مغیرہ بن شعبہرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ ان کے پاس اللہ کا حکم( موت) آجائے گا اور وہ غالب ہوں گے۔
جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: :کسی بھی شخص کے لئے اس میں یعنی (مدینہ منورہ میں) لڑائی کے لئے ہتھیار اٹھانا جائز نہیں
عمار بن یاسررضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں اور علی رضی اللہ عنہ غزوہ ذی العشیرہ میں ساتھی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤڈالا تو ہم نے بنی مدلج کے کچھ لوگ دیکھے،کھجور کے باغ میں موجود چشمے پر کام کر رہے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: ابو الیقظان ! کیا تمہیں اس بات میں دلچسپی ہے کہ ہم ان لوگوں کے پاس جائیں اور دیکھیں کہ یہ کس طرح کام کر رہے ہیں؟ ہم ان کے پاس آئےاور کچھ دیر ان کا کام دیکھتے رہے۔پھر ہمیں نیند نے آلیا، میں اور علی رضی اللہ عنہ وہاں سے آگئے اور کھجور کے چھوٹے درختوں میں آکر مٹی پر سو گئے۔ واللہ ! پھر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی جگایا۔ ہمیں اپنے پاؤں سے ہلا رہے تھے۔ مٹی ہم پر پڑی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو تراب !علی رضی اللہ عنہ پر مٹی دیکھ کر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم ثمود کااُحیمر جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں، اور وہ شخص جو تمہیں یہاں ضرب لگائے گا۔ (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے سر پر) حتی کہ یہ یعنی داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کھجوریں لے کر آیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لئے اللہ سے ان میں برکت کی دعا کیجئے۔ آپ نے انہیں ہاتھ میں پکڑایا یا اپنا ہاتھ ان پر رکھ لیا (اور ایک روایت میں ہے:آپ نے اپنے ہاتھوں میں انہیں قطار میں رکھ دیا) پھر میرے لئے ان میں برکت کی دعا کی اور مجھ سے فرمایا: ابو ہریرہ! انہیں پکڑو اور اپنے اس تھیلے میں رکھ لو، جب بھی تم اس میں سے کچھ لینا چاہو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈالنا اور پکڑلینا، کبھی انہیں بکھیرنا نہیں ۔ میں نے اس میں سے اتنی اتنی وسق کھجوریں اللہ کے راستے میں(جہاد میں) اٹھائیں(اور ایک روایت میں ہے : پچاس وسق )ہم اس سے کھاتے اور کھلاتے، وہ تھیلا میری کمر سے جدا نہیں ہوا حتی کہ عثمانرضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن آیا تو وہ (میری کمر سے ) ٹوٹ کر (گر گیا)۔
ابو درداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،اچانک ابو بکررضی اللہ عنہ اپنے تہہ بند کا پلو پکڑے ہوئے آئے حتی کہ ان کا گھٹنہ ظاہر ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھی نے جھگڑا کیا ہے،انہوں نے سلام کیا اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی معاملہ تھا، میں نے ان سے تیزی کی، پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا ، انہوں نے انکار کر دیا۔ میں آپ کی طرف آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے( تین مرتبہ) ۔پھر عمررضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور ابو بکررضی اللہ عنہ کے گھر پر آئے ،پوچھا: کیا یہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں؟ گھر والوں نے کہا: نہیں ،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدلتا گیا حتی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول!واللہ! میں نے زیادہ ظلم کیا تھا۔( دو مرتبہ فرمایا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اے لوگو!)اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا تو تم نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور ابو بکر نے کہا: کہ یہ سچ بولتا ہے اور اپنی جان اور مال سے مجھے حوصلہ دیا، تو کیا تم مجھ سے میرا ساتھی چھڑاؤ گے؟(آپ نے دومرتبہ فرمایا)پھر اس کے بعد انہیں کبھی تکلیف نہیں دی گئی۔
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ایک آدمی نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اے ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے، ہمارے بہترین شخص اور بہترین شخص کے بیٹے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تقویٰ کو لازم کر لو، شیطان تمہیں گمراہ نہ کردے( ایک روایت میں ہے : اپنی مطلب کی بات کہو، شیطان تمہیں گمراہ نہ کردے)میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ،واللہ! مجھے یہ بات پسدت نہیں کہ تم مجھے میرےاس مقام سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے بلند کردو ۔
یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے مروی ہے، کہتےہیں کہ: ہم علی بن حسین رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ کچھ کوفی لوگ آئے علی رحمہ اللہ نے کہا: اے اہل عراق! ہم سے اسلام والی محبت کرو، میں نے اپنے والد سے سنا، فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! مجھے میرے مقام سے بلند مت کرو ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایا ہے۔ (راوی کہتے ہیں کہ:)میں نے یہ حدیث سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے سامنے ذکر کی تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بننے کے بعد بھی اللہ کے بندے ہی تھے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو ہند رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تالو میں سینگی لگائی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی بیاضہ! ابو ہند کو نکاح دو اور اسے پیغام نکاح بھیجو۔ ابو ہند سینگی لگانے والا تھا۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے گواہی مانگ رہے تھے کہ: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: اے حسان !اللہ کے رسول کی طرف سے جواب دو؟ اے اللہ اس کی روحِ قدس کے ساتھ تائید کر؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: صفیہ کی آنکھوں میں سبز نشان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :تمہاری آنکھوں میں یہ سبز نشان کس چیز کا ہے ؟کہتی ہیں: میں نے اپنے شوہر سے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ ایک چاند میری گود میں اتر آیا ہے ۔ میرے شوہر نے مجھے تھپڑ مارا اور کہنے لگا: کیا تم یثرب کے بادشاہ کو پانا چاہتی ہو ؟کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میرے نزدیک کوئی نا پسندیدہ شخص نہیں تھا، جس نے میرے والد اور شوہر کو قتل کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عذر پیش کرتے رہے اور کہتے رہے: صفیہ! تمہارے والد نے مجھ پر سارے عرب کو اکسایا اور اکٹھا کردیا۔اور یہ کیا اور یہ کیا۔۔۔ آپ عذر پیش کرتے رہے حتی کہ میرے دل سے یہ بات نکل گئی۔
قیس رحمہ اللہ سے مروی ہے، کہتےہیں کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ رہے تھے: میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا تو مسکراتے ہو ئے دیکھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دروازے سے یمن والوں میں سے بہترین شخص داخل ہوگا، اس کے چہرے پر فرشتے کی جھلک ہوگی، تو جریررضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔
محمد بن جبیر بن مطعم رحمہ اللہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے کسی راستے میں تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر اہل یمن نمودار ہوں گے، گویا کہ وہ بادل ہیں، روئے زمین میں موجود لوگوں میں سے بہتر ین ۔ ایک انصاری نے کہا:اے اللہ کے رسول! ہم نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول ہم نہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ،اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول ہم نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ کمزور سی آواز میں کہا: سوائے تمہارے ۔
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے کہا :یہ بچہ ایک صدی زندہ رہے گا۔ عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ ایک سو سال زندہ رہے۔