ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ لوگوں نے كہا: اے اللہ كے رسول ہم جو عمل كرتے ہیں اس كے بارے میں آپ كا كیا خیال ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس سے فارغ ہو اجا چكا ہے یا ایسا معاملہ ہے جسے ہم نئے سرے سے كرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلكہ ایسا معاملہ ہے جس سے فارغ ہوا جا چكا ہے۔ صحابہ نے كہا: اے اللہ كے رسول پھر عمل كس بات كا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر آدمی كو اس كام كی طرف آسانی دی جاتی ہے جس كے لئے وہ پیدا كیا گیا ہے۔( )
خالد بن دھقان سے مروی ہے كہتے ہیں كہ ہم قسطنطنیہ كے غزوے میں(ذلقیہ)كے مقام پر شریك تھے۔ اہل فلسطین كے اشراف سے ایك آدمی ان كی طرف متوجہ ہوا، لوگ اس كی حالت جانتے تھے۔ اسے ھانی بن كلثوم بن شریك كنانی كہا جاتا تھا۔ اس نے عبداللہ بن ابی زكریا كو سلام كہا، وہ اس كا حق پہچانتے تھے۔ خالد نے ہمیں كہا كہ عبداللہ بن ابی زكریا نے ہمیں بیان كیا كہتے ہیں كہ میں نے ام درداءسے سنا كہہ رہی تھیں كہ میں نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سنا وہ كہہ رہے تھے كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے : ممكن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ كو معاف كر دے سوائے اس شخص كے جو شرك كی حالت میں مر گیا، یا جس نے كسی مومن كو جان بوجھ كر قتل كیا۔( )
طاؤس یمانی رحمۃ اللہ علیہ سےمروی ہےانہوں نےكہاكہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ كوپایا،فرماتےتھے: ہر چیز تقدیر سے ہے،طاؤس نے کہا:اور میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ فرما رہے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرچیز تقدیر سے ہے،حتی كہ عاجزی اوردانشمندی بھی یا دانشمندی اور عاجزی بھی۔( )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہتے ہیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اللہ كے علاوہ جس كی بھی قسم كھائی جائے وہ شرك ہے۔( )
یزید بن مرثد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس طرح كانٹے دار جھاڑی سے انگور نہیں چنا جا سكتا اسی طرح نیک لوگ بدلوگوں كے درجات پر نہیں لائے جائیں گے۔ جس راستے پر چاہوچلو كیوں كہ تم جس راستے پر چلو گے اسی راستے والوں سے ملو گے۔( )
) مقداد بن اسود نے كہا: میں كسی شخص كے بارے میں نیک یابدنہیں کہہ سکتا، جب تك میں دیكھ نہ لوں كہ اس كا خاتمہ كس طرح ہوا۔ یعنی جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔پوچھا گیا: تم نے كیا سنا؟ انہوں نے كہا كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: ابنِ آدم كا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے بدلتا ہے جو ہنڈیا كھول رہی ہو۔( )
) ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز كی ایك حقیقت ہے اور بندہ ایمان كی حقیقت تك اس وقت تك نہیں پہنچ سكتا جب تك اسے اس بات كا پختہ علم نہ ہو جائے كہ جو کچھ اسے ملنے والا ہے وہ اس سے ٹلنے کا نہیں۔ اور جو کچھ اس کو (اللہ کی طرف سے) نہیں ملنا تھا وہ اسے (کسی صورت) حاصل نہیں کرسکتا۔( )
بنی عامر كے ایك آدمی سے مروی ہے كہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا كیا میں اندر آسكتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے كہا: باہر جاؤ اور اس سے كہو كہ وہ السلام علیكم كہہ كر پوچھے كہ كیا میں اندر آسكتا ہوں؟ كیوں كہ اس نے احسن انداز میں اجازت طلب نہیں كی۔ اس نے كہا كہ میں نے لونڈی كے پہنچنے سے پہلے ہی یہ بات سن لی۔ میں نے كہا: السلام علیكم ، كیا میں اندر آسكتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیك(تم پر بھی) اندر آجاؤ۔ میں اندر آیا، اور پوچھا آپ كونسی بات لائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس صرف بھلائی لایا ہوں۔ میں تمہارے پاس یہ پیغام لے كر آیا ہوں كہ تم اللہ كی عبادت كرو جو اكیلا ہے اور اس كا كوئی شریك نہیں اور تم لات و عزی كی عبادت چھوڑدو ، رات اور دن میں پانچ نمازیں پڑھو، سال میں ایك ماہ كے روزے ركھو، اور اس گھر كا حج كرو، اور اپنے امیروں كے اموال لے كر اپنے غریبوں میں تقسیم كرو۔ اور یقینا اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے اور ایسا بھی علم ہے جو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ پانچ باتیں ایسی ہیں جو صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ یقینا اللہ كے پاس قیامت كا علم ہے، وہ بارش برساتا ہے اور ماں كے رحم میں موجود بچے كو جانتا ہے، اور كسی نفس كو نہیں پتہ كہ كل وہ كیا كمائے گا، اور كسی نفس كو نہیں پتہ كہ وہ كس علاقے میں مرے گا۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہتے ہیں كہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مكہ فتح كیا تو ابلیس بے تحاشہ رویا۔ اس كے چیلےلاؤ لشكرکے ساتھ اس كے گرد جمع ہو گئے۔ شیطان نے كہا: اس بات سے نا امید ہو جاؤ كہ ہم اس دن كے بعد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو شرك پر دیكھیں گے۔ لیكن انہیں ان كے دین میں فتنے میں ڈال دو اور ان میں نوحہ خوانی عام كردو۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے معراج كروائی گئی اور میں مكہ میں آیا تومیں اپنے معاملے میں پر اعتماد نہ تھااور مجھے معلوم ہوگیا كہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے ۔ آپ غمگین ہو كر علیحدہ بیٹھ گئے۔ اللہ كا دشمن ابو جہل وہاں سے گزرا اور آكر آپ كے پاس بیٹھ گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استہزاء كرتے ہوئے كہا: كیا كوئی نئی بات ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ اس نے كہا: وہ كیا؟ آپ نے فرمایا: آج رات مجھے سیر کروائی گئی ہے۔ ابو جہل نے كہا : كس طرف؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس كی طرف۔ ابو جہل نے كہا: (واہ) پھر بھی آپ صبح كے وقت ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل كو سمجھ نہیں آئی كہ آپ كو جھٹلا دے اس ڈر سے كہ كہیں وہ آپ كی قوم كو بلائے تو آپ اس بات كا انكار كر دیں۔ ابو جہل نے كہا: اگر میں آپ كی قوم كو بلاؤں اور جو آپ نے مجھے بتایا ہے انہیں بھی بتائیں تو آپ كا اس بارے میں كیا خیال ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیك ہے۔ ابو جہل نے آواز دی: اے بنی كعب بن لؤئی كے لوگو آؤ۔ لوگ ٹولیوں كی صورت میں اس كی طرف آنے لگے اور آكر بیٹھ گئے۔ ابو جہل نے كہا: اپنی قوم كو بتاؤ جو آپ نے مجھے بتایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے سفر كروایا گیا۔ لوگوں نے كہا: كس طرف؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس كی طرف لوگوں نے كہا: آپ پھر بھی ہمارے درمیان بیٹھے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، كچھ لوگ تالیاں بجانے لگے اور كچھ لوگ آپ کے (ان کے گمان میں) جھوٹے دعوے پر تعجب كرتے ہوئے اپنے ہاتھ اپنے سرپر ركھنے لگے، كہنے لگے: كیا آپ ہمیں اس مسجد كے اوصاف بیان كرنے كی قدرت ركھتے ہیں؟ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس ملك میں گئے تھے اور وہ مسجد دیكھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انہیں اوصاف بتانے لگا میں انہیں اوصاف بتا رہا تھا كہ كوئی نشانی مجھ پر ملتبس ہو گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ مسجد میرے سامنے كر دی گئی میں اسے دیكھ رہا تھا حتی كہ وہ عقال یا عقیل كے گھروں كے سامنے كر دی گئی اور میں اس كی نشانیاں بتا رہا تھا۔ اور اسے دیكھ رہا تھا۔ اس میں ایسی نشانی بھی تھی جو مجھے یاد نہیں تھی۔ لوگوں نے كہا: اللہ كی قسم یہ نشانی اس نے درست بتائی ہے۔( )
