Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اپنے صحابہ کو فتنوں کے دور میں ان سے اجتناب کرنے کی وصیت کرنے اور اس وقت کی خیر والی چیز کی رہنمائی کرنے کا بیان

866 Hadiths Found

۔ (۱۲۸۰۴)۔ عَنْ عَمْرِوبْنِ وَابِصَۃَ الْاَسَدِیِّ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: اِنِّیْ بِالْکُوْفَۃِ فِی دَارِیْ اِذْ سَمِعْتُ عَلٰی بَابِ الدَّارِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَلِجُ قُلْتُ :عَلَیْکُمُ السَّلَامُ فَلِجْ، فَلَمَّا دَخََلَ فَاِذَا ھُوَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قُلْتُ: یَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ! اَیَّۃَ سَاعَۃِ زِیَارَۃٍ ہٰذِہٖوَذٰلِکَفِی نَحْرِ الظَّہِیْرَۃِ؟ قَالَ: طَالَ عَلَّی النَّہَارُ فَذَکَرْتُ مَنْ اَتَحَدَّثُ اِلَیْہِ، قَالَ: فَجَعَلَ یُحَدِّثُنِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاُحَدِّثُہٗ قَالَ: ثُمَّ اَنْشَاَ یُحَدِّثُنِیْ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ:(( تَکُوْنُ فِتْنَۃٌ، النِّائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ وَالْمُضْطَجِعُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ وَالْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ‘ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ خَیْرٌ مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّّاکِبُ خَیْرٌ مِنَ الْمُجْرِیْ، قَتْلَاھَا کُلُّہَا فِی النَّارِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَتٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ:((ذٰلِکَ اَیَّامَ الْھَرْجِ۔)) قُلْتُ: وَمَتٰی اَیَّامُ الْھَرْجِ؟ قَالَ:((حِیْنَ لَا یَاْمَنُ الرَّجُلُ جَلِیْسَہٗ۔)) قَالَ قُلْتُ : فَمَا تَاْمُرُنِیْ اِنْ اَدْرَکْتُ ذٰلِکَ ؟قَالَ:((اُکْفُفْ نَفْسَکَ وَیَدَکَ وَادْخُلْ دَارَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَیْتَ اِنْ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَیَّ دَارِیْ؟ قَالَ:((فَادْخُلْ بَیْتَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: اَفَرَاَیْتَ اِنْ دَخَلَ عَلَیَّ بَیْتِیْ؟ قَالَ:((فَادْخُلْ مَسْجِدَکَ وَاصْنَعْ ہٰکَذَا،وَقَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ عَلَی الْکَوْعِ وَقُلْ رَبِّیَ اللّٰہُ حَتّٰی تَمُوْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۴۲۸۶)

سیدنا وابصہ اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں کوفہ والے اپنے گھر میں تھا کہ دروازے پر یہ آواز سنائی دی:السلام علیکم، میں اندر آ جاؤں، میں نے کہا: وعلیکم السلام، جی تشریف لے آئیں، وہ آدمی تو سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، میں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! یہ ملاقات کا کونسا وقت ہے؟ یہ عین دوپہر کا وقت تھا۔ انہوں نے کہا: دن مجھ پر لمبا ہو رہا تھا، میں سوچنے لگا کہ کس کے ساتھ باتیں کر کے وقت گزارا جائے، (اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ گیا)۔ پھر وہ مجھے احادیث ِ نبویہ بیان کرنے لگے اور میں ان کو، انھوں نے یہ حدیث بھی بیان کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتنے بپا ہوں گے، ان حالات میں سویا ہو اآدمی لیٹے ہوئے سے،لیٹا ہوا بیٹھنے والے سے، بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑے ہونے والا چلنے والے سے، چلنے والا سوار سے اور اونٹ سوار گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے والے آدمی سے بہتر ہو گا، ان لڑائیوں میں قتل ہونے والے سارے کے سارے جہنمی ہوں گے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! ایسے حالات کب پیدا ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتلِ عام کے دنوں میں۔ میں نے کہا:قتلِ عام کب ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب انسان اپنے ساتھ بیٹھنے والے آدمی پر اعتماد نہیں کرے گا۔ میں نے کہا: اگر میں ایسے زمانے کو پا لوں تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے نفس اور ہاتھ کو روک لینا اور گھر کے اندر ہی رہنا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی جھگڑالو میرے گھر میں گھس آئے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : تم اپنے گھر کے کسی کمرے میں چلے جانا۔ میں نے کہا: اگر وہ میرے کمرے کے اندر بھی گھس آئے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : تم اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں داخل ہو جانا اور اس طرح کرنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی بند مٹھی کا انگوٹھے والا کنارہ پکڑ لیا اور فرمایا: اور کہنا کہ اللہ ہی میرا رب ہے، حتی کہ اسی حالت پر مر جانا۔

