جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص كاہن كے پاس آیا اور اس كی بات كی تصدیق كی اس نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ (شریعت) كا انكار كیا۔( )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول جاہلیت میں ہم نے جو عمل كئے كیا ان كی وجہ سے ہمارا مواخذہ كیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام لانے كے بعد نیك اعمال كئے اس كا جاہلیت میں كئے گئے اعمال كی وجہ سے مواخذہ نہیں كیا جائے گا ، اور جس نے اسلام لانے كے بعد بھی روش تبدیل نہ كی اسے پہلے اور بعد كے گناہوں كی وجہ سے پكڑا جائے گا۔( )
ابو ذر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے باقی ماندہ زندگی میں نیك عمل كئے تو اس كی گذشتہ زندگی كے گناہ معاف كر دئے جائیں گے۔ اور جس نے باقی ماندہ زندگی میں برے عمل كئے اسے گزشتہ زندگی اور باقی ماندہ زندگی كے گناہوں میں جكڑ لیا جائے گا۔( )
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اونٹنی كے ساتھ كھڑا تھا۔ آپ نے اچھی باتیں كہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اہل كتاب میں سے جو اسلام لے آیا اس كے لئے دو گنا اجر ہے اور اس كے لئے وہی كچھ ہے جو ہمارے لئے ہے اور اس پر وہی ذمہ داری ہے جو ہم پر ہے۔ اور مشركین میں سے جو مسلمان ہوا اس كے لئے اس كا اجر ہے۔ اس كے لئے وہی كچھ ہے جو ہمارے لئے ہے اور اس كے ذمے وہی كچھ ہے جو ہمارے ذمے ہے۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ جس شخص نے ہدایت كی طرف بلایا اس شخص كے لئے ان لوگوں كے اجر كے برابر اجر ہوگا جنہوں نے اس كی پیروی كی، ان كے اجر میں سے كوئی چیز كم نہیں كی جائے گی۔ اور جس شخص نے گمراہی كی طرف بلایا اس پر ان لوگوں كے گناہوں كے برابر گناہ ہو گا جنہوں نے اس كی پیروی كی، ان كے گناہوں سے كچھ كم نہیں ہوگا۔( )
) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے كسی تكلیف میں مبتلا شخص كو دیكھا اور یہ کلمات كہے: الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلا.”تمام تعریفات اس اللہ كے لئے جس نے مجھے اس تكلیف سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا كیا، اور مجھے بہت ساری مخلوق پر فضیلت دی“۔ تو اسے وہ مصیبت نہیں پہنچے گی۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ بات پسند ہو كہ وہ ایمان كا ذائقہ محسوس كرے تو كسی بھی شخص سےاللہ كے لئے محبت كرے۔( )
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ جس شخص نے لوگوں میں اپنے عمل كی تشہیر كی اللہ تعالیٰ اسے بھی قیامت كے دن اپنی مخلوق كے سامنے مشہور كر دے گا۔ اور اسے حقیرو ذلیل كرے گا۔( )
انس بن مالك رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے طریقے پر نماز پڑھی، ہمارے قبلے كی طرف رخ كیا، ہمارا ذبیحہ كھایا، تو یہ وہی مسلمان ہے جس كے لئے اللہ اور اس كے رسول كا ذمہ ہے۔ اس لئے تم اللہ كے ذمے كو نہ توڑو۔( )
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملا كہ نہ تو اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کیااور نہ حرام خون بہایا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔( )
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملا كہ اللہ كے ساتھ كسی كوشریك نہیں كرتا تھا، پانچ نمازیں پڑھتا، رمضان كے روزے ركھتاتھا، اسے بخش دیا جائے گا۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول كیا میں انہیں خوشخبری نہ دے دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو (یہ) عمل كرتے رہیں۔( )
