Blog
Books
Search Hadith

خوبیوں اور خامیوں کا بیان

315 Hadiths Found
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اللہ کی زمین میں چنا ہوا ٹکڑا شام ہے۔ اور اس میں اس کی چنی ہوئی مخلوق اور بندے ہیں، اور میری امت میں سے ایک گروہ جنت میں داخل ہوگا جن پر نہ کوئی حساب ہوگا نہ کوئی عذاب۔

Haidth Number: 3510
زید بن ثابت‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ : شام کے لئے خوشخبری ہے،رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں

Haidth Number: 3511
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔ اس شخص کے لئے سات مرتبہ خوشخبری ہے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا

Haidth Number: 3512
عبداللہ بن بسر‌رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا اور اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نےا س شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھنے والے شخص کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔

Haidth Number: 3513
مسلم بطین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا جنت میں میری بیوی ہوں گی

Haidth Number: 3514
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: عثمان رضی اللہ عنہ جنتی ہے۔

Haidth Number: 3515
ثوبان رضی اللہ عنہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا۔ ایک وہ گروہ جو ہندؤں سے جہاد کرے گا، اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھ مل کر جہاد کرے گا۔

Haidth Number: 3516
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ میرا قرض ادا کرے گا۔ یہ حدیث ..... سے مروی ہے

Haidth Number: 3517
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں۔

Haidth Number: 3518
آٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور چچا باپ کے برابر ہوتا ہے۔ یہ حدیث ...... سے مروی ہے۔

Haidth Number: 3519
جابر‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دلوں کی سختی اور جفا مشرق میں ہے ، اور ایمان اہل حجاز میں ہے۔

Haidth Number: 3520
مسور سے مروی ہے کہ: حسن بن حسن نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ مسورنے کہا: اس سے کہو مجھے رات کے وقت ملے۔ حسن نے اس سے ملاقات کی تو مسور نے اللہ کی حمدو ثناء کی، پھر کہا: اما بعد! اللہ کی قسم! کوئی نسب ،کوئی تعلق اور کوئی سسرال مجھے تمہارے نسب (تمہارے تعلق) اور تمہارے سسرال سے زیادہ محبوب نہیں ۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے تنگ کرتی ہے مجھے تنگ کرتی ہے اور جو بات اسےخوش کرتی ہے مجھے خوش کرتی ہے اور تمام نسب قیامت کے دن ختم ہو جائیں گے، میرے نسب، تعلق اور سسرال کے علاوہ اور تمہارے پاس فاطمہ کی بیٹی ہے، اگر میں نے تم سے شادی کر دی تو یہ بات اسے تنگ کرے گی۔ (یہ سن کر) انہوں نے اسے معذور سمجھا اور چل دئیے۔

Haidth Number: 3521
ام ہانی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے قریش کو سات باتوں کی وجہ سے فضیلت دی:۱۔اس بات سے فضیلت دی کہ انہوں نے دس سال اللہ کی عبادت کی جبکہ قریش کے علاوہ کوئی اور اللہ کی عبادت نہیں کرتا تھا۔ ۲۔ اس بات کی وجہ سے فضیلت دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والے دن ان کی مدد کی حالانکہ وہ مشرک تھے۔۳۔ ان کے بارے میں قرآن کی ایک مکمل سورت نازل ہوئی کہ ان کے علاوہ اس میں کسی اور کاتذکرہ نہیں کیاگیا : لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾ (قریش: ۱) ۔۴۔ان میں نبوت رکھی۔۴۔ خلافت رکھی۔۶۔بیت اللہ کی حفاظت کی ذمہ داری۔۷۔حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری رکھی۔

Haidth Number: 3522
عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے ہر زمانے(صدی) میں سبقت کرنے والے ہیں۔

Haidth Number: 3523
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ: عمار سے لڑائی کرنے والا اور اس کا مال سلب کرنے والا آگ میں ہے۔

Haidth Number: 3524
انس بن مالک‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ جب اہل یمن آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن آگئے، یہ تم سے زیادہ رقیق القلب ہیں۔(انس‌رضی اللہ عنہ نے کہا) یہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مصافحہ کو رواج دیا۔

