Blog
Books
Search Hadith

اور ان میں ایک عقبہ بن ابی معیط تھا

223 Hadiths Found
۔ سیدنا عروہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم مجھے یہ بتلاؤ کہ سب سے بڑی ایذا کون سی ہے، جو مشرکوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہنچائی؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے صحن میں نماز ادا کر رہے تھے، عقبہ بن ابی معیط وہاں آیا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے کو پکڑا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس کوبل دیئے اور سختی سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کاگلا دبایا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ متوجہ ہوئے، انھوں نے اس بد بخت کا کندھا پکڑا اور اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہٹایا اور کہا: کیا تم اس شخص کو قتل کرتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ اس کا ربّ اللہ ہے اور وہ تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے پاس واضح نشانیاں لایا ہے۔

Haidth Number: 10524

۔ (۱۰۵۲۵)۔ عَنْ ((یَحْیَیَ بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیْہِ عُرْوَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اَکْثَرَ مَا رَأَیْتَ قُرَیْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُوْلِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَا کَانَتْ تُظْھِرُ مِنْ عَدَاوَتِہِ؟ قَالَ حَضَرْتُھُمْ وَقَدِ اجْتَمَعَ أَشْرَافُھُمْ یَوْمًا فِی الْحِجْرِ، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: مَارَأَیْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَیْہِ مِنْ ھٰذَا الرَّجُلِ قَطُّ، سَفَّہَ أَحْلَامَنَا وَشَتَمَ آبَائَنَا وَعَابَ دِیْنَنَا وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَبَّ آلِھَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْہُ عَلَی أَمْرٍ عَظِیْمٍ أَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ: فَبَیْنَمَا ھُمْ کَذٰلِکَ اِذْ طَلَعَ عَلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَقْبَلَ یَمْشِیْ حَتَّی اسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّّ مَرَّ بِھِمْ طَائِفًا بِالْبَیْتِ، فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِھِمْ غَمَزُوْہُ بِبَعْضِ مَا یَقُوْلُ، قَالَ: فَعَرَفْتُ ذٰلِکَ فِیْ وَجْھِہِ ثُمَّّ مَضٰی فَلَمَّا مَرَّ بِھِمُ الثَّانِیَۃَ غَمَزُوْہُ بِمِثْلِھَا فَعَرَفْتُ ذٰلِکَ فِیْ وَجْھِہِ، ثُمَّّ مَضٰی ثُمَّّ مَرَّ بِھِمُ الثَّالِثَۃَ فَغَمَزُوْہُ بِمِثْلِھَا، فَقَالَ: ((تَسْمَعُوْنَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! أَمَا وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِالذَّبْحِ)) فَاَخَذَتِ الْقَوْمَ کَلِمَتُہُ حَتّٰی مَا مِنْھُمْ رَجُلٌ اِلَّا کَأَنَّمَا عَلٰی رَأْسِہِ طَائِرٌ وَاقِعٌ، حَتّٰی اِنَّ أَشَدَّھُمْ فِیْہِ وَصَاۃً قَبْلَ ذٰلِکَ لَیَرْفَؤُہُ بِاَحْسَنِ مَایَجِدُ مِنَ الْقَوْلِ حَتّٰی اِنَّہُ لَیَقُوْلُ: انْصَرِفْ یَا أَبَا الْقَاسِمِ! انْصَرِفْ رَاشِدًا، فَوَاللّٰہِ! مَا کُنْتَ جَھُوْلًا، قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اِذَا کَانَ الْغَدُ اجْتَمَعُوْا فِی الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَھُمْ فَقَالَ بَعْضُھْمُ لِبَعْضٍ: ذَکَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْکُمْ وَمَا بَلَغَکُمْ عَنْہُ، حَتّٰی اِذَا بَادَئَ کُمْ بِمَا تَکْرَھُوْنَ تَرَکْتُمُوْہُ فَبَیْنَمَا ھُمْ فِیْ ذٰلِکَ اِذْ طَلَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَثَبُوْا اِلَیْہِ وَثْبَۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَأَحَاطُوْا بِہٖیَقُوْلُوْنَ لَہُ: أَنْتَ الَّذِیْ تَقُوْلُ کَذَا وَکَذَا کَمَا کَانَ یَبْلُغُھُمْ عَنْہُ مِنْ عَیْبِ آلِھَتِھِمْ وَدِیْنِھِمْ، قَالَ: فَیَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَعَمْ أَنَا الَّذِیْ أَقُوْلُ ذٰلِکَ۔)) قَالَ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا مِنْھُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِہِ، قَالَ: وَقَامَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِیْقُ دُوْنَہُ، یَقُوْلُ وَھُوَ یَبْکِیْ: {أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ یَقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ} ثُمَّ انْصَرَفُوْا عَنْہُ، فَاِنَّ ذٰلِکَ لَأَشَدُّ مَارَأَیْتُ قُرَیْشًا بَلَغَتْ مِنْہُ قَطُّ۔ (مسند احمد: ۷۰۳۶)

