علیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ لیا اپنے قبضے میں کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے دستے میں ایک رقعہ ملا اس میں لکھا ہوا تھا :جو تم سے ٹوٹے تم اس کے ساتھ ملو،جو تم سے برائی کرے تم اس سے نیکی کرو، اور سچ بات کہو چاہے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو
جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے ہر انسان کا خیر یاشر کا حصہ اس کی گردن میں ہےیہ تفسیر ہے : وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے ساتھ باندھ دیا ہے
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان کے بارے میں پوچھا ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول!یہودی ہیں۔اور یہودی اپنے بالوں کو نہیں رنگتے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود کی خصوصیت یا ان کی نشانی کو بدل دو اورسیاہی میں نہ بدلو
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک آدمی تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے بوسہ دیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ آپ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟
جابر بن عبداللہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: منافق میں تین(بدخصلتیں ہیں) جب بھی بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے جب وعدہ کرتا ہے خلاف ورزی کرتا ہے ،اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رداد اللیثی بیمار ہوگئے، عبدالرحمن بن عوف نے ان کی عیادت کی تو انہوں نے کہا : لوگوں میں بہترین اور ملاپ کرنےوالا شخص کون ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے ابو محمد؟ عبدالرحمن نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، اور میں رحمن ہوں، میں نے (صلہ رحمی) قرابت کو پیدا کیا ہے، اور اس کو اپنے نام سے نکالا ہے ، جس شخص نے اسے ملایا میں اسے ملاؤں گا ، اور جس شخص نے اسے کاٹا میں اسے کاٹوں گا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے انہوں نے کہا: یتیم کی کفالت کرنے والا (اپنا ہو یا بیگانہ) میں اور وہ جب وہ اللہ سے ڈرتا ہے جنت میں اس طرح ہوں گے، مالک نے شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا۔
نوفل بن ابی عقرب سے مروی ہے انہوں نے کہا عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعار سنائے جاتے تھے ؟ انہوں نے کہا: شعر آپ کے نزدیک سب سے بری بات تھی
عبداللہ بن بسر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر آتے تو اجازت مانگتے اور سامنے کھڑے نہ ہوتے, کہتے ہیں کہ: آپ کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے جب تک آپ کو اجازت نہ دی جاتی۔ آپ کو اجازت دے دی جاتی (تو ٹھیک) وگرنہ واپس پلٹ جاتے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب چلتے تو آپ کے صحابہ آپ کے سامنے چلتے اور آپ کی پشت کو فرشتوں کے لئے چھوڑ دیتے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو مصطلق کی طرف ان سے زکاۃ لینے کے لئے بھیجا۔ ان کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کا استقبال کرنے کے لئے باہر نکل آئے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ بنو مصطلق آپ سے ملنے کے لئے باہر نکل آئے ہیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس آگئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! بنو مصطلق نے زکاۃ روک لی ہے۔ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید غصے میں آگئے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان سے جہاد کیا جائے کہ ان کا ایک وفد آپ کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! ہمیں بتایا گیا کہ آپ کا قاصد نصف راستے سے ہی پلٹ آیا ہے، ہم ڈر گئے کہ کہیں ان کے پاس آپ کی طرف سے کسی غصے کی وجہ سے کوئی خط نہ آیا ہو جس نے انہیں واپس کر دیا۔ ہم اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا اور ان کے خلاف جنگ کا ارادہ کیا تھا۔اللہ تعالی نے ان کا عذر قرآن مجید میں نازل فرمایا: (الحجرات:6 ) ۔اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق، کوئی خبر لے کر آئے تو چھان بین کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لاعلمی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمدل تھے۔ آپ کے پاس جو شخص آتا آپ اس سے وعدہ کر لیتے اور اگر آپ کے پاس ہوتاتو اپنا وعدہ پورا کر دیتے ایک بدو آیا اور اس نے آپ کا کپڑا پکڑ لیا، اور کہا : میری کچھ ضرورت باقی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میں کہیں بھول نہ جاؤں ۔آپ اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب اس کی ضرورت پوری کر دی تو پھر تشریف لائے اور نماز پڑھائی
