جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم موقف میں خود کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے :کیا کوئی ایسا شخص ہے جو مجھے اپنی قوم کی طرف لے جائے؟ کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے
عمرو بن عبسہ سلمی کہتے ہیں کہ: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھوڑوں کا جائزہ لے رہے تھے، آپ کے پاس عیینہ بن حنن بن بدر الفزاری بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں گھوڑوں کے بارے میں تجھ سے زیادہ جانتا ہوں۔ عینیہ کہنے لگا کہ: میں لوگوں کے بارے میں آپ سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: وہ کس طرح ؟ کہنے لگا: بہترین آدمی وہ ہیں جو اپنی تلواریں اپنی گردنوں میں لٹکائے، اپنے نیزے اپنے گھوڑوں کی زین پر رکھے، چادریں پہنے نجد سے تعلق رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ بولتے ہو، بلکہ بہترین آدمی اہل یمن سے ہیں، اور ایمان یمنی ہے۔ لخم جذام اور عاملہ تک۔ حمیر کے عام لوگ سرداروں سے بہتر ہیں۔ حضر موت بنو حارث سے بہتر ہے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے بہتر ہے۔ اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے بدتر ہے۔ واللہ! مجھے پرواہ نہیں کہ دونوں حارث مر جائیں ۔اللہ تعالیٰ نے چار بادشاہوں پر لعتت فرمائی، جمداء، مخوساء، مشرخاء، اور ابضعہ پر۔ اور ان کی بہن عمّردہ پر ختم کیا۔ پھر فرمایا: مجھے میرے رب عزوجل نے حکم دیا کہ میں قریش پر دو مرتبہ لعنت کروں تو میں نے ان پر لعنت کی۔ اور مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لئے رحمت کی دعا کروں تو میں نے دو مرتبہ ان کے لئے رحمت کی دعا کی۔ پھر فرمایا: اللہ کی نا فرمان قوم ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی ہے، سوائے قیس، جعدہ اور عصیۃ کے۔ پھر فرمایا: بنو اسلم، غفار، مزینہ، اور جہینہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں بنی اسد، تمیم ،غطفان اور ہوازن سے زیادہ بہتر ہوں گے، ۔ پھر فرمایا: عرب میں دو بدترین قبیلے ،نجران اور بنو تغلب ہیں، اور جنت میں زیادہ لوگ (قبائل) مذحج اور مأکول کے ہوں گے۔
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے: بھلائی ،آخرت کی بھلائی ہے، یا فرمایا: اے اللہ آخرت کی بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں، انصار اور مہاجرین کو بخش دے
محمود بن لبید سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: جب خندق کے دن سعد رضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں زخم لگا اور زخم بڑھ گیا ہوگئے، تو لوگ انہیں ایک عورت رفیدہ کے پاس لے گئے، وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس سے گزرتے تو فرماتے: شام کس طرح گزر رہی ہے؟ اور جب صبح آتے تو فرماتے: صبح کیسی گزر رہی ہے؟ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے، حتی کہ جب وہ رات آئی جس مین ان کی قوم نے انہیں منتقل کیا، ان کا زخم زیادہ بڑھ گیا تھا تو لوگ انہیں اٹھا کر بنی عبدالاشہل کے گھروں کی طرف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے جس طرح وہ ان کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، لوگوں نے کہا :وہ انہیں اٹھا کر لے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، ہم بھی آپ کے ساتھ چل پڑے۔ آپ تیز تیز چلے حتی کہ ہمارے جوتوں کے تسمے ٹوٹ گئے۔ ہمارے کاندھوں سے چادریں گر گئیں۔ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں تھکا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے خدشہ ہے کہ کہیں فرشتے ہم سے پہلے ان تک نہ پہنچ جائیں ،اور جس طرح حنظلہرضی اللہ عنہ کو غسل دیا تھا انہیں بھی غسل نہ دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر تک پہنچے، انہیں غسل دیا جارہا تھا۔ ان کی والدہ رو رہی تھیں۔ اور غمزدہ ہو کر کہہ رہی تھیں: سعد تیری ماں برباد ہوگئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نوحہ کرنے والی جھوٹ بولتی ہے، سوائے ام سعد کے، پھر ان کی میت کو لے کر نکلے، لوگوں نے آپ سے کہا یا جنہیں اللہ نے توفیق دی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے کوئی ایسی میت نہیں اٹھائی جو ہم پر سعد سے زیادہ ہلکی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہلکی کیوں نہ ہو؟ جتنے فرشتے آج اترے ہیں اس سے پہلے اتنے کبھی نہیں اترے۔ (راوی کہتا ہے کہ): آپ نے تعداد بھی بتائی تھی لیکن مجھے یاد نہیں رہی۔ جنہوں نے تمہارے ساتھ اس جنازے کو اٹھایا ہوا ہے
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ مکہ میں ،میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ہم کسی جانب نکلے، آپ کے سامنے کوئی پہاڑ یا درخت آتا تو وہ کہتا: اے اللہ کے رسول آپ پر سلامتی ہو۔
