إِلَی السَّمَائِ الَّتِی تَلِیْہَا حَتّٰی یُنْتَہٰی بِہِ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُکْتُبُوْا کِتَابَ عَبْدِی فِی عِلِّیِّیْنَ، وَأَعِیْدُوْہُ إِلَی الأَرْضِ فَإِنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا أُعِیْدُہُمْ وَمِنْھَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرَی، قَالَ: فَتُعَادُ رُوْحُہُ فِی جَسَدِہِ فَیَأْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَنْ رَبَّکَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَقُوْلُوْنَ لَہُ: وَمَا عِلْمُکَ؟ فَیَقُوْلُ: قَرَأْتُ کِتَابَ اللّٰہِ فَآمَنْتُ بِہِ وَصَدَّقْتُ، فَیُنَادِیْ مُنَادٍ فِی السَّمَائِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَأَفْرِشُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَأَلْبِسُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوْا لَہُ بَابًا إِلَی الْجَنَّۃِ، قَالَ: فَیأْتِیْہِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الثِّیَابِ طَیِّبُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُرُّکَ، ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِی کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ لَہُ: مَنْ أَنْتَ، فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْئُ بِالْخَیْرِ، فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الصَّالِحُ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَۃَ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِی وَمَالِی، وَقَالَ: وَإِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ، إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ ِمَن السَّمَائِ مَلَائِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمْ الْمُسُوْحُ، فَیَجِْلُسْوَن مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرَ، ثُمَّ یَجِیْئُ ْمَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہِ فَیَقُوْلُ: أَیُّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ! اُخْرُجِی إِلٰی سَخَطٍ مِنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ ، قَالَ: فَتَفَرَّقَ فِی جَسَدِہِ، فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ فَیَأْخُذُہَ، فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوْہَا فِی یَدِہٖ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتّٰی یَجْعَلُوْہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوْحِ وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ رِیْحٍ وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ ِالأَرْضِ فَیَصْعَدُوْنَ بِہَا، فَـلَا یَمُرُّوْنَ بِہَا عَلٰی مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ إِلَّا قَالُوْا: مَا ہٰذَا الرُّوْحُ الْخَبِیْثُ، فَیَقُوْلُوْنَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبِحِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمّٰی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتّٰی یُنْتَھٰی بِہِ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَیُسْتَفْتَحُ لَہُ، فَـلَا یُفْتَحُ لَہُ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔} فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُکْتُبُوْا کِتَابَہُ فِی سِجِّیْنٍ فِی الْأَرْضِ السُّفْلٰی فَتُطْرَحُ رُوْحُہُ طَرْحًا، ثُمَّ قَرَئَ: {وَمَنْ یُشْرِکَ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرَّیْحُ فِی مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔} فَتُعَادُ رُوْحُہُ فِی جَسَدِہِ وَیَأْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ، لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلَانِ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی، فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ أَنْ کَذَبَ فَأَفْرِشُوْا لَہُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوْا لَہُ بَابًا إِلَی النَّارِ، فَیأْتِیْہِ مِنْ حَرِّہَا وَسُمُوْمِہَا، وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتّٰی یَخْتَلِفَ فِیْہِ أَضْلَاعُہُ، وَیأْتِیْہِ رَجُلٌ قَبِیْحُ الْوَجْہِ قَبِیْحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوْئُ کَ، ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِی کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْئُ بِالشَرِّ، فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الْخَبِیْثُ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۳۳)

سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے، جب قبر پر پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے، ایسے لگتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی،اس کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زمین کو کریدنے لگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور دو تین بار فرمایا: عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن آدمی جب اس دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے مراحل میں ہوتاہے توآسمان سے سورج کی طرح کے انتہائی سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے، وہ آ کر اس آدمی کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ کی بخشش اور رضامندی کی طرف نکل۔ اس کی روح آرام سے بہتی ہوئی یوں نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکل آتا ہے۔ جنت کے فرشتے اس روح کو موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ فوراًاسے وصول کر کے جنت والے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں، اس سے روئے زمین پر کستوری کی عمدہ ترین خوشبو جیسی مہک آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں،وہ پوچھتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک وہ اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں، ان کے کہنے پر دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر ہر آسمان کے مقرَّب فرشتے اس روح کو اوپر والے آسمان تک چھوڑ کر آتے ہیں، اس طرح اسے ساتویں آسمان تک لے جایاجاتا ہے۔ اللہ تعالٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے (نامۂ اعمال والی) کتاب عِلِّیِّیْنَ میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جائو، کیونکہ میں نے اس کو اسی سے پیدا کیا ہے، اس لیے میں اس کو اسی میں لوٹائوں گا اور پھر اس کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالوں گا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:پھر اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے:میرا رب اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوت کیا گیا تھا ، وہ کون ہے؟وہ جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں: یہ باتیں تمہیں کیسے معلوم ہوئیں؟وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی، اس کے بعد آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا ہے، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دواور اس کے لیے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اس کی طرف جنت کی ہوائیں اورخوشبوئیں آنے لگتی ہیں اور تاحدِّ نظر اس کے لیے قبر کو فراخ کر دیا جاتا ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل، خوش پوش اور عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تمہیں ہر اس چیز کی بشارت ہو جوتمہیں اچھی لگے، یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ تھا۔وہ قبر والا پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ لگتا ہے، جو خیر کے ساتھ آتا ہے۔ وہ جواباً کہتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ وہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ سکوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتاہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں، وہ آ کر اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح! اللہ کے غصے اور ناراضگی کی طرف نکل آ، وہ اس کے جسم میں بکھر جاتی ہے۔پھر فرشتہ اسے یوں کھینچتا ہے جیسے کانٹے دار سلاخ کو تر اون میں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔ جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے اس روح کو اس کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ اسے فوراً ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے گندی بدبو اس سے آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر کو جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ اس آدمی کو دنیا میں جن برے ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ ان میں سے سب سے برا اور گندا نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک کہ فرشتے اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانے کا کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔} (سورۂ اعراف:۴۰) یعنی: اوپر جانے کی خاطر ان کی روحوں کے لیے آسمان کے درواز ے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں اس وقت تک نہ جا سکیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے سے نہ گزر جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس کے (نامۂ اعمال) کی کتاب زمین کی زیریں تہ سِجِّیْنٍ میں لکھ دو۔ پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے۔اس موقعہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ یُشْرِکَ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرَّیْحُ فِی مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔}(سورۂ حج:۳۱) یعنی: اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، وہ گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اسے اڑا کر دور دراز لے گئی۔ اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے اور دو فرشتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں:تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تونہیں جانتا۔وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تو نہیں جانتا۔وہ پوچھتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا، وہ کون ہے؟وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں نہیں جانتا۔ آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، پس وہاں سے اس کی طرف جہنم کی حرار ت اور بدبو آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔ایک انتہائی بدشکل، بدصورت، گندے لباس والا بدبودار آدمی اس کے پاس آ کر کہتا ہے: تجھے ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تجھے بری لگتی ہے، یہ وہی دن ہے کہ جس کا تجھ سے وعدہ کا جاتا تھا۔وہ پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو شرّ کے ساتھ آتا ہے؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں۔ وہ قبر والا کہتا ہے: اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا۔

