Blog
Books
Search Hadith

ایمان، توحید، دین اورتقدیر كا بیان

256 Hadiths Found

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قِبَلَ نَجْدٍ فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَفَلَ مَعَهُ فَأَدْرَكَتْهُمْ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْعِضَاهِ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ قَالَ جَابِرٌ: فَنِمْنَا نَوْمَةً فَإِذَا رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌يَدْعُونَا فَجِئْنَاهُ فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِي وَأَنَا نَائِمٌ فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا فَقَالَ لِي: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قُلْتُ اللهُ فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم .

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نجد كی جانب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ مل كر جہاد كیا، جب رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌واپس لوٹے تو وہ بھی واپس لوٹ آئے۔ درختوں والی ایك وادی میں دوپہر ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے نیچے اتر آئے، لوگ بھی درختوں کا سایہ حاصل كرنے كے لئے بكھر گئے۔ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ایك كیكر كے درخت كے نیچے آئے، اس پر اپنی تلوار لٹكائی ،جابر كہتے ہیں: پھر ہم سوگئے۔ اچانك رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ہمیں پكارنے لگے۔ ہم آپ كے پاس آئے كیا دیكھتے ہیں ایك بدو آپ كے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اس نے میری تلوار سونت لی میں سویا ہوا تھا، میں جاگا تو تلوار اس كے ہاتھ میں تنی ہوئی تھی اس نے مجھ سے كہا: تمہیں مجھ سے كون بچائے گا؟ میں نے كہا: اللہ، اب یہ یہاں بیٹھا ہے ۔ پھر رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اسے سزا نہیں دی۔( )

Haidth Number: 1009
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: یہ دین آسان ہے، جو شخص اس دین میں سختی كرے گا یہ دین اس پر غالب آجائے گا۔(معاملات کو) سیدھا رکھو قریب رہو خوشخبری دو اور صبح شام اور رات كی سیاہی (اندھیرے)میں مدد طلب كرتے رہو۔( )

Haidth Number: 1010

عَنْ يَزِيد بْن عَبْدِ اللهِ بْنِ الخيرِ قَالَ: بَينَا نَحنُ بِالْمِرْبَدِ إِذ أَتَى عَلَيْنَا أَعْرَابِي شَعثُ الرِأسِ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدِيمٍ أَو قِطْعَةُ جِرَابٍ فَقُلْنَا: كَأَنَّ هَذَا لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ فَقَالَ: أَجل هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَقَالَ القُوم: هَاتِ فَأَخذْتُه فَقَرأَتُه فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ قَالَ أَبُو العَلَا: وَهُمْ حَيٌّ مِنْ عُكْلٍ إِنَّكُمْ إِنْ شَهِدتُم أَنّ لَا إِلَه إلَا الله، وَأَقَمْتُمْ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمْ الزَّكَاةَ وَفَارَقْتُمْ الْمُشْرِكِينَ وَأَعْطَيْتُمْ مِنْ الْغَنَائِمِ الْخُمُسَ وَسَهْمَ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَالصَّفِيَّ وَرُبَّمَا قَالَ: وَصَفِيَّهُ فَأَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللهِ وَأَمَانِ رَسُولِهِ.

) یزید بن عبداللہ بن خیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ ہم مربد (نامی مقام)میں بیٹھے ہوئے تھے، اچانك بكھرے بالوں والا ایك اعرابی ہمارے پاس آیا، اس كے پاس چمڑے كا ایك ٹكڑا تھا۔ ہم كہنے لگے: ایسا لگتا ہے كہ یہ بدو ہے۔ اس نے كہا: ہاں یہ خط ہے جو رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے مجھے لكھ كر دیا ہے۔ لوگوں نے كہا: لاؤ، میں نے وہ خط لیا اور پڑھنا شروع كر دیا۔ اس میں لكھا تھا: ”بسم اللہ الرحمن الرحیم ،یہ خط محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ كے رسول كی طرف سے بنی زہیر بن اقیش(جوعکل نامی ایک قبیلہ تھا) كے لئے لكھا گیا ہے۔ اگر تم گواہی دو كہ اللہ كے علاوہ كوئی معبودِ برحق نہیں ، نماز قائم كرو، زكاۃ ادا كرو، مشركین كو چھوڑ دو، اور غنیمتوں میں سے خمس اور اللہ كے نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كا حصہ اور چنا ہوا مال(منتخب شدہ) دو تو تم اللہ اور اس كے رسول ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كی امان میں ہو“۔( )