ابو مالك اشجعی اپنے والد(طارق بن اشیم)سے مرفوعا بیان كرتے ہیں كہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ كو ایك سمجھا اور اللہ كے علاوہ دوسرے معبودوں كا انكار كیا اس كا مال اور خون حرام ہے اور اس كا حساب اللہ عزوجل كے ذمے ہوگا۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن مومن كا آئینہ ہے اور مومن مومن كا بھائی ہے۔ اس كے مال كی حفاظت كرتا ہے اور اسے تحفظ دیتا ہے۔( )
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ اہل ایمان میں سے مومنین سر اور جسم كی مانند ہیں۔ اہل ایمان كو جو تكلیف پہنچتی ہے، مومن بھی وہ تكلیف محسوس كرتا ہے۔ جس طرح جسم میں تكلیف ہوتی ہے تو سر بھی وہ تكلیف محسوس كرتا ہے۔( )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر خود ظلم کرتا ہےاور نہ اسے کسی کے سپرد کرتا ہے،اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں لگا رہتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی ضرورت (پوری کرنے میں )لگا رہتا ہے،اورجس شخص نے کسی مسلمان سے کسی تکلیف کو دور کیااللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکالیف میں سے کسی تکلیف کو دور کردے گا۔اورجس شخص نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔( )
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں ،اگر آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے توسارابدن تکلیف محسوس کرتا ہےاور اگر سر میں تکلیف ہوتی ہےتو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے كہا: ایمان کا کونسا گوشہ۔ میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ قابل بھروسہ ہے؟ ابو ذرنے كہا: اللہ اور اس كا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ كے لئے دوستی اور اللہ كے لئے دشمنی اللہ كے لئے محبت اور اللہ كے لئے نفرت کرنا۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے كہا: ایمان كا كونسا كڑا مضبوط ہے؟ ابو ذرنے كہا: اللہ اور اس كا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ كے لئے دوستی اور اللہ كے لئے دشمنی اللہ كے لئے محبت اور اللہ كے لئے نفرت۔( )
ابن زرارہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانے میں اللہ كی تقدیر كو جھٹلانے والوں كے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (القمر۴۸:۴۹) ترجمہ :(اوران گناہ گاروں سےکہاجائےگا)دوزخ کی آگ لگنےکےمزےچکھو۔بےشک ہم نےہرچیز کو ایک مقررہ اندازے پر پیدا کیا ہے۔( )
ابان بن عثمان سے مروی ہے كہ زید بن ثابت مروان كے پاس سےتقریباً نصف النہار كے وقت باہر نكلے۔انہیں اس وقت کچھ پوچھنے کے لئےہی بلایا گیا ہوگا۔ میں ان کی طرف بڑھا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس نے مجھ سے کچھ ایسی باتیں پوچھیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے : اللہ تعالیٰ اس شخص كو تروتازہ ركھے جس نے ہم سے كوئی بات سنی اسے یاد كیا اور اسے دوسرے تك پہنچایا۔ كیوں كہ كچھ سننے والے لوگ فقیہ نہیں ہوتے اور كچھ فقیہ لوگ ایسے شخص تك بات پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔ تین عادتیں ایسی ہیں جن پر كسی مسلمان كا دل كبھی دھوكہ نہیں كرتا: اللہ تعالیٰ كے لئے خالص عمل كرنا، امراء كی خیر خواہی كرنا، اور جماعت كے ساتھ چمٹے رہنا۔ كیوں كہ ان کو دعوت پچھلے لوگوں کا بھی احاطہ کرلیتی ہے۔ اور فرمایا:جس شخص كا غم آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس كے بكھرے كام جمع كر دیتا ہے اور اس كے دل میں غنا(بے پروائی)ركھ دیتا ہے۔ اور دنیا ذلیل ہو كر اس كے پاس آتی ہے، اور جس شخص كا مقصد دنیا كمانا ہو اللہ تعالیٰ اس كے كام بكھیر دیتا ہے، اور اس كی آنكھوں كے درمیان فقیری (محتاجی)ركھ دیتا ہے اور دنیا اسے اتنی ہی حاصل ہوتی ہے جتنی اس كے مقدر میں لكھی جاچكی ہو۔( )