۔ سیدنا عروہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: وہ کون سی سخت تکلیف ہے، جو قریشیوں نے اپنی دشمنی کی وجہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہنچائی ہو؟ انھوں نے کہا: میں خود ایک دفعہ موجود تھا، اشرافِ قریش حطیم میںجمع تھے، انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تذکرہ کیا اور کہا: ہم نے اس شخص (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) پر جتنا صبر کر لیا ہے، اتنا صبر تو کبھی بھی نہیںکیا تھا، اس نے ہمارے عقلاء کو بیوقوف بنادیا ہے، ہمارے آباء کو گالیاں دی ہیں، ہمارے دین کو معیوب قرار دیا ہے، ہماری جماعت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے معبودوںکو برا بھلا کہا ہے، بس ہم نے بہت بڑی چیز پر صبر کیا ہوا ہے، وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تشریف لے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے ہوئے آگے بڑھے، حجرِ اسود کا استلام کیا اور پھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس سے گزرے تو انھوں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعض باتوں کی وجہ سے (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کااستہزاء کرتے ہوئے) آپس میں آنکھوں اور ابروؤں سے اشارے کیے، میں نے اس چیز کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے میں محسوس کیا (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی ان باتوں کو بھانپ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آنے لگے) ، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے چلے گئے، جب دوسری بار گزرے تو پھر انھوں نے آنکھوں سے اشارے کیے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے کو دیکھ کر اس چیزکو پہنچان لیا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیسری دفعہ گزرے اور انھوں نے آنکھوں سے اشارے کیے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریشیوں کی جماعت! سن لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میں ہلاکت کو لے کر تمہارے پاس آیا ہوں۔ اس کلمے نے ان لوگوں پر اس قدر اثر کیا کہ ان میں سے ہر بندہ یوں خاموش ہو گیا، جیسے کے اس کے سرپر پرندہ بیٹھ گیا ہو، یہاں تک کہ ان میں جو آدمی اس سے پہلے وصیت کرنے میں سب سے سخت تھا، وہ بہترین الفاظ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدح کرنے لگا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! آپ آگے چلیں، آپ آگے چلیں، اس حال میں کہ آپ ہدایتیافتہ ہیں، اللہ کی قسم! آپ جاہل نہیں ہیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگے چل دیئے، جب اگلا دن آیا اور یہ لوگ حطیم میں جمع ہوئے، جبکہ میں بھی ان کے ساتھ تھا، تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: تم نے پہلے تو ان امور کا ذکرکیا جو تم کو اس (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سے اور اس کو تم سے پہنچے ہیں، پھر جب اس نے تمہارے سامنے آکر ان ہی چیزوں کا تذکرہ کیا، جن کو تم ناپسند کر رہے تھے تو تم نے اس کو چھوڑ دیا، پس وہ اسی قسم کی باتوں میں مگن تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی وہاں پہنچ گئے، اب کی بار تو وہ یک مشت ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کود پڑے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیر لیا اور کہا: تو وہی ہے جو ہمارے معبودوں اور دین کے معیوب ہونے کی اس قسم کی باتیں کرتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، میں ہی ہوں ایسی باتیں کرنے والا۔ پھر میں نے ان میں سے ایک آدمی کودیکھا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر کو پکڑا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روتے ہوئے آئے اور انھوں نے کہا: کیا تم ایسے شخص کوقتل کرتے ہو، جو یہ کہتاہے کہ اس کا ربّ اللہ ہے۔ پھر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے، یہ سب سے سخت ایذا تھی، جو قریشیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہنچائی، میں نے اس قسم کی تکلیف کبھی نہیںدیکھی تھی۔

