Blog
Books
Search Hadith

مثلہ، جلانے، درخت کاٹنے اور عمارتیں گرانے سے ممانعت کا بیان، الا یہ کہ کوئی ضرورت اور مصلحت ہو

103 Hadiths Found
۔ صحابی ٔ رسول سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک لشکر سمیت عُذرہ قبیلے کے ایک آدمی کی طرف بھیجا اور فرمایا: اگر تم نے فلاں پر غلبہ پا لیا تو اس کو آگ کے ساتھ جلا دینا۔ پس وہ چل پڑے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اوجھل ہونے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور کسی آدمی کو بھیج کر ان کو واپس بلا لیا اور پھر فرمایا: اگر تم نے اس آدمی پر غلبہ پا لیا تو اس کو قتل کرنا، آگ کے ساتھ جلانا نہیں ہے، کیونکہ آگ کا ربّ ہی ہے، جو آگ کے ذریعے عذاب دے سکتا ہے۔

Haidth Number: 5009

۔ (۵۹۱۳)۔ حَدَّثَنَا اَبُوالْیَمَانِ ثَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ حَدَّثَنِیْ عُمَارَۃُ بْنُ خُزَیْمَۃَ الْأَنْصَارِیُّ أَنَّ عَمَّہُ حَدَّثَہُ وَھُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِبْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیٍّ فَاسْتَتْبَعَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَقْضِیَہُ ثَمَنَ فَرَسِہِ، فَأَسْرَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُوْنَ الْاَعْرَابِیَّ فَیُسَاوِمُوْنَ بِالْفَرَسِ، لَایَشْعُرُوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِبْتَاعَہُ حَتّٰی زَادَ بَعْضُہُمُ الْأَعْرَابِیَّ فِی السَّوْمِ عَلٰی ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِی ابْتَاعَہُ بِہٖالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَنَادَی الْاَعْرَابِیُّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اِنْ کُنْتَ مُبْتَاعًا ھٰذَا الْفَرَسَ فَابْتَعْہُ، وَاِلَّا بِعْتُہُ، فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ سَمِعَ نِدَائَ الْأَعْرَابِیِّ فَقَالَ: ((أَوَلَیْسَ قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ؟)) قَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَا، وَاللّٰہِ مَابِعْتُکَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَلْ قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ)) فَطَفِقَ النَّاسُ یَلُوْذُوْنَ بالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْأَعْرَابِیِّ وَھُمَا یَتَرَاجَعَانِ، فَطَفِقَ الْاَعْرَابِیُّیَقُوْلُ: ھَلُمَّ شَہِیْدًا،یَشْہَدُ اَنِّیْ بَایَعْتُکَ، فَمَنْ جَائَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَالَ لِلْاَعْرَابِیِّ: وَیْلَکَ، اِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ لِیَقُوْلَ اِلَّا حَقًّا، حَتّٰی جَائَ خُزَیْمَۃُ فَاسْتَمَعَ لِمُرَاجَعَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمُرَاجَعَۃِ الْاَعْرَابِیِّ، فَطَفِقَ الْاَعْرَابِیُّیَقُوْلُ: ھَلُمَّ شَہِیْدًا،یَشْہَدُ أَنِّیْ بَایَعْتُکَ، قَالَ خُزَیْمَۃُ: أَنَا أَشْھَدُ أَنَّکَ قَدْ بَایَعْتَہُ، فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خُزَیْمَۃَ فَقَالَ: ((بِمَ تَشْھَدُ؟)) فَقَالَ: بِتَصْدِیْقِکَیَارَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَھَادَۃَ خُزَیْمَۃَ بِشَھَادَۃِ رَجُلَیْنِ۔ (مسند احمد:۲۲۲۲۸)

۔ عمارہ بن خزیحہ انصاری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے صحابی چچانے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بدو سے گھوڑاخریدا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا تاکہ گھوڑے کی قیمت اداکر سکیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود تیزی سے چلنے لگے، دیہاتی سست رفتار تھا، اس طرح دونوں کے درمیان فاصلہ ہوگیا، اُدھر لوگوں نے بدو سے گھوڑے کی قیمت لگانا شروع کردی، انہیں معلو م نہیں تھاکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ گھوڑا خرید چکے ہیں، ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قیمت سے زیادہ لگا دی،یہ دیکھ کر بدّو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بلند آواز میں مخاطب ہو ا اور کہا: اے محمد!اگر آپ نے یہ گھوڑا خر ید ناہے تو خرید لیں، وگرنہ میںاسے کسی دوسرے کے ہاں فروخت کر دوں گا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کییہ آواز سن کر ٹھہرگئے اور فرمایا: یہ تو میں تجھ سے خرید چکا ہوں، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو آپ کو یہ فروخت نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرما یا: کیوں نہیں، میں نے تجھ سے یہ خرید لیا ہے، اُدھر لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور دیہاتی کے پاس جمع ہو گئے، جبکہ ان میں تکرار جاری تھا، دیہاتی کہنے لگا: اچھا گواہ پیش کرو، وہ گواہی دے کہ آپ نے یہ خرید لیا تھا، جو مسلمان وہاں جمع تھے، انہوں نے دیہاتی سے کہا: تجھ پر بہت افسوس ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو حق ہی کہتے ہیں، اتنے میں سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں پہنچ گئے، بدو پھر کہنے لگا کہ گواہ لاؤ جو یہ گواہی دے کہ میں نے آپ کو یہ گھوڑا فروخت کر دیا ہے، سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ گھوڑا فروخت کر دیا تھا، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کیسے گواہی دے رہے ہو؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی تصدیق کی وجہ سے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔

Haidth Number: 5913

۔ (۶۵۸۰)۔ حَدَّثَنَا یَعْقُوْبُ ثَنَا اَبِی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ فَذَکَرَ حَدِیْثًا، قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ: وَذَکَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَیْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَاِنَّہُ یُدْفَعُ اِلٰی اَوْلِیَائِ الْقَتِیْلِ فِاِنْ شَائُ وْا قَتَلُوْا، وَإِنْ َشَائُ وْا أَخَذُوْا الدِّیَۃَ۔)) وَھِیَ ثَلَاثُوْنَ حِقَّۃً وَثَلَاثُوْنَ جَذَعَۃً وَأَرْبَعُوْنَ خَلِفَۃً فَذَالِکَ عَقْلُ الْعَمْدِ وَمَا صَالَحُوْا عَلَیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ لَھُمْ وَذَالِکَ شَدِیْدُ الْعَقْلِ، وَعَقْلُ شِبْہِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَۃٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا یُقْتَلُ صَاحِبُہُ وَذَالِکَ اَنْ یَنْزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنَ النَّاسِ فَتَکُوْنَ دِمَائٌ فِیْ غَیْرِ ضَغِیْنَۃٍ وَلَا حَمْلِ سَلَاحٍ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَعْنِی: ((مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا۔)) وَلَا رَصَدَ بِطَرِیْقٍ، فَمَنْ قُتِلَ عَلٰی غَیْرِ ذَالِکَ فَہُوَ شِبْہُ الْعَمْدِ وَعَقْلُہُ مُغَلَّظَۃٌ، وَلَا یُقْتَلُ صَاحِبُہُ وَھُوَ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَلِلْحُرْمَۃِ وَلِلْجَارِ، وَمَنْ قُتِلَ خَطَائً فَدِیَتُہُ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ، ثَلَاثُوْنَ اِبْنَۃُ مَخَاضٍ وَثَلَاثُوْنَ اِبْنَۃُ لَبُوْنٍ وَثَلَاثُوْنَ حِقَّۃٌ، وَعَشْرُ بَکَارَۃٍ بَنِیْ لَبُوْنٍ ذُکُوْرٍ، قَالَ: وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقِیْمُہَا عَلٰی أَھْلِ الْقُرٰی اَرْبَعَمِائَۃِ دِیْنَارٍ اَوْ عِدْلَہَا مِنَ الْوَرِقِ، وَکَانَ یُقِیْمُہَا عَلٰی اَثْمَانِ الْاِبِلِ، فَاِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِیْ قِیْمَتِہَا وَاِذَا ھَانَتْ نَقَصَ مِنْ قِیْمَتِہَا عَلٰی عَہْدِ الزَّمَانِ مَا کَانَ، فَبَلَغَتْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بَیْنَ اَرْبَعِمِائَۃِ دِیْنَارٍ اِلٰی ثَمَانِمِائَۃِ دِیْنَارٍ أَوْ عِدْلُھَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِیَۃُ آلافِ دِرْھَمٍ، وَقَضٰی أَنَّ مَنْ کَانَ عَقْلُہُ عَلٰی أَھْلِ الْبَقَرِ فِیْ الْبَقَرِ مِأَتَیْ بَقَرَۃٍ، وَقَضٰی اَنَّ مَنْ کَانَ عَقْلُہُ عَلٰی أَھْلِ الشَّائِ فَأَلْفَیْ شَاۃٍ، وَقَضٰی فِی الْأَنْفِ اِذَا جُدِعَ کُلُّہُ بِالْعَقْلِ کَامِلًا، وَاِذَا جُدِعَتْ اَرْنَبَتُہُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ، وَقَضٰی فِی الْعَیْنِ نِصْفَ الْعَقْلِ خَمْسِیْنَ مِنَ الْاِبِلِ أَوْعِدْلَھَا ذَھَبًا أَوْ وَرِقًا أَوْ مِائَۃَ بَقَرَۃٍ اَوْ أَلْفَ شَاۃٍ، وَالرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَالْیَدِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَالْمَأْمُوْمَۃِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُوْنَ مِنَ الْاِبِلِ أَوْ قِیْمَتُہَا مِنَ الذَّھَبِ اَوِ الْوَرِقِ اَوِ الْبَقَرِ اَوِ الشَّائِ، وَالْجَائِفَۃِ ثُلُثُ الْعَقْلِ، وَالْمُنَقِّلَۃِ خَمْسَ عَشَرَۃَ مِنَ الْاِبِلِ، وَالْمُوَضِّحَۃِ خَمْسٌ مِنَ الْاِبِلِ، وَالْاَسْنَانُ خَمْسٌ مِنَ الْاِبِلِ۔ (مسند احمد: ۷۰۳۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے قصداً قتل کیا، اسے مقتول کے لواحقین کے حوالے کر دیاجائے گا، اگر وہ چاہیں تو اس کو قتل کردیں، چاہیں تو دیت لے لیں، جس کی تفصیلیہ ہے: تیس حِقّے، تیس جذعے اور چالیس گابھن اونٹنیاں،یہقتل عمد کی دیت ہے، نیز وہ جس چیز پر صلح کرلیں، وہ ان کے لیے ہو گی،یہ سخت ترین دیت ہے، شبہ عمد قتل کی دیت بھی قتل عمد کی طرح مغلظہ ہے، البتہ شبہ عمد والے قاتل کو قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا، یہ اس لیے ہے کہ شیطان لوگوں کے درمیان فساد برپا کر دیتا ہے اور پھر کینہ اور ہتھیاروں کے بغیر قتل ہو جاتے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں۔ اور نہ ایسے قتل کے لیے گھات لگایا جاتا ہے، جوا ن صورتوں کے علاوہ قتل کیا جائے وہ شبہ عمد ہے، اس کی دیت مغلظہ (سخت) ہے، شبہ عمدکے قاتل کو قصاص میں قتل نہیں کیاجائے گا، اس کا یہ حکم ہوگا اگرچہ حرمت والا مہینہ ہو، یا حرمت والی جگہ ہو یا پڑوسی ہو اور جو غلطی سے قتل ہو گیا، اس کی دیت سو اونٹ ہے، اس کی تفصیلیہ ہے: تیس بنت ِ مخاض، تیس بنت ِ لبون، تیس حِقّے اور دس ابن لبون، جو کہ مذکرہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بستی والوں پر اس دیت کے عوض چار سو دیناریا اس کے برابر چاندی مقرر کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اونٹوں کی قیمتوں کو دیکھ کر سونے چاندی کی مقدار کا تعین کرتے تھے، جب اونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی تو سونے چاندی کی مقدار بھی زیادہ کر دی جاتی اور جب ان کی قیمت کم ہو جاتی تو نقدی کی مقدار بھی کم کر دی جاتی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میںیہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک یا اس کے برابر چاندی آٹھ ہزار درہم رہی ہے،نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ کیا کہ جس نے دیت میں گائیں دینی ہوں تو وہ دو سو گائے دے اور بکریوں کے مالک دو ہزار بکریاں دیں۔ جب کوئی کسی کی مکمل ناک کاٹ دے تو اس کی پوری دیتیعنی سو اونٹ ہوں گے اور جب کوئی کسی کے ناک کا کنارہ کاٹ دے تو نصف دیتیعنی پچاس اونٹ ہوں گے، ایک آنکھ کی نصف دیت ہو گی، جو کہ پچاس اونٹ ہے یا ان کے برابر سونا یا چاندییا سو گائے یا ہزار بکری ہے، پائوں کی دیت نصف ہے، ایک ہاتھ کی دیت نصف ہے، مامومہ (یعنی دماغ تک اتر جانے والے زخم) کی دیت کل دیت کا ایک تہائی ہے، یعنی تینتیس اونٹ یا سونے اور چاندی کی صورت میں ان کی قیمتیا گائیںیا بکریاں، وہ زخم جو پیٹ تک پہنچ جائے اس کی دیت کل دیت کا ایک تہائی ہے، ٹوٹ جانے والی ہڈی کی دیت پندرہ اونٹ ہے، جس زخم سے ہڈی ننگی ہو جائے، اس کی دیت پانچ اونٹ ہے اور ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے۔

Haidth Number: 6580

۔ (۶۵۸۱)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ دِیَۃِ الْکُبْرٰی الْمُغَلَّظَۃِ ثَلَاثِیْنَ اِبْنَۃَ لَبُوْنٍ وَثَلَاثِیْنَ حِقَّۃً وَأَرْبَعِیْنَ خَلِفَۃً، وَقَضٰی فِیْ دِیَۃِ الصُّغْرٰی ثَلَاثِیْنَ اِبَنَۃَ لَبُوْنٍ وَثَلَاثِیْنَ حِقَّۃً وَعِشْرِیْنَ اِبْنَۃَ مَخَاضٍ وَعِشْرِیْنَ بَنِیْ مَخَاضٍ ذُکُوْرٍ، ثُمَّ غَلَتِ الْاِبِلُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھَانَتِ الدَّرَاھِمُ، فَقَوَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِبِلَ الْمَدِیْنَۃِ سِتَّۃَ آلافِ دِرْھَمٍ حِسَابَ أَوْقِیَۃٍ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، ثُمَّ غَلَتِ الْاِبِلُ وَھَانَ الْوَرِقُ فَزَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ أَلْفَیْنِ حِسَابَ أُوْقِیَتَیْنِ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، ثُمَّ غَلَتِ الْإِبِلُ وَھَانَتِ الدَّرَاھِمُ فَأَتَمَّہَا عُمَرُ اِثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا حِسَابَ ثَلَاثِ أَوَاقٍ لِکُلِّ بَعِیْرٍ، قَالَ: فَزَادَ ثُلُثَ الدِّیَۃِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَثُلُثًا آخَرَ فِی الْبَلَدِ الْحَرَامِ، قَالَ: فَتَمَّتْ دِیَۃُ الْحَرْمَیْنِ عِشْرِیْنَ أَلْفًا، قَالَ: فکَانَ یُقَالَ: یُؤْخَذُ مِنْ أَھْلِ الْبَادِیَۃِ مَاشِیَتُہُمْ لَا یُکَلَّفُوْنَ الْوَرِقَ وَلَا الذَّھَبَ، وَیُؤْخَذُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ مَالُھُمْ قِیْمَۃَ الْعدْلِ مِنْ أَمْوَالِھِمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۵۹)

۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بڑی اور مغلظہ دیت کے بارے میںیہ فیصلہ فرمایا کہ اس میں تیس بنت ِ لبون، تیس حِقّے اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں، چھوٹی دیت میں آپ کا فیصلہیہ ہے کہ تیس بنت ِ لبون، تیس حِقّے، بیس بنت ِ مخاض اور بیس ابن مخاض یعنی مذکر اونٹ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد اونٹ مہنگے ہوگئے اور درہم سستے ہو گئے، سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مدینہ کے اونٹوں کی قیمت چھ ہزار درہم مقرر کی، ہر اونٹ کی قیمت ایک اوقیہ تھی، پھر اونٹ مہنگے ہوگئے اور چاندی کی قیمت گر گئی تو سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دیت میں اضافہ کر کے دو ہزار اور بڑھا دیئے اور ہر اونٹ کی قیمت دو اوقیون کے حساب سے لگائی، اونٹ پھر مہنگے ہوگئے اور درہم گر گئے، اس بارسیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بارہ ہزار درہم پور ے کر دیے، ہر اونٹ کی قیمت تین اوقیوں کے حساب سے لگائی اور حرمت والے مہینے میں دیت کی ادائیگی میں دیت کا تیسرا حصہ زیادہ وصول کرتے تھے اور حرمت والے شہر میں ایک اور تیسرے حصہ کا اضافہ کر دیتے تھے، اس طرح حرمین شریفین(مکہ و مدینہ) کی دیت بیس ہزار درہم مکمل ہوگئی تھی، دیہات والوں سے ان کے مویشیوں سے دیت لی جاتی تھی انہیں سونا یا چاندی دینے کا ہی مکلف نہ کیا جاتا تھا، اور ہر قوم سے ان کے مالوں سے دیت عادلانہ قیمت لگا کر وصول کی جاتی تھی۔

