Blog
Books
Search Hadith

سورۂ توبہ اس سورت کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کے نہ لکھنے کی وجہ کا بیان

18 Hadiths Found

۔ (۸۶۱۴)۔ عَنْ یَزِیدَ قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَی الْأَنْفَالِ، وَہِیَ مِنَ الْمَثَانِی وَإِلٰی بَرَائَ ۃٌ، وَہِیَ مِنْ الْمِئِینَ فَقَرَنْتُمْ بَیْنَہُمَا وَلَمْ تَکْتُبُوْا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: بَیْنَہُمَا سَطْرًا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ وَوَضَعْتُمُوہَا فِی السَّبْعِ الطِّوَالِ، مَا حَمَلَکُمْ عَلَیذَلِکَ؟ قَالَ عُثْمَانُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ مِمَّا یَأْتِی عَلَیْہِ الزَّمَانُ، یُنْزَلُ عَلَیْہِ مِنْ السُّوَرِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَکَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ الشَّیْئُ،یَدْعُو بَعْضَ مَنْ یَکْتُبُ عِنْدَہُ یَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذَا فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔))، وَیُنْزَلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیَاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔))، وَیُنْزَلُ عَلَیْہِ الْآیَۃُ فَیَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیَۃَ فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔)) وَکَانَتْ الْأَ نْفَالُ مِنْ أَ وَائِلِ مَا أُنْزِلَ بِالْمَدِینَۃِ وَبَرَائَ ۃٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، فَکَانَتْ قِصَّتُہَا شَبِیہًا بِقِصَّتِہَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا أَ نَّہَا مِنْہَا، وَظَنَنْتُ أَنَّہَا مِنْہَا، فَمِنْ ثَمَّ قَرَنْتُ بَیْنَہُمَا وَلَمْ أَکْتُبْ بَیْنَہُمَا سَطْرًا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَوَضَعْتُہَا فِی السَّبْعِ الطِّوَالِ۔ (مسند احمد: ۳۹۹)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم اس پرکیوں آمادہ ہوئے کہ سورۂ انفال جو کہ مَثَانِی سورتوں میں سے ہے اور سورۂ توبہ، جو کہ مِئِیْن سورتوں میں سے ہے، تم نے ان دونوں کو آپس میں ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی اور تم نے اس کو سات لمبی سورتوں میں شامل کر دیا، کیا وجہ ہے؟سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کافی عرصے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہی نہ ہوتی اور کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ کئی سورتوں نازل ہو جاتیں، بہرحال جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تو کاتب کو بلاتے اور اس سے فرماتے: یہ آیات اس سورت میں لکھو،جس میں ایسے ایسے امور کا ذکر موجود ہے، اگر پھر کوئی آیت اترتی تو پھر فرماتے: یہ آیت اس سورت میں لکھ دو، جس میں ایسا ایسا ذکر کیا گیا ہے۔ اب سورۂ انفال وہ سورت ہے، جو مدینہ میں شروع شروع میں نازل ہوئی اور سورۂ توبہ قرآن مجید کی آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے،جبکہ ان کا واقعہ آپس میں ملتا جلتا ہے، اور اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے سامنے (ان دو سورتوں کے) بارے میں وضاحت نہیں فرمائی تھی، اس لیے میں نے خیال کیا کہ سورۂ انفال، سورۂ توبہ کا حصہ ہے، اس لئے میں نے دونوں کو آپس میں ملا دیا اور درمیان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی اور اس کو سات لمبی سورتوں میں رکھ دیا۔

