Blog
Books
Search Hadith

چار چار امور کا بیان

115 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: والدین کا نافرمان، شراب پر ہمیشگی کرنے والا، احسان جتلانے والا اور زنا کی اولاد، یہ سارے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔

Haidth Number: 9993
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اے علی! پورا پورا وضو کر، اگرچہ وہ تجھ پر گراں گزرے، صدقہ نہ کھا، گدھے کو گھوڑی پر نہ کدوا اور نجومی لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھ۔

Haidth Number: 9994

۔ (۱۰۳۷۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ کَانُوْا یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً (وَ فِیْ رِوَایَۃٍ: یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی سَوْاَۃِ بَعْضٍ) وَ کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْہُ الْحَیَائُ وَ السِّتْرُ، وَ کَانَ یَتْسَتِرُ اِذَا اغْتَسَلَ فَطَعَنُوْا فِیْہِ بِعَوْرَۃٍ (وَ فِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ! مَا یَمْنَعُ مُوْسٰی اَنْ یَغْتَسِلَ مَعَنَا اِلَّا اَنَّہُ آدَرُ) قَالَ: فَبَیْنَمَا نَبِیُّ اللّٰہِ یَغْتَسِلُیَوْمًا وَضَعَ ثِیَابَہُ عَلٰی صَخْرَۃٍ فَانْطَلَقَتِ الصَّخْرَۃُ بِثَیَابِہٖ، فَاَتْبَعَھَا نَبِیُّ اللّٰہِ ضَرْبًا بِعَصَاہُ وَ ھُوَ یَقُوْلُ: ثَوْبِیْیَاحَجَرُ! ثَوْبِیْیَاحَجَرُ! حَتَی اِنْتَھٰی بِہٖاِلٰی مَلَاٍ مِنْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ وَ تَوَسَّطَھُمْ فَقَامَتْ (اَیْ: اَلصَّخْرَۃُ) وَ اَخَذَ نَبِیُّ اللّٰہِ ثِیَابَہُ فَنَظَرُوْا فَاِذَا اَحْسَنُ النَّاسِ خَلْقًا وَ اَعْدَلُھُمْ صُوْرَۃً، فَقَالَتْ بَنُوْ اِسْرَئِیْلَ: قَاتَلَ اللّٰہُ اَفَّاکِی بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ فَکَانَتْ بَرَائَ تَہُ الَّتِیْ بَرَّأَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِھَا۔)) (مسند احمد: ۹۰۸۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک بنو اسرائیل کی حالت یہ تھی کہ وہ ننگے غسل کرتے تھے اور ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو دیکھتے تھے، جبکہ اللہ کے نبی موسی علیہ السلام اس چیز سے حیا اور شرم محسوس کرتے تھے، اس لیے وہ پردہ کر کے غسل کرتے تھے، لیکن بنو اسرائیل نے اس وجہ سے ان پر ان کی شرمگاہ کے بارے میں طعن کیا، ایک روایت میں ہے: انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! موسی کو ہمارے ساتھ غسل کرنے سے روکنے والی چیزیہ ہے کہ ان کے خصیتین پھولے ہوئے ہیں، پس ایک دن اللہ کے نبی نہا رہے تھے اور اپنے کپڑے ایک چٹان پر رکھ دیئے، لیکن ہوا یوں کہ وہ چٹان کپڑوں سمیت چل پڑی، موسی علیہ السلام بھی اس کے پیچھے ہو لیے، اپنی لاٹھی ماری اور یہ آواز دی: اے پتھر! میرے کپڑے، اے پتھر! میرے کپڑے، لیکن اتنے میں وہ پتھر بنو اسرائیل کے ایک گروہ کے پاس پہنچ گیا اور ان کے درمیان جا کر کھڑا ہو گیا، اللہ کے نبی نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے، جب انھوں نے موسی علیہ السلام کو دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے خوبصورت تخلیق والا اور سب سے معتدل صورت والا پایا، اس کے بعد بنو اسرائیل نے کہا: اللہ تعالیٰ بنو اسرائیل کے تہمت لگانے والے افراد کو ہلاک کرے، پس یہی وہ براء ت تھی کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو بری کیا تھا۔

Haidth Number: 10374
۔ ایک روایت میں ہے: موسی علیہ السلام نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنا شروع کر دیا، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! موسی علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے پتھر پر چھ سات نشان تھے۔

