Blog
Books
Search Hadith

تقدیر کے ساتھ عمل کرنے کا بیان

283 Hadiths Found
سیدنا ابو بکر صدیق ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عمل اس چیز کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا اس کے مطابق ہے، جو ازسرِ نو ہو رہی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس معاملے کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس چیز میں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 211
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ جہینہ یا مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جو گزر چکی ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے۔ اس آدمی نے یا کسی اور شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جنتیوں کے لیے اہلِ جنت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے اہلِ جہنم کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 212
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا سراقہ بن جعشم ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو ہم از سرِ نو کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا: تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے۔

Haidth Number: 213
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں، جس سے فارغ ہو ا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہم کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ سیدنا سراقہ ؓ نے کہا: تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر عامل کے لیے اس کا عمل آسان کر دیا گیا ہے۔

Haidth Number: 214
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ میں لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کو کرید رہے تھے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی منزل کا علم ہو چکا ہے کہ وہ جنت ہے یا جہنم۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر ہم عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور (اپنے ربّ سے) ڈرا اور نیک بات کی تصدیق کی۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔ لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اسی کے لیے اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔ (سورۂ لیل: ۵ تا۱۰)

Haidth Number: 215

۔ (۲۱۶) (وَ عَنْہُ فِیْ أُخْرٰی)۔عَنْ عَلِیٍّ (ؓ) قَالَ: کُنَّا مَعَ جَنَازَۃٍ فِیْ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ وَمَعَہُ مِخْصَرَۃٌ یَنْکُتُ بِہَا، ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَہُ فَقَالَ: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ اِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مََقْعَدُہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، اِلَّا قَدْ کُتِبَتْ شَقِیَّۃً أَوْ سَعِیْدَۃً۔)) فَقَالَ الْقَوْمُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَفَلَا نَمْکُثُ عَلَی کِتَابِنَا وَ نَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیَصِیْرُ اِلَی السَّعَادَۃِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشِّقْوَۃِ فَسَیَصِیْرُ اِلیَ الشِّقْوَۃِ؟ فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِعْمَلُوْا! فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشِّقْوَۃِ فَاِنَّہُ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِ الشِّقْوَۃِ، وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَاِنَّہُ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ۔)) ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی} اِلٰی قَوْلِہِ {فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی}۔ (مسند أحمد: ۱۰۶۷)

۔ (دوسری روایت)سیدنا علی ؓ کہتے ہیں: ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ارد گرد بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس ایک چھڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس سے زمین کو کرید، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنی نگاہ اوپر اٹھائی اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جنت اور جہنم کی صورت میںٹھکانہ لکھا جا چکا ہے اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ خوش بخت ہے یا بد بخت۔ لوگوں نے کہا: کیا ہم اپنی کتاب پر اعتماد کر کے عمل ترک نہ کر دیں، کیونکہ جو خوش بختوں میں سے ہو گا، وہ خوش بختی تک رسائی حاصل کرلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا، وہ بدبختی تک پہنچ جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، جو بد بختوں میں سے ہے، اس کے لیے بدبختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں اور جو خوش بختوںمیں سے ہے، اس کے لیے خوش بختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے یہ آیات تلاوت کیں: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی ۔ وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی ۔ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی ۔} … جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے ربّ سے)، اور نیک بات کی تصدیق کی، تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی، اور نیک بات کی تکذیب کی، تو ہم بھی اس کے لیے تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔

Haidth Number: 216
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جو عمل کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ اس (تقدیر) کے مطابق ہیں، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، یا اب ان کی ابتداء ہو رہی ہے اور ان کو ایجاد کیا جا رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ اس (تقدیر)کے مطابق ہے، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، اے ابن خطاب! عمل کر، پس ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، پس جو شخص خوش بختوں میں سے ہو، وہ خوش بختی کے لیے عمل کرتا ہے اور جو بد بختوںمیں سے ہو، وہ بد بختی کے لیے عمل کرتا ہے۔