Haidth Number: 8614

۔ (۸۶۱۵)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ أَ بِی بَکْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَہُ بِبَرَائَ ۃٍ لِأَ ہْلِ مَکَّۃَ لَا یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ، مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُدَّۃٌ فَأَ جَلُہُ إِلَی مُدَّتِہِ، وَاللّٰہُ بَرِیئٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَسَارَ بِہَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: ((اِلْحَقْہُ، فَرُدَّ عَلَیَّ أَ بَا بَکْرٍ وَبَلِّغْہَا أَ نْتَ۔)) قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ بُو بَکْرٍ بَکٰی قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ حَدَثَ فِیَّ شَیْئٌ؟ قَالَ: ((مَا حَدَثَ فِیْکَ اِلَّا خَیْرٌ، اُمِرْتُ اَنْ لَا یُبَلِّغَہٗ اِلَّا اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِنِّیْ۔)) (مسند احمد: ۴)

۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجا اوراہل مکہ سے اس براء ت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کرے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو گا، جو مسلمان ہو گا، جس شخص کا پیغمبراسلام ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کسی خاص مدت تک کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس پیغام کو لے کر روانہ ہوگئے اور تین دن کی مسافت طے کرچکے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: ابوبکر کو پیچھے سے جا ملو، انہیں میری طرف واپس کر دو اور یہ اعلان تم نے کرنا ہے۔ سو انھوں نے ایسے ہی کیا، لیکن جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول!کیا میرے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے کہ (مجھے واپس بلا لیا)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے بارے صرف خیر ہی پیش آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ پیغام خود مجھے پہنچانا چاہیےیا میرے خاندان کے کسی آدمی کو۔

Haidth Number: 8615

۔ (۸۶۱۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ عَشْرُ آیَاتٍ مِنْ بَرَائَ ۃٍ عَلٰی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، دَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ بَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَبَعَثَہُ بِہَا لِیَقْرَأَ ہَا عَلَی أَ ہْلِ مَکَّۃَ، ثُمَّ دَعَانِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((أَ دْرِکْ أَ بَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَحَیْثُمَا لَحِقْتَہُ فَخُذِ الْکِتَابَ مِنْہُ، فَاذْہَبْ بِہِ إِلٰی أَ ہْلِ مَکَّۃَ فَاقْرَأْہُ عَلَیْہِمْ۔)) فَلَحِقْتُہُ بِالْجُحْفَۃِ فَأَخَذْتُ الْکِتَابَ مِنْہُ، وَرَجَعَ أَ بُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَزَلَ فِیَّشَیْئٌ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنَّ جِبْرِیلَ جَائَ نِیْ فَقَالَ: لَنْ یُؤَدِّیَ عَنْکَ إِلَّا أَ نْتَ أَ وْ رَجُلٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۷)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ براء ت کی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا کہ وہ مکہ والوں کے سامنے ان کی تلاوت کریں، پھر مجھے (علی کو) کو بلایا اور فرمایا: ابو بکر کو جا ملو، جہاں بھی تم ان کو ملو، ان سے یہ پیغام لے لینا اور پھر اہل مکہ کے سامنے جا کر پڑھ دینا۔ پس میں نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حجفہ میں جا ملا اور ان سے خط لے لیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لوٹے تو پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، کوئی حکم نہیں ہے، بس جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ پیغامیا تو آپ خود پہنچائیںیا آپ کے خاندان کا کوئی آدمی پہنچائے۔

Haidth Number: 8616
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سورۂ براء ت کا اعلان دے کر بھیجا تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نہ زیادہ زبان دان ہوں اور نہ ہی خطیب ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں ہے کہ میں خود جاؤں، یا پھر تم جاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر کوئی چارۂ کار نہیں ہے تو پھر میں ہی چلا جاتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم چلے جائو،اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو ثابت قدم رکھے گا اور تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے منہ پر رکھا۔

Haidth Number: 8617
۔ ہمدان کا باشندہ زید بن اثیع سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: ہم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ ان کو کس چیز کے ساتھ بھیجا گیا تھا، جس دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ حج کے لیے بھیجا تھا؟ انھوں نے کہا: مجھے چار چیزوں کے ساتھ بھیجا گیا تھا:(۱) جنت میں صرف مومن آدمی داخل ہوگا، (۲) کوئی برہنہ آدمی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، (۳) جس کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی معاہدہ ہے،تو وہ عہد اپنی مدت تک قائم رہے گا اور (۴) اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان ایک ساتھ حج نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 8618
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حنین کے اموالِ غنیمت جعرانہ کے مقام پر تقسیم کیے، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اردگر جمع ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہجوم کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا، جب قوم نے اس کی تکذیب کی اور اس کا سر زخمی، خون آلود کیا، تو وہ اپنی پیشانی سے خون صاف کرتا اور کہتا تھا، اے میرے رب! میری قوم کو معاف کر دے، وہ حقیقت سے واقف نہیں۔ ابو وائل کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: گویا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس بندے کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشانی کو صاف کرنے کا اشارہ بھی کر رہے تھے۔

Haidth Number: 10916
سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ بغض تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حنین کے دن مجھے مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا اور مجھے برابر عنایت فرماتے رہے تاآنکہ وہ میری نظروں میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ٹھہرے۔

Haidth Number: 10917
جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں جعرانہ والے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کپڑے میں چاندی ڈال کر لوگوں میں تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! انصاف کرو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھ پر بڑا افسوس ہے، اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو اور کون کرے گا؟ اگر میں انصاف نہیں کیا تو تو میںیقینا سر ا سر خسارے میں ہوں۔ اس آدمی کی بات سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کا کام تمام کر دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ، لوگ باتیں بنائیں گے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے دوسرے ساتھی (بظاہر) قرآن تو پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ ان کے حلق سے یا سینے سے نیچے نہیں اترتا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے تیر شکار میں سے پار گزر جاتا ہے۔