Haidth Number: 10375
۔ (دوسری سند) عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا: جی شام سے، انھوں نے کہا: کیا تم نے موسی علیہ السلام کا پتھر دیکھا ہے؟ میں نے کہا: موسی علیہ السلام کے پتھر سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام کے خصیتین کے معیوب ہونے کے بارے میں کوئی بات کی، ایک دن وہ ایک چٹان پر کپڑے رکھ کر نہانے لگے، لیکن ہوا یوں کہ وہ چٹان ان کے کپڑوں سمیت دوڑ پڑی، وہ اس کے پیچھے دوڑے اور کہا: اے پتھر! میرے کپڑے پھینک دے، لیکن وہ پتھر بنو اسرئیل کے پاس پہنچ گیا، پس انھوں نے دیکھا کہ وہ بالکل ٹھیک اور خوبصورت تخلیق والے ہیں، پھر موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس پتھر کو اپنی لاٹھی سے تین ضربیں لگائیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! اگر میں اس پتھر کو پا لیتا تو اس میں موسی علیہ السلام کی ضربوں کے نشانات دیکھ لیتا۔

Haidth Number: 10376

۔ (۱۰۵۳۷)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: اِنْطَلَقْتُ أَنَا وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَتَیْنَا الْکَعْبَۃَ فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اجْلِسْ)) وَصَعِدَ عَلٰی مَنْکِبَیَّ فَذَھَبْتُ لِأَنْھَضَ بِہٖفَرَأٰی مِنِّی ضَعْفًا فَنَزَلَ وَجَلَسَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((اِصْعَدْ عَلٰی مَنْکِبَیَّ)) قَالَ: فَصَعِدْتُّ عَلٰی مَنْکِبِہٖ،قَال: فَنَھَضَبِیْ، قَالَ: فَاِنَّہُ یُخَیَّلُ اِلَیَّ أَنِّی لَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ أُفُقَ السَّمَائِ حَتّٰی صَعِدْتُ عَلَی الْبَیْتِ وَعَلَیْہِ تِمْثَالُ صُفْرٍ أَوْنُحَاسٍ، فَجَعَلْتُ أُزَاوِلُہُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَبَیْنَیَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ حَتّٰی اِذَا اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِقْذِفْ بِہٖ۔)) فَقَذَفْتُبِہٖ،فَتَکَسَّرَکَمَاتَتَکَسَّرُالْقَوَارِیْرُ، ثُمَّّ نَزَلْتُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَسْتَبِقُ حَتّٰی تَوَارَیْنَا بِالْبُیُوْتِ خَشْیَۃَ أَنْ یَلْقَانَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۶۴۴)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلے، یہاں تک کہ ہم کعبہ کے پاس پہنچے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹھ جا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے کندھے پر چڑھے، پھر میں نے اٹھنا چاہا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ میں کمزور ہوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے کندھے سے نیچے اتر گئے اور خود بیٹھ کر فرمانے لگے: علی! میرے کندھے پر چڑھ جا۔ پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر چڑھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، مجھے یوں لگا کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کے افق کو چھو لیتا، پس میں بیت اللہ کی عمارت پر چڑھ گیا، اس پر پیتلیا تانبے کا بنا ہوا مجسمہ تھا، میں نے اس کے دائیں، بائیں، سامنے اور پیچھے سے کوشش کی،یہاں تک کہ میں نے اس کو گرانے کی قدرت پا لی، اُدھر سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھینک دے اس کو۔ پس میں نے اس کو پھینکا اور وہ اس طرح ٹوٹا جیسے شیشے ٹوٹتے ہیں، پھر میں وہاں سے اترا اور میں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز تیز چلنے لگے، یہاں تک کہ ہم گھروں کے ساتھ چپ گئے، ہمیں یہ ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بندے سے ملاقات ہو جائے (اور ہمارا یہ راز فاش ہو جائے)۔

Haidth Number: 10537
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کعبہ پر بت تھے، پہلے میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھانا چاہا تو مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اٹھایا اور میں نے ان کو توڑ دیا، اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو لیتا۔

