ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مزاح کرتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں صرف سچ بات کہتا ہوں۔
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبکہ سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا، اس جنازے کے لئے رحمن کا عرش ہل گیا۔ منافقین بھی ان کے جنازے میں چلے اور کہنے لگے: یہ کتنا ہلکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: ان کے ساتھ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے تھے
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن رقیق القلب،نرم دل اور اطاعت کے ذریعے فلاح پانے والے ہیں
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دو زرہیں تھیں، آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے تو کامیاب نہ ہوسکے، طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قدم رکھا، پھر چٹان پر چڑھ گئے زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:طلحہ نے(جنت) واجب کر لی۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے کسی مسئلے میں آپ سے بات کی، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا بات تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لعنت ملامت کی اور سب و شتم کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جتنی بھلائی ان دونوں کو ملی ہے شاید ہی کسی کو ملی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ میں نے کہا: آپ نے ان دونوں کو لعنت ملامت اور سب و شتم کی، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے اپنے رب سے کون سی شرط طے کی ہے؟ میں نے دعا کی ہے: اے اللہ میں بشر ہوں، جس بھی مسلمان کو میں نے لعنت کی یا اسے گالی دی تو یہ اس کے لئے پاکیزگی اور اجر کا باعث بنا دے۔
ابو فاختہ سے مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ملاقات کرنے کے لئے آئے۔ رات ہمارے پاس گزاری، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سوئے ہوئے تھے۔ حسنرضی اللہ عنہ نے پانی مانگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشکیزہ کے پاس گئے اور اس میں سے پیالے میں پانی انڈیلا، پلانے لگے تو حسین رضی اللہ عنہ نے پیالہ پکڑ لیا اور پینا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کر دیا اور حسن رضی اللہ عنہ سے ابتداء کی، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! لگتا ہے حسن آپ کو زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں حسن نے پہلے پانی مانگا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور تم یہ دونوں اور یہ سونے والا( یعنی علی) قیامت کے دن ایک مکان میں ہوں گے۔ یعنی فاطمہ اور اس کے دو بیٹے: حسن اور حسین ۔
عمرو بن ابی قرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے، انہوں نے کچھ باتوں کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں اپنے صحابہ سے کہی تھیں۔حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جن لوگوں نے یہ باتیں سنیں وہ سلمانرضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا ذکر کیا سلمانرضی اللہ عنہ نے کہا: حذیفہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ وہ حذیفہرضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ کی بات سلمانرضی اللہ عنہ کے سامنے رکھی تو نہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی نہ تکذیب کی۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سلمان رضی اللہ عنہ سبزیوں کے کھیت میں تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سلمان! جو بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، اس بارے میں میری تصدیق کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ہوا کرتے تھے تو غصے میں اپنے صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تو خوشی میں صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بعض کی محبت اور بعض کی نفرت اور ان میں اختلاف و افتراق ڈال دو گے۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو فرمایا: میری امت میں سے میں نے جس شخص کو گالی دی ہے یا غصے میں لعنت کی ہے، تو میں بھی آدم کی اولاد ہوں جس طرح دوسرے لوگ غصے ہوتے ہیں میں بھی غصے ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ! قیامت کے دن اس کو ان کے لئے رحمت کا باعث بنا۔ واللہ! یا تو تم باز آجاؤ وگرنہ میں عمررضی اللہ عنہ کو (شکایت)لکھتا ہوں۔
محمد بن سعد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ سے بہت زیادہ سوالات کر رہی تھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اوٹ میں ہوگئیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو مسکراتا رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے اوٹ میں ہو گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں ،پھر ان عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈر رہی ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ کہنے لگیں: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں زیادہ سخت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن الخطاب ! بس کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان تم سے جس گلی میں بھی ملتا ہے تو وہ دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ : لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر فرمانے لگے: لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، واللہ! یہ اللہ کے بارے میں یا اللہ کے راستے میں اس بات سے بہتر ہے کہ اس کی شکایت کی جائے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ: چار بہنیں : میمونہ ،ام فضل،سلمی اور اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہن،مومنات ہیں۔ یہ اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا ماں کی طرف سے ان کی بہن تھیں۔