Haidth Number: 10525

۔ (۱۰۶۹۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ أَصَبْنَا مِنْ ثِمَارِہَا، فَاجْتَوَیْنَاہَا وَأَصَابَنَا بِہَا وَعْکٌ، وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَبَّرُ عَنْ بَدْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَنَا أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَقْبَلُوا، سَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَدْرٍ، وَبَدْرٌ بِئْرٌ،فَسَبَقَنَا الْمُشْرِکُونَ إِلَیْہَا، فَوَجَدْنَا فِیہَا رَجُلَیْنِ مِنْہُمْ، رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ وَمَوْلًی لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَأَمَّا الْقُرَشِیُّ فَانْفَلَتَ، وَأَمَّا مَوْلَی عُقْبَۃَ فَأَخَذْنَاہُ فَجَعَلْنَا نَقُولُ لَہُ: کَمِ الْقَوْمُ؟ فَیَقُولُ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ، فَجَعَلَ الْمُسْلِمُونَ، إِذْ قَالَ ذٰلِکَ، ضَرَبُوہُ حَتّٰی انْتَہَوْا بِہِ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ: ((کَمِ الْقَوْمُ؟)) قَالَ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ، فَجَہَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُخْبِرَہُ کَمْ ہُمْ فَأَبٰی، ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَہُ: ((کَمْ یَنْحَرُونَ مِنَ الْجُزُرِ۔)) فَقَالَ: عَشْرًا کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْقَوْمُ أَلْفٌ کُلُّ جَزُورٍ لِمِائَۃٍ۔)) وَتَبِعَہَا ثُمَّ إِنَّہُ أَصَابَنَا مِنَ اللَّیْلِ طَشٌّ مِنْ مَطَرٍ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَہَا مِنَ الْمَطَرِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُو رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَیَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْفِئَۃَ لَا تُعْبَدْ۔)) قَالَ: فَلَمَّا أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَی الصَّلَاۃَ عِبَادَ اللّٰہِ، فَجَائَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ فَصَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَرَّضَ عَلَی الْقِتَالِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ جَمْعَ قُرَیْشٍ تَحْتَ ہٰذِہِ الضِّلَعِ الْحَمْرَائِ مِنَ الْجَبَلِ۔)) فَلَمَّا دَنَا الْقَوْمُ مِنَّا وَصَافَفْنَاہُمْ، إِذَا رَجُلٌ مِنْہُمْ عَلٰی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ یَسِیرُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَلِیُّ! نَادِ لِی حَمْزَۃَ۔)) وَکَانَ أَقْرَبَہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، وَمَاذَا یَقُولُ لَہُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنْ یَکُنْ فِی الْقَوْمِ أَحَدٌ یَأْمُرُ بِخَیْرٍ فَعَسٰی أَنْ یَکُونَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ۔)) فَجَائَ حَمْزَۃُ، فَقَالَ: ہُوَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَہُوَ یَنْہٰی عَنِ الْقِتَالِ، وَیَقُولُ لَہُمْ: یَا قَوْمُ! إِنِّی أَرٰی قَوْمًا مُسْتَمِیتِینَ لَا تَصِلُونَ إِلَیْہِمْ وَفِیکُمْ خَیْرٌ،یَا قَوْمُ! اعْصِبُوہَا الْیَوْمَ بِرَأْسِی، وَقُولُوا: جَبُنَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی لَسْتُ بِأَجْبَنِکُمْ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ہٰذَا؟ وَاللّٰہِ! لَوْ غَیْرُکَیَقُولُ ہٰذَا، لَأَعْضَضْتُہُ قَدْ مَلَأَتْ رِئَتُکَ جَوْفَکَ رُعْبًا، فَقَالَ عُتْبَۃُ: إِیَّایَ تُعَیِّرُیَا مُصَفِّرَ اسْتِہِ! سَتَعْلَمُ الْیَوْمَ أَیُّنَا الْجَبَانُ، قَالَ: فَبَرَزَ عُتْبَۃُ وَأَخُوہُ شَیْبَۃُ وَابْنُہُ الْوَلِیدُ حَمِیَّۃً، فَقَالُوا: مَنْ یُبَارِزُ؟ فَخَرَجَ فِتْیَۃٌ مِنْ الْأَنْصَارِ سِتَّۃٌ، فَقَالَ عُتْبَۃُ: لَا نُرِیدُ ہٰؤُلَائِ وَلٰکِنْ یُبَارِزُنَا مِنْ بَنِی عَمِّنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُمْ یَا عَلِیُّ! وَقُمْ یَا حَمْزَۃُ! وَقُمْ یَا عُبَیْدَۃُ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ!)) فَقَتَلَ اللّٰہُ تَعَالَی عُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدَ بْنَ عُتْبَۃَ وَجُرِحَ عُبَیْدَۃُ، فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ سَبْعِینَ وَأَسَرْنَا سَبْعِینَ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَصِیرٌ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَسِیرًا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا وَاللّٰہِ مَا أَسَرَنِی، لَقَدْ أَسَرَنِی رَجُلٌ أَجْلَحُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْہًا، عَلٰی فَرَسٍ أَبْلَقَ مَا أُرَاہُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: أَنَا أَسَرْتُہُ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اسْکُتْ فَقَدْ أَیَّدَکَ اللّٰہُ تَعَالَی بِمَلَکٍ کَرِیمٍ۔)) فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: فَأَسَرْنَا وَأَسَرْنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْعَبَّاسَ وعَقِیلًا وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ۔ (مسند احمد: ۹۴۸)

سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہاں کی آب وہوا ہمیں راس نہ آئی اور ہمیں شدید بخار نے آلیا۔ اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کے متعلق حالات و واقعات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ مشرکین مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑے ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف روانہ ہوئے، بدر ایک کنوئیں کا نام ہے مشرکین ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے، ہمیں وہاں دو مشرک ملے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام تھا، قریشی تو وہاں سے بھاگ نکلا البتہ عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ہم اس سے پوچھنے لگے کہ قریشیوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ کہتا اللہ کی قسم وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور سازوسامان کے لحاظ سے بھی وہ مضبوط ہیں، اس نے جب یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے بھی اس سے دریافت کیا کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ تو اس نے پھر وہی کہا کہ اللہ کی قسم! ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور سازوسامان بھی ان کے پاس کافی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پورا زور لگایا تاکہ وہ بتلادئے کہ ان کی تعداد کس قدر ہے؟ مگر اس نے کچھ نہ بتلایا۔ بعدازاں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ اس نے بتلایا کہ روزانہ دس اونٹ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی تعداد ایک ہزار ہے ایک سو کے لگ بھگ افراد کے لیے ایک اونٹ ہوتا ہے۔ بعدازاں رات کو بوندا باندی ہو گئی ہم نے بارش سے بچاؤ کے لیے درختوں اور ڈھالوں کی پناہ لی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساری رات اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہہ رہے تھے یا اللہ ! اگر تو نے اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ صبح صادق ہو ئی تو آپ نے آواز دی، لوگو! نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ لوگ درختوں اور ڈھالوں کے نیچے سے نکل آئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں دشمن کے خلاف لڑنے کی ترغیب دلائی، پھر آپ نے فرمایا کہ قریش کیجماعت اس ٹیڑھے سرخ پہاڑ کے نیچے ہو گی جب دشمن ہمارے قریب آئے اور ہم بھی ان کے بالمقابل صف آراء ہوئے تو ان میں سے ایک آدمی اپنے سرخ اونٹ پر سوار دشمن کی فوج میں چکر لگا رہا تھا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پکار کر فرمایا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کومیری طرف بلاؤ وہ مشرکین کا سب سے قریبی رشتہ دار تھا، آپ نے پوچھا یہ سرخ اونٹ والا آدمی کون ہے؟ اور وہ ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی بھلامانس ان کو اچھی بات کہنے والا ہوا تو وہ یہی سرخ اونٹ والا ہی ہو گا۔حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو انہوں نے بتلایا کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو انہیں قتال سے منع کر رہا ہے اور ان سے کہہ رہا ہے لوگو! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو مرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور تم ان تک نہیں پہنچ سکو گے۔ اسی میں تمہاری خیر ہے، لوگو! تم لڑائی سے پیچھے ہٹنے کی عار میرے سر پر باندھو، اور کہہ دوکہ عتبہ بن ربیعہ نے بزدلی دکھائی، تم جانتے ہو کہ میں تم سے زیادہ بزدل نہیں ہوں، ابو جہل نے اس کی باتیں سنیں تو کہا ارے تم ایسی باتیںکہہ رہے ہو؟ کوئی دوسرا کہتا تو میں اس سے کہتا جا کر اپنے باپ کی شرم گاہ کوکاٹ کھاؤ، تمہارے دل میں تو خوف بھر گیا ہے۔ تو عتبہ نے کہا ارے اپنی دبر کو زعفران سے رنگنے والے کیا تو مجھے عار دلاتا ہے ؟ آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرماتے ہیں چنانچہ عتبہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید قومی حمیت وغیرت کے جذبہ سے مقابلے میں نکلے اور عتبہ نے پکارا، کون آئے گا ہمارے مقابلہ میں؟ تو چھ انصاری اس کے جواب میں سامنے آئے۔ تو عتبہ نے کہا ہم ان سے لڑنا نہیں چاہتے، ہم تو اپنے عم زاد بنو عبدالمطلب کو مقابلے کی دعوت دیتے ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! تم اٹھو، حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھو اور عبیدہ بن حارث بن مطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تم اُٹھو، تو اللہ تعالیٰ نے ربیعہ کے دونوں بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو قتل کر دیا اور مسلمانوں میں سے عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زخمی ہو گئے۔ مسلمانوں نے ستر کا فروں کو قید اور ستر کو قتل کیا، ایک پست قد انصاری صحابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عباس بن عبدالمطلب کو گرفتار کر لائے، تو عباس نے کہا اللہ کے رسول! ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کی قسم مجھے اس نے نہیں بلکہ مجھے ایک ایسے آدمی نے گرفتار کیا ہے جس کے سر کے دونوں پہلوؤں پربال نہیں تھے۔ جو انتہائی حسین وجمیل تھا اور اس کے گھوڑے کی ٹانگیں رانوں تک سفید تھیں۔ وہ آدمی مجھے آپ لوگوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ تو انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے رسول! اسے میں نے ہی گرفتار کیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خاموش رہو، اس سلسلہ میں اللہ نے اپنے ایک معزز فرشتے کے ذریعے تمہاری نصرت کی تھی۔ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے بہت سے کافروں کو اور بنو عبدالمطلب میں سے عباس، عقیل اور نوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔

Haidth Number: 10695

۔ (۱۰۶۹۶)۔ عن ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہٰؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُم الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا تَرٰییَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰییَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہٰؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُوبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُوَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنَ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنَ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمُ الْفِدَائ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالَی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)

سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیریعبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں کے اندر مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیمراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓاَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ لَوْ لَا کِتٰب’‘ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت شہید کر دئیے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔

Haidth Number: 10696

۔ (۱۰۶۹۷)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاوَرَ النَّاسَ یَوْمَ بَدْرٍ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِیَّانَا تُرِیدُ؟ فَقَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِیضَہَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاہَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَہَا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ فَعَلْنَا فَشَأْنَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَنَدَبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی نَزَلَ بَدْرًا وَجَائَتْ رَوَایَا قُرَیْشٍ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ لِبَنِی الْحَجَّاجِ أَسْوَدُ، فَأَخَذَہُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَأَلُوہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ وَأَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو سُفْیَانَ فَلَیْسَ لِی بِہِ عِلْمٌ، وَلٰکِنْ ہٰذِہِ قُرَیْشٌ وَأَبُو جَہْلٍ وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ قَدْ جَائَ تْ، فَیَضْرِبُونَہُ فَإِذَا ضَرَبُوہُ، قَالَ: نَعَمْ، ہَذَا أَبُو سُفْیَانَ، فَإِذَا تَرَکُوہُ فَسَأَلُوہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ، قَالَ: مَا لِی بِأَبِی سُفْیَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلٰکِنْ ہٰذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ جَائَتْ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی فَانْصَرَفَ فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ لَتَضْرِبُونَہُ إِذَا صَدَقَکُمْ وَتَدَعُونَہُ إِذَا کَذَبَکُمْ۔)) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ فَوَضَعَہَا، فَقَالَ: ((ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، وَہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) فَالْتَقَوْا فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَاللّٰہِ! مَا أَمَاطَ رَجُلٌ مِنْہُمْ عَنْ مَوْضِعِ کَفَّیِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَخَرَجَ إِلَیْہِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ وَقَدْ جَیَّفُوا، فَقَالَ: ((یَا أَبَا جَہْلٍ! یَا عُتْبَۃُ! یَا شَیْبَۃُ! یَا أُمَیَّۃُ! قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا۔)) فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تَدْعُوہُمْ بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ وَقَدْ جَیَّفُوا، فَقَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ غَیْرَ أَنَّہُمْ لَا یَسْتَطِیعُونَ جَوَابًا، فَأَمَرَ بِہِمْ فَجُرُّوا بِأَرْجُلِہِمْ فَأُلْقُوا فِی قَلِیبِ بَدْرٍ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۹)

سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدر کے دن لوگوں سے مشاورت کی، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی تو آپ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا، پھر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف سے بھی منہ موڑ لیا، تو انصار نے کہا اللہ کے رسول! آپ ہماری بات کے منتظر ہیں؟ تو مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا( دوسری روایت میں سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام ہے) اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ اگر ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کود جائیں اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک اپنی سواریاں دوڑانے کا حکم دیں تو ہم اس کے لیے بھی حاضر ہیں۔ اللہ کے رسول! جو مقصد پیشِ نظر ہے اس کے لیے چلیں، چنانچہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کرام کو روانگی کا حکم دیا۔ آپ روانہ ہو کر بدر کے مقام پر نزول فرما ہوئے، قریش کے پانی لانے والے اونٹ پر آدمی آئے۔ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا، اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پکڑ لیا۔ مسلمانوں نے اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا ابو سفیان کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا۔ البتہ قریش، ابوجہل اور امیہ بن خلف وغیرہیہاں آئے ہوئے ہیں مسلمان اس کی بات سن کر اسے مارنے لگے مسلمانوں نے جب اسے مارا تو اس نے کہا ہاں ہاں ابو سفیان وہاں ہے، جب اسے مارنا چھوڑ کر اس سے ابو سفیان کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا مجھے تو ابوسفیان کے متعلق کچھ علم نہیں، البتہ قریشیہاں آئے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا فرما رہے تھے۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا، وہ سچ کہتا ہے تو اسے مارتے ہو جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ جگہوں پر ہاتھ رکھ رکھ کر فرمایا، ان شاء اللہ کل فلاں آدمییہاں مر کر گرے گا اور فلاں آدمییہاں گرے گا۔ مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دی، اللہ کی قسم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلیوں والی جگہوں سے کوئی بھی آدمی ادھر اُدھر نہ گرا۔ تین دن بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان مردہ کافروں کی طرف گئے۔ ان کی لاشوں میںبدبو پڑ چکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اے ابو جہل! اے عتبہ! اے شیبہ! اے امیہ! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا تم اسے سچ پا چکے ہو۔ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچا پایا۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو مرے ہوئے تین دن گزر چکے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے ہم کلام ہو رہے ہیں؟ جب کہ ان کے لاشو میں بدبو پڑ چکی ہے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ جواب دینے کی استطاعت نہیں رکھتے، چنانچہ آپ نے ان مردوں کے متعلق حکم صادر فرمایا، انہیں ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔

Haidth Number: 10697
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری شخص (عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) رات کو دیر تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے،یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزر گیا، جبکہ رات بھی سخت اندھیری تھی۔ پھرجب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے اٹھ کر واپس چلے تو دونوں کے پاس ایک ایک لاٹھی تھی، ان میں سے ایک کی لاٹھی روشن ہوگئی اور وہ اس کی روشنی میں چلتے گئے، آگے جا کر جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی اور اس طرح وہ دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔

Haidth Number: 11628
۔ (دوسری سند) سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سخت اندھیری رات میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے رہے، وہ آپ کے ہاں سے اٹھ کر گئے تو ان میں سے ایک کی لاٹھی روشن ہوگئی اور وہ اس کی روشنی میں چلتے گئے، آگے جا کر جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو دوسرے کیلاٹھی بھی روشن ہوگئی۔ حماد راوی نے یوں کہا ہے کہ جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو اس کی لاٹھی روشن تھی اور دوسرے کی بھی روشن ہوگئی۔

Haidth Number: 11629
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سورۂ کہف کی تلاوت کی، جس گھر میں وہ تلاوت کر رہا تھا، اس میں اس کی سواری بھی بندھی ہوئی تھی، وہ سواری بدکنا شروع ہو گئی، اس نے دیکھا کہ ایک بادل اس پر چھا رہا ہے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: او فلاں! تو پڑھتا رہتا، یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہو رہی تھی۔

Haidth Number: 11630
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہا کرتی تھیں کہ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا افضل ترین لوگوں میں سے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ تین مواقع پر میری جو کیفیت ہوتی ہے، اگر میں اسی حالت پر برقرار رہوں تو یقینا جنتی ہوں گا: (۱)جب میں قرآن کی تلاوت خود کر رہا ہوں یا کسیسے سن رہا ہوں، (۲)جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خطبہ سنتا ہوں اور (۳)جب میں کسی جنازہ میں شریک ہوتا ہوں تو میری تمام تر توجہ اس طرف ہوتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔

Haidth Number: 11631

۔ (۱۱۶۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَدِمْنَا مِنْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ فَتُلُقِّینَا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ، وَکَانَ غِلْمَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ تَلَقَّوْا أَہْلِیہِمْ فَلَقُوا أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ فَنَعَوْا لَہُ امْرَأَتَہُ فَتَقَنَّعَ وَجَعَلَ یَبْکِی، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَکَ مِنْ السَّابِقَۃِ وَالْقِدَمِ، مَا لَکَ تَبْکِی عَلَی امْرَأَۃٍ، فَکَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ وَقَالَ: صَدَقْتِ لَعَمْرِی حَقِّی أَنْ لَا أَبْکِی عَلٰی أَحَدٍ بَعْدَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، وَقَدْ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ، قَالَتْ: قُلْتُ لَہُ: مَا قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَقَدِ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِوَفَاۃِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) قَالَتْ: وَہُوَ یَسِیرُ بَیْنِی وَبَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۰۵)

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب ہم حج یا عمرہ سے واپس آئے تو اہل مدینہ نے ذوالحلیفہ میں آکر ہمارا استقبال کیا، انصار کے لڑکے بھی اپنے گھر والوں کو ملنے آئے، جب ان کی سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو ان کو ان کی اہلیہ کی وفات کی خبر دی، انہوںنے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا اور رونے لگ گئے۔ ام المومنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:میں نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کرے آپ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں اور آپ کو بہت سی فضیلتیں حاصل ہیں۔ آپ بیوی کی وفات پر اس قدر کیوں رو رہے ہیں؟ انہوںنے اپنے سر سے کپڑا ہٹا کر کہا: آپ نے درست کہا ہے، واقعی حق تو یہ ہے کہ میں سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد کسی پر نہ روئوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں بہت کچھ فرمایا ہے۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ انہوںنے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاکہ اللہ کا عرش سعد بن معاذ کی وفات پر جھوم گیا۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: یہ بات بیان کرتے وقت سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان چل رہے تھے۔

Haidth Number: 11632
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کی بیعت لیا کرتے تھے کہ حاکم کا حکم سن کر اس کی اطاعت کی جائے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود ہی فرما دیتے: جتنی تم میں طاقت اور استطاعت ہو۔ ایک راوی نے کہا: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں لقمہ دیتے اور یادہانی کرا دیتے کہ جتنی تم میں طاقت ہو گی (اس کے مطابق تم حاکم کی اطاعت کرو گے)۔

Haidth Number: 12133
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی کہ ہم حکمران کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن تمہاری استطاعت کے مطابق۔

Haidth Number: 12134
۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے اس دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ میں حکمران کی بات سنوں گا اور اس کی اطاعت کروں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن جتنی طاقت، اس کے مطابق۔

Haidth Number: 12135
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی کہ ہم مشکل میں اور آسانی میں، چستی میں اور سستی میں اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کے باوجود حاکم کی بات مانیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکومت کے معاملے میں حکومت کے افراد سے جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے، وہ جہاں بھی ہو گا، اور ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 12136
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ سات نقباء میں سے ایک تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور آسانی میں اور خوشی اور ناخوشی میں حکمران کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، حکومت کے بارے میں اہل حکومت سے جھگڑ انہیں کر یں گے اور ہم جہاں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ سفیان راوی نے کہا: بعض حضرات نے اس حدیث میں یہ الفاظ زائد روایت کیے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (تم اس وقت تک حکمران کی اطاعت کرنا) جب تک واضح کفر نہ دیکھ لو۔

Haidth Number: 12137
سیدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خواتین سے چھ امور کی بیعت لی تھی، اسی طرح ہم سے بھی اتنے امور کی کی بیعت لی، یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، زنا نہیں کر و گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کر و گے، ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہیں کرو گے، اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے، تم میں سے جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس پر شرعی حد واجب ہوتی ہو، تو اگر اس کو دنیا میں اس جرم کی سزا مل گئی تو وہ سزا اس کے لیے کفارہ ہوگی اور اگر سزا آخرت تک مؤخر ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے، جیسے اس کی مرضی ہو گی۔

Haidth Number: 12138
سیدنا سلمہ بن قیس اشجمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: خبردار! یہ چار امور ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ نے جس جان کے قتل کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے، اسے ناحق قتل نہ کرنا، زنانہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے جب سے یہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہیں، اس وقت سے مجھے ان کی کوئی رغبت اور حرص ہی نہیں ہے۔

Haidth Number: 12139
سیدنا حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ میں نہیں گروں گا، مگر کھڑے کھڑے ہی۔

