ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو شخص میرے بارے میں سنے ،یہودی ہو یا عیسائی پھر مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔( )
یوسف بن عبداللہ بن سلام اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ جا رہے تھے كہ آپ نے وادی میں ایك آدمی كو سنا جو كہہ رہاتھا”أَشْهَدُ أَنَّ لا إِلَهَ إِلا اهُت ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رّسُولُ اللهِ“( میں گواہی دیتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ كے رسول ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور میں بھی گواہی دیتا ہوں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں كہ: جس شخص نے بھی یہ گواہی دی تو وہ شرك سے بری ہے۔ یعنی شہادتین كی گواہی، یہ لفظ نسائی كے ہیں اور طبرانی نے شروع میں یہ الفاظ زیادہ كئے : ۔۔۔جب لوگوں نے سنا وہ كہہ رہے تھے :اے اللہ كے رسول كون سا عمل افضل ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اور اس كے رسول پر ایمان لانا، جہاد فی سبیل اللہ كرنا اور مقبول حج ، اور پھر آگے یہی الفاظ ہیں۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے كہا: ہشام بن مغیرہ صلہ رحمی كرتا تھا، مہمان نوازی كرتاتھا، غلام آزاد كرتا تھا، كھانا كھلاتا تھا، اگر وہ آپ كے دور میں زندہ ہوتا تو اسلام لے آتا ، كیا یہ كام اسے نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،كیوں كہ وہ دنیا كے لئے دیا كرتا تھا ، شہرت اور تعریف كے لئے دیا كرتا تھا اور كبھی بھی اس نے یہ نہیں كہا: اے میرے رب قیامت كے دن میری خطائیں معاف كر دے۔( )
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہنے لگا: اے اللہ كے نبی كونسا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا اور تصدیق كرنا اور اس كے راستے میں جہاد كرنا، اس نے كہا: اے اللہ كے رسول میں اس سے كم درجے والا عمل پوچھ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: درگزر اور صبر،اس نے كہا: اے اللہ كے رسول !میں اس سے بھی كم درجے والا عمل پوچھ رہا ہوں۔آپ نے فرمایا : اللہ تبارك و تعالیٰ نے تمہارے لئے جو فیصلہ كر دیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ كو الزام نہ دو۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے كہا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانے كو گالی نہ دو، كیوں كہ اللہ عزوجل نے فرمایا: میں زمانہ ہوں، دن اور رات میرے لئے ہیں میں نئے سرے سے انہیں بناتا ہوں اور پھیرتا ہوں، اور میں بادشاہوں كے بعد دوسرے بادشاہ لاتا ہوں۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رزق كے بارے میں كبھی بھی یہ خیال مت كرو كہ وہ دیر سےپہنچا كیوں كہ كوئی بھی بندہ اس وقت تك نہیں مرے گا جب تك وہ اپنے رزق كا آخری لقمہ نہ كھا لے اس لئے مانگنے میں اچھا طریقہ اختیار كرو، حلال لو، حرام چھوڑ دو۔( )
انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كسی شخص كے عمل كو دیكھ كر خوش نہ ہو جاؤ جب تك تم اس كاخاتمہ نہ دیكھ لو۔ كیوں كہ عمل كرنے والا ایك طویل عرصے تك نیك عمل كرتا رہتا ہے كہ اگر( اسی عمل پر)مر جائے تو جنت میں داخل ہو جائے۔ پھر اچانك وہ برے عمل كرنا شروع كر دیتا ہے، اور كوئی شخص طویل عرصہ برے عمل كرتا رہتا ہے كہ اگر( اسی عمل پر)مر جائے تو جہنم میں داخل ہو جائے، پھر اچانك وہ نیك عمل شروع كر دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ كسی بندے سے بھلائی كا ارادہ كرتا ہے تو اسے اس كی موت سے پہلے استعمال كرلیتاہے۔ اس كے لئے نیك عمل كے دروازے كھول دیتاہے(پھر اس كی روح قبض كر لیتا ہے)۔ ( )
ا بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ : كوئی بیماری متعدی نہیں، نہ كوئی بدشگونی ہے اور نحوست تین چیزوں میں ہے، عورت میں ، گھوڑے میں اور گھر میں۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: كوئی بیماری متعدی نہیں، نہ ہی بدشگونی جائزہے، نہ صرَ(پیٹ كی بیماری)ہے، نہ ہامہ(الو)، رات كا پرندہ)ہے، ایک بدو نے كہا: ان اونٹوں كی كیا صورتحال ہےجو ریگستان میں ہوتے ہیں گویا كہ وہ صحت مند ہر نیاں ہیں، ان میں ایك خارش زدہ اونٹ مل جاتا ہے ، اور انہیں بھی خارش زدہ كر دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا: پہلے اونٹ كو كس نے خارش زدہ كیا؟ ( )