Haidth Number: 12804
سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنے ہوں گے، ان میں لیٹے والا آدمی بیٹھے ہوئے سے ، بیٹھا ہوا کھڑے ہونے والے ،،کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا فتنوں میں بھاگ کر شامل ہونے والے سے بہتر ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے حالات کے بارے میں کیا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے پاس اونٹ ہوں، وہ اپنے اونٹوں میں مشغول ہو جائے، جس کے پاس بکریاں ہوں وہ ان میں مصروف ہو جائے، جس کے پاس زمین ہو وہ اس میں لگ جائے اور جس کے پاس ایسی کوئی مصروفیت نہ ہو وہ اپنی تلوار کو کسی پتھر پر مار کر اس کی دھار کو ناکارہ کر لے اور جس قدر ممکن ہو ان فتنوں سے دور رہے، اس سے جس قدر ہوسکے وہ ان فتنوں سے دور رہے۔

Haidth Number: 12805
۔ (دوسری سند) اوپر والی حدیث کے آخری الفاظ اس سے جس قدر ہوسکے وہ ان فتنوں سے دور رہے۔ کے بعد اس میں یہ اضافہ ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! تحقیق میں نے تیری بات پہنچا دی‘ اے اللہ! تحقیق میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اللہ کے نبی! اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے‘ اگر کوئی آدمی میرے ہاتھ کو پکڑ لیتا ہے اور مجبور کر کے کسی ایک صف یا گروہ کے ساتھ کھڑا کر دیتا ہے، پھرکوئی آدمی تلوار کی ضرب لگا کر مجھے قتل کر دیتا ہے، تو میرا کیا بنے گا، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اپنے گناہوں اور تیرے گناہوں کے ساتھ لوٹے گا اور وہ جہنمی لوگوں میں سے ہو جائے گا۔

Haidth Number: 12806
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں برپا ہونے والے فتنے کے موقع پر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ: عنقریب فتنہ برپا ہوگا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا اس فتنہ میں بھاگ کر حصہ لینے والے سے بہتر ہو گا۔ ایک شخص نے کہا: اگر کوئی شخص زبردستی میرے گھر میں داخل ہو کر مجھے قتل کر نے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو میں کیا کروں؟ آ پ نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے اس بیٹے والا طرز عمل اختیار کرنا (جو خود تو قتل ہوگیا لیکن اس نے دوسرے پر ہاتھ نہ اٹھایا تھا)۔

Haidth Number: 12807

۔ (۱۲۸۰۸)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْ عَنَزَۃَیُقَالُ لَہٗزَائِدَۃُ اَوْ مَزِیْدَۃُ بْنُ حَوَالَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ مِنْ اَسْفَارِہِ فَنَزَلَ النَّاسُ مَنْزِلًا وَنَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ ظِلِّ دَوْحَۃٍ فَرَآنِیْ وَاَنَا مُقْبِلٌ مِنْ حَاجَۃٍ لِیْ وَلَیْسَ غَیْرُہٗ وَغَیْرُ کَاتِبِہٖفَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :((اَنَکْتُبُکَیَا ابْنَ حَوَالَۃَ!؟)) قُلْتُ: عَلاَمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: فَلَہَا عَنِّیْ وَاَقْبَلَ عَلَی الْکَاتِبِ، قَالَ: ثُمَّ دَنَوْتُ دُوْنَ ذٰلِکَ قَالَ: فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ!؟)) قُلْتُ: عَلَامَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: فَلَہٰی عَنِّیْ وَاَقْبَلَ عَلٰی الْکَاتِبِ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَلَیْہِمَا فَاِذَا فِیْ صَدْرِ الْکِتَابِ اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ فَظَنَنْتُ اَنَّہُمَا لَنْ یُکْتَبَا اِلَّافِیْ خَیْرٍ فَقَالَ: ((اَنَکْتُبُکَ یَا ابْنَ حَوَالَۃَ!؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا ابْنَ حَوَالَۃَ! کَیْفَ تَصْنَعُ فِیْ فِتْنَۃٍ تَثُوْرُ فِیْ اَقْطَارِالْاَرْضِ کَاَنَّہَا صَیَاصِی بَقَرٍ؟))قَالَ: قُلْتُ: اَصْنَعُ مَاذَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلَیْکَ بِالشَّامِ۔)) ثُمَّ قَالَ: کَیْفَ تَصْنَعُ فِیْ فِتْنَۃٍ کَاَنَّ الْاُوْلٰی فِیْہَا نَفْجَۃُ اَرْنَبٍ؟)) قَالَ: فَلَاأدْرِیْ کَیْفَ قَالَ فِیْ الآخِرَۃِ وَلَاَنْ اَکُوْنَ عَلِمْتُ کَیْفَ قَالَ فِیْ الآخِرَۃِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کَذَاوَکَذَا۔ (مسند احمد: ۲۰۶۲۳)

