Blog
Books
Search Hadith

مہاجرین اور انصار کے مابین بھائی چارہ قائم کرنے کا بیان

866 Hadiths Found

۔ (۱۰۶۵۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ، آخَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ، فَقَالَ: أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ، وَلِی امْرَأَتَانِ فَأُطَلِّقُ إِحْدَاہُمَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا فَتَزَوَّجْہَا، فَقَالَ: بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ، دُلُّونِی عَلَی السُّوقِ،فَدَلُّوہُ، فَانْطَلَقَ فَمَا رَجَعَ إِلَّا وَمَعَہُ شَیْئٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ قَدِ اسْتَفْضَلَہُ، فَرَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ذٰلِکَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ، فَقَالَ: ((مَہْیَمْ؟)) قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: ((مَا أَصْدَقْتَہَا؟)) قَالَ: نَوَاۃً مِنْ ذَہَبٍ، قَالَ حُمَیْدٌ: أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَقَالَ: ((أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۰۰۶)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین مواخات اور بھائی چارہ قائم کر دیا،سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اپنا سارا مال نصف نصف کرتا ہوں، میری دو بیویاں ہیں، میں ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، اس کی عدت پوری ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں، سیدنا عبدالرحمان بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ تمہارے اہل وعیال اور مال میں برکت فرمائے، لیکن مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں، مجھے بازاراور منڈی کا راستہ بتلا دو۔ لوگوں نے ان کو منڈی کا راستہ بتلادیا، وہ اس میں چلے گئے اور جب واپس آئے تو ان کے پاس کچھ پنیر اور کچھ گھی تھا، جو وہ بطورِ منافع کما کر لائے تھے، اس کے بعد ایک موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ لگاہواتھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا؟ جواب دیا کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کر لی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم نے اسے مہر کے طور پر کیا ادا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نواۃ کے برابر سونا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو خواہ وہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔

Haidth Number: 10655
سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش اور انصار کے مابین مؤاخات اور بھائی چارہ میرے اس گھر میں کرایا تھا، جو مدینہ منورہ میں ہے۔

Haidth Number: 10656
۔(دوسری سند) سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین بھائی چارہ ہمارے گھر میں قائم کیا تھا۔

Haidth Number: 10657
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے کہا: کیا تم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام میں کوئی مؤاخات نہیں ہے۔ ؟یہ سن کر سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غضب ناک ہو گئے اور کہنے لگے، کیوں نہیں، کیوں نہیں، بلکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود قریش اور انصار کے مابین میرے گھر میں مواخات کرائی تھی۔

Haidth Number: 10657
۔(دوسری سند) عاصم احول سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں کرائی تھی۔

Haidth Number: 10658
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں آپس کا عہدوپیمان نہیں ہے، البتہ اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں جو عہد وپیمان ہو چکا ہے، اسلام اسے مزید مضبوط اور پختہ کرتا ہے۔

Haidth Number: 10659
قیس بن عاصم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عہدوپیمان کے بارے میں دریافت کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو عہد و پیمان دورِ جاہلیت میں کر چکے ہو، انہیں پورا کرو، البتہ اسلام میں از سرِ نو ایسے عہدو پیمان نہیں ہیں۔

Haidth Number: 10660
سیدناعبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ابھی لڑکا ہی تھا کہ اپنے چچاؤں کے ساتھ مطیبین کے معاہدہ میں شامل ہوا تھا، اب بھی مجھے بیشِ قیمت سرخ اونٹ بھی مل جائیں تو تب بھی میں اس معاہدہ کو توڑنا پسند نہیں کروں گا۔ امام زہری کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام نے لوگوں کے کئے ہوئے جس معاہدہ کو پایا، اس نے اسے مزید پختہ کیا اور اب اسلام میں اس قسم کے عہدوپیمان اور معاہدوں کی گنجائش نہیں ہے۔ خود اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش اور انصار کے مابین مؤاخات قائم کی تھی۔

Haidth Number: 10661
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دورِ جاہلیت میں جو معاہدے اور عہدوپیمان ہوئے، اسلام نے ان کو مزید پختہ اور مضبوط کیا ہے۔

