ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی رکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہرآئے تو فرمایا: میرے لئے کس نے وضو کا پانی رکھا ہے؟ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بھانجے نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے دین میں سمجھ اور تفسیر کا علم دے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اے اللہ! جس نے اہل مدینہ پر ظلم کیا اور انہیں ڈرایا تو بھی اسے ڈرا ، اور اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس سے فرض و نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔
محمد بن اسامہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ: جعفر، علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے۔ جعفررضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ پیارا ہوں۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیارا ہوں۔ انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو تاکہ ہم آپ سے پوچھ لیں۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے کہا: یہ جعفر ،علی اور زید رضی اللہ عنہم ہیں۔ میں نے اپنے والدزید کا نہیں بتایا ؟ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو، وہ اندر آئے اور کہنے لگے: آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ، انہوں نے کہا: ہم آپ سے مردوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جعفر! تمہاری عادت میری عادت سے مشابہہ ہے اور میری صورت تمہاری صورت سے مشابہہ ہے تم مجھ سےاور میرے نسب سے ہو اور اے علی! تم میرے داماد اور میرے بیٹے کے والد ہو، میری بیٹی کے نگران ہو، میں تم سے ہوں۔ اور تم مجھ سے ہو ، اور اے زید ! تم میرے آزاد کردہ غلام ہو اور مجھ سے ہو اور میری طرف منسوب ہو اور لوگوں میں سب سےزیادہ محبوب ہو ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی رہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ،اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی ہو
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا گیا: یہ انصار ہیں ،ان کے مرد اور عورتیں مسجد میں رو رہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں کس بات نے رلایا ہے؟ اس نے کہا: یہ ڈرتے ہیں کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے آپ پر ایک چادر تھی جسے آپ نے اپنے کاندھوں پر ڈالا ہوا تھا، اور آپ نے سیاہی مائل عمامہ باندھا ہوا تھا۔ آپ آکر منبر پر بیٹھ گئے( یہ آپ کی آخری مجلس تھی جو آپ نے کی۔) اللہ کی حمدو ثنا کی پھر فرمایا: اما بعد! اے لوگو! لوگ زیادہ ہو جائیں گے اور انصار کم ہو جائیں گے حتی کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہو جائیں گے۔ تم میں سے جو شخص (امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کسی معاملے کا نگران بنے( اور وہ اپنی طاقت کے مطابق) کسی کو نقصان پہنچائے یا نفع، تو وہ انصار کے نیک شخص سے قبول کرے اور خطار کار سے در گزر کرے۔
ابو زبیر سے مروی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو دوہرا ہوا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارےمیں پوچھا تو لوگوں نے کہا: روزے دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روزہ کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا: کیا تمہیں کافی نہیں کہ تم اللہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو؟ اور تمہیں روزہ رکھنے کی نوبت آگئی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا کہ میں خدیجہ کو(جنت میں) یاقوت کے ایک گھر کی بشارت دوں جس میں نہ شور ہو اور نہ تھکاوٹ۔ یہ حدیث ........ سے مروی ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے جو بستیوں کو کھا جائے گی (حاوی ہوجائے گی)۔لوگ اسے یثرب کہتے ہیں ،اور یہ مدینہ ہے۔ لوگوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے۔ اور ایک دوسری روایت ان سے مرفوعا ان الفاظ کے ساتھ ہے: لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے چچازاد اور قریبی کو بلائے گا، آؤخوشحالی کی طرف، آؤ خوشحالی کی طرف، حالانکہ(اس وقت) مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر انہیں علم ہو تو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص اس سے بے رغبت ہو کر نکلے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بہتر اس میں لے آئے گا، خبردار مدینہ بھٹی کی طرح ہے جو بے کار لوگوں کو نکال دے گا، قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مدینہ اپنے شریر لوگوں کو اس طرح نہ نکال دے جس طرح بھٹی لوہے کا زنگ نکالتی ہے۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے مجھے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہا کرتے تھے: میرے بعد تمہارا معاملہ مجھے پریشان کئے ہوئے ہے اور تم پر صبر کرنے والے ہی صبر کر سکتے ہیں۔ پھر کہنے لگیں: اللہ تعالیٰ تمہارے والد کو جنت کی نہر سے سیراب کرے،عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں مال (مویشی ) دیا تو وہ چالیس ہزار (درہم یا دینار )کا بیچا گیا ۔
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو اپنے صحابہ سے کہا: میرے آگے آگے چلو ،میرے پیچھے فرشتوں کے لئے جگہ چھوڑ دو ۔