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں:زائدہ یا مزیدہ بن حوالہ نامی عنزہ قبیلے کے ایک آدمی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، لوگ ایک مقام پر ٹھہرے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ایک بڑے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے، میں اپنے کسی کام سے فارغ ہو کر آرہا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ لیا، آپ کے پاس صرف کاتب (لکھنے والے) تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ! کیا تمہارا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! کس سلسلہ میں؟ پھر آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا اور کاتب کی طرف متوجہ ہوگئے، جب میں مزید قریب ہوا، تو آپ نے دوبارہ فرمایا: اے ابن حوالہ! کیا تمہارا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا:اللہ کے رسول! کس سلسلہ میں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا اور کاتب کی طرف متوجہ ہوگئے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالکل قریب آگیااور دیکھا کہ تحریر کے آغاز میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نام لکھے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر میںجان گیا کہ ان کے نام کسی اچھے کام کے لیے ہی لکھے گئے ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابن حوالہ! کیا ہم تمہارا نام بھی لکھ لیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن حوالہ! تم اس فتنہ کے دوران کیا کرو گے جوزمین کے اطراف میں اس طرح پھیل جائے گا، جیسے وہ گائے کے سینگ ہوں؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی بتلا دیں کہ مجھے اس دوران کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا : تم شام کی سرزمین میں چلے جانا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : تم اس فتنہ کے دوران کیا کرو گے جو خرگوش کی چھلانگ کی مانند یعنی پہلے فتنہ کے بعد جلد ہی بپا ہو جائے گا؟ سیدنا زائدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آپ نے دوسرے فتنہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا، وہ مجھے یاد نہیں رہا، لیکن جو کچھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسرے فتنے میں بارے میں فرمایا تھا ، اگر وہ مجھے یاد ہوتا تو وہ مجھے اتنے اتنے خزانوں سے بھی محبوب ہوتا۔

Haidth Number: 12808

۔ (۱۲۸۰۹)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ قَالَ: مَرَرْتُ بِالرَّبْذَۃِ فَاِذَا فُسْطَاطٌ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا؟ فَقِیْلَ: لِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ، فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ: رَحِمَکَ اللّٰہُ اِنَّکَ مِنْ ہٰذَا الْاَمْرِبِمَکَانٍ، فَلَوْ خَرَجْتَ اِلَی النَّاسِ فَاَمَرْتَ وَنَہَیْتَ، فَقَالَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّہُ سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ وَفُرْقَۃٌ وَاخْتِلَافٌ فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَأْتِ بِسَیْفِکَ اُحُدًا فَاضْرِبْ بِہٖعَرْضَہٗوَاکْسِرْنَبْلَکَوَاقْطَعْوَتَرَکَوَاجْلِسْ فِیْ بَیْتِکَ۔)) فَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَاضْرِبْ بِہٖحَتّٰی تَقْطَعَہٗثُمَّاجْلِسْفِیْ بَیْتِکَ حَتّٰی تَاْتِیَکَیَدٌ خَاطِئَۃٌ اَوْ یُعَافِیَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) فَقَدْ کَانَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَفَعَلْتُ مَا اَمَرَنِیْ بِہٖ،ثُمَّاسْتَنْزَلَسَیْفًا کَانَ مُعَلَّقًا بِعَمُوْد الْفُسْطَاطِ فَاخْتَرَطَہُ فَاِذَا سَیْفٌ مِنْ خَشَبٍ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ مَا اَمَرَنِیْ بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّخَذْتُ ہٰذَا اُرَھِّبُ بِہٖالنَّاسَ۔ (مسنداحمد: ۱۶۱۲۵)