Haidth Number: 1011
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ جو چیز تمہیں جنت كے قریب كر سكتی تھی میں نے تمہیں اس كا حكم دے دیا، اور جو چیزتمہیں آگ كے قریب كر سكتی تھی اس سے منع كر دیا۔ روح القدس (جبریل علیہ السلام) نے مجھے بتایا ہے كہ كوئی نفس اس وقت تك نہیں مرے گا جب تك اپنا رزق مكمل نہ كر لے ۔اس لئے اللہ سے ڈرو ، اور اچھے انداز سے طلب كرو، اور رزق میں تاخیر تمہیں اللہ تعالیٰ كی نا فرمانی پرنہ ابھارے۔ كیوں كہ اللہ تعالیٰ كے پاس جو كچھ ہے اس كی اطاعت كے ذریعے ہی حاصل كیا جا سكتا ہے۔( )

Haidth Number: 1012

عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ! كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ وَيَزِيدُونَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ مجھے ایك انصاری صحابی نے بتایا كہ ایك رات وہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے ساتھ بیٹھے ہوئےتھے ۔ ایك ستارہ ٹوٹ كر گرا، رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے ان سے كہا: تم زمانہ جاہلیت میں كیا كہا كرتے تھے جب اس طرح كوئی ستارہ ٹوٹتا؟كہنے لگے اللہ اور اس كا رسول بہتر جانتے ہیں ۔ ہم كہا كرتے تھے، آج كی رات كوئی عظیم آدمی پید اہوا ہے یا كوئی عظیم آدمی فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: یہ كسی كی موت یا زندگی كی وجہ سے نہیں ٹوٹتا ، معاملہ اس طرح ہے كہ جب ہمارا رب تبارك وتعالیٰ كسی معاملے كا فیصلہ كرتا ہے تو عرش اٹھانے والے فرشتے تسبیح بیان كرتے ہیں۔ پھر اس آسمان والے تسبیح بیان كرتے ہیں جو ان سے ملا ہوتا ہے حتی كہ وہ تسبیح اس دنیا كے آسمان والوں تك پہنچتی ہے۔ پھر عرش كے نیےں والے عرش اٹھانے والے فرشتوں سے كہتے ہیں تمہارے رب نے كیا كہا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے كہا ہوتا ہے۔ آسمان والے ایك دوسرے سے پوچھتے ہیں حتی كہ آسمانِ دنیا والوں تك یہ خبر پہنچتی ہے ۔یہ خبرجن سن لیتے ہیں اور دوستوں كو بتاتے ہیں۔ یہ ستارہ انہیں مارا جاتا ہے، جو خبر اصل صورت میں لاتے ہیں وہ صحیح ہوتی ہے ۔لیكن یہ اس میں اضافہ كر لیتے ہیں اور جھوٹ ملا لیتے ہیں۔( )

Haidth Number: 1013
سلمہ بن نفیل سكونی سے مروی ہے كہتے ہیں كہ میں رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے قریب ہوا اتنا كہ میرے گھٹنے آپ كی ران كو چھونے لگے۔میں نے كہا: اے اللہ كے رسول گھوڑے چھوڑ دیئے گئے، اسلحہ ركھ دیا گیا اور لوگوں نے سمجھ لیا كہ اب كوئی قتال نہیں۔ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا : لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، ابھی تو قتال آیاہے ۔ میری امت كا ایك گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، لوگوں پر غالب ہوگا ، اللہ تعالیٰ ان لوگوں كے دلوں كو ٹیڑھا كر دےگا جو انہیں نقصان پہنچانے كی غرض سے ان سے لڑائی كریں گے۔ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌یمن كی طرف پیٹھ كئے ہوئے تھے فرمایا: میں یہاں سے محسوس كر رہا ہوں۔ یمن كی طرف اشارہ كیا میری طرف وحی كی گئی كہ میں محفوظ ہوں، اور ركا ہوا نہیں ہوں اور تم گروہ در گروہ میری پیروی كر رہے ہو اور گھوڑوں كی پیشانی میں قیامت تك خیر ركھ دی گئی ہےاورگھوڑوں والوں كی مدد كی گئی ہے۔( )

Haidth Number: 1014

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌يَوْمًا فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيكَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اضْرِبْ لَهُ مَثَلًا فَقَالَ اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ وَاعْقِلْ عَقِلَ قَلْبُكَ إِنَّمَا مَثَلُكَ وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا ثُمَّ بَنَى فِيهَا بَيْتًا ثُمَّ جَعَلَ فِيهَا مَائِدَةً ثُمَّ بَعَثَ رَسُولًا يَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَكَهُ فَاللهُ هُوَ الْمَلِكُ وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ فَمَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الْإِسْلَامَ وَمَنْ دَخَلَ الْإِسْلَامَ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مَا فِيهَا.

