Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت کے قیامت کے قریب ہونے کا بیان

1247 Hadiths Found
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میدانِ عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے، جب سورج غروب کے وقت ڈھا ل کی مانندہو کر نظر آنے لگا تو وہ رونے لگ گئے اور بہت زیادہ روئے، ان کے قریب کھڑے ایک آدمی نے کہا : اے ابو عبدالرحمن! آپ نے میرے ساتھ کئی بار وقوف کیا ہے، لیکن آپ نے کبھی بھی ایسے تو نہیں کیا تھا۔ انھوں نے کہا:مجھے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یاد آ گئے ہیں، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہیں میری جگہ کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا : لوگو! دنیا کی گزری ہوئی مدت کے مقابلے میں بقیہ زمانے کی وہی نسبت ہے جو آج کے گزرے ہوئے دن کے ساتھ اس باقی وقت کی ہے۔

Haidth Number: 12784

۔ (۱۲۷۸۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ ذِئْبٌ اِلٰی رَاعِیْ الْغَنَمِ فَاَخَذَ مِنْہَا شَاۃً فَطَلَبَہٗالرَّاعِیْ حَتّٰی اِنْتَزَعَہَا مِنْہُ قَالَ: فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلٰی تَلٍّ فَاَقْعٰی وَاسْتَذْفَرَ فَقَالَ: عَمِدْتُّ اِلٰی رِزْقٍ رَزَقَنِیْہِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنْتَزَعْتَہُ مِنِّی، فَقَال الرَّجُلُ: تَاللّٰہِ! اِنْ رَاَیْتُ کَالْیَوْمِ ذِئْبًا یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ الذِّئْبُ: اَعْجَبُ مِنْ ہٰذَا رَجُلٌ فِی النَّخَلَاتِ بَیْنَ الْحَرَّتَیْنِیُخْبِرُکُمْ بِمَا مَضٰی وَبِمَا ھُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ وَکَانَ الرَّجُلُ یَہُوْدِیًّا، فَجَائَ الرَّجُلُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَبَّرَہُ: فَصَدَّقَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہَا اَمَارَۃٌ مِنْ اَمَارَاتِ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ قَدْ اَوْشَکَ الرَّجُلُ اَنْ یَّخْرُ جَ فَلَا یَرْجِعَحَتّٰی تُحَدِّثَہُ نَعْلَاہُ وَسَوْطُہُ مَا اَحْدَثَ اَھْلُہُ بَعْدَہُ۔)) (مسند احمد:۸۰۴۹ )

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: ایک بھیڑیا ایک چرواہے کی طرف آیا اور اس کے ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کرلے گیا، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری کو چھڑالیا۔ بھیڑیا ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اگلی ٹانگیں کھڑی کر کے سرین پر بیٹھ کر کہنے لگا:میں نے ایسے رزق کا قصد کیا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا تھا، لیکن تو نے مجھ سے وہ چھین لیا، وہ چراوہا کہنے لگا: میں نے آج تلک ایسا منظر نہیں دیکھا کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہو، یہ سن کربھیڑئیے نے کہا: تم میری بات سن کر تعجب کر رہے ہو، اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ دو حرّوں کے مابین کھجوروں کے باغات میںایک ایسا شخص ہے، جو انسانوں کو ماضی اور مستقبل کی باتیں بتلاتا ہے، وہ چرواہا یہودی تھا، جب اس نے آکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارا واقعہ سنایا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا: جانوروں کا انسانوں کی طرح باتیں کرنابھی علاماتِ قیامت میں سے ہے اور عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان اپنے گھر سے باہر جا ئے گا تو اس کے اہل خانہ نے اس کی عدم موجودگی میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور چھڑی اسے سب کچھ بتلا دیں گے۔

Haidth Number: 12785

۔ (۱۲۷۸۶)۔ وَعَنِ الْحَسَنِ قَالَ: اَخْبَرَنِیْ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِہٖ فَجَائَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ: ((اَمَا اِنَّہَا قَائِمَۃٌ فَمَا اَعْدَدْتَّ لَھَا؟)) قَالَ: وَاللّٰہِ! یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا مِنْ کَثِیْرِ عَمَلٍ غَیْرَ اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ قَالَ: ((فَاِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلَکَ مَا احْتَسَبْتَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَہُ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَۃ؟)) فَاُتِیَ بِالرَّجُلِ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی الْبَیْتِ فَاِذَا غُلَامٌ مِنْ دَوْسٍ مِنْ رَھْطِ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَیُقَالُ لَہٗسَعْدُبْنُمَالِکٍفَقَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰذَا الْغُلَامُ اِنْ طَالَ بِہٖعُمُرُہُلَمْیَبْلُغْ بِہِ الْھَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔)) قَالَ الْحَسَنُ: وَاَخْبَرَنِیْ اَنَسٌ اَنَّ الْغُلَامَ کَانَ یَوْ مَئِذٍ مِنْ اَقْرَانِیْ۔ (مسند احمد:۱۴۰۵۷ )

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا،ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ تو قائم ہو کر رہے گی، تم نے اس کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا :اللہ کی قسم ! میںنے قیامت کے لیے کوئی زیادہ اعمال تو نہیں کیے ہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جن کے ساتھ تم کو محبت ہو گی ‘ آخرت میں انہی کے ساتھ ہوگے اور تم جو امید رکھو گے، وہی کچھ تمہیں ملے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور جب نما ز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: قیامت کے بارے میں پوچھنے والا آدمی کہاںہے؟ پس اسے لایا گیا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھر کی طرف دیکھا،تو سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خاندان بنودوس کے ایک لڑکے پر نظر پڑھی، اس کا نام سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو اس کے بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے پہلے قیامت آ جائے گی۔ حسن کہتے ہیں: سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ وہ نوجوان ان دنوں ان کا ہم عمر تھا۔