Haidth Number: 10918

۔ (۱۰۹۱۹)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: شَہِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَجَائَتْہُ وُفُودُ ہَوَازِنَ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِیرَۃٌ فَمُنَّ عَلَیْنَا مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، فَإِنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِنَا مِنْ الْبَلَائِ مَا لَا یَخْفٰی عَلَیْکَ، فَقَالَ: ((اخْتَارُوا بَیْنَ نِسَائِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَأَبْنَائِکُمْ۔)) قَالُوا: خَیَّرْتَنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا نَخْتَارُ أَبْنَائَ نَا، فَقَالَ: ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ، فَإِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُولُوا: إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَبِالْمُؤْمِنِینَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا۔)) قَالَ: فَفَعَلُوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ۔)) وَقَالَ الْمُہَاجِرُونَ: وَمَا کَانَ لَنَا فَہُوَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِثْلَ ذٰلِکَ، وَقَالَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ: أَمَّا مَا کَانَ لِی ولِبَنِی فَزَارَۃَ فَلَا،وَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِیمٍ فَلَا، وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَیْمٍ فَلَا، فَقَالَتِ الْحَیَّانِ: کَذَبْتَ بَلْ ہُوَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَیْہِمْ نِسَائَہُمْ وَأَبْنَائَہُمْ، فَمَنْ تَمَسَّکَ بِشَیْئٍ مِنَ الْفَیْئِ فَلَہُ عَلَیْنَا سِتَّۃُ فَرَائِضَ، مِنْ أَوَّلِ شَیْئٍیُفِیئُہُ اللّٰہُ عَلَیْنَا۔)) ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ وَتَعَلَّقَ بِہِ النَّاسُ یَقُولُونَ: اقْسِمْ عَلَیْنَا فَیْئَنَا بَیْنَنَا حَتّٰی أَلْجَئُوہُ إِلٰی سَمُرَۃٍ فَخَطَفَتْ رِدَائَہُ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَیَّ رِدَائِی، فَوَاللّٰہِ! لَوْ کَانَ لَکُمْ بِعَدَدِ شَجَرِ تِہَامَۃَ نَعَمٌ لَقَسَمْتُہُ بَیْنَکُمْ ثُمَّ لَا تُلْفُونِی بَخِیلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا کَذُوبًا۔)) ثُمَّ دَنَا مِنْ بَعِیرِہِ فَأَخَذَ وَبَرَۃً مِنْ سَنَامِہِ فَجَعَلَہَا بَیْنَ أَصَابِعِہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی ثُمَّ رَفَعَہَا فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ لَیْسَ لِی مِنْ ہٰذَا الْفَیْئِ وَلَا ہٰذِہِ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ، فَرُدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمِضْیَطَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ یَکُونُ عَلٰی أَہْلِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَارًا وَنَارًا وَشَنَارًا۔)) فَقَامَ رَجُلٌ مَعَہُ کُبَّۃٌ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَذْتُ ہٰذِہِ أُصْلِحُ بِہَا بَرْدَعَۃَ بَعِیرٍ لِی دَبِرَ، قَالَ: ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکَ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرٰی فَلَا أَرَبَ لِی بِہَا وَنَبَذَہَا۔ (مسند احمد: ۶۷۲۹)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ حنین کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، کہ بنو ہوازن کے وفود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے عرض کیا: اے محمد! ہم آپ ہی کا خون اور قبیلہ ہیں، آپ ہم پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ بے شک ہم پر ایک ایسی آزمائش آن پڑی ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخفی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی عورتوں، اموال اور بیٹوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو۔ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اپنے حسب ونسب اور اموال کے بارے میں اختیار دیا ہے تو ہم اپنے بیٹوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں جوکچھ آتا ہے، وہ تمہیں واپس کرتا ہوں، جب میں ظہر کی نماز ادا کر لوں تو تم کہنا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مومنین کے سامنے اور مومنین کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی عورتوں اور اولادوں کے بارے میں درخواست گزار ہیں۔ انھوں نے ایسے ہی کیا اور جب انھوں نے کہا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کچھ میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں آتا ہے، میں وہ تمہیں واپس کرتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر مہاجرین نے کہا: جو کچھ ہمارے حصہ میں آتا ہے، ہم وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیتے ہیں۔ انصار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کہا، عیینہ بن بدر بولا کہ جو میرا اور بنو فزارہ کا حصہ ہے ہم تو وہ نہیں دیں گے۔ اقرع بن حابس نے بھی کہا کہ میں اور بنو تمیم بھی اپنے حصے واپس نہیں کریں گے۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی اپنے حصے واپس نہیں کرتے۔ اس پر دونوں قبائل نے کہا تم نے غلط کہا: بلکہ ہمارے حصے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہیں۔ تب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو!تم ان کی عورتیں اور بیٹے انہیں لوٹا دو، جو آدمی مالِ فے میں سے کچھ رکھنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سب سے پہلے جو مالِ فے دے گا، ہم اسے اس میں سے چھ چھ حصے دیں گے، اس کے بعد آپ اپنے اونٹ پر سوار ہو گئے اور لوگ آپ کو چمٹ گئے، وہ کہہ رہے تھے کہ آپ مال فے ہمارے درمیان تقسیم کریں۔ انہوں نے آپ کو کیکریا ببول کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اچک لی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میری چادر تو واپس کرو۔ اللہ کی قسم! اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی اونٹ ہوں تو میں ان کو تمہارے درمیان بانٹ دوں گا اور تم مجھے بخیل، بزدل اور جھوٹا نہیں پاؤ گے۔ پھر آپ نے اپنے اونٹ کے قریب ہو کر اس کے کوہان کے چند بال پکڑ کر اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان پکڑ کر انگلی کو اوپر کی طرف اُٹھا کر فرمایا: لوگو! اس مال فے میں سے اتنی سی چیز بھی میری نہیں، سوائے خمس کے، اور وہ بھی تم میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، تم دھاگہ اور سوئی تک یعنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی واپس کرو۔ بے شک مال غنیمتیا مالِ فے کی تقسیم سے پہلے کوئی چیز لینا اس آدمی کے لیے قیامت کے دن عار، نار اور عیب کا سبب ہو گا، ایک آدمی جس کے پاس بالوں کا ایک گچھا تھا، وہ اٹھا اور اس نے کہا: میں نے اپنے اونٹ کی پشت پر آئے ہوئے زخم کے اوپر رکھے جانے والے کپڑے کی مرمت کے لیےیہ گچھا لے لیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس گچھے میں جو میرا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ ہے، میں تمہیں وہ معاف کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا: یارسول اللہ! جب بات اس حد تک جا پہنچی ہے، جو میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ کہہ کر اس نے وہ گچھا پھینک دیا۔