Haidth Number: 10538

۔ (۱۰۷۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا، فَنَزَلَ عَلٰی صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ، وَکَانَ أُمَیَّۃُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَی الشَّامِ فَمَرَّ بِالْمَدِینَۃِ نَزَلَ عَلٰی سَعْدٍ، فَقَالَ أُمَیَّۃُ لِسَعْدٍ: انْتَظِرْ حَتّٰی إِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتَ فَطُفْتَ، فَبَیْنَمَا سَعْدٌ یَطُوفُ إِذْ أَتَاہُ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ: مَنْ ہٰذَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ آمِنًا، قَالَ سَعْدٌ: أَنَا سَعْدٌ، فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ: تَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ آمِنًا: وَقَدْ آوَیْتُمْ مُحَمَّدًا عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَتَلَاحَیَا، فَقَالَ أُمَیَّۃُ لِسَعْدٍ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَکَ عَلٰی أَبِی الْحَکَمِ فَإِنَّہُ سَیِّدُ أَہْلِ الْوَادِی، فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: وَاللّٰہِ! إِنْ مَنَعْتَنِی أَنْ أَطُوفَ بِالْبَیْتِ لَأَقْطَعَنَّ إِلَیْکَ مَتْجَرَکَ إِلَی الشَّأْمِ، فَجَعَلَ أُمَیَّۃُیَقُولُ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَکَ عَلٰی أَبِی الْحَکَمِ، وَجَعَلَ یُمْسِکُہُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ فَقَالَ: دَعْنَا مِنْکَ، فَإِنِّی سَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَزْعُمُ أَنَّہُ قَاتِلُکَ، قَالَ: إِیَّایَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا یَکْذِبُ مُحَمَّدٌ، فَلَمَّا خَرَجُوا رَجَعَ إِلَی امْرَأَتِہِ، فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتِ؟ مَا قَالَ لِیَ الْیَثْرِبِیُّ، فَأَخْبَرَہَا فَلَمَّا جَائَ الصَّرِیخُ، وَخَرَجُوا إِلٰی بَدْرٍ، قَالَتِ امْرَأَتُہُ: أَمَا تَذْکُرُ مَا قَالَ أَخُوکَ الْیَثْرِبِیُّ؟ فَأَرَادَ أَنْ لَا یَخْرُجَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْلٍ: إِنَّکَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِی فَسِرْ مَعَنَا یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ، فَسَارَ مَعَہُمْ فَقَتَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۳۷۹۴)

سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عمرہ کی غرض سے تشریف لے گئے، صفوان بن امیہ بن خلف کے ہاں مہمان ٹھہرے، امیہ بھی مکہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے گزرتے ہوئے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں قیام کیا کرتا تھا، امیہ نے سعد سے کہا: تم ابھیانتظار کرو، جب دوپہر ہو گی اور لوگ تھک جائیں گے تب جا کر طواف کر لینا، سیدنا سعد طواف کر رہے تھے کہ ابو جہل ان کے پاس آگیا اور بولا یہ کون ہے، جو بڑے امن اور سکون کے ساتھ کعبہ کا طواف کر رہا ہے؟ سعد نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا: تو بڑے سکون سے طواف کر رہا ہے حالانکہ تم لوگوں نے محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں میں تو تکار ہو گئی، تو امیہ نے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے مقابلے میں آواز بلند نہ کریں،یہیہاں کا سردار ہے۔ لیکن سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا تو میں شام کی طرف تمہارا تجارتی راستہ بند کر دوں گا۔ امیہ پھر سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہنے لگا اور اسے پکڑ کر روکنے لگا کہ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے سامنے آواز بلند نہ کرو، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غصہ آ گیا، وہ بولے مجھے چھوڑ دو، میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ تجھے قتل کر کے رہیں گے، امیہ نے کہا: کیا مجھے؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہاں، ہاں، امیہ نے کہا: اللہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات غلط نہیں ہو سکتی، جب لوگ چلے گئے تو وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا: کیا تیرے علم میں وہ بات آئی جو یثربی مہمان نے کہی ہے؟ اور پھر اسے ساری بات بتلائی، جب لڑائی کا اعلان ہوا اور لوگ بدر کی طرف جانے لگے تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا: کیا تمہیں وہ بات یاد نہیں ہے جو تمہارے یثربی بھائی نے کہی تھی؟ اس نے ایک دفعہ تو ارادہ کیا کہ لڑائی کے لیے نہ جائے، لیکن ابوجہل نے اس سے کہا تم یہاں کے سرداروں میں سے ہو، سو ہمارے ساتھ ایک دو دن کے لیے ضرور چلو، پس وہ ان کے ساتھ چل پڑا اور اللہ تعالیٰ نے اسے (بدر میں) ہلاکت سے دو چار کر دیا۔