Haidth Number: 217

۔ (۲۱۸)۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِؓ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیْ یَدِہِ کِتَابَانِ فَقَالَ: ((أَتَدْرُوْنَ مَا ہٰذَانِ الْکِتَابَانِ؟۔)) قَالَ: قُلْنَا: لَا اِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَدِہِ الْیُمْنٰی: ((ھٰذَا کِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی بِأَسْمَائِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَسْمَائِ آبَائِ ہِمْ وَ قَبَائِلِہِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلٰی آخِرِہِمْ لَا یُزَادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَسَارِہِ: ((ھٰذَا کِتَابُ أَہْلِ النَّارِ بِأَسْمَائِ ہِمْ وَ أَسْمَائِ آبَائِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلٰی آخِرِہِمْ لَا یُزْادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا۔))فقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: فَلِاَیِّ شَیْئٍ اِذَنْ نَعْمَلُ اِنْ کَانَ ھٰذَا أَمْرٌ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا! فَاِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّۃِ یُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَ اِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ، وَاِنَّ صَاحِبَ النَّارِ لَیُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَاِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ۔)) ثُمَّ قَالَ بِیَدِہِ فَقَبَضَہَا، ثُمَّ قَالَ: ((فَرَغَ رَبُّکُمْ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْعِبَادِ۔)) ثُمَّ قَالَ بِالْیُمْنٰی فَنَبَذَہَا فَقَالَ: ((فَرِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) وَ نَبَذَ بِالْیُسْرٰی فَقَالَ: ((فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۔)) (مسند أحمد: ۶۵۶۳)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ مبارک میں دو کتابیں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سی دو کتابیں ہیں؟ ہم نے کہا: جی نہیں، اے اللہ کے رسول! الّا یہ کہ آپ ہمیں بتا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی ہے (ٹوٹل)نہ ان میں بیشی ہو سکتی ہے، نہ کمی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں کہا: یہ جہنمیوں کی کتاب ہے، اس میں ان کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ صحابہ نے کہا: اگر اس معاملے سے اس قدر فارغ ہوا جا چکا ہے تو پھر ہم کس چیز کے لیے عمل کریں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: راہِ صواب پر چلتے رہو اور میانہ روی اختیار کرو، بیشک جنتی آدمی کا اختتام جنت والوں کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جون سا مرضی عمل کرتا رہے اور جہنمی آدمی کا اختتام اہلِ جہنم کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جو مرضی عمل کرتا رہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے ہاتھ کو بند کیا اور فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندوں سے فارغ ہو گیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دائیں سے اس کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جنت میں جائے گا۔ پھر بائیں ہاتھ سے کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جہنم میں جائے گا۔

Haidth Number: 218
سیدنا عبد الرحمن بن قتادہ سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور میں بے پروا ہوں اور یہ جہنم کے لئے ہیں او رمیں کوئی پروا نہیں کرتا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تقدیر کے مطابق۔

Haidth Number: 219
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا جہنمیوں کو جنتیوں سے پہچان لیا گیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر کوئی وہی عمل کر رہا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا یا جو اس کے لیے آسان کر دیا گیا۔

Haidth Number: 220

۔ (۲۲۱)۔عَنْ أَبِیْ الْأَسْوَدِ الدِّیْلِیِّ قَالَ: غَدَوْتُ عَلَی عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍؓ یَوْمًا مِنَ الْأَیَامٍ فَقَالَ: یَا أَبَاالْأَسْوَدِ! فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُہَیْنَۃَ أَوْ مِنْ مُزَیْنَۃَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ الْیَوْمَ وَیَکْدَحُوْنَ فِیْہِ،شَیْئٌ قُضِیَ عَلَیْہِمْ أَوْمَضٰی عَلَیْہِمْ فِیْ قَدْرٍ قَدْ سَبَقَ أَوْ فِیْمَا یُسْتَقْبَلُوْنَ مِمَّا أَتَاہُمْ بِہِ نَبِیُّہُمْ وَاتُّخِذَتْ عَلَیْہِمْ حُجَّۃٌ؟ قَالَ: ((بَلْ شَیْئٌ قُضِیَ عَلَیْہِمْ وَمَضٰی عَلَیْہِمْ۔)) قَالَ: فَلِمَ یَعْمَلُوْنَ اِذًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((مَنْ کَانَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَہُ لِوَاحِدَۃٍ مِنَ الْمَنْزِلَتَیْنِ یُہَیِّئُہُ لِعَمَلِہَا، وَتَصْدِیْقُ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوَاہَا} (مسند أحمد: ۲۰۱۷۸)

