عمرو بن سلمہ ہمدانی سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: ہم صبح کی نماز سے قبل عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ جاتے تھے، جب وہ باہر نکلتے تو ہم مسجد کی طرف ان کے ساتھ چلتے۔ (ایک دن) ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: کیا ابھی تک ابو عبدالرحمن تمہارے پاس نہیں آئے؟ ہم نے کہا: نہیں، وہ ان کے نکلنے تک ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب وہ نکلے تو ہم سب کھڑے ہو کر ان کی طرف گئے، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابو عبدالرحمن! میں نے ابھی مسجد میں ایسا معاملہ دیکھا ہے جو میری نظر میں عجیب ہے، الحمدللہ! میں نے نیکی کا کام ہی دیکھا ہے، انہوں نے کہا: وہ کیا کام ہے؟ ابو موسیٰرضی اللہ عنہ نے کہا: آپ زندہ رہے تو جلدہی دیکھ لیں گے۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا، جو نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور سب لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں وہ آدمی کہتا ہے: سو مرتبہ اللہ اکبر کہو، وہ لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر کہتےہیں، وہ کہتا ہے: سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: سو مرتبہ سبحان اللہ کہو، وہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان سے کیا کہا؟ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں ان سے کچھ بھی نہ کہا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں، اور تم نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی؟ پھر وہ چلے تو ہم بھی ان کے ساتھ چلے وہ ایک حلقے کے پاس پہنچے اور ان کے سروں پر کھڑے ہو گئے، کہنے لگے: یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ابو عبدالرحمن! یہ کنکریاں ہیں، ہم ان کے ساتھ تکبیر تہلیل اور تسبیح کررہے ہیں۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے کہا: اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔افسوس! اےامت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کتنی جلدی ہلاکت میں پڑ گئے۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار صحابہ موجود ہیں، یہ آپ کے کپڑے ہیں جو بوسیدہ نہیں ہوئے، یہ آپ کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ایسی ملت پر ہو جو ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! واللہ! ہم نے تو نیکی کا ارادہ کیا تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کتنے ہی بھلائی کا ارادہ کرنے والے بھلائی تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان کیا کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ شاید اکثر تم میں سے اس حدیث کا مصداق ہوں گے، پھر ان سے منہ موڑ لیا، عمرو بن سلمہ نے کہا: ہم نے ان حلقوں کے اکثر لوگوں کو دیکھا کہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہم سے مقابلہ کر رہے تھے۔
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ: ایک کالی لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے سے واپس آئے تھے، کہنے لگی: میں نے نذر مانی تھی کہ: اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت واپس لے آئے تو میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے یہ نذرمانی ہے تو کرلو، اور اگر نہیں تو نہ کرو، وہ دف بجانے لگی، ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر آئے وہ دف بجاتی رہی، پھر کوئی اور آیا وہ دف بجاتی رہی، پھر عمر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو اس نے دف کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! شیطان تم سے ڈرتا ہے، میں یہاں بیٹھا ہوں، یہ لوگ داخل ہوئے تو یہ دف بجاتی رہی جب تم داخل ہوئے تو دیکھ رہے ہو اس نےکیسا کام کیا۔
جبیر بن مطعمرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک قریشی کی غیر قریشی کے مقابلے میں دوگنی قوت ہے، زہری سے پوچھا گیا: کس نسبت سے؟ زہری نے کہا: عمدہ رائے کی وجہ سے۔
سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا حوض ہوگا او ر وہ ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے پاس زیادہ پیرو کار آتے ہیں، اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ میرے پاس سب سے زیادہ پیرو کار آئیں گے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ کے کچھ فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے ہیں اور میری امت کی طرف سے بھیجا جانے والا سلام مجھے پہنچاتے ہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: قریش کے سردار حجر اسود کے پاس جمع ہوئے اور لات، عزی، مناة، نائلہ اور اساف کے نام پر عہد کیا کہ اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں گے تو ہم سب یکبار گی آپ پر حملہ کریں گے اور جب تک آپ کو قتل نہ کر دیں چھوڑیں گے نہیں۔ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا روتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگیں: قریش کے ان سرداروں نے آپ کے خلاف عہد کیا ہے کہ اگر آپ کو دیکھیں گے تو یکبارگی حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیں گے، اس طرح ان میں سےہر شخص آپ کے خون سے اپنے حصے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی وضو کا برتن لاؤ، آپ نے وضو کیا، پھر ان کے پاس مسجد میں گئے، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے: یہ آگیا، ان کی نظریں جھک گئیں اور ٹھوڑیاں سینے سے آلگیں اوراپنی جگہوں پر دہشت زدہ ہوگئے، کسی نےآپ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا نہ کوئی آپ کی طرف کھڑا ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر کھڑے ہوگئے ،مٹی کی ایک مٹھی بھری اور فرمایا :چہرے برباد ہوجائیں ۔پھر ان کی طرف پھینک دی ،ان میں سے جس شخص تک اس کے ذرات پہنچے وہ بدر کے دن کفر کی حالت میں مرا ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کے پاس عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اماں!(ام المومنین ) مجھے خدشہ ہے کہ کہیں مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کر دے، میں قریش میں سب سے زیادہ مال والا ہوں؟ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹے! اسے خرچ کرو کیوں کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: میرےکچھ صحابہ ایسے ہوں گے کہ جب میں ان سے جدا ہو جاؤں گا تو وہ مجھے دیکھ نہ سکیں گے۔ وہ باہر نکلے تو عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی،اور عمررضی اللہ عنہ کو بتایا تو عمر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! ان میں سے میں بھی ہوں؟ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں میں تمہارے بعد کسی کو بھی ہر گزعذر پیش نہیں کروں گی
عبدالرحمن بن حضرمی سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتایا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنہیں پہلے لوگوں کی طرح اجر دیا جائے گا یہ لوگ برائی کا انکار کریں گے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کا پتہ نہیں گرتا وہ مسلمان کی طرح ہے، مجھے بتاؤ وہ کونسا درخت ہے؟ لوگ پہاڑوں کے درختوں کے بارے میں بتانے لگے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن میں بتانے میں شرم محسوس کر رہا تھا، پھر صحابہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں بتایئے وہ کونسا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کہ ہم بیٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ اپنی کسی بیوی کے گھر سے نکلے، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، آپ کی چپل ٹوٹ گئی، علیرضی اللہ عنہ اسے گانٹھنے کے لئے پیچھے رہ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے چل پڑے ہم بھی آپ کے ساتھ چلنے لگے، پھر آپ کھڑے ہو کر علی رضی اللہ عنہ کا انتظار کرنے لگے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں ایک شخص ایسا ہے جو قرآن کی تاویل(تفسیر) کے تحفظ کے لئے قتال کرے گا جس طرح میں نے اس کے نزول پر قتال کیا۔ ہم نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ہم میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن چپل گانٹھنے والا ہے۔ ہم علی رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دینے گئے لیکن ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے سن لیا ہے۔
ابو طفیل سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں اور عمرو بن صلیع حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مضر کا یہ قبیلہ روئے زمین پر اللہ کے کسی نیک بندے کو نہیں چھوڑےگا کہ اسے فتنے میں مبتلا نہ کر دے، اور ہلاک نہ کردے،جب تک ان کے پاس اللہ کے بندوں کا لشکر نہ پہنچ جائے جو انہیں ذلیل کرے حتی کہ یہ کسی پست زمین کے عام لوگوں کو بھی کچھ نہیں کہیں گے ۔
عطاء بن یسار سے مروی ہے، کہ وہ ایک انصاری سے کہ انس انصاری نے عطاء کو بتایا کہ: اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھ کر آئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کرتے ہیں۔ اس کی بیوی نے اسے بتایا تو اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ چیزوں میں رخصت دی گئی ہے، واپس جاؤ اور دوبارہ آپ سے پوچھو۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس گئی اور کہا کہ وہ یعنی میرا شوہر کہتا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ چیزوں میں رخصت دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تم سے زیادہ متقی اور اللہ کی حدود کا علم رکھنے والا ہوں۔
انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، مجھے پسند نہیں کہ تم مجھے میرے اس درجے سے بڑھاؤ، جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے متمکن کیا ہے۔
سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ: ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب کبھی کوئی آدمی تھک جاتا تو مجھ پر اپنی ڈھال یا تلوار ڈال دیتا، جب میں نے بہت زیادہ چیزیں اٹھالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تو سفینہ(کشتی) ہو۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی طرف سے آگ سے آزاد کر دیئے گئے ہو۔
ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں گزر رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام فضل! میں نے کہا: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک بچے کو جنم دوگی، ام فضل نے کہا: کس طرح ممکن ہے حالانکہ قریش نے قسم کھائی ہے کہ عورتوں سے بچے نہیں جنوائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس طرح میں تم سے کہہ رہا ہوں اسی طرح ہوگا۔ جب تم بچے کو جنم دے دو تو میرے پاس لے آنا۔ جب میں نےبچےکو جنم دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھااور اسے اپنے لعاب مبارک کی گھٹی دی پھر فرمایا: اسے لے جاؤ یہ بہت ذہین ہوگا۔ کہتی ہیں کہ میں عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور انہیں بتایا،انہوں نے چادر اوڑھی پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ ایک خوب صورت دراز قد شخص تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو کھڑے ہو کر ان کی طرف گئے اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا، پھر انہیں اپنے دائیں طرف بٹھایا، پھر فرمایا: یہ میرے چچا ہیں، تم میں سے جو شخص چاہے اپنے چچا پر فخر کرے، پھر عباس رضی اللہ عنہ نے کوئی بات کہی اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کیوں نہ کہوں، آپ میرے چچا ہیں اور میرے والدین کی نشانی ہیں اور چچا باپ کے برابر ہوتا ہے۔
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ: میں تو تبلیغ کرنے والا ہوں، ہدایت تو اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں ،عطا کرنے والا اللہ ہے۔میری طرف سے کسی کو کوئی چیز اچھے طریقے اور ا چھی رغبت سے پہنچے تو اس کے لئے اس میں برکت کر دی جائے گی، اور جس شخص کے پاس میری طرف سے کوئی چیز برے طریقے اور بری رغبت سے پہنچے تو یہ ایسا شخص ہے جو کھائے گا لیکن سیر نہیں ہوگا۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: ایک اعرابی نے اسلام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، اعرابی کو مدینے میں شدید بخارہوا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میری بیعت واپس کر دیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، وہ پھرآپ کے پاس آیا اور کہا: میری بیعت واپس کر دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، وہ پھر آپ کے پاس آیا اور کہا: میری بیعت واپس کر دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ اعرابی باہر نکل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ بھٹی کی طرح ہے، میل کو نکال دیتا ہے اور صاف باقی رکھتا ہے۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ اكیدر دومہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے لئے ریشم كا ایك جبہ بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا تو لوگوں كو اس بات سے تعجب ہوا۔ رسول اللہ نے فرمایا: كیا تم اس كی وجہ سے تعجب كر رہے ہو؟ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے ! سعد بن معاذ كے رومال جنت میں اس سے بہتر ہیں، پھر وہ جبہ عمررضی اللہ عنہ كو تحفے میں دے دیا۔ انہوں نے كہا: اے اللہ كے رسول! آپ اسے نا پسند كرتے ہیں، تو میں اسے كس طرح پہن لوں؟ آپ نے فرمایا: عمر ! میں نے یہ جبہ تمہاری طرف اس لئے بھیجا ہے تاكہ آپ اسے کسی کو بیچ کر اس كے ذریعے مال حاصل كریں۔ یہ واقعہ ریشم سے منع سے پہلے كا ہے
عمرو بن عبسہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: اے اللہ كے رسول ! اس دین پر كس شخص نے آپ كی پیروی كی ہے؟ آپ نے فرمایا: آزاد اور غلام نے ۔ میں نے كہا: اسلام كیا ہے؟ آپ نے فرمایا: عمدہ بات کرنا اور كھانا كھلانا۔ میں نے پوچھا ایمان كیا ہے؟ آپ نے فرمایا: صبر اور درگزر ۔ میں نے پوچھا كو نسا اسلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس كے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ میں نے كہا كونسا ایمان افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق ۔ میں نے كہا: كونسی نماز افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: لمبے قیام والی۔ میں نے كہا: كونسی ہجرت افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس چیز كو تیرے رب نے نا پسند كیا ہے اسے چھوڑ دینا۔ میں نے كہا: كونسا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس كے گھوڑے كی كونچیں كاٹ دی جائیں اور اس كا خون بہا دیا جائے۔ میں نے كہا: كون سی گھڑی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: رات کا آخری حصہ