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك دن رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ہمارے پاس آئے اور فرمایا: میں نے نیند میں دیكھا كہ گویاجبریل میرے سرہانے كھڑے ہیں اور میكائیل میرے پیروں كے پاس كھڑے ہیں۔ ایك دوسرے سے كہہ رہا ہے: اس كے لئے كوئی مثال بیان كرو، دوسرے نے كہا: غور سے سنو، اور اچھی طرح سمجھو، آپ كی مثال اور آپ كی امت كی مثال اس بادشاہ كی طرح ہے جس نے گھر بنایا پھر اس میں ایك بڑا كمرہ بنایا، اس میں دستر خوان ركھا اور اپنا قاصد بھیجا جو لوگوں كو كھانے كی دعوت دے۔ ان میں سے كچھ نے قاصد كی دعوت قبول كی اور كچھ نے دعوت قبول نہ كی۔ اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے، گھر اسلام ہے، بڑا كمراہ جنت ہے، اور آپ اے محمد قاصد ہیں۔ جس نے دعوت قبول كی وہ اسلام میں داخل ہو گیا اور جو اسلام میں داخل ہوا وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو جنت میں داخل ہوا اس نے اس میں موجود سب چیزیں كھالیں۔( )

Haidth Number: 1015

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَاهُ قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ قَالَ: فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِي ذَلِكَ الْغَارِ فَيَقُوتُهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ مَاءٍ وَيُصِيبُ مَا حَوْلَهُ مِنْ الْبَقْلِ وَيَتَخَلَّى مِنْ الدُّنْيَا! ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَإِنْ أَذِنَ لِي فَعَلْتُ وَإِلَّا لَمْ أَفْعَلْ فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ! إِنِّي مَرَرْتُ بِغَارٍ فِيهِ مَا يَقُوتُنِي مِنْ الْمَاءِ وَالْبَقْلِ فَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي بِأَنْ أُقِيمَ فِيهِ وَأَتَخَلَّى مِنْ الدُّنْيَا قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ وَالَّذِي نَفْسي بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَلَمُقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِهِ سِتِّينَ سَنَةً.

ابو امامہ سے مروی ہے كہ ہم رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے ساتھ ایك معركے كے لئے نكلے ایك آدمی ایك غار كے پاس سے گزرا جس میں كچھ پانی تھا۔ اس نے دل میں سوچا كہ وہ اس غار میں قیام كر لے، اس غار میں موجود پانی پیتا رہے اور اردگرد سبزیاں وغیرہ كھاکرگذارہ کرتا رہےگا، دنیا سےکنارہ کش ہو جائے، پھر كہنے لگا ، اگر میں نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے پاس جا كر ان سے اس بات كا تذكرہ كروں تو بہتر رہے گا۔ اگر آپ مجھے اجازت دے دیں تو میں ایسا كر لوں گا اور اگر اجازت نہ دیں تو رك جاؤں گا۔ وہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے پا س آیا اور كہنے لگا: اے اللہ كے نبی میں ایك غار كے پاس سے گزرا اس میں میری كفایت كے لئے پانی اور سبزی موجود ہے، میں نے دل میں سوچا كہ میں اس میں قیام كروں اور دنیا سے الگ ہو جاؤں۔ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: مجھے یہودیت و نصرانیت دے كر مبعوث نہیں كیا گیا۔ مجھے دینِ حنیف دے كر مبعوث كیا گیا ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے ایك اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام نکلنا دنیا اور جو كچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے اور تم میں سے كوئی شخص جنگی صف میں كھڑا ہو تو یہ اس كے لئے ساٹھ سال كی نماز سے بہتر ہے۔( )

Haidth Number: 1016
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے مجھے عقبہ كی صبح كہا آپ اپنی سواری پر كھڑے تھے۔ آپ نےفرمایا: مجھے زمین سے كچھ اٹھا كر دو، میں نے چنے کے برابر كچھ كنكریاں اٹھا كر آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كو دیں۔ آپ نے دوبارفرمایا: ان جیسی(کے ساتھ جمرات کو نشانہ بناؤ)، پھرآپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور فرمایا: دین میں غلو سے بچو، كیوں كہ تم سے پہلے لوگ بھی دین میں غلو كی وجہ سے ہلاك ہوئے۔( )

Haidth Number: 1017
كرز بن علقمہ خزاعی سے مروی ہے كہ ایك آدمی نے كہا:اے اللہ كے رسول كیا اسلام كی بھی كوئی انتہا ہے؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اہل عرب یا عجم كا جو بھی گھر ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی كا ارادہ فرمالیا ہے اللہ تعالیٰ ان گھروں میں اسلام داخل كر دے گا، پھر فتنوں كا ظہور ہوگا۔ جس طرح سائے ہوتے ہیں۔(اس آدمی نے )كہا:واللہ ہر گز نہیں اگراللہ نے چاہا۔آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:كیوں نہیں اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے، پھر تم بڑی تعدادمیں واپس لوٹوگےاور ایك دوسرے كی گردن مارو گے۔( )

