Blog
Books
Search Hadith

ظلم کو معاف کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کابیان

866 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! تین چیزیں ہیں، میںیقینا ان پر قسم اٹھاتا ہوں، (۱) صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی، پس صدقہ کیا کرو، (۲) جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی تلاش کرنے کے لیے کسی ظلم کو معاف کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو بلند کردیتا ہے، ایک روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی عزت میں اضافہ کر دے گا اور (۳) جب بندہ سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقیری کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

Haidth Number: 9183

۔ (۹۱۸۴)۔ عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَجُلًا شَتَمَ اَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْجَبُ وَیَتَبَسَّمُ فَلَمَّا اَکَثَرَ رَدَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ، فَغَضِبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَامَ، فَلَحِقَہُ اَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَانَ یَشْتُمُنِی وَاَنْتَ جَالِسٌ فَلَمَّا رَدَدْتُّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ غَضِبْتَ وَقُمْتَ قَالَ: ((اِنَّہٗکَانَمَعَکَمَلَکٌیَرُدُّ عَنْکَ، فَلَمَّا رَدَدْتَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ وَقَعَ الشَّیْطَانُ، فَلَمْ اَکُنْ لِاَقْعُدَ مَعَ الشَّیْطَانِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا اَبَا بَکْرٍ ثَلَاثٌ کُلُّھُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلِمَۃٍ فَیُغْضِی عَنْھَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا اَعَزَّ اللّٰہُ بِھَا نَصْرَہُ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِیَّۃٍیُّرِیْدُ بِھَا صِلَۃً اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ بِھَا کَثْرَۃً، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ المَسْاَلَۃِیُرِیْدُ بِھَا کَثْرَۃً، اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِھَا قِلَّۃً۔)) (مسند احمد: ۹۶۲۲)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو برا بھلا کہنے لگا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پاس تشریف فرماتھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تعجب کررہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ جب اُس شخص نے زیادہ گالیاں دیں تو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بعض گالیوں کا جواب دیا۔لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ناراض ہو گئے اور چلے گئے۔ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جاملے اور کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! وہ مجھ پر سب و شتم کرتا رہا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے رہے، جب میں نے اس کی بعض گالیوں کا جواب دیا تو آپ غصے میں آگئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دراصل تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا، جو تیری طرف سے جواب دے رہا تھا، لیکن جب تم نے خود جوابی کاروائی شروع کی تو شیطان آ گھسا، اب میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا۔ پھر آپ نے فرمایا: ابو بکر! تین چیزیں برحق ہیں: (۱)جس آدمی پر ظلم کیا جائے اور وہ آگے سے چشم پوشی کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی زبردست مدد کرتے ہیں، (۲) جو آدمی تعلقات جوڑنے کے لیے عطیے دینا شروع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کثرت سے عطا کرتے ہیں اور (۳) جو آدمی اپنے مال کو بڑھانے کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا شروع کرتاہے، اللہ تعالیٰ (اس کے مال کی) کمی میں اضافہ کرتے ہیں۔

Haidth Number: 9184
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے فضیلت والے اعمال کے بارے میں بتلائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عقبہ! تو اس سے تعلق جوڑ، جو تجھ سے تعلق ختم کرے، اس کو دے، جو تجھے محروم کرے اور اس کو معاف کر دے، جو تجھ پر ظلم کرے۔

Haidth Number: 9185
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اس کے جسم میں زخم لگایا جائے اور وہ اس کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی معافی کے مطابق اس چیز کو اس کے لیے کفارہ بنائے گا۔

Haidth Number: 9186
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درگزر کر، تاکہ تجھ سے بھی درگزر کی جائے۔

Haidth Number: 9187
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک قوم، کمزور اور مسکین تھی، تکبر اور تعداد والے لوگوں نے ان سے لڑائی کی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کو اُن پر غالب کیا تو انھوں نے اپنے دشمن کا قصد کیا اور ان کو غلام بنا لیا اور ان پر مسلط ہو گئے اور اس طرح روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کو ملنے تک انہوں نے اپنے اوپر اس کو ناراض کر دیا۔

