رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مجھ سےایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے، یہ حدیث صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت سے انہی الفاظ میں وارد ہوئی ہے۔ عثمان، ابو ہریرہ ، عبداللہ بن عمر، عقبہ بن عامر، زبیر بن عوام، سلمہ بن اکوع، واثلہ بن اسقع اور ابو موسیٰ غافقی
ابو ذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اجازت دیئے جانے سے پہلے پردہ اٹھا کر اپنی نظر گھر میں داخل کی ، گھر والوں کے با پردہ امور کو دیکھا تو وہ حد کا مرتکب ہوا، اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں۔ اگر اس نے اپنی نظر گھر میں ڈالی اور کسی شخص نے سامنے آکر اس کی آنکھ پھوڑ دی تو تو میں اس پر کوئی عیب نہیں لگاتا۔ (اس پر کوئی سزا نہیں) اور اگر آدمی ایسے دروازے کے پاس سے گزرا جس پر پردہ نہیں لٹکا ہوا اور اس نے (گھر میں)نظر ڈالی تو اس پر کوئی گناہ نہیں غلی گھر والوں کی ہے۔
ابو خراش سلمی سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے جس شخص نے اپنے بھائی کو ایک سال تک قطع تعلق کرتے ہوئے چھوڑ دیا تو گویا اس نے اس کا خون بہا دیا ۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن سادہ لوح شریف یا بزرگی والا جبکہ فاجر دھو کے باز کمینہ شخص ہوتا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ : مومنین ،باوقار سنجید ہ اور نرم خو ہوتے ہیں، اس مانوس اونٹ کی طرح جسے روکا جائے تو رک جائے ،چلایا جائے تو چل پڑے اور اگر تم اسے کسی چٹان پر بٹھاؤ تو بیٹھ جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکر اور فریب آگ میں (داخل کرنے کا سبب) ہیں۔ روی من حدیث قیس بن سعد و انس بن مالک، وابی ھریرۃ و عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم: یہ حدیث قیس بن سعد، انس بن مالک، ابوھریرۃ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم سے مروی ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ : غلام تمہارے بھائی ہیں جب وہ تمہارے لئے کھانا بنائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھاؤ اگر وہ انکار کر دے تو اسے کھلاؤ اور ان کے چہروں پر نہ مارو۔
عاصم بن سوید بن یزید بن جاریہ انصاری سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یحیی بن سعید نے انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ اسید بن حضیر نقیب اشہلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بنو ظفر کے کسی گھر والوں کے بارے میں بات کی جن کی زیادہ تعداد عورتوں پر مشتمل تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومال عنایت کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسید تم نے تو ہمیں ایسا کر دیا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں جو کھش تھا ختم ہوگیا۔ جب تم سنو کہ میرے پاس غلہ آیا ہے تو میرے پاس آجانا اور مجھے ان گھر والوں کی یا ددلادینا ، یا مجھے ان کی یاد دلادینا، جب تک اللہ نے چاہا معاملہ رکا رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر سے غلہ آیا جو اور کھجور۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں غلہ تقسیم کیا۔ پھر انصار میں تقسیم کیا تو انہیں خوب دیا ۔ پھر ان گھر والوں میں تقسیم کیا تو انہیں بھی خوب دیا۔ اسیدنے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول! اللہ آپ کو عمدہ یا بہترین جزا دے ۔ (عاصم کو شک ہے) ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اے جماعت انصار اللہ تعالیٰ تمہیں بھی بہترین یا عمدہ جزادے۔ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ پاکدامن ،اور صبر کرنے والے ہو، عنقریب تم میرے بعد تقسیم اور معاملات میں ترجیح دیکھو گے ۔تب صبر کرنا حتی کہ حوض کوثر پر تم مجھ سے ملاقات کرو۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے !قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک فحش اور بخل ظاہر(غالب) نہ ہو جائے۔ اور امانتدار کو خائن سمجھا جائے۔ اور خائن کے پاس امانت رکھی جائے، وعول ہلاک ہو جائیں اور تحوت غالب آجائیں۔ صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! یہ وعول اور تحوت کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا : وعول معزز لوگ اور شرفاء اور تحوت جو لوگوں کے قدموں کے نیچے ہیں جن کے متعلق علم ہی نہیں۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ گھاٹی سے ایک نوجوان آدمی نمودار ہوا جب ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا(ایک روایت میں ہے ہم نے اس پر اپنی نگاہیں ڈالیں) تو ہم نے کہا کاش یہ اپنی جوانی،نشاط، اور اپنی قوت اللہ کے راستے میں خرچ کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری یہ بات سن لی۔ فرمایا کیا اللہ کا راستہ صرف یہی ہے کہ آدمی شہید کر دیا جائے؟ جس نے اپنے والدین کے لئے دوڑ دھوپ کی وہ اللہ کے راستے میں ہے، جس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کی وہ اللہ کے راستے میں ہے، جس نے اپنے نفس کے لئے اسے پاک کرنے کے لئے محنت کی وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ اور جس نے دوسرے پر بڑھوتری حاصل کرنے کے لئے کوشش کی وہ شیطان کے راستے میں ہے ۔ اور ایک روایت میں ہے طاغوت کے راستے میں ہے۔
ابو درداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے(والد جنت کے دروازوں کے درمیان میں ہے)۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عبداﷲ بن ابی بن سلول کے پاس سے گزرے وہ جھاڑی کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ابن ابی کبشہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم پر دھول اڑائی ہے۔ اس کے بیٹے عبداﷲ بن عبداﷲ نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو عزت دی اور آپ پر کتاب نازل کی اگر آپ چاہیں تو میںاس کا (عبداﷲ بن ابی کا) سر لے آؤں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن اپنے والد سے نیکی کرو اور اس سے حسن سلوک کرو۔
ذیال بن عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دادا حنظلہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالغ ہونے کے بعد کوئی یتیمی نہیں ،اور جب بچی حائضہ (بالغہ) ہو جائے تو اس پر بھی یتیمی جاری نہیں ہوگی
قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : عبداللہ بن حنظلہ کا خیال ہے کہ عبداللہ بن سلامرضی اللہ عنہ بازار سے گزرے تو ان پر لکڑیوں کا گٹھڑ تھا ، ان سے کہا گیا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے بے پرواہ نہیں کر دیا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعے تکبر کو دور کروں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست/ سیدھا نہیں ہوتا جب تک اس کا دل مستقیم (سیدھا)نہ ہو۔ اور اس کا دل اس وقت تک مستقیم نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان مستقیم نہ ہو، اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔
عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے : تم پر میرے بعد صرف صادقین صابرین نرمی کریں گے۔ عبدالرحمن نے کہا: میں نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح سے ایک چیز لی جس کی قیمت انہوں نے چالیس ہزاردرہم لگائی ،میں نے اسے ان کے درمیان یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: ابو ذر ! کیا میں تمہیں دو خصلتوں کے بارے مںَ نہ بتاؤں جو پشت پر ہلکی (یعنی کرنے میں آسان) اور (میزان میں)دوسروں سے بھاری ہونگی؟ ابو ذر نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق اور طویل خاموشی کو لازم کر لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مخلوق نے ان دونوں جیسا کوئی عمل نہیں کیا
سائب بن یزید سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے فرمایا: عائشہ کیا تم اسے جانتی ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں اے اللہ کے نبی! آپ نے فرمایا: یہ بنی فلاں کی مغنیہ (گانے والی) ہے۔ تم چاہتی ہو کہ یہ تمہارے لئے گائے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے اسے تھال دیا اس نے اسے بجا کر گایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک مار دی ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: عائشہ ! نَرمی کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان کی راہنمائی نرمی کے دروازے کی طرف کر دیتا ہے