Blog
Books
Search Hadith

قطع رحمی سے ترہیب کا بیان

866 Hadiths Found
۔ ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بغاوت (وظلم) اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں کہ جس کے بارے میں زیادہ مناسب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو دنیا میں بھی سزا دینے میں جلدی کرے اور آخرت میں بھی (عذاب دینے کے لیے) اس (گناہ) کو ذخیرہ کر لے۔

Haidth Number: 9693
Haidth Number: 9694
۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو صلہ رحمی اللہ کی کمر پکڑکر کھڑی ہو گئی اور کہا : قطع رحمی سے پناہ طلب کرنے والے کا یہ مقام ہے، اللہ نے فرمایا: ہاں۔کیا تو (اس منقبت پر)راضی نہیں ہو گی کہ جس نے تجھے ملایا میں بھی اُس کو ملائوںگا اور جس نے تجھے کاٹا میں بھی اُسے کاٹ دوں گا؟ اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کییہ آیت پڑھ لو: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی بصارت اللہ تعالیٰ نے چھین لی ہے۔ کیایہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔

Haidth Number: 9695
Haidth Number: 9696
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رشتہ داری، رحمن کی ایک شاخ ہے، یہ قیامت کے دن آ کر کہے گی: اے میرے ربّ! مجھے کاٹ دیا گیا، اے میرے ربّ! مجھ پر ظلم کیا گیا، اے میرے ربّ ! میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا، پس اللہ تعالیٰ اس کو جواب دے گا: کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گی کہ جس نے تجھے ملایا، میں بھی اس کو ملا لوں اور جس نے تجھے کاٹا، میں بھی اس کو کاٹ دوں۔

Haidth Number: 9697
Haidth Number: 9698
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چغلخور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

Haidth Number: 9882
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو یہ بتلا نہ دو کہ عَضْہ کیا ہے؟ یہ لوگوں کی آپس میں چغلخوری والی باتیں ہیں۔ نیز محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو سچا لکھ لیا جاتا ہے اور اس طرح بھی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 9883
۔ سیدہ اسماء بنت یزید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں بتاؤں؟ انھوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جن کو دیکھنے سے اللہ یاد آ جاتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے شریر لوگوں کے بارے میں بتلا دوں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو چغلخور ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے درمیان فساد برپا کرتے ہیں اور (عیوب سے) بری لوگوں کے لیے غلطیاں تلاش کرتے ہیں۔

Haidth Number: 9884
Haidth Number: 9885

۔ (۹۸۸۶)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِاَصْحَابِہٖ: ((لَا یُبَلِّغُنِیْ اَحَدٌ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَصْحَابِیْ شَیْئًا، فَاِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَخْرُجَ الِیْکُمْ، وَاَنَا سَلِیْمُ الصَّدْرِ۔))، قَالَ: وَاَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَالٌ، فَقَسَمَہُ، قَالَ: فَمَرَرْتُ بِرَجُلَیْنِ، وَاَحَدُھُمَا یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ: وَاللّٰہِ! مَااَرَادَمُحَمَّدٌبِقِسْمَتِہِوَجْہَاللّٰہِ،وَلَاالدَّارَالْآخِرَۃِ، فَتَثَبَّتُّ، حَتّٰی سَمِعْتُ مَا قَالَا، ثُمَّ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّکَ قُلْتَ لَنَا: ((لَا یُبَلِّغُنِیْ اَحَدٌ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَصْحَابِیْ شَیْئًا۔)) وَاِنِّیْ مَرَرْتُ بِفُلَانٍ وَفُلَانٍ، وَھُمَا یَقُوْلَانِ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَاحْمَرَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَشَقَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((دَعْنَا مِنْکَ فَقَدْ اُوْذِیَ مُوْسٰی اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، ثُمَّ صَبَرَ۔)) (مسند احمد: ۳۷۵۹)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کوئی آدمی میرے کسی صحابی کی قابل اعتراض بات مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ مال لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو تقسیم کیا، میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! اس تقسیم سے محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کا ارادہ نہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور نہ آخرت کا گھر، پھر میں نے مزید توجہ کی اور ان کی باتیں سن لیں، پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے توہمیں یہ فرمایا تھا کہ کوئی آدمی میرے کسی صحابی کی قابل اعتراض بات مجھ تک نہ پہنچائے۔ لیکن اب بات یہ ہے کہ میں فلاں فلاں کے پاس سے گزرا اور وہ اس طرح کی باتیں کر رہے تھے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اور یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گراں گزری اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھوڑ دو ہم کو، پس موسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی، لیکن انھوں نے پھر بھی صبر کیا۔