Haidth Number: 9188
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کی غلطی کو معاف کر دیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کی (لغزشوں اور غلطیوں) کو معاف کر دے گا۔

Haidth Number: 9189
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی، جو آدمی ظلم کو معاف کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتاہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 9190

۔ (۹۳۲۹)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: قَالَ اَبَوْھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: بَیْنَمَا رَجُلٌ وَامْرَاَۃٌ لَہُ فِی السَّلَفِ الْخَالِیْ لَایَقْدُرَانِ عَلیٰ شَیْئٍ، فَجَائَ الرَّجُلُ مِنْ سَفْرِہِ فَدَخَلَ عَلیَ امْرَاَۃٍ جَائِعًا قَدْ اَصَابَتْہُ مَسْغَبَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، َفقَالَ لِاِمْرَاَتِہِ: اَعِنْدَکِ شَیْئٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، اَبْشِرْ اَتَاکَ رِزْقُ اللّٰہِ، فَاسْتَحَثَّھَا فَقَالَ: وَیْحَکِ، اِبْتَغِیْ اِنْ کَانَ عِنْدَکِ شَیْئٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، ھُنْیَۃً نَرْجُوْ رَحْمَۃَ اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا طَالَ عَلَیْہِ الطَّوَی قَالَ: وَیْحَکِ قُوْمِیْ فَابْتَغِیْ اِنْ کَانَ عِنْدَکِ خُبْزٌ فَاْتِیْنِيْ بِہٖفَاِنِّی قَدْ بَلَغْتُ وَجَھِدْتُ، فَقَالَتْ: نَعَمْ، الآنَ یَنْضَجُ التَّنُّوْرُ فَـلَا تَعْجَلْ، فَلَمَّا اَنْ سَکَتَ عَنْھَا سَاعَۃً وَتَحَیَّنَتْ اَیْضًا اَنْ یَّقُوْلَ لَھَا، قَالَتْ ھِیَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِھَا لَوْ قُمْتُ فَنَظَرْتُ اِلیٰ تَنُّوْرِیْ، فَقَامَتْ فَوَجَدَتْ تَنُّوْرَھَا مَلآیَ جُنُوبَ الْغَنَمِ،وَرَحْیَیْھَا تَطْحَنَانِ، فَقَامَتْ اِلیٰ الرَّحیٰ فَنَفَضَتْھَا وَاَخْرَجَتْ مَافِیْ تَنُّوْرِھَا مِنْ جُنُوبِ الْغَنَمِ، قَالَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَوَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِی الْقَاسِمْ بِیَدِہِ، عَنْ قَوْلِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ اَخَذَتْ مَا فِیْ رَحْیَیْھَا وَلَمْ تَنْفُضْھَا، لَطَحَنَتْھَا اِلیٰیَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۹۴۴۵)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے کہ ایک آدمی اور اس کی بیوی کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے تھے، (یعنی ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی)، ایک دن وہ آدمی سفر سے واپس آیا اور اپنی بیوی پر داخل ہوا، جبکہ وہ سخت بھوک میں مبتلا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا: کیا تیرے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، خوش ہو جاؤ، بس ابھی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا رزق آیا، پھر اس شخص نے اس خاتون کو ترغیب دلائی اور کہا: تو ہلاک ہو جائے، اگر تیرے پاس کوئی چیز ہے تو وہ پیش کر؟ اس نے کہا: جی بالکل، لیکن تھوڑی دیر، ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید کرتے ہیں، لیکن پھر جب بھوک کا وقفہ زیادہ ہوا تو اس نے کہا: او تو مر جائے، کھڑی ہو ، کوئی روٹی تلاش کر کے میرے سامنے پیش کر، میں تھک چکا ہوں اور مجھ پر مشکل بن رہی ہے، اس نے کہا: جی ابھی تنور کھانے پکانے کے قابل ہوتا ہے، جلدی نہ کرو، پھر جب خاوند تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہا اور اس عورت نے سمجھا کہ وہ پھر بات کرے گا تو اب کی بار وہ خود سے ہی کہنے لگی کہ اگر میں کھڑی ہو کر اپنے تنور کو دیکھ ہی لوں (کیا پتہ کہ واقعی اس میں کوئی چیز پک رہی ہو)، پس وہ اٹھی اور اپنے تنور کو اس حال میں پایا کہ وہ بکری کی دستیوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کی دونوں چکیاں غلہ پیس رہی تھیں، پس وہ چکی کی طرف گئی اور اس کا جائزہ لیا اور تنور سے بکری کی دستیاں نکالیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے، اللہ کے رسول محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر وہ دونوں چکیوں سے آٹا نکال لیتی اور ان کا جائزہ نہ لیتی تو وہ قیامت کے دن تک غلہ پیستی رہتیں۔