Haidth Number: 6581

۔ (۶۵۸۲)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: سَمِعْتُ زَیَادَ بْنَ ضُمَیْرَۃَ بْنِ سَعْدٍ السُّلَبِیَّیُحَدِّثُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ وَجَدِّیْ وَکَانَا قَدْ شَہِدَا حُنَیْنًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَا: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ، ثُمَّ جَلَسَ إِلٰی ظِلِّ شَجَرَۃٍ فَقَامَ إِلَیْہِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنِ بْنِ بَدْرٍ یَطْلُبُ بِدَمِ الْأَشْجَعِیِّ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ وَھُوَ یَؤْمَئِذٍ سَیِّدُ قَیْسٍ، وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ یَدْفَعُ عَنْ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَامَۃَ لِخِنْدِفٍ (وَفِیْ لَفْظٍ: بِمَکَانِہِ مِنْ خِنْدِفٍ) فَاخْتَصَمَا بَیْنَیَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَمِعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((تَأْخُذُوْنَ الدِّیَۃَ خَمْسِیْنَ فِی سَفَرِنَا ھٰذَا وَخَمْسِیْنَ إِذَا رَجَعْنَا۔)) قَالَ: یَقُوْلُ عُیَیْنَۃُ: وَاللّٰہِ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَا أَدَعُہُ حَتَّی أُذِیْقَ نِسَائَہُ مِنَ الْحُزْنِ مَا ذَاقَ نِسَائِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَلْ تَأْخُذُوْنَ الدِّیَۃَ۔)) فَأَبٰی عُیَیْنَۃُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ لَیْثٍیُقَالُ لَہُ مُکَیْتِلٌ رَجُلٌ قَصِیْرٌ مَجْمُوْع،ٌ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا وَجَدْتُ لِھٰذَا الْقَتِیْلِشَبِیْہًا فِیْ غُرَّۃِ الْاِسْلَامِ اِلَّا کَغَنَمٍ وَرَدَتْ فَرُمِیَ أَوَّلُھَا فَنَفَرَ آخِرُھَا، اسْنُنِ الْیَوْمَ وَغَیِِّرْ غَدًا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ ثُمَّ قَالَ: ((بَلْ تَقْبَلُوْنَ الدِّیَۃَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَا خَمْسِیْنَ وَخَمْسِیْنَ إِذَا رَجَعْنَا۔)) فَلَمْ یَزَلْ بِالْقَوْمِ حَتّٰی قَبِلُوْا الدِّیَۃَ، فَلَمَّا قَبِلُوْا الدِّیَۃَ، قَالَ: قَالُوْا: اَیْنَ صَاحِبُکُمْ یَسْتَغْفِرُ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَامَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِیْلٌ ضَرَبَ عَلَیْہِ حُلَّۃً کَأَنْ تَہَیَّأَ لِلْقَتْلِ حَتّٰی جَلَسَ بَیْنَیَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا اسْمُکَ؟)) قَالَ: اَنَا مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰھُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَامَ مِنْ بَیْنَیَدَیْہِ وَھُوَ یَتَلَقّٰی دَمْعَہُ بِفَضْلِ رِدَائِہِ، فَأَمَّا نَحْنُ بَیْنَنَا فَنَقُوْلُ: قَدِ اسْتَغْفَرَ لَہُ وَلٰکِنَّہُ أَظْہَرَ مَا اَظْہَرَ لِیَدَعَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۹۶)

۔ سیدنا عروہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت کرتے ہیں کہ میرے باپ اور میرے دادا، جو کہ جنگ حنین میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر تھے، کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز ظہر پڑھائی اور ایک درخت کے سائے میں تشریف لے گئے، اقرع بن حابس آپ کے سامنے کھڑے ہوئے، وہ اور عینیہ بن حصن بن بدر دونوں قیس قبیلہ کے سردار عامر بن اضبط اشجعی کے خون کا مطالبہ کرنے لگے، اقرع بن حابس خندف کی وجہ سے محلم بن جثامہ کا دفاع کر رہا تھا، یہ دونوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے مقدمہ لے کر پیش ہوئے، ہم نے سنا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پچاس اونٹ اب دوران سفر لے لو اور پچاس واپس جا کر لے لینا۔ عینیہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم میں اسے نہیں چھوڑوں گا حتیٰ کہ اس کی عورتوں کو وہ غم نہ پہنچائوں، جو اس نے ہماری عورتوں کو پہنچایا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دیت لے لو۔ مگر عینیہ نے انکار کر دیا، لیث قبیلہ کا مکیتل نامی ایک آدمی کھڑا ہوا،وہ چھوٹے قد کا آدمی تھا اور مختلف ہتھیاروں سے مسلح تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اسلام کی ابتداء میں اس جیسا مقتول آپ کو نہ ملا ہوگا، مگر بکریوں کی مانند جو پانی کے گھاٹ پر وارد ہوں، ان سے پہلے بکریوں پر تیر پھینکا جائے تو آخر والی بھی بھاگنے لگتی ہیں،( یعنی ہم قصاص لیں گے، چھوڑیں گے نہیں) آج طریقہ جاری کیجیے، کل کلاں اسے بدل لینا،یعنی آج تو قصاص کے حکم پر عمل ہوگا، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعاء کے لیے ہاتھ اٹھا لیے آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ ایسا کرو کہ دیت قبول کر لیں، پچاس اونٹ اب لے لو اور پچاس واپسی پر۔ آپ انہیں نر م کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ لوگ دیت قبول کرنے پر رضا مند ہوگئے، جب انہوں نے دیت قبول کر لی تو کہنے لگے: وہ تمہارا قاتل کہاں ہے، تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے لیے استغفار کردیں، پس گندمی رنگ کا دراز قد آدمی کھڑا ہو، اس نے پوشاک پہنی ہوئی تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ وہ قتل کے لیے تیار ہو رہا ہے، جب وہ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، آپ نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: میں محلم بن جثامہ ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! محلم کو معاف نہ کر۔ آپ نے تین مرتبہ یہ بد دعا کی، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سے کھڑا کر چلنے لگا اور وہ اپنی چادر کے ایک کنارے سے اپنے آنسو صاف کر رہا تھا، ہم نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے استغفار ہی کیا تھا، بس ان الفاظ کا اظہار کیا کہ لوگ ایک دوسرے کو چھوڑ دیں۔

Haidth Number: 6582
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنا لباس تکبر سے زمین پر گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ امام نافع کہتے ہیں: مجھے خبر دی گئی ہے کہ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کپڑا نیچے رکھنے میں ہمیں کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک بالشت نیچے تک رکھ لو۔ انھوں نے کہا: تب تو ہمارے قدم نظر آ سکتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ایک ہاتھ رکھ لو، اس سے زیادہ نہیں لٹکانا۔

Haidth Number: 8123
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے امہات المومنین کو رخصت دی کہ وہ اپنے دامن کو ایک بالشت کے برابر لٹکا لیا کریں، لیکن جب انہوں نے مزید کا مطالبہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بالشت اور بڑھا رکھنے کی اجازت دے دی، پس وہ ایک ہاتھ تک نیچے لٹکا لیتی تھیں، اور وہ ہمارے پاس کپڑا بھیجتی تھیں، ہم اس کی پیمائش کرتے تھے۔

Haidth Number: 8124
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ فاطمہ اور سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو حکم دیا کہ وہ اپنے دامن کو ایک ہاتھ تک لٹکایا کریں۔

Haidth Number: 8125
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کے دامن کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک بالشت ہونا چاہیے، لیکن میں نے کہا: تب تو ان کی پنڈلیاں نظر آ جائیں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر ایک ہاتھ لٹکاؤ۔

Haidth Number: 8126
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عورتوں کے لئے کپڑا لٹکانے کا کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک بالشت تک دامن لٹکا لیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تب تو ان کے پائوں ننگے ہو جائیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ہاتھ تک رکھ لیں اور اس سے زیادہ نہ کریں۔

Haidth Number: 8127
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ایڑھیوں سے ایک بالشت ماپ کر کپڑا چھوڑا۔

Haidth Number: 8128
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی قسم اٹھائی تا کہ مسلمان کا مال ہتھیا لے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا، اشعت بن قیس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے اور ایکیہودی کے درمیان زمین کا جھگڑا ہوا، اس نے میرے خلاف انکار کردیا اور دعویٰ کیایہ زمین میری ہے۔ میں نے اس مقدمہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودی سے فرمایا: تو قسم اٹھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قسم اٹھا کر میرا مال لے جائے گا۔ پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۷۷)

Haidth Number: 8536

۔ (۸۵۳۷)۔ عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔))، قَالَ: فَجَائَ الْأَ شْعَثُ بْنُ قَیْسٍ فَقَالَ: مَا یُحَدِّثُکُمْ أَ بُو عَبْدِالرَّحْمَنِ؟ قَالَ: فَحَدَّثْنَاہُ، قَالَ: فِیَّ کَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ، خَاصَمْتُ ابْنَ عَمٍّ لِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بِئْرٍ کَانَتْ لِی فِییَدِہِ فَجَحَدَنِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیِّنَتُکَ أَ نَّہَا بِئْرُکَ وَإِلَّا فَیَمِینُہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لِی بِیَمِینِہِ وَإِنْ تَجْعَلْہَا بِیَمِینِہِ تَذْہَبْ بِئْرِی، إِنَّ خَصْمِی امْرُؤٌ فَاجِرٌ۔ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) قَالَ: وَقَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {إِنَّ الَّذِینَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ} الْآیَۃَ [آل عمران: ۷۷]۔ (مسند احمد: ۲۲۱۹۱)

۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا حق ناجائز طریقہ سے مارتا ہے، وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ اتنے میں سیدنا اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو کیا بیان کیا ہے؟ لوگوں نے ان کی بیان کی ہوئی بات بیان کی۔ سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا تھا، مجھے اپنے ایک چچا زادسے کنوئیں کا مقدمہ پیش آیا، کنواں میرا تھا، لیکن اس نے مجھے دینے سے انکار کر دیا، اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اشعث تمہارے پاس دلیل ہے کہ یہ کنواں تمہاراہے، وگرنہ آپ کا مد مقابل قسم اٹھا لے گا؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کی قسم کو کیا کروں،اگر آپ نے اس کی قسم کی روشنی میں فیصلہ کیا تو وہ تو کنواں لے جائے گا کیونکہ میرا مد مقابل فاجر آدمی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا مال ناحق ہتھیا لے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:{اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَـہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورہ آل عمران: ۷۷)

Haidth Number: 8537

۔ (۸۵۳۷م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلٰییَمِینِ صَبْرٍ یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا، وَہُوَ فِیہَا فَاجِرٌ، لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ، وَإِنَّ تَصْدِیقَہَا لَفِی الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِینَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَ یْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ: فَخَرَجَ الْأَ شْعَثُ وَہُوَ یَقْرَؤُہَا قَالَ: فِیَّ أُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ، إِنَّ رَجُلًا ادَّعٰی رَکِیًّا لِی فَاخْتَصَمْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((شَاہِدَاکَ أَ وْ یَمِینُہُ۔)) فَقُلْتُ: أَمَا إِنَّہُ إِنْ حَلَفَ حَلَفَ فَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ حَلَفَ عَلَییَمِیْنِ صَبْرٍ، یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا، لَقِیَ اللّٰہَ وَھُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۸۴)

۔ (دوسری سند)سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:جس نے جھوٹی قسم اٹھائی اور اس کے ذریعے مال کا حق دار بن گیا، جبکہ وہ اس میں فاجر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا، یہ آیت اس واقعہ کی تصدیق کرتی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورہ آل عمران: ۷۷) جب سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو وہ یہ آیت پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی، ایک آدمی نے میرے ایک کنوئیں کے بارے میں یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ اس کا ہے، پس ہم دونوں جھگڑا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: دو گواہ ہیں؟ وگرنہ اس کی قسم معتبر ہو گی۔ میں نے کہا: اس کی قسم تو فاجر کی قسم ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو جھوٹی قسم اٹھائے اور مال ہتھیائے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔

Haidth Number: 8537
Haidth Number: 10021
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ملک الموت (موت والا فرشتہ) لوگوں کے پاس آتا تھا اور وہ اس کو دیکھتے تھے، اسی طرح وہ موسی علیہ السلام کے پاس آیا لیکن انھوں نے اسے تھپڑ مارا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی، فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ گیا اور کہا: اے میرے ربّ! تیرے بندے موسی نے (طمانچہ مار کر) میری آنکھ پھوڑ دی، اگر تو نے اسے معزز نہ بنایا ہوتا تو میں بھی اس پر سختی کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: تو میرے بندے کے پاس واپس جا اور اس سے کہہ کہ وہ بیل کی کمر پر ہاتھ رکھے، جتنے بال ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے، اتنے سال تم زندہ رہو گے۔ موسی علیہ السلام نے (فرشتے کییہ بات سن کر) کہا: اس کے بعد پھر کیا ہو گا؟ جواب ملا: پھر تجھے موت آئے گی۔ انھوں نے کہا: تو پھر ابھی سہی، پھر انھیں ایک بو سونگھائی اور ان کی روح قبض کر لی۔ یونس راوی نے کہا: پس اللہ تعالیٰ نے اس فرشتے کو آنکھ عطا کر دی، اس کے بعد فرشتہ لوگوں کے پاس مخفی انداز میں آنے لگ گیا۔

Haidth Number: 10387
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ملک الموت کو موسی علیہ السلام کی طرف بھیجا گیا، پس جب وہ ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کو تھپڑ مارا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی، پس وہ اپنے ربّ کی طرف لوٹ گیا اور کہا: تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے، جس کا موت کا ارادہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس فرشتے کی آنکھ واپس لوٹا دی اور اس سے کہا: تو اس کی طرف لوٹ جا اور اس کو کہہ کہ وہ اپنا ہاتھ بیل کی کمر پر رکھے، جتنے بال ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے، اتنے سال زندگی مل جائے گی، موسی علیہ السلام نے کہا: اے میرے ربّ! پھر کیا ہوگا؟ اس نے کہا: پھر موت ہو گی، انھوں نے کہا: تو پھر ابھی سہی، پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ اس کو پاک زمین سے ایک پتھر کی پھینک تک قریب کر دے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو تمھیں سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کی ایک طرف ان کی قبر دکھاتا۔

Haidth Number: 10388
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے سیر کرائی گئی، اس رات کو میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا اور میں نے ان کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر اپنی قبر میں نماز ادا کر رہے تھے۔ ایک روایت میں یہ زائد بات ہے: یہ قبر سرخ ٹیلے کے پاس تھی۔