Haidth Number: 9886
۔ (دوسری سند) ایک انصاری آدمی نے ایسی بات کی کہ جس سے پتہ چل رہا تھا کہ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی بات محسوس کی ہوئی ہے، (بات اتنی سخت تھی کہ) میرا نفس مجھ پر قابو نہ پا سکا اور میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کر دیا، میں نے تو چاہا کہ اس بات کے فدیے میں اپنا سارا اہل و مال قربان کر دوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں نے موسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ ایذا دی، لیکن انھوں نے صبر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بتایا کہ ایک نبی کو اس کی قوم نے جھٹلایا اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کو زخمی کر دیا، اب وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ جانتے نہیں ہیں۔

Haidth Number: 9887

۔ (۱۰۰۴۹)۔ عَنْ نَضْلَۃَ بْنِ طَرِیْفٍ، اَنَّ رَجُلًا مِنْھُمْ یُقَالُ لَہُ الْاَعْشٰی، وَاِسْمُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْاَعْوَرِ، کَانَتْ عِنْدَہُ اِمْرَاَۃٌیُقَالُ لَھَا: مُعَاذَۃُ، خَرَجَ فِیْ رَجَبٍ یَمِیْرُ اَھْلَہُ مِنْ ھَجَرَ، فَھَرَبَتِ امْرَاَتُہُ بَعْدَہُ نَاشِزًا عَلَیْہِ، فَعَاذَتْ بِرَجُلٍ مِنْھُمْ یُقَالُ لَہُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُھْصُلِ بْنِ کَعْبِ بْنِ قُمَیْشَعِ بْنِ دُلَفِ بْنِ اَھْضَمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحِرْمَازِ، فَجَعَلَھَا خَلْفَ ظَھْرِہِ، فلَمَّا قَدِمَ وَلَمْ یَجِدْھَا فِیْ بَیْتِہِ وَاُخْبِرَ اَنَّھَا نَشَزَتْ عَلَیْہِ، وَاَنَّھَا عَاذَتْ بِمُطَرِّفِ بْنِ بُھْصُلٍ، فَاَتَاہُ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْعَمِّ، اَعِنْدَکَ اِمْرَاَتِیْ مُعَاذَۃُ؟ فَادْفَعْھَا اِلَیَّ، فَقَالَ: لَیْسَتْ عِنْدِیْ، وَلَوْ کَانَتْ عِنْدِیْ لَمْ اَدْفَعْھَا اِلَیْکَ، قَالَ: وَکَانَ مُطَرِّفٌ اَعَزَّ مِنْہُ، فَخَرَجَ حَتّٰی اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَاذَ بِہٖوَاَنْشَاَیَقُوْلُ :

۔ سیدنا نضلہ بن طریف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم میں ایک آدمی تھا، عام طور پر اس کو اعشی کہا جاتا تھا، اس کا نام عبد اللہ بن اعور تھا، اس کی معاذہ نامی ایک بیوی تھی، وہ اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے لینے کی خاطر رجب میں ہجر گیا، پیچھے اس کی بیوی بغاوت کر کے کہیں بھاگ گئی اور مطرف بن بُہصُل نامی آدمی کے ہاں جا کر پناہ لی، اس نے اس کو اپنی کمر کے پیچھے بٹھا لیا، جب اعشی واپس آیا، اس نے اپنی بیوی کو اپنے گھر میں نہ پایا اور اس کو بتلایا گیا کہ وہ بغاوت کر گئی ہے اور مطرف بن بُہصُل کی پناہ میں ہے، چنانچہ وہ مطرف کے پاس گیا اور اس سے کہا: اے چچا زاد! کیا تیرے پاس میری بیوی معاذہ ہے؟ اگر ہے تو مجھے دے دے، اس نے کہا: وہ میرے پاس نہیں ہے اور اگر وہ میری پاس ہوتی تو میں نے تجھ کو نہیں دینی تھی۔ دراصل مطرف، اعشی سے زیادہ عزت و قوت والا تھا، پس اعشی نکل پڑا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پناہ طلب کی اور پھر یہ اشعار پڑھے: اے لوگوں کے سردار! اور عربوںپر غالب آ جانے والے! میں آپ سے خائن عورتوں میں سے ایک خائن عورت کی شکایت کرتا ہوں گہری سیاہی والی مادہ بھیڑیئے کی طرح، جو بِل کے سائے میں ہو، میں اس کے لیے غلہ طلب کرنے کے لیے رجب میں نکلا اس نے جھگڑنے اور بھاگنے کی صورت میں اپنے حق میں میرے ظن کی مخالفت کی، اس نے وعدہ خلافی کی ہے اور اس نے اپنی دم کو بند کر لیا ہے اس نے مجھے کثیر مقدار کے گھنے درختوں میں پھینک دیا ہے، یہ اس شخص کے حق میں بدترین غلبہ پا لینے والی ہیں، جس پر غلبہ پا لیں یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ خواتین اس شخص کے حق میں بدترین غلبہ پانے والی ہیں، جس پر یہ غلبہ پا لیں۔ پھر اعشی نے اپنی بیوی اور اس کاروائی کا شکوہ کیا اور بتلایا کہ اب وہ ہمارے قبیلے کے مطرف بن بہصل نامی آدمی کے پاس ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مطرف کی طرف یہ خط لکھا: تو اس کی بیوی تلاش کر کے اس کو واپس کر دے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خط اُس آدمی کے پاس پہنچا اور اس پر پڑھا گیا تو اس نے اسی خاتون سے کہا: اے معاذہ! یہ تیرے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خط موصول ہوا ہے، اس کی وجہ سے میں تجھے اس کے سپرد کرنے والا ہوں۔ اس خاتون نے کہا: تو پھر تو میرے حق میں اس سے پختہ عہد اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امان لے لے، تاکہ وہ مجھے میرے کیے پر سزا نہ دے، پس مطرف نے اعشی سے یہ عہد و پیمان لیا اور پھر اس کی بیوی کو اس کے سپرد کر دیا، اعشی نے اپنی بیوی وصول کی اور یہ شعر پڑھنے لگا: تیری عمر کی قسم! معاذہ سے میری محبت ایسی نہیں ہے کہ جس کو چغلخور اورزمانے کا گزرنا کم کر دے نہ وہ برائی اس کو کم کر سکے گی، جو معاذہ نے کی ہے، کیونکہ گمراہ لوگوں نے اس کو پھسلا دیا تھا، جب وہ میرے جانے کے بعد اس سے سرگوشیاں کرتے تھے۔

