عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہتی ہیں كہ سب سے پہلے دو دو ركعت نماز فرض ہوئی ،جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تو ہر نماز میں اسی کی مثل اضافہ کردیا سوائے مغرب کی نماز کے کہ وہ دن کی نماز کو وتر بناتی ہے اور فجر کے کہ اس میں لمبی قرأت کی جاتی ہے۔ كیونكہ مغرب دن كی وتر نماز ہے اور صبح كی نماز لمبی قرأت سے پڑھی اور جب آپ سفر میں جاتے تو پہلے كی طرح (دو دو ركعت) نماز پڑھتے۔
عبداللہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلی چیز جس كا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی ، اور سب سے پہلا معاملہ جس كا فیصلہ كیا جائے گا وہ خون(قتل ) ہوگا
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ قیامت كے دن بندے كا سب سے پہلا حساب نماز كے بارے میں لیا جائے گا۔ اگر وہ درست رہی تو اس كے سارے عمل درست رہیں گے، اور اگر وہ خراب رہی تو اس كے سارے عمل خراب رہیں گے۔
ابو حازم سے مروی ہے كہتے ہیں كہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم كے نوجوانوں كو نماز پڑھانے كے لئے آگے كرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا:آپ یہ كام كرتے ہیں حالانكہ آپ بزرگی كے حامل ہیں؟ انہوں نے كہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے، امام ضامن ہوتا ہے، اگر وہ درست نماز پڑھائے تو اس كے لئے بھی اجر ہے اور مقتدیوں كے لئے بھی اور اگر وہ غلط نماز پڑھائے تو اس پر گناہ ہے اور مقتدیوں كے لئے اجر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ایك صحابی سے مروی ہے كہ آدمی اپنے گھرمیں نفل نماز پڑھے تو یہ لوگوں كے پاس نفل نماز پڑھنے اسی قدر سے افضل ہے، جس طرح آدمی كی جماعت سے نماز اس كے اكیلے نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
ابو ذررضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان كرتے ہیں كہ گدھے، عورت اور سیاہ كتے كے گزرنے كی وجہ سے نماز دہرائی جائیگی۔ عبداللہ بن صامت نے كہا: كالے كتے كا، زرد اور سرخ كتے سے فرق كیوں ہے؟ تو انہوں نے كہا میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سوال كیا تھا جس طرح تم نے مجھ سے كیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كالا كتا شیطان ہوتا ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت كی نماز، اكیلے شخص كی نماز سے پچیس گناافضل ہے، اور رات اور دن كے فرشتے فجر كی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت ہے، یعنی مسافر جب مقیم كے پیچھے نماز پڑھے تو پوری نماز پڑھے وگرنہ قصر كرے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان كرتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ہر مسلمان پر لازم ہیں۔مریض كی عیادت كرنا، جنازے میں حاضر ہونا، چھینكنے والا جب الحمدللہ كہے تو اسے جواب میں ‘‘یَرْحَمُکَ اللہُ کہنا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص اللہ كی ضمانت میں ہیں، وہ شخص جو اللہ كی مساجدمیں سے كسی مسجد كی طرف نكلا ، اور وہ شخص جو اللہ كے راستے میں جہاد كے لئے نكلا اور وہ شخص جو حج كرنے كے لئے نكلا۔
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ : تین شخص ایسے ہیں جن كی نماز قبول نہیں ہوتی، اور نہ ہی وہ آسمان كی طرف بلند ہوتی ہے، نہ ان كے سر سے اوپر جاتی ہے۔ وہ شخص جو كسی قوم كی امامت كرواتا ہے جبكہ لوگ اسے ناپسند كرتے ہوں۔ وہ شخص جس نے جنازے كی نماز پڑھائی حالانكہ اسے كہا نہیں گیا، اور وہ عورت جسے رات كے وقت اس كے شوہر نے بلایا لیكن اس نے انكار كر دیا۔
محمدبن اسماعیل سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ عبداللہ بن ابی حبیبہرضی اللہ عنہ سے كہا گیا كہ كیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے كوئی چیز حاصل كی ہے؟ انہوں نے كہا: رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس (قباء) میں ہماری مسجد میں آئے، میں ابھی نوجوان ہی تھا۔ میں آپ كے دائیں طرف بیٹھ گیا،( اور ابو بكررضی اللہ عنہ آپ كے بائیں جانب بیٹھ گئے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب منگوایا اور اس میں سے پیا، پھر مجھے دے دیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے دائیں طرف تھا۔میں نے اس میں سے پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كھڑے ہو كر نماز پڑھنے لگے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو دیكھا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھ رہے تھے۔(612) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَرْفُوْعاً: جُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ .