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اسلم ، غفار، اور مزینہ اور جہینہ کے آدمی دو حلیفوں غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ سے بہتر ہیں۔ عیینہ بن بدر نے کہا: واللہ! میں ان لوگوں کے ساتھ یعنی غطفان اور بنی عامر کے ساتھ جہنم میں چلاجاؤں (یا ان لوگوں کے ساتھ ) تو مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ان کے ساتھ جنت میں جاؤں
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے چچا ابو طالب کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: ممکن ہے قیامت کے دن میری سفارش انہیں نفع دے ،اور انہیں جہنم کے کم گہرے حصے میں رکھا جائے جہاں آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے جس سے ان کا دماغ کھول رہا ہو
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر ایسے ستر ہزار فرشتے نازل ہوئے جو اس سے پہلے زمین پر نہیں آئے تھے۔ اور جب وہ دفن کئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! اگر قبر کا دباؤ کسی کو چھوڑتا تو وہ سعد رضی اللہ عنہ ہوتے(اسے بھی ایک مرتبہ دبایا، پھر کشادہ ہو گئی)۔
عبدالرحمن بن ابی سعید خدریرضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مہاجرین کے لئے سونے کے ممبر ہوں گے ،جن پر وہ بیٹھیں گے، اور گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا ،لوگ اس کے برے میں باتیں کرنے لگے۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے تھے اور آپ کی تصدیق کی تھی ان میں سے کچھ لوگ مرتد ہو گئے اور دوڑتے ہوئے ابو بکررضی اللہ عنہ کے پاس آئے کہنے لگے: اپنے ساتھی کو دیکھو، اس کا خیال ہے کہ اسے رات کے وقت بیت المقدس لے جایا گیا ہے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اس نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہا: اگر اس نے یہ بات کہی ہے تو اس نے سچ کہا۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ رات کے وقت بیت المقدس گیا اور صبح ہونے سے پہلے آگیا؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، میں تو اس سے بڑی بات کی تصدیق کرتا ہوں، میں صبح یا شام کو آسمان سے آنے والی خبر کی بھی تصدیق کرتا ہوں ،اسی وجہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق ہوا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی: اِذَا جَآئَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ۔(النصر) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں جو نرم دل ہیں۔ ایمان ینیق ہے، فقہ یمنی ہے، حکمت یمنی ہے۔
عیاض اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ۔(المائدة: ٥٤) اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہو گیا تو عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم لائے گا جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا جو آپ کے پاس تھی، فرمانے لگے: وہ اس کی قوم ہے۔( )
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوڑے ہی بال سفید ہوئے تھے۔ لیکن ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مہندی اور کتم سے بال رنگے۔ کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والد ابو قحافہرضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر اٹھائے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور آپ کے سامنے بٹھا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکررضی اللہ عنہ سے کہا: اگر آپ اپنے والد کو گھر پر ہی رہنے دیتے تو ہم ابو بکر کی تکریم کی وجہ سے اس کے پاس آتے ۔ابو قحافہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے ،ان کی داڑھی اور سر کے بال سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں تبدیل کردو اور کالے رنگ سے بچنا۔
ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے کسی قبیلے کی طرف (راوی) مہدی کو اس قبیلے کا علم نہیں اپنا ایک قاصد بھیجا ،انہوں نے اسے گالی گلوچ کیا اور مارا پیٹا ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اہل عمان کی طرف آتے تو وہ نہ تمہیں گالی دیتے اور نہ ہی مارتے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابو جہل نے کہا: اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لوں تو اس کی گردن اڑادوں ،اس سے کہا گیا: وہ رہے۔ اس نے کہا: مجھے نظر نہیں آرہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے سب کے سامنے پکڑ لیتے۔ اور اگر یہودی موت کی تمنا کر تے تو مرجاتے