Haidth Number: 3525

عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: قَدِمْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَّعَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً، لَا تُرْوِيهَا قَالَ: فَقَعَدَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى جَبَا الرَّكِيَّةِ فَإِمَّا دَعَا وَإِمَّا بَصَقَ فِيهَا قَالَ: فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم دَعَانَا لِلْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ قَالَ فَبَايَعْتُهُ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ بَايَعَ وَبَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِّنَ النَّاسِ قَالَ: بَايِعْ يَا سَلَمَةُ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللهِ! فِي أَوَّلِ النَّاسِ قَالَ: وَأَيْضًا قَالَ: وَرَآنِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَزْلًا يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ سِلَاحٌ قَالَ: فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً ثُمَّ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ قَالَ: أَلَا تُبَايِعُنِي يَا سَلَمَةُ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللهِ فِي أَوَّلِ النَّاسِ وَفِي أَوْسَطِ النَّاسِ قَالَ: وَأَيْضًا قَالَ: فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ ثُمَّ قَالَ لِي: يَا سَلَمَةُ! أَيْنَ حَجَفَتُكَ أَوْ دَرَقَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ عَزْلًا فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَالَ: إِنَّكَ كَالَّذِي قَالَ الْأَوَّلُ: اللهُمَّ أَبْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَّفْسِي ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا فِي بَعْضٍ وَّاصْطَلَحْنَا قَالَ: وَكُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ أَسْقِي فَرَسَهُ وَأَحُسُّهُ وَأَخْدِمُهُ وَآكُلُ مِنْ طَعَامِهِ وَتَرَكْتُ أَهْلِي وَمَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَهْلُ مَكَّةَ وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا فَاضْطَجَعْتُ فِي أَصْلِهَا قَالَ: فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَجَعَلُوا يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَبْغَضْتُهُمْ فَتَحَوَّلْتُ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى وَعَلَّقُوا سِلَاحَهُمْ وَاضْطَجَعُوا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِّنْ أَسْفَلِ الْوَادِي: يَا لِلْمُهَاجِرِينَ! قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ قَالَ: فَاخْتَرَطْتُّ سَيْفِي ثُمَّ شَدَدْتَّ عَلَى أُولَئِكَ الْأَرْبَعَةِ وَهُمْ رُقُودٌ فَأَخَذْتُ سِلَاحَهُمْ فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ! لَا يَرْفَعُ أَحَدٌ مِّنْكُمْ رَأْسَهُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِي فِيهِ عَيْنَاهُ قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ! قَالَ: وَجَاءَ عَمِّي عَامِرٌ بِرَجُلٍ مِّنَ الْعَبَلَاتِ يُقَالُ لَهُ: مِكْرَزٌ يَّقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى فَرَسٍ مُّجَفَّفٍ فِي سَبْعِينَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: دَعُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُورِ وَثِنَاهُ فَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَنْزَلَ اللهُ :وَ ہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ۔(الفتح: ٢٤) الْآيَةَ كُلَّهَا قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي لَحْيَانَ جَبَلٌ وَّهُمُ الْمُشْرِكُونَ فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَنْ رَقِيَ هَذَا الْجَبَلَ اللَّيْلَةَ كَأَنَّهُ طَلِيعَةٌ لِّلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابِهِ قَالَ سَلَمَةُ: فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَنَا مَعَهُ وَخَرَجْتُ مَعَهُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ مَعَ الظَّهْرِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ غَادر عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِيَهُ قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ! خُذْ هَذَا الْفَرَسَ فَأَبْلِغْهُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللهِ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ قَالَ ثُمَّ قُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ فَنَادَيْتُ ثَلَاثًا يَا صَبَاحَاهْ! ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ أَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ رَجُلًا مِّنْهُمْ فَأَصُكُّ سَهْمًا فِي رَحْلِهِ حَتَّى خَلَصَ نَصْلُ السَّهْمِ إِلَى كَتِفِهِ قَالَ: قُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ قَالَ: فَوَاللهِ! مَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَجَلَسْتُ فِي أَصْلِهَا ثُمَّ رَمَيْتُهُ فَعَقَرْتُ بِهِ حَتَّى إِذَا تَضَايَقَ الْجَبَلُ فَدَخَلُوا فِي تَضَايُقِهِ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَجَعَلْتُ أُرَدِّيهِمْ بِالْحِجَارَةِ قَالَ: فَمَا زِلْتُ كَذَلِكَ أَتْبَعُهُمْ حَتَّى مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ بَعِيرٍ مِّنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي وَخَلَّوْا بَيْنِي وَبَيْنَهُ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً وَّثَلَاثِينَ رُمْحًا يَّسْتَخِفُّونَ وَلَا يَطْرَحُونَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِّنْ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابُهُ حَتَّى أَتَوْا مُتَضَايِقًا مِّنْ ثَنِيَّةٍ فَإِذَا هُمْ قَدْ أَتَاهُمْ فُلَانُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ فَجَلَسُوا يَتَضَحَّوْنَ يَعْنِي يَتَغَدَّوْنَ وَجَلَسْتُ عَلَى رَأْسِ قَرْنٍ قَالَ الْفَزَارِيُّ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟ قَالُوا: لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ، وَاللهِ! مَا فَارَقَنَا مُنْذُ غَلَسٍ، يَرْمِينَا حَتَّى انْتَزَعَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا قَالَ: فَلْيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِّنْكُمْ أَرْبَعَةٌ قَالَ: فَصَعِدَ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فِي الْجَبَلِ قَالَ: فَلَمَّا أَمْكَنُونِي مِنَ الْكَلَامِ قَالَ: قُلْتُ: هَلْ تَعْرِفُونِي؟ قَالُوا: لَا وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ! لَا أَطْلُبُ رَجُلًا مِّنْكُمْ إِلَّا أَدْرَكْتُهُ وَلَا يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِّنْكُمْ فَيُدْرِكَنِي قَالَ أَحَدُهُمْ: أَنَا أَظُنُّ قَالَ: فَرَجَعُوا فَمَا بَرِحْتُ مَكَانِي حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ قَالَ: فَإِذَا أَوَّلُهُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ عَلَى إِثْرِهِ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ وَعَلَى إِثْرِهِ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ قَالَ: فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ الْأَخْرَمِ قَالَ: فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ قُلْتُ: يَا أَخْرَمُ! احْذَرْهُمْ لَا يَقْتَطِعُوكَ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابُهُ قَالَ: يَا سَلَمَةُ! إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ قَالَ: فَخَلَّيْتُهُ فَالْتَقَى هُوَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: فَعَقَرَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَهُ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ وَتَحَوَّلَ عَلَى فَرَسِهِ وَلَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ فَوَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ! لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِي مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا غُبَارِهِمْ شَيْئًا حَتَّى يَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ ذَو قَرَدٍ لِّيَشْرَبُوا مِنْهُ وَهُمْ عِطَاشٌ قَالَ: فَنَظَرُوا إِلَيَّ أَعْدُو وَرَاءَهُمْ فَخَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ يَعْنِي أَجْلَيْتُهُمْ عَنْهُ فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً قَالَ: وَيَخْرُجُونَ فَيَشْتَدُّونَ فِي ثَنِيَّةٍ قَالَ: فَأَعْدُو فَأَلْحَقُ رَجُلًامِّنْهُمْ فَأَصُكُّهُ بِسَهْمٍ فِي نُغْضِ كَتِفِهِ قَالَ: قُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَع وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ قَالَ: يَا ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ! أَكْوَعُهُ بُكْرَةَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ أَكْوَعُكَ بُكْرَةَ قَالَ: وَأَرْدَوْا فَرَسَيْنِ عَلَى ثَنِيَّةٍ قَالَ: فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: وَلَحِقَنِي عَامِرٌ بِسَطِيحَةٍ فِيهَا مَذْقَةٌ مِّنْ لَبَنٍ وَسَطِيحَةٍ فِيهَا مَاءٌ فَتَوَضَّأْتُ وَشَرِبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي خليتهم عَنْهُ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَخَذَ تِلْكَ الْإِبِلَ وَكُلَّ شَيْءٍ اسْتَنْقَذْتُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَكُلَّ رُمْحٍ وَّبُرْدَةٍ وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِّنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! خَلِّنِي فَأَنْتَخِبُ مِنَ الْقَوْمِ مِائَةَ رَجُلٍ فَأَتَّبِعُ الْقَوْمَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُّخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فِي ضَوْءِ النَّارِ فَقَالَ: يَا سَلَمَةُ! أَتُرَاكَ كُنْتَ فَاعِلًا؟ قُلْتُ: نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ فَقَالَ: إِنَّهُمْ الْآنَ لَيُقْرَوْنَ فِي أَرْضِ غَطَفَانَ قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ غَطَفَانَ فَقَالَ: نَحَرَ لَهُمْ فُلَانٌ جَزُورًا فَلَمَّا كَشَفُوا جلودهَا رَأَوْا غُبَارًا فَقَالُوا: أَتَاكُمُ الْقَوْمُ فَخَرَجُوا هَارِبِينَ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم :كَانَ خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ وَخَيْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ قَالَ ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَهْمَيْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ وَسَهْمَ الرَّاجِلِ فَجَمَعَهُمَا لِي جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ قَالَ وَكَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْأَنْصَارِ لَا يُسْبَقُ شَدًّا قَالَ: فَجَعَلَ يَقُولُ: أَلَا مُسَابِقٌ إِلَى الْمَدِينَةِ هَلْ مِنْ مُّسَابِقٍ؟ فَجَعَلَ يُعِيدُ ذَلِكَ قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ كَلَامَهُ قُلْتُ: أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا وَّلَا تَهَابُ شَرِيفًا؟ قَالَ: لَا إِلَّا أَنْ يَّكُونَ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! بِأَبِي وَأُمِّي! ذَرْنِي فَلِأُسَابِقَ الرَّجُلَ قَالَ: إِنْ شِئْتَ قَالَ: قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَيْكَ وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ فَعَدَوْتُ قَالَ: فَرَبَطْتُّ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ أَسْتَبْقِي نَفَسِي ثُمَّ عَدَوْتُ فِي إِثْرِهِ فَرَبَطْتُّ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ ثُمَّ إِنِّي رَفَعْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ قَالَ: فَأَصُكُّهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ سُبِقْتَ وَاللهِ! قَالَ: أَنَا أَظُنُّ قَالَ: فَسَبَقْتُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ: فَوَاللهِ! مَا لَبِثْنَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَجَعَلَ عَمِّي عَامِرٌ يَّرْتَجِزُ بِالْقَوْمِ تَاللهِ لَوْلَا اللهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَنَا عَامِرٌ قَالَ: غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِإِنْسَانٍ يَّخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ قَالَ: فَنَادَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ عَلَى جَمَلٍ لَّهُ: يَا نَبِيَّ اللهِ! لَوْلَا مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ؟ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ قَالَ: خَرَجَ مَلِكُهُمْ مَّرْحَبٌ يَّخْطِرُ بِسَيْفِهِ وَيَقُولُ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ قَالَ وَبَرَزَ لَهُ عَمِّي عَامِرٌ فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرٌ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّغَامِرٌ قَالَ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ وَذَهَبَ عَامِرٌ يَسْفُلُ لَهُ فَرَجَعَ سَيْفُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ قَالَ سَلَمَةُ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَفَرٌ مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُونَ: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَتَلَ نَفْسَهُ قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَنَا أَبْكِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ قَالَ: كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ وَّهُوَ أَرْمَدُ فَقَالَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُّحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلِيًّا فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ وَهُوَ أَرْمَدُ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَسَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ قَالَ فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ ثُمَّ كَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ . ( )