ابو اسود دیلی کہتے ہیں: میں ایک دن صبح صبح سیدنا عمران بن حصین ؓ کے پاس گیا ، انھوں نے کہا: اے ابو اسود، پھر پوری حدیث ذکر کی، اس میں ہے: بیشک جہینہ یا مزینہ قبیلے کا ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آجکل لوگ اپنے نبی کی لائی تعلیمات پر جو عمل اور محنت کر رہے ہیں اور جن کے ذریعے ان پر حجت قائم ہو چکی ہے، کیا یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا تقدیر میں فیصلہ ہو چکا ہے، یا یہ از سرِ نو ہو رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جو اِن لوگوں پر جاری ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر لوگ عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو دو منزلوں میں سے ایک کے لیے پیدا کیا ہے تو وہ اس کو اس کے عمل کے لیے تیار بھی کر تا ہے، اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب کی اس آیت میں ہے: پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر نکلنے کی۔ (سورۂ شمس: ۸)

Haidth Number: 221
سیدنا ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ ایسی چیز ہے، جس (کا فیصلہ کر کے) اس سے فارغ ہو اجا چکا ہے، یا از سرِ نو ہو رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے کہ جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کرنے کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر بندے کو اس چیز کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 222
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کیا کرو، کیونکہ وہ ہرگزتمہاری رہنمائی نہیں کریں گے، جبکہ وہ تو گمراہ ہو چکے ہیں، اور اس معاملے میں یا تو تم کو باطل کی تصدیق کرنا پڑے گی یا حق کو جھٹلانا پڑے گا، پس بیشک اگر موسیؑ بھی تمہارے اندر زندہ ہوتے تو ان کے لیے حلال نہ ہوتا، مگر میری پیروی کرنا۔

Haidth Number: 300
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓایک کتاب لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے، وہ ان کو کسی اہل کتاب سے ملی تھی، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر پڑھنا شروع کر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو تو غصہ آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے عمر بن خطاب! کیا تم اپنی شریعت کے بارے میں شک میں پڑ گئے ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس ایسی شریعت لے کر آیا ہوں، جو واضح، صاف (اور شک و شبہ سے پاک) ہے، اِن اہل کتاب سے سوال نہ کیا کرو، وگرنہ ایسے ہو سکتا ہے کہ وہ تم کو حق بات بتلائیں اور تم اس کو جھٹلا دو یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تم کو باطل بات بتلائیں اور تم اس کی تصدیق کردو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر موسیؑ زندہ ہوتے تو ان کو بھی صرف میری پیروی کرنے کی گنجائش ہوتی۔

Haidth Number: 301

۔ (۳۰۲)۔عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِؓ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلمفَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ مَرَرْتُ بِأَخٍ لِیْ مِنْ قُرَیْظَۃَ فَکَتَبَ لِیْ جَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاۃِ، أَ لَا أَعْرِضُہَا عَلَیْکَ؟ قَالَ: فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَقُلْتُ لَہُ: أَ لَا تَرٰی مَا بِوَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم؟ فَقَالَ عُمَرُ: رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَّمَدٍ رَسُوْلًا، قَالَ: فَسُرِّیَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ قَالَ: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ! لَوْ أَصْبَحَ فِیْکُمْ مُوْسٰی ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوْہُ وَتَرَکْتُمُوْنِیْ لَضَلَلْتُمْ، اِنَّکُمْ حَظِّیْ مِنَ الْأُمُمِ وَ أَنَا حَظُّکُمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۹۵۸)