Haidth Number: 10049
۔ (دوسری سند) اعشی کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ اشعا ر پڑھے: اے لوگوں کے مالک اور عربوں پر غالب آ جانے والے! خائن عورتوں میں سے ایک خائن عورت سے میرا واسطہ پڑا ہے میں اس کے لیے اناج لانے کے لیے رجب میں نکلا لیکن وہ جھگڑنے اور بھاگنے کی صورت میں میرا نائب بنی اس نے وعدہ خلافی کی اور اپنی دُم کو بند کر دیایہ اس شخص کے حق میں بدترین غلبہ پا لینے والی ہیں، جس پر غلبہ پا لیں۔

Haidth Number: 10050
۔ ابو زبیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا تم گناہوں کو شرک سمجھتے تھے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی پناہ۔

Haidth Number: 10180
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! اگر تم گناہ کرتے رہو، یہاں تک کہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے زمین و آسمان کا درمیانی خلا بھر جائے، پھر جب تم اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو گے تو وہ تم کو بخش دے گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم لوگ گناہ نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر دے گا، جو گناہ کریں اور پھر وہ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں گے اور وہ ان کو معاف کرے گا۔

Haidth Number: 10181
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم نے گناہ نہ کیے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لے آئے گا، جو گناہ کریں گے، تاکہ وہ ان کو بخشے۔

Haidth Number: 10182
۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب ان کی وفات کا وقت آ پہنچا تو انھوں نے کہا: میں تم سے ایک حدیث چھپاتا تھا، جو میں نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم گناہ نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرے گا، جو گناہ کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو بخشے گا۔

Haidth Number: 10183

۔ (۱۰۱۸۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَنَّ رَجُلًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ اِنِّیْ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اَوْ قَالَ: عَمِلْتُ عَمَلًا ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ، فَقَالَ عَزَّوَجَلَّ: عَبْدِیْ عَمِلَ ذَنْبًا فَعَلِمَ اَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہِ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ۔ ثُمَّ عَمِلَ ذَنْبًا آخَرَ اَوْ اَذْنَبَ ذَنْبًا آخَرَ فَقَالَ: رَبِّ اِنِّیْ عَمِلْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ، فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖقَدْغَفَرْتُلِعَبْدِیْ، ثُمَّ عَمِلَ ذَنْبًا آخَرَ اَوْ اَذْنَبَ ذَنْبًا آخَرَ، فَقَالَ: رَبِّ اِنِّیْ عَمِلْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ، فَقَالَ: عَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ،قَدْغَفَرْتُلِعَبْدِیْ فَلْیَعْمَلْ مَاشَائَ۔)) (مسند احمد: ۷۹۳۵)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی نے گناہ کیا اور کہا: اے میرے ربّ! میں نے گناہ کیا ہے ، تو اس کو بخش دے، اللہ تعالیٰ نے کہا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور یہ بھی جان لیا ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے جو گناہ کو بخش بھی سکتا ہے اور اس کی وجہ سے گرفت بھی کر سکتا ہے، تحقیق میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا ہے۔ پھر اس بندے نے ایک اور گناہ کر دیا اور کہا: اے میرے ربّ! میں نے ایک گناہ کیا ہے، پس تو اس کو بخش دے، اُدھر اللہ تعالیٰ نے کہا: میرے بندے نے جان لیا ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے، جو گناہ کو بخشتا بھی ہے اور اس کی وجہ سے پکڑ بھی لیتا ہے، تحقیق میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ہے۔ پھر اس نے ایک اور گناہ کر دیا اور کہا: اے میرے ربّ! میں نے گناہ کر دیا ہے، پس تو اس کومعاف کر دے، اللہ تعالیٰ نے کہا: میرے بندے نے جان لیا ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے، جو گناہ کو بخشتا بھی ہے اور اس کی وجہ سے پکڑ بھی لیتا ہے، تحقیق میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا ہے، وہ جو چاہے عمل کرتا رہے۔