Haidth Number: 10389

۔ (۱۰۵۶۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: ثَنَا ھَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَۃَیُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَالِکَ بْنَ صَعْصَعَۃَ، أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَھُمْ عَنْ لَیْلَۃٍ أُسْرِیَ بِہٖقَالَ: ((بَیْنَا أَنَا فِی الْحَطِیْمِ (وَرُبَمَا قَالَ قَتَادَۃُ: فِی الْحِجْرِ) مُضْطَجِعٌ اِذْ أَتَانِیْ آتٍ فَجَعَلَ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ: الْأَوْسَطُبَیْنَ الثَّلَاثَۃِ، قَالَ: فَأَتَانِیْ فَقَدَّ (وَسِمْعُت قَتَادَۃَیَقُوْلُ: فَشَقَّ) مَا بَیْنَ ھٰذِہِ اِلٰی ھٰذِہِ، (قَالَ قَتَادَۃُ: فَقُلْتُ لِلْجَارُوْدِ وَھُوَ اِلٰی جَنْبِیْ: مَا یَعْنِیْ؟ قَالَ: مِنْ ثُغْرِۃِ نَحْرِہِ اِلٰی شِعْرَتِہِ، وَقَدْ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: مِنْ قُصَّتِہِ اِلٰی شِعَرَتِہِ) قَالَ: فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِیْ فَأُتِیْتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مَمَلُوْئَۃٍ اِیْمَانًا وَحِکْمَۃً فَغُسِلَ قَلْبِیْ، ثُمَّّ حُشِیَ ثُمَّّ أُعِیْدَ، ثُمَّّ أُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ دُوْنَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْیَضَ (قَالَ: فَقَالَ الْجَارُوْدُ: ھُوَ الْبُرَاقُ؟ یَا أَبَا حَمْزَۃَ! قَالَ: نَعَمْ) یَقَعُ خَطْوُہُ عِنْدَ اَقْصٰی طَرْفِہِ، قَالَ: فَحُمِلْتُ عَلَیْہِ، فَانْطَلَقَ بِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی أَتٰی بِیَ السَّمَائَ الدُّنْیَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِیْلَ مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ، قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، فَقَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا فِیْھَا آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَقَالَ: ھٰذَا أَبُوْکَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتٰی اِلَی السَّمَائِ الثَّانِیَّۃِ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَ مَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَھُمَا اِبْنَا الْخَالَۃِ، فَقَالَ: ھٰذَا یَحْیٰی وَعِیْسٰی، فَسَلِّمْ عَلَیْھِمَا، قَالَ: فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ الثَّالِثَۃِ فَاسْتَفْتَحِ، فَقِیْلَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یُوْسُفُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا یُوْسُفُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ وَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ الرَّابِعَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ، قَالَ: نَعَمْ، فَقِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ قَالَ: فَاِذَا اِدْرِیْسُ عَلَیْہِ السِّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا اِدْرِیْسُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّّمَائَ الْخَامِسَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا ھٰرُوْنُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا ھٰرُوْنُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، قَالَ: فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ السَّّادِسَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا أَنَا بِمُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا مُوْسٰی فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السِّلَامَ ثُمّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَکٰی، قِیْلَ لَہُ: مَا یُبْکِیْکَ؟ قَالَ: أَبْکِیْ لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِیْ ثُمَّّ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِہِ أَکْثَرُ مِمَّا یَدْخُلُھَا مِنْ أُمَّتِیْ، قَالَ: ثُمّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ السَّابِعَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدُ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَقَالَ: ھٰذَا اِبْرَاھِیْمُ فَسَلِّمَ عَلَیْہِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْإِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَتْ اِلَیَّ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی، فَاِذَا نَبْقُھَا مِثْلُ قِلَالِ ھَجَرَ، وَاِذَا وَرَقُھَا مِثْلُ آذَانِ الْفِیَلَۃِ، فقَالَ: ھٰذِہِ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی، قَالَ: وَاِذَا أَرْبَعَۃُ أَنْھَارٍ، نَھْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَھْرَانِ ظَاھِرَانِ، فَقُلْتُ: مَا ھٰذَا یَاجِبْرِیْلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَھْرَانِ فِیْ الْجَنَّۃِ وَأَمَّا الظَّاھِرَانِ فَالنِّیْلُ وَالْفُرَاتُ، قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَ اِلٰی الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ، (قَالَ قَتَادَۃُ: وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ رَأَی الْبَیْتَ الْمَعْمُوْرَ یَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَک ثُمَّّ لَا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْہِ، ثُمَّّ رَجَعَ اِلٰی حَدِیْثِ أَنَسٍ) قَالَ: ثُمَّّ أُتِیْتُ بِاِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَاِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ وَاِنَائٍ مِنْ عَسَلٍ، قَالَ: فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ، قَالَ: ھٰذِہِ الْفِطْرَۃُ، أَنْتَ عَلَیْھَا وَأُمَّتُکَ، قَالَ: ثُمَّّ فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: فَرَجَعْتُ عَلٰی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فَقَالَ: بِمَاِذَا أُمِرْتَ؟ قِیْلَ: أُمِرْتُ بِخَمْسِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِأَرْبَعِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ أَرْبَعِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا أَخَرَ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ لِیْ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: اُمِرْتُ بِثَلَاثِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ لِثَلَاثِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمَعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا أَخَرَ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ لِیْ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِعِشْرِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ الْعِشْرِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ لِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ فَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسَ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَرَجَعْتُ اِلٰیمُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ سَأَلْتُ رَبِّیْ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ وَلٰکِنْ اَرْضٰی وَاُسَلِّمُ، فَلَمَّا نَفَذْتُ نَادٰی مُنَادٍ قَدْ اَمْضَیْتُ فَرِیْضَتِیْ وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۸۹)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا مالک بن صعصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اسراء والی رات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، میرے پاس ایک آنے والا یعنی جبریل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آیا اور اس نے اپنے ساتھی سے کہا: ان تینوں میں درمیان میں لیٹے ہوئے (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہیں، پس وہ میرے پاس آیا اور اس جگہ سے اس جگہ تک لمبائی میں چاک کردیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے اپنے پہلو میں بیٹھنے والے جارود سے پوچھا: اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد کیا تھی؟ انھوں نے کہا: ہنسلی کیہڈیوں کے درمیان والی پست جگہ سے لے کر شرمگاہ کے بال اگنے والی جگہ تک پیٹ کو چاک کر دیا، پھر میرا دل نکالا گیا، ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا سونے کا تھال میرے پاس لایا گیا، پھر میرے دل کو دھو کر ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا اور پھر اصل حالت میںلوٹا دیا گیا، بعد ازاں میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا، وہ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا لگ رہا تھا۔ جارود راوی نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ جانور براق تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں، اس جانور کا قدم اس کی منتہائے نگاہ تک جاتا تھا، میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو اس پر سوار کر لیا گیا اور حضرت جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چل پڑے، یہاں تک کہ مجھے آسمانِ دنیا تک لے آئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: آپ کو مرحبا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا آنا بہترین آمد ہے، پس آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہ آپ کے باپ آدم ہیں، ان کو سلام کہو، میں نے ان پر سلام کہا، انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بیٹے اور صالح نبی کو مرحبا،پھر جبریل آگے بڑھے اور دوسرے آسمان تک پہنچ گئے، وہاں دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں، کہا گیا: مرحبا، یہ بہترین آمد ہے، پھر دروازہ کھول دیا گیا اور جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو خالہ زاد یحییٰ اور عیسیm تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہیحییٰ اور عیسی ہیں، ان کو سلام کہو، پس میں سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید، پھر وہ مجھے لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس کہا گیا: آپ کو مرحبا، آپ کا آنا بہترین آمد ہے، پھر دروازہ کھول دیا گیا اور جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھا وہاں حضرت یوسف علیہ السلام تشریف فرما تھے، جبریل نے کہا: یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کریں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید، پھر وہ آگے کو بڑھے، یہاں تک کہ چوتھے آسمان تک پہنچ گئے اور کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا گیا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس کہا گیا: مرحبا، ان کاآنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ ادریس علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ادریس ہیں، آپ ان کو سلام کریں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر کہا: صالح بھائی اورصالح نبی کو مرحبا۔بعد ازاں جبریل علیہ السلام پانچویں آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے، اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، ان کا آنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا، جب میں اس سے آگے گزرا تو دیکھا کہ ہارون علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہ ہارون ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا، پھر انھوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، پھر انھوں نے چڑھنا شروع کیا،یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچ گئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، ان کا آنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے داخل ہوا تو دیکھا موسی علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ موسی ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پھر کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، جب میں ان سے آگے بڑھا تو انھوں نے رونا شروع کر دیا، ان سے کہا گیا: تم کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک آدمی میرے بعد مبعوث کیا گیا، لیکن میری امت کی بہ نسبت اس کی امت کی اکثریت جنت میں داخل ہو گی، پھر وہ آگے کو بڑھے اور ساتویں آسمان تک پہنچ گئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل، کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: مرحبا، یہ بہترین آنا آئے، پس دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے آگے گزرا تو دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بیٹے اور صالح نبی کو مرحبا، پھر میرے لیے سدرۃالمنتہی کو بلند کیا گیا، اس کا پھل ہجر کے مٹکوںکی طرح اور اس کے پتے ہاتھوں کے کانوں کی طرح تھے، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہی ہے، وہاں چار نہریں تھیں، دو نہریں مخفی تھیں اور دو ظاہری، میں نے کہا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ دو باطنی نہریں جنت میں جا رہی ہیں اور یہ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر میرے لیے بیت ِ معمور کو بلند کیا گیا۔ امام حسن بصری نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت ِ معمور کو دیکھا، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر وہ دوبارہ نہیں آ سکتے، پھر راوی سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کی طرف لوٹے اور کہاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر میرے پاس ایک برتن شراب کا، ایک دودھ کا اور ایک برتن شہد کا لایا گیا، میں نے دودھ پکڑ لیا، اس نے کہا: یہ فطرت ہے، آپ اور آپ کی امت فطرت پر ہیں، پھر مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، لیکن جب میں لوٹا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے کہا: بیشک تیری امت پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں بنی بنو اسرائیل کے ساتھ بڑی سخت مشق کی ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، پس میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر جب میں لوٹا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں چالیس نمازیں ادا کرنے کا حکم ملا ہے، انھوں نے کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں چالیس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل کے ساتھ معاملات کو بڑی سختی سے نمٹایا ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، سو میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مزید دس نمازیں کم کر دیں، پھر میں موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے کہا: آپ کو کس عمل کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں تیس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں تیس نمازیں ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، میں آپ سے پہلے لوگوں کو پرکھ چکا ہوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ بڑی سختی سے معاملات انجام دیئے ہیں، لہٰذا آپ لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، پس میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مزید دس نمازیں کم کر دیں، لیکن پھر جب میں موسی علیہ السلام کے پاس لوٹا تو انھوں نے وہی سوال کیا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے، میں نے کہا: جی ایک دن میں بیس نمازوں کا، انھوں نے پھر وہی بات کہی کہ آپ کی امت ایک دن میں بیس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنواسرائیل کے ساتھ بڑی سخت مشق کی ہے، لہٰذا اپنے ربّ کی طرف لو جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو، پس میں لوٹ گیا اور مجھے ایک دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا، لیکن جب میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے تو میں نے کہا: جی ایک دن میں دس نمازوں کا، انھوں نے اب کی بار پھر کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں دس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کی جانچ پڑتال کر چکا ہوں اور میں نے بنو اسرائیل بڑی سختی کے ساتھ آزمایا ہے، لہٰذا تو اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کر، پس میں پھر لوٹ گیا اور مجھے ایک دن میں پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا، میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے پوچھا: آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا؟ میں نے کہا: مجھے ایک دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے پھر کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میںپانچ نمازیں ادا نہیں کر سکتی اور میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنو اسرائیل کے ساتھ بڑی سختی کے ساتھ مشق کی ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، اب کی بار میں نے کہا: میں نے اپنے ربّ سے اتنی بار سوال کر لیا ہے کہ میں اس سے شرماتا ہوں، اب میں اسی پر راضی ہوتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں، پس جب میں آگے کو گزرا تو آواز دینے والے نے آواز لگائی: تحقیق میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کی ہے۔‘‘