Haidth Number: 10662
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا: ہم جن انصاری لوگوں کے پاس آئے ہیں، ہم نے ان سے زیادہ خرچ کرنے والا اور قلت کے باوجود ان سے بڑھ کر ہمدردی کرنے والا کسی کو نہیں پایا، انہوں نے ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا اور ہمیں اپنی ہر خوشی میں شریک رکھا، ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارا ثواب یہ لوگ ہی لے جائیں گے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسی بات نہیں ہے، جب تک تم ان کے حسنِ سلوک پر ان کی جو تعریف کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دعائیں کرتے ہو، (اللہ تمہیں بھی اس کا اجروثواب دے گا)۔

Haidth Number: 10663
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابینیہ معاہدہ تحریر کیا تھا کہ یہ سب مل کر ایک دوسرے کے خون بہا ادا کریں گے،ایک دوسرے کے قیدیوں کو معروف طریقہ سے رہا کرائیں گے اور مسلمانوں کے مابین اصلاحِ احوال کریں گے۔

Haidth Number: 10664
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہاجرین اور انصار یہ سب ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں، اسی طرح قریش کے وہ لوگ جنہیں فتح مکہ کے دن معاف کر دیا گیا اور بنو ثقیف کے آزاد کردہ لوگ دنیا اورآخرت میں ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہیں اور مہاجرین و انصار قیامت تک ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں۔

Haidth Number: 11556
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریش کے جن لوگوں کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا گیا، وہ اور بنو ثقیف کے وہ لوگ جنہیں آزاد کر دیا گیا،یہ سب دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے معاون اور مدد گار ہیں، اور مہاجرین و انصار بھی دنیا اور آخرت میں ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں۔

Haidth Number: 11557
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انصار نے یوں کہا: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا، عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا (ہم وہ لوگ ہیں جنہوںنے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے، جہاد کرتے رہیں گے۔) تو ان کے اس قول کے جواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ ایک روایت میں ہے: پس تو انصار اور مہاجرین کی اصلاح فرما۔

Haidth Number: 11558
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم جن انصاری لوگوں کے پاس آئے ہیں، ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کم ہوں تو خوب ہمدردی کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس کھانے پینے کو وافر ہو تو بھی خوب خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں محنت مزدوری سے بچایا اور اپنی کمائی میں ہمیں اپنا شریک بنایا۔ ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارا اجرو ثواب یہ لوگ لے جائیں گے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں،یہ بات نہیںہے ، تم لوگ جب تک ان کی تعریف کرو گے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دعائیں کرو گے توتمہیں بھی اجر و ثواب ملتا رہے گا۔

Haidth Number: 11559
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے ما بین ایک معاہدہ کرایا۔اس حدیث کا ایک راوی سفیان کہتے ہیں:سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معاہدہ سے مراد مواخات اور بھائی چارہ ہے۔

Haidth Number: 11560
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جب حبشہ سے واپس آئیں تو سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے بارے میںکہا: کیایہ وہی ہے جو حبشہ سے آئی ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر لوگ ہجرت کرنے میں تم پر سبقت نہ لے چکے ہوتے تو تم بہترین لوگ ہوتے، یہ سن کر انھوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہے، تم میں سے جو سواری سے محروم ہوتا یعنی پیدل ہوتا، اللہ کے رسول اسے سواری دیتے اور تم میں سے جو کوئی دین کے مسائل سے واقف نہ ہوتا، اللہ کے رسول اسے تعلیم دیتے اور ہم تو اپنا دین بچانے کے لیےیہاں سے فرار ہو گئے تھے، اب میں جب تک اس بات کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر نہ کر لوں واپس نہیں آئوں گی۔ پس وہ آپ کی خدمت میں گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً فرمایا: بلکہ تمہاری تو دوہجرتیں ہو گئیں، ایک مدینہ کی طرف اور ایک حبشہ کی طرف۔

Haidth Number: 11561
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عادل حکمران قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہوگا اور وہ سب سے بڑھ کر اللہ کے قریب جگہ پائے گا۔ اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند اور سب سے زیادہ سخت عذاب کا مستحق وہ حکمران ہوگا جو دنیا میں دوسروں پر ظلم ڈھاتا رہا۔

Haidth Number: 12040
سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے تھوڑے یا زیادہ افراد پر جس آدمی کو حکومت کرنے کا موقع ملے اور پھر وہ عدل سے کام نہ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چہرے کے بل جہنم میں ڈالے گا۔

