Blog
Books
Search Hadith

{اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ…} کی تفسیر

12 Hadiths Found

۔ (۸۶۱۹)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ: کُنْتُ إِلٰی جَانِبِ مِنْبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُبَالِیْ أَ نْ لَا أَ عْمَلَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَ نْ أَ سْقِیَ الْحَاجَّ، وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَالِیْ أَ نْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَ نْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَقَالَ آخَرُ: الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَ فْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ، فَزَجَرَہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَقَالَ: لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، وَلٰکِنْ إِذَا صَلَّیْتُ الْجُمُعَۃَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَیْتُہُ فِیمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ: {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِکُلِّہَا [التوبۃ: ۱۹]۔ (مسند احمد: ۱۸۵۵۷)

۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منبر کی ایک جانب بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی نے کہا، اسلام کے بعد مجھے کوئی عمل کرنے کی پرواہ نہیں ہے، الا یہ کہ حاجیوں کو پانی پلائوں گا۔ دوسرے نے کہا: مجھے اسلام کے بعد مسجد حرام آباد کرنے کے علاوہ کوئی عمل کرنے کی پرواہ نہیں ہے، ایک اور بولا اور اس نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو، اس سے افضل اور بہتر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں ڈانٹا اور کہا: منبر رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو، یہ جمعہ کا دن تھا، جب میں نے جمعہ ادا کر لیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور ان لوگوں کے اختلاف کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا، تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {اَجَعَلْتُمْ سِقَا یَـۃَ الْحَاجِّ وَ عِـمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔} (سورۂ توبہ: ۱۹) کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

Haidth Number: 8619

۔ (۱۰۹۲۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ فَقَالَ الْعَلَاء ُ بْنُ زِیَادٍ الْعَدَوِیُّ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ سِنُّ أَیِّ الرِّجَالِ کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ بُعِثَ، قَالَ: ابْنَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، قَالَ: ثُمَّ کَانَ مَاذَا؟ قَالَ: کَانَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ، فَتَمَّتْ لَہُ سِتُّونَ سَنَۃً، ثُمَّ قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْہِ، قَالَ: سِنُّ أَیِّ الرِّجَالِ ہُوَ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: کَأَشَبِّ الرِّجَالِ وَأَحْسَنِہِ وَأَجْمَلِہِ وَأَلْحَمِہِ، قَالَ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! ہَلْ غَزَوْتَ مَعَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْتُ مَعَہُ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَخَرَجَ الْمُشْرِکُونَ بِکَثْرَۃٍ، فَحَمَلُوا عَلَیْنَا حَتّٰی رَأَیْنَا خَیْلَنَا وَرَائَ ظُہُورِنَا، وَفِی الْمُشْرِکِینَ رَجُلٌ یَحْمِلُ عَلَیْنَا فَیَدُقُّنَا وَیُحَطِّمُنَا، فَلَمَّا رَأٰی ذَلِکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ، فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَوَلَّوْا، فَقَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ رَأَی الْفَتْحَ، فَجَعَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُجَائُ بِہِمْ أُسَارٰی رَجُلًا رَجُلًا، فَیُبَایِعُونَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَّ عَلَیَّ نَذْرًا لَئِنْ جِیئَ بِالرَّجُلِ الَّذِی کَانَ مُنْذُ الْیَوْمِیُحَطِّمُنَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَہُ، قَالَ: فَسَکَتَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجِیئَ بِالرَّجُلِ، فَلَمَّا رَأٰی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! تُبْتُ إِلَی اللّٰہِ، یَا نَبِیَّ اللّٰہِ تُبْتُ إِلَی اللّٰہِ، فَأَمْسَکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یُبَایِعْہُ لِیُوفِیَ الْآخَرُ نَذْرَہُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَنْظُرُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَأْمُرَہُ بِقَتْلِہِ وَجَعَلَ یَہَابُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقْتُلَہُ، فَلَمَّا رَأٰی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَصْنَعُ شَیْئًایَأْتِیہِ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ نَذْرِی؟ قَالَ: ((لَمْ أُمْسِکْ عَنْہُ مُنْذُ الْیَوْمِ إِلَّا لِتُوفِیَ نَذْرَکَ۔)) فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَلَا أَوْمَضْتَ إِلَیَّ؟ فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ لِنَبِیٍّ أَنْ یُومِضَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۵۷)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان سے علاء بن زیاد عدوی نے دریافت کیا اور کہا: اے ابو حمزہ! کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کسی غزوہ میں شرکت کی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شرکت کی تھی۔ مشرکین بہت بڑی تعداد میں ہمارے مقابلے کو نکلے اور ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے، یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنے پیچھے دیکھا، مشرکین میں سے ایک آدمی بڑھ چڑھ کر ہم پر حملے کر رہا اور نقصان پہنچا رہا تھا، اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ منظر دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خچر سے نیچے اترے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکینکو ہزیمت سے دوچار کیا اور وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب فتح دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے، ان کے قیدیوں کو ایک ایک کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو وہ قبولِ اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ اصحابِ رسول میں سے ایک آدمی نے کہا: میری نذر ہے کہ اگر وہ آدمی لایا گیا جو آج سارا دن ہم پر حملے کر کے شدید نقصان پہنچاتا رہا تو میں اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ ا س کی بات سن کر اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، بالآخر وہی آدمی لایا گیا، اس نے جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو فوراً کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! میں اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں، اے اللہ کے نبی! میں اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی کچھ دیر تک رکے رہے اور اس کی بیعت قبول نہیں کی تاکہ دوسرا آدمی اپنی نذر پوری کر لے اور وہ آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھنے لگا کہ آپ اسے قتل کا حکم دیں تو وہ اسے قتل کرے۔ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مرعوب ہو کر اسے قتل کرنے کی جسارت نہیں کر سکا، جب اللہ کے نبی نے دیکھا کہ وہ آدمی کچھ کارروائی نہیں کر رہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بیعت قبول کر لی۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور میری نذر؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آج اس کی بیعت قبول کرنے میں دیر کرتا رہا تاکہ تم اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ بولا: اے اللہ کے نبی! آپ نے مجھے اشارہ ہی کر دیا ہوتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کو روانہیں کہ وہ اس طرح خفیہ اشارے کر ے۔

