Blog
Books
Search Hadith

توبہ کے حکم اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اپنے مؤمن بندے سے خوش ہونے کا بیان

1247 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو اور اس سے بخشش طلب کرو، پس بیشک میں ایک ایک دن میں سو سو بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں اور اس سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ راوی نے کہا: اس دعا کو دو بار شمار کیا جائے گا یا ایک بار: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْکَ (اے اللہ! بیش میںتجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں، بیشک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں)؟ انھوں نے کہا: یہ تو ایک بار ہی لگتا ہے۔

Haidth Number: 10151
Haidth Number: 10152
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مؤمن گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے ، اگر وہ توبہ کر لے اور بخشش طلب کرے تو دل میں چمک اور جلا پیدا ہو جاتی ہے، اور اگر مزید گناہ کرتا ہے تو نکتے بڑھتے چلے جاتے ہیں،یہاں تک کہ اس کے دل پر وہ زنگ چڑھ جاتا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا: ہر گز نہیں، بلکہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا۔

Haidth Number: 10153

۔ (۱۰۱۵۴)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) حَدِیْثَیْنِ اَحَدَھُمَا عَنْ نَفْسِہِ وَالْآخَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: اِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوْبَہَ کَاَنَّہُ فِیْ اَصْلِ جَبَلٍ یَخَافُ اَنْ یَقَعَ عَلَیْہِ، وَاِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوْبَہُ کَذُبَابٍ وَقَعَ عَلٰی اَنْفِہِ، فَقَالَ لَہُ: ھٰکَذَا فَطَارَ، قَالَ: وقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰہُ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ اَحَدِکُمْ مِنْ رَجُلٍ خَرَجَ بِاَرْضٍ دَوِّیَّۃٍ مَھْلَکَۃٍ، مَعَہُ رَاحِلَتُہُ عَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَزَادُہُ وَمَا یُصْلِحُہُ، فَاَضَلَّھَا فَخَرَجَ فِیْ طَلْبِھَا حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الُمَوْتُ فَلَمْ یَجِدْھَا قَالَ: اَرْجِعُ اِلٰی مَکَانِی الَّذِیْ اَضْلَلْتُھَا فِیْہِ فَاَمُوْتُ فِیْہِ، قَالَ: فَاَتٰی مَکَانَہُ فَغَلَبَتْہُ عَیْنُہُ فَاسْتَیْقَظَ فَاِذَا رَاحِلَتُہُ عِنْدَ رَاْسِہِ عَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَزَادُہُ وَمَا یُصْلِحُہُ۔)) (مسند احمد: ۳۶۲۷)

۔ حارث بن سوید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں دو احادیث بیان کیں، ایک ان کا اپنا قول تھا اور ایک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث تھی، انھوں نے خود کہا: بیشک مؤمن اپنے گناہوں کو یوں خیال کرتا ہے کہ کسی پہاڑ کی نیچے کھڑا ہے اور اس کو یہ ڈر ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر گر جائے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح خیال کرتا ہے، جو اس کے ناک پر بیٹھتی ہے اور وہ اس کو یوں کر کے اڑا دیتاہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آدمی کی توبہ کی وجہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان اور ہلاکت گاہ جنگل میں ہو، اس کے ساتھ اس کی سواری ہو، جس پر اس کا کھانا پینا، زادِ راہ اور دوسری اشیائے ضرورت لدی ہوئی ہوں، پھر وہ سواری اس سے گم ہو جائے، وہ اس کو تلاش کرے، یہاں تک کہ اس کو موت پا لے، پھر وہ کہے: اب میں اپنے اسی مقام پر واپس جاتا ہوں، جہاں اس سواری کو گم پایا تھا اور وہاں جا کر مر جاتا ہوں، پس وہ اپنے مقام کی طرف واپس لوٹے اور وہاں سو جائے، پھر جب بیدار ہو تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہو اور اس پر اس کا کھانا پینا، زادِ راہ اور دوسری اشیائے ضرورت لدی ہوئی ہوں۔

Haidth Number: 10154
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی قسم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ ذرا مختلف ہیں: پس وہ سواری اس کے پاس کھڑی تھی اور اپنی لگام کھینچ رہی تھی، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے جو خوشی ہوتی ہے، یہ آدمی اس سے زیادہ خوش نہیں تھا۔