Haidth Number: 9329

۔ (۹۳۳۰)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔ قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلیٰ اَھْلِہِ فَلَمَّا رَایٰ مَابِھِمْ مِنَ الْحَاجَۃِ خَرَجَ اِلَی الْبَرِیَّۃِ، فَلَمَّا رَاَتِ امْرَاَتُہُ قَامَتْ اِلَی الرَّحیٰ فَوَضَعَتْھَا، وَاِلَی التَّنُّوْرِ فَسَجَرَتْہُ ثُمَّ قَالَتْ: اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا، فَنَظَرَتْ فَاِذَا الْجَفْنَۃُ قَدِ امْتَلَاَتْ قَالَ: وَذَھَبَتْ اِلَی التَّنُّوْرِ فَوَجَدَتْہُ مُمْتَلِئًا قَالَ: فَرَجَعَ الزَّوْجُ قَالَ: اَصَبْتُمْ بَعْدِیْ شَیْئًا؟ قَالَتِ امْرَاَتُہُ: نَعَمْ مِنْ رَّبِّنَا، قَامَ اِلَی الرَّحیٰ فذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَمَا اِنَّہُ لَوْ لَمْ یَرْفَعُھَا لَمْ تَزَلْ تَدُوْرُ اِلیٰیَوْمِ الْقِیَامَۃِ، شَھِدْتُّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَقُوْلُ: ((وَاللّٰہِ! لَاَنْ یَّاْتِیَ اَحَدُکُمْ صِیْرًا ثُمَّ یَحْمِلُہُیَبِیْعُہُ فَیَسْتَعِفُّ مِنْہُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ اَنْ یَّاْتِیَ رَجُلاً یَسْاَلَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۶۷)

۔ (دوسری سند) راوی کہتا ہے: ایک آدمی اپنے اہل کے پاس آیا، جب اس نے ان کی حاجت کو دیکھا تو وہ دوسری مخلوق کی طرف نکل گیا، جب اس کی بیوی نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ چکی کی طرف گئی اور اس کو سیدھا کیا اور تنور کی طرف جا کر اس کو آگ لگائی اور پھر کہا: اے اللہ! ہمیں رزق دے، پس اس نے دیکھا کہ ٹب بھرا ہوا ہے، پھر اس نے تنور کی طرف دیکھا تو وہ بھی بھرا ہوا ہے، اُدھر سے جب خاوند لوٹا تو اس نے کہا: کیا میرے جانے کے بعد کوئی چیز ملی ہے؟ اس کی بیوی نے کہا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے (بہت کچھ مل گیا ہے)۔ پھر وہ چکی کی طرف گیا اور …۔ جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ذکر کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ اس کو نہ اٹھاتا تو وہ قیامت کے دن تک چلتی رہتی۔ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم میں سے کوئی آدمی درختوں کی شاخیں اٹھا کر لائے اور ان کو بیچ کر سوال سے بچ جائے تو یہ عمل اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی کے پاس جائے اور اس سے سوال کرے۔

Haidth Number: 9330
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: تجھے بخار ہوئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے؟ یہ جلد اور گوشت کے درمیان حرارت کی زیادتی ہوتی ہے، اس نے کہا: یہ ایسی تکلیف ہے کہ میں کبھی بھی اس میں مبتلا نہیں ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال اس نرم و نازک، تروتازہ کھیتی کی مانند ہے جو کبھی سرخ ہوتی ہے اور کبھی زرد۔