Haidth Number: 12786
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب محمد نامی ایک انصاری لڑکا موجود تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سوا ل کے جواب میں فرمایا : اگر یہ نوجوان زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے پہلے قیامت قائم ہوجائے گی۔

Haidth Number: 12787
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین کو جھنجھوڑنے والی بس آ گئی ہے، اس کے بعد (سخت بھونچال) آنے والا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ موت اپنا سارا کچھ لے کر آ گئی ہے۔

Haidth Number: 12788

۔ (۱۳۰۵۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: کَتَبَ اِلَیَّ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ حَمْزَۃَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَۃَ بْنِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَیْرِ کَتَبْتُ اِلَیْکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَقَدْ عَرَضْتُہُ وَجَمَعْتُہُ عَلٰی مَا کَتَبْتُ بِہٖاِلَیْکَ، فَحَدِّثْ بِذٰلِکَ عَنِّیْ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ الْحِزَامِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَیَّاشٍ السَّمْعِیُّ الْاَنْصَارِیُّ الْقِبَائِیُّ مِنْ بَنِیْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ عَنْ دَلْھَمِ بْنِ الْاَسْوَدِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ حَاجِبِ بْنِ عَامِرِ بْنِ الْمُنْتَفِقِ الْعُقَیْلِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَمِّہِ لَقِیْطِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ دَلْھَمٌ: وَحَدَّثَنِیْہِ اَبُوْ الْاَسْوَدِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِیْطٍ اَنَّ لَقِیْطًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ خَرَجَ وَافِدًا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ صَاحِبٌ لَہُ یُقَالُ لَہُ نُہَیْکُ بْنُ عَاصِمِ بْنِ مَالِکِ ابْنِ الْمُنْتَفِقِ، قَالَ لَقِیْطٌ: فَخَرَجْتُ اَنَا وَصَاحِبِیْ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِاِنْسِلَاخِ رَجَبَ، فَاَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَافَیْنَاہُ حِیْنَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، فَقَامَ فِی النَّاسِ خَطِیْبًا فَقَالَ: ((اَیُّہَا النَّاسُ! اَلَا اِنِّی قَدْ خَبَاْتُ لَکُمْ صَوْتِیْ مُنْذُ اَرْبَعَۃَ اَیَّامٍ اَلَا لَاَسْمَعَنَّکُمْ ، اَلَا فَہَلْ مِنَ امْرِیئٍ، بَعَثَہُ قَوْمُہُ۔)) فَقَالُوْا: اِعْلَمْ لَنَا مَا یَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ اَلَا ثُمَّ لَعَلَّہُ اَنْ یُّلْہِیَہُ حَدِیْثُ نَفْسِہِ اَوْ حَدِیْثُ صَاحِبِہٖاَوْیُلْہِیْہِ الضَّلاَلُ، اِنِّی مَسْؤُلٌ ھَلْ بَلَّغْتُ، اَلَا اِسْمَعُوْا تَعِیْشُوْا، اَلَا اِجْلِسُوْا، اَلَا اِجْلِسُوْا۔)) قَالَ: فَجَلَسَ النَّاسُ وَقُمْتُ اَنَا وَصَاحِبِیْ حَتّٰی اِذَا فَرَغَ لَنَا فُؤَادُہُ وَبَصَرُہُ قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَاعِنْدَکَ مِنْ عِلْمِ الْغَیْبِ فَضَحِکَ لَعَمْرُ اللّٰہِ وَھَزَّ رَاْسَہُ وَعَلِمَ اَنِّیْ اَبْتَغِیْ لِسَقَطِہٖفَقَالَ: ((ضَنَّرَبُّکَعَزَّوَجَلَّمَفَاتِیْحَ خَمْسٍ مِّنَ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا اِلَّا اللّٰہُ وَاَشَارَ بِیَدِہٖ۔)) قُلْتُ: وَمَا ھِیَ؟ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عِلْمُ الْمَنِیَّۃِ قَدْ عَلِمَ مَنِیَّۃَ اَحَدِکُمْ وَلَا تَعْلَمُوْنَہُ، وَعَلِمَ الْمَنِیَّ حِیْنَیَکُوْنُ فِی الرَّحْمِ قَدْ عَلِمَہُ وَلَا تَعْلَمُوْنَہُ، وَعَلِمَ مَا فِی غَدٍ وَمَا اَنْتَ طَاعِمٍ غَدًا وَلَاتَعْلَمُہُ، وَعَلِمَ الْیَوْمَ الْغَیْثَیُشْرِفُ عَلَیْکُمْ آزِلِیْنَ آدِلِیْنَ مُشْفِقِیْنَ فَیَظِلُّیَضْحَکُ، قَدْ اَعْلَمُ اَنَّ نَمِیْرَکُمْ اِلٰی قُرْبٍ۔)) قَالَ لَقِیْطٌ: لَنْ نَعْدِمَ مِنْ رَبٍّ یَضْحَکُ خَیْرًا ، وَعَلِمَ یَوْمَ السَّاعَۃِ۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلِّمْنَا مِمَّا تُعْلِّمُ النَّاسُ وَمَا تَعْلَمُ فَاَنَا مِنْ قَبِیْلٍ لَایُصَدِّقُوْنَ تَصْدِیْقِنَا اَحَدٌ مِنْ مَذْجَحِ الَّتِیْ تَرْبُوْ عَلَیْنَا وَخَثْعَمَ الَّتِیْ تُوَالِیْنَا وَعَشِیْرَتُنَا الَّتِیْ نَحْنُ مِنْہَا ، قَالَ: ((تَلْبَثُوْنَ مَا لَبِثْتُمْ ثُمَّ یُتَوَفّٰی نَبِیُّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ تَلْبَثُوْنَ مَا لَبِثْتُمْ ثُمَّ تُبْعَثُ الصَّائِحَۃُ لَعَمْرُ اِلٰھِکَ مَاتَدَعُ عَلٰی ظَہْرِھَا مِنْ شَیْئٍ اِلَّا مَاتَ وَالْمَلَائِکَۃُ الَّذِیْنَ مَعَ رَبِّکَ عَزَّوَجَلَّ، فَاَصْبَحَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ یَطِیْفُ فِی الْاَرْضِ وَخَلَتْ عَلَیْہِ الْبِلَادُ، فَاَرْسَلَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلََّ السَّمَائَ، تَہْضِبُ مِنْ عِنْدِ الْعَرْشِ، فَلَعَمْرُ اِلٰہِکَ مَاتَدَعُ عَلٰی ظَہْرِھَا مِنْ مَصْرَعِ قَتِیْلٍ وَلَا مَدْفَنِ َمیِّتٍ اِلَّاشَقَّتِ الْقَبْرُ عَنْہُ حَتّٰی تَجْعَلَہُ مِنْ عِنْدِ رَاْسِہِ فَیَسْتَوِیْ جَالِسًا فَیَقُوْلُ رَبُّکَ: مَہْیَمْ لِمَا کَانَ فِیْہِ،یَقُوْلُ: یَا رَبِّ اَمْسٰی الْیَوْمُ وَلِعَہْدِہِ بِالْحَیَاۃِیَحْسِبُہُ حَدِیْثًا بِاَھْلِہٖ۔))فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَیْفَیَجْمَعُنَا بَعْدَ مَاتَمَزَّقَنَا الرِّیَاحُ وَالْبِلٰی وَالسِّبَاعُ؟ قَالَ: ((اُنَبِّئُکَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ فِیْ آلَائِ اللّٰہِ، اَلْاَرْضُ اَشْرَفْتَ عَلَیْہَا وَھِیَ مَدَرَۃٌ بَالِیَۃٌ، فَقُلْتَ لَاتَحْیَا اَبَدًا، ثُمَّ اَرْسَلَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہَا السَّمَائَ، فَلَمْ تَلْبَثْ عَلَیْکَ اِلَّا اَیَّامًا حَتّٰی اَشْرَفْتَ عَلَیْہَا وَھِیَ شَرْبَۃٌ وَاحِدَۃٌ وَلَعَمْرُ اِلٰھِکَ لَھُوَ اَقْدَرُعَلٰی اَنْ یَجْمَعَہُمْ مِنَ الْمَائِ عَلٰی اَنْ یَجْمَعَ نَبَاتَ الْاَرْضِ فَیَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَصْوَائِ اَوْ مِنْ مَصَارِعِہِمْ فَتَنْظُرُوْنَ اِلَیْہِ وَیَنْظُرُ اِلَیْکُمْ۔))قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَکَیْفَ نَحْنُ مِلْأُ الْاَرْضِ وَھُوَ شَخْصٌ وَاحِدٌ نَنْظُرُ اِلَیْہِ وَیَنْظُرُ اِلَیْنَا؟ قَالَ: ((اُنَبِّئُکَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ فِیْ آلَائِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آیَۃٌ مِنْہُ صَغِیْرَۃٌ تَرَوْنَہُمَا وَیَرَیَانِکُمْ سَاعَۃً وَاحِدَۃً لَاتُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَتِہِمَا، وَلَعَمْرُ اِلٰھِکَ لَھُوَ اَقْدَرُ عَلٰی اَنْ یَّراکُمْ وَتَرَوْنَہُ مِنْ اَنْ تَرَوْنَہُمَا وَیَرَیَانِکُمْ لَاتُضَارُّوْنَ فِیْ رُوْیَتِہِمَا۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَمَا یَفْعَلُ بِنَا رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ اِذَا لَقِیْنَاہُ قَالَ: ((تُعْرَضُوْنَ عَلَیْہِ بَادِیَۃٌ لَہُ صَفَحَاتُکُمْ، لاَیَخْفٰی عَلَیْہِ مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ فَیَاْخُذُ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ بِیَدِہٖ غُرْفَۃً مِّنَ الْمَائِ فَیَنْضَحُ قَبِیْلَکُمْ بِہَا فَلَعَمْرُ اِلٰھِکَ مَاتُخْطِیُٔ وَجْہَ اَحَدِکُمْ مِنْہَا قَطْرَۃٌ، فَاَمَّا الْمُسْلِمُ فَتَدَعُ وَجْہَہُ مِثْلَ الرَّیْطَۃِ الْبَیْضَائِ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَتَخْطِمُہُ مِثْلَ الْحَمِیْمِ الْاَسْوَدِ، اَلَا ثُمَّ یَنْصَرِفُ نَبِیُّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَفْتَرِقُ عَلٰی اِثْرِہِ الصَّالِحُوْنَ فَیَسْلُکُوْنَ جَسْرًا مِّنَ النَّارِ، فَیَطَاُ اَحَدُکُمُ الْجَمْرَ فَیَقُوْلُ: حَسٍّ، یَقُوْلُ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ: اَوَاَنُہُ، اَلَا فَتَطْلُعُوْنَ عَلٰی حَوْضِ الرَّسُوْلِ عَلٰی اَظْمَاِ وَاللّٰہِ نَاھِلَۃٍ عَلَیْھَا قَطُّ مَا رَأَیْتُھَا فَلَعَمْرُ اِلٰھِکَ مَا یَبْسُطُ وَاحِدٌ مِنْکُمْ یَدَہُ اِلَّا وُضِعَ عَلَیْھَا قَدْحٌ یُطَھِّرُہُ مِنَ الطَّوْفِ وَالْبَوْلِ وَالْاَذٰی وَتُحْبَسُ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَلَاتَرَوْنَ مِنْہُمَا وَاحِدًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَبِمَا نَبْصُرُ قَالَ: ((بِمِثْلِ بَصَرِکَ سَاعَتَکَ ہٰذِہٖوَذٰلِکَقَبْلَطُلُوْعِالشَّمْسِفِییَوْمٍاَشْرَقَتْہُ الْاَرْضُ وَاجَہَتْ بِہِ الْجِبَالُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نُجْزٰی مِنْ سَیِّئَاتِنَا وَحَسَنَاتِنَا قَالَ: ((اَلْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا، وَالسَّیِّئَۃُ بِمِثْلِہَا اِلَّا اَنْ یَّعْفُوَ۔)) قَالَ:قُلْتُ: یَارَسُوْلُ اللّٰہِ! اَمَّا الْجَنَّۃُوَاَمَّا النَّارُ؟ قَالَ: ((لَعَمْرُ اِلٰہِکَ اِنَّ لِلنَّارِ لَسَبْعَۃَ اَبْوَابٍ ، مَا مِنْہُنَّ بَابَانِ اِلَّا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ بَیْنَہُمَا سَبْعِیْنَ عَامًا، وَاِنَّ لِلْجَنَّۃِ لَثَمَانِیَۃَ اَبْوَابٍ، مَا مِنْہُمَا بَابَانِ اِلَّا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ بَیْنَہُمَا سَبْعِیْنَ عَامًا۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَعَلٰی مَا نَطَّلِعُ مِنَ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((عَلٰی اَنْہَارٍ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفّٰی وَاَنْہَارٍ مِّنْ کَاْسٍ مَا بِہَا مِنْ صُدَاعٍ وَلَانَدَامَۃٍ، وَاَنْہَارٍ مِّنْ لَبَنٍ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہُ، وَمَائٍ غَیْرِ آسِنٍ، وَبِفَاکِہَۃٍ لَعَمْرُ اِلٰہِکَ مَا تَعْلَمُوْنَ وَخَیْرٌ مِنْ مِثْلِہِ مَعَہُ وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَنَا فِیْہَا اَزْوَاجٌ اَوْ مِنْہُنَّ مُصْلِحَاتٌ؟ قَالَ: ((اَلصَّالِحَاتُ لِلصَّالِحِیْنَ تَلَذُّوْا بِہِنَّ مِثْلَ لَذَّاتِکُمْ فِی الدُّنْیَا وَیَلْذَذْنَ بِکُمْ غَیْرَ اَنْ لَاتَوَالُدَ۔)) قَالَ لَقِیْطٌ: فَقُلْتُ: اَقْصٰی مَا نَحْنُ بَالِغُوْنَ مُنْتَہُوْنَ اِلَیْہِ، فَلَمْ یُجِبْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلٰیمَا اُبَایِعُکَ قَالَ: فَبَسَطَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ وَقَالَ: ((عَلٰی اِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَزِیَالِ الْمُشْرِکِ وَاَنْ لَاتُشْرِکْ بِاللّٰہِ اٰلِھًا غَیْرَہُ۔)) قُلْتُ: وَاِنَّ لَنَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، فَقَبَضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ وَظَنَّ اَنِّیْ مُشْتَرِطُ شَیْئًا لَایُعْطِیْنِیْہِ قَالَ: قُلْتُ: نَحِلُّ مِنْہَا حَیْثُ شِئْنَا وَلَایَجْنِیْ امْرِئٌ اِلَّا عَلٰی نَفْسِہِ، فَبَسَطَ یَدَہُ وَقَالَ: ((ذٰلِکَ لَکَ تَحِلُّ حَیْثُ شِئْتَ وَلَایَجْنِیْ عَلَیْکَ اِلَّا نَفْسُکَ۔)) قَالَ: فَانْصَرَفْنَا عَنْہُ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ ہٰذَیْنِ لَعَمْرُ اِلٰھِکَ مِنْ اَتْقٰی النَّاسِ فِی الْاُوْلٰی وَالْآخِرَۃِ۔)) فَقَالَ لَہُ کَعْبُ بْنُ الْخُدْرِیَّۃِ اَحَدُ بَنِیْ بَکْرٍ مِنْ کِلَابٍ: مَنْ ہُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((بَنُوْ الْمُنْتَفِقِ اَھْلُ ذٰلِکَ۔)) قَالَ: فَانْصَرَفْنَا وَاَقْبَلْتُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ لِاَحَدٍ مِّمَنْ مَضٰی مِنْ خَیْرٍ فِیْ جَاھِلِیَّتِہِمْ قَالَ: ((قَالَ رَجُلٌ مِنْ عُرْضِ قُرَیْشٍ وَاللّٰہِ اِنَّ اَبَاکَ الْمُنْتَفِقَ لَفِی النَّارِ۔)) قَالَ: فَلَکَاَنَّہُ وَقَعَ حَرٌّ بَیْنَ جِلْدِیْ وَوَجْہِیْ وَلَحْمِیْ مِمَّا قَالَ لِاَبِیْ عَلٰی رُؤُوْسِ النَّاسِ، فَہَمَمْتُ اَنْ اَقُوْلَ وَاَبُوْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ثُمَّ اِذَا الْاُخْرٰی اَجْہَلُ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَاَھْلُکَ قَالَ: ((وَاَھْلِیْ لَعَمْرُ اللّٰہِ مَا اَتَیْتَ عَلَیْہِ مِنْ قَبْرِعَامِرِیٍّ اَوْ قُرَشِیِّ مِنْ مُشْرِکٍ فَقُلْ اَرْسَلَنِیْ اِلَیْکَ مُحَمَّدٌ فَاُبَشِّرُکَ بِمَا یَسُوْئُ کَ تُجَرُّ عَلٰی وَجْہِکَ وَبَطْنِکَ فِی النَّارِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَافَعَلَ بِہِمْ ذٰلِکَ وَقَدْکَانُوْا عَلٰی عَمَلٍ لَایُحْسِنُوْنَ اِلَّا اِیَّاہُ وَکَانُوْا یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُصْلِحُوْنَ، قَالَ: ((ذٰلِکَ لِاَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ فِی آخِرِ کُلِّ سَبْعِ اُمَمٍ یَعْنِیْ نَبِیًّا فَمَنْ عَصٰی نَبِیَّہُ کَانَ مِنَ الضَّالِّیْنَ وَمَنْ اَطَاعَ نَبِیَّہُ کَانَ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۰۷)