Haidth Number: 3028

۔ (۳۰۲۹) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ:) حَتّٰی إِذَا خَرَجَ رُوْحُہُ صَلّٰی عَلَیْہِ کُلُّ مَلَکٍ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَکُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَائِ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَلَیْسَ مِنْ أَہْلِ بَابٍ إِلَّا وَہُمْ یَدْعُوْنَ اللّٰہَ أَنْ یُعْرَجَ بِرُوْحِہِ مِنْ قِبَلِہِمْ، فَإِذَا عُرِجَ بِرُوْحِہِ قَالُوْا: رَبِّ عَبْدُکَ فُلَانٌ، فَیَقُوْلُ: اِرْجِعُوْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُّ إِلَیِہِمْ أَنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا اُعِیْدُہُمْ، وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرٰی، قَالَ: فَإِنَّہُ یَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِ أَصْحَابِہِ إِذَا وَلَّوْا عَنْہُ فَیَأْتِیْہِ آتٍ، فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ، مَا دِیْنُکَ،مَنْ نَبِیُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ، وَدِیْنِیَ اْلإِسْلَامُ، وَنَبِیِّیْ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَنْتَہِرُہُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ، مَا دِیْنُکَ، مَنْ نَبِیُّکَ؟ وَہِیَ آخِرُ فِتْنَۃٍ تُعْرَضُ عَلَی الْمُؤْمِنِ فَذَالِکِ حِیْنَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمُنْوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔} فَیَقُوْلُ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَدِیْنِیَ الإِسْلَامُ وَنَبِیِّی مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَیَقُوْلُ لَہُ: صَدَقْتَ، ثُمَّ یَأْتِیْہِ آتٍ حَسَنُ الْوَجْہِ طَیِّبُ الرِّیْحِ حَسَنُ الثِّیَابِ، فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِکَرَامَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَنَعِیْمٍ مُقِیْمٍ، فَیَقُوْلُ: وَأَنْتَ فَبَشَّرَکَ اللّٰہُ بِخَیْرٍ، مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: اَنَا عَمَلُکَ الصَّالِحُ، کُنْتَ وَاللّٰہِ سَرِیْعًا فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ بَطِیِْئًا عَنْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ الْجَنَّۃِ وَبَابٌ مِنَ النَّارِ، فَیُقَالُ: ہٰذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَوْ عَصَیْتَ اللّٰہَ، أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ ہٰذَا، فَإِذَا رَأیٰ مَا فِی الْجَنَّۃِ قَالَ: رَبِّ عَجِّلْ قِیَامَ السَّاعَۃِ کَیْمَا أَرْجِعَ إِلٰی أَہْلِی وَمَالِی، فَیُقَالُ لَہُ: اُسْکُنْ وَإِنَّ الْکَافِرَ أِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَۃِ نَزَلَتْ عَلَیْہِ مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ فَانْتَزَعُوْا رُوْحَہُ کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ الْکَثِیْرُ الشَّعْبِ مِنَ الصُّوْفِ الْمُبْتَلِّ، وَتُنْزَعُ نَفْسُہُ مَعَ الْعُرُوْقِ فَیَلْعَنُہُ کُلُّ مَلَکٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَکُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَائِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَائِ لَیْسَ مِنْ أَہْلِ بَابٍ إِلَّا وَہُمْ یَدْعُوْنَ اللّٰہُ أَنْ لَّاتَعْرُجَ رُوْحُہُ مِنْ قَبَلِھِمْ فَاِذَا عُرِجَ بِرُوْحِہٖ قَالُوْا: رَبِّ! فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ عَبْدُکَ، قَالَ: اِرْجِعُوْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُّ إِلَیْہِمْ أَنِّیْ مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیْہَا أُعْیِدُہُمْ وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تاَرَۃً أُخْرٰی، قَالَ: فَإِنَّہُ لَیْسْمَعُ خفَقْ نِعَالِ أَصْحَابِہِ إِذَا وَلَّوْا عَنْہُ، قَالَ: فَیَأْتِیْہِ آتٍ فَیَقُوْلُ: مَنْ رَبُّکَ؟ مَا دِیْنُکَ؟ مَنْ نَبِیُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، فَیَقُوْلُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَوْتَ،وَیَأْتِیْہِ آتٍ قَبِیْحُ الْوَجْہِ قَبِیْحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیْحِ، فَیَقُوْلُ أَبْشِرْ بِہَوَانٍ مِنَ اللّٰہِ وَعَذَابٍ مُقِیْمٍ، فَیَقُوْلُ: وَأَنْتَ فَبَشَّرَکَ اللّٰہُ بِالشَرِّ مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الْخَبِیْثُ، کُنْتَ بَطِیْئًا عَنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ سَرِیْعًا فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، فَجَزَاکَ اللّٰہُ شَرًّا،ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہُ أَعْمٰی أَصَمُّ أَبْکَمُ فِی یَدِہِ مِرْزَبَۃٌ،لَوْ ضُرِبَ بِہَا جَبَلٌ کَانَ تُرَابًا، فَیَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً حَتّٰی یَصِیْرَ تُرَابًا، ثُمَّ یُعِیْدُہُ اللّٰہُ کَمَا کَانَ فَیَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُہُ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ۔)) قَالَ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ النَّارِ وَیُمَہَّدُ مِنْ فُرُشِ النَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۱۵)