Haidth Number: 9373
۔ معاذ بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے آئے اور جب انھوں نے ان کو سلام کہا تو انھوں نے کہا: صحت کے ساتھ رہو، نہ کہ بیماری کے ساتھ، تین بار یہ دعا کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: مسلمان بخار اور سردردی جیسے بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے، جبکہ اس پر احد پہاڑ سے بڑے بڑے گناہ ہوتے ہیں، لیکن ان بیماریوں کی وجہ سے اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں کہ اس پر رائی کے دانے کے برابر بھی گناہ نہیں رہتا۔

Haidth Number: 9374
۔ سیدنا ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بخار جہنم کی دھونکنی ہے،جو مؤمن بھی بیمار ہو گا، یہ اس کے حق میں جہنم والے حصے کے عوض میں ہو گا۔

Haidth Number: 9375
۔ سیدنا ابو ہر یرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک مریض، جسے بخار تھا، کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (یہ بخار)میری آگ ہے، جسے میں اپنے بندۂ مؤمن پر دنیا میں مسلط کر دیتا ہوں تاکہ اس کی آخرت والی آگ کے عذاب کا بدل بن جائے۔

Haidth Number: 9376
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بخارنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: ام ملدم ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ وہ اہل قبا کی طرف منتقل ہو جائے، پس وہ اتنی کثرت سے اس میں مبتلا ہو ئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس مقدار کو بہتر جانتا ہے، وہ لوگ تو اس کی شکایت لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں تاکہ وہ اس کو تم سے ہٹا دے تو ٹھیک ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہیہ تمہارے حق میں پاک کرنے والا ٹھہرے (تو پھر اس کو اپنے پاس برقرار رہنے دو)۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ گناہوں سے پاک کرتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر اس کو رہنے دو۔

Haidth Number: 9377
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام کا کون سا کڑا (یعنی نیک عمل) زیادہ ممتاز اور عالی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی نماز ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا کون سا عمل ہے؟ لوگوں نے کہا: جی زکوۃ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زکوۃ بھی اچھا ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی رمضان کے روزے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ عمل بھی اچھا ہے، اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی حج ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حج بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی جہاد ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود فرمایا: ایمان کا سب سے ممتاز اور اعلی کڑا (یعنی نیک عمل) یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھے۔

Haidth Number: 9446
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ایک آدمی نے کہا: نماز اور زکوۃ، اور کسی نے کہا کہ جہاد ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کی جائے اور اُسی کے لیے بغض رکھا جائے۔