عبدالملک بن عمیر سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو شام کا نگران بنایا، اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: تم پر اس امت کے امین کو نگران بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہےاور قبیلے کا بہترین جوان ہے
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور اس کےلئے دعا کی اور میں نے مدینے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے صاع اور مد میں برکت کے لئے دعا کی ہے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لئے دعا کی تھی
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ اپنی بیویوں کو مت بتائیں کہ میں نے آپ کو پسند کر لیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلغ بنا کر بھیجا ہے مجھے مشقت میں ڈالنے والا بنا کر نہیں بھیجا
واثلہ بن اسقعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں سے کنانہ کو چنا، کنانہ سے قریش کو چنا، قریش سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم سے مجھے چنا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:یقینا اللہ عزوجل نے (اور ایک روایت میں ہے : شاید اللہ تعالیٰ نے) اہل بدر کو دیکھا تو فرمایا: جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات دنیا والوں کی طرف جھانکتا ہے اور اپنی تمام مخلوق کو معاف کر دیتا ہے، سوائے مشرک اور بغض وعداوت اور کینہ رکھنے والے کے ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں حسان رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھواتے، جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فخریہ کلمات کہتے، یارسول اللہ کی مدافعت کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : اللہ تعالیٰ روح قدس کے ذریعے حسان کی مدد کرے جب تک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فخریہ کلمات کہتا ہے۔یارسول اللہ کی مدافعت کرتا ہے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد میری امت میں کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو چاہیں گے کہ اپنا مال اور گھر بار دے کر میری ایک جھلک دیکھ لیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے سر پر کپڑا باندھے باہر نکلے تواس دن انصار کے بچوں اور خدمتگاروں کےچہروں پر پریشانی کے آثار تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم سے محبت کرتا ہوں( دو یا تین مرتبہ فرمایا) پھر فرمایا: انصار نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور تمہاری ذمہ داری باقی ہے۔ ان کے نیک شخص سے اچھا سلوک کرو اور ان کے خطاکار شخص سے در گزر کرو۔
عبدالرحمن بن ابی نعم سے مروی ہے کہ: ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کیا جو کپڑے میں لگ جاتا ہے؟(میں بیٹھا ہوا تھا) (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے کہا: اہل عراق سے ہوں۔) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:اوہ! (کلمہ تعجب) اس شخص کی طرف دیکھو، یہ مچھر کے خون کے بارے میں سوال کر رہا ہے؟ حالانکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو شہید کر دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: حسن اور حسین دنیا میں میری خوشبو ہیں۔
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اس امت میں سے اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان پر نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ یاد آجائے اور اس امت کے بدترین لوگ وہ ہیں کہ جو چغل خوری کرتے ہیں، پیاروں کے مابین تفریق ڈالتے ہیں، اورپاکدامن لوگوں پر تہمت لگاتے ہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو فزارہ کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ان اونٹوں میں سے دی جو انہوں نے( غابہ) میں حاصل کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بدلے کچھ دیا، جس پر وہ غصے ہوگیا، میں نے اس منبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:عرب کا کوئی شخص مجھے تحفہ دیتا ہے تو میرے پاس جتنی استطاعت ہوتی ہے اس کے بدلے میں دےدیتاہوں وہ ناراض ہو جاتا ہے اور مجھ پر غصے رہتا ہے۔ اللہ کی قسم! آج کے بعد میں کسی عرب سے تحفہ قبول نہیں کروں گا سوائے قریشی ، انصاری ، ثقفی یا دوسی کے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقوم (قریش) کی ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے سودہ کہا جاتا تھا، اس کی ایک پریشانی تھی کہ اس کے پہلے شوہر سے جو مر چکا تھا پانچ یا چھ بچے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تمہیں مجھ سے کونسی بات روک رہی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے آپ سے کوئی بات منع نہیں کر رہی کہ آپ ساری مخلوق سے زیادہ مجھے پسند ہیں، لیکن میں آپ کی عزت کرتی ہوں اور یہ بچے رات دن آپ کے سر پر کھڑے ہو کر شور مچائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ کوئی اور بات تمہیں روکتی ہے؟ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا: واللہ! نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے، بہترین عورتیں جو اونٹوں کی سواری کرتی ہیں قریش کی نیک عورتیں ہیں، بچپن میں بچے کے بارے میں خوفزدہ رہتی ہیں اور اپنے شوہر مال و منال اور آرام کا خیال رکھتی ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش کی ہجو کرو کیوں کہ یہ ان پر تیر سے زیادہ تیز لگتی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ ان کی ہجو کرو، ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے ان کی ہجو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا، پھر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا۔ جب حسان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: اب وقت آگیا ہے کہ آپ اس شیر کی طرف پیغام بھیجیں جو اپنی دم مارتا ہے پھر اپنی زبان کو حرکت دی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے ان کو چمڑے کی طرح چاک کردوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی مت کرو، کیوں کہ ابو بکر قریش کے نسب کو زیادہ جانتے ہیں، اور ان میں میرا نسب بھی ہے۔ انتظار کرو تاکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ میرا نسب الگ کر دیں۔ حسان رضی اللہ عنہ ، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے پھر واپس آکر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ کانسب الگ کر کے بتادیا گیا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کو ایسے نکال لوں گا جس طرح آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ حسان رضی اللہ عنہ کے لئے فرما رہے تھے: روح القدس تمہاری مدد کرتا رہے گا جب تک تم اللہ اور اس کے رسولکا دفاع کرتے رہو گے اور کہتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے:حسان نے ان کی ایسی ہجو کی ہے کہ اللہ کے رسول کا دل ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ حسان رضی اللہ عنہ نے کہا:تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہجو کی ہے اور میں اس کا جواب دے رہا ہوں اور اس کام کی اللہ کے پاس جزاء ہے۔ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی جو یکسو اور نیکوکار ہیں، اللہ کے رسول ہیں، وفا ان کی عادت ہے۔میرے ماں باپ اور میری عزت ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بچانے کیلئے تمہارے سامنے رکاوٹ ہیں۔ دفاع کرنے والے ہیں۔ میری بچے گم ہوجائیں اگر تم انہیں نہ دیکھو کہ وہ کداء کے دونوں جانب گرد و غبار اڑائے ہوئے آرہے ہیں۔ وہ ایسے گھوڑوں یا اونٹنیوں پر اس جن کی باگیں کھچی ہوئی ہیں۔ ہمارے گھوڑے گرد وغبار اڑا رہے ہیں، جن کی پیشانیاں عورتیں اپنے دوپٹوں سے صاف کرتی ہیں۔ اگر تم ہم سے اعراض کرو تو ہم عمرہ کرلیں، اور یوں فتح ہوجائے اور پردہ ہٹ جائے۔ وگر نہ صبر کرو، اس دن کی جنگ کیلئے جس دن اللہ تعالی جسے چاہے عزت دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: میں نے ایک بندہ بھیجا ہے جو حق بات کہتا ہے، اس میں کوئی اخفا یا شک شبہ نہیں ہے۔اور اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے اس کے لئے لشکر میسر کردئے ہیں، وہ انصار ہیں، یہ میری ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ ہر دن معد کی طرف سےگالی، یا قتال یا ہجو در پیش ہے۔ تم میں سے جو شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا ہے یا اس کی مدح کرتا یا اس کی نفرت کرتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جبریل ہم میں اللہ کا قاصد ہے اور روح القدس ہے اس کے برابر کوئی نہیں۔
یحیی بن عباد بن عبداللہ( بن زیبر) اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت فرما رہے تھے: جب حنظلہ اور ابو سفیان بن حارث کا مقابلہ ہوا اور شداد بن اسود تلوار لے کر حنظلہ رضی اللہ عنہ کے سینے پر چڑھ گیا اور انہیں شہید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھی کو فرشتے غسل دے رہے تھے۔ لوگوں نے اس کی بیوی سے پوچھا تو اس نے کہا: جب اس نے اعلان سنا تو یہ جنبی حالت میں باہر چلا گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی وجہ سے فرشتے اسےغسل دے رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علماء جب اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے، تو معاذ ان کے سامنے پتھر پر کھڑا ہو گا یا پتھر رکھ رہا ہوگا (یعنی ان کے علم کی فضیلت کی وجہ سے وہ آگے ہونگے )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح باقی کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔ یہ حدیث ...... سے مروی ہے۔
زید بن عبدالرحمن بن سعید بن عمرو بن نفیل اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں قریش کے کچھ نو جوانوں کے ساتھ جا بر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، وہ نابینا ہوگئے تھے۔ ہم نے چھت میں ایک رسی لٹکتی دیکھی، کچھ ٹکیاں یا روٹیاں ان کے سامنے رکھی ہوئی تھیں، جب کوئی مسکین ان سے کھانا مانگتا تو جابر رضی اللہ عنہ ایک ٹکیہ اٹھا کر کھڑے ہو جاتے اور رسی پکڑ کر اس مسکین کے پاس آتے اور اسے وہ ٹکیہ دے دیتے۔ پھر رسی کے ذریعے واپس آکر بیٹھ جاتے۔ میں نے ان سے کہا: اللہ آپ کو عافیت دے، ہمارے پاس کوئی مسکین آتا ہے تو ہم( بیٹھے بیٹھے) اسے دے دیتے ہیں۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس طرح چلنے میں ثواب کی امید رکھتا ہوں۔ پھر کہنے لگے: کیا میں تمہیں ایک حدیث نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ سب نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قریش اہل امانت ہیں، جو شخص ان کے خلاف ان کی لغزشیں تلاش کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل بچھاڑ دے گا