Haidth Number: 10155
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی آدمی کی سواری گم ہو جائے تو کیا وہ اس کو پا لینے پر خوش ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے، جو تم میں سے کسی کو سواری پا لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

Haidth Number: 10156
۔ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلا دیتا ہے، تاکہ دن کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے اور پھر دن کو اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے، تاکہ رات کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے، یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔

Haidth Number: 10157

۔ (۱۰۱۵۸)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰییَقُوْلُ: یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ مُذْنِبٌ اِلَّا مَنْ عَافَیْتُ، فَاسَتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَکُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ اَنِّیْ ذُوْ قُدْرَۃٍ عَلَی الْمَغْفِرَۃِ فَاسْتَغْفَرَنِیْ بِقُدْرَتِیْ غَفَرْتُ لَہُ، وَلَا اُبَالِیْ، وَکُلُّکُمْ ضَالٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَیْتُ، فَسَلُوْنِی الْھُدٰی اَھْدِکُمْ، وَکُلُّکُمْ فَقِیْرٌ اِلَّا مَنْ اَغْنَیْتُ، فَسَلُوْنِیْ اَرْزُقْکُمُ، وَلَوْ اَنَّ حَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ، وَاُوْلَاکُمْ وَاُخْرَاکُمْ، وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ، اِجْتَمَعُوْا عَلٰی قَلْبِ اَتْقٰی عَبْدٍ مِنْ عِبَادِیْ لَمْ یَزِیْدُوْا فِیْ مُلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ، وَلَوْ اَنَّ حَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ، وَاُوْلَاکُمْ وَاُخْرَاکُمْ، وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ، اِجْتَمَعُوْا فَسَاَلَ کُلُّ سَائِلٍ مِنْھُمْ مَا بَلَغَتْ اُمْنِیَّتُہُ، وَاَعْطَیْتُ کُلَّ سَائِلٍ لَمْ یَنْقُصْنِیْ،اِلَّا کَمَا لَوْ مَرَّ اَحَدُکُمْ عَلٰی شَفَۃِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ اِبْرَۃً ثُمَّ اِنْتَزَعَھَا، وَذٰلِکَ لِاَنِّیْ جَوَّادٌ، مَاجِدٌ، وَاجِدٌ اَفْعَلُ مَا اَشَائُ، عَطَائِیْ کَلَامِیْ،وَعَذَابِیْ کَلَامِیْ، اِذَا اَرَدْتُ شَیْئًا فاِنّمَا اَقُوْلُ لَہُ: کُنْ! فَیَکُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۷۳)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندو! تم سارے کے سارے گنہگار ہو، مگر جس کو میں عافیت عطا کر دوں، پس تم مجھ سے بخشش طلب کیا کرو، میں تم کو بخش دوں گا۔ جس نے یہ جان لیا کہ میں بخشش کے معاملے میں قدرت والا ہوں اور پھر مجھ سے میری قدرت کی وجہ سے مغفرت طلب کی تو میں اس کو بخش دوں گا اور کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سارے کے سارے گمراہ تھے، مگر جس کو میں نے ہدایت دے دی، پس مجھ سے ہدایت کا سوال کیا کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، تم سارے کے سارے فقیر تھے، مگر جس کو میں غنی کر دوں، پس تم مجھ سے سوال کیا کرو، میں تم کو رزق عطا کروں گا، اگر تمہارے زندہ اور مردے، پہلے اور پچھلے اور تر اور خشک میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی آدمی کے دل پر جمع ہو جائیں تو میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں ہو گا، اسی طرح اگر تمہارے زندہ اور مردے، پہلے اور پچھلے اور تر اور خشک جمع ہو جائیں اور ہر مانگنے والا اپنی خواہش کے مطابق مانگنا شروع کر دے تو ہر سوالی کو عطا کر دینے سے میرے ہاں کوئی کمی نہیں آئے گی، مگر اس قدر کہ جیسے کسی آدمی کا سمندر کے کنارے سے گزر ہو اور وہ سوئی کو اس میں ڈبوئے اور پھر اس کو نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، غنی ہوں، جو چاہتا ہوں، کر دیتا ہوں، میرا عطا میری کلام ہے، میرا عذاب میرا کلام ہے، جب میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو اس کو اتنا کہتا ہوں کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔

Haidth Number: 10158
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندے! جب تک تو میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ پر امید قائم رکھے گا تو میں تیرے ہر گناہ کو بخش دوں گا، وہ جو بھی ہو گا، اے میرے بندے! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں ان ہی کے بقدر بخشش لے کر تجھے ملوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو، ……۔ اس کے بعد سابقہ حدیث کی طرح ہے۔

Haidth Number: 10159

۔ (۱۰۱۶۰)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَایَرْوِیْ عَنْ رَبِّہِ عَزَّوَجَلَّ: ((إِنِّی حَرَّمْتُ عَلٰی نَفْسِی الظُّلْمَ وَعَلٰی عِبَادِی أَلَا فَـلَا تَظَالَمُوا کُلُّ بَنِی آدَمَ یُخْطِئُ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرُ لَہُ وَلَا أُبَالِی وَقَالَ یَا بَنِی آدَمَ کُلُّکُمْ کَانَ ضَالًّا إِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ عَارِیًا إِلَّا مَنْ کَسَوْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ جَائِعًا إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ ظَمْآنًا إِلَّا مَنْ سَقَیْتُ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ وَاسْتَکْسُونِی أَکْسُکُمْ وَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْکُمْ وَاسْتَسْقُونِی أَسْقِکُمْ یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَصَغِیرَکُمْ وَکَبِیرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ وَأُنْثَاکُمْ قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَیِیَّکُمْ وَبَیِّنَکُمْ عَلَی قَلْبِ أَتْقَاکُمْ رَجُلًا وَاحِدًا لَمْ تَزِیدُوا فِی مُلْکِی شَیْئًا وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَصَغِیرَکُمْ وَکَبِیرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ وَأُنْثَاکُمْ عَلَی قَلْبِ أَکْفَرِکُمْ رَجُلًا لَمْ تَنْقُصُوْا مِنْ مُلْکِی شَیْئًا إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ رَأْسُ الْمِخْیَطِ مِنَ الْبَحْرِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۵۰)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک میں نے اپنے نفس پر اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے کو حرام قرار دیا ہے، پس تم ظلم نہ کیا کرو، بنو آدم کا ہر فرد دن رات خطائیں کرتا ہے، لیکن پھر جب مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے تو میں کوئی پرواہ کیے بغیر اس کو بخش دیتا ہوں،اے بنو آدم! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے، مگر جس کو میںہدایت دے دوں، تم میں سے ہر ایک ننگا ہے، مگر جس کو میں لباس عطا کر دوں، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے، مگر جس کو میںکھلا دوں اور تم میں سے ہر ایک پیاسا ہے، مگر جس کو میں پانی پلا دوں، لہٰذا مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، مجھ سے لباس کا سوال کرو، میں تم کو لباس عطا کروں گا، مجھ سے کھانا طلب کرو،میں تم کو کھلاؤں گا اور مجھ سے پانی طلب کرو، میں تم کو پانی پلاؤں گا، اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، جن اور انسان، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت اور بولنے سے عاجز اور فصیح الکلام، سارے کے سارے تم میں سے سب سے بڑے متقی کے دل کی مانند ہو جائیں تو تم میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں کرو گے، اور اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، جن اور انسان، چھوٹے اور بڑے اور مذکر اور مؤنث، سارے کے سارے تم میں سے سب سے زیادہ کفر کرنے والے کے دل کی مانند ہو جائیں تو تم میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں کر سکو گے، مگر اتنی جتنی سوئی کا نکہ سمند کے پانی میں کمی کرتاہے۔

Haidth Number: 10160
۔ اغرّ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر شہادت دی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ (آسمان دنیا کی طرف) اترتا ہے اور کہتا ہے: کیا کوئی سوال کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے؟ کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے؟ کیا کوئی گنہگار ہے؟ ایک بندے نے کہا: طلوع فجر تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔

Haidth Number: 10161
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ابن آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں، اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کو تلاش کرے گا، بس مٹی ہی ہے، جو ابن آدم کے پیٹ کو بھرتی ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتاہے۔

Haidth Number: 10162
۔ محمد بن حنفیہؒ اپنے باپ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اس مؤمن بندے سے محبت کرتا ہے، جس کو فتنے میں ڈالا جاتا ہو اور پھر وہ توبہ کرنے والا ہو۔

Haidth Number: 10163
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو بار بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