) سعید بن عاص سے مروی ہے كہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اور عثمان رضی اللہ عنہ ، دونوں نے بیان كیا كہ ابو بكر صدیقرضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب، كی آپ اپنے بستر پر عائشہ رضی اللہ عنہا كی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بكررضی اللہ عنہ كو اجازت دے دی۔ اور آپ اسی حالت میں رہے۔ انہوں نے اپنی ضرورت پوری كی، پھر چلے گئے۔ پھر عمررضی اللہ عنہ نے آپ سے اجازت طلب كی، آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی، اور اسی حالت میں رہے۔ انہوں نے بھی اپنا مقصد پورا كیا، پھر واپس چلے گئے۔ عثمانرضی اللہ عنہ نے كہا: پھر میں نے آپ سے اجازت طلب كی، آپ بیٹھ گئے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے كہا: اپنے كپڑے سمیٹ لو، میں نے اپنی ضرورت پوری كی، پھر واپس پلٹ آیا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: اے اللہ كے رسول! یہ میں كیا دیكھ رہی ہوں كہ آپ نے ابو بكر اور عمر رضی اللہ عنہ كے لئے گھبراہٹ ظاہر نہیں كی، جب كہ آپ عثمانرضی اللہ عنہ كے لئے اٹھ كر بیٹھ گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان ایك با حیا شخص ہے، مجھے خدشہ تھا كہ اسے اس حالت میں اجازت دوں تو ممکن ہے وہ اپنی ضرورت مجھ تك نہ پہنچا سكے
جابر بن سمرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ: عمر بن خطابرضی اللہ عنہ نے (جابیہ) میں ہم سے خطاب كیا تو كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہم میں اس طرح كھڑے ہوئے تھے جس طرح میں تم میں كھڑا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ كے بارے میں میری حفاظت كرو۔ پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوں، پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوں۔ پھر جھوٹ پھیل جائے گا، حتی كہ آدمی سے گواہی نہیں مانگی جائے گی وہ گواہی دے گا اور قسم نہیں اٹھوائی جائے گی لیكن وہ قسم كھائے گا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، كہہ رہے تھے: جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا تو اس كی نماز جنازہ پڑھنے كے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو بلایا گیا۔ آپ كھڑے ہوئے اور نماز پڑھانا چاہی تو میں گھوم كر آپ كے سامنے آگیا اور كہا: اے اللہ كے رسول! كیا اللہ كے دشمن عبداللہ بن ابی كی نماز جنازہ پڑھائیں گے؟ جس نے فلاں فلاں یہ دن یہ بات كہی تھی، اور دن شمار كرنے لاا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسكراتے رہے،حتی كہ جب میں نے زیادہ كہنا شروع كر دیا تو آپ نے فرمایا: عمر! ہٹ جا ؤ، مجھے اختیار دیا گیا ہے، میں نے اس بات كو اختیار كیا ہے۔ مجھے كہا گیا ہے: ﮋ ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞ ﭟﭠ ﮊ ( التوبہ: 80) ( آپ ان كے لئے بخشش طلب كریں یا نہ كریں، اگر ان كے لئے ستر مرتبہ بھی مغفرت طلب كریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا)۔ اگر مجھے معلوم ہوتا كہ اگر میں ستر مرتبہ سے زیادہ مغفرت مانگوں اور اسے بخش دیا جائے تو میں ایسا كرتا۔ پھر آپ نے اس كی نماز پڑھی اور اس كے جنازے كے ساتھ گئے۔ اس کی قبر پر كھڑے ہوئے حتی كہ دفن سے فارغ ہوگئے۔ (بعد میں) مجھے رسول اللہ پر جرأت اور اصرار پر بڑا تعجب ہوا حالانکہ اللہ اور اس كا رسول بہتر جانتے ہیں، واللہ! ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا كہ یہ دو آیتیں نازل ہوئیںﮋ ﮯ ﮰ ﮱ ﯓ ﯔ ﯕ ﯖ ﯗ ﯘ ﯙ ﯚﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﮊ ( التوبہ84)( ان میں سے جو مرجائے اس كی نماز جنازہ كبھی بھی نہ پڑھو، نہ اس كی قبر پر كھڑے ہو، كیوں كہ انہوں نے اللہ اور اس كے رسول كے ساتھ كفر كیا ہے۔ اور فسق كی حالت میں مرے ہیں۔) اس كے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے كسی منافق كی نماز نہیں پڑھی، نہ اس كی قبر پر كھڑے ہوئے حتی كہ اللہ تعالیٰ نے آپ كی روح قبض كر لی۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ حکم بن ابی العاص کی اولاد میرے اس منبر پر اس طرح چڑھ گئی ہے جس طرح بندر چڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کے بعد فوت ہونے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھل کرہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ یہ حدیث سیدنا ابوھریرۃ اور ثوبان رضی اللہ عنہما اور سعید بن مسیب سے مرسلا روایت کی گئی ہے۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ بھی ذکر کئے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کہا گیا کہ: اے اللہ کے رسول! مشرکین کے خلاف بددعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت دینے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