Haidth Number: 10184
۔ سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک قیدی کو لایا گیا، اس نے کہا: اے اللہ! میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں، میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرف توبہ نہیں کرتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس قیدی نے حق کو اس کے اہل کے لیے پہچان لیا ہے۔

Haidth Number: 10185
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تووہ ڈانواڈول ہونے لگی، پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑھا، سو وہ قرار پکڑ گئی، فرشتوں کو پہاڑوں کی تخلیق سے بڑا تعجب ہوا، پس انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: ہاں، وہ لوہا ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ آگ ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز آگ سے سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ پانی ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ ہوا ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آدم کا وہ بیٹا ہے، جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرتا ہے اور اس کو بائیں ہاتھ سے چھپاتا ہے۔

Haidth Number: 10223
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ زمانے کو گالی دیتا ہے، جبکہ میں زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں اختیار ہے، میں دن رات کو الٹ پلٹ کرتا ہوں۔

Haidth Number: 10224
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمانے کو برا بھلا نہ کہا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک زمانہ یعنی دن اور راتیں میرے لیے ہیں، میں ان میں جدت پیدا کرتا ہوں اور ان کو بوسیدہ کرتا ہوں اور میں بادشاہوں کے بعد بادشاہوں کو لاتا ہوں۔

Haidth Number: 10225
Haidth Number: 10325

۔ (۱۰۳۲۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْروٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَتَّی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَعْرَابِیٌ عَلَیْہِ جُبَّۃٌ مِنْ طَیَالِسَۃٍ مَکْفُوْفَۃٌ بِدِیْبَاجٍ اَوْ مَزْرُوْرَۃٌ بِدِیْبَاجٍ، فَقَالَ: اِنَّ صَاحِبَکُمْ ھٰذَا یُرِیْدُ اَنْ یَرْفَعَ کُلَّ رَاعٍ اِبْنِ رَاعٍ، وَ یَضَعَ کُلَّ فَارِسِ ابْنِ فَارِسٍ! فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضَبًا فاَخَذَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِہِ فَاجْتَذَبَہُ وَ قَالَ: ((لَا اَرٰی عَلَیْکَ ثِیَابَ مَنْ لَا یَعْقِلُ۔)) ثُمَّ رَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ فَقَالَ: ((اِنَّ نُوْحًا عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ دَعَا اِبْنَیْہِ فَقَالَ: اِنِّیْ قَاصِرٌ عَلَیْکُمَا الْوَصِیَّۃَ، آمُرُکُمَا بِاِثْنَیْنِ وَاَنْھَاکُمَا عَنِ اثْنَتَیْنِ، اَنْھَاکُمَا عَنِ الشِّرْکِ وَالْکِبْرِ، وَآمُرُکُمَا بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَاِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ مَا فِیْھِمَا لَوْ وُضِعَتْ فِیْ کِفَّۃِ الْخَیْرَاتِ، وَ وُضِعَتْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فِی الْکِفَّۃِ الْاُخْرٰی کَانَتْ اَرْجَحَ، وَلَوْ اَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا حَلْقَۃً فَوُضِعَتْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عَلَیْھِمَا لَفَصَمَتْھُمَا اَوْ لَقَصَمَتْھُمَا، وَ آمُرُکُمَا بِسُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ فَاِنَّھَا صَلَاۃُ کُلِّ شَیْئٍ، وَ بِھَا یُرْزَقُ کُلُّ شَیْئٍ۔)) (مسند احمد: ۷۱۰۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدّو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، اس نے سبز شال کا جبہ پہنا ہوا تھا، اس کو ریشم کے ساتھ بند کیا گیا تھا، اس نے کہا : تمہارا یہ ساتھی چاہتا ہے کہ چرواہوں کو بلند کر دیا جائے اور گھڑسواروں کو پست کر دیا جائے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے، اس کو سینے والے مقام سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور فرمایا: مجھ تجھ پر بیوقوفوں کا لباس نہ دیکھنے پاؤں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: بیشک جب نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا: میں تم کو وصیت کرنے لگا ہوں، میں تم کو دو چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور دو سے ہی منع کرتا ہوں، میں تم کو شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا حکم دیتا ہوں، اگر آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان والی چیزوں کو نیکیوں والے پلڑے میں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو دوسرا پلڑا بھاری ہو جائے گا، اور اگر آسمان اور زمین ایک کڑا ہوتے اور پھر ان پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کو رکھ دیا جاتا تو یہ کلمہ ان کو توڑ دیتا اور میں تم کو سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ کہنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہیہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر چیز کو رزق دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 10326
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب داود علیہ السلام کی نماز ہے، وہ رات کا نصف حصہ سوتے، پھر ایک تہائی رات قیام کرتے اور پھر باقی چھٹا حصہ سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