Haidth Number: 10714
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اہلِ جہنم اور اہلِ جنت کے بارے میں بتلا نہ دوں؟ جنتی لوگ یہ ہیں: ہر کمزور، جس کو کمزور سمجھا جاتا ہے، پراگندہ بالوں والا اور دو بوسیدہ پرانے کپڑوں والا، (لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنی وقعت والا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا دے تو وہ بھی اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔ اور جہنمی لوگ یہ ہیں: ہر بدمزاج (و بدخلق)،اکڑ کر چلنے والا، بہت زیادہ مال جمع کرنے والا اور بہت زیادہ بخل کرنے والا اور دوسرے لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں۔

Haidth Number: 11644

۔ (۱۲۱۶۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، تَسْأَلُہُ مِیرَاثَہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِالْمَدِینَۃِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ، إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِی ہٰذَا الْمَالِ۔)) وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِہَا الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہَا فِی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِیہَا بِمَا عَمِلَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلٰی فَاطِمَۃَ مِنْہَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَۃُ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ فِی ذٰلِکَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَرَابَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِی، وَأَمَّا الَّذِی شَجَرَ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ مِنْ ہٰذِہِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّی لَمْ آلُ فِیہَا عَنِ الْحَقِّ، وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہَا إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۵)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف یہ مطالبہ کرنے کے لیے پیغام بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مدینہ میں جو مال دیا، اور فدک اور خیبر کے خُمُس میں سے مجھے بطور وراثت میرا حصہ دیا جائے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: ہمارا چھوڑا ہوا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد اس مال میں سے کھاسکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ صدقات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیا ت مباکہ میں جس طرز پرتھے، میں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاؤں گا اور میں ان کو اسی طرح استعمال کروں گا، جس طرح اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو کام میںلاتے تھے، غرضیکہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان میں سے کوئی چیز دینے سے انکا کر دیا، اس وجہ سے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ناراض ہوگئیں۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رشتہ دار اپنے رشتہ داروں سے بڑھ کر محبوب ہیں، مگر ان اموال کی وجہ سے میرے اور آپ کے درمیان جو صور ت حال پیدا ہوگئی ہے، میں نے اس میں حق و صداقت پر عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس میں جو کچھ کرتے دیکھا، میں نے اس میں سے کسی چیز کو ترک نہیں کیا، بلکہ میں نے ہر کام اسی طرح سرانجام دیا ہے، جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا۔

Haidth Number: 12167
سیدنا ابوطفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو اتو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث آپ ہیں یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کے افراد؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وارث میں نہیں ہوں، بلکہ آپ کے اہل خانہ ہی ہیں، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ کہا ںہے؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نبی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور اسکے بعد اپنے نبی کی روح کو قبض کر لیتا ہے تو وہ چیز اس کے خلیفہ کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ پس میں نے سوچا ہے کہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر آپ ہی اس کو جو آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث سنی ہے، بہتر جانتے ہیں۔

Haidth Number: 12168
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو ازد بہترین قوم ہیں، ان کے منہ یعنی ان کی گفتگو نہایت عمدہ ہے، یہ اپنی نذروں کو پورا کرتے ہیں اور ان کے دل (بغض، حسد اور کینہ وغیرہ سے)صاف اور پاک ہیں۔

Haidth Number: 12577
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو تمیم کے بارے میں فرمایا: یہ صدقہ میری قوم کی طرف سے ہے اور یہ دجال کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت ہوں گے۔ سیدنا ابو ہریرہ کہتے ہیں: ا س سے پہلے بنو تمیم کے لوگ مجھے سب سے زیادہ ناپسند تھے، لیکن میں نے جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کے بارے میں یہ فرماتے سنا، تب سے میں ان سے محبت کرتا ہوں۔