Haidth Number: 10921
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوگئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی میت کو بوسہ دیا، میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنسو سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ اس حدیث کے ایک راوی عبدالرحمن سے مروی ہے کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہار ہی تھیں۔

Haidth Number: 11838
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا (یا سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم جا کر ہمارے بہترین پیش رو عثمان بن مظعون سے جا ملو۔

Haidth Number: 11838

۔ (۱۱۸۳۹)۔ وَعَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیِدٍ قَالَ: کَانَتْ اُمُّ الْعَلَائِ الْاَنْصَارِیَّۃُ تَقُوْلُ: لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُوْنَ الْمَدِیْنَۃَ اِقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ عَلٰی سُکْنَاھُمْ، فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ فِی السُّکْنٰی، قَالَتْ أُمُّ الْعَلَائِ: فَاشْتَکٰی عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ عِنْدَنَا فَمَرَّضْنَاہُ حَتّٰی إِذَا تُوُفِّیَ أَدْرَجْنَاہُ فِی أَثْوَابِہِ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکَ یَا أَبَا السَّائِبِ شَہَادَتِی عَلَیْکَ لَقَدْ أَکْرَمَکَ اللَّہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَمَا یُدْرِیکِ أَنَّ اللّٰہَ أَکْرَمَہُ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: لَا أَدْرِی بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَائَہُ الْیَقِینُ مِنْ رَبِّہِ، وَإِنِّی لَأَرْجُو الْخَیْرَ لَہُ، وَاللّٰہِ! مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِی۔)) (قَالَ یَعْقُوبُ: بِہِ) قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أُزَکِّی أَحَدًا بَعْدَہُ أَبَدًا، فَأَحْزَنَنِی ذٰلِکَ فَنِمْتُ فَأُرِیتُ لِعُثْمَانَ عَیْنًا تَجْرِی، فَجِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرْتُہُ ذٰلِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ذَاکَ عَمَلُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۰۴)