Haidth Number: 10400

۔ (۱۰۴۳۳)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ صُھَیْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَانَ مَلِکٌ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ وَ کَانَ لَہُ سَاحِرٌ فَلَمَّا کَبِرَ السَّاحِرُ، قَالَ لِلْمَلِکِ: اِنِّیْ قَدْ کَبِرَتْ سِنِّیْ وَ حَضَرَ اَجَلِیْ فَادْفَعْ اِلَیَّ خَادِمًا فَلَاُعَلِّمُہُ السِّحْرَ، فَدَفَعَ اِلَیْہِ غُلَامًا فَکَانَ یُعَلِّمُہُ السِّحْرَ، وَ کَانَ بَیْنَ السَّاحِرِ وَ بَیْنَ الْمَلِکِ رَاھِبٌ فَاَتَی الْغُلَامُ عَلَی الرَّاھِبِ، فَسَمِعَ مِنْ کَلَامِہِ فَاَعْجَبَہُ نَحْوُہُ وَ کَلَامُہُ، فَکَانَ اِذَا اَتَی السَّاحِرَ ضَرَبَہُ وَ قَالَ: مَا حَبَسَکَ؟ وَ اِذَا اَتَی اَھْلَہُ ضَرَبُوْہُ وَ قَالُوْا: مَاحَبَسَکَ؟ فَشَکٰی ذٰلِکَ اِلَی الرَّاھِبِ، فَقَالَ: اِذَا اَرَادَ السَّاحِرُ اَنْ یَضْرِبَکَ فَقُلْ حَبَسَنِیْ اَھْلِیْ، وَ اِذَا اَرَادَ اَھْلُکَ اَنْ یَضْرِبُوْکَ فَقُلْ: حَبَسَنِیْ السَّاحِرُ، وَ قَالَ: فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذْ اَتٰی ذَاتَ یَوْمٍ عَلٰی دَابَّۃٍ فَظِیْعَۃٍ عَظِیْمَۃٍ، وَ قَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ فَـلَایَسْتَطِیْعُوْنَ اَنْ یَجُوْزُوْا، فَقَالَ: الْیَوْمَ اَعْلَمُ اَمْرَ الرَّاھِبِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ اَمْ اَمْرَ السَّاحِرِ، فَاَخَذَ حَجَرًا، فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ اَمْرُ الرَّاھِبِ اَحَبَّ اِلَیْکَ وَ اَرْضٰی لَکَ مِنْ اَمْرِ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ ھٰذِہِ الدَّابَّۃَ حَتّٰییَجُوْزَ النّاسُ، وَ رَمَاھَا فَقَتَلَھَا، وَ مَشَی النَّاسُ، فَاَخْبَرَ الرَّاھِبَ بِذٰلکِ،َ فَقَالَ: اَیْ بُنَیَّ! اَنْتَ اَفْضَلُ مِنِّیْ وَ اِنَّکَ سَتُبْتَلٰی، فَاِنِ ابْتُلِیْتَ فَـلَا تَدُلَّ عَلَیَّ، فَکَانَ الْغُلَامُیُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَ سَائِرَ الْاَدْوَائِ، وَ یَشْفِیْھِمْ، وَ کَانَ یَجْلِسُ لِلْمَلِکِ جَلِیْسٌ فَعَمِیَ فَسَمِعَ بِہٖفَاَتَاہُبِھَدَایَا کَثِیْرَۃٍ، فَقَالَ: اشْفِنِیْ وَ لَکَ مَا ھَاھُنَا اَجْمَعُ، فَقَالَ: مَا اَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا اِنّمَا یَشْفِیْ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَاِنْ اَنْتَ آمَنْتَ بِہٖدَعَوْتُاللّٰہَفَشَفَاکَ،فَآمَنَفَدَعَا اللّٰہَ لَہُ فَشَفَاہُ، ثُمَّ اَتَی الْمَلِکَ فَجَلَسَ مِنْہُ نَحْوَ مَا کَانَ یَجْلِسُ، فَقَالَ لَہُ الْمَلِکُ: یَا فُلَانُ! مَنْ رَدَّ عَلَیْکَ بَصَرَکَ؟ فَقَالَ: رَبِّیْ، فَقَالَ: اَنَا؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہُ، قَالَ: لَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَلَمْ یَزَلْیُعَذِّبُہُ حَتّٰی دَلَّہُ عَلَی الْغُلَامِ فَبَعَثَ اِلَیْہِ فَقَالَ: اَیْ بُنَيَّ! قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِکَ اَنْ تُبْرِیئَ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ ھٰذِہِ الْاَدْوَائَ، قَالَ: مَا اَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا، مَا یَشْفِیْ غَیْرُاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: اَنَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: اَوَلَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہُ، فَاَخَذَہُ اَیْضًا بِالْعَذَابِ فَلَمْ یَزَلْ بِہٖحَتّٰی دَلَّ عَلَی الرَّاھِبِ، فَاُتِیَ بِالرَّاھِبِ فَقَالَ: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِیْ مَفْرِقِ رَاْسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ وَ قَالَ لِلْاَعْمٰی: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِیْ مَفْرِقِ رَاْسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ قَالَ لِلْغُلَامِ: ارْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی فَبَعَثَ بِہٖمَعَنَفَرٍاِلٰی جَبَلِ کَذَاوَکَذَا فَقَالَ: اِذَا بَلَغْتُمْ ذِرْوَتَہُ فَاِنْ رَجَعَ عَنْ دِیْنِہِ وَ اِلَّا فَدَھْدِھُوْہُ مِنْ فَوَقِہِ فَذَھَبُوْا بِہٖفَلَمَّاعَلَوْابِہٖالْجَبَلَقَالَ: اَللّٰھُمَّاکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ فَرَجَفَ بِھِمُ الْجَبَلُ فَدَھْدَھُوْا اَجْمَعُوْنَ، وَ جَائَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ؟ فَقَالَ: کَفَانِیْھِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، فَبَعَثَہُ مَعَ نَفَرٍ فِیْ قُرْقُوْرٍ فَقَالَ: اِذَا لَجَجْتُمْ بِہٖالْبَحْرَفَاِنْرَجَعَعَنْدِیْنِہِ وَ اِلَّا فَغَرِّقُوْہُ، فَلَجَّجُوْا بِہٖالْبَحْرَفَقَالَالْغُلَامُ: اَللّٰھُمَّاکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ! فَغَرَقُوْا اَجْمَعُوْنَ وَ جَائَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ؟ فَقَالَ: کَفَانِیْھِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِکِ: اِنَّکَ لَسْتَ بِقَاتِلِیْ حَتّٰی تَفْعَلَ مَا آمُرُکَ بِہٖ،فَاِنْاَنْتَفَعَلْتَ مَا آمُرُکَ بِہٖقَتَلْتَنِیْ وَ اِلَّا فَاِنَّکَ لَا تَسْتَطِیْعُ قَتْلِیْ، قَالَ: وَ مَا ھُوْ؟ قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِیْ صَعِیْدٍ ثُمَّ تَصْلُبُنِیْ عَلَی جِزْعٍ فَتَاْخُذُ سَھْمًا مِنْ کِنَانَتِیْ ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَاَنْتَ اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَتَلْتَنِیْ، فَفَعَلَ وَ وَضَعَ السَّھْمَ فِیْ کَبِدِ قَوْسِہِ ثُمَّ رَمٰی فَقَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَوَقَعَ السَّھْمُ فِیْ صُدْغِہِ فَوَضَعَ الْغُلَامُ یَدَہُ عَلٰی مَوْضِعِ السَّھْمِ، وَ مَاتَ فَقَالَ النَّاسُ: آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، فَقِیْلَ لِلْمَلِکِ: اَرَاَیْتَ مَاکُنْتَ تَحْذَرُ فَقَدْ وَاللّٰہِ نَزَلَ بِکَ، قَدْ آمَنَ النَّاسُ کُلُّھُمْ، فَاَمَرَ بِاَفْوَاہِ السِّکَکِ فَخُدِّدَتْ فِیْھَا الْاَخَادِیْدُ وَ اُضْرِمَتْ فِیْھَا النِّیْرَانُ، وَ قَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِیْنِہِ فَدَعَوْہُ وَ اِلَّا فَاَقْحِمُوْہُ فِیْھَا قَالَ: فَکَانُوْا یَتَعَادَوْنَ فِیْھَا، وَ یَتَدَافَعُوْنَ، فَجَائَ تِ امْرَاَۃُ بِابْنٍ لَھَا تُرْضِعُہُ فَکَاَنَّھَا تَقَاعَسَتْ اَنْ تَقَعَ فِیْ النَّارِ، فَقَالَ الصَّبِیُّ: یَا اُمَّہْ! اصْبِرِیْ فَاِنَّکِ عَلٰی حَقٍّ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۲۸)