سیدنا ابوبردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ربذہ مقام سے میرا گزر ہوا، وہاں ایک خیمہ لگا ہوا تھا،میں نے پوچھا کہ یہ خیمہ کس کا ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ محمدبن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے، پس میں نے ان کے پاس خیمہ میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور اندر چلا گیا، میں نے کہا : آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ کا اس جنگل میں کیا کام؟ بہتر ہوتا کہ آپ لوگوں میں رہتے اور ان کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے۔انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنہ، تفرقہ بازی اور اختلاف پیدا ہو گا، اور اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو تم اپنی تلوار لے کر اس احد پہاڑ پر مار کر اسے کند کر دینا‘ تیر کو توڑ ڈالنا اور کمان کی تندی کاٹ دینا اوراپنے گھر میں بیٹھ جانا۔ اب ایسے ہی ہو چکا ہے، (اس لیے میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں)۔ ایک روایت میں ہے: اپنی تلوار کو پہاڑ پر مار کر توڑ دینا، پھر اپنے گھر میں بیٹھ جانا، یہاں تک کہ کوئی ظالم آدمی تمھارے گھر کے اندر گھس آئے یا اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھے۔ جو کچھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا، وہ ہو چکا ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم دیا تھا، میں نے اسی پر عمل کیا ہے۔ پھر انھوں نے خیمہ کے ستون سے لٹکی ہوئی تلوار اتروائی، لیکن جب اسے میان سے نکالا تو وہ تو لکڑی کی تلوار تھی، پھر انھوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم پر عمل کر کے اپنے تلوار توڑ ڈالی ہے اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ رکھی ہوئی ہے۔

Haidth Number: 12809
سیدنا ذو اصابع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد ہم اتنی زندگی پائیں کہ ہماری آزمائشیں شروع ہو جائیں تو آپ ہمیں کس مقام کی طرف چلے جانے کا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بیت المقدس چلے جانا، کیونکہ ممکن ہے کہ وہاں تمہاری اولاد بڑھے اور وہ صبح شام مسجد میں جا سکیں۔

Haidth Number: 12810

۔ (۱۲۸۱۱)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِمَارًا وَاَرْدَفَنِیْ خَلْفَہٗوَقَالَ:((یَا اَبَا ذَرٍّ! اَرَاَیْتَ اِنْ اصَابَ النَّاسَ جُوْعٌ شَدِیْدٌ لَا تَسْتَطِیْعُ اَنْ تَقُوْمُ مِنْ فِرَاشِکَ اِلٰی مَسْجِدِکَ، کَیْفَ تَصْنَعُ؟)) قَالَ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗاَعْلَمُ۔قَالَ: ((تَعَفَّفْ۔)) قَالَ: یَا اَبَاذَرٍّ! اَرَاَیْتَ اِنْ اَصَابَ النَّاسُ مَوْتٌ شَدِیْدٌیَکُوْنُ الْبَیْتُ فِیْہِ بِالْعَبْدِ یَعْنِیْ الْقَبْرَ، کَیْفَ تَصْنَعُ؟)) قُلْتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗاَعْلَمُ،قَالَ: ((اِصْبِرْ۔)) قَالَ: یَا اَبَاذَرٍّ! اَرَاَیْتَ اِنْ قَتَلَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا یَعْنِیْ حَتّٰی تَغْرَقَ حِجَارَۃُ الزِّیْتِ مِنَ الدِّمَائِ، کَیْفَ تَصْنَعُ؟)) قَالَ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗاَعْلَمُ۔قَالَ: ((اُقْعُدْ فِیْ بَیْتِکَ وَاغْلِقْ عَلَیْکَ بَابَکَ۔)) قَالَ: فَاِنْ لَمْ اُتْرَکْ! قَالَ: ((فَائْتِ مَنْ اَنْتَ مِنْہُمْ فَکُنْ فِیْہِمْ۔)) قَالَ: فَآخُذُ سِلَاحِیْ؟ قَالَ:((اِذًا تُشَارِکُہُمْ فِیْمَا ھُمْ فِیْہِ وَلٰکِنْ اِنْ خَشِیْتُ اَنْ یَّرُوْعَکَ شُعَاعُ السِّیْفِ فَاَلْقِ طَرَفَ رِدَاِئکَ عَلٰی وَجْہِکَ حَتّٰییَبُوْئَ بِاِثْمِہٖوَاِثْمِکَ۔)) (مسنداحمد: ۲۱۶۵۱)

سیدناابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے اور مجھے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فرمایا: اے ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر لوگ شدید بھوک کی آزمائش سے دوچار ہو جائیں اورتم اپنے بستر سے مسجد تک جانے کی بھی استطاعت نہ رکھتے ہو تو تم کیا کرو گے؟ انہوںنے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا : ایسے حالات میں تم کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا۔ آپ نے پھر پوچھا: ابوذر ! کیا خیال ہے کہ اگر لوگوں میںموت اس قدر عام ہوجائے کہ ایک قبر ایک غلام کے عوض ملے تو تم کیا کروگے؟ میںنے کہا :اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسے حالات میں تم صبر کرنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید پوچھا: ابوذر! کیا خیال ہے کہ اگر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں اور اس قدر خون بہا دیا جائے کہ حجارۃ الزیت مقام خون میںڈوب جائے تو تم کیا کرو گے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : تم گھر کے اندر بیٹھ جانا اور دروازہ بھی بند کیے رکھنا۔ میں نے کہا: اگر مجھے پھر بھی نہ چھوڑا جائے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم اپنی قوم کے پاس جا کر انہی میں رہنا۔ میں نے کہا :کیا میں اپنے ہتھیار اٹھالوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہتھیار اٹھانے کی صورت میں تو تم بھی لوگوں کی لڑائی میں شریک ہو جاؤ گے۔، تمہاری صورتحال یہ ہونی چاہیے کہ جب تم تلوار کی شعاع سے ڈرنے لگو تو اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لینا، تاکہ (قاتِل) اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ واپس لوٹے۔

Haidth Number: 12811
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا : تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب تم گھٹیا لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے؟ میںنے کہا: اللہ کے رسول! ایسے حالات کب پیدا ہوں گے؟ آپ نے فرمایا : جب مسلمانوں کے وعدوں اور امانتوں میں کھوٹ پیدا ہو جائے گی اور وہ اس طرح ہو جائیں گے۔ یونس راوی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے انگلیوں میں تشبیک دی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس وقت کیا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا‘ اچھے عمل کرنا، غلط کاموں سے بچ کر رہنا اور اپنے مخصوص لوگوں کا خیال کرنا اور عام لوگوں سے بچ کر رہنا۔

Haidth Number: 12812
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ اس میں لوگوں کی اس طرح چھان بین کی جائے گی کہ صرف گھٹیا اور ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے وعدوں اور امانتوں میں کھوٹ پید اہو جائے گی اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف کر یں گے اور اس طرح ہو جائیں گے۔ راوی نے اپنی انگلیوں میں تشبیک ڈالی۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ایسے حالات سے نکلنے کی صورت کیا ہوگی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اچھے کام کرنا، برے کاموں سے بچنا اور مخصوص لوگوں پر توجہ دینا اور عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑ دینا۔

Haidth Number: 12813
ربعی کہتے ہیں: میںنے سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جنازے میں ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے اس چار پائی پر لیٹے ہوئے آدمی کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا، وہ ایک دفعہ کہہ رہا تھا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث سننے کے بعد مجھے کوئی حرج محسوس نہیں ہو رہی، اگر تم آپس میں لڑ پڑو گے تو میںاپنے گھر میں داخل ہو جاؤں گا اور اگر کوئی (ظالم) میرے گھر میں گھس آیا تو میں کہوں گا: لیجئے(کر لے قتل) اور پھر میرے اور اپنے گناہ کے ساتھ واپس چلا جا۔

Haidth Number: 12814
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد عنقریب اختلافات وغیرہ ہوں گے، اگر تجھ میں ان سے بچ کر رہنے کی استطاعت ہوئی تو ایسے ہی کرنا۔

Haidth Number: 12815
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تمہارے اوپر ایک ایسا دور آئے گا کہ اس میں آدمی کو دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے گا، یا تو وہ (لوگوں کی طعن و تشنیع اور ظلم و تعدّی) برداشت کرے یا پھر گناہ میں شریک ہوجائے، جس آدمی کو ایسا زمانہ ملے تو وہ گناہ میں شریک ہونے کی بجائے (طعن و تشنیع) کو برداشت کرلے۔