Haidth Number: 12041
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی دس افراد کی چھوٹی سی جماعت پر امیر اور حاکم مقرر ہوتا ہے، اسے قیامت کے روز باندھ کر پیش کیا جائے گا، اسے اس کا عدل وانصاف رہائی دلائے گااور اس کا ظلم وجور اس کو ہلاک کر دے گا۔

Haidth Number: 12042
ابو قحذم کہتے ہیں: زیاد یا ابن زیاد کے عہد میں ایک تھیلی میں گٹھلیوں کے برابر غلے کے (موٹے موٹے) دانے ملے، ان پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ غلہ اس زمانہ میں ہوتا تھا، جب عدل کا دور دورہ تھا۔

Haidth Number: 12043
سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو حکمران دس یا اس سے زیادہ افراد پر حکومت پائے، اسے قیامت کے د ن اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن سے بندھا ہوا ہوگا، اس اس کی نیکی اس کو چھڑائے گی یا اس کا گناہ اس کو ہلاک کر دے گا، اس اقتدار کی ابتدا میں ملامت ہے، درمیان میں ندامت ہے اور اس کا انجام قیامت کے روز رسوائی ہے۔

Haidth Number: 12044
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایک ایسا خلیفہ ہو گا، جو شمار کیے بغیر لوگوں کو مال عطا کیا کرے گا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: وہ لوگوں میںاموال تقسیم کرے گا، مگر شمار نہ کرے گا۔

Haidth Number: 12045
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امام اور حکمران ایک ڈھال ہے، جس کے پیچھے سے دشمن سے لڑاجاتا ہے اور اس کے ذریعہ دشمن کے وار سے بچاجاتا ہے، اگر وہ تقویٰ کا حکم دے اور عدل سے کام لے تو اسے ان کاموں کا اجر ملے گا اور اگر اس کے سوا کسی دوسری بات کا حکم دے تو اسے اس کا گناہ ہوگا۔

Haidth Number: 12046
ابو الو داک کہتے ہیں: میں نے کہا: ہمارے اوپر جو بھی حکمران آتا ہے، وہ پہلے سے بدتر ہوتا ہے اور ہر آنے والا سال بھی گزشتہ سال سے برا ہوتا ہے۔یہ سن کر سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو میں بھی یہی کہتا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر ایک ایسا حکمران آئے گا جو خوب مال تقسیم کرنے والا ہو گا، اسے شمار تک نہیں کرے گا، جو آدمی اس کے پاس آکر سوال کرے گا، وہ کہے گا: لے جا، چنانچہ وہ آدمی اپنا کپڑا بچھا کر اسے بھر کر لے جائے گا۔ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر ایک موٹی سی چادر تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بچھا کر بیان کیا کہ وہ اسے یوں بھر لے گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چادر کے کناروں کو پکڑ کر دکھایا۔ اور فرمایا: وہ مال سے بھری چادر کو یوں لے کر چلا جائے گا۔

Haidth Number: 12047

۔ (۱۲۵۰۳)۔ عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَۃَ، قَالَ شُرَیْحُ بْنُ عُبَیْدٍ: مَرِضَ ثَوْبَانُ بِحِمْصَ وَعَلَیْہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ قُرْطٍ الْأَزْدِیُّ فَلَمْ یَعُدْہُ، فَدَخَلَ عَلٰی ثَوْبَانَ رَجُلٌ مِنَ الْکَلَاعِیِّینَ عَائِدًا، فَقَالَ لَہُ ثَوْبَانُ: أَتَکْتُبُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: اکْتُبْ، فَکَتَبَ لِلْأَمِینِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُرْطٍ مِنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّہُ لَوْ کَانَ لِمُوسَی وَعِیسَی مَوْلًی بِحَضْرَتِکَ لَعُدْتَہُ ثُمَّ طَوَی الْکِتَابَ، وَقَالَ لَہُ: أَتُبَلِّغُہُ إِیَّاہُ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ بِکِتَابِہِ فَدَفَعَہُ إِلَی ابْنِ قُرْطٍ، فَلَمَّا قَرَأَہُ قَامَ فَزِعًا، فَقَالَ النَّاسُ: مَا شَأْنُہُ أَحَدَثَ أَمْرٌ؟ فَأَتٰی ثَوْبَانَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہِ فَعَادَہُ وَجَلَسَ عِنْدَہُ سَاعَۃً ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ ثَوْبَانُ بِرِدَائِہِ وَقَالَ: اجْلِسْ حَتّٰی أُحَدِّثَکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۷۸۲)