Haidth Number: 1018

عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ قُتِلَ مِنْهُمْ بِأَوْطَاسٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : يَا أَبَا عَامِرٍ أَلَا غَيَّرْتَ؟ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ (المائدة) فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَقَالَ: أَيْنَ ذَهَبْتُمْ؟ إِنَّمَا هِيَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ مِنْ الْكُفَّارِ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ. ورواه طبراني ولفظه: عَنْ أَبِي عَامِرٍ، أَنَّهُ كَانَ فِيهِمْ شَيْءٌ فَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : مَا حَبَسَكَ؟ قَالَ: قَرَأْتُ هَذِهِ الآيَةَ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ مِنْ الْكُفَّارِ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ.

ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ان كا ایك آدمی (اوطاس) میں قتل كر دیا گیا۔ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے اس سے كہا: ابو عامر تمہیں غیرت نہیں آئی؟ ابو عامر نے یہ آیت پڑھی: (المائدة:۱۰۵).ترجمہ: ”اے ایمان والو!اپنی فکر کرو جب تم راہِ راست پر چل رہے ہو توجو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں“۔رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌غصے ہو گئے اور فرمایا: تم كہاں چلے گئے؟اس آیت کا مفہوم یہ ہے: ”اے ایمان والو جب تمہیں ہدایت مل جائے تو جو لوگ (كافروں میں سے)گمراہ ہیں وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سكیں گے“۔طبرانی نے روایت بیان كی اس كے الفاظ یہ ہیں كہ ابو عامر سے مروی ہے ان میں كوئی مسئلہ ہو گیا تووہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے پاس آنے سے رك گیا۔ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:تمہیں كس چیز نے روكا؟ ابو عامر نے كہا: میں نے یہ آیت پڑھی تھی:(المائدة:۱۰۵)”اے ایمان والو اپنے آپ كا خیال ركھو ، جب تمہیں ہدایت مل جائے تو جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سكیں گے“۔نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے ابو عامر سے كہا: جب تمہیں ہدایت مل جائے تو كفار میں سے جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سكیں گے۔( )

Haidth Number: 1019
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: جس شخص نے اپنے بھائی سے كہا: اے كافر! اگر اسی طرح ہے تو یہ بات دونوں میں سے كسی ایك كی طرف واپس آئے گی وگرنہ اسی شخص پر لوٹ جائے گی۔( )

Haidth Number: 1020
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: ایمان كے ستر سے زیادہ درجے ہیں۔ كم ترین درجہ راستے سے تكلیف دہ چیز كو ہٹانا اور افضل ترین درجہ” لا الہ الا اللہ“ كہنا ہے۔( )

Haidth Number: 1021
عمرو بن عبسہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: ایمان صبر اور درگزر كا نام ہے۔( )

Haidth Number: 1022
انس رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:بہترین ایمان یمنیوں کا ہے ، اور ہاتھ کے اشارےسے قبیلۂ لخم اور جذام کی طرف اشارہ کیا۔ ( )

Haidth Number: 1023
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: بہترین ایمان یمنی ہے، اور كفر مشرق كی طرف سے،سكون بكریوں والوں میں ہے،ریا اور فخر اونٹ اور گھوڑے والوں میں ہے۔ مسیح(دجال) مشرق كی طرف سے آئے گا اور مدینے كا رخ كرے گا۔ احد كے پیچھے پہنچ جائے گا توفرشتے اس كے سامنے آجائیں گے اور اس كے چہرے كو شام كی طرف پھیر دیں گے۔ یہیں وہ ہلاك ہوگا۔ یہیں وہ ہلاك ہوگا۔( )

Haidth Number: 1024
) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: ایك رات میں نے مقامِ حجون میں جنوں کے سامنے قرآن پڑھتے ہوئے گزاری۔( )

Haidth Number: 1025

عَنْ أَبِي سُفْيَانَ بْن حَرْبٍ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَارًا بِالشَّأمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ فَوَاللهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا؟! قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ الْكَلِمَةِ قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلْتُ: الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بَصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اهُِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ ﮊ آل عمران، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَكَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفاً عَلَى نَصَارَى الشَّامِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا؟ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مُلْكُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ؟ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ.

ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ وہ قریش كے ایك تجارتی قافلے میں تھے۔ ہرقل نے اس كی طرف پیغام بھیجا۔ یہ لوگ شام میں تجارت كی غرض سے اس مدتِ معاہدہ كے دوران آئے تھے جو رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌اور ابو سفیان و كفارِ قریش كے درمیان ہوا تھا۔ یہ لوگ ایلیا میں تھے ، ہر قل نے انہیں قریب بلایا اور اس کے پاس روم کے سرکردہ لوگ تھے،اور اپنا ترجمان بھی بلایا۔ ہر قل نے كہا: جو شخص نبوت كا دعوی كرتا ہے اس كا رشتے دار كون ہے؟ ابو سفیان نے كہا: میں ہوں، ہر قل نے كہا: اسے میرے قریب كر دو ۔اور اس كے ساتھیوں كو اس كے پیچھے كھڑا كر دو، پھر اپنے ترجمان سے كہا، ان سے كہو: میں اس سے سوال كروں گا، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو اس كی تكذیب كر دو ۔ابو سفیان نے كہا: اللہ كی قسم مجھے اس بات كی شرم نہ ہوتی كہ یہ مجھے جھوٹا كہیں گے تو میں آپ كے بارے میں جھوٹ بولتا ۔ پھر پہلاسوال ہر قل نے كاہ: تم میں اس كا نسب كیسا ہے؟ ابو سفیان: وہ ہم میں اچھے نسب والے ہیں۔ ہر قل: كیا تم میں سے كسی نے پہلے كبھی ایسی بات كہی ہے؟ ابو سفیان: نہیں۔ہر قل: كیا اس كے آباءو اجداد میں كوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابو سفیان: نہیں ۔ ہر قل: بڑے لوگ اس كی پیروی كرتے ہیں یا كمزور اور غریب لوگ؟ ابو سفیان: كمزور و ضعیف لوگ۔ ہر قل: وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا كم ہو رہے ہیں؟ابو سفیان: وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ہر قل: كیا اس كے دین میں داخل ہونے كے بعد كوئی اس كے دین كو نا پسند كرتے ہوئے مرتدبھی ہوا ہے ؟ ابو سفیان : نہیں۔ ہر قل : كیا وہ دھوكہ دیتا ہے؟ ابو سفیان : نہیں، لیكن ہمارے درمیان ایك معاہدہ ہوا ہے جس كے بارے میں ہم نہیں جانتے كہ وہ اس میں كیا كرے گا؟ ابو سفیان نے كہا كہ اس بات كے علاوہ مجھے كوئی ایسی بات نہیں ملی جو میں اس گفتگو میں شامل كرتا۔ ہر قل: كیا تم نے اس سے قتال كیا ہے؟ ابو سفیان: ہاں۔ ہر قل: تمہارے درمیان جنگ كی كیا كیفیت رہی؟ ابو سفیان: ہمارے درمیان جنگ كبھی ان كے حق میں اور كبھی ہمارے حق میں رہی۔ ہر قل : وہ تمہیں كیا حكم دیتا ہے؟ ابو سفیان: وہ كہتا ہے ، اللہ كی عبادت كرو، اس كے ساتھ كسی كو شریك نہ كرو، جو تمہارے آباء كہتے ہیں انہیں چھوڑ دو، ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاكدامنی اور صلہ رحمی كا حكم دیتا ہے۔ہر قل نے اپنے ترجمان سے كہا : اس سے كہو، میں نے تم سے اس كے نسب كے بارے میں پوچھا تو تم نے كہا كہ وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے، رسول اسی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی قوم كے اچھے نسب والے خاندان میں مبعوث كیا جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس سے پہلے بھی كسی نے ایسی بات كہی ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ میں كہتا ہوں كہ اگر اس سے پہلے كسی نے ایسی بات كہی ہوتی تو میں كہتا یہ ایسا شخص ہے جو ایسی بات كی نقل كر رہا ہے جو كہی جا چكی ہے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس كے آباء میں سے كوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو تم نے كہا كہ نہیں۔ میں كہتا ہوں كہ اگر اس كے آباء میں سے كوئی بادشاہ ہوتا تو یہ ایسا شخص ہے جو اپنے آباء كی بادشاہت كا خواہش مند ہے۔ میں نے تم سے كہا كہ كاا تم نے كبھی اس پر اس دعوے سے پہلے جھوٹ كی تہمت لگائی ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ مجھے معلوم ہو گیا كہ ایك شخص جو لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ كے متعلق كس طرح جھوٹ بول سكتا ہے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ امیر لوگ اس كی پیروی كر رہے ہیں یا غریب لوگ؟ تو تم نے كہا: غریب لوگ اور یہی لوگ رسولوں كے پیرو كار ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا كم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے كہا كہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ ایمان كا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے حتیٰ كہ وہ مكمل ہو جائے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا اس كے دین كو ناپسند كرتے ہوئے كوئی مرتد بھی ہوا ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ ایمان كی حالت اسی طرح ہوتی ہے جب اس كی تازگی دلوں میں رچ بس جائے ۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ كیا وہ دھوكہ دہی كرتا ہے؟ تو تم نے كہا: نہیں۔ رسول دھوكہ نہیں دیتے۔ میں نے تم سے سوال كیا كہ وہ تمہیں كس بات كا حكم دیتا ہے؟ تو تم نے كہا كہ وہ تمہیں نماز پڑھنے، سچ بولنے ، پاكدامنی اختیار كرنے ، اللہ كی عبادت كرنے ، شرك نہ كرنے، بتوں كی عبادت سے رك جانے كا حكم دیتا ہے۔ اگر جو تم نے كہا ہے سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں كے نیچے والی جگہ (تخت) كا مالك بنے گا۔ مجھے یہ معلوم تھا كہ اس كا ظہور ہونے والا ہے لیكن یہ خیال نہیں تھا كہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر میں سمجھتا كہ میں اس كے پاس پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور اس كی ملاقات كے لئے جاتا، اگر میں اس كے پاس ہوتا تو میں اس كے قدم دھوتا۔ پھر اللہ كے رسول ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كا وہ خط منگوایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ كے ہاتھ بصرہ كے والی كی طرف بھیجا تھا ۔ وہ خط ہر قل كو دیا گیا، ہر قل نے وہ خط پڑھا تو اس میں لكھا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد اللہ كے بندے اور اس كے رسول كی طرف سے ، ہر قل روم كے بادشاہ كی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت كی پیروی كی۔ اما بعد: میں تمہیں اسلام كی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ سلامت رہو گے، اللہ تعالیٰ تمہیں دو گنا اجر دے گا۔ اگر تم اسلام سے پھر گئے تو تم پر تمہاری رعایا كا بھی گناہ ہوگا ’’اور اے اہل كتاب اس كلمہ كی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترك ہے كہ ہم اللہ كے سوا كسی كی عبادت نہ كریں اور نہ اس كے ساتھ كسی كو شریك كریں، اور نہ ہم میں كوئی كسی دوسرے كو اللہ كے علاوہ رب بنائے۔ اگر یہ لوگ پھر جائیں تو تم كہو ہم اس بات كی گواہی دیتے ہیں كہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘( آل عمران) ابو سفیان نے كہا:جب ہر قل اپنی بات كہہ چكا اور خط سے فارغ ہو گیا تو اس كے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ہمیں باہر بھیج دیا گیا، جب ہمیں باہر بھیجا گیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے كہا: ابن ابی كبشہ كا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔ اس سے تو روم كا بادشاہ بھی ڈر رہا ہے۔ پھر مجھے یہ یقین ہو گیا كہ عنقریب وہ غالب ہوگا، حتی كہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل كر دیا۔ابن ناطور ہرقل کی طرف سے ایلیاء کا والی اور نصارٰی شام کا پادری (عالم) بھی تھا۔ابن ناطور كہتا ہے كہ ہر قل جب ایلیا آیا تو ایك دن بوجھل طبیعت كے ساتھ اٹھا، اس كے كسی جرنیل نے كہا: آج ہم آپ كی طبیعت نا ساز دیكھ رہے ہیں۔ ابن ناطور كہتا ہے كہ ہر قل علم نجوم كا ماہر تھا۔ جب ساتھیوں نے اس سے كہا تو اس نے ان سے كہا: آج رات میں نے ستارے دیكھے تو مجھے ختنہ كرنے والے لوگوں كا بادشاہ نظر آیا اس كا ظہور ہو چكا ہے۔ اس امت میں كون لوگ ختنہ كرتے ہیں؟ اس كے ساتھیوں نے كہا: صرف یہودی لوگ ختنہ كرتے ہیں اور آپ کو ان کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے حاکموں کو لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردئے جائیں۔ وہ ابھی اسی گفتگو میں مصروف تھے كہ ہر قل كے پاس ایك آدمی لایا گیا ،جسے غسان كے بادشاہ كی طرف سے بھیجا گیا تھا،وہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے بارے میں بتا رہا تھا۔ جب ہر قل نے اس سے یہ ؟؟؟ معلوم کی کہ تو كاب: اسے لے جاؤ اور دیكھو اس كا ختنہ ہوا ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیكھا تو انہیں انكشاف ہوا كہ اس كا ختنہ ہوا ہے۔ ہر قل نے اس سے عرب كے لوگوں كے بارے میں پوچھا تو اس نے كہا: وہ ختنہ كرتے ہیں۔ ہر قل نے كہا: یہ اس امت كا بادشاہ ہے، اس كا ظہور ہو گیا ۔ پھر ہر قل نے رومیہ میں اپنے نگران كو خط لكھا وہ بھی علم میں اس كے ہم پلہ تھا، اور خود حمص كی طرف چل پڑا، ابھی وہ حمص پہنچا ہی تھا كہ اس كے پاس اس كے نگران كا خط آ پہنچا جو ہر قل كی رائے كے موافق تھا كہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كا ظہور ہو چكا ہے اور وہ نبی ہیں۔ ہر قل نے حمص میں اپنے ایك بڑے ہال میں روم كے سرداروں كو جمع كیا، پھر دروازے بند كرنے كا حكم دیا۔ اور سامنے آكر كہنے لگا: اے روم كے لوگو كیا تمہیں ہدایت و بھلائی سے كچھ دلچسپی ہے؟ اور یہ كہ تمہاری بادشاہت سلامت رہے ، تو اس نبی كی بیعت كر لو؟ وہ لوگ وحشی گدھوں كی طرح دروازوں كی طرف بھاگے تو انہیں ؟؟؟ جب ہر قل نے ان کی اس قدر نفرت كو دیكھا اور ان كے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو كہنے لگا: انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر کہنے لگا: میں نے تمہیں ابھی جو بات کہی تھی وہ اس لیے کہ میں تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لوں۔ یہ میں نے دیکھ لیا، انہوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہوگئے۔ یہ ہر قل کا آخری معاملہ تھا۔