مقدام بن شریح اپنے والد سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحرائی زندگی کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں میں جایا کرتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے صحرائی زندگی کا ارادہ کیا تو میری طرف صدقے کے اونٹوں میں سے ایک سرکش اونٹنی بھیجی اور مجھ سے کہا: عائشہ ! نرمی کیا کرو، کیونکہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے، نرمی اسے مزین کر دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی کھینچ لی جائے اسے معیوب کر دیتی ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خادم مرد یا عورت سے مروی ہے اس نے کہا کہ: آپ اپنے خادم سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ ایک دن اس نے کہااے اللہ کے رسول! ایک حاجت ہے ، آپ نے فرمایا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے کہا میری حاجت یہ ہے کہ قیامت کے دن آپ میری شفاعت کریں۔ آپ نے فرمایا:تمہیں یہ بات کس نے بتائی؟ اس نے کہا : میرے رب نے : آپ نے فرمایا کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے چلتے ،کمزور کو ساتھ ساتھ چلاتے اپنے پیچھے بٹھالیتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھتے تھے زمین پر کھاتے تھے، بکری کے گلے میں رسی باندھتے اور جو کی روٹی پر غلام کی دعوت قبول کرتے تھے
ابو ایوبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سواری کرتے جوتا گانٹھ لیتے،قمیص کو پیوند لگاتے اور فرماتے جس نےمیرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں
براء بن عازبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احزاب کے موقع پر (اور ایک روایت میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر) ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے۔ مٹی نے آپ کے پیٹ کی سفیدی کو(اور ایک روایت میں ہے آپ کے سینے کے بالوں کو) ڈھانپ دیا۔(آپ گھنے بالوں والے شخص تھے)اور آپ(عبداللہ بن رواحہ کے اشعار پڑھ رہے تھے جو کہ یہ ہیں: اللہ کی قسم !(اے اللہ)اگر تو نہ ہوتا، تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم پر سکینت نازل فرما(اور اگر دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمارے قدم ثابت رکھ) ان بڑے سرداوں نے ہمارے خلاف انکار کیا (اور ایک روایت میں ہے : ہمارے خلاف اعلان جنگ کیا)یہ جب ہمیں تکلیف پہچانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم دفاع کرتے ہیں(دفاع کرتے ہیں)ان الفاظ پر اپنی آوازکوبلندکرتے
صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویو ں کے ساتھ حج کیا، ابھی راستے میں تھے کہ ایک آدمی اترا اور ان کی سواری کو تیز تیز چلانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم شیشوں (عورتوں) کو اس طرح چلاؤ گے؟ (تو شیشے ٹوٹ جائیں گے)۔ ابھی وہ چل رہے تھے کہ صفیہ کا اونٹ صفیہ بنت حی کو لے کر بیٹھ گیا، حالانکہ وہ ایک عمدہ سواری والا اونٹ تھا۔وہ رونے لگیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی اطلاع دی گئی تو آپ آئے اور ان کےآنسو آپ اپنے ہاتھ سے پونچھنے لگے وہ اور زیادہ رونے لگیں آپ انہیں منع کرتےرہے جب وہ زیادہ رونے لگیں تو آپ نے انہیں ڈانٹ دیا اور لوگوں کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ لوگ سواریوں سے اترنے لگے۔آپ پڑاؤ ڈالنا نہیں چاہتے تھے ۔کہتی ہیں کہ لوگ سواریوں سے اتر گئے اس دن میری باری تھی جب لوگ نیچے اترے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ لگایا گیا آپ اس میں داخل ہو گئے۔ کہتی ہیں کہ: مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہ میں اچانک آپ سے کیا بات کروں مجھے ڈر ہوا کہ کہیں آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی بات نہ ہو۔ میں عائشہ کی طرف گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے دن کا سودا کبھی بھی کسی صورت نہیں کرتی۔ اور میں آج اپنا دن تمہیں اس شرط پر دیتی ہوں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کرو گی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، عائشہ نے اپنی چادر پکڑی جس میں انہوں نے زعفران لگایا تھا، اس پر پانی ڈالا تاکہ اس کی خوشبو عمدہ ہو جائے ، پھر اپنے کپڑے پہنے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑیں۔ جب انہوں نے خیمے کا کنارہ اٹھا یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا عائشہ تمہیں کیا ہوا؟ آج تمہاری باری نہیں۔انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے۔ جب سفر شروع کرنے لگے۔ تو زینب بنت جحش سے کہا: زینب اپنی بہن صفیہ کو اپنا اونٹ ادھار دے دو، ان کے پاس سب سے زیادہ سواریاں تھیں۔ زینب نے کہا: میں آپ کی یہودیہ کو اونٹ دوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی یہ بات سنی تو شدیدغصے میں آگئے۔ آپ نے انہیں چھوڑ دیا اور ان سے بات نہ کی حتی کہ مکہ آگئے اور اپنے سفر پر ایام منی میں حتی کہ مدینے آگئے اور محرم اور صفر کا مہینے گزر گئے اور ان کے پاس نہ آئے اور نہ ان کے لئے ( کوئی حصہ)تقسیم کیا۔ زینب آپ سے مایوس ہو گئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ ان کے پاس آئے ۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا تو کہا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے پاس نہیں آتے پھر یہ کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اند رآئے ۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا اے اللہ کے رسول! مجھے نہیں معلوم کہ جب آپ اندر داخل ہوئے تو (اس خوشی میں) میں کیا کرتی؟ کہتی ہیں کہ ان کی ایک لونڈی تھی جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔ انہوں نےکہا کہ فلاں لونڈی آپ کے لئے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب کی چار پائی کی طرف گئے چار پائی کھڑی تھی آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے بچھایا پھر اپنی بیوی سے ملے اور ان سے راضی ہو گئے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کے وقت اپنے بچوں کو روک لو۔ اورقدموں کے پر سکون ہونے کے بعد رات کو باتیں کرنے سے بچو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق میں سے کیا چیز نکالے گا، دروازے بند کردو، چراغ بجھادو، برتن ڈھانک دو اور مشکیزوں کے منہ بند کر دو
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جب آپ نے سجدہ کیا تو حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آپ کی پشت پر چڑھ گئے۔جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو ان دونوں کو ( اپنے ہاتھ سے اپنے پیچھے سے نرمی سے) پکڑا اور نرمی سے اتار دیا، جب آپ دوبارہ سجدے میں گئے تو وہ بھی دوبارہ چڑھ گئے۔ جب آپ نے نماز پڑھ لی ( تو ان دونوں کو اپنی دونوں رانوں پر بٹھا لیا) ایک کو یہاں اور دوسرے کو اس طرف۔ ابو ھریرہرضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان دونوں کو ان کی ماں کے پاس نہ چھوڑ آؤں؟ آپ نے فرمایا: نہیں ،پھر ایک بجلی چمکی تو آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔ وہ دونوں بجلی کی روشنی میں چلتے ہوئے اپنی ( ماں کے پاس) پہنچ گئے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ : پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! کونسا شخص افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر صاف دل والا ،سچی زبان والا، صحابہ نے کہا: سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں یہ صاف دل والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا : متقی پرہیزگار صاف شفاف جس میں نہ کوئی گناہ ہے نہ سر کشی نہ کینہ اور نہ حسد۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ : کتنے ہی پڑوسی اپنے پڑوسی سے چمٹے ہونگے اور کہہ رہے ہونگے: اے رب! اس سے پوچھو کہ مجھ سے اپنا دروازہ کیوں بند کر لیا اور اپنا فضل مجھ سے کیوں روک لیا؟
سلمہ بن اکوعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ: جب ہم کسی شخص کو دیکھتے کہ یہ اپنے بھائی پرلعنت کر رہا ہے تو ہم اس کے بارے میں سوچتے کہ یہ کبائر کے دروازے پر آگیا ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتے ہیں تکبر میری چادر ہے اور عزت میری ازار، جس نے ان دونوں میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کی میں اسے جہنم کی آگ میں ڈال دوں گا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا، اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے زمین کی سرحدوں یا نشانات کو تبدیل کیا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے نابینے آدمی کو راستے سے بھٹکایا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اپنے والدین کو گالی دی ( اور ایک روایت میں ہے کہ نافرمانی کی) اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اپنے مالکوں کے علاوہ کسی اور کو اپنایا ایک بنایا اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے کسی جانور سے بدکاری کی اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے قوم لوط کا عمل کیا،اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے قوم لوط کا عمل کیا، اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے قوم لوط کا عمل کیا۔