فَرَطَ یَفْرُطُ (ن) کے معنی قَصْدًا آگے بڑھ جانے کے ہیں۔ اسی سے فَارِطٌ ہے جس کے معنی ڈول وغیرہ درست کرنے کے لیے قافلہ سے پہلے پانی پر جانے والا کے ہیں اور اسے فَرَطَ بھی کہا جاتا ہے اسی سے آنحضرت نے فرمایا: (1) (۶۸) (اَنَا فَطَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ) میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ اور چھوٹے بچے پر جنازہ کی دعا میں کہا جاتا ہے۔(2) (۶۹) اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا اے اﷲ! اسے ہمارے لیے میر سامان بنا۔ اور آیت کریمہ: (اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ ) (۲۰:۴۵) کہ وہ کہیں ہم سے زیادتی نہ کرے۔ فَرَسٌ فَرَطٌ: تیز رفتار گھوڑا جو دوسرے گھوڑو ں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے۔ اَلْاِفْرَاطُ کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرجانے کے ہیں(3) اور تَفْرِیْطٌ کے معنی فرط یعنی تقدم میں کوتاہی کرنے کے ہیں چنانچہ محاورہ ہے: مَافَرَّطْتُّ فِیْ کَذَا: میں نے فلاں معاملہ میں کوتاہی نہیں کی۔ قرآن پاک میں ہے: (مَا فَرَّطۡنَا فِی الۡکِتٰبِ ) (۶:۳۸) ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ میں ) کسی چیز (کے لکھنے) میں کوتاہی نہیں کی۔ (مَا فَرَّطۡتُّ فِیۡ جَنۡۢبِ اللّٰہِ ) (۳۹:۵۶) اس تقصیر پر (افسوس ہے) جو میں نے خدا کے حق میں کی۔ (مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ) (۱۲:۸۰) تم یوسفؑ کے بارے میں قصور کرچکے ہو۔ اَطْرَطْتُّ الْقِرْبَۃَ: مشکیزہ کو پانی سے خوب بھردیا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا) (۱۸:۲۸) اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا۔ یعنی افراط تفریط میں حد سے بڑھا ہوا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
فَرَّطْتُّ | سورة الزمر(39) | 56 |
فَرَّطْتُّمْ | سورة يوسف(12) | 80 |
فَرَّطْنَا | سورة الأنعام(6) | 31 |
فَرَّطْنَا | سورة الأنعام(6) | 38 |
فُرُطًا | سورة الكهف(18) | 28 |
مُّفْرَطُوْنَ | سورة النحل(16) | 62 |
يُفَرِّطُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 61 |
يَّفْرُطَ | سورة طه(20) | 45 |