Haidth Number: 10919

۔ (۱۰۹۲۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ حِینَ جَائَہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، فَسَأَلُوا أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ إِمَّا السَّبْیُ وَإِمَّا الْمَالُ، وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ۔)) وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمُسْلِمِینَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُ وْا تَائِبِینَ، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلٰی حَظِّہِ حَتَّی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیئُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتّٰییَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ۔)) فَجَمَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا، ہٰذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۲۱)

عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدنا مروان اور سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اسے خبردی کہ جب ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے اموال اور قیدی واپس لوٹا دیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم دیکھ رہے ہو کہ میرے ساتھ کتنے لوگ ہیں، سچی بات کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے، لہٰذا تم قیدیوںیا مال میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرو، میں اس سے پہلے تمہیں کچھ مہلت دے چکا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف سے واپسی پر انہیں دس سے زائد راتوں کی مہلت دی تھی،یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اتنا عرصہ ان کا انتظار کرتے رہے، جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو دو میں سے کوئی ایک چیز ہی واپس کریں گے، تو انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں واپس کر دئیے جائیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسلمانوں میں کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ان الفاظ کے ساتھ حمد وثناء بیان کی جس کا حقدار ہے اور پھر فرمایا: تمہارےیہ بھائی تائب ہو کر آئے ہیں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو ان کے حوالے کر دوں، تم میں سے جو کوئی خوشی سے ایسا کرنا چاہیے تو کرلے اور تم میں سے جو اپنا حصہ لینا چاہتا ہو تو ہمارے پاس سب سے پہلے جو مالِ فے آئے گا، ہم اس سے ان کو حصہ ادا کر دیں گے، جو کوئی ایسا کرنا چاہتا ہو وہ ایسے کر لے۔ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بھی بخوشی ایسا ہی کرتے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ تم میں سے کس نے اس بات کی اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی، تم لوگ واپس جاؤ اور تمہاری طرف سے تمہارے نمائندے ہمارے پاس آکر تمہاری بات پہنچائیں گے۔ ان نمائندوں نے لوگوں کو جمع کر کے ان سے گفتگو کی، انہوں نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خبر دی کہ انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی ہے۔ عروہ نے کہا کہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ حدیث پہنچی۔

Haidth Number: 10920
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں فرمایا: یہ عباس بن عبد المطلب ہیں، جو کہ قریش میں سب سے زیادہ فراخ دست (یعنی سخی) اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔

Haidth Number: 11835
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے والد پر طنز کیا، وہ دورِ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے، عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (طیش میں آکر) اسے تھپڑ رسید کر دیا،انصاری کی قوم کے لوگ آگئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم، جس طرح اس نے تھپڑ مارا ہے، ہم بھی بدلے میں اسے ضرور تھپڑ ماریں گے، وہ لوگ اسلحہ سے مسلح ہو کر آ گئے۔ جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: لوگو! روئے زمین کے لوگوں میں اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: جی آپ ہیں ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر عباس میرا ہے اور میں عباس کا ہوں، تم ہمارے فوت شدہ لوگوں کو برا بھلا کہہ کر ہمارے زندہ لوگوں کو ایذا نہ پہنچائو۔ پھر ان لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے غصہ اور ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