Haidth Number: 9447

۔ (۹۴۴۸)۔ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ، عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ، اَنَّ رَجُلًا مَرَّ عَلٰی قَوْمٍ، فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، فَرَدُّوْا عَلَیْہِ السَّلامَ، فَلَمَّا جَاوَزَھُمْ قَال رَجُلٌ مِنْھُمْ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاُبْغِضُ ھٰذَا فِی اللّٰہِ، فَقَالَ اَھْلُ الْمَجْلِسِ: فَبِئْسَ وَاللّٰہِ مَا قُلْتَ، اَمَا وَاللّٰہِ لَنُنَبِّئَنَّہُ، قُمْ یَا فُلَانُ! رَجُلٌ مِنْھُمْ، فَاَخْبِرُہُ، قَالَ: فَاَدْرَکَہُ رَسُوْلُھُمْ فَاَخْبَرَہُ بِمَا قَالَ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ حَتّٰی اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْھِمْ فُلانٌ فَسَلَّمْتُ عَلَیْھِمْ فَرَدُّوْا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاوَزْتُھُمْ اَدْرَکَنِیْ رَجُلٌ مِنْھُمْ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ فُلَانًا قَالَ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاُبْغِضُ ھٰذَا الرَّجُلَ فِی اللّٰہِ، فَادْعُہُ، فَسَلْہُ عَلٰی مَایُبْغِضُنِیْ؟ فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَساَلَہُ عَمَّا اَخْبَرَہُ الرَّجُلُ، فَاعْتَرَفَ بِذٰلِکَ، وَقَالَ: قَدْ قُلْتُ لَہُ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَلِمَ تُبْغِضُہُ؟)) قَالَ: اَنَا جَارُہُ وَاَنَا بِہٖخَابِرٌ،وَاللّٰہِمَارَاَیْتُہُیُصَلِّیْ صَلَاۃً قَطُّ اِلَّا ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ الَّتِیْیُصَلِّیْھَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ الرَّجُلُ: سَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ رَآنِیْ قَطُّ اَخَّرْتُھَا عَنْ وَقْتِھَا، اَوْ اَسَأْتُ الْوُضُوْئَ لَھَا؟ اَوْ اَسَأْتُ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فِیْھَا؟ فَساَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: واللّٰہِ! مَارَاَیْتُہُیَصُوْمُ قَطُّ اِلَّا ھٰذَا الشَّھْرَ الَّذِیْیَصُوْمُہُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ رَآنِیْ قَطُّ اَفْطَرْتُ فِیْہِ، اَوِ انْتَقَصْتُ مِنْ حَقِّہِ شَیْئًا؟ فَسَالَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ مَارَاَیْتُہُیُعْطِیْ سَائِلًا قَطُّ، وَلَارَاَیْتُہُیُنْفِقُ مِنْ مالِہِ شَیْئًا فِیْ شَیْئٍ مِنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِخَیْرٍاِلَّا بِخَیْرٍ اِلَّا ھٰذِہِ الصَّدَقَۃَ الَّتِیْیُؤَدِّیْھَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ کَتَمْتُ مِنَ الزَّکَاۃِ شَیْئًا قَطُّ اَوْ مَاکَسْتُ فِیْھَا طَالِبَھَا؟ قَالَ: فَسَاَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: لا، فقَالَ َلہ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُمْ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّہُ خَیْرٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۱۳)

۔ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، اس نے سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جوا ب دیا، جب وہ آگے گزر گیا تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس آدمی سے بغض رکھتا ہوں، اہلِ مجلس نے کہا: اللہ کی قسم! تو نے بری بات کی ہے، اللہ کی قسم! ہم ضرور ضرور اس کو بتلائیں گے، او فلاں! کھڑا ہو اور اس کو بتلا کے آ، پس ان کے قاصد نے اس کو شخص کو پا لیا اور ساری بات اس کو بتلا دی، وہ آدمی وہاں سے پھرا اور سیدھا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا پہنچا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں مسلمانوں کی ایک مجلس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا، جب میں ان سے تجاوز کر گیا تو ان میں سے ایک آدمی مجھے پیچھے سے آ کر ملا اور کہا کہ فلاں آدمی کہہ رہا ہے کہ اللہ کی قسم ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے تجھ سے بغض رکھتا ہے، اے اللہ کے رسول! اب آپ اس کو بلائیں اور پوچھیں کہ کس وجہ سے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو بلایا اور اس آدمی کی بتائی ہوئی بات کے بارے میں پوچھا، اس نے اعتراف کر لیا اور کہا: جی اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتا کہ تو اس سے بغض کیوں رکھتا ہے؟ اس نے کہا: جی میں اس کا ہمسایہ ہوں اور اس کے بارے میں باخبر ہوں، اللہ کی قسم! میں نے اس کو دیکھا ہے، یہ صرف فرضی نماز ادا کرتا ہے، جو ہر نیک و بد پڑھ رہا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے ان نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کیا ہے؟ یا میں نے کبھی وضو میں کمی کی ہے؟ یا میں نے رکوع و سجود کو ناقص ادا کیا ہے؟ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اس سے یہ سوالات کیے تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنی واقعییہ بات تو ہے کہ یہ وقت پر اور مکمل نماز وضو کا اہتمام کرتا ہے)۔ پھر اس اعتراض کرنے والے نے کہا: اللہ کی قسم ہے، میں نے اس کو دیکھا کہ یہ صر ف ماہِ رمضان کے روزے رکھتا ہے، جس کے روزے ہر نیک و بد رکھتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے رمضان میں کبھی کوئی روزہ چھوڑا ہے، یا روزے کے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنییہ بات تو ٹھیک کہ یہ آدمی اچھے انداز میں روزے رکھتا ہے)۔ اعتراض کرنے والے نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں نے اس کو نہیں دیکھا کہ اس نے کسی سائل کو کبھی کوئی چیز دی ہو، یا اللہ کے راستے میں کوئی مال خرچ کیا ہو، ما سوائے اس زکوۃ کے، جو ہر نیک و بد ادا کرتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے زکوۃ میں سے کبھی کوئی چیز چھپائی ہے، یا زکوۃ لینے والے سے کمی کروائی ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اس کے بارے میں پوچھاتو اس نے منفی میں جواب دیا۔ اب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو جا تو، میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے کہ وہ تجھ سے بہتر ہو۔