Haidth Number: 12578

۔ (۱۲۵۷۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ، حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: وَنَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ عِنْدَہُ فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ حَصًی لِیَحْصِبَہُ، ثُمَّ قَالَ عِکْرِمَۃُ: حَدَّثَنِی فُلَانٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَّ تَمِیمًا ذُکِرُوْا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَبْطَأَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ تَمِیمٍ، عَنْ ہٰذَا الْأَمْرِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی مُزَیْنَۃَ، فَقَالَ: ((مَا أَبْطَأَ قَوْمٌ ہٰؤُلَائِ مِنْہُمْ۔)) وَقَالَ رَجُلٌ: یَوْمًا أَبْطَأَ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمُ مِنْ تَمِیمٍ بِصَدَقَاتِہِمْ، قَالَ: فَأَقْبَلَتْ نَعَمٌ حُمْرٌ، وَسُودٌ لِبَنِی تَمِیمٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((ہٰذِہِ نَعَمُ قَوْمِی۔)) وَنَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا، فَقَالَ: ((لَا تَقُلْ لِبَنِی تَمِیمٍ إِلَّا خَیْرًا، فَإِنَّہُمْ أَطْوَلُ النَّاسِ رِمَاحًا عَلَی الدَّجَّالِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۷۴)

عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ اس کے سامنے ایک آدمی نے ! زغابہ کے دن کی تفصیل محقق مسند احمد میں دیکھیں۔ بنو تمیم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے، تو انہوں نے اسے مارنے کے لیے کنکروں سے بھری ہوئی مٹھی اٹھالی، پھر عکرمہ نے کہا: مجھے فلاںصحابی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنو تمیم کا ذکر کیا گیا تو کسی نے کہا: انہوں نے اسلام قبول کرنے میں کافی تاخیر کر دی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مزینہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ان لوگوں نے کوئی دیر نہیں کی، بنو مزینہ بھی انہی میں سے ہیں۔ پھر ایک دن ایک آدمی نے یوں کہہ دیا کہ بنو تمیم نے اپنے صدقات کی ادائیگی اور ترسیل میں دیر کر دی ہے اور پھر بنو تمیم کی طرف سے سر خ اور سیاہ اونٹ آن پہنچے، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اونٹوں کو دیکھ کر فرمایا: یہ میری قوم کی زکوۃ ہے۔ پھر ایک آدمی نے بنو تمیم کے بارے میں ناقدانہ تبصرہ کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بنو تمیم کے بارے میں اچھی باتوں کے سوا کچھ نہ کہا کرو، دجال کے مقابلے میں ان کے نیزے سب سے بلند ہوں گے۔

Haidth Number: 12579
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ کے اوپر سے ایک طرف سرک نہ جائے گا، پھر لوگ اس پر آپس میں اس قدر لڑیں گے کہ سو میں سے ننانوے آدمی اس لڑائی میں مارے جائیں گے۔ پیارے بیٹا! اگر تم ایسے حالات کو پالو تو ان لڑنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔

Haidth Number: 12945
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ سے ایک طرف سرک جائے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ اس قدر لڑائی کریں گے کہ ہر دس میں سے نو آدمی قتل ہوجائیں گے اور ایک باقی بچے گا۔

Haidth Number: 12946
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: عبیدا للہ بن زیاد نے مجھے بلوایا اور جب میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ کیسی کیسی احادیث روایت کرتے ہو، جن کی اصل کا کتاب اللہ میں کوئی ذکر نہیں ہے، تم بیان کرتے ہو کہ جنت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک حوض ہوگا۔ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اس کے متعلق بیان کیا اور ہم سے اس کا وعدہ بھی کیا ہے، عبیداللہ نے کہا: تم غلط کہتے ہو، تم بوڑھے ہوگئے ہو اور تمہاری عقل چلی گئی ہے۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرے کانوں نے سنی اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کا بھی مجھے علم ہے: جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کو منسوب کیا، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سے تیار کر لے اور میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھوٹ نہیں باندھتا۔

Haidth Number: 13131
سیدنا عبد اللہ بن بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد کو حوض کے بارے میں شک ہونے لگا، اس لیے اس نے سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا، جب یہ اس کے ہاں گئے تو اس کے ہم نشینوں نے ان سے کہا: امیر نے آپ کو اس لیے بلوایا ہے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے حوض کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے حوض کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے، اور جو اس کوجھٹلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس سے نہ پلائے۔