سعید بن مسیب سے مروی ہے كہ میں نے سعد بن ابی وقاص سے بدشگونی كے بارے میں سوال كیا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور كہنےلگے تمہیں كس نے بتایا؟ میں نے مناسب نہیں سمجھا كہ انہیں اس شخص كے بارے میں بتاؤں جس نے مجھے بتایا ہے؟ (پھر) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كوئی بیماری متعدی نہیں، نہ بدشگونی جائزہے، اور نہ ہام(الو)ہے۔ اگر كسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی ۔ اور جب تم كسی علاقے میں طاعون كے متعلق سنو تو اس میں نہ جاؤ اور جب طاعون كسی علاقے میں آجائے اور تم اس میں ہو تو پھر وہاں سے نہ بھاگو۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ كوئی بیماری متعدی نہیں، نہ كوئی بدشگونی ہے، نہ ہامہ(الو)ہے اور نہ ہی صفر(پیٹ كی بیماری)ہے اور كوڑھی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے (ڈر كر) بھاگتے ہو۔( )
ابو زناد رحمہ اللہ كہتے ہیں كہ میں نے صحابہ كی اولاد میں سے اللہ کے پسندیدہ، قناعت کرنے والے اور لوگوں کے خیر خواہوں جس سے کچھ لوگوں نے بیان كیا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كوئی بیماری متعدی نہیں، نہ ہی ہامہ ہے اور نہ صفرہے، اور كوڑھی سے اس طرح بچو جس طرح شیر سے بچا جاتا ہے۔( )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے سو ایك جیسی چیزوں میں سے سوائے مومن آدمی كے كسی كو بہتر نہیں جانا۔( )
انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ تم میں سے كوئی شخص اس وقت تك مومن نہیں ہو سكتا جب تك وہ اپنے بھائی كے لئے (بھلائی کے اعتبار سے) وہی كچھ پسند نہ كرے جو وہ اپنے لئے پسند كرتا ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ كوئی بندہ اس وقت تك مومن نہیں ہوتا جب تك وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے اور اسے یہ معلوم ہو جائے كہ اسے جو كچھ ملنے والا ہے وہ اس سے چھوٹ نہیں سكتا اور جو اسے نہیں ملنے والا وہ اسے كبھی نہیں ملے گا۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہتی ہیں كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی كرتا تھا اور مساكین كو كھاناكھلاتا تھا۔ كیا یہ بات اسے نفع دے گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں اے عائشہ اس نے كسی دن بھی نہیں كہا: اے میرے رب قیامت كے دن میری خطائیں معاف فرما۔( )
ابو درداء رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كوئی بندہ ایمان كی حقیقت تك اس وقت تك نہیں پہنچ سكتا جب تك اسے یہ معلوم نہ ہو جائے كہ اسے جو ملنے والا ہے اس سے رہے گا نہیں اور جو اسے نہیں ملنے والا وہ اسے ملے گا نہیں۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: كسی آدمی كے دل میں ایمان اور كفر جمع نہیں ہو سكتے، اور نہ جھوٹ اور سچائی اكھٹے ہو سكتےہیں، اور نہ ہی خیانت اور امانت اكھٹے ہو سكتے ہیں۔( )
) انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك نو جوان كے پاس آئے وہ موت كی كشمش میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: تم اپنے آپ كو كیسا محسوس كر رہے ہو؟ اس نے كہا: اے اللہ كے رسول میں اللہ تعالیٰ سے رحمت كی امید ركھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے بھی ڈرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:ایسے وقت میں (یعنی موت کے وقت)کسی بندے کے دل میں جب خوف اور امید جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ اسےوہ چیزدے دیتا ہےجس کی امید رکھتا ہےاور اس چیز سےبے خوف کردیتاہےجس سے ڈرتاہے ۔
ابو ریحانہ سے مرفوعا مروی ہے كہ تكبر كا كوئی حصہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ كسی نے كہا: اے اللہ كے نبی مجھے یہ بات پسند ہے كہ میں اپنے كوڑےکی رسیوں کواور جوتے كے تسمے كو خوب صورت بناؤں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تكبر سے نہیں، یقینا اللہ تعالیٰ خوب صورت ہے اور خوب صورتی كو پسند كرتا ہے، اور تكبرصرف یہ ہے کہ كوئی شخص حق كا انكارکرے اور لوگوں كو حقیر سمجھے۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت كا معاملہ اس وقت تك بہتر رہے گا جب تك یہ اولاد اور تقدیر كے بارے میں گفتگو نہیں كریں گے۔( )
انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: لوگ سوال كرتے رہیں گے اور كہیں گے یہ كس طرح اور یہ كس طرح؟ حتی كہ وہ كہیں گے : اللہ تعالیٰ لوگوں كو پیدا كرنے والا ہے اللہ تعالیٰ كو كس نے پیدا كیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ : زانی جب زنا كرتا ہے تو مومن نہیں رہتا، اور شرابی جب شراب پیتا ہے تو مومن نہیں رہتا اور چور جب چوری كرتا ہے تو مومن نہیں رہتا اور ڈاكو جب ڈاكہ ڈالتا ہے اور لوگوں كی آنكھیں اس كی طرف اٹھی ہوں تو وہ مومن نہیں رہتا۔( )