فضالہ لیثیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تعلیم دی، انہوں نے مجھے جو تعلیم دی اس میں یہ بات بھی تھی كہ، پانچ نمازوں كی حفاظت كرو، میں نے كہا: ان اوقات میں مجھے مصروفیت ہوتی ہے۔ مجھے كسی جامع كام كا حكم دیجئے۔ جب میں وہ كام كروں تو مجھے كفایت كر جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عصرین كی حفاظت كرو، ایك نماز طلوع شمس سے پہلے اور ایك غروب شمس سے پہلے۔
ابو امامہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے آئے ان كے ساتھ دو غلام تھے۔ علیرضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسول ہمیں خادم دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے جسے چاہولے لو، علیرضی اللہ عنہ نے كہا: میرے لئے پسند كیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو، اور اسے مارنا مت، كیونكہ میں نے اسے خیبر سے آتے ہوئے نماز پڑھتے دیكھا ہے۔ اور مجھے نمازیوں كو مارنے سے منع كیا گیا ہے۔ابو ذررضی اللہ عنہ كو دوسرا غلام دیا اور اس كے بارے میں بھلا ئی كا حكم دیا ، پھر فرمایا: اے ابو ذر تم نے غلام كا كیا كیا جو میں نے تمہیں دیا تھا؟ انہوں نے كہا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حكم دیا تھا كہ اس كے ساتھ بھلائی كروں تو میں نے اسے آزاد كر دیا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قباء کی طرف نماز پڑھنے كے لئےآئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس انصار آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ انھوں نے سلام کہا۔ میں نے بلالرضی اللہ عنہ سےپوچھا: تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كو كس طرح جواب دیتے ہوئے دیكھا جب یہ سلام كہہ رہے تھے اور آپ حالت نما ز میں تھے؟ بلال نے كہا: آپ اس طرح كر رہے تھے اور اپنی ہتھیلی كھولی، جعفر بن عون نے بھی اپنی ہتھیلی كھولی اور اس كے اندر كا حصہ نیچے اور پشت والا حصہ اوپر كیا
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے كہ : چھ حالتیں ایسی ہیں جو بھی مسلمان ان میں سے كسی ایك حالت میں فوت ہوا تو اللہ پر ذمہ ہے كہ وہ اسے جنت میں داخل كر دے۔ (١) وہ شخص جو جہاد كرنے كے لئے نكلا ،اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو اللہ كا ذمہ ہے، (٢) وہ شخص جو كسی جنازے كے ساتھ چلا، اگر وہ اسی حالت میں مرگیا تو وہ اللہ كے ذمے میں ہے،(٣)وہ شخص جس نے كسی مریض كی عیادت كی اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ اللہ كے ذمے میں ہے،(٤)وہ شخص جس نے اچھی طرح وضو كیا پھر نماز پڑھنے كے لئے مسجد كی طرف چلا اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ اللہ كے ذمے میں ہے،(٥)وہ شخص جوكسی شرعی امیر كے پاس آیا اس كے پاس صرف اس كی مدد اور عزت كے لئے آیا اگر یہ اسی حالت میں مرگیا تو یہ اللہ كے ذمے میں ہے،(٦)وہ شخص جو اپنے گھر میں ہے كسی مسلمان كی غیبت نہیں كرتا، نہ ان پر ناراضگی كا اظہار كرتا ہے، اور نہ غصے كا، اگر وہ مرگیاتو وہ اللہ كے ذمے میں ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایك نئی قبر كے پاس سے گزرے تو فرمایا: دو ہلكی پلكی ركعتیں ہیں ،جنہیں تم حقیر اور اضافی چیز سمجھتے ہو، اگر یہ شخص دو رکعتوں کا اہتمام کرلیتا تو اب اسے تمہاری بقیہ پوری دنیا سے زیادہ عزیز ہوتیں۔
ابو بكرہرضی اللہ عنہ (نماز میں) اس وقت پہنچے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ركوع كی حالت میں تھے، ابو بكرہرضی اللہ عنہ نے صف سے پہلے ہی ركوع كر لیا۔ پھر صف كی طرف چل پڑے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو فرمایا: تم میں سے كس شخص نے صف سے پہلے ركوع كیا پھر صف كی طرف بڑھا؟ ابو بكرہرضی اللہ عنہ نے كہا: میں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری حرص زیادہ كرے اور آئندہ ایسا نہ كرنا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: مومن كا شرف رات كو نماز پڑھنے میں ہے، اور اس كی عزت اس چیز سے مستغنی ہوجانے میں ہے جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہتے ہیں كہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مدینے میں آٹھ اور سات ركعتیں نماز پڑھائی، ظہراور عصر، مغرب اور عشاء۔
عبداللہ بن بحینہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایك نماز پڑھائی( اور ایك روایت میں ہے ظہر كی نماز) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ركعتیں پڑھ كر كھڑے ہوگئے( بیٹھے نہیں) ۔ سبحان اللہ كہا گیا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوگئے تو پھر كھڑے ہی رہے واپس بیٹھے نہیں)۔لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ كھڑے ہوگئے یہاں تک کہ نماز مکمل کر لی اور سلام باقی رہ گیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے سلام كا انتظار كر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے (ہر سجدے میں اللہ اکبر کہتے)( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا)۔( لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ سجدے كئے۔ یہ سجدے تشہد میں بیٹھنے سے بھول كی وجہ سےتھے۔