عاصم بن لقیط کہتے ہیں: بیشک سیدنا لقیط، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ ان کا ایک ساتھی بھی تھا، اس کا نام نہیک بن عاصم بن مالک بن منتفق تھا، سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںاور میرا ساتھی رجب کا مہینہ گزرنے کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوئے، جب ہم جب وہاں پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور اس میں فرمایا: لوگو! خبردار! میں چار دنوں سے اپنی آواز تم لوگوں سے پوشیدہ رکھے ہوئے تھا، اب میں ضرور تم سے کچھ باتیں کروں گا۔ خبر دار! کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا آدمی بھی ہے، جسے اس کی قوم نے یہاں بھیجا ہو؟اور کہا ہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو کچھ بیان کریں اسے یاد کر لینا؟ خبردار ممکن ہے کہ اس آدمی کو اس کے خیالات یا اس کے ساتھی کی کوئی بات یا گمراہی غافل کر دے۔ خبردار! مجھ سے اس بات کی پوچھ گچھ ہوگی کہ میں نے یہ باتیں تم لوگوں تک پہنچا دی ہیں یا نہیں؟ خبردار! غور سے سنو! تم میرے بعد عرصہ تک زندگی گزار و گے۔ خبردار! بیٹھ جاؤ، خبردار! بیٹھ جاؤ۔ سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں : آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ فرمان سن کر لوگ بیٹھ گئے، میں اور میرا ساتھی کھڑے ہوگئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دل اور نگاہ ہمارے لیے فارغ ہوگئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر طرف سے فارغ ہو کر مکمل طور پر ہماری طرف متوجہ ہوئے تو میںنے کہا: اللہ کے رسول ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس علم غیب میں سے کیا کچھ ہے؟ اللہ کی قسم! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری بات سن کر مسکرا دئیے، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے سر کو حرکت دی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جان گئے کہ میں آپ سے کوئی ایسی بات پوچھنا چاہتا ہوں جو آپ کے علم میں نہیں ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے رب نے غیب کی پانچ چیزوں کے علم کی چابیاں اپنے پاس رکھی ہیں، ان پانچ چیزوں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے پانچ کا اشارہ کیا، میں نے کہا: وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: (۱) موت کا علم، وہ تمہاری موت کے وقت کو جانتا ہے اور تم اسے نہیں جانتے، (۲) منی کا علم، جب وہ ماں کے رحم میں ہوتی ہے، وہ اس کے مستقبل کے بارے میں ہر بات جانتا ہے، لیکن اسے تم نہیں جانتے، (۳)کل یعنی مستقبل کا علم کہ تم آئندہ کیا کچھ کھاؤ گے، اس کے متعلق تم کچھ نہیں جانتے، (۴) وہ بارش کا علم رکھتا ہے، جب وہ تم پر جھانکتا ہے، جبکہ تم (بارش نہ ہونے کی وجہ سے) محبوس، بوجھ والے اور ڈرنے والے ہوتے ہو، وہ تمہاری یہ حالت دیکھ کر ہنس رہا ہوتا ہے اور جانتا ہوتا ہے کہ تمہاری سیرابی قریب ہے۔ یہ سن کر سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو رب ہنستا ہے، ہم اس کی رحمتوں سے محروم نہیں رہیں گئے۔ اور(۵) قیامت کا علم۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ لوگوں کو جو تعلیم دیتے ہیں اور خود جو علم رکھتے ہیں، اس میں سے ہمیں بھی سکھائیں، میں ایسے لوگوں میں سے آیا ہوں، جو ہماری طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق نہیں کرتے، ایک تو قبیلہ مذ حج ہے، وہ ہم سے بالائی جانب رہتا ہے اور دوسرا قبیلہ خثعم کا ہے، وہ ہمارا حلیف ہے اور اسی طرح ہمارا قبیلہ ہے، جس سے ہم ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو جب تک منظور ہوگا، تم دنیا میں رہو گے، پھر تمہارے نبی کی وفات ہو جائے گی، اس کے بعد تم یہاں اس وقت تک رہو گے، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، اس کے بعد ایک زبردست قسم کی چیخ کی آواز آئے گی، جس کی شدت سے روئے زمین پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی، حتیٰ کہ جو فرشتے تمہارے رب کے ساتھ ہیں، وہ بھی مرجائیں گے، تمہارا رب زمین پر گھومے گا، سارے علاقے روح والی اشیاء سے خالی ہوچکے ہوں گے، پھر تمہارا رب آسمان کو ڈھیلا چھوڑ دے گا اور عرش کے قریب سے بارش برسے گی، اس کے نتیجے میں زمین پر جہاں بھی کوئی مقتول گرا ہوگا یا کوئی میت مدفون ہوگی، ان کی قبریں پھٹ جائیں گی، یہاں تک کہ وہ سر کی جانب سے اٹھ کر سیدھے ہو کر بیٹھ جائیں گے، تمہارا رب ان سے پوچھے گا: کیا ہوا؟ وہ پہلے جس کیفیت میں تھا، اس سے موجودہ حالت میں آنے پر وہ کہے گا:اے میرے رب ! آج میرے لیے یہ دن آیا ہے، وہ چونکہ اس سے پہلے زندگی گزار چکا ہوگا، اس لیے وہ اسے اپنے اہل و عیال کی ملاقات کا ذریعہ سمجھے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارے مرنے کے بعد جب کہ ہوائیں، بوسیدگی اور درندے ہمیں ریزہ ریزہ کر چکے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ ہمیں کیسے دوبارہ جمع کر ے گا؟ آپ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں، تم زمین کو دیکھتے ہو، یہ سخت اور بنجرہوچکی ہوتی ہے، تم یہ سمجھ رہے ہوتے ہو کہ اب یہ کبھی بھی آباد نہیں ہو سکے گی، پھر تمہارا رب بارش برسا دیتا ہے اور کچھ ہی دنوں بعد تم دیکھتے ہو کہ وہ پودوں کے اگنے سے سر سبزہو چکی ہوتی ہے، تمہارے اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کے لیے زمین کی نباتات کو اگانے اور پیدا کرنے کے مقابلے میں ان لوگوں کو پانی سے پیدا کرنا آسان تر ہے، یہ لوگ ہواؤں اور قبروں کے درمیان سے نکل رہے ہوں گے اور تم اللہ تعالیٰ کو اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہوگا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! انسانوں سے تو پوری زمین بھری ہوئی ہوگی اور اللہ تعالیٰ ایک مقام پر ایک وجود ہوگا،اس لیے یہ کیسے ممکن ہو گا کہ بیک وقت ہم اسے دیکھ لیں اور وہ ہمیں دیکھ لے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیںاللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مثال کے ذریعے بتلاتا ہوں، سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی نشانیاں ہیں، تم انہیں اور وہ تمہیں بیک وقت دیکھ رہے ہوتے ہو، اور ان کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت بھی پیش نہیں آتی، تمہارے اللہ کی قسم ! جس طرح تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے اور سورج چاند کے تمہیں دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی، اس دن اللہ تعالیٰ تمہیں اور تم اس کو اس سے بھی زیادہ آسانی سے دیکھنے پر قادر ہو گے۔ سیدنالقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب ہم اپنے رب سے ملاقات کریں گے تو وہ ہمارے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: تم سب کو اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اور تم میں سے کسی کا بھی چہرہ اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گا، تب تمہارا رب پانی کا ایک چلو لے کر اسے تمہاری طرف پھینکے گا، تمہارے اللہ کی قسم! اس میں سے ایک قطرہ بھی تمہارے چہروں سے ادھر اُدھر نہیں جائے گا، جس قدرمسلمان ہوں گے، اس پانی کی برکت سے ان کے چہرے نرم ، ملائم اور چمکدار ہوجائیں گے اور وہ پانی کافروں کی ناک کو سیاہ کوئلے کی مانند کر دے گا، اس کے بعد تمہارا نبی ایک طرف کو جائے گا اور نیک لوگ اس کے پیچھے پیچھے جاتے ہوئے آگ کے ایک پل پر چلیں گے، پھر تم میں سے کوئی آگ کے انگاروں کو روندے گا اور ہائے ہائے کی آواز نکالے گا،اس کے بعد تمہیں شدید پیاس لگی ہوگی اور تم اپنے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوض ِ کوثر پر پہنچو گے، اللہ کی قسم وہاں پینے کے لیے اس قدر وافر پانی ہوگا کہ میںنے آج تک اتنا پانی نہیں دیکھا۔ تمہارے اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی آدمی پانی کے لیے ہاتھ بڑھائے گا، اس پر پانی سے بھر اہوا ایک پیالہ رکھ دیا جائے گا۔ وہ پانی اسے پاخانے، پیشاب ، اور دیگر نجاستوں سے پاک کردے گا، سورج اور چاند کو محبوس کر دیاجائے گا اور تم ان میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھ سکو گے۔ سیدنالقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم دیکھیں گے کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ا س وقت اسی طرح دیکھو گے، جیسے اب دیکھ رہے ہو، و ہ اس قسم کی کیفیت ہوگی جیسے سورج طلوع ہونے سے کچھ دیر قبل سورج کی روشنی پہاڑوں پر پڑے تو زمین جس طرح روشن ہوتی ہے۔ سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں :میںنے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ہمارے گناہوں اور نیکیوں کا بدلہ کیسے دیا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نیکی کا دس گنا اور ہر گناہ کا اس کے برابر بدلہ ملے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کر دیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! جنت اور جہنم کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے اللہ کی قسم! جہنم کے سات دروازے ہیں، ہر دو دروازوں کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ ایک سوار ستر سال میں وہ فاصلہ طے کرتا ہے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں، اس کے بھی دو دروازوں کے درمیان اس قدر مسافت ہے کہ ایک سوار ستر سال میں اس مسافت کر طے کرتا ہے۔ میںنے کہا: اللہ کے رسول! ہم جنت میں کیا کچھ دیکھیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہاں صاف شفاف شہد کی نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں ایسی عمدہ شراب کی نہریں ہوںگی کہ جس کے پینے کے بعد نہ تو سر درد ہوگا اور نہ ندامت اور وہاں صاف دودھ کی نہریں ہوں گی، وہ ایسا دودھ ہوگا کہ اس کا ذائقہ کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا اور پانی کی نہریں ہوں گی، وہ پانی ایسا ہوگا کہ جو کبھی بھی باسی نہیں ہوگا اور تمہارے اللہ کی قسم! وہاں ایسے پھل ہوں گے جنہیں تم (نام سے) جانتے ہو اور ان کے علاوہ ان سے بھی عمدہ پھل ہوں گے اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ میںنے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا جنت میں ہماری بیویاں ہوں گی یا ان میں سے نیک ہوں گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صالحین کے لیے صالحات ہوگی، تم ان سے وہاں اس طرح لطف اندوز ہوگے، جیسے تم ان سے اس دنیا میں لطف اندوز ہوتے ہو اور وہ بھی تم سے لطف اندوز ہوں گی، البتہ ولادت کا کوئی سلسلہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: تب تو وہ سب کچھ ہوگا جس کی ہم زیادہ سے زیادہ تمنا کرسکتے ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کچھ جواب نہیں دیا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کن باتوں پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ پھیلا کر فرمایا: باقاعدگی سے نماز ادا کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے، مشرک سے جدا رہنے اور اس بات پر کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، ان سب امور پر بیعت کرو۔ میں نے کہا: اس کے نتیجے میں مشرق سے مغرب تک کا سارا علاقہ یعنی روئے زمین ہماری ہوگی۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ واپس کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سمجھا کہ شاید میں کوئی ایسی شرط لگانے والا ہوں، جس کا آپ مجھ سے وعدہ نہیں کرسکیں گے، میں نے کہا: ہم پوری زمین پر جہاں چاہیں گے جائیں گے، لیکن ہر کوئی اپنا ذمہ دار خود ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر آدمی جوکچھ کرتا ہے، وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ کہہ کر پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور فرمایا: تمہیں اجازت ہے کہ تم زمین پر جہاں چاہو جاؤ اور کسی کے عمل کی تم پر ذمہ داری نہیں۔ سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:اس کے بعد ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے واپس آگئے، پھر آپ نے فرمایا: تمہارے اللہ کی قسم! یہ دونوں افراد دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ متقی ہیں۔ یہ سن کر بنو بکر بن کلاب کے ایک شخص کعب بن خدریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو منتفق ہیں اور وہ اس کے اہل ہیں۔ سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں پھر واپس آ گئے اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! جو لوگ ہم سے پہلے دور جاہلیت میں گزر چکے ہیں، کیا ان میں سے کسی کا انجام بہتر بھی ہوگا؟میری اس بات پر ایک عام قریشی آدمی بولا: اللہ کی قسم ، تیرا باپ منتفق تو جہنمی ہی ہے۔ یہ سن کر میرے تن بدن کو آگ لگ گئی کہ اس نے بر سرِ عام میرے والد کے متعلق ایسی بات کہہ دی ہے، میں نے ارادہ کیا کہ کہہ دوں کہ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے والد کا کیا بنے گا؟ پھر مجھے خیال آیا کہ اس شخص کے بدلے میں کہی گئی یہ بات اس سے بڑی جہالت ہوگی، پھرمیںنے یو ں کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاندان والے کہاںـ ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے خاندان والے، اللہ کی قسم! تم جس قریشی یا بنو عامر کے مشرک آدمی کی قبر کے پاس سے گزرو تو یوں کہنا کہ مجھے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیری طرف بھیجا ہے، میں تجھے ایسی خبر دیتا ہوں کہ جسے سن کر تجھے افسوس اور دکھ ہوگا، تجھے چہرے اور پیٹ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالا جائے گا۔ سیدنا لقیط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ان کا یہ انجام کیوں ہوگا، وہ تو جو کچھ کرتے رہے اچھا ہی سمجھ کرکرتے رہے، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر سات امتوں کے آخر میں ایک نبی بھیجا، جس نے اپنے نبی کی نافرمانی کی، وہ گمراہوں میں سے ہوا اور جس نے اپنے نبی کی اطاعت کی وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوا۔