Haidth Number: 12816
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : قیامت سے پہلے اندھیری رات میں اترنے والے اندھیروں کی طرح فتنے بپا ہوں گے، (اورحالات اس قدر شدید ہوجائیں گے کہ) ایک آدمی صبح کے وقت تو مومن ہوگا، مگر شام کو کافر ہوچکا ہوگا ، اسی طرح ایک آدمی شام کے وقت تو مومن ہوگا، لیکن صبح کو کافر ہوچکا ہوگا۔ ایسے حالات میں بیٹھا ہوا آدمی کھڑے ہونے والے سے ،کھڑا ہونے والاچلنے والے سے اور چلنے والا آدمی اس فتنہ میں بھاگنے والے یعنی حصہ لینے والے سے بہتر ہوگا۔ ایسے حالات میں تم اپنی کمانیں توڑ ڈالنا‘ ان کی تندیوں کو کاٹ ڈالنا اور اپنی تلواروں کو پتھر پر مار کر توڑ ڈالنا اور اگر کوئی ظالم تمہارے گھر میں گھس کر زیادتی کرنے لگے تو تم آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے بہتر ِبیٹے کی طرح ہو جانا۔

Haidth Number: 12817
سیدنانعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہے ہیں، ہم نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے چھا جائیں گے، (حالات اس قدر شدید ہوں گے کہ) آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کو کافر یا شام کے وقت مومن اور صبح کو کافر ہوچکا ہوگا، لوگ دنیا کے معمولی سامان کے عوض اپنا حصہ (دین) بیچ دیں گے۔ حسن کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں، ان کی صورتیں تو انسانوں جیسی ہیں، مگر عقل سے کورے ہیں اور ان کے جسم تو ہیں‘ لیکن سمجھ بوجھ سے عاری ہیں، وہ آگ کے پروانو ں کی طرح بے عقل اور مکھیوں کی طرح حریص ہیں، وہ دو درہم صبح کو لیتے ہیں اوور دو درہم شام کو اور ایک بکری کی قیمت کے عوض میں اپنے دین کو بیچ دیتے ہیں۔

Haidth Number: 12818
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عربوں کے لیے ہلاکت ہے، اس شرّ کی وجہ سے، جو قریب آ چکا ہے، یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے برپا ہو جائیں گے، (ان فتنوں کی شدت کی وجہ سے) ایک آدمی صبح کو مومن ہو گا او رشام کو کافر، لوگ معمولی متاعِ دنیا کے عوض دین بیچ ڈالیں گے، ان دنوں میں دین پر عمل کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہو گی، جس نے اپنی مٹھی میں انگارا یا کانٹا پکڑ رکھا ہو۔ حسن نے اپنی حدیث میں کہا: کانٹے کے پتے۔

Haidth Number: 12819
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں سب سے افضل مرتبے کا حامل وہ آدمی ہوگا، جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ تھامے تیار کھڑا ہو، جہاد کی پکار سنتے ہی گھوڑے کی پشت پر سیدھا ہوجائے اور موت کو ایسے مقامات میں تلاش کرے،جہاں اس کے امکانات زیادہ ہوں، یا پھر وہ آدمی جو کسی پہاڑی گھاٹی میں مقیم ہو کر نماز باقاعدگی سے پڑھے اور زکوٰۃ ادا کرے اور لوگوں کے ساتھ صرف خیر والا معاملہ کرے۔

Haidth Number: 12820
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : قریب ہے کہ ایسا وقت آ جائے کہ جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوںگی، جنہیں وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر چراتا پھرتا رہے گا اوراس طرح اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے گا۔

Haidth Number: 12821
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو تین حالتوں میں اٹھایا جائے گا، بعض لوگ پیدل ہوں گے، بعض سوار ہوں گے اور بعض چہروں کے بل چل رہے ہوں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ اپنے چہروں کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس ہستی نے ان کو ٹانگوں کے بل چلنے کی طاقت دی ہے، وہ انہیں چہروں کے بل چلانے پر بھی قادر ہے، خبردار! وہ اپنے چہروں کے ذریعے بلند اورسخت جگہ اور کانٹوں سے بچنے کی کوشش بھی کر یںگے۔