شریح بن عبید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: حمص میں سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑگئے، ان دنوں وہاں کا عامل عبداللہ بن قرط ازدی تھا، وہ ان کی عیادت کے لیے نہ آیا، جب بنو کلاع قبیلہ کا ایک آدمی سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے آیا تو انھوں نے اس سے کہا: کیا تم لکھنا جانتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: لکھو، پھر انہوں نے یہ تحریر لکھوائی: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خادم ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کے نام، امابعد! اگرتمہارے علاقہ میں موسی یا عیسیٰh کا کوئی خادم ہوتا تو تم ضرور اس کی بیمار پرسی کو جاتے۔ پھر انہوں نے خط لپیٹ کر کہا: کیا تم یہ خط عبداللہ تک پہنچادو گے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس جب اس آدمی نے جا کر وہ خط عبداللہ بن قرط کو دے دیا اور اس نے پڑھا تو وہ خوف زدہ سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا، لوگوں نے کہا: اسے کیا ہوا؟ کیا کوئی حادثہ پیش آگیا ہے؟ وہ ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پہنچا، ان کی عیادت کی اور کچھ دیر ان کی خدمت میں بیٹھا رہا، اس کے بعد اٹھ کر جانے لگا تو سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی چادر پکڑی اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر آدمی ہوں گے۔

Haidth Number: 12503
سیدناسہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار یا فرمایا سات لاکھ آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔

Haidth Number: 12504

۔ (۱۲۵۰۵)۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، حَدَّثَنَا ابْنُ ہُبَیْرَۃَ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا تَمِیمٍ الْجَیْشَانِیَّیَقُولُ: أَخْبَرَنِی سَعِیدٌ، أَنَّہُ سَمِعَ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِیَقُولُ: غَابَ عَنَّا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا فَلَمْ یَخْرُجْ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ لَنْ یَخْرُجَ، فَلَمَّا خَرَجَ سَجَدَ سَجْدَۃً، فَظَنَنَّا أَنَّ نَفْسَہُ قَدْ قُبِضَتْ فِیہَا، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ قَالَ: ((إِنَّ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اسْتَشَارَنِی فِی أُمَّتِی، مَاذَا أَفْعَلُ بِہِمْ؟ فَقُلْتُ: مَا شِئْتَ أَیْ رَبِّ، ہُمْ خَلْقُکَ، وَعِبَادُکَ، فَاسْتَشَارَنِی الثَّانِیَۃَ، فَقُلْتُ لَہُ کَذٰلِکَ، فَقَالَ: لَا أُحْزِنُکَ فِی أُمَّتِکَ یَا مُحَمَّدُ، وَبَشَّرَنِی أَنَّ أَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، لَیْسَ عَلَیْہِمْ حِسَابٌ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیَّ فَقَالَ: ادْعُ تُجَبْ، وَسَلْ تُعْطَ، فَقُلْتُ لِرَسُولِہِ: أَوَمُعْطِیَّ رَبِّی سُؤْلِی؟ فَقَالَ: مَا أَرْسَلَنِی إِلَیْکَ إِلَّا لِیُعْطِیَکَ، وَلَقَدْ أَعْطَانِی رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ وَلَا فَخْرَ، وَغَفَرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَمَا تَأَخَّرَ، وَأَنَا أَمْشِی حَیًّا صَحِیحًا، وَأَعْطَانِی أَنْ لَا تَجُوعَ أُمَّتِی وَلَا تُغْلَبَ، وَأَعْطَانِی الْکَوْثَرَ فَہُوَ نَہْرٌ مِنَ الْجَنَّۃِیَسِیلُ فِی حَوْضِی، وَأَعْطَانِی الْعِزَّ وَالنَّصْرَ وَالرُّعْبَ، یَسْعٰی بَیْنَیَدَیْ أُمَّتِی شَہْرًا، وَأَعْطَانِی أَنِّی أَوَّلُ الْأَنْبِیَائِ أَدْخُلُ الْجَنَّۃَ، وَطَیَّبَ لِی وَلِأُمَّتِی الْغَنِیمَۃَ، وَأَحَلَّ لَنَا کَثِیرًا مِمَّا شَدَّدَ عَلٰی مَنْ قَبْلَنَا، وَلَمْ یَجْعَلْ عَلَیْنَا مِنْ حَرَجٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۷۲۵)

سیدناحذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ایک دفعہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے پورا دن غائب رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف نہ لائے، ہم نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اب باہر بالکل نہیں آئیں گے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے آئے اور آتے ہی اس قدر طویل سجدہ کیا کہ ہم نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح قبض کر لی گئی ہے، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: میرے رب نے مجھ سے میری امت کے بارے میں مشورہ لیاہے کہ میں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں؟ میں نے کہا: اے میرے رب! وہ تیری مخلوق اور بندے ہیں، تو ان کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے، کر سکتا ہے، اللہ نے دوبارہ مجھ سے مشورہ لیا، میں نے پھر اسی طرح کہا، پھر اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: اے محمد! میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ کی امت کے بارے میں غمگین نہیں کروں گا اور اس نے مجھے بشارت دی کہ سب سے پہلے میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے اور ان میں سے ہر ہزار افراد کے ساتھ ستر ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی کہ آپ کوئی دعا کریں، قبول ہوگی، کچھ مانگیں آپ کو دیا جائے گا، میں نے اللہ کے فرستادے یعنی فرشتے سے کہا: کیا میں جو سوال کروں گا، میرا رب مجھے ضرو ر دے گا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا اسی لیے ہے کہ آپ جو سوال بھی کریں گے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دے دے گا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے اور میں اس پر فخر نہیں کرتا، اس نے میرے اگلے پیچھے گناہ معاف کر دئیے ہیں اور میں تندرست صحیح چلتا ہوں اور اس نے مجھے یہ خصوصیت بھی دی ہے کہ میری امت قحط سے نہیں مرے گی اور نہ دشمن اس پر غالب آئے گا اور اللہ نے مجھے کو ثر سے نوازا ہے، یہ ایک نہر ہے، جو جنت سے بہہ کر میرے حوض میں گرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت اور نصرت عطا فرمائی ہے اور میری امت کا رعب اس سے ایک مہینہ کی مسافت کے برابر آگے آگے چلتا ہے اور اللہ نے مجھے یہ فضیلت بھی دی ہے کہ انبیائے کرام میں سے میں سب سے پہلے جنت میں جاؤں گا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اور میری امت کے لیے غنیمت کو حلال ٹھہرا یا ہے اور ہم سے پہلے لوگوں پر جو سخت احکامات نازل ہوئے تھے ان میں سے بہت سے ہمارے لیے حلال کر دئیے اور ہم پر کوئی مشقت یا تنگی مقرر نہیں کی۔

Haidth Number: 12505
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہاـ: اے اللہ کے رسول! اس تعداد میں ہمارے لیے اضافہ کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ہتھیلی کو جمع کر کے فرمایا: اور اس طرح۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس تعداد میں ہمارے لیے اضافہ کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور اس طرح۔ اتنے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابو بکر! تمہیں یہ کافی ہے، اب بس کرو، لیکن سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عمر! تم مجھے چھوڑو، اور درخواست کر لینے دو، اگر اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت میںداخل کرے تو آپ کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک ہی ہتھیلی سے اپنی ساری مخلوق کو جنت میں داخل کر دے، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سچ کہا ہے۔