سیدنا خارجہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام علاء انصاریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہا کرتی تھیں کہ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو انصار نے ان کو اپنے ہاں رہائش دینے کے لیے قرعہ اندازی کی تو سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام ہمارے حصہ میں نکل آیا، لیکن ہوا یوں کہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں بیمار پڑ گئے۔ ہم نے ان کا خوب علاج معالجہ کیا،، لیکن ان کا انتقال ہو گیا،ہم نے ان کو کفن کے کپڑوں میں لپیٹا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں نے کہا: اے ابو السائب! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میں آپ کے بارے میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ کو کیا علم کہ اللہ نے ان کی عزت و تکریم کی ہے۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، میں تو اس بارے میں کچھ نہیں1 جانتی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے رب کی طرف سے موت آئی، مجھے اس کے ! صحیح بخاری (۳۹۲۹) میں الفاظ اس طرح ہیں: لَا اَدْرِیْ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُقِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَمَنْ؟ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نہیں جانتی تو اور کون (جانتا ہے)؟ ام العلاء انصاریہ کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے گھر میں اس کے رہنے کی وجہ سے، مجھے اس کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور میرے خیال کے مطابق یہ نیک آدمی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصد یہ تھا کہ کسی کے بارے اخروی لحاظ سے حتمی اور قطعی رائے کا اظہار نہیں ہونا چاہیے ہاں اچھے انجام کی امید ظاہر کی جاسکتی ہے۔ (عبداللہ رفیق) بارے میں اللہ سے خیر کی امید ہے۔ اللہ کی قسم! میں اگرچہ اللہ کا رسول ہوں، لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ کل کلاں میرے ساتھ اور اس کے ساتھ کیا پیش آئے گا؟ ام العلائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں آج کے بعد کسی کی صفائی پیش نہیں کروں گی، اس بات سے مجھے غم لاحق ہوا، میں سوئی ہوئی تھی کہ خواب میں مجھے ایک بہتا چشمہ دکھایا گیا کہ یہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے ہے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر آپ کو اس کے متعلق بتلایا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اس کا عمل ہے۔

Haidth Number: 11839
خارجہ بن زید اپنی والدہ سیدہ ام العلاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت کرتے ہیں، انہوںنے کہا: جب سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا: :اے ابو السائب! تمہیں مبارک ہو، تمہارے ایام زندگی اچھے گزرے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا: یہ بات کہنے والی کون ہے؟ سیدہ ام علاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: جی میں ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات کا کیا علم؟‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے یہ بات سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (جیسے عظیم الترتیب انسان کے بارے میں کہی ہے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہا ں ہاں، ہم نے عثمان بن مظعون کو ہر لحاظ سے بہتر پایا،یاد رکھو کہ میں اگرچہ اللہ کا رسول ہوں، لیکن میں اپنے بارے میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کل کلاں میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا۔

Haidth Number: 11840
Haidth Number: 11841
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ عاصم کہتے ہیں: میرے والد نے کہا:جب یہی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے مجھ کو بیان کی تو میں نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خواب میںدیکھا ہے، انہوں نے پوچھا: کیا واقعی تم نے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، اللہ کی قسم! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے اور میں نے حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے مشابہ تھے اور میں نے آپ کے چلنے کے انداز کا بھی ذکر کیا، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہیں۔

Haidth Number: 12401
عقبہ بن حارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے چند راتوں بعد میں ایک دن عصر کی نماز کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ نکلا، ان کے پہلو میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی چلے آر ہے تھے، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس سے گزرے، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں اپنی گردن پر سوار کر لیا اور کہا: واہ! میرا باپ قربان ہو، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہے، یہ اپنے والد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مشابہت نہیں رکھتا۔ یہ بات سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسکرا دئیے۔

Haidth Number: 12402
سیدنا ابو جحیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوںمیں سے سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زیادہ مشابہ تھے۔

Haidth Number: 12403
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیار و محبت سے اچھالتیں تو کہا کرتی تھیں: میرا باپ قربان، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مشابہ نہیں ہے۔

Haidth Number: 12404
Haidth Number: 12405