(دوسری سند)اس میں ہے:جب نیک آدمی کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے درمیان والا اور آسمان کا ہر فرشتہ اس کے لیے رحمت کی دعاء کرتا ہے اور آسمان کے ہر دروازے والے فرشتے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس نیک بندے کی روح ان کے دروازے کے راستے سے اوپر کو جائے۔ جب اس کی روح کو اوپر لے جایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں، اے رب! یہ تیرا فلاں بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسے واپس لے جائو، میرا ان سے وعدہ ہے کہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹائوں گا اور دوسری مرتبہ ان کو اسی سے نکالوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (میت) واپس جانیوالے لوگوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، اتنے میں فرشتہ اس کے پاس آ جاتا ہے اور پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ نیک آدمی جواب دیتا ہے:میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ یہ جواب سن کر فرشتہ اسے جھڑکتا ہے اور پھر پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ (حقیقت میں) یہ مومن کی آزمائش اور امتحان کا آخری موقعہ ہوتاہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمُنْوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔} (سورۂ ابراہیم: ۲۷) یعنی: اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت میں صحیح بات پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ (دوبارہ) جواب میں کہتا ہے:میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، اس دفعہ فرشتہ کہتا ہے کہ تمہارے جواب درست ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک حسین و جمیل، عمدہ خوشبو والا اور خوش لباس آدمی آ کر کہتا ہے: تم کو اللہ کی طرف سے اکرام اور ہمیشہ کی نعمتوں کی بشارت ہو۔ یہ کہتا ہے: تجھے بھی اللہ اچھی بشارتیں دے، تم کون ہو؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا ہی نیک عمل ہوں، اللہ کی قسم! تو اللہ کی اطاعت کرنے میں تیز اور گناہ کرنے میں سست ہوتا تھا، اللہ تجھے اچھا بدلہ دے۔پھر اس کے لیے جنت اور جہنم دونوں طرف سے ایک ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: اگر تم اللہ کی نافرمانی کرتے تو تمہارا (جہنم والا) یہ ٹھکانہ ہوتا۔ اب اللہ نے تیرے لیے ا س کے عوض یہ (جنت والی) جگہ تیار کی ہے۔ پھر جب وہ جنت کے مناظر اور نعمتیں دیکھتا ہے تو کہتا ہے:اے میرے رب! قیامت جلدی بپا کر تاکہ میں اپنے اہل اور مال میں لوٹ سکوں۔ لیکن اسے کہا جائے گا: تم یہاں سکون کرو۔ رہا مسئلہ کافر کا تو جب وہ دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس تند مزاج اور سخت طبیعت فرشتے آ کر اس کی روح کو یوں کھینچتے ہیں جیسے زیادہ شاخوں والی سلاخ کو گیلی اون میں سے کھینچا جاتا ہے اور اس کی روح رگوں سمیت نکال لی جاتی ہے۔زمین و آسمان کے درمیان والا اور آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ہر دروازے کے فرشتے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح ان کے دروازے سے نہ گزرنے پائے۔ جب اس کی روح کو اوپر لے جایا جاتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب! یہ تیرا فلاں بن فلاں بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسے واپس لے جائو۔ میرا ان سے وعدہ ہے کہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹائوں گا اور دوبارہ میں انہیں وہیں سے نکا لوں گا، وہ واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے، اتنے میں فرشتہ اس کے پاس آ جاتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواباً کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ فرشتہ کہتا ہے: تونے نہ سمجھا اور نہ اللہ کی کتاب کو پڑھا۔ اس کے بعد اس کے پاس ایک انتہائی بدصورت اور گندے لباس ولا بدبودار آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تجھے اللہ کی طرف سے ذلت و رسوائی اور دائمی عذاب کی بشارت ہو۔ وہ کہتا ہے:تجھے بھی برائی کی بشارت ہو، تو کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں، تو اللہ کی اطاعت کرنے میں سست اور گناہ کرنے میں تیز تھا۔ اللہ تجھے برا بدلہ دے۔ پھر اس پر ایک اندھا، بہرا اور گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اگر وہ پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے۔فرشتہ زور سے اسے یہ گرز مارتا ہے، وہ آدمی مٹی ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ ٹھیک کر دیتا ہے۔ وہ پھر اسے مارتا ہے، جس کی وجہ سے وہ چیختا چلاتا ہے، اور اس کی چیخ و پکار کو جن و انس کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 3029
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ مسجد میں جھاڑ و دینے والا ایک سیاہ فام آدمی تھا یا عورت تھی، وہ فوت ہو گیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وہ نظر نہ آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: مسجد کی صفائی کرنے والے کا کیا بنا؟ کسی نے کہا کہ وہ تو فوت ہو گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے کہا: یہ رات کا واقعہ تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی قبر کی طرف میری رہنمائی کرو۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر پر تشریف لے گئے اور نمازجنازہ ادا کی۔ اس حدیث کے راوی ثابت نے یہ یا کوئی اور حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں، میری اس نماز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو منور کر دیا ہے۔