Haidth Number: 9448
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روحیں اکٹھے کیے ہوئے لشکر ہیں، جن کی وہاں واقفیت ہو گئی، وہ ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتی ہیں اور جن میں وہاں اجنبیت اور نا واقفیت ہو گئی، وہ مانوس نہیں ہوتیں۔

Haidth Number: 9449
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کا ذائقہ پسند کرتا ہو یایہ چیز اس کو خوش کرتی ہو، وہ کسی شخص سے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے۔

Haidth Number: 9450
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں، آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔

Haidth Number: 9451
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے، جب تک ایمان نہیں لاؤ گے اور اس وقت تک ایمان نہیں لا سکو گے، جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے، کیا میں ایسی چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کر دوں، جو اس محبت کی جڑ اور جوہر ہے؟ آپس میں سلام کو عام کر دو۔ ایک روایت میں ہے: کیا میں ایسی چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کر دوں کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے؟ آپس میں سلام کو عام کرو۔

Haidth Number: 9452
۔ سیدنا عمرو بن جموع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک صریح ایمان کا حق ادا نہیں کر سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے محبت نہیں کرتا اور اُسی کے لیے بغض نہیں رکھتا، پس جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتا ہے اور اُسی کے لیے بغض رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور دوستی کا مستحق قرار پاتا ہے اور بیشک میرے اولیاء میرے بندوں میں سے ہوتے ہیں اور میری مخلوق میں سے وہ لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، جن کو میرے ذکر کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور مجھے ان کے ذکر کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 9453
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم تین افراد ہو تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں، کیونکہیہ چیز اس کو پریشان کرے گی۔ ایک روایت میں ہے: دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر راز دارانہ بات نہ کریں، جب ان کے ساتھ کوئی اور نہ ہو۔

Haidth Number: 9503
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی کرنے لگ جائیں، جب ان کے ساتھ اور کوئی نہ ہو، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ اس آدمی کی جگہ میں بیٹھا جائے جو (عارضی طور پر) مجلس سے اٹھ کر جائے، اس کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ایسا آدمی لوٹے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہو گا۔

Haidth Number: 9504
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم تین افراد ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کیا کریں۔ ابو صالح راوی نے کہا: اگر چار افراد ہوں تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر یہ چیز نقصان نہیں دے گی (یعنی پھر کوئی حرج نہیں ہو گا)۔

Haidth Number: 9505
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس بندے نے مجلس میں کوئی بات کی اور پھر وہ اِدھر اُدھر متوجہ ہوا تو وہ بات امانت ہو گی۔

Haidth Number: 9506
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی مجلس سے چلا جائے اور پھر واپس آ جائے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہو گا۔

Haidth Number: 9507
۔ سیدنا وہب بن حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی مجلس سے چلا جائے اور پھر واپس لوٹ آئے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہو گا، اگر ایسا آدمی کسی ضرورت کی وجہ سے مجلس سے چلا جاتا ہے اور پھر واپس آجاتا ہے تو وہی اس مقام پر بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہو گا۔

Haidth Number: 9508
۔ سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کے پاس گئے، ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور وہ حلقوں کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم مجھے مختلف گروہوں کی صورت میں نظر آ رہے ہو۔ جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 9509