ایاس بن سلمہ سے مروی ہے کہ: میرے ابا جان (سلمہ بن اکوع‌رضی اللہ عنہ )نےبیا ن کیا، کہتے ہیں :۱۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ آئے، اس وقت ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ پچاس بکریاں تھیں اور (حدیبیہ کا کنواں) ان کو بھی سیراب کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے، تو دعا کی یا اس میں لعاب دہن ڈالا تو اسی وقت پانی ابل آیا۔ ہم نے خود بھی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا۔ ۲۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لئے درخت کے نیچے بلایا، میں نے ابتدائی لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کرتے رہے حتی کہ نصف لوگ بیعت کر چکے تو آپ نے فرمایا: سلمہ! بیعت کرو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ابتدائی لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ اسی طرح بیعت کرو۔۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بغیر ہتھیاروں کے دیکھا تو مجھے ایک ڈھال دی۔ پھر بیعت کرتے رہے، جب آخری لوگ بچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! کیا تم میری بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ابتداء اور درمیان میں بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح دو بارہ بیعت کر لو۔ میں نے تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ۴۔ سلمہ! تمہاری ڈھال کہاں ہے جو میں نے تمہیں دی تھی؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے میرے چچا ملے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور فرمایا:تم اس اگلے شخص کی طرح ہو جس نے کہا: اے اللہ مجھے ایسا محبوب دے جومجھے خود سے زیادہ پیارا ہو۔۵۔ پھر مشرکین نے صلح کر لی، حتی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ چلنے لگے، میں طلحہ بن عبیداللہ‌رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا،میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا، اس کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی خدمت کرتا تھا، اور انہی کے ساتھ کھاتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرتے ہوئے اپنا گھر بار اور مال و دولت چھوڑ دیا تھا۔ جب ہم نے اور اہل مکہ نے صلح کر لی اور ایک دوسرے میں مل جل گئے تو میں ایک درخت کے نیچے آیا، اس کے کانٹے صاف کئے اور اس کے نیچے لیٹ گیا۔ میرے پاس مکے کے چار مشرکین آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے لگے۔مجھے ان سے نفرت ہوگئی میں ایک دوسرے درخت کی طرف چلا گیا۔ انہوں نے ہتھیار لٹکا دئے اور لیٹ گئے۔ ابھی وہ اسی کیفیت میں تھے کہ اچانک وادی کے نشیبی علاقے سے آواز آئی:اے مہاجرین !ابن زنیم قتل کر دیا گیا۔ میں نے اپنی تلوار سونت لی، پھر ان چاروں پر چڑھ دوڑا، وہ لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے ہتھیار ایک گٹھا بنا کر اپنے ہاتھ میں کرلئے، پھر میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چہرے کو عزت بخشی! تم میں سے جس شخص نے بھی اپنا سر اٹھایا میں اس کی کھوپڑی اڑادوں گا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔۶۔ میرے چچا عامر‌رضی اللہ عنہ ایک آدمی کو لائے جسے مکرز کہا جاتا تھا۔ وہ ایسے گھوڑے پر جس پر جھول پڑی ہوئی تھی، ستر مشرکین تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دو۔ عہد شکنی کی ابتدا ان کی طرف سے ہونے دو اور پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو۔تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: وَ ہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ۔(الفتح: ٢٤) اور وہ ذات ( اللہ ) جس نے مکہ کی وادی میں تمہیں ان پر غلبہ دینے کے بعد ان کے ہاتھ تم سے روکے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے (پوری آیت)۔ ۷۔پھر ہم مدینے واپسی کے لئے نکلے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا ،ہمارے اور بنو لحیان کے درمیان ایک پہاڑ تھا، وہ مشرکین تھے اس رات جو لوگ پہرہ دینے کے لئے اس پہاڑ پر چڑھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے بخشش کی دعا کی، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی حفاظت کے لئے گویا کہ وہ ہراول دستہ ہے۔ میں اس رات دو یا تین مرتبہ چڑھا۔ ۔ پھر ہم مدینہ آگئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام رباح کے ساتھ اپنی اونٹنیاں بھیجیں، میں بھی اس کے ساتھ طلحہ‌رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لے کر نکلا جسے میں خوب بھٹکا رہا تھا۔ جب صبح ہوئی تو اچانک عبدالرحمن فزاری حملہ کر کے ساری اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔ اور چرواہے کو قتل کر دیا۔ میں نے رباح سے کہا: یہ گھوڑا پکڑو اور اسے طلحہ بن عبیداللہ‌رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دینا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانا کہ مشرکین آپ کے مویشی لوٹ کر لے گئے ہیں۔ پھر میں ایک اونچی جگہ پر چڑھا اور مدینے کی طرف رخ کر کے تین مرتبہ پکارا: یا صباحاہ! پھر ان لوگوں کے نشان دیکھتا ہوا ان کے پیچھے لگ گیا، انہیں تیر مارتا اور یہ شعر پڑھتا: میں اکوع کا بیٹا ہوں،آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے،میں کسی آدمی سے جا ملتا اور سامان سفر کے تھیلے پر تیر مارتا حتی کہ تیر کی نوک اس کے کاندھے میں پیوست ہو جاتی، میں کہتا: لو اس کوپکڑو،میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔واللہ! میں انہیں تیر مارتا اور انہیں زخمی کرتا رہا، جب ان میں سے کوئی گھڑ سوا رمیری طرف پلٹا، تو میں کسی درخت کی اوٹ لے کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر تیر مار کر اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیتا، حتی کہ جب پہاڑ کا دامن تنگ ہوگیا اور وہ اس میں داخل ہوگئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور انہیں پتھر مارنے لگا۔ میں اسی طرح ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سواری کی جو اونٹنیاں پیدا کی تھیں، وہ سب میں نے پیچھے چھوڑ دیں۔پھر میں ان کے پیچھے دوڑتا رہا اور انہیں تیر مارتا رہا حتی کہ انہوں نے تیس(۳۰) سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لئے پھینک دئے ۔ وہ جو چیز بھی پھینکتے میں اس پر نشان لگا دیتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پہچان لیں۔ پھر وہ گھاٹی کے ایک تنگ درے میں آگئے، جب وہ وہاں آئے تو فلاں بن بدر فزاری ان کے پاس آیا وہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ میں بھی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری نے کہا: یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ کہنے لگے: ہمیں اس نے تنگ کر رکھا ہے، کل سے یہ ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے اور ہم سے ہر چیز چھین لی ہے۔ اس نے کہا: تم میں سے چار شخص اس پر حملہ کیوں نہیں کر دیتے؟ ان میں سے چار شخص میری طرف پہاڑ پر چڑھنے لگے، جب وہ مجھ سے بات کرنے کی دوری پر ہو گئے تو میں نے کہا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سلمہ بن اکوع ہوں، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت بخشی ہے! میں تم میں سے جس شخص کے پیچھے لگوں اس تک پہنچ جاؤں گا، اور تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو میرے پیچھے لگے اور مجھ تک پہنچ جائے ۔ان میں سے ایک نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔۹۔ پھر وہ واپس پلٹ گئے، میں ابھی اپنی جگہ پر ہی تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار دیکھے جو درختوں کی اوٹ میں آرہے تھے ۔سب سے آگے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ تھے، اس کے پیچھے ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ اور اس کے پیچھے مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ ، میں نے اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑلی۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ میں نے کہا: اخرم‌رضی اللہ عنہ ان سے بچنا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نہ پہنچ جائیں اس وقت تک یہ تم تک نہ پہنچ سکیں، اخرم‌رضی اللہ عنہ نے کہا: سلمہ! اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور جانتے ہو کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو میرے اور شہادت کے درمیان رکاوٹ مت بنو، میں نے راستہ چھوڑ دیا وہ اور عبدالرحمن آمنے سامنے آگئے۔ اخرم‌رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں، جب کہ عبدالرحمن نے اخرم‌رضی اللہ عنہ کو نیزہ مار کر قتل کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےشہسوار ابو قتادہ رضی اللہ عنہ عبدالرحمن سے جا ملے اور اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت بخشی ہے! میں اپنے پیروں پر ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کی گردو غبار بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ سورج غروب ہونے سے پہلے وہ ایک گھاٹی میں پہنچے جس میں ایک چشمہ تھا۔ اس کو ذوقرد(بندروں والا) کہا جاتا تھا، وہ پیاسے تھے، اس سے پانی پینے لگے تو انہوں نے میری طرف دیکھا کہ میں ان کے پیچھے بھاگتاہوا آرہا ہوں۔ میں نے انہیں اس چشمے سے دور کر دیا انہوں نے اس سے ایک قطرہ پانی نہیں پیا، وہ وہاں سے نکلے اور گھاٹی میں دوڑنے لگے، میں ان میں سے کسی کے سر پر پہنچ گیا اور اس کے کاندھے میں تیر مارا اورکہا: لو اسے پکڑو ،میں اکوع کا بیٹا ہوں ،آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔اس نے کہا: تجھے تیری ماں گم پائے! تو صبح والا اکوع ہی ہے؟ میں نے کہا: اپنی جان کے دشمن! ہاں وہی صبح والا اکوع ہے۔ انہوں نے گھاٹی میں دو گھوڑے چھوڑے، میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔۱۰۔ عامر‌رضی اللہ عنہ مجھے مشکیزے کے ساتھ ملے جس میں پانی ملا دودھ (کچی لسی )تھی اور دوسرے مشکیزے میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور پانی ملا دودھ پیا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چشمے پر تھے جس سے میں نے ان لوگوں کو دور کیا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اونٹ اور ہر وہ چیز جو میں نے مشرکین سے چھڑائی تھی اور ہر نیزہ اور چادرآپ نے اپنے قبضے میں کی ہوئی ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے قبضے مںا کی ہوئی ایک اونٹنی نحر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کا جگر اور کوہان بھوننے لگے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں میں سے سو آدمی منتخب کر کے ان لوگوں کا پیچھا کروں،ان ان سب کو قتل کردوں کہ اپنی قوم کو خبر دینے کے لئے بھی باقی نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادیئےحتی کہ آگ کی روشنی میں آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! تمہارے خیال میں کیا تم یہ کام کر لو گے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت غطفان کے علاقے میں ان کی ضیافت کی جا رہی ہے۔ غطفان سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: فلاں نے ان کے لئے اونٹنی نحر کی ہے۔ جب وہ لوگ اس کی کھال اتار رہے تھے تو انہوں نے گردوغبار دیکھا۔ کہنے لگے: وہ لوگ آگئے اور بھاگتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ ۱۱۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن ہمارے بہترین شہسوارابو قتادہ اور بہترین پیادہ سلمہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے عطا کئے، ایک شہسوار کا اور ایک پیادہ کا۔آپ نے اکھٹے ہی مجھے دونوں حصے دیئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عضباء پر مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا اور ہم مدینے کی طرف واپس آنے لگے۔۱۲۔ہم چلے آرہے تھے کہ ایک انصاری شخص تھا جو دوڑ میں کبھی نہیں ہارا تھا، کہنے لگا: کیا کوئی مدینے تک مقابلہ کرنے والا ہے،کیا کوئی مقابلہ کرنے والا ہے؟ وہ بار بار یہی بات دہراتا ،جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو میں نے کہا: کیا تم کریم شخص کی عزت نہیں کرتے اور کسی شریف سے نہیں ڈرتے ؟ اس نے کہا: نہیں، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے اجازت دیجئے میں اس آدمی سے مقابلہ کرو ں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اگر تم چاہو تو میں نے اس سے کہا: تم چلو میں تمہاری طرف آرہا ہوں میں نے اپنی ٹانگوں کو دوہرا کیا اور اونٹنی سے چھلانگ مار کر نیچے کود گیا میں اس کے پیچھے ایک یا دو اونچی جگہوں پر چڑھامیں اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا پھر میں اس کے پیچھے دوڑنے لگا، ایک یا دو اونچی جگہوں پر آرام سے چڑھا پھر میں دوڑتا گیا حتی کہ اسے جا لیا، اور اس کے کاندھوں کے درمیان ہاتھ مارا اور کہا: واللہ! تم ہار گئے، وہ کہنے لگا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ پھر میں مدینے تک اس سے آگے رہا۔۱۳۔ واللہ! ابھی تین راتیں ہی گزری تھیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ میرے چچا عامر‌رضی اللہ عنہ یہ اشعار پڑھ رہے تھے: اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے فضل سے بے پرواہ نہیں، اگر ہم دشمن سے ملیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ ،اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں عامر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب تمہیں بخش دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کے لئے بھی خاص کر کے بخشش کی دعا کی وہ شہید ہو گیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پکار لگائی، وہ اپنے اونٹ پر تھے۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں عامر‌رضی اللہ عنہ سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا۔۱۴۔ جب ہم خیبر آئے تو ان کا سردار مرحب تلوار سونتے میدان میں آیا اور کہہ رہا تھا: خیبر والے جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں، کانٹے دار اسلحہ رکھنے والا، بہادر تجربہ کار، جب جنگ شعلے بھڑکانے لگے۔ اس کے مقابلے میں میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے میدا ن میں اترے :خیبر والے جانتے ہیں کہ میں عامر ہوں، کانٹے دار اسلحہ رکھنے والا، بہادر، سخت لڑائی میں گھس جانے والا،ان دونوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائیں ،مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر پڑی، عامر رضی اللہ عنہ نے اس پر نیچے سے حملہ کیا تو عامر کی تلوار ان کے اپنے ہاتھ کی رگ میں لگی اور اس میں ان کی جان چلی گئی۔۱۵۔ سلمہ‌رضی اللہ عنہ نے کہا: میں باہر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کہہ رہے تھے کہ: عامر‌رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہوگیا۔ اس نے اپنے آپ کو قتل کر لیا۔ میں روتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عامر رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس نے یہ بات کہی؟ میں نے کہا: آپ کےکچھ صحابہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن لوگوں نے یہ بات کہی انہوں نے جھوٹ بولا۔ عامر کے لئے تو دوگنا اجر ہے۔ پھر مجھے علی‌رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہوں گے، میں علی‌رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ،اور ان کا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب مبارک ڈالا تو وہ ٹھیک ہو گئے۔ اور آپ نے انہیں جھنڈا دے دیا۔ مرحب یہ کہتا ہوا میدان میں آیا :خیبر والے جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں، کانٹے دار اسلحہ رکھنے والا بہادر تجربہ کار جب جنگیں شعلے بھڑکاتی ہیں۔علی‌رضی اللہ عنہ نے کہا: میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے، جنگل کے شیر کی طرح ،ہیبت ناک منظر والا، میں دشمن کو پورا تول کر دیتا ہوں۔ علی‌رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر میں ضرب لگائی اور اسے قتل کر دیا۔ پھر فتح بھی ان کے ہاتھ پر ہوئی۔