Haidth Number: 13076

۔ (۱۳۰۷۷)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا وَکِیْعٌ وَابْنُ جَعْفَرٍ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَوْعِظَۃٍ فَقَالَ: ((اِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا {کَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ}، فَاَوَّلُ الْخَلَائِقِ یُکْسٰی اِبْرَاہِیْمُ خَلِیْلُ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: ثُمَّ یُوْخَذُ بِقَوْمٍ مِنْکُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ۔)) قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: ((وَاِنَّہُ سَیُجَائُ بِرِجَالٍ مِّنْ اُمَّتِیْ فَیُؤْخَذُ بِہِمْ ذَاتَ الشَّمَائِلِ، فَاَقُوْلُ: یَارَبِّ! اَصْحَابِیْ، قَالَ: فَیُقَالُ لِیْ: اِنَّکَ لَاتَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ، لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِہِمْ مُذْ فَارَقْتَہُمْ، فَاَقُوْلُ: ((کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: {وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَادُمْتُ فِیْہِمْ} اَلآْیَۃَ اِلٰی {اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔}۔ [المائدۃ: ۱۱۷])) (مسند احمد: ۲۰۹۶)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان وعظ و نصیحت کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیںاللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ تم ننگے پاؤں ، برہنہ جسم اور غیر مختون ہوگے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {کَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ} (سورۂ انبیائ: ۱۰۴) (جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتداء کی تھی، اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، بیشک ہم اسے پورا کرنے والے ہیں۔) مخلوقات میں سب سے پہلے خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا، پھر تم میں سے ایک گروہ کو بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ ابن جعفر کے الفاظ یوں ہیں: میری امت کے کچھ لوگوں کو لا کر بائیں طرف کر دیا جائے گا، میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں، تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعات جاری کیں، آپ کے جانے کے بعد یہ لوگ اپنی ایڑیوں پر واپس پلٹ جاتے رہے، تو میں بھی اسی طرح کہوں گا جیسے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام ) نے کہا:{وَ کُنْتُ عَلَیْھِم شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ۔ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔} (سورۂ مائدہ: ۱۱۷،۱۱۸) (میں ان پر نگران تھا، جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر نگران ہے، اگر تو انہیں عذاب دے تو بے شک وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب ہے، بڑی حکمت والا ہے)۔

Haidth Number: 13077
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں قیامت کے دن ننگے پاؤں ، برہنہ جسم اور غیر مختون اٹھایا جائے گا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس طرح تو مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس وقت معاملہ اتنا سنگین ہو گا کہ ان کو یہ خیال ہی نہیں آئے گا۔

Haidth Number: 13078
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! شرمگاہوں کا کیا بنے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً یہ آیت تلاوت فرمائی: {لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ} (اس دن ان میں سے ہر شخص کا حال ایسا ہوگا جو اسے دوسروں سے بے پروا کر دے گا۔) (سورۂ عبس:۳۷)۔

Haidth Number: 13079
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر جہنمی جنت میں اپنی جگہ کو دیکھے گا اور کہے گا: کاش کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہوتی، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے باعث ِ حسرت ہوگی، اور ہر جتنی جہنم میں اپنی جگہ دیکھے گا اور کہے گا: اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں اس مقام میں ہوتا، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے مزید شکر کا باعث بنے گی۔

Haidth Number: 13196

۔ (۱۳۱۹۷)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ خَیْرَ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: سَلْ وَتَمَنَّ، فَیَقُوْلُ: مَا اَسْاَلُ وَاَتَمَنّٰی اِلَّا اَنْ تَرُدَّنِیْ اِلَی الدُّنْیَا فَاُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ، وَیُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہُ: اِبْنَ اٰدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! شَرَّ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: اَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْاَرْضِ ذَھَبًا؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! نَعَمْ، فَیَقُوْلُ:کَذَبْتَ قَدْ سَاَلْتُکَ اَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَاَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ، فَیُرَدُّ اِلَی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۹۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جنتی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: ابن آدم! تم نے اپنے ٹھکانے کو کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! بہترین ٹھکانہ، اللہ تعالیٰ کہے گا: مزید سوال کرو اورمزید تمنا کرو۔ وہ کہے گا:میں کوئی سوال نہیں کرتا اور میں کوئی تمنا نہیں کرتا، مگر یہ کہ تو مجھے دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ میں دس دفعہ تیرے راستے میں شہید ہو سکوں، اس کی اس بات کی وجہ شہادت کی فضیلت ہو گی، پھر ایک جہنمی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا: آدم کے بیٹے! کیسا پایا تو نے اپنے ٹھکانے کو؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر روئے زمین کے برابر تیرے پاس سونا ہوتو کیا تو اس جگہ سے بچنے کے لیے وہ دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، میرے ربّ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان بات کامطالبہ کیا تھا لیکن تو نے تو وہ بھی نہیں کیا تھا، پھر اسے جہنم کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