Haidth Number: 1026
) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے : اللہ كی نشانیوں میں غورو فكر كیا كرو، اللہ كے بارے میں غورو فكر نہ كیا كرو۔( )

Haidth Number: 1027
انس رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: تین عادتیں میری امت میں ہمیشہ رہیں گے۔ حسب نسب میں ایك دوسرے پر فخر كرنا، نوحہ خوانی اور ستارہ پرستی۔( )

Haidth Number: 1028
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: تین كام جاہلیت سے ہیں، اہل اسلام بھی انہیں نہیں چھوڑیں گے: نوحہ خوانی، ستاروں سےبارش طلب كرنا، اور اس طرح میں نے سعید مقبری سے كہا: وہ كیا؟ انہوں نے كہا جاہلیت كا دعوی اے آل فلاں، اے آل فلاں، اے آل فلاں۔( )

Haidth Number: 1029
عبداللہ بن معاویہ غاضری سے مرفوعا مروی ہے كہ تین عمل ایسے ہیں جس نے یہ عمل كئے اس نے ایمان كا ذائقہ چكھ لیا:جس شخص نے اللہ وحدہ كی عبادت كی، اور یہ كہ اللہ كے علاوہ كوئی معبود بر حق نہیں اور خوشدلی سے اپنے مال كی زكوٰۃ دی، ہر سال اس پر كاربند رہا ، زكاۃ میں نہ بوڑھا جانور دیا نہ لاغر، نہ مریض دیا،نہ ہی حقیر جانوردیا،لیكن درمیانے درجے کے مال سے دیا، كیوں كہ اللہ تعالیٰ تمہارا بہترین مال نہیں مانگتا نہ تمہیں برے مال دینے كا حكم دیتا ہے

Haidth Number: 1030
انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: جس شخص میں یہ تین عادتیں ہوں گی وہ ایمان كی مٹھاس چكھ لے گا۔ اللہ اور اس كا رسول اسے سب سے زیادہ محبوب ہو، اللہ كے لئے محبت كرے اور اللہ كے لئے نفرت كرے، اور یہ كہ ایك بڑی آگ جلائی جائے اور وہ اس میں كود ے یہ كام اسے شرك كرنے سے زیادہ پیارا ہو۔( )

Haidth Number: 1031
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : تین آدمی ایسے ہیں جن کے فرض و نفل اللہ تعالیٰ قبول نہیں كرے گا:(والدین كا) نافرمان، احسان جتلانے والا، تقدیر كو جھٹلانے والا۔( )

Haidth Number: 1032
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دو گنا اجر دیا جائے گا: وہ شخص جس كی كوئی لونڈی تھی اس نےاسے اچھی طرح سكھایا اور اچھی تربیت دی، پھر اسےآزاد كر كے اس سے شادی كر لی۔ دوسرا وہ غلام جس نے اپنےرب اور اپنے مالكوں كا حق ادا كیا، اور وہ شخص جو اپنی كتاب اور محمد ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌پر ایمان لایا ۔( )

Haidth Number: 1033
انس بن مالك رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كےپاس آیا اور”عزل“ كے بارے میں سوال كیا۔ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:وہ پانی(كا قطرہ) جس سے بچہ پیدا ہونا ہو اگر تم كسی چٹان پر بھی گرادو گے تو اللہ تعالیٰ اس سے بچہ نكا ل دے گا یا اس سے بچہ نكل آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اس جان كو ضرور پیدا كرے گا جس كے پیدا كرنے كا ارادہ كر لیا ہے۔( )