Haidth Number: 10564

۔ (۱۰۵۶۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قِتَادَۃَ بْنِ دِعَامَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْکَعْبَۃِ بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْضَانِ فَسَمِعْتُ قَائِلًا یَقُوْلُ أَحَدُ الثَّلَاثَۃِ: (فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ۔) قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَ لَنَا الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ یَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ اِذَا خَرَجُوْا مِنْہُ لَمْ یَعُوْدُوْا فِیْہِ آخِرَ مَا عَلَیْھِمْ، قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَتْ اِلٰی سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی، فَاِذَا وَرَقُھَا مِثْلُ آذَانِ الْفِیَلَۃِ( فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ) قَالَ: فَقُلْتُ: لَقَدِ اخْتَلَفْتُ اِلٰی رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ، لَا، وَلٰکِنْ أَرْضٰی وَأُسَلِّمُ، قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُہُ نُوْدِیْتُ: اَنَّیْ قَدْ خَفَّفْتُ عَلٰی عِبَادِیْ وَأَمْضَیْتُ فَرَائِضِیْ وَجَعَلْتُ لِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرَ أَمْثَالِھَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۹۰)

۔ (دوسری سند) سیدنا مالک بن صعصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس سونے اور بیدار ہونے کی درمیانی کیفیت میں تھا کہ کسی بات کرنے والے کییہ آواز سنی: ان تینوں میں سے ایک ہے، … …، پھر میرے لیے بیت ِ معمور کو بلند کیا گیا، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشے داخل ہوتے ہیں اور جب وہ نکل جاتے ہیں تو آخرتک دوبارہ نہیں آ سکتے، پھر میرے لیے سدرۃ المنتہی کو بلند کیا گیا، اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے، … …، میں نے کہا: میں اپنے ربّ کے پاس اتنی بار جا چکا ہوں کہ اب مجھے شرم آتی ہے، اب میں نہیںجاؤں گا، بلکہ میں راضی ہوتا ہے اور تسلیم کرتا ہوں، پھر جب میں موسی علیہ السلام سے آگے کو گزرا تو مجھے یہ آواز دی گئی: بیشک میں نے اپنے بندوں پر تخفیف کر دی ہے اور اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے اور ہر نیکی کا دس گناہ اجر وثواب کر دیا ہے۔

Haidth Number: 10565

۔ (۱۰۵۶۶)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ: ثَنَا ھِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ، قَالَ: ثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مَالِکٍ بْنِ صَعْصَعَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَا أَنَا عِنْدَ البَیْتِ بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْضَانِ اِذْ اَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلَاثَۃِ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ، فَأُتِیْتُ بِطِسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مَلَأُہُ حِکْمَۃً وَاِیْمَانًا، فَشَقَّ مِنَ النَّحْرِ اِلَی مَرَاقِی الْبَطْنِ، فَغُسِلَ الْقَلْبُ بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّّ مُلِیئَ حِکْمَۃً وَاِیْمَانًا، ثُمَّّ اُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ دُوْنَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، ثُمَّّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السِّلَامُ فَأَتَیْنَا السَّمَائَ الدُّنْیَا، فَقِیْلَ: مَنْ ھَذَا؟ قِیْلَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدُ، قِیْلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ بِنَحْوِ مَا تَقَدَّمَ)) (مسند احمد: ۱۷۹۸۷)

۔ (تیسری سند) سیدنا مالک بن صعصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ میں سونے اور جاگنے کی درمیانی کیفیت میں تھا کہ تین میں ایک آدمی دو افراد کے درمیان متوجہ ہوا، پھر میرے پاس سونے کا ایک تھال لایا گیا، وہ حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا، پس اس فرشتے نے میرے گلے سے پیٹ کے نیچے والے نرم مقام تک کے حصے کو چاک کر دیا، میرے دل کو زمزم کے پانی کے ساتھ دھو کر اس میں حکمت اور ایمان کو بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا، وہ خچر سے چھوٹا تھا اور گدھے سے بڑا تھا، پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چل پڑے، ہم آسمانِ دنیاتک جا پہنچے، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہاگیا: تیری ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: ان کو خوش آمدید، ان کا آنا بہترین آمد ہے، … …۔

Haidth Number: 10566

۔ (۱۰۷۴۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِیَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو الضَّمْرِیِّ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ إِلَی الشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ، قَالَ لِی عُبَیْدُ اللّٰہِ: ہَلْ لَکَ فِی وَحْشِیٍّ، نَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَکَانَ وَحْشِیٌّیَسْکُنُ حِمْصَ، قَالَ: فَسَأَلْنَا عَنْہُ، فَقِیلَ لَنَا: ہُوَ ذَاکَ فِی ظِلِّ قَصْرِہِ کَأَنَّہُ حَمِیتٌ، قَالَ: فَجِئْنَا حَتّٰی وَقَفْنَا عَلَیْہِ فَسَلَّمْنَا فَرَدَّ عَلَیْنَا السَّلَامَ، قَالَ: وَعُبَیْدُ اللّٰہِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِہِ مَا یَرٰی وَحْشِیٌّ إِلَّا عَیْنَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ: یَا وَحْشِیُّ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: لَا وَاللّٰہِ! إِلَّا أَنِّی أَعْلَمُ أَنَّ عَدِیَّ بْنَ الْخِیَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً،یُقَالُ لَہَا: أُمُّ قِتَالٍ، ابْنَۃُ أَبِی الْعِیصِ، فَوَلَدَتْ لَہُ غُلَامًا بِمَکَّۃَ فَاسْتَرْضَعَہُ، فَحَمَلْتُ ذٰلِکَ الْغُلَامَ مَعَ أُمِّہِ فَنَاوَلْتُہَا إِیَّاہُ، فَلَکَأَنِّی نَظَرْتُ إِلٰی قَدَمَیْکَ، قَالَ: فَکَشَفَ عُبَیْدُ اللّٰہِ وَجْہَہُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَۃَ قَتَلَ طُعَیْمَۃَ بْنَ عَدِیٍّ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِی مَوْلَایَ جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ بِعَمِّی فَأَنْتَ حُرٌّ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ یَوْمَ عَینِینَ، قَالَ: وَعَینِینُ جُبَیْلٌ تَحْتَ أُحُدٍ وَبَیْنَہُ وَادٍ، خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَی الْقِتَالِ، فَلَمَّا أَنِ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ، قَالَ: خَرَجَ سِبَاعٌ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ قَالَ: فَخَرَجَ إِلَیْہِ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: سِبَاعُ بْنُ أُمِّ أَنْمَارٍ؟ یَا ابْنَ مُقَطِّعَۃِ الْبُظُورِ! أَتُحَادُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ؟ ثُمَّ شَدَّ عَلَیْہِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاہِبِ، وَأَکْمَنْتُ لِحَمْزَۃَ تَحْتَ صَخْرَۃٍ حَتّٰی إِذَا مَرَّ عَلَیَّ، فَلَمَّا أَنْ دَنَا مِنِّی رَمَیْتُہُ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا فِی ثُنَّتِہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ وَرِکَیْہِ، قَالَ: فَکَانَ ذٰلِکَ الْعَہْدُ بِہِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَہُمْ، قَالَ: فَأَقَمْتُ بِمَکَّۃَ حَتّٰی فَشَا فِیہَا الْإِسْلَامُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی الطَّائِفِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَقِیلَ لَہُ: إِنَّہُ لَایَہِیجُ لِلرُّسُلِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَہُمْ حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَلَمَّا رَآنِی، قَالَ: ((أَنْتَ وَحْشِیٌّ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَدْ کَانَ مِنَ الْأَمْرِ مَا بَلَغَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِذْ قَالَ: ((مَا تَسْتَطِیعُ أَنْ تُغَیِّبَ عَنِّی وَجْہَکَ؟)) قَالَ: فَرَجَعْتُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَخْرُجَنَّ إِلٰی مُسَیْلِمَۃَ لَعَلِّی أَقْتُلُہُ فَأُکَافِئَ بِہِ حَمْزَۃَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِہِمْ مَا کَانَ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی ثَلْمَۃِ جِدَارٍ کَأَنَّہُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرٌ رَأْسُہُ، قَالَ: فَأَرْمِیہِ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا بَیْنَ ثَدْیَیْہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ کَتِفَیْہِ، قَالَ: وَوَثَبَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ عَلٰی ہَامَتِہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْفَضْلِ: فَأَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَتْ جَارِیَۃٌ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ، وَأَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَتَلَہُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۷۴)