سیدنا عبد اللہ بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! قریظہ کے ایک بھائی کے پاس سے میرا گزر ہوا، پس اس نے میرے لیے تورات کی اہم اہم باتیں لکھ دیں، کیا میں ان کو آپ پر پیش کروں؟ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا چہرہ متغیر ہونا شروع ہو گیا، سیدنا عبد اللہ ؓ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر ؓ سے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے چہرے پر کیا تبدیلی آئی ہے؟ سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے (غصے والی کیفیت) ختم ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے؟ اگر موسیؑ بھی تم میں آجائیں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤ گے، بیشک تم امتوںمیں سے میرا حصہ ہو اور میں انبیاء میں سے تمہارا حصہ ہوں۔

Haidth Number: 302
سیدنا ابو نملہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک یہودی آدمی آ گیا اور اس نے کہا: اے محمد! کیا یہ جنازے کلام کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اُس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ کلام کرتے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب اہل کتاب تم کو کوئی ایسی چیز بیان کریں تو نہ ان کی تصدیق کیا کرو اور نہ تکذیب، بلکہ اس طرح کہہ دیا کرو: آمَنَّا بِاللّٰہِ وَ کُتُبِہِ وَرُسُلِہِ (ہم اللہ تعالی، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔) پس اگر وہ حق ہوا تو تم نے اس کو جھٹلایا نہیں اور اگر وہ باطل ہوا تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

Haidth Number: 303
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ جاتا ہے اور اپنی ختنے والی جگہ اس کی ختنے والی جگہ سے ملا دیتا ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 841
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب ختنے والے دو مقامات مل جاتے ہیں اور حشفہ چھپ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 842
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کی چار شاخوں میں بیٹھ جائے اور پھر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالے (ایک روایت کے مطابق پھر اسے (بیوی کو) مشقت میں ڈالے) تو غسل واجب ہو جائے گا، انزال ہو یا نہ ہو۔

Haidth Number: 843
سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے سیدہ عائشہؓ سے کہا: میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، جبکہ میں آپ سے شرماتا بھی ہوں، انھوں نے کہا: تم سوال کرو اور نہ شرماؤ، میں تمہاری ماں ہی ہوں۔ پھر انھوں نے اس آدمی کے بارے میں سوال کیاجو اپنی بیوی سے مجامعت کرتا ہے، لیکن انزال نہیں ہوتا، انھوں نے جواباً کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب ختنہ والی جگہ، ختنے والی جگہ سے ٹکرا جائے تو غسل واجب ہوجائے گا۔

Haidth Number: 844
سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب ختنے والی جگہ، ختنے والی جگہ سے آگے بڑھ جائے (یعنی اندر داخل ہو جائے) تو غسل واجب ہو جائے گا۔

Haidth Number: 845

۔ (۸۴۶)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّہُ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَمَّا یُوجِبُ الْغُسْلَ وَعَنِ الْمَائِ یَکُونُ بَعْدَ الْمَائِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فِی الْبَیْتِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فِی الْمَسْجِدِ وَعَنْ مُؤَاکَلَۃِ الْحَائِضِ، فَقَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ، اَمَّا أَنَا فَاِذَا فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا، فَذَکَرَ الْغُسْلَ، قَالَ: أَتَوَضَّأُ وُضُوئِیْ لِلصَّلَاۃِ أَغْسِلُ فَرْجِیْ ثُمَّ ذَکَرَ الْغُسْلَ، وَأَمَّا الْمَائُ یَکُوْنُ بَعْدَ الْمَائِ فَذَالِکَ الْمَذْیُ وَکُلُّ فَحْلٍ یُمْذِیْ فَأَغْسِلُ مِنْ ذَالِکَ فَرْجِیْ وَأَتَوَضَّأُ، وَأَمَّا الصَّلٰوۃُ فِی الْمَسْجِدِ وَالصَّلٰوۃُ فِیْ بَیْتِیْ فَقَدْ تَرٰی مَا أَقْرَبَ بَیْتِیْ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَلَأَنْ أُصَلِّیَ فِیْ بَیْتِی أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّیَ فِی الْمَسْجِدِ اِلَّا أَنْ تَکُوْنَ صَلَاۃً مَکْتُوبَۃً، وَأَمَّا مُؤَاکَلَۃُ الْحَائِضِ فَآکُلُہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۹۲۱۶)