Haidth Number: 13059
سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صور پھونکنے والے فرشتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی دائیں جانب جبرائیل علیہ السلام اور اس کی بائیں جانب میکائیل علیہ السلام ہوں گے۔

Haidth Number: 13060
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، ایک بدّو نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! صور کیا چیز ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ایک سینگ ہے، اس میں پھونک ماری جائے گی۔

Haidth Number: 13061
سیدناعبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صور پھونکنے والے دو فرشتے دو سرے آسمان پر ہیں، وہ اس قدر بڑے بڑے ہیں کہ ان میں سے ایک کا سر مشرق میں اور اس کے پاؤں مغرب میں ہیں۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا: ان میں سے ایک کا سر مغرب میں اور اس کے پاؤں مشرق میں ہیں، وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کب صور میں پھونک مارنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دیں۔

Haidth Number: 13062
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں خوشی کیونکر مناؤں جب کہ صور پھونکنے والا فرشتہ صور کو منہ میں لیے اپنی پیشانی کو جھکائے اور اپنی سماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کیے ہوئے کھڑا ہے کہ کب اسے صور میں پھونک مارنے کا حکم ملتا ہے؟ یہ سن کر مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ کہو: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا ہمارے لیے اللہ کافی ہے، وہ بہترین کار ساز ہے، ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا۔