جعفر بن عمرو ضمری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عبید اللہ بن عدی بن خیار کی معیت میں شام کی طرف گیا، جب ہم حمص میں پہنچے تو عبید اللہ نے مجھ سے کہا: کیا تم سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل وحشی بن حرب کو دیکھنا چاہتے ہو؟ ہم اس سے سیّد نا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کے متعلق دریافت کریں گے۔ میں نے کہا: جی ہاں ان دنوں وحشی حمص میں مقیم تھا۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ سامنے اپنے محل کے سایہ میں ہے، اس کا جسم ایک مشک کی طرح (موٹا) تھا، جعفر کہتے ہیں: ہم اس کے قریب جا کر رک گئے اور ہم نے اسے سلام کہا، اس نے ہمیں سلام کا جواب دیا۔اس وقت عبید اللہ اپنے عمامہ کو اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا، وحشی کو ان کی آنکھیں اور پاؤں ہی نظر آئے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: وحشی! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ اس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! نہیں، البتہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن الخیار نے ابو العیص کی دختر ام قتال سے شادی کی تھی، اس کے بطن سے مکہ میں اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، میں اس بچے کے لیے کسی عورت کی تلاش میں تھا، جو اسے دودھ پلائے، میں نے اس بچے کو اس کی ماں کے ہمراہ اٹھایا تھا اور اسے پکڑ کر اس عورت کو تھمایا تھا، مجھے تمہارے قدم اس بچے کے سے لگتے ہیں، اس کے بعد عبیداللہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: کیا آپ ہمیں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کا واقعہ سنائیں گے؟ اس نے کہا: ہاں، حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر میں طیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا، میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے بدلے میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو گے۔ جب لوگ عینین کے دن جنگ کے لیے روانہ ہوئے، احد کے قریب ہی ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، جس کا نام عینین ہے۔ ان دونوں کے درمیان صرف ایک وادی ہے،لوگ قتال کے لیے نکلے اور قتال کے لیے صف آراء ہو گئے تو سباع بن عبدالعزی خزاعی سامنے نکلا اور اس نے للکارا کہ ہے کوئی میرے مدمقابل؟ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے مقابلے میں نکلے اور کہا کیا تو سباع بن ام انمار ہے؟ اے اس عورت کے بیٹے جو بچیوں کے فرج کے ساتھ بڑھے ہوئے چمڑے کا ٹا کرتی تھی! کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں آیا ہے؟ اور یہ کہتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کرنے کے ارادے سے ایک چٹان کے پیچھے گھات میں تھا، تاکہ جب وہ میرے پاس سے گزریں تو حملہ کر سکوں۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے ان کے مثانے پر وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ یہی وار ان کی موت کا سبب بنا، لوگ جب جنگ سے واپس ہوئے تو میں بھی واپس گیا اور میں مکہ میں مقیم رہا تاآ نکہ وہاں بھی اسلام پھیل گیا، میں وہاں سے طائف کو نکل گیا، اہل طائف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اپنا ایک قاصد بھیجا، کہا گیا کہ آپ کسی کے قاصد کو کچھ نہیں کہتے، میں بھی لوگوں کے ہمراہ آپ کی خدمت میں جا پہنچا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: تم ہی وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہی نے حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! وہی ہوا تھا جس کی اطلاع آپ تک پہنچ چکی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنے آپ کو مجھ سے دور نہیں رکھ سکتے؟ چنانچہ میں وہاں سے چلا آیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا اور مسیلمہ کذاب مدعی نبوت بن کر ظاہر ہوا تو میں نے سوچا کہ میں مسیلمہ کی طرف جا کر دیکھوں شاید میں اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں اور اس طرح حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کی تلافی کر سکوں، چنانچہ میں لوگوں کے ہمراہ مسیلمہ کے مقابلے کو نکلا، پس جو ہونا تھا وہی ہوا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا تھا یوں لگتا تھا، جیسے وہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہو، اس کے سر کے بال پراگندہ تھے، میں نے اپنا نیزہ اس پر پھینکا، جو اس کے پستانوں کے درمیان جا کر لگا، اور کندھوں کے درمیان سے پار ہو گیا، پھر ایک انصاری اس کی طرف لپکا اور اس کے سر پر تلوار چلائی۔ عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ایک گھر کی چھت پر سے ایک لڑکی نے کہا کہ ایک سیاہ فام غلام نے امیر المؤمنین مسیلمہ کو قتل کر دیا۔

Haidth Number: 10742
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سو گیا اور میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور میں نے وہاں قرآن پڑھتے ایک آدمی کی آواز سنی، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتلایا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس صحابی کے حق میں فرمایا: حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے، حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے۔ یہ صحابی لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا۔

Haidth Number: 11668
سیدنا حا رثہ بن نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبریل علیہ السلام کے ساتھ (مسجد کے قریب) المقاعد جگہ میں بیٹھے تھے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا اور میں آگے گزر گیا، جب میں واپس آیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی وہاں سے واپس ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ بیٹھے آدمی کو تم نے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے اور انہوںنے تمہارے سلام کا جواب دیا تھا۔

Haidth Number: 11669
قیس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی، وہ لوگو ں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلیفہ کی بات سنو، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک خادم، جس کا نام شدید تھا، وہ ایک تحریر لے کر آیا اور اس نے وہ تحریر لوگوں کے سامنے پڑھی۔ اس نے کہا:سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس تحریر میں جو کچھ ہے، اسے سنو اور تسلیم کرو۔ اللہ کی قسم! میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔قیس کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو منبر پر دیکھا۔

Haidth Number: 12185
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ مکہ کے پہلے راستہ پر جو قبرستان واقع ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب وہاں ضفیریا ضفیرہ کے پیچھے پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بہترین قبرستان ہے۔ جس نے مجھے حدیث بیان کی، میں نے اس سے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھاٹی کا بھی بطور خاص ذکر کیاتھا، انہوں نے کہا: یہ الفاظ اسی طرح ہیں، گھاٹی کی تخصیص کے بارے میں انہوںنے ہمیں نہیں بتلایا، صرف اتنا ہی بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ضفیرہ یا ضفیر کے پیچھے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور ہم سنا کرتے تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے سامنے واقع گھاٹی کی تخصیص بھی کی ہے۔

Haidth Number: 12607

۔ (۱۲۹۶۹)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَتْ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِہٖ فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا کَانَ قَبْلَ خُرُوْجِ الدَّجَّالِ بِثَلَاثِ سِنِیْنَ، حَبَسَتِ السَّمَائُ ثُلُثَ قَطْرِھَا وَحَبَسَتِ الْاَرْضُ ثُلُثَ نَبََاتِہَا، فَاِذَا کَانَتِ السَّنَۃُ الثَّانِیَۃُ حَبَسَتِ السَّمَائُ ثُلُثَیْ قَطْرِھَا وَحَبَسَتِ الْاَرْضُ ثُلُثَیْ نَبَاتِہَا، وَاِذَا کَانَتِ السَّنَۃُالثَّالِِثَۃُ حَبَسَتِ السَّمَائُ قَطْرَھَا کُلَّھَا وَحَبَسَتِ الْاَرْضُ نَبَاتَہَا کُلَّہُ فَلَایَبْقٰی ذُوْخُفٍّ وَلَاظِلْفٍ اِلَّا ھَلَکَ، فَیَقُوْلُ الدَّجَّالُ لِلرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ: اَرَاَیْتَ اِنْ بَعَثْتُ اِبِلَکَ ضِخَامًا ضُرُوْعُہَا عِظَامًا اَسْنِمَتُہَا اَتَعْلَمُ اَنِّیْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، فَتَمَثَّلَ لَہُ الشَّیَاطِیْنُ عَلٰی صُوْرَۃِ اِبِلِہٖفَیَتْبَعُہُ، وَیَقُوْلُ لِلرَّجُلِ: اَرَاَیْتَ اِنْ بَعَثْتُ اَبَاکَ وَاِبْنَکَ وَمَنْ تَعْرِفُ مِنْ اَھْلِکَ اَتَعْلَمُ اَنِّیْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، فَیُمَثِّلُ لَہُ الشَّیَاطِیْنَ عَلٰی صُوَرِھِمْ فَیَتْبَعُہُ۔)) ثُمَّ خَرََجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَکٰی اَھْلُ الْبَیْتِ، ثُمَّ رَجََعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ نَبْکِیْ، فَقَالَ: ((مَا یُبْکِیْکُمْ؟)) فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ذَکَرْتَ مِنَ الدَّجَّالِ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: لَقَدْ خَلَعْتَ اَفْئِدَتَنَا بِذِکْرِالدَّجَّالِ) فَوَاللّٰہِ! اِنَّ اَمَۃَ اَھْلِیْ لَتَعْجِنُ عَجِیْنَہَا فَمَا تَبْلُغُ حَتّٰی تَکَادُ تَفَنَّتْ مِنَ الْجُوْعِ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اِنَّا لَنَعْجِنُ عَجِیْنَتَنَا فَمَا نَخْتَبِزُھَا حَتّٰی نَجُوْعَ) فَکَیْفَ نَصْنَعُ یَوْمَئِذٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَکْفِی الْمُوْمِنِیْنَ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ یَوْمَئِذٍ التَّکْبِیْرُ وَالتَّسْبِیْحُ وَالتَّحْمِیْدُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَا تَبْکُوْا فَاِنْ یَّخْرُ جِ الدَّجَّالُ وَاَنَا فِیْکُمْ، فَاَنَا حَجِیْجُہُ وَاِنْ یَّخْرُ جْ بَعْدِیْ فَاللّٰہُ خَلِیْفَتِیْ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۲۰)