Haidth Number: 12140
سیدناقطبہ بن قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنی بیٹی حوصلہ کی طرف سے بیعت کی تھی۔ ان کی کنیت ابو حوصلہ تھی۔

Haidth Number: 12141
ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بنو ثقیف کے بارے میں پوچھا، جب انھوں نے بیعت کی تھی؟ انہوںنے کہا: بنو ثقیف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ یہ شرط لگائی تھی کہ نہ ان پر صدقہ ہو گا اور نہ جہاد، پھر ابوزبیر نے کہا کہ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جب وہ صحیح طور پر مسلمان ہوجائیں گے تو عنقریب صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔

Haidth Number: 12142
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک غلام نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہجرت کرنے پر بعیت کر لی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک اسے لینے کے لیے آگیا ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا۔ تم یہ غلام مجھے بیچ دو۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو سیاہ فام غلاموں کے عوض اس کو خریدلیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تک یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا یہ شخص غلام ہے؟ اس وقت تک کسی سے بیعت نہیں لیتے تھے۔

Haidth Number: 12143
سیدناسعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبیلہ بنی ناجیہ کے بارے میں فرمایا: میں ان سے اور وہ مجھ سے ہیں، (یعنی وہ میرے اور میں ان کا ہوں)۔

Haidth Number: 12560
ایک دوسری روایت جو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بھتیجے سے مروی ہے، اس میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں بنو ناجیہ کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قبیلہ مجھ سے ہے۔ اس روایت کی سند میں سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

Haidth Number: 12561
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو نخع کے اس قبیلہ کے حق میں اس قدر دعا کی یا یوں کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی اس قدر مدح کی کہ میں نے تمنا کی کہ میں بھی ان میں سے ایک فرد ہوتا۔

Haidth Number: 12562
حنظلہ بن نعیم سے مروی ہے کہ وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے، یہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عادت تھی کہ جب وفد کا کوئی آدمی ان کے پاس سے گزرتا تو وہ اس سے دریافت کرتے کہ وہ کس قبیلہ سے ہے؟ یہاں تک کہ میرے والد سیدنا حنظلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ان کے پاس سے گزر ہوا، انہوں نے ان سے پوچھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہیں؟ انہوںنے کہا: میں عنزہ قبیلے سے ہوں، یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: یہاںایک قبیلہ ایسا بھی ہے کہ ان پر ظلم کیا جائے گا، لیکن ان کی تائید و نصرت کی جائے گی۔

Haidth Number: 12563
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ میرے اہل بیت کا ایک آدمی حکمران نہیں بنے گا، وہ میرا ہم نام ہوگا۔ امام احمد نے کہا: سفیان بن عینیہ نے ہمیں یہ حدیث اپنے گھر کے ایک کمرے میں اس وقت بیان کی، جب جعفر بن یحییٰ یا یحییٰ بن خالد کے ایک بیٹے نے ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تھا۔

Haidth Number: 12918
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایام اور یہ زمانہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا،جب تک میرے اہل بیت کا ایک ایسا آدمی عرب کی سرزمین کا حکمران نہیں بنے گا، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا۔

Haidth Number: 12919
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگردنیا کا صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو توپھر بھی اللہ تعالیٰ ہم میں سے ایک آدمی کو بھیجے گا، جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و عدوان سے بھری ہوئی ہوگی۔

Haidth Number: 12920
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ میرے اہل بیت کا ایک آدمی برسرِاقتدار نہیں آجائے گا، وہ انتہائی خوبصورت اونچے ناک والا ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا، جیسے یہ اس سے پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی، وہ سات برس ٹھہرے گا۔

Haidth Number: 12921
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں اس بات کا اندیشہ ہوا کہ نبی کریم کے بعد دنیا میں مختلف حوادث رونما ہوں گے، اس لیے ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں ایک شخص مہدی پانچ یا سات یا نو کے لیے نکلے گا۔ زید راوی کو شک ہوا، میں نے کہا: اس عدد سے کیا مراد ہے؟ انھوں کہا: سال، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آسمان لوگوں پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا اور زمین اپنی کھیتیوں میں سے کچھ بھی اپنے اندر ذخیرہ نہیں رکھے گی اور مال و دولت کے ڈھیر لگے ہوں گے، ایک آدمی اس کے پاس آکر کہے گا کہ اے مہدی!مجھے دو، مجھے دو، تو جتنا کچھ اسے اٹھانے کی طاقت ہو گی، اتنا کچھ وہ اس کے کپڑے میں ڈال دے گا۔

Haidth Number: 12922