Haidth Number: 13132
ابو طالوت عنزی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غصے کی حالت میں دیکھا، جبکہ وہ اس وقت عبید اللہ بن زیاد کے پاس سے نکل رہے تھے اور کہہ رہے تھے: یہ تو میرا خیال نہیں تھا کہ مجھے اپنی زندگی میں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے کہ لوگ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کی عار دلائیں گے، یہ میرے بارے میں کہتے ہیں: یہ تمہارا محمدی پست قد والا موٹوہے، جبکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حوض کر ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، اب جو اس حوض کی تکذیب کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس سے نہ پلائے۔

Haidth Number: 13133

۔ (۱۳۱۳۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرٌ عَنْ مَطَرٍ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ شَکَّ عُبَیْدُاللّٰہِ بْنِ زِیَادٍ فِی الْحَوْضِ فَقَالَ لَہُ اَبُوْ سَبِرَۃ رَجُلٌ مِنْ صَحَابَۃِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زِیَادٍ: فَاِنَّ اَبَاکَ حِیْنَ انْطَلَقَ وَافِدًا اِلٰی مُعَاوِیَۃَ، اِنْطَلَقْتُ مَعَہُ فَلَقِیْتُ عَبْدَاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَحَدَّثَنِیْ مِنْ فِیْہِ اِلٰی فِیَّ حَدِیْثًا سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَمْلَاَہُ عَلَیَّ وَکَتَبْتُہُ، قَالَ: فَاِنِّیْ اَقْسَمْتُ عَلَیْکَ لَمَا اَعْرَقْتَ ہٰذَا الْبِرْذَوْنَ حَتّٰی تَاْتِیَنِیْ بِالْکِتَابِ، قَالَ: فَرَکِبْتُ الْبِرْذَوْنَ فَرَکَضْتُہُ حَتّٰی عَرَقَ، فَاَتَیْتُہُ بِالْکِتَابِ فَاِذَا فِیْہِ حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! لَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰییُخَوَّنَ الْاَمِیْنُ وَیُوْتَمَنُ الْخَائِنُ حَتّٰییَظْہَرَ الْفُحْشُ وَقَطِیْعَۃُ الْاَرْحَامِ وَسُوْئُ الْجِوَارِ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! اِنَّ مَثَلَ الْمُوْمِنِ کَمَثَلِ الْقِطْعَۃِ مِنَ الذَّھَبِ نَفَخَ عَلَیْہَا صَاحِبُہَا فَلَمْ تَغَیَّرْ وَلَمْ تَنْقُصْ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! اِنَّ مَثَلَ الْمُوْمِنِ لَکَمَثَلِ النَّحْلَۃِ اَکَلَتْ طَیِّبًا وَوَضَعَتْ طَیِّبًا وَوَقَعَتْ فَلَمْ تَکْسِرْ وَلَمْ تَفْسُدْ۔)) قَالَ: ((اَلَا اِنَّ لِیْ حَوْضًا مَا بَیْنَ نَاحِیَتَیْہِ کَمَا بَیْنَ اَیْلَۃَ اِلٰی مَکَّۃَ اَوْ قَالَ صَنْعَائَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ وَاِنَّ فِیْہِ مِنَ الْاَبَارِیْقِ مِلْئَ الْکَوَاکِبِ، ھُوَ اَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَاَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ، مَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَاْ بَعْدَھَا اَبَدًا۔)) قَالَ اَبُوْ سَبِرَۃَ: فَاَخَذَ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ زِیَادٍ اَلْکِتَابَ فَجَزِعْتُ عَلَیْہِ فَلَقِیَنِیْیَحْیٰی بْنُ یَعْمُرَ فَشَکَوْتُ ذٰلِکَ اِلَیْہِ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَاَنَا اَحْفَظُ لَہُ مِنِّیْ لِسُوْرَۃٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَحَدَّثَنِیْ بِہٖکَمَاکَانَفِی الْکِتَابِ سَوَائً۔ (مسند احمد: ۶۸۷۲)

عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد کو حوض کو ثر کے بارے میں شک ہوا،اس کے ہم نشینو ںمیں سے ابو سبرہ نامی ایک شخص نے اس سے کہا: تمہارا والد جب وفد کی صورت میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا تو میں بھی اس کے ساتھ تھا،سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میری ملاقات ہوئی، انھوں نے براہ راست مجھے ایک حدیث بیان کی، جو انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی، انھوں نے مجھے باقاعدہ املا کرائی اور میں نے اسے لکھ لیا۔ عبید اللہ نے کہا:میں تمہیںاللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم اس خچر کو اس قدر تیز دوڑاؤ کہ اسے پسینہ آجائے اور اس طرح تم وہ تحریر میرے پاس لے کر آؤ، ابو سبرہ کہتے ہیں: میں خچر پر سوار ہوا اوراسے ایڑی لگائی، یہاں تک کہ اسے خوب پسینہ آگیا اور میں وہ تحریرلے کر اس کے پاس واپس پہنچ گیا، اس میں تحریر تھا کہ مجھے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فحش کلامی اور تکلف کے ساتھ فحش باتیں کرنے کو انتہائی نا پسند کرتا ہے، اس ذا ت کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک اس طرح نہیں ہو جاتا کہ دیانت دار کو خائن اور خائن کو دیانت دار قرار دیا جائے، فحش کلامی اور تکلف کے ساتھ فحش کلامی عام ہوجائے گی اور قطع رحمی اور ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی بھی عام ہوجائے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کی مثال سونے کے ایک ٹکڑے کی طرح ہے کہ اگراس کا مالک اس پر پھونک مارے تو وہ نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ اس میں کوئی کمی آتی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے، جو پاکیزہ چیز کھاتی اور پاکیزہ چیز نکالتی ہے، وہ جہاں بھی بیٹھتی ہے، نہ تو کسی چیز کو توڑتی ہے اور نہ اسے خراب کرتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: خبردار ! آخر ت میں میرا ایک حوض ہوگا، جس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا کہ جتنی مسافت ایلہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان یاصنعاء سے مدینہ منورہ کے درمیان ہے اور وہاں پانی پینے کے لیے برتنوں کی تعداد ستاروں سے بھی زیادہ ہوگی، حوض کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شریں ہوگا، جس نے ایک دفعہ وہ پی لیا، اس کے بعد وہ کبھی بھی پیاس محسو س نہیں کرے گا۔ ابو سبرہ کہتے ہیں: عبیداللہ بن زیاد نے وہ تحریر لے لی اور میں گھبرا گیا، اس کے بعد یحییٰ بن یعمرسے میری ملاقات ہوئی، میںنے ان سے اس چیز کا اظہار کیا، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم مجھے یہ حدیث قرآنی سورت کی بہ نسبت بھی زیادہ یاد ہے، پھر انہوں نے مجھے وہ حدیث بعینہٖ اسی طرح بیان کر دی، جیسے وہ اس کتاب میں لکھی ہوئی تھی۔

Haidth Number: 13134

۔ (۱۳۱۳۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَحْیٰی ثَنَا حُسَیْنُ نِ الْمُعَلِّمُ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْ سَبِرَۃَ قَالَ کَانَ عُبَیْدُ اللّٰہ بْنُ زِیَادٍیَسْاَلُ عَنِ الْحَوْضِ حَوْضِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ یُکَذِّبُ بِہٖبَعْدَمَاسَاَلَاَبَابَرْزَۃَ وَالْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ وَعَائِذَ بْنَ عَمْرٍو وَرَجُلًا آخَرَ وَکَانَ یُکَذِّبُ بِہٖ،فَقَالَاَبُوْسَبِرَۃَ: اَنَا اُحَدِّثُکَ بِحَدِیْثٍ فِیْہِ شِفَائُ ہٰذَا، اِنَّ اَبَاکَ بَعَثَ مَعَیَ بِمَالٍ اِلٰی مُعَاوِیَۃَ فَلَقِیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو، فَحَدَّثَنِیْ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَمْلٰی عَلَیَّ فَکَتَبْتُ بِیَدِیْ فَلَمْ اَزِدْ حَرْفًا وَلَمْ اَنْقُصْ حَرْفًا، حَدَّثَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْفُحْشَ، فَذَکَرَ نَحْوَہُ وَفِیْہِ: اَلَا اِنَّ مَوْعِدَکُمْ حَوْضِیْ، عَرْضُہُ وَطُوْلُہُ وَاحِدٌ، ھُوَ کَمَا بَیْنَ اَیْلَۃَ وَمَکَّۃَ وَھُوَ مَسِیْرَۃُ شَہْرٍ، فِیْہِ مَثَلُ النُّجُوْمِ أَبَارِیْقُ، شَرَابُہُ اَشَدُّ بَیَاضًامِنَ الْفِضَّۃِ، مَنْ شَرِبَ مِنْہُ مَشْرَبًا لَمْ یَظْمَاْ بَعْدَہُ اَبَدًا۔)) فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ: مَا سَمِعْتُ فِی الْحَوْضِ حَدِیْثًا اَثَبْتَ مِنْ ہٰذَا فَصَدَّقَ بِہٖوَاَخَذَالصَّحِیْفَۃَ فَحَبَسَہَا عِنْدَہُ۔ (مسند احمد: ۶۵۱۴)