۔ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادو گر بوڑھا ہوا تواس نے بادشاہ سے کہا: میںعمر رسیدہ ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ چکا ہے، لہٰذا مجھے کوئی خادم دو، تاکہ میں اس کو جادو کا علم سکھا سکوں، پس اس نے اس کو ایک لڑکا دے دیا اور وہ اس کو جادو کی تعلیم دینے لگا، جادوگر اور بادشاہ کے درمیان ایک پادری تھا، ایک دن وہ بچہ اس پادری کے پاس چلا گیا اور اس کا کلام سنا، اس کا طرز و طریقہ اور کلام اس کو پسند آیا، جب وہ پادری کی وجہ سے لیٹ ہو جاتا اور پھر جادو گر کے پاس پہنچتا تو وہ اس کی پٹائی کرتا اور کہتا: کس چیز نے تجھے روکے رکھا؟ اسی طرح جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچتا تو وہ بھی اس کی پٹائی کرتے اور کہتے: کس چیز نے تجھے روکے رکھا؟ جب اس نے پادری سے یہ شکایت کی تو اس نے کہا: جب جادو گر تجھے سزا دینا چاہے تو یہ کہہ دینا کہ گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والے سزا دینے لگیں تو کہنا کہ جادو گر نے روک لیا تھا، پس یہی روٹیں جاری رہی، ایک دن اس کا گزر ایک بہت بڑے جانور کے پاس سے ہوا، اس جانور نے لوگوں کو روک رکھا تھا، وہ اس سے آگے گزر جانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لڑکے نے کہا: آج مجھے پتہ چل جائے گا کہ پادری کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے یا جادو گر کا معاملہ، پس اس نے پتھر لیا اور کہا: اے اللہ! اگر جادو گر کی بہ نسبت پادری کا معاملہ تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو اس پتھر سے قتل کر دے، تاکہ لوگ گزر سکیں، پھر اس نے وہ پتھر پھینکا اور اس نے تو واقعی جانور کو قتل کر دیا اور لوگ گزر گئے، پھر جب اس لڑکے نے پادری کو اس واقعہ کی خبر دی تو اس نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! تو تو مجھ سے افضل ہے اور عنقریب تجھے آزمایا جائے گا، لیکن اگر تجھ پر آزمائش آ پڑی تو میراکسی کو نہ بتلانا، پس یہ لڑکا پیدائشی اندھوں اور باقی بیماریوںکا علاج کرنے لگا اور ان کو شفا ہونے لگی۔ ایک دن ہوا یوں کہ بادشاہ کا ایک ہم نشیں اندھا ہو گیا، جب اس نے اس لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت زیادہ تحائف لے کر آیا اور اس نے کہا: تو مجھے شفا دے دے اور یہ سب کچھ تیرا ہو گا، اس نے کہا: میں تو شفا نہیں دیتا، بلکہ اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے، اگر تو اس اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اس سے دعا کروں گا اور وہ تجھے شفا دے دے گا، پس وہ آدمی ایمان لے آے اور اس لڑکے نے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس نے اس کو شفا دے دی، پھر وہ ہم نشیں بادشاہ کے پاس آیا اور سابقہ روٹین کے مطابق بیٹھنے لگا، بادشاہ نے اس سے پوچھا: اے فلاں! کس نے تیری نظر لوٹائی ہے؟ اس نے کہا: میرے ربّ نے، بادشاہ نے کہا: میں نے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ میرے اور تیرے ربّ اللہ نے، اس نے کہا: کیا میرے علاوہ بھی تیرا کوئی ربّ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، پس بادشاہ نے اس شخص کو سزا دینا شروع کر دی،یہاں تک کہ اس نے اس لڑکے کے بارے میں بتلا دیا، پس اس بادشاہ نے اس کو بلا بھیجا اور کہا: اے میرے بیٹے! تیرا جادو تو اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ تو اندھوں، پھل بہریوں اور ان بیماریوں کا علاج کرنے لگ گیا ہے، اس نے کہا: میں نے کسی کو شفا نہیں دی، صرف اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے، بادشاہ نے کہا: یعنی میں، اس لڑکے نے کہا: نہیں، بادشاہ نے کہا: کیامیرے علاوہ بھی تیرا کوئی ربّ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ میرا ربّ بھی ہے اور تیرا بھی اور وہ اللہ ہے، بادشاہ نے اس کو سزا دینا شروع کر دی،یہاں تک کہ اس لڑکے نے پادری کے بارے میں بتلا دیا، پس اس پادری کو لایا گیا، بادشاہ نے اس سے کہا: اپنے دین سے پلٹ جا، لیکن اس نے انکار کیا، پس اس کے سر کی مانگ یعنی سر کے وسط میں آری رکھ کر چلائی گئی،یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے گر پڑے، پھر بادشاہ نے سابق اندھے سے کہا: تو اپنے دین سے مرتد ہو جا، لیکن اس نے بھی انکار کیا، پس اس کے سر