عبید بن رفاعہ زرقی سے مروی ہے كہ اسماء بنت عمیس نے كہا:اے اللہ كے رسول جعفر كے بچوں كوجلدی نظر لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لئے کوئی دم سیکھ لوں یا ان کو دم کروا لیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ٹھیك ہے اگر كوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جاتی تو نظر اس سے سبقت لے جاتی۔( )
خریم بن فاتك اسدیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ چار قسم كے ہیں اور اعمال چھ قسم كے۔ لوگوں میں ایك جسے دنیا وآخرت میں فراخی دی گئی، دوسرا وہ جسے دنیا میں فراخی اور آخرت میں محتاجی دی گئی، تیسرا وہ جسے دنیا میں محتاجی اور آخرت میں فراخی دی گئی، چوتھا وہ جو دنیا وآخرت میں بد بخت ہے، اور اعمال (١) اور (٢) واجب كرنے والے ہیں، (٣) اور (٤) برابر برابر ہیں، پانچواں دس گنا اور چھٹا سات سو گنا تك۔ ١ اور ٢: جو واجب كرنے والے ہیں،وہ یہ ہیں كہ جومسلمان شخص ایمان كی حالت میں مرا اور اس نے اللہ كے ساتھ شرك نہیں كیا اس كے لئے جنت واجب ہوگئی، اور جو شخص كفر كی حالت میں مرا اس كے لئے آگ واجب ہوگئی۔ ٣ اور ٤: جس شخص نے نیكی كا ارادہ كیا اور نیكی نہیں كی اور اللہ تعالیٰ كو معلوم ہے كہ اس نے دل میں ارادہ كیا تھا اور عمل كرنے پر حریص تھا، اس كے لئے ایك نیكی لكھ دی گئی، اور جس شخص نے كسی برائی كا ارادہ كیا وہ لكھی نہیں جائے گی، اور جس شخص نے برائی كر لی اس كے لئے ایك ہی لكھی جائے گی، اس سے زیادہ نہیں۔٥: جس شخص نے كوئی نیكی كی وہ دس گنا تك ہے۔٦: اور جس شخص نے اللہ كے راستے میں كوئی چیز خرچ كی اس كے لئے سات سو گنا تك ہے۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہتے ہیں كہ بنو عامر كا ایك شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پا س آیا ۔ وہ علاج معالجہ كرتا تھا،كہنے لگا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )آپ كچھ عجیب سی باتیں كرتے ہیں،كہیں تو میں آپ كا علاج كروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ كی طرف دعوت دی پھر فرمایا: كیا تم كوئی نشانی دیكھنا چاہتے ہو؟ اس كے پاس كھجور كا ایك درخت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس كی ایك شاخ كو بلایا تو اس كا رخ آپ كی طرف ہو گیا، وہ آپ كو سجدہ كرتا اور اپنا سر اٹھاتا ہوا آپ كے پاس پہنچ گیا اورآپ كے سامنے كھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے كہا:اپنی جگہ واپس چلے جاؤ، وہ اپنی جگہ لوٹ گیا، عامری نے كہا: واللہ میں كبھی بھی آپ كی بات كو نہیں جھٹلاؤں گا ،پھر كہنے لگا: اے آل بنی صعصعہ واللہ میں ان کی کسی بات كو كبھی بھی نہیں جھٹلاؤں گا۔( )
ابو صالح سے مروی ہے كہ میں نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے اس آیت كے بارے میں سوال كیا گیا :﴿(يونس۶۳) وہ لوگ جو ایمان لائے اور پرہیز گاربنے ان كے لئے دنیا كی زندگی میں خوشخبری ہے“۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ نے كہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا ہے تمہارے علاوہ مجھ سے كسی نےیہ سوال نہیں كیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے اس کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا، یہ نیك خواب ہے جو بندہ دیكھتا ہے یا اسے دكھایا جاتا ہے۔( )