Haidth Number: 13063
سیدنازید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کیسے خوش رہوں جب کہ صور پھونکنے والا فرشتہ صور کو منہ میں لیے پیشانی جھکائے اور کانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لگائے اس انتظار میں کھڑا ہے کہ کب اسے صور میں پھونک مارنے کا حکم ملتا ہے؟ جب صحابہ نے یہ بات سنی تو یہ ان پر بہت گراں گزری، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم یہ کلمہ پڑھو: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ( ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے)۔

Haidth Number: 13064
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتلانہ دوں کہ جہنم والے کو ن ہیں اور جنت والے کون ہیں؟ ہر وہ آدمی جو دنیوی طور پر کمزور ہو، جسے لوگ کمزور سمجھتے ہوں، پراگندہ اور غبار آلودہ ہو اور دو بوسیدہ سی چادریں پہن رکھی ہوں،یہ لوگ جنتی ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھادے تو وہ ان کی قسم کو ضرور پورا کر دیتا ہے اور سخت مزاج، بد اخلاق، متکبر، مال و دولت جمع کرنے والا و بخیل اور موٹا تازہ آدمی (جو از راہِ تکبر) لوگوں سے آگے آگے چلنا پسند کرتا ہو، وہ جہنمی ہے۔

Haidth Number: 13185
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر وہ آدمی جو بد مزاج ،متکبر ، مال و دولت جمع کرنے والا اور بخیل ہو، وہ جہنمی ہے۔اور جو لوگ دنیوی لحاظ سے کمزور اور مغلوب سمجھے جاتے ہوں، وہ جنتی ہیں۔

Haidth Number: 13186
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتلا نہ دوں کہ کون لوگ جنتی ہیں؟ جو دنیوی لحاظ سے کمزور اور مظلوم ہوں ۔ اورکیامیں تمہیں یہ بھی بتلا نہ دوں کہ جہنمی لوگ کون ہیں؟ ہر وہ آدمی جو سخت مزاج اور بد مزاج ہو، وہ جہنمی ہے۔

Haidth Number: 13187
سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: سراقہ ! کیا میں تم کو بتلا نہ دوں کہ کون لوگ جتنی ہیں اور کون لوگ جہنمی ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ضرور، اے اللہ کے رسول !آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر بد اخلاق ، بد مزاج اور متکبر آدمی جہنمی ہے اور جو لوگ دنیوی لحاظ سے کمزور اور مغلوب ہوں، وہ جنتی ہیں۔

Haidth Number: 13188
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے جانے والے تین قسم کے لوگوں کو میں جانتا ہوں: شہید ، وہ غلام جو اللہ کے حقوق اور اپنے مالکوں کے حقوق صحیح طو رپر ادا کرتا ہو اور وہ پاکدامن فقیر جو دست ِ سوال دراز کرنے سے بچتا ہے، اور میں جہنم میں سب سے پہلے جانے والے تین قسم کے لوگوں کو (بھی) جانتا ہوں: وہ بادشاہ جو زبردستی لوگوں پر حکمرانی کرے، مال دار جو مال کے حقوق کو پورا نہ کرے اور غریب آدمی جو متکبر ہو۔

Haidth Number: 13189

۔ (۱۳۱۹۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَمَّا اَھْلُ النَّارِالَّذِیْنَ ھُمْ اَھْلُہَا لَایَمُوْتُوْنَ وَلاَ یَحْیَوْنَ وَاَمَّا اُنَاسٌ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِہِمُ الرَّحْمَۃَ فَیُمِیْتُہُمْ فِی النَّارِ فَیَدْخُلُ عَلَیْہِمُ الشُّفَعَائُ فَیَاْخُذُ الرَّجُلُ اَنْصَارَہُ فَیَبُثُّہُمْ اَوْ قَالَ: فَیَنْبُتُوْنَ عَلٰی نَہْرِ الْحَیَائِ اَوْ قَالَ: الْحَیَوَانِ اَوْقَالَ: اَلْحَیَاۃِ اَوْ قَالَ: نَہْرِ الْجَنَّۃِ فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحَبَّۃِ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ۔)) قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَمَا تَرَوْنَ الشَّجَرَۃَ تَکُوْنُ خَضْرَائَ ثُمَّ تَکُوْنُ صَفْرَائَ اَوْ قَالَ تَکُوْنُ صَفْرَائَ ثُمَّ تَکُوْنُ خَضْرَائَ۔)) قَالَ: فَقَالَ بَعْضُہُمْ: کَاَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ بِالْبَادِیَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۲۹)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اہل جہنم، جنہوں نے جہنم میں ہی رہنا ہو گا، وہ وہاں نہ مریں گے اور نہ جی سکیں گے، اور اللہ تعالیٰ جن جہنمیوں پر رحم کرنا چاہتا ہو گا، وہ انہیں جہنم میں موت دے دے گا، پھر سفارش کرنے والے ان کے پاس پہنچیں گے اوران کے مدد گار ان کو لے جائیں گے اور ان کو نَہْرُ الْحَیَائِ یا نَھْرُ الْحَیَوَانِ یا نَھْرُ الْحَیَاۃِ یا نَہْرُ الْجَنَّۃِ میں ڈال دیں گے اور اس میں وہ اس طرح اگیں گے، جیسے جیسے سیلاب کی جھاگ میں دانہ اگتا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں درخت سبز ہوتے ہیں پھر زرد ہو جاتے ہیں، یا وہ زرد ہوتے ہیں اور سبز ہو جاتے ہیں۔ یہ سن کر صحابہ نے ایک دوسرے سے کہا: ایسے لگتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو دیہات میں رہتے تھے۔

Haidth Number: 13190