سیدنا عبد اللہ بن سعدؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوالات کیے: کون سی چیز غسل کو واجب کرتی ہے، پیشاب کے بعد آ جانے والے سفید قطروں کا حکم، گھر اور مسجد میں نماز کا حکم اور حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا، رہا مسئلہ میرا تو جب میں ایسے ایسے کرتا ہوں تو آپ نے غسل کا ذکر کیا، پھر میں نماز والا وضو کر تا ہوں، اپنی شرمگاہ کو دھوتا ہوں اور پھر غسل کر لیتا ہوں۔ رہا مسئلہ پیشاب کے بعد نکل آنے والے قطروں کا، تو یہ مذی ہے اور ہر نر کو مذی آ جاتی ہے، میں اس کی وجہ سے اپنی شرمگاہ کو دھوتا ہوں اور وضو کر لیتا ہوں، جہاں تک مسجد اور گھر میں نماز پڑھنے کی بات ہے تو تم دیکھ رہے ہو کہ میرا گھر میری مسجد کے بالکل قریب ہے، لیکن مجھے اپنے گھر میں نماز پڑھنا، مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ پسند ہے، الا یہ کہ فرضی نماز ہو، اور رہا مسئلہ حائضہ کے ساتھ کھانے پینے کا تو میں تو ایسی بیوی کے ساتھ کھاتا پیتا ہوں۔

Haidth Number: 846
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عصر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو، ہاںجب تک سورج بلند ہو، اس وقت تک پڑھ سکتے ہو۔

Haidth Number: 1206
سیدنا معاویہ ؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: بیشک تم لوگ ایک نماز پڑھتے ہو، یقینا ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی صحبت کو پایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تو اس نماز سے منع بھی کیا تھا، ان کی مراد عصر کے بعد والی دو رکعتیں تھیں۔

Haidth Number: 1207
ربیعہ بن درّاج کہتے ہیں: سیدنا علی بن ابو طالب ؓ نے مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کی بعد دو رکعتیں ادا کیں، پس جب سیدنا عمر ؓ نے ان کو دیکھا تو ان کو غصے ہوئے اور کہا: خبردار! اللہ کی قسم! تحقیق تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس نماز سے منع کیا تھا۔

Haidth Number: 1208

۔ (۱۲۰۹)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ وَابْنُ بَکْرٍ قَالَا: أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْأَعْمٰی یُخْبِرُ عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ السَّائِبُ مَوْلَی الْفَارِسِیِّیْنَ وَقَالَ ابْنُ بَکْرٍ: مَوْلًی لِفَارِسَ، وَقَالَ حَجَّاجٌ: مَوْلَی الْفَارِسِیِّیْنَ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّؓ أَنَّہُ رَآہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَھُوَ خَلِیْفَۃٌ رَکَعَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ فَمَشٰی اِلَیْہِ فَضَرَبَہُ بِالدِّرَّۃِ وَھُوَ یُصَلِّیْ کَمَا ہُوَ، فَلَمَّا اِنْصَرَفَ قَالَ زَیْدٌ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! فَوَاللّٰہِ! لَا أَدَعُہُمَا أَبَدًا بَعْدَ أَنْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْہِمَا، قَالَ: فَجَلَسَ اِلَیْہِ عُمَرُ وَقَالَ: یَا زَیْدُ بْنَ خَالِدٍ! لَوْلَا أَنْ أَخْشٰی أَنْ یَتَّخِذَہَا النَّاسُ سُلَّمًا اِلَی الصَّلَاۃِ حَتَّی اللَّیْلِ لَمْ أَضْرِبْ فِیْہِمَا۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۶۲)