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ وہ شخص كبھی بھی بلند درجات تك نہیں پہچ سكتا جس نے كہانت كی یا اس كے لئے كہانت كی گئی یا بدشگونی كرتے ہوئے سفر سے واپس پلٹ آیا۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھ پر دس یہودی بھی ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر كوئی یہودی باقی نہیں بچے گا جو اسلام نہ لائے۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی كو ضرورت پیش آئی تو وہ جنگل كی طرف نكل گیا، اس كی بیوی نے كہا: اے اللہ جس چیز كا ہم آٹا بنائیں اور روٹی پكائیں وہ ہمیں عطا كر۔ وہ آدمی آیا تو برتن آٹے سے بھرا ہوا تھا اور تنور بھنی ہوئی رانوں سے بھرا ہوا تھا۔ چكی آٹا پیس رہی تھی۔ اس نے پوچھا یہ كہاں سے؟ اس نے كہا: اللہ كے رزق سے۔ اس نے چكی كا پاٹ اٹھالیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اسے چھوڑ دیتا تو وہ گھومتی رہتی یا وہ قیامت تك آٹا پیستی رہتی۔( )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ اگر تمہیں اللہ كی رحمت كی مقدار معلوم ہو جائے تو تم توكل كر كے بیٹھ جاؤ اور كوئی كام نہ كرو اور اگر تمہیں اللہ كے غصے كی مقدار معلوم ہو جائے تو تمہیں كوئی چیز نفع نہ دے۔( )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم”بسم اللہ“کہتے تو فرشتے تمہیں لے كر اڑنے لگتے اور لوگ تیری طرف دیكھ رہے ہوتے۔ آپ نے یہ بات طلحہ رضی اللہ عنہ سےكہی جب ان كی انگلیاں كاٹ دی گئیں تھیں۔ طلحہ نے كہا تھا”اف“(تكلیف كے وقت كلمہ)۔
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس كھانا مانگنے آیا ۔ آپ نے اسے جَو كا نصف وسق دیا۔ وہ آدمی اس كی بیوی اور ان كا مہمان اس سے كھاتے رہے حتی كہ اس نے اس كا وزن كیا ۔وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم وزن نہ کرتےتو تم اس سے كھاتے رہتے اور وہ تمہارے لئے برابر موجود رہتا۔( )
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اللہ تعالیٰ سے زیادہ كوئی بھی صبر كرنے والا نہیں اس تكلیف دہ بات پر جسے وہ سنتا ہے۔ لوگ اللہ كے لئے اولاد بناتے ہیں(اور اس كا شریك بناتے ہیں) جب كہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف كرتا رہتا ہے (اور ان سے درگزر كرتا رہتا ہے)۔ اور انہیں رزق دیتا رہتا ہے(اور عطا كرتا رہتا ہے)۔ ( )
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ انہوں نے ایك آدمی كو دیكھا جس كے ہاتھ میں پیتل كا ایك كڑا تھا۔ انہوں نے اس سے كہا: یہ كیا ہے؟ اس نے كہا: كمزوری كی وجہ سے۔ انہوں نے كہا: اگر تم مر گئے اور یہ تمہارے ہاتھ میں ہوا تو تمہیں اس كے سپرد كر دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے بدشگونی لی یا اس كے لئے بدشگونی لی گئی ۔ یا كہانت كی یا اس كے لئے كہانت كی گئی، یا اس نے جادو كیا یا اس كے لئے جادو كیا گیا۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے جادو كیا یا اس كے لئے جادو كیا گیا یا كہانت كی یااس كے لئے كہانت كی گئی، یا بدشگونی لی یا اس كے لئے بد شگونی لی گئی۔( )
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ لوگوں نے كہا: اے اللہ كے رسول ہم آپ كے پاس ہوتے ہیں تو ہماری ایك(اچھی)حالت ہوتی ہےاور جب آپ سے جدا ہوتے ہیں تو ہماری حالت بدل جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے رب اور نبی كے بارے میں كیا خیال ہوتا ہے؟ انہوں نے كہا: اللہ ہمارا رب ہے ، آپ ہمارے نبی ہیں ظاہر اور پوشیدہ ۔آپ نے فرمایا: یہ نفاق نہیں۔( )