سھل بن سعدرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار تحتانی لباس یعنی جسم سے ملا ہوا کپڑا، اور لوگ اس سے اوپر کا کپڑا ہیں،اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی اور وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا ، اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصارمیرے مخلص ساتھی اور ہم راز ہیں۔ لوگ زیادہ ہوں گے اور یہ انصار کم ہو جائیں گے۔ ان کے اچھے شخص سے قبول کرو اور ان کے برے شخص سے در گزر کرو۔ یہ حدیث ........ سے مروی ہے۔
براء بن عازبرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: انصار سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور صرف منافق ہی انصار سے نفرت کرتا ہے۔ جس شخص نے ان سے محبت کی اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرے گا اور جس شخص نے ان سے نفرت کی اللہ تعالیٰ بھی اس سے نفرت کرے گا۔
ابو امامہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم (باہلہ) کی طرف بھیجا۔ (جب میں ان کے پاس پہنچا تو سخت بھوکا تھا) میں ان کے پاس آیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔( اور ایک روایت میں ہے: خون کھا رہے تھے۔) وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے عزت دی(کہنے لگے: صدی بن عجلان کو خوش آمدید، ہمیں خبر ملی ہے کہ تم نے اس شخص کی طرف مائل ہوگئے ہو اور بے دین ہو گئے ہو میں نے کہا: نہیں لیکن میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا ہوں، اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے سامنے اسلام اور اس کے اصول پیش کر سکوں) کہنے لگے: آؤ،کھاؤ، میں نے کہا: (برا ہو) میں تو اس سے منع کرنے آیا ہوں، اور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔(میں نے انہیں اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو) انہوں نے مجھے جھٹلایا اور مجھے دھمکانے ڈانٹنے لگے۔ ( میں نے ان سے کہا: افسوس! مجھے تھوڑا پانی تو دے دو میں شدید پیاسا ہوں ۔میرے سر پر عمامہ بندھا ہوا تھا وہ کہنے لگے: نہیں ہم تمہیں اس حالت میں چھوڑیں گے کہ تم پیاسے مر جاؤ)۔ میں بھوک اور پیاس کی حالت میں وہاں سے چل پڑا، مجھے شدید تکلیف محسوس ہو رہی تھی اور میں نے اپنا سر عمامہ پر رکھ لیا۔ میں(شدید گرمی میں تپتی ہوئی زمین پر)سو گیا۔ مجھے خواب میں دودھ کا ایک مشروب پلایا گیا، لوگوں نے اس سے لذیذ کوئی چیز نہیں پی ہوگی، میں نے برتن پکڑ لیااور سیر ہو کر پیا، میرا پیٹ بوجھل ہوگیا۔ پھر انہی لوگوں نے کہا: تمہارے پاس تمہارا ایک بہترین اور شریف آدمی آیا تھا اور تم نے اسے لوٹا دیا، جاؤ اسے کھانا کھلاؤ، اور جو چاہتا ہے پلاؤ۔ وہ میرے پاس کھانا لائے میں نے کہا: مجھے تمہارے کھانے پینے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کھلا دیا ہے اور پلا بھی دیا ہے۔ انہوں نے میرا حال دیکھا ( میں نے انہیں اپنا پیٹ دکھایا(جب انہوں نے یہ صورتحال) دیکھی تو وہ مجھ پر اور جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لایا تھا اس پر ایمان لے آئے( اور ان کے آخری شخص نے بھی اسلام قبول کر لیا)۔
عبداللہ بن نجی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ علیرضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے،وہ ان کے وضو کا برتن (لوٹا) اٹھایا کرتے تھے۔ جب وہ (نینوی) کے قریب پہنچے جبکہ علیرضی اللہ عنہ صفین کی طرف جا رہے تھے۔ تو علیرضی اللہ عنہ نے آواز دی :ابو عبداللہ! رکو، ابو عبداللہ! فرات کے کنارے رکو، میں نے کہا: کیا ہوا؟ علیرضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا،آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ کو کسی نے غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھوں آنسو کیوں جاری ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، بلکہ جبریل ابھی ابھی میرے پا س سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں اس کی مٹی کی خوشبو سنگھاؤں؟ علیرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ آگے بڑھایا، آپ نے مٹی کی ایک مٹھی مجھے دی، مجھے بھی اپنی آنکھوں پر قابونہ رہا اور آنسو نکل آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک کنویں سے پانی نکال رہا تھا کہ میرے پاس ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ آئے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ڈول پکڑا اور اس سے ایک یا دو ڈول نکالے، ان کے پانی کھینچنے میں تھوڑی کمزوری تھی، اللہ انہیں معاف کرے۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو برل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ڈول لےلیا پھر تو وہ بہت بڑا ڈول ثابت ہوا وہ تیزی سے پانی نکالنے لگے۔میں نے لوگوں میں کوئی ایسا باکمال شخص نہیں دیکھا جو اس طرح کام کرتا ہو۔ انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے مویشی سیراب کرلئے اور پانی کے پاس ٹھہر گئے۔یہ حدیث ....... سےمروی ہے۔
ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے مروی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا ،میں نے دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے۔ ان پر قمیضیں تھیں ،کچھ سینے تک تھیں، کچھ اس سے نیچے، میرے سامنے عمر رضی اللہ عنہ آئے تو ان پر ایسی قمیض تھی جسے وہ کھینچ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار خط کھینچے، پھر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتےہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کی افضل عورتیں، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ،مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، فرعون کی بیوی ہیں
براء بن عازبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول! ابو سفیان بن حارث آپ کی ہجو کر رہا ہے۔ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس بارے میں کچھ کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہی ہو جو کہتے ہو: اللہ تعالیٰ ثابت رکھے۔۔۔؟ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے میں نےکہا : اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ آپ کوثابت قدم رکھے اللہ نے آپ کو جو موسی کی طرح ثابت قدمی دی ہے اور جس طرح موسی کی مددکی آپ کی بھی مددکرے۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارا یہ کام نہیں بھولے گا۔ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہی تو ہو جوکہتے ہو جنگ نے ارادہ کیا :حسان رضی اللہ عنہ نے کہا :جی ہاں، میں نے کہا:اے اللہ کے رسول جنگ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنے مالک پر غالب آجائے ۔لیکن اس کا مالک جنگ کے ہر میدان اور ماقع پر اس جنگ پر غالب آئے گا۔ پھر حسانرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اس بارے میں کچھ کہہ سکوں، اور اس (ابو سفیان بن حارث) کے بارے میں سیاہ زبان نکالوں۔ اے اللہ کے رسول! اگر آپ چاہیں تو مجھے اجازت دیں کہ اس کے بارے میں بہت کچھ کہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر کے پا سجاؤ تاکہ وہ تمہیں اس قوم کے نسب کے بارے میں، ایام کے بارے میں اور ان کے اپنے بارے میں بتائے۔ پھر ان کی ہجو کرو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔ ترجمہ ناقص ہے۔
جابر بن سمرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سو مرتبہ سے زائد بیٹھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اشعار کہا کرتے تھے۔ اور جاہلیت کی کچھ چیزوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہتے، کبھی کبھی مسکرا دیتے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد نے مجھے کھچڑی بنانے کا حکم دیا، پھر مجھے حکم دیا تو میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا، میں آپ کے پاس آیا تو آپ اپنے گھر میں تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: جا بر تمہارے پاس کیاہے؟ کیا گوشت ہے؟ میں نے کہا: نہیں، پھر میں اپنے والد کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سےکہا:کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ کیا تم نے ان سے کوئی بات سنی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: جابر تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا یہ گوشت ہے؟ میرے والد نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھانے کی خواہش رکھتے ہوں۔ انہوں نے گھر کی پالتو بکری کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اسے ذبح کیا گیا اور بھوننے کا حکم دیا تو وہ بھونی گئی، مجھے حکم دیا تو میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جابر تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے انصار کو بہترین بدلہ دے، خاص طور عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو
خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ مقدام بن معدیکرب اور عمرو بن اسود رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما فوت ہو چکے ہیں؟ مقدام رضی اللہ عنہ نے اناللہ پڑھی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کیا تم اسے مصیبت سمجھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا: حسن مجھ سے ہے اور حسین علی سے ہے۔
یعلی بن مرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہےاور میں حسین سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔حسین ایک بہترین نواسہ ہے ،(یا بہترین شخص ہے)۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار لوگوں سے قرآن سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود سے، ابی بن کعب سے، معاذبن جبل سے، اور سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہا سے۔