Haidth Number: 13197
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایک جہنمی کو لایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور پھر اس سے کہا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی اچھائی دیکھی ہے؟ کیا کبھی تو نے کوئی نعمت استعمال کی؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے ربّ! اسی طرح ایک جنتی آدمی کو بلایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ دکھوں اور شدتوں والا تھا، اسے جنت میں ایک چکر دیا جائے گا، اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہے؟ کیا کبھی تجھے کوئی پریشانی آئی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے رب! نہ مجھے کوئی تکلیف آئی ہے اور نہ کبھی کوئی پریشانی دیکھی ہے۔

Haidth Number: 13198

۔ (۱۳۱۹۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ صُفُوْفًا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الظُّہْرِ اَوِ الْعَصْرِ اِذْ رَاَیْنَاہُیَتَنَاوَلُ شَیْئًا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ تَنَاوَلَہُ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ حِیْلَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ ثُمَّ تَاَخَّرَ وَتَاَخَّرْنَا ثُمَّ تَاَخَّرَ الثَّانِیَۃَ وَتَاَخَّرْنَا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌): یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْنَاکَ الْیَوْمَ تَصْنَعُ فِی صَلَاتِکَ شَیْئًا لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہُ؟ قَالَ: ((اِنَّہُ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْہَا مِنَ الزَّھْرَۃِ فَتَنَاوَلَتُ قِطَفًا مِنْ عِنَبِہَا ِلآتِیَکُمْ بِہٖوَلَوْاَخَذْتُہُلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، لَایَنْتَقِصُوْنَہُ فَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَعُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ فَلَمَّا وَجَدْتُّ حَرَّ شُعَاعِہَا تَاَخَّرْتُ وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْہَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ وَاِنْ سَاَلْنَ اَحْفَیْنَ۔)) قَالَ اَبِیْ: قَالَ زَکَرِیَّا بْنُ عَدِیٍّ: اَلْحَفْنَ وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ، وَرَاَیْتُ فِیْہَا لُحَیَّ بْنَ عَمْرٍو یَجُرُّ قُصْبَہُ وَاَشْبَہُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖمَعْبَدُبْنُاَکْثَمَ۔)) قَالَمَعْبَدٌ: اَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ! یُخْشٰی عَلَیَّ مِنْ شُبْہِہٖفَاِنَّہُوَالِدٌقَالَ: ((لَا،اَنْتَمُوْمِنٌوَھُوَ کَافِرٌ وَھُوَ اَوَّلُ مَنْ جَمَعَ الْعَرَبَ عَلَی الْاَصْنَامِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۷۰)

سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ظہر یا عصر کی نماز کی بات ہے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں صفیں بنائے یہ نماز ادا کر رہے تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے دوران اپنے سامنے کسی چیز کو بار بار پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، پھر آپ پیچھے کو ہٹے اور ہم بھی پیچھے ہٹ گئے، آپ دوبارہ پیچھے کو ہوئے،ہم بھی پیچھے ہوگئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ کو نماز کے دوران ایسا عمل کرتے دیکھا ہے کہ آپ اس سے قبل تو نماز میں ایسا کوئی عمل نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جنت اپنی نعمتوں سمیت پیش کی گئی، میں نے اس کے انگوروں کا گچھا توڑنا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں، اور اگر میںاس کو پکڑ لیتا اورزمین و آسمان کے درمیان موجود تمام مخلوقات اسے کھاتیں، تب بھی اس میں کوئی کمی نہ ہوتی، لیکن پھر میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، اسی طرح میرے سامنے جہنم کوپیش کیا گیا، جب میں نے اس کی شعاعوں کی حرارت محسوس کی تومیںپیچھے کو ہٹا، میںنے اس میں زیادہ تعداد ان عورتوں کی دیکھی کہ جنہیں جب کسی چیز کا امین بنایا جاتا ہے تو وہ اسے راز نہیں رکھتیں، اسی طرح جب سوال کرتی ہیں تو خوب اصرار کرتی ہیں، اور جب انہیں کوئی چیز دے دی جاتی ہے تو وہ خیانت کرتی ہیں، اور میںنے جہنم میں لحی بن عمرو کو دیکھا، وہ اپنی انتڑیوں کو گھسیٹ رہا تھا،اس کی شکل معبد بن اکثم کے مشابہ تھی۔ یہ سن کر سیدنا معبد بن اکثم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کی اس مشابہت سے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ آخر وہ نسبی طور پر والد بنتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، (اس کا تجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیونکہ) تم مومن ہو اور وہ کافر تھا، بلکہ یہ وہی شخص ہے جو عربوں کو سب سے پہلے بت پرستی کی طرف لے گیا۔

Haidth Number: 13199