Haidth Number: 11836

۔ (۱۱۸۳۷)۔ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضَبًا، فَقَالَ لَہُ: ((مَا یُغْضِبُکَ؟)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لَنَا وَلِقُرَیْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَیْنَہُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوہٍ مُبْشِرَۃٍ، وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی احْمَرَّ وَجْہُہُ وَحَتَّی اسْتَدَرَّ عِرْقٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَکَانَ إِذَا غَضِبَ اسْتَدَرَّ فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ، قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، (أَوْ قَالَ) وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَا یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِیمَانُ حَتّٰی یُحِبَّکُمْ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! مَنْ آذَی الْعَبَّاسَ فَقَدْ آذَانِی، إِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیہِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۵۷)

سیدنا عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب سے مروی ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصے کی حالت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت کیا: تمہیں کس بات پر غصہ آیا ہے؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا عداوت ہے؟ وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے خوش ہو کر ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ان کے چہرے بدل جاتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر غضب ناک ہوئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا، ویسے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شدید غصہ آتا تھا تو پسینہ بہنے لگتا تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے تم سے محبت نہیں کرے گا۔ (دوسری روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرے گا) پھر فرمایا: لوگو! (یاد رکھو) جس نے عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایذا پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف دی، آدمی کا چچا اس کے باپ کی ہی ایک قسم ہوتا ہے۔

Haidth Number: 11837
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: یااللہ! مجھے اس سے محبت ہے،پس تو اس سے بھی محبت کرے اور اس سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔

Haidth Number: 12396

۔ (۱۲۳۹۷)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمَدِینَۃِ، فَانْصَرَفَ وَانْصَرَفْتُ مَعَہُ، فَجَائَ إِلٰی فِنَائِ فَاطِمَۃَ فَنَادَی الْحَسَنَ، فَقَالَ: ((أَیْ لُکَعُ! أَیْ لُکَعُ! أَیْ لُکَعُ!)) قَالَہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ، قَالَ: فَانْصَرَفَ وَانْصَرَفْتُ مَعَہُ، قَالَ: فَجَائَ إِلٰی فِنَائِ عَائِشَۃَ فَقَعَدَ، قَالَ: فَجَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ،قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: ظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّہُ حَبَسَتْہُ لِتَجْعَلَ فِی عُنُقِہِ السِّخَابَ، فَلَمَّا جَائَ الْتَزَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْتَزَمَ ہُوَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ، وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۸۳۶۲)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ مدینہ کے ایک بازار میں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر کی طرف گئے اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاتے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: او بچے! او چھوٹو! او بچے! کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کا جواب نہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آگئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ لوٹ آیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر جاکر بیٹھ گئے، اتنے میں سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آگئے، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ان کو ان کی والدہ نے ان کے گلے میں ہار کی مانند کوئی چیز ڈالنے کے لیے روک لیا تھا، جب وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو گلے لگالیا اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گلے سے لگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس وقت تین بار فرمایا: یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، پس تو اس سے بھی محبت کر اور اس سے محب کرنے والے سے بھی محبت کر۔

Haidth Number: 12397
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے بنو قینقاع کے بازار کی طرف تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں چکر لگایا، اس کے بعد واپس آکر مسجد میں بیٹھ گئے اور فرمایا: چھوٹا کہاںہے؟ چھوٹو کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔ اتنے میں سیدنا حسن علیہ السلام آگئے اور دوڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگایا اور تین بار فرمایا: یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے اور اس سے محبت کرنے والوں سے محبت فرما۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں جب بھی سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

Haidth Number: 12398
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زبان کو یا ہونٹ کو چوس رہے تھے اور جس زبان یا ہونٹوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چوما ہو، اسے عذاب نہیں ہوگا۔

Haidth Number: 12399
عمیر بن اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا کہ ہم سے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آملے اور انہوں نے لپا: حسن! مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے اس مقام کو بوسہ دوں، جس مقام پر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے ان کی قمیص اوپر اٹھا کر ان کی ناف پر بوسہ دیا۔

Haidth Number: 12400