کے وسط میں بھی آری رکھ کر چلائی گئی اور اس کے وجود کے دو ٹکڑے زمین پر گر پڑے، پھر بادشاہ نے لڑکے سے کہا: تو اپنے دین سے پلٹ جا، لیکن اس نے انکار کر دیا، پس بادشاہ نے اس کو چند افراد کے ساتھ ایک مخصوص پہاڑ کی طرف بھیجا اور حکم دیا کہ جب تم لوگ اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ تو اس سے پوچھنا، اگر یہ اپنے دین سے پلٹ آئے تو ٹھیک، وگرنہ اس کو وہاں سے لڑھکا دینا، پس وہ اس کو لے گئے اور جب پہاڑ پر چڑھنے لگے تو اس لڑکے نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو جس چیز کے ساتھ چاہے، مجھے کفایت کر، پس پہاڑ پر زلزلہ طاری ہو گیا اور وہ سارے کے سارے لڑھک پڑے (اور مرگئے)، وہ لڑکا تلاش کرتے کرتے دوبارہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، اس نے پوچھا: تیرے ساتھیوں کا کیا بنا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے کفایت کیا ہے، پھر بادشاہ نے اس کو ایک جماعت کے ساتھ ایک بڑی کشتی میں بھیجا اور کہا: جب تم سمندر میں گھس جاؤ تو اس سے پوچھنا، اگر یہ اپنے دین سے باز آجائے تو ٹھیک، وگرنہ اس کو غرق کر دینا، پس جب وہ سمندر میں گھسے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو جس چیز کے ساتھ چاہتا ہے، مجھے اس کے ساتھ ان سے کفایت کر، پس وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے اور وہ لڑکا تلاش کرتے کرتے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، اس نے پوچھا: تیرے ساتھیوںکا کیا بنا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے کفایت کیا ہے، پھر اس بچے نے بادشاہ سے کہا: تو اس وقت تک مجھے قتل نہیں کر سکتا، جب تک میرے حکم پر عمل نہیں کرے گا، اگر تو نے میرے حکم پر عمل کیا تو تب مجھے قتل کر سکے گا، وگرنہ تو مجھے قتل نہیں کر سکتا، بادشاہ نے کہا: وہ کون سا حکم ہے؟ اس نے کہا: تو لوگوں کو ایک میدان میںجمع کر، پھر مجھے ایک تنے پر سولی چڑھا، پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکال اور کہہ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ (اللہ کے نام کے ساتھ، جو اس لڑکے کا ربّ ہے) ، اگر تو یہ طریقہ اپنائے گا تو مجھے قتل کر لے گا، پس اس بادشاہ نے ایسے ہی کیا اور تیر کو کمان پر رکھا اور کہا: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، پس وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی پر لگا، اس نے اپنا ہاتھ تیر والی جگہ پر رکھا اور فوت ہو گیا، لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے ہیں، کسی نے بادشاہ سے کہا: کیا تجھے پتہ چل گیا ہے کہ جس چیز سے تو ڈرتا تھا، اللہ کی قسم! تو اسی چیز میں پھنس گیا ہے، سارے لوگ مؤمن ہو گئے ہیں، پس بادشاہ نے سزا دینے کے لیے حکم دیا کہ جہاں سے گلیاں شروع ہوتی ہیں، وہاں کھائیاں کھودی جائیں اور پھر ان میں آگ جلائی جائے، پھر اس نے کہا: جو آدمی اپنے اِس دین سے مرتد ہو جائے، اس کو چھوڑ دو، وگرنہ اُس کو اِس آگ میں دھکیل دو، پس وہ دوڑ کر آتے اور دھکم دھکا ہو کر آگ میں گھس جاتے، یہاں تک ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو لے کر آئی اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ آگ میں گھسنے سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے، لیکن اس بچے نے کہا: اے میری ماں! صبر کر، بیشک تو حق پر ہے۔

Haidth Number: 10433
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوموار کے دن پیدا ہوئے، سوموار کے دن نبوت ملی اور سوموار کو ہی وفات پائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے سوموار کو نکلے اور سوموار کو ہی مدینہ منورہ پہنچے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سوموار کے دن ہیحجرِ اسود کو اٹھایا تھا۔

Haidth Number: 10465
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کے معاملے کی ابتدا کیا تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی بشارت اور میری ماں نے ایک نور دیکھا، جس نے شام کے محلات روشن کر دیئے۔

Haidth Number: 10466
۔ سیدنا قیس بن مخرمہ بن مطلب بن عبد ِ مناف سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عام الفیل کو پیدا ہوئے، ہماری ولادت کا زمانہ ایک ہی ہے۔

Haidth Number: 10467