ابو درداء رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں بارش كا قحط پڑ گیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست كی كہ آپ ہمارےلئے بارش کی دعاكریں۔ ( آپ نے ہمارے لئے پانی مانگا) دوسرے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو لوگ آپس میں باتیں كر رہے تھے كہ فلاں فلاں ستارے كی وجہ سے پانی دیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب بھی كسی قوم پر كوئی احسان كرتا ہے تو دوسرے دن وہ اس كا انكار كرنے لگتے ہیں۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ ہم ایك غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ تھے۔ ایك مہاجر نے ایك انصاری كی سرین پرتھپڑ مارا۔ انصاری نے كہا: اے انصاریو! اور مہاجر نے كہا: اے ماےجرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جاہلیت کی پکار کیوں لگا رہے ہو؟ لوگوں نے كہا: اے اللہ كے رسول ایك مہاجر نے ایك انصاری كی سرین پر تھپڑ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے (عصبیت کو) چھوڑ دو، كیونكہ یہ بدبودار ہے(جابر كہتے ہیں كہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاری زیادہ تھے۔ پھر بعد میں مہاجر زیادہ ہو گئے)۔ عبداللہ بن ابی نے اس بات کو بڑھاوا دیا یا شہرت دی: انہوں نے ایسا كام كیا ہے اگر ہم مدینے واپس پہنچے تو عزت دار ذلت والے كو نكال دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے كہا: مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق كی گردن اڑاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو كہیں لوگ یہ نہ كہیں كہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں كو قتل كرتا ہے۔( )
اسود بن سریع سے مروی ہے كہتے ہیں كہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور ان كے ساتھ مل كر جہاد كیا۔مجھے ایک سواری ہاتھ آئی۔لوگوں نے اس دن خوب قتل و غارت گری کی حتی كہ انہوں نے بچوں كو بھی قتل كیا۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تك پہنچی تو آپ نے فرمایا: لوگوں كو كیا ہو گیا ہے؟ آج قتل میں حد سے گزر گئے حتی کہ بچوں تک کو قتل کردیا ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول وہ تو مشركین كی اولاد تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار تمہارے بہترین لوگ مشركین كے بچے ہیں۔ پھر فرمایا: خبردار! بچوں كو قتل نہ كرو، خبردار! بچوں كو قتل نہ كرو۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے ، جب تك وہ بولنا نہ سیكھ لے۔ پھر اس كے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت میں سے میرے متعلق جو بھی سنتا ہے چاہے یہودی ہو یا عیسائی، پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ آگ میں داخل ہوگا۔( )
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: جو بھی شخص یہ گواہی دیتےہوئےمرتا ہےكہ اللہ كے علاوہ كوئی معبودِ برحق نہیں اور میں (محمد) اللہ كا رسول ہوں۔ اور یہ بات پختہ یقین كے ساتھ كہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔( )
ابو رزین اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مرفوعا مروی ہے كہ: مومن كی مثال كھجور كے درخت كی طرح ہے ۔جو صرف پاكیزہ كھاتا ہے اور پاكیزہ پھل دیتا ہے۔( )
عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں كہتے ہیں كہ ایك دن ہم مقداد بن اسود كے پاس بیٹھے تھے۔ ایك آدمی گزرا تو اس نے كہا: ان دو آنكھوں كےلئے خوشخبری ہو جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو دیكھا، اللہ كی قسم ہماری خواہش ہے كہ ہم نے بھی وہ دیکھا ہوتا جو آپ نے دیکھا اور ہم بھی وہاں موجود ہوتے جہاں آپ موجود تھے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ غصے ہوگئے۔میں تعجب کرنے لگا کہ اس شخص نے تو اچھی بات کہی ہے ،پھر اس كی طرف متوجہ ہوئےاور كہا: اس آدمی كو كس بات نے مجبور كیا كہ یہ اس دور میں حاضر ہونے كی تمنا كرے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے بعد میں پیدا كیا؟ اسے نہیں معلوم كہ اگر یہ اس وقت موجود ہوتا تو اس كے ساتھ كیا صورتحال ہوتی؟ اللہ كی قسم رسول! اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں ایسے لوگ موجود تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے منہ كے بل جہنم میں پھینك دیا۔ نہ انہوں نے اسلام قبول كیا اور نہ آپ كی تصدیق كی۔ كیا تم اللہ كی حمد بیان نہیں كرتے كہ تمہیں اس وقت پیدا كیا جب تم صرف اپنے رب كو پہچانتے ہو ، جو تمہارا نبی لایا اس كی تصدیق كرنے والے ہو، تمہارے علاوہ دوسرے لوگوں كو آزمائش میں مبتلا كیا گیا ۔ اللہ كی قسم اللہ تعالیٰ نے جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو مبعوث كیا تو وہ صورتحال اس سے بھی زیادہ سخت تھی جو كسی نبی كو درپیش ہوئی یا آپ دور جاہلیت میں اور اس وقفے میں مبعوث ہو جس میں انبیاء کا سسلہ موقوف تھا۔ وہ بتوں کی عبادت سے بڑھ کر کسی دین کو افضل خیال نہیں کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (قرآن) فرقان نازل كیا اور اس كے ذریعے حق وباطل كے درمیان فرق كیا۔ والد اور اس كے بچے كے درمیان فرق كیا، حتی كہ صورتحال ایسی ہو گئی كہ جس شخص كے دل كا تالا اللہ تعالیٰ نے ایمان كے لئے كھول دیا تھا وہ اگر اپنے باپ بیٹے یا بھائی كو دیكھتا كہ یہ كافر ہے تو اسے معلوم ہو جاتا كہ اگر یہ ہلاك ہو گیا تو آگ میں داخل ہوگا۔ جب اسے معلوم ہو جاتا كہ اس كا پیارا جہنم میں جائے گا تو اس كی آنكھوں كا قرار ختم ہو جاتا۔ یہ وہی حالت ہے جس كے متعلق اللہ عزوجل نے فرمایا:وہ لوگ جو دعا كرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنكھوں كی ٹھنڈك عطا فرما۔( )
یزید بن مہلب جب خراسان كا والی بنا تو كہنے لگا: مجھے اس شخص كے بارے میں بتاؤ جس كی تمام عادتیں بھلائی پر مبنی ہوں۔ انہیں ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ كے متعلق بتایا گیا۔ جب وہ ان كے پاس آیا تو انہیں ایك لائق شخص پایا۔جب ان سے گفتگو كی تو انہیں ان كی ظاہری شخصیت سے زیادہ ذہین پایا۔ یزید نے كہا: میں تمہیں اپنے فلاں فلاں كام كا نگران بناتا ہوں۔ انہوں نے معذرت طلب كی لیكن یزید نہ مانا، ابو بردہ كہنے لگے: امیر صاحب كیا میں آپ كو ایسی بات نہ بتاؤں جو مجھے میرے والد نے بتائی ہے؟ کہا بتاؤ، کہا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جو شخص كسی كام كا نگران بنا اور اسے معلوم ہو كہ وہ اس كا اہل نہیں تو وہ اپنا ٹھكانہ جہنم میں بنالے۔ اور امیرِ محترم میں گواہی دیتا ہوں كہ جس كام كا آپ نے مجھے كہا ہے میں اس كا اہل نہیں یزید نے ان سے كہا: آپ نے تو ہمیں اپنی طرف زیادہ متوجہ كر لیا ہے اور ہماری دل چسپی آپ میں بڑھ گئی ہے۔ اپنے كام كی طرف نكلئے میں آپ كی معذرت قبول نہیں كروں گا۔وہ چلے گئے پھر جب تك اللہ نے چاہا وہ وہاں مقیم رہے۔ پھر اس سے ملنے كے اجازت طلب كی انہوں نے اجازت دے دی۔ ابو بردہ كہنے لگے: امیر محترم كیا میں آپ كو ایسی حدیث نہ سناؤں جو میرے والد نے مجھے بیان كی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ یزید نے كہا: سناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ملعون ہے وہ شخص جس سے( اللہ كے )نام پر سوال كیا گیا اور ملعون ہے وہ شخص جس سے اللہ كے نام پر سوال كیا جاتا ہےپھر سوال كرنے والے كو روك دے،جو اس سے چمٹ کرسوال نہیں کرتااور میں تم سے اللہ كے نام پر سوال كرتا ہوں كہ امیر محترم میرا استعفیٰ قبول كریں۔ تب یزید نے ان كا استعفیٰ قبول كر لیا۔( )