Haidth Number: 3168
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، وہ رات کو فوت ہو گیا اور اسے رات کو ہی دفن کر دیا گیا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چلو اس کی قبر کی طرف، یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ان پر میری نماز کی وجہ سے روشن کر دیتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی قبر کے پاس آئے اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ ایک انصاری صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا بھائی فوت ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اس کی قبر کہاں ہے؟ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے۔

Haidth Number: 3169
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دفن کر دی جانے والی ایک عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی۔

Haidth Number: 3170
سیّدنا یزید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ نکلے، جب ہم بقیع میں پہنچے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں ایک نئی قبر دیکھ کر اس کے متعلق پوچھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا گیا کہ یہ فلاں عورت کی قبر ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے پہچان لیا اور پھر پوچھا: تم نے مجھے اس کے بارے میں بتلایا کیوں نہیں تھا؟ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ روزے کی حالت میں تھے اور قیلولہ کر رہے تھے، اس لیے ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ایسے نہ کیا کرو،) جب بھی تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں تو مجھے ضرور اطلاع دیا کرو، کیونکہ کسی میت پر میرا نماز جنازہ ادا کرنا اس کے لیے باعث ِ رحمت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں اپنے پیچھے صفوں میں کھڑا کیا اور چار تکبیرات کہیں۔

Haidth Number: 3171
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک قبر والے پر اس کی تدفین کے بعد اس کی نماز جنازہ ادا کی۔

Haidth Number: 3172
(دوسری سند) امام شعبیkکہتے ہیں: مجھے ایک ایسے آدمی نے خبر دی جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرا تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کی امامت کرائی اور انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں۔ سلیمان شیبانی نے کہا: اے ابو عمرو! آپ کو یہ واقعہ کس نے بیان کیا تھا؟ انھوں نے کہا: سیّدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے۔

Haidth Number: 3173
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ بنو ساعدہ کے بھائی سیّدناسعد بن عبادہ ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا، جبکہ وہ موجود نہیں تھے،بعد میں انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھتے ہوئے کہا:اے اللہ کے رسول! میری عدم موجودگی میں میری ماں فوت ہو گئی ہے،اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا جی ہاں۔ تو انہوں نے کہا:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخرف (یا مخراف) نامی باغ اس کے لیے صدقہ ہے۔

Haidth Number: 3289
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہا کہ: میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے، میرا خیال ہے کہ وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی، تو اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔

Haidth Number: 3290
حسن کہتے ہیں کہ سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا،انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کونسا صدق افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانی پلانا۔ اس نے کہا: مدینہ میںیہ آل سعد کی سبیل ہے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے قتادہ سے پوچھا کہ مدینہ میں یہ آل سعد کی سبیل ہے کے الفاظ کہنے والا راوی کون ہے۔ انھوں نے کہا: حسن ہے۔

Haidth Number: 3291
سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: میری والدہ فوت ہو گئی ہے، جبکہ ان پر ایک نذر بھی تھی، اب اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کروں تو ان کو کفایت کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی ماں کی طرف سے آزاد کرو۔

Haidth Number: 3292
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عاص بن وائل نے جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی، (پھر وہ مر گیا اوراس کے ایک بیٹے) ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیئے، لیکن سیّدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور پھر تم اس کی طرف سے روزے رکھتے اور صدقہ کرتے تو اسے اس کا فائدہ ہوتا۔

Haidth Number: 3293
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور انھوں نے مال تو چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، تو کیاان کی طرف سے میرا صدقہ کرناان کے گناہوں کا کفارہ بن سکتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔

Haidth Number: 3294