Haidth Number: 10164
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری زبان میں تیزی اور فساد تھا، لیکن اس کا تعلق صرف میرے گھر والوں سے تھا، ان سے آگے تجاوز نہیں کرتا تھا، جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تو استغفار سے دور کیوں ہے؟ میں تو ہر روزاللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ جب میں نے یہ بات ابو بردہ بن ابی موسی سے بیان کی تو انھوں نے مجھے سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ہر شب وروز میں سو بار اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

Haidth Number: 10165

۔ (۱۰۲۰۵)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اقْبَلُوْا الْبُشْرٰییَا بَنِیْ تَمِیْمٍ۔)) قَالَ: قَالُوْا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَاَعْطِنَا؟ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) قَالَ: ((اقْبَلُوْا الْبُشْرٰییَا اَھْلَ الْیَمْنِ۔)) (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: اِذْ لَمْ یَقْبَلْھَا بَنُوْ تَمِیٍمٍ) قَالَ: قُلْنَا قَدْ قَبِلْنَا فَاَخْبِرْنَا عَنْ اَوَّلِ ھٰذَا الْاَمْرِ کَیْفَ کَانَ ؟ قَالَ: ((کَانَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ، وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَیَ الْمَائِ، وَکَتَبَ فِیْ اللَّوْحِ ذِکْرَ کُلِّ شَیْئٍ۔)) قَالَ: وَاَتَانِیْ آتٍ فَقَالَ:یَا عِمْرَانُ! اِنْحَلَّتْ نَاقَتُکَ مِنْ عِقَالِھَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَاِذَا السَّرَابُ یَنْقَطِعُ بَیْنِیْ وَبَیْنَھَا قَالَ: فَخَرَجْتُ فِیْ اَثَرِھَا فَـلَا اَدْرِیْ مَا کَانَ بَعْدِیْ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۱۷)

۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انھوں نے کہا: خوشخبری تو آپ نے ہمیں دے دی ہے، اب ہمیں (کچھ مال و متاع) دیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بنو تمیم خوشخبری قبول نہیں کرنا چاہتے تو اے اہل یمن! تم قبول کر لو۔ ہم نے کہا: جی ہم نے قبول کی، پس آپ ہمیں اس عالم کی ابتدا کے بارے میں بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پہلے تھا، اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا، اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا ذکر لکھا۔ اتنے میں ایک آنے والے نے کہا: اے عمران! تیری اونٹنی رسی کھلا گئی ہے، پس میں اس کو پکڑنے کے لیے نکل پڑا، (وہ اتنی دور جا چکی تھی کہ) اس کے اور میرے درمیان ایک سراب نظر آ رہا تھا، پس میں اس کے پیچھے چلا گیا اور یہ نہ جان سکا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بعد کیا ارشاد فرمایا۔

Haidth Number: 10205
۔ سیدنا ابو رزین عقیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل ہمارا ربّ کہاں تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ باریک بادل میں تھا، اس کے نیچے بھی ہوا تھی اور اوپر بھی ہوا تھی، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا۔

Haidth Number: 10206
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا نفس خوش ہو جاتا ہے اور میری آنکھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے، پس آپ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے حکم کے بارے میں بتلائیں کہ اگر میں اس پر عمل کروں، تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلام کو عام کر، کھانا کھلا، صلہ رحمی کر اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو قیام کر اور پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا۔

Haidth Number: 10207
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور پھر اس سے کہا: لکھ، پس وہ اسی گھڑی میں چلی اور قیامت تک ہونے والے امور لکھ دیئے۔

Haidth Number: 10208

۔ (۱۰۲۰۹)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْبَطْحَائِ فَمَرَّتْ سَحَابَۃٌ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذَا؟)) قَالَ: قُلْنَا: الْسَحَابُ، قَالَ: ((وَالْمُزْنُ)) قُلْنَا: وَ الْمُزْنُ، قَالَ: ((وَالْعَنَانُ۔)) قَالَ: فَسَکَتْنَا، فَقَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ؟)) قَالَ: قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((بَیْنَھُمَا مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَمِنْ کُلِّ سَمَائٍ اِلَی سَمَائٍ مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَکِثْفُ کُلِّ سَمَائٍ مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَفَوْقَ السَّمَائِ السَّابِعَۃِ بَحْرٌ بَیْنَ اَسْفَلِہِ وَاَعْلَاہُ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذٰلِکَ ثَمَانِیْۃُ اَوْعَالٍ بَیْنَ رُکَبِھِنَّ وَاَظْلَافِھِنِّ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ ثُمَّ فَوْقَ ذٰلِکَ الْعَرْشُ بَیْنَ اَسْفَلِہِ وَاَعْلَاَہُ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَوْقَ ذٰلِکَ، لَیْسَیَخْفٰی عَلَیْہِ مِنْ اَعْمَالِ بَنِیْ آدَمَ شَیْئٌ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۰)

۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ وادیٔ بطحاء میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے ایک بدلی گزری، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ بادل ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مُزْن بھی کہتے ہیں؟ ہم نے کہا:: جی مُزْن بھی کہتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو عَنَان بھی کہتے ہیں؟ ہم جواباً خاموش رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت جتنا فاصلہ ہے، اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو برسوں کی مسافت ہے، جبکہ ہر آسمان کی موٹائی بھی پانچ سو برس ہے اور ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کی گہرائی اتنی ہی ہے، جتنا زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے، اس کے اوپر پہاڑی بکرے کی شکل کے آٹھ فرشتے ہیں، ان کے کھر سے گھٹنے تک کی لمبائی اتنی ہے، جتنی زمین سے آسمان تک کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے، عرش کے اوپر والے اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان کی مسافت جتنا فاصلہ ہے، اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس پر بنو آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل مخفی نہیں ہے۔

Haidth Number: 10209
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلی و افضل حصہ اور مقام ہے، اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے، اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔

Haidth Number: 10210
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، پھر اسی طرح کی حدیث بیان کی۔

Haidth Number: 10211
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے امیہ کے بعض اشعار کی تصدیق کی تھی، اس نے ایک شعر یہ کہا تھا: (حاملین عرش میں کوئی) مرد کی صورت پر ہے، کوئی بیل کی صورت پر ہے، اللہ تعالیٰ کی دائیں ٹانگ کے نیچے، تو کوئی گدھ کی صورت ہے اور کوئی گھات بیٹھے ہوئے شیر کی صورت پر۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امیہ نے سچ کہا ہے۔ ایک دفعہ اس نے یہ شعر کہا تھا: اور ہر رات کے آخر میں سورج طلوع ہوتا ہے، اس وقت وہ سرخ ہوتا ہے اور اس کا رنگ گلابی نظر آ رہا ہوتا ہے ، وہ انکار کردیتا ہے اور نرمی کے ساتھ طلوع نہیں ہوتا، وگرنہ اس کو عذاب دیا جاتا ہے اور کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔

Haidth Number: 10212
۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! انبیاء کی تعداد کتنی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ، چوبیس ہزار، ان میں تین سو پندرہ رسول تھے، جم غفیر تھا۔ ایک روایت میں ہے: ان میں تین سو چودہ پندرہ رسول تھے۔

Haidth Number: 10317
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دو۔

Haidth Number: 10318
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث فرمایا۔

Haidth Number: 10319
۔ سیدنا اوس بن ابی اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیا کے جسم کھائے، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔

Haidth Number: 10320
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خضر کی وجہ تسمیہیہ ہے کہ جب وہ خشک زمین، جس پر کوئی سبزہ نہ ہوتا، پر بیٹھتے تھے تو وہ سر سبز ہو کر ہلنے لگتی تھی۔ راوی کہتا ہے: فَرْوَۃ سے مراد سفید گھاس اور اس سے ملتی جلتی چیزیں ہیں، عبد اللہ راوی نے کہا: میرا خیال ہے کہ عبد الرزاق نے یہ تفسیر بیان کی ہے۔

Haidth Number: 10394
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خضر کے نام کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ خشک زمین، جس پر کوئی سبزہ نہ ہوتا، پر بیٹھتے تو وہ ان کے نیچے سبز ہو جاتی تھی۔

Haidth Number: 10395
۔ عبد الجبار خولانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک صحابی مسجد میں داخل ہوا، جبکہ سیدنا کعب وعظ کر رہے تھے، اس نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وعظ کر رہے ہیں، اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قصے بیان نہیں کرتا مگر امیر،یا مامور،یا متکبر۔ جب یہ بات سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو معلوم ہوئی تو اس کے بعد ان کو وعظ کرتے ہوئے نہیں پایا گیا۔

Haidth Number: 10422