سیدنا زید بن خالد جہنیؓ سے مروی ہے کہ خلیفۂ رسول سیدنا عمر ؓ نے اس کو عصر کی بعد دو رکعتیں ادا کرتے ہوئے دیکھا، پس وہ اس کی طرف گئے اور اس کو نماز کی حالت میں دُرّہ لگا دیا، لیکن جب سیدنا زید ؓفارغ ہوئے تو انھوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! چونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو دیکھنے کے بعد تو میں یہ عمل ترک نہیں کروں گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ؓان کے پاس بیٹھے اور کہا: اے زید بن خالد! اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ اس نماز کو رات تک نماز پڑھتے رہنے کا ذریعہ بنا لیں گے تو میں ان کی وجہ سے نہ مارتا۔

Haidth Number: 1209

۔ (۱۲۱۰)۔عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ قَالَ: اِنَّ عَائِشَۃَ أَخْبَرَتْ آلَ الزُّبَیْرِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی عِنْدَہَا رَکْعَتَیْنِ بعد الْعَصْرِ فَکَانُوْا یُصَلُّوْنَہَا، قَالَ قَبِیْصَۃُ: فقَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: یَغْفِرُاللّٰہُ لِعَائِشَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ عَائِشَۃَ، اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ لِأَنَّ أُنَاسًا مِنَ الْأَعْرَابِ أَتَوْارَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہَجِیْرٍ فَقَعَدُوْا یَسْأَلُوْنَہُ وَیُفْتِیْہِمْ حَتّٰی صَلَّی الظُّہْرَ وَلَمْ یُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَعَدَ یُفْتِیْہِمْ حَتّٰی صَلَّی الْعَصْرَ فَانْصَرَفَ اِلٰی بَیْتِہِ فَذَکَرَ أَنَّہُ لَمْ یُصَلِّ بَعْدَ الظُّہْرِ شَیْئًا فَصَلَّاہُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، یَغْفِرُ اللّٰہُ لِعَائِشَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ عَائِشَۃَ، نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ۔ (مسند أحمد: ۲۱۹۴۸)

قبیصہ بن ذؤیب کہتے ہیں: سیدہ عائشہ ؓ نے آلِ زبیر کو بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اُن کے پاس عصر کے بعد دو رکعتیں ادا کی تھیں، پس آل زبیر کے لوگ یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے، لیکن سیدنا زید بن ثابتؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ سیدہ عائشہؓ کو معاف کرے، ہم سیدہ کی بہ نسبت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو زیادہ جاننے والے ہیں، ان دو رکعتوں کی وجہ یہ تھی کہ کچھ بدّو لوگ دوپہر کے وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور سوال کرنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ان کے جوابات دینے لگے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نمازِ ظہر ادا کی اور پھر بعد والی دو سنتیں ادا کیے بغیر ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے سوالات کے جوابات دینے لگ گئے، یہاں تک کہ نماز عصر ادا کر لی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب گھر تشریف لے گئے تو آپ یاد آیا کہ ظہر کے بعد والی نماز نہیں پڑھی تھی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وہ دو رکعتیں عصر کے بعد ادا کیں، اللہ تعالیٰ سیدہ عائشہؓ کو معاف کرے، ہم سیدہ کی بہ نسبت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو زیادہ جاننے والے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

Haidth Number: 1210
عطاء بن سائب کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن مغفل مزنی ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا عمر ؓکی اولاد میں سے دونوجوان داخل ہوئے اور عصر کے بعد دو رکعتیں ادا کیں، انھوں نے اُن کی طرف پیغام بھیجا اور ان کو بلا کر کہا: یہ کون سی نماز ہے، جو تم نے پڑھی ہے، تمہارا باپ تو اس سے منع کرتا تھا؟ انھوں نے کہا: سیدہ عائشہ ؓ نے ہمیں بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کے پاس دو رکعتیں ادا کی تھیں، یہ سن کر سیدنا ابن مغفل ؓخاموش ہو گئے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا۔

Haidth Number: 1211
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدنا عمر ؓ کو غلطی ہوئی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تو طلوع آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت اہتمام کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا۔

Haidth Number: 1212
سیّدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امام صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔

Haidth Number: 1577