سیدہ اسماء بنت یزید سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر میں موجود تھے، کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ظہور دجال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی پانی اور زمین ایک تہائی فصل رو ک لے گی، جب دوسرا سال آئے گا تو آسمان دو تہائی پانی اور زمین دو تہائی فصلیں روک لے گی، پھر جب تیسرا سال شروع ہو گا تو آسمان مکمل طور پر اپنا پانی اور زمین مکمل طور پر اپنی فصلیں روک لے گی، ٹاپوں (والے اونٹ) اور کھروں (والے گائے، بیل، بھیڑ بکری اور گھوڑے گدھے) سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اتنے میں اُدھر دجال پہنچ کر ایک دیہاتی آدمی سے کہے گا: اگر میں تمہاری اونٹنیوں کو موٹی تازہ اور دودھ سے بھری تھنوں کی صورت میںپیدا کرکے دکھاؤں تو کیا تم مان جاؤ گے کہ میں تمہار اربّ ہوں؟ وہ کہے گا: ہاں بالکل۔ اس کے بعد شیطان اس آدمی کے اونٹوں کی شکل اختیار کریں گے تو وہ آدمی اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ اسی طرح وہ دجال ایک اور آدمی سے کہے گا: اگر میں تمہارے باپ، بیٹے اور اور تم اپنے خاندان کے جن لوگوں کو پہچانتے ہو، سب کو زندہ کر دوں تو کیا تم یقین کر لو گے کہ میں تمہارا ربّ ہوں؟ وہ کہے گا: ہاں بالکل، پھر وہ شیطانوں کو ان لوگوں کی شکل میں پیش کر دے گا تو وہ بھی اس نے پیچھے چلا جائے گا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر چلے گئے اور گھر میں موجود سارے لوگ رونے لگ گئے، جب سیدہ اسماء بنت یزید سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر میں موجود تھے، کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ظہور دجال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی پانی اور زمین ایک تہائی فصل رو ک لے گی، جب دوسرا سال آئے گا تو آسمان دو تہائی پانی اور زمین دو تہائی فصلیں روک لے گی، پھر جب تیسرا سال شروع ہو گا تو آسمان مکمل طور پر اپنا پانی اور زمین مکمل طور پر اپنی فصلیں روک لے گی، ٹاپوں (والے اونٹ) اور کھروں (والے گائے، بیل، بھیڑ بکری اور گھوڑے گدھے) سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اتنے میں اُدھر دجال پہنچ کر ایک دیہاتی آدمی سے کہے گا: اگر میں تمہاری اونٹنیوں کو موٹی تازہ اور دودھ سے بھری تھنوں کی صورت میںپیدا کرکے دکھاؤں تو کیا تم مان جاؤ گے کہ میں تمہار اربّ ہوں؟ وہ کہے گا: ہاں بالکل۔ اس کے بعد شیطان اس آدمی کے اونٹوں کی شکل اختیار کریں گے تو وہ آدمی اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ اسی طرح وہ دجال ایک اور آدمی سے کہے گا: اگر میں تمہارے باپ، بیٹے اور اور تم اپنے خاندان کے جن لوگوں کو پہچانتے ہو، سب کو زندہ کر دوں تو کیا تم یقین کر لو گے کہ میں تمہارا ربّ ہوں؟ وہ کہے گا: ہاں بالکل، پھر وہ شیطانوں کو ان لوگوں کی شکل میں پیش کر دے گا تو وہ بھی اس نے پیچھے چلا جائے گا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر چلے گئے اور گھر میں موجود سارے لوگ رونے لگ گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے تو ہم سب رو رہے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ میں (اسمائ) نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے دجال کے متعلق جو کچھ بیان کیا، اس کی وجہ سے ۔ ایک روایت میں ہے: آپ نے تو دجال کر ذکر کر کے ہمارے دلوں کو ہلا دیاہے، اللہ کی قسم! میرے اہل کی ایک لونڈی ہے، جب وہ آٹا گوندھتی ہے تو ابھی تک اپنا کام پورا نہیں کرتی کہ بھوک کی وجہ سے ٹوٹنے لگ جاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے: جب ہم آٹا گوندھتی ہیں تو ابھی تک روٹی نہیں پکاتی کہ بھوک لگی ہوتی ہے، تو اُس وقت ہم کیا کریں گے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت اہل ایمان کو کھانے پینے کی بجائے تکبیر، تسبیح اور تحمید کفایت کریں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ نہ روؤو، کیونکہ اگر میری موجودگی میں دجال کا ظہور ہو گیا تو میں اس کا مقابلہ کر لوں گا اور اگر میرے بعد ہوا تو ہر مسلمان پر خلیفہ اللہ تعالیٰ خود ہو گا۔

Haidth Number: 12969
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دجال کے ظہور سے قبل شدت کے دور کی بات کی،صحابہ کرام نے پوچھا: ان دنوں کو نسا مال بہتر ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: طاقت ور غلام، جو اپنے مالکوں کو پانی پلا سکے گا، رہا مسئلہ کھانے کا، تو وہ تو سرے سے ہو گا ہی نہیں۔ صحابہ نے دریافت کیا: تو پھر ان دنوں مومنوں کا کھانا کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تقدیس ، تحمید اور تہلیل بیان کرنا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے پوچھا: ان دنوں عرب کہاںہوں گے؟ فرمایا: ان دنوں عرب تھوڑے ہوں گے۔

Haidth Number: 12970

۔ (۱۳۱۷۶)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَجْمَعُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ الْاُمَمَ فِیْ صَعِیْدٍیَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاِذَا بَدَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یَصْدَعَ بَیْنَ خَلْقِہٖ،مَثَّلَلِکُلِّقَوْمٍمَاکُانُوْایَعْبُدُوْنَ، فَیَتَّبِعُوْنَہُمْ حَتّٰییُقَحِّمُوْنَہُمُ النَّارَ، ثُمَّ یَاْتِیْنَا رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ وَنَحْنُ عَلٰی مَکَانٍ رَفِیْعٍ فَیَقُوْلُ: مَنْ اَنْتُمْ؟ فَنَقُوْلُ: نَحْنُ الْمُسْلِمُوْنَ، فَیَقُوْلُ: مَا تَنْتَظِرُوْنَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَنْتَظِرُ رَبَّنَا عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَیَقُوْلُ: وَھَلْ تَعْرِفُوْنَہُ اِنْ رَاَیْتُمُوْہُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ: کَیْفَ تَعْرِفُوْنَہُ وَلَمْ تَرَوْہُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، اِنَّہُ لَاعِدْلَ لَہُ فَیَتَجَلّٰی لَنَا ضَاحِکًا، فَیَقُوْلُ: اَبْشِرُوْا اَیُّہَا الْمُسْلِمُوْنَ فَاِنَّہُ لَیْسَ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا جَعَلْتُ مَکَانَہٗفِیْ النَّارِ یَہُوْدِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا۔)) (مسند احمد: ۱۹۸۸۸)

سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام امتوں کو ایک چٹیل میدان میںجمع کرے گا، جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوگا کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان فیصلے کرے توہر قوم جس جس کی پوجا کیا کرتی تھی، اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس کی صورت پیش کرے گا، وہ لوگ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چلتے ہوئے جہنم میں چلے جائیں گے، جبکہ ہم ایک بلند جگہ پر ہوں گے، ہمارا ربّ ہمارے پاس آکر کہے گا: تم کون لوگ ہو؟ ہم عرض کریں گے: ہم مسلمان ہیں، وہ پوچھے گا: تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ ہم کہیں گے: ہم اپنے ربّ کا انتظار کر رہے ہیں، وہ پوچھے گا: کیا تم اسے دیکھ کر پہنچان جاؤ گے؟ ہم کہیں گے: جی ہاں، وہ پوچھے گا: تم نے تو اسے دیکھا ہی نہیں، پس تم اسے کیسے پہچانو گے؟ ہم کہیں گے: بس ہم اسے پہچان لیں گے، کیونکہ وہ بے مثل ہیں، اس جیسا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ مسکراتے ہوئے ان کے سامنے ظہور فرمائے گا اور کہے گا: مسلمانو! مبارک ہو، میںنے تمہارے ہر ہر فرد کے بدلے ایک یہودی یا عیسائی کو جہنم میں پہنچادیا ہے۔

Haidth Number: 13176
عمارۃ قرشی کہتے ہیں: ہم ایک وفد کی صورت میں عمربن عبدالعزیز کی خدمت میں گئے، وفد میں سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، عمربن عبدالعزیز نے ہمارا کام کر دیا، جب سیدنا ابوبردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں سے نکلے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے ان کو دیکھ کر کہا: بزرگ کو کیا یاد آگیا؟ کیا میں نے آپ لوگوں کا کام نہیں کر دیا؟ سیدناابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کام تو ہو گیا ہے، ایک حدیث رہ گئی ہے، جو میرے والد (سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے مجھے بیان کی تھی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن امتوں کو جمع کرے گا،… پھر گزشتہ حدیث کی مانند ذکر کیا۔ عمربن عبدالعزیز نے سیدنا ابوبردہ سے پوچھا: اللہ کی قسم! کیا واقعی تم نے سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے ہوں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں میں نے اپنے والد کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تھا۔

Haidth Number: 13177