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ: احد کے موقع پر مجھے ایک تیر لگا ،میں نے اُفیا ہائے کہا (جیسے تکلیف کے وقت کہا جاتا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم (بسم اللہ) کہتے تو فرشتے تمہیں لے اڑتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہتی ہیں کہ اسامہرضی اللہ عنہ دروازے کی دہلیز سے پھسل کر گرگئے جس سے ان کا چہرہ زخمی ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے خون صاف کرو، مجھےاس سے کراہیت محسوس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خون صاف کرنے لگے، اور اس کے چہرے سے خون چوس کر پھینکنے لگے۔ پھر فرمایا: اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے اچھے کپڑے پہناتا ،زیورات پہناتا حتی کہ اسےسامان لا کر دیتا
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورۂ الجمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نے یہ آیت پڑھی : وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعة: ٣)اور ان میں سے دوسرے لوگ بھی ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کون لوگ ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہیں دیا حتی کہ اس نے ایک یا دو یا تین مرتبہ آپ سے سوال کیا: ہم میں سلمان فارسیرضی اللہ عنہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ سلمانرضی اللہ عنہ پر رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا(ستارے) پر بھی ہوتا تو ان جیسے لوگ وہاں بھی پہنچ جاتے ۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے، کہتے ہیں کہ: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھےہوئے تھے ،عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ میرے ساتھ جانے کے لئے کپڑے پہننے گئے تھے کہ ہم آپ کے پاس بیٹھے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک ملعون شخص آئے گا ۔واللہ! میں مضطرب ہوگیا اور ہر آنے جانے والے پر نظررکھی کہ (کون اس وعید کا مستحق ٹھہرتا ہے) فلاں یعنی الحکم بن ابی العاص داخل ہوا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہےکہ: میرے نزدیک کوئی شخص ابو بکررضی اللہ عنہ سے زیادہ تقویت دینے والا نہیں۔ اپنی جان اور مال سے میری حفاظت کی اور اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا۔
عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: قریش ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ نے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال کو دیکھا ہے؟ ہمیں ہماری مجلس اور ہماری مسجد میں تکلیف دیتا ہے۔ اسے باز رکھئے، ابو طالب نے کہا: عقیل! میرے پاس محمد کو لاؤ۔ میں گیا اور انہیں لے کر آگیا ۔ ابو طالب نے کہا: اے بھتیجے!تمہارے چچا کے بیٹوں کا دعویٰ ہے کہ تم ان کی مجلس اور ان کی مسجد میں انہیں تکلیف دیتے ہو۔ اس سے باز آجاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں (اور ایک روایت میں ہے کہ: آپ نے اپنی نگاہوں سے دائرہ بنایا) اور فرمانے لگے: میں اس بات پر قادر نہیں کہ اگر یہ مجھے اس کا ایک شعلہ لا کر دے دیں یعنی سورج کا ۔ تو میں اس کا م سے رک جاؤں۔ ابو طالب نے کہا: میرے بھتیجے نے جھوٹ نہیں بولا ،تم واپس چلے جاؤ۔
عمران بن حصینرضی اللہ عنہ سے مروی ہے،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو نگران بنایا ، وہ سر یے میں روانہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک لونڈی سےجماع کیا ،لوگوں نے اسے برا محسوس کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار صحابہ نےعہد کر لیا، کہنے لگے: اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو انہیں علی رضی اللہ عنہ کے کارنامے کی خبر دیں گے ۔ مسلمان جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے، پھر اپنے گھروں کو جاتے۔ جب یہ سریہ واپس آیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا، ان چاروں میں سے ایک کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ علی بن ابی طالب کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا۔ پھر دوسرا کھڑا ہوا اور اسی طرح کی بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منہ موڑ لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اور جو بات انہوں نے کہی تھی اسی طرح کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی اعراض کرلیا۔ پھر چوتھا کھڑا ہوا اور اس نے بھی وہی بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف متوجہ ہوئے،غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمار رضی اللہ عنہ کو جب بھی دو معاملوں میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ ان دونوں میں سے بہترین کا انتخاب کیا
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے( انبیاء میں سے) کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری تصدیق کی گئی۔ انبیاء میں سے ایسے بھی ہیں جن کی صرف ایک شخص نے تصدیق کی۔