آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور كہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب تك چاہو زندہ رہو، بالآخر آپ نے مرنا ہے۔ جسے چاہیں پسند كر لیں بالآخر اس سے جدا ہونا ہے، جو چاہو عمل كرو كیوں كہ تمہیں اس كا بدلہ دیا جانا ہے۔ جان لیجئے كہ مومن كا شرف اس كا رات كا قیام ہے، اور اس كی عزت لوگوں سے مستغنی ہونے میں ہے۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو مفلس كون ہے؟ صحابہ نے كہا: ہم میں مفلس وہ ہےجس كے پاس نہ درہم ہے نہ دینار نہ كوئی سازو سامان ۔ آ پ نے فرمایا: میری امت كا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت كے دن نماز، روزہ اور زكاۃ لے كر آئے گا ۔ ایک شخص آئے گا جسے اس نے گالی دی ہوگی، كسی پر تہمت لگائی ہو گی، كسی كا مال كھایا ہوگا، كسی كا خون بہایا ہوگا، كسی كو مارا ہوگا، اس شخص كی نیكیوں میں سے اُسے بھی دے دیا جائے گا اور اِسے بھی دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمہ لوگوں کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس كی نیكیاں ختم ہو گئیں تو ان كے گناہ اٹھا كر اس شخص پر لاد دیئے جائیں گے، پھر اسے آگ میں پھینك دیا جائے گا۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تك میں تمہیں كچھ نہ بتاؤں مجھے چھوڑےركھو اور جب تمہیں كوئی بات بتاؤں تو اسے اچھی طرح یاد كر لو، كیوں كہ تم سے پہلے لوگ كثرتِ سوال اور اپنے انبیاءسے اختلاف كی بناءپر ہلاك ہوئے۔( )
ابن طاؤس اپنے والد سے بیان كرتے ہیں ۔انہوں نے كہا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادہ بن صامت كو زكاۃ كا نگران بنایا، پھران سے كہا: ابوولید! اللہ سےڈرتےرہوكہیں ایسا نہ ہو کہ تم قیامت كےدن كوئی اونٹ اپنی گردن پراٹھاكرلاؤجوبلبلارہاہواوركوئی گائےاٹھاكرلاؤ جوڈکاررہی ہویا كوئی بكری اٹھا كر لاؤ جو منمنا رہی ہو۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظلم سے بچو ،كیوں كہ ظلم قیامت كے دن اندھیروں كا سبب ہوگا، اور بخیلی سے بچو كیوں كہ بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں كو ہلاك كر دیا، بخیلی نے انہیں اس بات پر ابھارا كہ وہ لوگوں كا خون بہائیں اور ان كی حرام چیزوں کو حلال سمجھ لیں
سہل بن ابی حثمہ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ منبر پر فرما رہے تھے : سات كبیرہ گناہوں سےبچو، لوگ خاموش رہے كوئی شخص نہ بولا۔ آپ نے فرمایا: كیا تم مجھ سے ان كے بارے سوال نہیں كرو گے؟ اللہ كے ساتھ شرك کرنا،كسی جان كو قتل كرنا، مقابلے سے فرارہونا، یتیم كا مال كھانا، سود كھانا، پاكدامن عورت پر تہمت لگانا اور ہجرت كے بعد واپس چلے جانا۔( )
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اپنے اور حرام كےدرمیان حلال كا پردہ حائل كر لو، جس شخص نے ایسا كام كیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچالی، اور جو شخص حرام میں پڑ گیا تو گویا تو وہ گویا اس شخص کی مانند ہے (جو اپنے جانوروں کو کسی ممنوعہ) چراگاہ کے قریب چلا رہا ہے۔( )
) ابو راشد حبرانی سے مروی ہے انہوں نے كہا: ابو امامہ باہلی نے میرا ہاتھ پكڑا اور كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پكڑا اور مجھ سےكہا: ابو امامہ مومنین میں سے ایسے بھی ہیں جس كا دل میرے لئے نرم ہو تا ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : جب اللہ تعالیٰ كسی بندے سے بھلائی كا ارادہ كرتا ہے تو دنیا میں اسے جلدی سزا دے دیتا ہے۔ اورجب اللہ تعالیٰ كسی بندے سے برائی كا ارادہ كرتا ہے تو اس كے گناہ اس پر روك كر ركھتا ہے حتی كہ قیامت كے دن اسے پوری سزا دےگا۔( )
عمرو بن حمق خزاعی سے مرفوعا مروی ہے : جب اللہ تعالیٰ كسی بندے سے بھلائی كا ارادہ كرتا ہے تو اسے محبوب بنا دیتا ہے۔ پوچھا گیا : یہ عسل سے كیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: اس كی موت سے پہلے اس كے لئے نیك اعمال كا دروازہ كھول دیا جاتا ہے ۔ حتی كہ اس كے ارد گرد كے لوگ اس سے راضی ہو۔( )