Haidth Number: 1034

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ قَال: قَال النَّبِيُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌جَاءَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَىَّ وفي طريق: إنَ مَلَكَ الْمَوْتِ يَأْتِي النَّاسَ عِيَانًا حَتَى أَتَى مُوسَي عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ أَجِبْ رَبَّكَ فَلَطَمَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ فَفَقَأَهَا فَرَجَعَ الْمَلَكُ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ (يَا رَبِّ!) إِنَّكَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَكَ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ وَقَدْ فَقَأَ عَيْنِي (وَلَوْلَا كَرَامَتُهُ عَلَيْكَ لَشَقَقْتُ عَلَيْهِ) قَالَ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ ارْجِعْ إِلَى عَبْدِي فَقُلْ لَهُ الْحَيَاةَ تُرِيدُ؟ فَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْحَيَاةَ فَضَعْ يَدَكَ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَمَا تَوَارَتْ يَدُكَ مِنْ شَعَرَةٍ فَإِنَّكَ تَعِيشُ بِهَا سَنَةً قَالَ: (أَيْ رَبِّ) ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ: فَالْآنَ مِنْ قَرِيبٍ رَبِّ أَمِتْنِي مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ (قَالَ: فَشَمَّهُ شَمَّةً فَقَبَضَ رُوحَهُ قَالَ: فَجَاء بَعد ذَلِك إِلى النَّاسَ خُفيّاً) قَالَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَاللهِ لَوْ أَنِّي عِنْدَهُ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ وفي الطريق: تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: ملك الموت ایك راستے میں آیا۔ اور ایک سند میں یہ الفاظ ہیں۔ پہلے ملك الموت سامنے آیا كرتا تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام كے پاس آیا تو اس سے كہا: اپنےرب كا فیصلہ قبول كرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس كی آنكھ پر ہاتھ مار كر اسے پھوڑ دیا۔ ملك الموت اللہ كے پاس واپس گیا اور كہا: (اے اللہ) تو نے مجھے اپنے ایك بندے كی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اس نے میری آنكھ بھی پھوڑ دی ہے(اگر تیرے یہاں اس كی عزت نہ ہوتی تو میں اس پر بہت بھاری ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے اس كی آنكھ دوبارہ ٹھیك كر دی اور فرمایا: میرے بندے كے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو:كیا تم زندگی چاہتے ہو؟ اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اپنا ہاتھ بیل كی پشت پر ركھو، جتنے بالوں كو تمہارا ہاتھ ڈھانپ لے تو ہر بال كے بدلے تم ایك سال زندہ رہو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے كہا:(اے میرے رب) پھر اس كے بعد كیا ہوگا؟ اللہ عزوجل نے فرمایا: پھر تم مر جاؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے كہا: تو پھر ابھی كیوں نہیں ۔ اے میرے رب مجھے ارض مقدسہ كے مقام پر موت دے(ملك الموت نے انہیں ہلكا سا چھوا اور اس كی روح قبض كر لی، پھر اس کےبعد ملك الموت لوگوں كے پاس پوشیدہ آنے لگا)۔ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: واللہ اگر میں اس كے پاس ہوتا تو تمہیں اس كی قبر دكھاتا، سرخ ٹیلے کے پاس راستے میں اور ایک روایت میں ہے کہ : سرخ ٹیلے کے نیچے۔( )

Haidth Number: 1035
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: جنت تمہارے نزدیك تمہارے جوتے كے تسمے سےبھی زیادہ قریب ہے، اور آگ بھی اسی طرح ہے۔( )

Haidth Number: 1036
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ہمیں صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی بیان کی كہ اللہ تبارك وتعالیٰ نے فرمایا: نیكی( كا اجر )دس گنا ہے یا میں زیادہ بھی كر سكتا ہوں، اور گناہ ایك ہی ہے یا میں اسے بھی بخش دوں۔ اگر تم زمین بھر كے گناہ لے كر مجھ سے اس حال میں ملوكہ تم نے شرك نہ كیا ہو تو میں بھی زمین بھرمغفرت لے كر تم سے ملوں گا۔( )

Haidth Number: 1037
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح کرلیاہے، اور ان كےدرمیان كچھ شبہے والی چیزیں ہیں، جو ان میں داخل ہو گیا تو قریب ہے كہ وہ گناہ كر لے اور جو ان سے بچ گیا تو اس نے اپنے آپ کو كو محفوظ کرلیا، اس چرواہے کی طرح چراگاہ كے ارد گرد چر رہی ہے قریب ہے كہ وہ اس میں داخل ہو جائے ہر بادشاہ كی ایك چراگاہ ہے اور اللہ كی چراگاہ حرام كر دہ چیزیں ہیں۔( )

Haidth Number: 1038