Haidth Number: 3526
عبداللہ بن ابی ہذیل سے مروی ہے کہ: بنو ربیعہ کے کچھ لوگ عمرو بن عاص‌رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، بکر بن وائل کے ایک شخص نے کہا: یا تو قریش باز آجائیں وگرنہ اللہ تعالیٰ یہ امارت عرب کے دوسرے لوگوں کو دے دے گا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جھوٹ بول رہے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قریش قیامت تک لوگوں کے خیرو شر میں نگران ہوں گے

Haidth Number: 3527

عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَأَبُو بَكْرٍ فِي طَائِفَةٍ مِّنَ الْمَدِينَةِ قَالَ: فَجَاءَ فَكَشَفَ عَنْ وَّجْهِهِ فَقَبَّلَهُ وَقَالَ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي مَا أَطْيَبَكَ حَيًّا وَّمَيِّتًا مَاتَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَتَقَاوَدَانِ حَتَّى أَتَوْهُمْ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَّلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا أُنْزِلَ فِي الْأَنْصَارِ وَلَا ذَكَرَهُ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مِنْ شَأْنِهِمْ إِلَّا وَذَكَرَهُ وَقَالَ: وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَّسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا سَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ . وَلَقَدْ عَلِمْتَ يَا سَعْدُ! أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: وَأَنْتَ قَاعِدٌ قُرَيْشٌ وُّلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِّبَرِّهِمْ وَفَاجِرُهُمْ تَبَعٌ لِّفَاجِرِهِمْ قَالَ: فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَاءُ وَأَنْتُمْ الْأُمَرَاءُ

حمید بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ مدینے کےایک دوسرے علاقے میں تھے۔ وہ آئے اور آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر آپ کو بوسہ دیا، اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ زندگی میں اور مرنے کے بعد کتنے پاکیزہ ہیں۔ رب کعبہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں.... حدیث ذکر کی ۔کہتے ہیں کہ: ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ دونوں چلتے ہوئے لوگوں کے پاس آئے ،ابو بکر‌رضی اللہ عنہ بولنے لگے اور انصار کے بارے میں جو کچھ بھی نازل ہوا تھا بیان کر دیا، اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا وہ بھی ذکر کر دیا۔ اور کہنے لگے: تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اے سعد! تمہیں معلوم ہے تم بھی بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔ :قریش اس معاملے(خلافت) کے نگران ہیں۔ نیک لوگ ان کے نیک کے پیچھے چلیں گے، اور فاجر لوگ ان کے فاجرکے پیچھے چلیں گے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم نے سچ کہا، ہم وزراء ہیں اور تم امراء ۔