۔ (دوسری سند) ابو سبرہ کہتے ہیں: عبیدا للہ بن زیاد، جناب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوض کے بارے میں دریافت کرتا رہتا تھا، وہ اس بارے میں سیدنا ابو برزہ ، سیدنا براء بن عازب ، سیدنا عائذبن عمرو اور ایک اور صحابی سے پوچھ چکا تھا، پھر بھی وہ اس کی تکذیب کیا کرتا تھا۔ ایک دن ابو سبرہ نے اس سے کہا: میں آپ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اس میں آپ کے اشکال کا حل موجود ہے، تمہارے والد نے مال دے کر مجھے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس روانہ کیا تھا، وہاں سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میری ملاقات ہوگئی تھی، انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی احادیث مجھے بیان کیں اور ان کی املا بھی کرائی تھیں، میںنے ان احادیث کو اپنے ہاتھ سے لکھ لیا تھا، میںنے ان میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں کی، انھوں نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ فحش کلامی کو پسند نہیں کرتا، …اس سے آگے حدیث پہلی حدیث کی طرح ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے: خبردار! میرے ساتھ تمہاری ملاقات میرے حوض پر ہوگی، اس کا طول اور عرض برابر ہے، وہ ایلہ سے مکہ مکرمہ تک کی مسافت جتنا وسیع ہے، یہ ایک مہینے کی مسافت ہے، وہاں آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پانی پینے کے برتن ہوں گے، اس حوض کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہوگا، جس نے ایک دفعہ وہ پی لیا، اس کے بعد اسے کبھی بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔ یہ حدیث سن کر عبیداللہ بن زیاد نے کہا: میں نے حوض کوثر کے بارے میں اس سے زیادہ صحیح اور مضبوط حدیث نہیں سنی، پھر اس نے اس کی تصدیق کی اور اس صحیفہ (کتاب) کو لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔

Haidth Number: 13135
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک محفل میں حاضر تھا، آپ نے جنت کا تذکرہ کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا: جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا،کسی کان نے ان کے متعلق نہیں سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا تصور گزرا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن۔} (ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے ربّ کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، اس میں سے وہ (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، ان کے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کے لیے ان کے کیے ہوئے اعمال کی جزاء کے طور پر جو نعمتیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں، ان کو فی الحال کوئی بھی نہیں جانتا۔ )

Haidth Number: 13265
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی جنت میں داخل ہوجائے گا، وہ خوشحال رہے گا، بدحال نہیں ہو گا، اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے، اس کی جوانی زائل نہیں ہوگی، جنت میں وہ کچھ ہے کہ آج تک نہ کسی آنکھ نے وہ چیزیں دیکھیں ہیں، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی شخص کے دل پر ان کا تصور گزرا ہے۔

Haidth Number: 13266
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میںنے اپنے صالح بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کی ہیں کہ آج تک کسی آنکھ نے ان جیسی نعمتوں کو نہیں دیکھا، کسی کان نے ان کے متعلق نہیں سنا اور کسی انسان کے دل پر ان کا خیال تک نہیں گزرا، اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ کر دیکھ لو: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} ( ان کی راحت کے لیے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں، انہیں(فی الحال) کوئی نہیں جانتا۔ (سورۂ سجدہ: ۱۷)

Haidth Number: 13267
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہاری ایک لاٹھی کے برابر جگہ دوگنا دنیا سے بہتر ہے، جنت میں تمہاری کمان کے برابر جگہ دو گنا دنیا سے بہتر ہے اور جنت کی ایک خاتون کا دوپٹہ دو گنا دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔ ابو ایوب کہتے ہیں: میںنے کہا: اے ابوہریرہ! النَّصِیْف کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: دو پٹہ۔

Haidth Number: 13268