Haidth Number: 12506

۔ (۱۲۵۰۷)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: أَکْثَرْنَا الْحَدِیثَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ثُمَّ غَدَوْنَا إِلَیْہِ، فَقَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْأَنْبِیَائُ اللَّیْلَۃَ بِأُمَمِہَا، فَجَعَلَ النَّبِیُّیَمُرُّ وَمَعَہُ الثَّلَاثَۃُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ الْعِصَابَۃُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ النَّفَرُ، وَالنَّبِیُّ لَیْسَ مَعَہُ أَحَدٌ، حَتّٰی مَرَّ عَلَیَّ مُوسٰی مَعَہُ کَبْکَبَۃٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَأَعْجَبُونِی فَقُلْتُ: مَنْ ہٰؤُلَائِ؟ فَقِیلَ لِی: ہٰذَا أَخُوکَ مُوسٰی مَعَہُ بَنُو إِسْرَائِیلَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَیْنَ أُمَّتِی؟ فَقِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَمِینِکَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا الظِّرَابُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوہِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَسَارِکَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوہِ الرِّجَالِ، فَقِیلَ لِی: أَرَضِیتَ؟ فَقُلْتُ: رَضِیتُیَا رَبِّ، رَضِیتُیَا رَبِّ، قَالَ: فَقِیلَ لِی: إِنَّ مَعَ ہَؤُلَائِ سَبْعِینَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فِدًا لَکُمْ اَبِیْ وَاُمِّیْ ٔوَأُمِّی إِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَکُونُوا مِنَ السَّبْعِینَ الْأَلْفِ فَافْعَلُوا، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ فَکُونُوْا مِنْ أَہْلِ الظِّرَابِ، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ فَکُونُوا مِنْ أَہْلِ الْأُفُقِ، فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ ثَمَّ نَاسًا یَتَہَاوَشُونَ۔)) فَقَامَ عُکَاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: ادْعُ اللّٰہَ لِییَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنَ السَّبْعِینَ، فَدَعَا لَہُ، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: ادْعُ اللّٰہَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((قَدْ سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ۔)) قَالَ: ثُمَّ تَحَدَّثْنَا فَقُلْنَا: مَنْ تَرَوْنَ ہٰؤُلَائِ السَّبْعُونَ الْأَلْفُ، قَوْمٌ وُلِدُوا فِی الْإِسْلَامِ لَمْ یُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًا حَتّٰی مَاتُوا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((ہُمْ الَّذِینَ لَا یَکْتَوُونَ، وَلَا یَسْتَرْقُونَ، وَلَا یَتَطَیَّرُونَ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔)) (مسند احمد: ۳۸۰۶)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ایک رات ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کا فی دیر تک باتیں کیں، پھر جب صبح کو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات تمام انبیاء اور ان کی امتیں میرے سامنے پیش کیے گئے، کسی نبی کے ساتھ تین آدمی تھے، کسی کے ساتھ چھوٹی سی جماعت، کسی کے ساتھ جھوٹا سا گروہ تھا اور کچھ نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ میرے سامنے سے موسیٰ علیہ السلام گزرے اور ان کے ساتھ بنو اسرائیل کی ایک بڑی جماعت تھی، وہ لوگ مجھے بڑے اچھے لگے،میں نے پوچھا:یہ کون لو گ ہیں؟ مجھے بتلایا گیا کہ یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بھائی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم بنو اسرائیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ میری امت کہاںہے؟ مجھ سے کہا گیا کہ آپ اپنی دائیں جانب دیکھیں، میں نے دیکھاتو وہاں ایک بہت بڑا ہجوم ساتھا، جو لوگوں کے چہروں سے بھر ا ہوا تھا، پھر مجھے کہا گیا: اپنی بائیں جانب دیکھیں، میں نے دیکھا تو اس طرف والا افق لوگوں سے بھرا ہوا تھا، پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اب راضی ہیں؟ میں نے کہا: جی میں راضی ہوں، اے میرے رب! میں راضی ہوں، اے میرے ربّ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ان امتیوں کے ساتھ ستر ہزار لوگ ایسے ہیں، جو حساب کے بغیر جنت میںجائیں گے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ماں باپ تم لوگوں پر فدا ہوں، اگر ہوسکے تو تم ان ستر ہزار میں سے بننے کی کوشش کرو اور اگر اس قدرمحنت نہ ہو سکے تو کم از کم اس ہجوم والوںمیں سے ہی بننے کی کوشش کرو اور اگر اتنا بھی نہ ہوسکے تو افق والوں میں سے بننے کی کوشش کرو، میں نے وہاں کچھ لوگوں کو دھکم پیل کرتے بھی دیکھا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان ستر ہزار والوں میں سے مجھے بھی بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی، اتنے میں ان کے بعد ایک اور آدمی کھڑ اہوا اور اس نے بھی یہی درخواست کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تم سے سبقت لے گیا۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر ہم باتوں میں مصروف ہوگئے اور ہم نے کہا کہ اس بارے میں کیا خیال ہے کہ یہ ستر ہزار آدمی کون ہوسکتے ہیں، کیا یہ وہ لوگ ہیںجو اسلام میں پیدا ہوئے اور پھر مرتے دم تک شرک کے قریب نہیں گئے؟ جب یہ باتیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جو نہ زخموں کو داغتے ہیں،نہ دم جھاڑ کرتے ہیں اور نہ بد فالی یا بد شگونی لیتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر مکمل توکل کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12507