Haidth Number: 3528

عَنْ صَالِحٍ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّهُ قَالَ : قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو جُمُعَةَ الأَنْصَارِيُّ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ لِيُصَلِّيَ فِيهِ وَمَعَنَا رَجَاءُ بن حَيْوَةَ يَوْمَئِذٍ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ خَرَجْنَا مَعَهُ لِنُشَيِّعَهُ ، فَلَمَّا أَرَدْنَا الانْصِرَافَ، قَالَ : إِنَّ لَكُمْ عَلَيَّ جَائِزَةً وَّحَقًّا أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقُلْنَا: هَاتِه يَرْحَمُكَ اللهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مَعَنَا مُعَاذُ بن جَبَلٍ عَاشِرَ عَشَرَةٍ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ! هَلْ مِنْ قَوْمٍ أَعْظَمُ مِنَّا أَجْرًا؟ آمَنَّا بِكَ وَاتَّبَعْنَاكَ ؟ قَالَ: مَا يَمْنَعُكُمْ مِنْ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ يَأْتِيكُمُ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ؟ بل قَوْمٌ يَّأتون من بعدكم يَأْتِيهِمْ كِتَابٌ بَيْنَ لَوْحَيْنِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَعْمَلُونَ بِمَا فِيهِ ، أُولَئِكَ أَعْظَمُ مِنْكُمْ أَجْرًا

صالح بن جبیر سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ: ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہمارے پاس بیت المقدس میں نماز پڑھنے آئے، اس دن ہمارے ساتھ رجاء بن حیوہ بھی تھے۔ جب وہ واپس پلٹے تو ہم بھی ان کے ساتھ باہر نکل آئے۔ جب ہم واپس پلٹنے لگے تو انہوں نے کہا: تمہارے لئے میرے ذمے انعام اور تمہارا حق ہے۔ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ ہم نے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، ہمیں حدیث سنائیے۔ وہ کہنے لگے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمارے ساتھ معاذ بن جبل‌رضی اللہ عنہ بھی تھے، دس میں سے ایک،ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ایسے لوگ بھی ہیں جو ہم سے زیادہ اجر والے ہوں گے؟ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی پیروی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ایمان لانے سے)تمہیں کونسی بات روکتی ہے، جب کہ اللہ کے رسول تمہارے درمیان موجود ہیں؟ آسمان سے تمہارے پاس وحی آتی ہے؟ تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن کے پاس کتاب لکھی ہوئی آئے گی، وہ اس پر ایمان لائیں گے، او ر اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ تم سے زیادہ اجر والے ہوں گے۔

Haidth Number: 3529
عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میرے بعدخلافت قائم کرنے والا جنت میں ہوگا (اس کے بعد جو شخص (خلافت )قائم کرےگا وہ جنت میں ہوگا) تیسرا اور چوتھا جنت میں ہوگا۔( )

Haidth Number: 3530
انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ، وہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں کی طرف لے جاؤ وہ خدیجہ رضی اللہ عنہ سے محبت کرتی تھی۔

Haidth Number: 3531
بکر بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک دوسرے پر خربوزے پھینکتے اور جب دفاع کرنے کا وقت آتا تو مرد بن کر دفاع کر تے ۔fs

Haidth Number: 3532
انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سویا کرتی تھیں لیکن آپ کا دل نہیں سویا کرتا تھا

Haidth Number: 3533
انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم موٹے(بھاری) ہاتھ اور پاؤں والے تھے۔ خوب صورت چہرے والے تھے، میں نے آپ سے پہلے اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌جیسا خوبصورت شخص نہیں دیکھا۔

Haidth Number: 3534
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اجازت دے دی اور آپ اسی طرح لیٹے رہے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ اسی طرح لیٹے رہے، پھر عثمان‌رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا نیچے لٹکا کر (ران کو ڈھانپ لیا)۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے ابو بکر‌رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی آپ اسی طرح لیٹے رہے۔۔۔(اور اسی روایت میں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میں اس شخص سے حیا کیوں نہ کروں واللہ! جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔

Haidth Number: 3535
عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌جس شخص کو دیکھ لیتے اس کے بارے میں وہم نہ کرتے (یعنی وہ شخص بھولتا نہیں تھا )۔

Haidth Number: 3536
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں(اسامہ) اور حسن رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر فرماتے: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

Haidth Number: 3537
ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ مجھ سے ام سلمہ نے کہا: کیا تمہارے درمیان منبروں پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا: سبحان اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح گالی دی جا سکتی ہے؟ کہنے لگیں: کیا علی بن ابی طالب‌رضی اللہ عنہ اور جوان سے محبت کرتے ہیں ، انہیں گالی نہیں دی جاتی؟ اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔

Haidth Number: 3538
ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 3539