عیزار بن جرول حضرمی سے مروی ہے انہوں نے كہا: ہم میں ایك آدمی تھا جسے ابو عمیر كہا جاتا تھا، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كا بھائی بنا ہوا تھا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اس كے پاس اس كے گھر میں آتے، ایك مرتبہ وہ آئے تو وہ گھر میں موجود نہیں تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ ان كی بیوی كے پاس آئے۔ وہ ان كے پاس بیٹھے تھے كہ اس نے اپنی لونڈی كو كسی كام سے بھیجا ۔ اس نے دیر كر دی تو وہ كہنے لگیں: اس نے دیر كر دی اللہ اس پر لعنت كرے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ وہاں سے اٹھ كر دروازے كے پاس بیٹھ گئے۔ كچھ دیر بعد ابو عمیر آئے تو انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے كہا: كیا آپ بھائی كے گھر والوں کے پاس نہیں گئے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے كہا: میں نے ایسا كیا تھا، لیكن اس نے اپنی لونڈی كو كسی كام سے بھیجا، اس نے دیر كر دی تو اس نے اس پر لعنت بھیجی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جب لعنت كسی كے منہ سے نكلتی ہے تو وہ دیكھتی رہتی ہے، تو جس پر لعنت کی گئی ہے وہ اس کا مستحق ہو تو وگرنہ اس شخص کی طرف لوٹ آتی ہے جس كے منہ سے نكلی ہوتی ہے اور مجھے یہ بات نا پسند لگی كہ میں لعنت كا راستہ بنوں۔( )
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : جب تم اللہ كو دیكھو كہ وہ بندے كو اس كے گناہوں كے باوجود دنیا سے دے رہا ہے تو سمجھ لو كہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت نہیں كرتا، كیوں كہ یہ اس كے لئے ڈھیل ہے، پھر یہ آیت تلاوت كی: ﴿الانعام:۴۴﴾ ترجمہ: پھر جو لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملیں تھیں، وہ خوب اترا گئے، ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔( )
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہتے ہیں كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ،اچانك لوگ فتنے كا ذكركرنے لگے۔ یا آپ كے پاس فتنے كا ذكر ہوا تو آپ نے فرمایا: جب تم لوگوں كو دیكھو كہ وہ اپنے وعدوں كی پاسداری نہیں كر رہے، اور امانتوں كے بوجھ كو ہلكا سمجھا جانے لگا ہے، اور وہ اس طرح ہوں : آپ نے انگلیاں ایك دوسرے میں داخل كیں، میں آپ كی طرف آیا اور آپ سے كہا: اس وقت میں كیا كروں؟ اللہ مجھے آپ پر قربان كرے۔ آپ نے فرمایا: اپنے گھر كو لازم كرلو، اپنی زبان روكے ركھو، نیكی كو اختیار كرو اور برائی كو چھوڑ دو، اپنا خاص معاملہ (ضروری)سمجھو اور عام لوگوں کے معاملات چھوڑدو۔( )
) ابو ذر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول مجھے نصیحت كیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے كوئی برائی ہوجائے تواس كے بعد كوئی نیكی كرو جو اسے مٹا دے۔میں نے كہا:اے اللہ كے رسول ! كیا”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ“ كہنا بھی نیكی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ تو افضل نیكی ہے۔( )
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ: اگر چار عادتیں تم میں موجود ہیں تو دنیا سے اگر تمہیں كچھ بھی نہ ملے تو كوئی حرج نہیں۔امانت كی حفاظت، سچ بولنا، اچھا اخلاق اور پاكیزہ حلال لقمہ۔( )
انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ ساری عمر نیكی كرتے رہو، اور اللہ كی رحمت کی عطیوں کے منتظر رہو كیونكہ اللہ اپنی رحمت کے عطیات اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ سے سوال كرو كہ وہ تمہارے عیوب پر پردہ ڈالے اور تمہاری گھبراہٹوں میں تمہیں امن دے۔( )
) ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھ چیزوں كی ضمانت دو میں تمہیں جنت كی ضمانت دیتا ہوں۔جب تم میں سے كوئی شخص بات كرے تو جھوٹ مت بولے، اور جب اس كے پاس امانت ركھی جائے تو خیانت نہ كرے، اور جب وعدہ كرے تو وعدہ خلافی نہ كرے، اپنی نگاہیں نیچی ركھو، اپنے ہاتھ روكے ركھو، اور اپنی شرمگاہوں كی حفاظت كرو۔( )
انسرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كیا میں تمہیں تمہارے بہترین لوگوں كے بارے میں نہ بتاؤں ؟،(وہ لوگ بہترین ہیں) جن كی عمریں طویل ہوں اور سیدھے راستے پر ہوں ۔
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی): اللهمّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحشرنِي فِي زَمْرَة الْمَسَاكِين، اے اللہ مجھے مسكینی كی حالت میں زندہ ركھ ، اور مسكینی كی حالت میں فوت كر ، اور مجھےمساكین كے گروہ میں جمع كر۔( )
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو آہستہ نہیں بلند آواز سے فرماتے سنا کہ: ابو فلاں كی آل والے میرے دوست نہیں،میرا دوست تو اللہ اور نیك مومنین ہیں۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول اللہ تعالیٰ جب كسی علاقے والوں پر اپنا عذاب نازل كرتا ہے اور ان میں نیك لوگ بھی ہوں تو كیا انہیں بھی ان كے ساتھ ہلاك كر دیا جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اپنے دشمنوں پر عذاب نازل كرتا ہے اور ان میں نیك لوگ بھی ہوں تو انہیں بھی ان كے ساتھ ہلاك كر دیا جاتا ہے۔ پھر انہیں ان كی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔( )
بنو سلیم كے ایك شخص سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے كو مال دےکر آزماتا ہے۔ جو شخص اپنے لئے اللہ كی تقسیم پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس كے لئے اس مال میں بركت فرمادیتا ہے اور كشادگی كردیتا ہے اور جو شخص راضی نہیں ہوتا اس كے لئے اس كے مال میں بركت نہیں دی جاتی۔( )
) ابو امامہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: آپ كا اس شخص كے بارے میں كیا خیال ہے جو اجر اور شہرت كی نیت سے جہاد كرتا ہے، اس كے لئے كیااجر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس كے لئے كوئی اجرنہیں۔ اس شخص نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے كہتے رہے اس كے لئے كوئی چیز نہیں۔ پھر فرمایا: اللہ عزوجل ایسا عمل قبول كرتاہے جو صرف اس كے لئے خالص ہوتا ہے اور جس كے ذریعے اس كی خوشنودی تلاش كی جائے۔( )
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم میری عبادت كے لئے فارغ ہو جا، میں تیرے دل كو غنیٰ سے بھر دوں گا، تیری محتاجی دور كر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ كیا تو تجھے مصروفیت میں پھنسا دوں گا اور تیری محتاجی بھی دور نہیں كروں گا ۔ ( )
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ :قیامت كے دن بندے كا سب سے پہلے یہ حساب ہو گا كہ اس سے كہا جائے گا ،كیا میں نےتمہیں تندرستی عطا نہیں كی تھی، اور تمہیں ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں كیا تھا؟( )
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: قیامت كے دن میرے دوست متقی لوگ ہوں گے ۔ اگرچہ نسب کے اعتبار سے کوئی میرے زیادہ قریب ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس (نیک) اعمال لے کر آئیں اور تم میرے پاس اپنی گردنوں پر دنیا اٹھائے ہوئے آؤ۔ اور كہہ رہے ہو گے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور میں اس طرح اس طرح كروں كہ نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے كاندھے دونوں طرف موڑیے۔( )
ابو درداءرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے ایك گہری كھائی ہے، اس سے وہی بچ سکتا ہے جس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو۔ ( )
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (کچھ لوگوں کا) ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اتنی عبادت کریں گے کہ لوگ اور وہ خود بھی اپنی عبادت سے متعجب ہوں گے۔ (لیکن) وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسا تیر شکار کے (جسم سے پار) نکل جاتا ہے۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے كوئی گناہ كیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور اس سے توبہ كرو، كیونكہ گناہ سے توبہ ندامت اور استغفار ہے۔